ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بابیوں اور بہائیوں نے نہ صرف اسلامی عقائد کو مجروح کرنے کی کوشش کی بلکہ الٰہی احکامات کو بھی منسوخ کرنے کی غیر معمولی کوشش کی ہے۔ ذیل میں ان احکامات کا ایک خاکہ پیش کیا جارہا ہے تا کہ مسلمان اس بات سے آگاہ ہوجائیں کہ واقعاً ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ ان کا تعلق رازدارانہ طور پر ابلیس لعنت اللہ علیہ سے ہے۔ اسکی ایک کھلی دلیل یہ ہے کہ شیطان عقل کو اپنے قبضے میں کر کے بار بار پشیمان کرواتا ہے۔ اور یہی کچھ بابیوں اور بہائیوں کا بھی حال ہے کہیں تو مرزا حسین علی بہاء اللہ مرزا علی محمد باب کو اپنا مبشر جانتے ہیں اور کہیں انہیں کے بیان کردہ احکام کو باطل قرار دیتے ہیں صرف بیس سال کے کم عرصے میں۔
۱- بہائیوں کے یہاں غیر بہائی سے شادی بیاہ
مرزا علی محمد باب نے اپنی کتاب بیان کے واحد ثامن (۸) باب(۱۵) لکھا ہے۔ ” لا یحل الاقلتر ان ان لم فی البیان و ان یدخل من احد یحرم علی الاخرما یملک من عندہ الاوان ترجع ذالک“ ترجمہ : اگر دونوں فریق (مرد و عورت) کتاب بیان کے ماننے والے (بابی) نہیں ہیں تو انکا میاں بیوی کے طور پر آپس میں ملنا اور نکاح کرنا ناجائز ہے۔ اور کسی اتفاق سے ایک فریق بابی ہے اور دوسرا غیر بابی تو بابی مرد و عورت کیلئے حرام ہے دوسرے فریق سے نکاح کرے ۔ یا میاں بیوی کے تعلقات پیدا کرے۔“یعنی صاف لفظوں میں غیر بابی حضرات کافر ہیں اور ان سے شادی نہیں ہو سکتی۔
بہاء اللہ نے کتاب اقدس (عربی) میں شادی بیاہ کے قوانین میں باب کا بیان کا جملہ ادا کردیا ۔ اور اس پر کوئی دوسرا حکم نافذ نہ کیا۔ لیکن آجکل جو انگریزی اقدس چھپی ہے اسمیں حکم پھر بدل گیا ہے اور اب مندرجہ ذیل حکم ہو گیا کیونکہ۔
بہاء اللہ کے فرزند جناب مرزا عباس آفندی ملقب بہ عبدالبہاء نے بہاء اللہ کے بعد یہ حکم بدل دیا۔ (گو کہ بہاء اللہ نے اقدس کے احکام کی تبدیلی کی اجازت کسی کو نہیں سونپی) ”اخذو اعطاء ازواج باہر ملتی(بدائع الاثار عبدالبہارج اصفحہ ۱۵۴) کہ ”بہائیوں کیلئے ہر مذہب و ملت کے آدمیوں کو لڑکیاں دینا اور ہر مذہب و ملت کی عورت سے نکاح کرنا جائز ہے۔“ اور آج ہندوستان اور بیرونی ممالک میں بھی بہائی حضرات اس حکم سے فائدہ اٹھارہے ہیں یعنی نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں اور لڑکوں کو محبت کے شکنجے میں پھانس لیتے ہیں اور پھر نہ صرف ان کو بلکہ ان کے ماں باپ اور عزیز و اقارب پر بھی اپنی تبلیغ شروع کرتے ہیں ۔لہٰذا علماء کرام و حافظانِ قرآن دست بستہ التماس ہے کہ وہ نکاح پرھنے سے پہلے لڑکے و لڑکی سے تحریری شکل میں اقرار نامہ لیں کہ نبی کریم کے بعد نہ کوئی نبی و رسول آیا ہے اور نہ کبھی آئے گا۔
کتاب اقدس بہاء اللہ میں سورہ نساء میں حرام عورتوں کی جو فہرست دی گئی اسکو نسخ کرتے ہوئے فرمایا۔ ” قد حرمت علیکم ازواج ابا ئکم انا مستحیی ان نذکر حکم الغلمان“ یعنی” اے اہلِ بہاء تم پر اپنے بایوں کی منکوحہ عورتیں حرام قرار دی گئیں ہیں۔ اور لڑکوں کے احکام بیان کرنے میں ہمیں شرم آتی ہے۔“ ملاحظہ فرمایا اپنے یعنی سوائے سوتیلی ماوٴں سے اور سب سے نکاح بہائی مذہب کے مردوں کیلئے جائز ہے اور اگر نہیں تو ضرور جناب بہاء اللہ بیان کر تے اس کے بعد لڑکوں کے احکام کا ذکر چھیڑ کر یہ بات ثابت کردی کہ صرف عورتوں کیلئے اتناہی حکم ہے اور لڑکوں کیلئے حکم دیتے بھی کیسے بہت اچھا ہوا کہ انکی قلم رک گئی ورنہ غیر بہائی حوالوں سے یہ بات ثابت ہی ہے کہ بہاء اللہ صاحب مفعول بننا پسند کرتے تھے ۔ بہائی حوالوں میں بھی اغلام اور لواطت جائز ہوجاتی ہے ۔ میں پوری عربی اور انگریزی اقدس پڑھ ڈالی کہ کہیں تو اغلام اور لواط کو حرام قرار دیا گیا ہوتا۔ لیکن نہ ملنے پر مجھے غیر بہائی حوالوں کی صداقت کا اعتراف ہوگیا۔
