• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

بل ابطالیہ اور قرآن

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اسلام علیکم!
قادیانی بحوالہ کتب نحو کہتے ہیں کہ قرآن میں بل ابطالیہ نہیں آ سکتا ۔
لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ بل رفعہ اللہ الیہ میں بل ابطالیہ ہے ۔
کیا کوئی صاحب علم اس پر تفصیلی راہنمائی کر سکتا ہے کہ
1: کیا قرآن میں بل ابطالیہ آ سکتا ہے ؟
2: کیا بل رفعہ اللہ الیہ میں بل ، بل ابطالیہ ہے ؟
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
محمدیہ پاکٹ بک میں بھی اس موضوع کو چھیڑا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
"پانچویں دلیل:
قَوْلِھِمُ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(۵۴)
یہود پر لعنت پڑنے کا ایک سبب ان کا یہ قول ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ نہیں قتل کیا اس کو اور نہ صلیب پر چڑھایا اس کو۔ لیکن انہوں نے قتل کیا اور صلیب دیا اس شخص کو جو ان کے لیے مسیح کی شکل بنایا گیا۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
آیت { اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ}(۵۵) میں جس بات کا بلا توقف وعدہ تھا اس کا ایفا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔(۵۶) چونکہ بظاہر یہ کام بڑا خارق عادت معلوم ہوتا ہے اس لیے ساتھ فرما دیا کہ تعجب نہ کرو یہ زبردست حکمت والے خدا کا فعل ہے جس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں۔
نوٹ: اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زندہ رسول تھا۔ خدا نے اسی کا رفع فرمایا ہے۔ پس یہ کہنا کہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے(۵۷)۔ نظم قرآن کے صریح خلاف ہے۔
اعتراض:
آیت { بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ} میں لفظ '' بل'' ابطالیہ نہیں۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ''بل'' قرآن میں نہیں آسکتا۔ (۵۸)
الجواب:
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کردیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ '' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔'' (۵۹)"

آپ کے سوال کا مفصل جواب میں عنقریب تیار کر دیتا ہوں انتظار فرمائیں
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
سب سے پہلے ہم آپ کو " بل " ابطالیہ کے چند تفسیری معنیٰ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف مفسرین نے آیت میں مذکور لفظ بل کو کن معنوں میں لیا ہے فی الوقت میں چار تفسیر سے اپنے موقف کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہوں اگرچہ اور بھی کئی تفاسیر میں اس لفظ بل کو ابطالیہ ہی لیا گیا ہے سب سے پہلے تفسیر البحر المحیط کے مفسر أبو حيان محمد بن يوسف بن علي بن يوسف بن حيّان لکھتے ہیں کہ :

{ بل رفعه الله إليه } هذا إبطال لما ادعوه من قتله وصلبه ،تفسیر البحرالمحیط

"بل رفعہ اللہ الیہ " یہ باطل کرنے کے لیے ہے جو انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جس نے اس کو قتل گیا اور اس کو صلیب دی ۔ اس جگہ مفسر البحر واضح طور پر ارشاد فرما رہے ہیں کہ ہیں کہ اس لفظ"بل" کا معنیٰ ابطال کے لیے ہے یعنی پچھلے حکم کو باطل کرنا اور اگلے حکم کو ثابت کرنا۔

دوسری تفسیر علامہ رازی کی "مفاتيح الغيب" سے ہے جو کہ أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي الملقب بفخر الدين الرازي نے لکھی ہے آپ اس آیت کے بارے کیا ارشاد فرماتے ہیں ملاحظہ ہو:

{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } وهذا الكلام إنما يصح إذا تقدم القطع واليقين بعدم القتل .تفسیررازی

"بل رفعۃ اللہ الیہ " اور یہ کلام بالکل درست درست ہے جس میں مقدم حکم کا انقطاع ہے اور وہ یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کے عدم قتل کا حکم متیقن ہے ۔ اس جگہ بھی مفسر علیہ الرحمہ "إذا تقدم القطع" میں لفظ بل کو بل ابطالیہ کے طور پر ہی لے رہے ہیں اگر مفسر مذکور بل کو بل ابطالیہ نہ لیتے تو وہ یہ معنیٰ ہرگز نہ کرتے کہ " إذا تقدم القطع جبکہ مقدم حکم منقطع ہے " اور صاحبان علم تو جانتے ہیں ہیں کہ قطع و ابطال ایک ہی معنی کے دو الفاظ ہیں ۔

