محمدیہ پاکٹ بک میں بھی اس موضوع کو چھیڑا گیا ہے ملاحظہ فرمائیں :
"پانچویں دلیل:
قَوْلِھِمُ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(۵۴)
یہود پر لعنت پڑنے کا ایک سبب ان کا یہ قول ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ نہیں قتل کیا اس کو اور نہ صلیب پر چڑھایا اس کو۔ لیکن انہوں نے قتل کیا اور صلیب دیا اس شخص کو جو ان کے لیے مسیح کی شکل بنایا گیا۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
آیت { اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ}(۵۵) میں جس بات کا بلا توقف وعدہ تھا اس کا ایفا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔(۵۶) چونکہ بظاہر یہ کام بڑا خارق عادت معلوم ہوتا ہے اس لیے ساتھ فرما دیا کہ تعجب نہ کرو یہ زبردست حکمت والے خدا کا فعل ہے جس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں۔
نوٹ: اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زندہ رسول تھا۔ خدا نے اسی کا رفع فرمایا ہے۔ پس یہ کہنا کہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے(۵۷)۔ نظم قرآن کے صریح خلاف ہے۔
اعتراض:
آیت { بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ} میں لفظ '' بل'' ابطالیہ نہیں۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ''بل'' قرآن میں نہیں آسکتا۔ (۵۸)
الجواب:
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کردیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ '' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔'' (۵۹)"
آپ کے سوال کا مفصل جواب میں عنقریب تیار کر دیتا ہوں انتظار فرمائیں