جناب باب نے ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کو ناجائز قراردیا ۔ لیکن چونکہ بہاء اللہ کی خود کی دو بیویاں تھیں لہٰذا انہوں نے کتاب اقدس میں تحریر فرمایا ”قد کتب اللہ علیکم النکاح ایاکم عن تجاوزوا عن الاثنین لا تتبعوا انفسکم انھا لامارة بالبغی والفحشاء“ یعنی” اے اہل بہاء تم پر نکاح کرنا فرض کیا گیا ہے مگر دو سے زیادہ نہ کیجیو۔ اسکی خلاف ورزی کر کے نفس کی پیروی نہ کرنا جو کہ سرکشی اور بد کاری کا حکم دیتا ہے۔“ اور انگریزی اقدس جو اب چھپی ہے اسمیں نوٹ ۸۹/صفحہ۲۰۶ پر پہلی سطر پر ملاحظہ فرمائیے اسکے علاوہ کتاب اقدس (انگریزی) کے صفحہ ۱۴۹/ پر صاف طور پر حکم ہے۔ جب کہ عربی (اصل) میں دو سے زیادہ بیویوں کیلئے حکم ہے۔ یعنی” جان لو کہ ایک سے زیادہ شادیاں اللہ نے حرام قرار دی ہیں ۔ چنانچہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیے۔ تو پھر سب سے پہلے بہاء اللہ نے فعل حرام کیا اسلئے اور کہ وہ دین بابی کے ماننے والے تھے ۔ خیر اپنے زمانے میں اس حکم میں تبدلی تو کی لیکن پھر انکے ماننے والوں نے اقدس ہی میں اسکو ناجائز قرار دیا ۔ہوسکتا ہے ایک بیوی کی اولادیں حرامی ہوں۔اب یہ فیصلہ تو عبدالبہاء کو ہی کرنا ہوگا۔ لیکن حرکات سے تو وہ خود ہی ایسے معلوم ہوتے ہیں ۔ہر چیز میں وحدانیت کا دعوا کرنے والو جب تم احکام کے بیان میں یگانگت نہ لاسکے۔ تو پھر میدان عمل میں تمہارا کیا عالم ہوگا۔
مہر کے متعلق کتاب اقدس میں بہاء اللہ صاحب رقمطراز ہیں ” قد قدر للمدن تسعةعشر مثقال من الذھب الابریزو للقری من الفضة ومن اردالزبادة حرم علیہ ان یتجاوزعن خمسة و تسعین مثقال“ یعنی ” مہرکی مقدارشہروں کیلئے ۱۹/ مثقال سونا ہے اور دیہات کیلئے ۱۹/مثقال چاندی اور اگر کوئی شخص اس سے زیادہ مہر مقرر کرناچاہے تو ۹۵/مثقال سونے تک شہر والے اور ۹۵/مثقال چاندی تک گاوٴ ں والے زیادتی کرسکتے ہیں ۔اس سے زیادہ حرام “ اگر آپ اس عبارت پر نظر کریں تو سب سے پہلے یہ مبہم بات ہے کہ دیہات اور شہر کا کون ہو ۔ بیوی یا شوہر اور پتہ نہیں انگریزی ترجمہ کرنے والے کو کہاں سے شوہر کا سراغ مل گیا۔ اورانہوں نے ترجمہ میں مرد ڈال دیا۔ اور کیا ضروری ہے کہ کسی کے پاس اتنا ہوہی۔ اگر نہ ہو تو پھر؟؟ شادی نہ کرے زنا کاری کرتا رہے کیونکہ اسکا جرمانہ پہلی دفعہ ۹/ مثقال سونا بیت العدل کو دینا ہے ( اگر پکڑا گیا تو) دوسری مرتبہ دوگنااور جس کے پاس نہ ہو تو پھر المفلس فی امان اللہ معاف ہے کرتا جا۔ اسکے علاوں حضور باب اور بہاء کی مہریں کتنی تھیں اور جب بہاء اللہ اور طاہرہ خضوینی ازبد شت چل دیے تھے اسکا جرمانا کس نے کس کو دیا ۔
۲- گانے بجانے کو جائز قرار دینا
بہاء اللہ نے کتاب اقدس میں ارشاد فرمایا ” انا حللنا لکم اصغاء الاصوات والنعمات“ یعنی”اے اہل بہاء ہم نے تمہارے او پر گانا بجانا بھی حلال کردیا یہی نہیں بلکہ عبادت گاہوں میں واجب کردیا چنانچہ عبدالبہاء مرزا عباس آفندی بدائع الاثارجلد ۱ / صفحہ ۳۵۲/ پر رقمطراز ہیں۔ ” ازلوازم مشرق الاذکاراست داخل مشرق الاذکاراز غنون وغرفات خواہدبود“ یعنی ” مشرق الاذ کار (بہائی عبادت گاہوں) کے لوازم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ان میں اونچی جگہیں بنائی جائیں جن میں گانے بجانے کا سامان انگریزی باجہ وغیرہ بھی رکھا جا سکے۔“ اور اس قسم کے احکام بدائع الاثارج۱/صفحہ ۱۹۲-۳۰۹-۳۴۳-۳۶۳-۳۸۰-۳۸۷ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ قارئین ملاحظہ فرمائیں۔ موسیقی جسے نبی کریم ﷺ کی احادیث میں شیطان کا آلہ اور نفاق کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ بہائیوں کی عبادت گاہوں میں ہونا ضروری ہے۔