اسی طرح تفسیر بیضاوی ور فتح القدیر میں بھی بل سے مراد بل ابطالیہ ہی لیا گیا ہے جس کو آپ یہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔

{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } وإنكار لقتله وإثبات لرفعه .تفسیر بیضاوی
{ بَل رَّفَعَهُ الله إِلَيْهِ } ردّ عليهم وإثبات لما هو الصحيح ،تفسیر فتح القدیر

 
آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اسلام علیکم!
قادیانی بحوالہ کتب نحو کہتے ہیں کہ قرآن میں بل ابطالیہ نہیں آ سکتا ۔
لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ بل رفعہ اللہ الیہ میں بل ابطالیہ ہے ۔
کیا کوئی صاحب علم اس پر تفصیلی راہنمائی کر سکتا ہے کہ
1: کیا قرآن میں بل ابطالیہ آ سکتا ہے ؟
2: کیا بل رفعہ اللہ الیہ میں بل ، بل ابطالیہ ہے ؟
قادیانی پاکٹ بک کے مصنف نے کوئی ایک حوالہ بھی نہیں دیا کہ کس نحوی کتاب میں یہ قاعدہ ذکر ہے کہ قرآن میں کہیں بھی بل ابطالیہ نہیں ہے آج بھی اگر کسی قادیانی مربی کے پاس اس کا کوئی حوالہ ہے تو پیش کرے جب کہ ہم نے تو قرآن کی چند تفاسیر سے ثابت کر دیا کہ اس مقام پر بل حکم سابقہ کے ابطال کے لیے آیا ہے ۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بل ابطالیہ کے حوالے سے امام سیوطیؒ نے اپنی معروف تصنیف الاتقان میں بھی بحث کی ہے جو پیش خدمت ہے ۔
بل : حرف اضراب ہے ،مگر اس حالت میں جبکہ اس کے بعد کوئی جملہ آئے ۔ پھر کبھی اضراب سے یہ معنیٰ مراد ہوتے ہیں کہ اس کے ماقبل کا ابطال کیا جائےجس طرح قولہ تعالیٰ "و قالوا اتخذ الرحمٰن ولدا سبحانہ بل عباد مکرومون" یعنی بلکہ وہ لوگ بندے ہیں ۔ اور قولہ تعالیٰ "ام یقولون بہٖ جنتہ بل جا،ھم باالحق" میں ہے۔
اور گاہے اضراب کے معنیٰ ایک غرض سے دوسری غرض کی طرف منتقل ہونے کے آتے ہیں جیسے ولدینا کتاب ینطق باالحق و ھم لا یظلمون،بل قلوبھم فی غمرۃ من ھذا کہ یہاں پر بل کا ماقبل اپنی حالت پر ہی قائم ہے اور اسی طرح قولہ تعالیٰ قد افلح من تذکی و ذکر اسم ربہ فصلی بل توثرون الحیواۃ الدنیا میں بھی ہے۔
اور ابن مالک نے اپنی کتاب کافیہ کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ بل کا لفظ قرآن میں صرف اسی وجہ پر آتا ہے اور کسی دوسری وجہ پر نہیں آتا ۔ اور ابن ھشام نے اس بارہ میں ابن مالک کو مبتالئے وہم بتایا ہے ۔
کتاب بسیط کے مولف نے اس بات کے کہنے میں ابن مالک پر بھی سبقت کی ہے پھر ابن حاجب بھی اسی کا ہم خیال ہو گیا چناچہ وہ اپنی کتاب مفصل کی شرح میں بل کی نسبت لکھتا ہے اگر جملہ ثانی اس قسم کا ہو جوکہ غلطی سے اثبات کے باب میں آتا ہو تو اس کے لئے اعراض کا ثابت کرنا اور جملہ اول کا بطلان کر دینا ۔اس طرح کا بل قرآن میں کہیں واقع نہیں آتا ۔ اور جبکہ بل کے بعد کوئی مفرد کلمہ آئے تواس حالت میں عطف کے واسطے ہو گا اور قرآن میں اس طرح بھی واقع نہیں ہوا ہے ۔
 