۳- بہائیوں کا وضو
کتاب اقدس بہاء اللہ میں جو وضو ” اللّٰہ البھی“ پڑھنے کیلئے حکم دیا گیا ہے وہی حکم نماز کیلئے بھی دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں”یغسل فی کل یوم یدیہ ثم وجھہ ویقعد مقبلا الی اللہ و یُذکر خمساوتسعین مرة اللہ البھی۔۔۔ کذالک توضو أللصلواة“ یعنی “ ہر روز صرف ہاتھ اور منہ دھولئے جائیں اور بیٹھ جائیں اللہ کے طرف منہ کر کے اور ۹۵/ بار پڑھیں اللہ ابھی۔ اور اسی طرح وضو کریں نماز کیلئے بھی “ ملاحظہ فرمایا آپ نے دن میں صرف ایک بار وضو کرنا کافی ہے ۔ وضو میں مسح کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ اور اب دیکھئے پیر کے د ھونے کے بارے میں کیا حکم ہے۔ ” اغسلواارجلکم کل یوم فی الصیف وفی الشناء کل ثلاثة ایام مرة واحدة“کہ اے اہل بہاء موسم گرما میں ایک مرتبہ دن میں اور موسم سرما میں تیسرے دن پیر دھولیا کرو“ کیا کوئی نبی کریمﷺ کے لائے ہوئے دین کی برابری کرے گا ۔ مذہب اور سائنس کی ہم آہنگی کا گیت گانے والو آوٴہم بتائیں یا کسی غیر جانبدارسائنسداں سے اسلامی وضو کے فوائد پوچھ کے دیکھو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سائنس نام ہے اسلامی قوانین سے فائدوں کے انکشاف کا یعنی سائنس کو پیروی کرنا ہے اسلامی قوانین کی نہ کہ اسلام کو پیروی کرنا ہے سائنس کے قوانین کی اور چونکہ آپ کو مخالفت کرنی تھی اسلامی قوانین کی لہٰذا دشمنی میں اپنے اچھے قوانین کو ہٹا کر خراب قوانین نافذ کردئیے۔ اور اپنے ہی قول کے مترادف ہوگئے۔
اس کے علاوہ نواقص وضو کچھ بھی نہیں ظاہر ہے ورنہ ایک دن میں ایک ہی وضو کیسے چلتا۔
جنب ہوجانے پر یا احتلام ہوجانے پر غسل واجب نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تذکرہ کتاب اقدس میں کہیں ملتا ہی نہیں۔ اور ضرورت بھی کیا کیونکہ منی تو بہائی احکام میں پاک قرار دی گئی ہے۔
اور جس کو وضو کے لئے پانی نہ مل پائے وہ کیا کرے ملاحظہ فرمائیے طریقہ تیمم بہائیت کی کتاب اقدس میں جس کے بارے میں الٰہی احکام ہونے کا دعویٰ ہے ”من لم یجد الماء یذکر خمس مرہ بسم اللّٰہ الا طھر“ یعنی جس کو وضو کے لئے پانی نہ ملے وہ پانچ مرتبہ بسم اللّٰہ الا طھر کہہ لے۔
۴- بہائیوں کا قبلہ
بہاء اللہ کی زندگی تک کے لئے کتاب اقدس میں قبلہ کا حکم اس طرح تھا اذااردتم الصلواة ولوو جو ھکم الی شطری الاقدس المقام المقدس: یعنی جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں کو میری طرف اس مقام مقدس کی طرف پھیر لو“ وہ مقام مقدس عکا اسرائیل میں تھا کیونکہ وہاں مفید تھے ۔ اور زندگی کے بعد کیلئے فرماتے ہیں ۔
عند غروب الشمس الحقیقہ والتبسیان المقر الذی قدرناہ لکم“ یعنی ” جب حقیقت کا سورج (بہاء اللہ) ڈوب جائے تو تمہارے لئے ہم نے قبلہ اس جگہ کو مقرر کیا (یعنی قبر کی جگہ(
۵- بہائیوں کی نماز
کتاب اقدس میں نماز کی رکعتوں اور اوقات کے بارے میں فرماتے ہیں ” قدکتب علیکم الصلوةٰتسع رکعات۔۔۔حین الزوال وفی البکوروالآمال وعفو نامن عدة اخری“ یعنی”بیشک کتاب (خدا) میں نمازوں کی تعداد نو بتائی گئی ہے۔۔۔ (تین رکعت) سورج ڈھلنے کے وقت (تین رکعت) سورج نکلنے کے وقت اور (تین رکعت) شام کے وقت باقی تمام نمازیں ہم نے معاف کردیں“ یہی نہیں ان نمازوں کی دو قسمیں ہیں ایک چھوٹی قسم اور ایک تفصیلی قسم۔
چھوٹی قسم کی نماز
اسمیں صرف اتنا ہوتا ہے کہ بہاء اللہ کی قبر کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جاوٴ پھر رکوع کرو۔ اور رکوع سے سر اٹھا کر قعد میں بیٹھ جاوٴ اور ان الفاظ کو پڑھو جو بہاء اللہ نے مقرر کیے جن کا ذکر بہاء اللہ نے اپنی کتاب ادعیہ محبوبہ کے ۸۱ /سے ۸۴/تک میں کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایاآپ نے نہ تکبیرة الحرام نہ قیام۔ نہ سجدہ اور نہ ہی قرآنی سو صورتوں کا تذکرہ۔
بڑی نماز کا طریقہ
پہلی رکعت عکا کی طرف منہ کرکے نمازی کھڑا ہو۔ دائیں بائیں دیکھنے کے بعد بہا اللہ کے مقرر کردہ الفاظ کہے۔ پھر ہاتھ اٹھا کر ان الفاظ میں جو بہاء اللہ نے مقرر کیے ہیں دعا کرے پھر سجدہ میں چلا جائے۔اور بہاء اللہ کی تلقین کردہ الفاظ کہے اور پھر کھڑا ہوجائے۔
دوسری رکعت کھڑے ہوکر پہلے وہ الفاظ کہے جو بہاء اللہ نے مقرر کیے ہیں ۔ پھر ہاتھ اٹھا کر کچھ اور الفاظ کہے۔ جنکی بہاء اللہ نے ہدایت کی ہے ۔ پھر ہاتھ اٹھا کر تین تکبیریں باالفاظ اللہ البھی کہے۔ اور رکوع کے لئے جھکے ۔ اور بہاء اللہ کے مقرر کردہ الفاظ پڑھے۔ پھر کھڑا ہوجا ئے اور پھر ان الفاط میں دعا کرے جو بہائی شریعت نے مقرر کیے ہیں ۔ پھر سجدہ کرے اور وہ کلمات کہے جو سجدے کے لئے مقرر کیے گئے ہیں۔پھر قعد میں بیٹھ کر وہ الفاظ کہے جس کا حکم ہے۔ پھر سیدھا کھڑا ہوجائے۔
تیسری رکعت: کھڑا ہو کر شریعت بہاء کے مقرر کردہ الفاظ کہے۔ پھر تین تکبیریں جس طرح بہاء اللہ نے مقرر کی ہیں ۔ کہہ کر رکوع کرے۔ اور بہاء اللہ کے تجویز کردہ الفاظ کہتا ہوا کھڑا ہوجائے اور وہ کلمات کہے جو اپنی شریعت میں بہاء اللہ نے مقرر کیے ہیں ۔ پھر تین تکبیریں اللہ البھی کی کہکر سجدے میں چلا جائے اور سجدہ کے مقرر کردہ کلمات کہے پھر قعد میں بیٹھ جائے اور ان کلمات کے ساتھ جو بہاء اللہ نے تعلیم دےئے نمازکو تمام کرے۔ (ادعیہ محبوب بہاء اللہ صفحہ ۶۹/سے ۸۱/ تک قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس طریقہ نماز سے ظاہر ہے کہ پہلی رکعت میں رکوع اور دوسرا سجدہ نہیں ہے اور دوسری و تیسری رکعت میں بھی دوسرا سجدہ نہیں ۔ اسکے علاوہ اسلامی نماز کا کوئی کلمہ بھی نہیں ۔ آخر یہ سب چیزیں اسلام دشمنی ظاہر نہیں کرتیں تو پھر کیا کرتی ہیں ۔ ان سب کے باوجود ”ہم تو مذہب و ملت میں اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں ۔“ کے کلمات دھوکا دہی پر مبنی نظر آتے ہیں۔
نماز جماعت حرام ہے:
کتاب اقدس میں رقمطراز ہیں” قد کتب علیکم الصلوة فرادی قدر فع حکم الجماعة“ یعنی ” بیشک کتاب (خدا) میں تمہارے لئے فرادی نماز کا حکم ہے اور نماز جماعت کا حکم تم پر سے اٹھا لیا گیا ہے۔
مریض اور بوڑھوں پر سے نماز ساقط ہے: کتاب اقدس میں ہے”من کان فی نفسہ ضعف من المرض اوالھرم عفااللہ عنہ“ یعنی” جو شخص بیماری یا بوڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو اس کے لئے نماز معاف ہے ۔“
مسافر کی نماز : سفر میں نماز قصر نہیں بلکہ ہے ہی نہیں صرف منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد ہر ایک نماز کے لئے بس ایک سجدہ کرلے۔ چنانچہ کتاب اقدس میں بیان کرتے ہیں۔”ولکم ولھن فی الاسفار اذاانزلتم واستر حتم المکان الامن کل صلوة سجدة واحدة“ یعنی ” اے بہائی فرقے کے مرد وعورتوں سفروں میں تمہارے لئے کوئی نماز نہیں صرف یہی حکم ہے کہ جب تم امن کی جگہ پہنچ جاوٴ اور آرام کر لو تو ہر نماز کے بدلے ایک سجدہ کر لیا کرو۔
نمازی آیات اور دیگر تمام نمازیں ختم کردی گئیں، چنانچہ نماز آیات کیلئے صاف کتاب اقدس میں حکم ہے ۔ ” قدعفونا عنکم صلوة الایات“ یعنی” بیشک ہم نے تم پر نمازآیات معاف کردی۔
بہائیوں کا روزہ
روزہ اسلامی قوانین کی طرح ۲۰ /یا۳۰/دنہیں رکھنا ہے بلکہ صرف ۱۹/ دن کیونکہ بہائیوں کے مہینے ہی۱۹/دن کے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ کتاب مبین بہاء اللہ کے صفحہ ۷۴/ پر ارشاد فرماتے ہیں”قد کبتنا الصوم تسقہ عشر یومافی اعدال الفصول“ یعنی” ہم نے موسم بہار کے صرف ۱۹/ روزے تم پر فرض کیے ہیں۔