aliali

رکن ختم نبوت فورم
بل کی دو اقسام ہیں ۔۔1۔ ابطالیہ۔2۔انتقالیہ۔
ابطالیہ ۔پہلے موضوع کےحکم کو باطل کر کے دوسرے موضوع کی طرف اعراض(نکل جانے)کرنے کو بل ابطالیہ کہتے ہیں۔
انتقالیہ۔پہلے موضوع کے حکم کو باطل کیے بغیر دوسرے حکم کی طرف اعراض کرنا بل انتقالیہ کہلاتا ہے۔
دونوں قسموں کا قرآن میں استعمال موجود ہے
بل عباد مکرمون(الانبیاء:26)اس آیت میں بل ابطالیہ ہے۔
بل توثرون الحیوٰۃ الدنیا(االاعلی:13۔14)اس آیت میں بل انتقالیہ ہے۔
 

aliali

رکن ختم نبوت فورم
بل کے معنی بیان کرنے میں قادیانی دجل سے کام لیتے ہیں کہ علماء نحو نے بل ابطالیہ کا استعمال قرآن میں ممنوع قرار دیا ہے۔۔۔یہ دعوی بلا دلیل ہے کیونکہ نحو کا موضوع کلمہ اور کلام ہے اور ان کا تعلق الفاظ اور ان کے اعراب سے ہےنہ کہ الفاظ کے معنی سےاور معنی کا بیان ادب کے دو شعبے بیان کرتے ہیں 1۔ائمہ لغوین 2۔ائمہ معنیین جو بلاغت کی ایک شاخ ہے۔
لہذا یہ علماء نحو کا فن ہی نہیں تو ان سے اس کا انکار نقل کرنا حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدیہ پاکٹ بک میں بھی اس موضوع کو چھیڑا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
"پانچویں دلیل:
قَوْلِھِمُ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(۵۴)
یہود پر لعنت پڑنے کا ایک سبب ان کا یہ قول ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ نہیں قتل کیا اس کو اور نہ صلیب پر چڑھایا اس کو۔ لیکن انہوں نے قتل کیا اور صلیب دیا اس شخص کو جو ان کے لیے مسیح کی شکل بنایا گیا۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
آیت { اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ}(۵۵) میں جس بات کا بلا توقف وعدہ تھا اس کا ایفا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔(۵۶) چونکہ بظاہر یہ کام بڑا خارق عادت معلوم ہوتا ہے اس لیے ساتھ فرما دیا کہ تعجب نہ کرو یہ زبردست حکمت والے خدا کا فعل ہے جس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں۔
نوٹ: اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زندہ رسول تھا۔ خدا نے اسی کا رفع فرمایا ہے۔ پس یہ کہنا کہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے(۵۷)۔ نظم قرآن کے صریح خلاف ہے۔
اعتراض:
آیت { بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ} میں لفظ '' بل'' ابطالیہ نہیں۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ''بل'' قرآن میں نہیں آسکتا۔ (۵۸)
الجواب:
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کردیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ '' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔'' (۵۹)"

آپ کے سوال کا مفصل جواب میں عنقریب تیار کر دیتا ہوں انتظار فرمائیں

آپ کی اس پوسٹ میں مختلف جگہوں پر نمبرز دیئے گئے ہیں ۔ ان نمبروں کے حساب سے حوالہ جات یہ ہیں

(۵۴) پ۶ النساء : ۱۵۷،۱۵۸
(۵۵) پ ۳ اٰل عمران : ۵۵
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ص۴۶ ، ج۵
(۵۷) براھین احمدیہ ص۴۲، ج۵ و روحانی ص۵۳، ج۲۱ و تفسیر مرزا ص۳۰۸، ج۳
(۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۳
(۵۹) ازالہ اوہام ص۵۹۹ و روحانی ص۳۲۳، ج۳ وتفسیر مرزا ص۳۲۷،ج۳
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مزید معلومات کے لیے اس ربط پر جائیں
 
Top