اس کے علاوہ روزوں میں سوائے کھانے پینے کی ممانعت کے اور تمام چیزیں جائز ہیں یعنی جماع وغیرہ چنانچہ کتاب اقدس میں حکم ہے ”کفو انفسکم عن الاکل والشرب من الطلوع الی الاقول“ یعنی اپنے آپکو طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے باز رکھو۔
اس کے علاوہ مسافر ، مریض اور حائض عورتوں کو بعد میں بھی روزہ رکھنا ضروری نہیں چنانچہ کتاب اقدس میں لکھتے ہیں ۔”لیس علی المسافر و المریض۔۔۔۔ عفا اللہ عن النساء حین مایجدن الدم الصوم“ یعنی” نہیں ہے (روزہ) مسافروں اور مریضوں پر ۔ اور اللہ نے معاف کیا ایام حیض کے روزے عورتوں کیلئے۔“
بہائیوں کی عیدیں
بہائیوں کی پانچ عیدیں ہوتی ہیں سال میں۔
عید رضوان جب بہاء اللہ اپنے گھر سے نکل کر باغ رضوان میں آئے تھے۔
اس علی محمد باب کے مبعوث ہونے اور عبدالبہاء کی پیدائش کے دن جسے عید مبعث و عید مولود بھی کہتے ہیں۔ جو ہر سال ۲۳/ مئی کو آتی ہے۔
بہاء اللہ کی پیدائش کی عید دوسری محرم کو۔
چوتھی عید علی محمد باب کی پیدائش کی یکم محرم۔
عید نو روز بہائی سال کے پہلے مہینے کی عید
دروس الدیا نتہ درس ۵۴/ اور بدائع الاثارج ۲/ صفحہ ۳۱۴/۔۔۳۱۵
بہائیوں کا حج
عورتوں سے حج ساقط ہے: چنانچہ کتاب اقدس میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”قد حکم اللہ لم استطاع منکم حج البیت دون انساء عفا اللہ عنھن“ یعنی” اللہ نے تم میں صاحب استطاعت لوگوں پر حج واجب قرار دیا ہے اور عورتوں پر سے یہ حکم ہٹا لیا ہے۔“ یہ ہے عورت اور مرد وں میں یگانگی کی عمدہ مثال۔
بہایوں کو تین جگہوں پر حج کرنے کا حکم ہے: (۱) کتاب بہجتہ الصدور مطبوعہ بمبی صفحہ۲۵۸/ پر مرزا حیدر علی صاحب اصفہانی بہائی رقمطراز ہیں کہ زیارت کرنے والے لوگ بہاء اللہ کے آستانہ (واقع عکا) کا طواف کرتے اور بوسہ دیتے ہیں۔ اور یہ بھی بہائیوں کا ایک قسم کا حج ہے ۔(۳)(۲) الکواکب الدریہ فی ماثر البہائیہ کے صفحہ ۳۵۸/ پر ہے ۔ محل و طواف و حج اہل بہاء یکے بیت نقطہ اولیٰ در شیراز است و ثانی این بیت جمال البہی کے در بغداد است“ یعنی” بہاء اللہ نے جن گھروں کے طواف کا حکم دیا ہے انمیں ایک تو جناب نقط اولیٰ(علی محمد باب)کا گھرشیراز میں ہے اور دوسرا یہ گھر بہاء اللہ کا بغداد میں ہے۔“
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ بہائیوں کا حج خانہ کعبہ کو چھوڑ کر عکا، شیرازاور بغداد کے بہاء اللہ کا گھر ہے۔ یہی نہیں بلکہ عبدالبہاء نے مکاتیب جلد ۳/ صفحہ ۳۲۷/ پر ۱۹۱۸ء بغداد کے مجاوروں کے نام ایک خط لکھا جسکے الفاظ یہ ہیں ۔”الہی الہی ھولاء عباد فی مدینتک المبار کلہ مجاورون لبیتک الحرام“ یعنی ” اے میرے خدا یہ تیرے بندے ہیں جو تیرے مبارک شہر بغداد میں تیرے بیت الحرام کے مجاور ہیں۔اس جملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہائیوں کا خدا اس گھر کا مالک بہاء اللہ ہی ہے۔
اس کے علاوہ سر زمین عکا کی فضیلت میں بہائیوں کی کتاب کے اردو ترجمے کے صفحہ ۱۲۱/سے لے کر ۱۲۳/ پر نہ جانے کہاں سے یہ حدیثیں نبی کریم ﷺ سے منسوب کردی ہیں ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام ساحلوں عسقلان سے افضل ساحل عسقلان ہے۔ اور عکا عسقلان سے بھی افضل ہے اور عسقلان اور تمام ساحلوں پر عکا کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسے نبی کریم ﷺ کی فضیلت تمام نبیوں پر ۔۔۔۔۔ یاد رکھو جو اسکی زیارت سے رغبت رکھتا ہو اور داخل ہو ۔۔۔۔خدا اسکے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیتا ہے ۔۔۔۔ اُس میں ایک چشمہ ہے جسے عین البقر کہتے ہیں جو اُس میں سے ایک گھونٹ پیتا ہے،خدااسکے دل کو نور سے بھر دیتا ہے اور قیامت میں بڑے عذاب سے امن میں رکھے گا۔۔۔۔ جو شخص وہاں ایک رات گذارے حق تعالیٰ اسکے لئے قیامت تک صابرین ۔ قائمین ،راکعین اور ساجدین کا ثواب لکھ دیتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔اُسے عکاء کہا جا تا ہے اُس کے مچھروں میں سے جس شخص کو ایک مچھر کاٹ لے تو یہ خدا کے نزدیک زخم کاری سے بھی افضل ہے ۔خبردار جو اس میں اذان دے تو جتنی دور تک اُسکی اذان کی آواز پہنچے اتنی ہی جگہ اسے جنت میں ملے گی۔اور جو شحص سات دن تک اس میں بیٹھا رہے دشمن کے مقابل تو اللہ تعالیٰ اسکا حشر خضر علیہ السلام کے ساتھ کرے گا۔ اور فزع اکبر سے محفوظ رکھے گا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا جن میں بہت سے بادشاہ اور سردار ہونگے اور عکا کے فقراء جنت کے بادشاہ اور سردار ہیں ۔ اور یقیناً عکا میں ایک مہینہ دوسرے مقاموں پر ایک ہزار سال رہنے کے برابر ہے۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں یہ حدیثیں کیا معلوم کہاں سے انھوں نے اخذ کیں۔ کیونکہ اس کا حوالہ بھی نہیں دیا اور کتنی بڑی جسارت کی اسکا اندازہ دنیا میں تو نہیں لگ سکتا ہاں مگر آخرت میں ضرور لگے گا۔
بہائیوں کی زکوٰة
مرزا علی محمد باب نے اپنی کتاب بیان میں جو حکم زکوٰة دیا ہے اسکو بہاء اللہ نے اقدس میں نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے”والذی نملک مائہ مثقال من الذھب فتسعة عشر مثقال للہ فاطر الارض والسماء“ یعنی” جس شخص کو سو مثقال سونا کی ملکیت حاصل ہو اس میں سے انیس مثقال سونا زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا (بہاء اللہ) کو دے۔“ لیکن اس کے بعد بہاء اللہ نے ہی کتاب اقدس میں لکھا ہے۔
کتب علیکم تذکیة الاقوات وما دونھا بالزکوة ھذا ما حکم بہ منزل الایات فی ھذا الرق المنیع سوف نفصل لکم نصا بھا“کہ اہل بہاء کتاب اقدس کے اتارنے والے نے اس معزز صحیفہ میں فرض کیا ہے کہ تم اپنے کھانے کی چیزوں اوردوسری چیزوں کو زکوٰة دے کر پاک کرو اور جس نصاب سے زکوٰت دینی چاہئے اسکا ذکر ہم پھر بعد میں کریں گے اور پھر کوئی حکم ہی نہیں ۔تو یہ تو نہ مکمل شریعت ہوگئی ۔ ارے مکمل شریعت کو منسوخ کرنے والے کم ازکم مکمل شریعت تو لے کر آیا ہوتا۔
بہائیوں میں خطبہ اور وعظ منبر پر منع ہے۔
بہاء اللہ نے کتاب اقدس میں ارشاد فرمایا ” قد منعتم عن الار تقاء الی المنا بر من ارادان یتلو اعلیکم ایات اللہ فلیقعد علی السریر“ یعنی”اے اہل بہاء منبروں پر چڑھ کر خطبہ اور وعظ کہنا تمہارے لئے منا ہے ۔جو شخص تمہارے آگے اللہ کی آیات پڑ ھنا چاہتا ہے وہ چوکی یا تخت پر بیٹھ کر تمہیں وعظ یا لیکچر دے۔ ملاحظہ فرمایا آپ نے صرف اور صرف اسلامی احکام کی ضد میں منبر پر بیٹھنے کی مذمت کی گئی ہے اور چوکی پر بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
بہائیوں میں ہاتھ چومنا حرام ہے۔
کتاب اقدس میں ایک طرف یہ حکم ہے کہ ” قد حرم علیکم تقبیل الایادی“ یعنی” بیشک تم پر ہاتھوں کا چومنا حرام قرار دیا ایا ہے۔“ تو دوسری طرف عبدالبہاء صاحب مکاتیب کی جلد ۳/ صفحہ ۴۰۸ /پر لکھتے ہیں ۔۔” ان جوان نورانی (عبدالوہاب بابی) برخواست در قصی درنہایت مرودرد پیش گاہ حضور نمود بعد دست مبارک پر بوسید ورسم وداغ مجری داشت“ یعنی” وہ جوان نورانی مرد عبدالوہاب بابی اٹھا اور نہایت مرود کی حالت میں بہاء اللہ کے سامنے رقص کیا اور بہاء اللہ کے ہاتھوں کو چوما اور رخصت ہوا۔ یہی نہیں بلکہ بدائع الاثار سفر نامہ عبدالبہاء جلد ۲/ صفحہ۳۱،۲۱۱،۳۴۰/پر باقائدہ عبدالبہاء کے ہاتھ چومنے کا ذکر ہے ۔ اگر یہ ہاتھ چومنے کا حکم بہاء اللہ اور عبدالبہاء کے لئے نہیں تھا تو کتاب اقدس میں یہ بات واضح کرنا چاہئے تھا ۔ ورنہ یہ تو منافقت کی دلیل ہے کہ قول کچھ اور فعل کچھ بات یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ عبدالبہاء نے تو قدم بھی چموائے ہیں دیکھئے بدائع الاثارج ۱/ صفحہ ۳۶۷/ پر فلادلفیا کے بہائیوں کیلئے بیان ہوا ہے ”فوراً ہجوم آوردہ روئے قدم مبارک افتادند“یعنی کہ ”وہ لوگ عبدالبہاء کو دیکھ کر فوراً ان کے قدموں پر گر پڑے۔“ منکسر مزاج لوگ یہ سب ہاتھی کے دانت دیکھانے کے اور کھانے کے اور بہترین تفسیر کررہے ہو سچ ہے کہاں تو ہاتھ چومنا حرام قرار دیتے ہو اور کہاں عبدالبہا صاحب صفحہ ۴۰۱/کے بدائع الاثار جلد ۱/ میں لکھتے ہیں ۔” چوں دستہ دستہ احباب قدم و جدید بزیارت جمال انور مشرف می شدند با حال این و آہ ناغررو ئے جون ماہ بودند و مساجد و طائف طلعت عبداللہ اکثر گریان ونالان بودند “ یعنی”جب عبدالبہاء ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف رخصت ہونے کو تھے تو پرانے اور نئے بہائی انکی زیارت کے لئے آنا شروع ہوئے اور انکے چہرے کو دیکھ کر روتے ہوئے انکا طواف اور سجدہ کرتے تھے۔“حقیقت یہ ہے کہ باپ بھی خدا بیٹا بھی خدا اور ان سب کے باوجود چھوٹی سی چیونٹی بھی
بہائیوں کے یہاں انیس برس بعدگھر کا تمام سامان بدلنا واجب ہے
کتاب اقدس میں حکم ہے۔ ”کتب علیکم تجدید اسباب البیت بعد النقضاء تسعہ عشر ستہ“اے اہل بہاء تم پر واجب ہے کہ انیس سال بعد گھر کا سارا سامان بدل دو۔ پتہ نہیں کیوں بیت العدل کو حبا کرنے کو کیوں نہیں کہا۔ کیونکہ بہائیوں کے یہاں یہ چیز بہت عام ہے کہ اگر کوئی مرجائے تو اسکی گھڑی سے لیکر بستر و تکیہ تک نیلام کردی جاتی ہے اور وہ پیسہ ادارے کو دیدیا جاتا ہے۔
گوشت کھانے کے بارے میں باپ بیٹے میں اختلاف
بہاء اللہ نے کتاب مبین میں تاکیدکی ” ولاتجتنبوا اللحوم“کہ گوشت کھانے سے پرہیز نہ کرو۔ لیکن عبدالبہاء صاحب نے اس حکم بہاء اللّٰہی کو ان الفاظ میں منسوخ کردیا۔”خوراک انسان گوشت نیست چہ کے درایجاد آلات گوشت خوری دادہ نشدہ“ (بدائع الاثارج ۱/صفحہ ۲۷۳/) یعنی انسان کی خوراک گوشت نہیں ہے کیونکہ انسان کو گوشت کھانے والے آلات نہیں دےئے گئے ہیں ۔ یہ باپ بیٹوں میں تضاد ، بھائی بھائی میں تضاد، بیویاں رکھنے میں تضاد ہاتھ کو بوسہ دینے کے حکم میں تضاد پھر بھی بے حیائی کی طرح نہیں صاحب ہم تو اتحاد کے شیدا ہیں۔اتحاد ہمارا نصب العین ہے ۔ اے کاش کے کوئی بہائی ان تفرقوں کو غیر متعصبانہ نظر سے دیکھتا اور اپنے اس نغمہ بے حیائی و نفاق کو بدل دیتا ۔ لیکن نہ جانے کیا تمام بہائیوں کو کھلا پلا دیا گیا ہے کہ سب کی عقل عکا کی طرف لگی ہوئی ہے۔
چور کی سزا
ملاحظہ فرمائیے چور کیلئے بہاء اللہ نے اقدس میں جو حکم نافذ کیا ہے اس میں بھی کیسی امنیت جھلکتی ہے۔ ”قد کتب علی السارق النفی والحبس وفی الثالث فا جعلو افی جبینہ علامة یعرف بھا۔ ترجمہ۔ بے شک چور کیلئے یہ حکم لکھ دیا گیا ہے کہ (پہلی بار چوری کرنے پر ) جلا وطن کیا جائے (دوسری بار چوری کرنے پر ) قید کی سزا دی جائے اور اگر تیسری دفعہ پھر چوری کرتا ہوا ملے تو اسکی پیشانی پر کوئی ایسا داغ دیا جائے جس سے پہچانا جائے کہ یہ چور ہے ۔“
ملاحظہ فرمائیے اس حکم میں کتنی کمیاں ہیں ۔
پہلی بار اگر چور پکڑا جائے تو جلاوطن کردیاجائے پھر وہاں چوری کرے گا پھر وہ پہلی بار ہوگا وہاں سے بھی جلاوطن کر دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ کبھی اسکا دوسری بار ہوگا ہی نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کسی نے حق سے منہ موڑا وہ پھر گمراہ و ذلیل ہوا۔ کہاں یہ دشواری کہ چور کے پہلی دفعہ کا حساب ہی رکھنا دشوار اور کہاں اسلامی تعلیمات میں ایک جگہ حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کے زمانے کا وہ واقعہ ملتا ہے کہ جب ایک چور پکڑ کر آپ کے سامنے لایا گیا تو چور نے گڑ گڑانا شروع کیا اور عاجزی ظاہر کی یہ کہہ کر کہ بڑا مجبور تھا اور پہلی بار چوری کی ہے آپ نے بڑے اعتماد سے فرمایا تو جھوٹا ہے میرا اور تیرا خدا ستارا العیوب یعنی عیبوں کو چھپانے والا ہے وہ پہلی بار گناہ کے بجا لانے پر کسی کو پکڑواتا نہیں ہے لیکن جب آدمی اس برے کام کا عادی ہو جاتا ہے تب اللہ سبحان و تعالیٰ اس کے عیب کو آشکار کردیتا ہے ارے میرا خدا تو کسی پرندے کو بھی شکاری کا شکار نہیں بننے دیتا جب تک وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں کمی نہیں کردیتا اے کاش کہ بہاء اللہ ان اسلامی روایات سے آگاہ ہوتے تو ایسے لغو احکام صادر نہ کرتے۔
اور پھر تیسری بار اسکے ماتھے پر نشان لگا کر اسے لائسنس چور نبا دیا جائے تاکہ لوگ اب ڈر کر خود ہی اپنا مال اسے دے دیں۔
اور اگر تیسری بار کے بعد بھی چور کرے تو ممکن ہے بہاء اللہ کے ماننے والے بھی وہی جواب دیں جو میں نے عرض کیا کہ اسے ضرورت ہی نہیں پڑے گی لوگ خود اسے اپنا مال دیدیں گے اور اب کریں بھی تو کیا اسکے پاس تو لائسنس ہے نہ ۔ جو خود ساختہ خدا ایک معمولی چور کی سزا نہ معین کرپائے اسکے مذہب اور نمائندوں کے بارے میں جو کچھ کہا جائے کم ہے۔
قتل، قتل خطاء اور گھر جلانے کی سزا
قتل اور گھر جلا نے کے با ر ے میں کتا ب اقدس میں یو ں رقمطر ازہیں من احر ق یستامتعمداً فاحرقوہ من قتل نفساعامدافاقتلوہ…………وان تحکموالھماحبساابدیالاباس علیکم ترجمہ۔ جو شخص کسی کے گھر کو جا ن بوجھ کر جلات ہے اس کو جلادیاجاے اورجوکسی کوجان بوجھ کرقتل کرے اس اسے قتل کرڈالواوراگران دونوں کیلئے عمرقیدلگادی جائے توبھی کوئی بات نہیں ․
قتل خطاء یعنی قتل کے ارادے سے نہ مارا ہولیکن شخص مرگیا ہو اسکے لئے کتاب اقدس میں یوں حکم جاری ہو ا من قتل نفسا خطا فلہ د یة مسلة الی اھلہا وھی ماتہ مشقال من الذب ترجمہ۔ اگرکسی نے کسی کوخطاء کی بناء پرقتل کردیا واسے اسکے وارثوں کوسومشقال سونادیت کے طورپردیناہوگا ․
ملاحظ فرمایاآپ نے کون قاتل کہے گا میں نے جان بو جھ کر قتل کیا سب یہی کہیں گے کہ میں مارنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس لئے پہلے احکام کا کوئی مطلب نہیں ہو تا اسکے علاوہ آج کے دور میں سو مشقال سونا دینا کسں کے لئے ممکن ہے جب کہ ایک مشقال سونا ساڈھے چار ماشہ کا ہوتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کہ یہ مذہب جدید ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے قوانین بیان کرتا ہے میں نے ایک بہائی سے سوال کیا کہ اگر کسی کے پاس نہ ہو اور اسنے قتل جان بوجھ کر نہ کیا ہو تو ، مسکرا کر جواب دیا بہاء اللہ کا ایک عام سا جواب یہ ہے کہ المفلس فی امان اللہ مفلس(جس کے پاس نہیں ہے) اسکو معاف کردیا جائے گا۔ پھر کیا حل خود بخود نکل آیا ۔ قتل کرو ۔کہو جان بوجھ کر نہیں قتل کیا اور سو مثقال دینے کو بھی نہیں ہیں ۔ اب بہائیت کی تاریک قتل و غارت گیر تاریخ قطعی شرعی سمجھ میں آنے لگی۔اس لئے تو بہاء اللہ عبا س آفندی اور شوغی آفندی نے قتل و غارت گیری کا بازار گرم رکھا۔
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد کے احکام بھی قارئین کے سامنے رکھدوں تا کہ قارئین تشنہ نہ رہ جائیں حالانکہ بہائی حضرات قیامت اسی دنیا کو کہتے ہیں اور مرنے کے بعد کے حساب و کتاب جزا اور سزا وغیرہ کے قائل ہی نہیں تو سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ پھر مرنے کے بعد کے احکام کی ضرورت ہی کیا ہے اور سچ پوچھے تو کسی بھی قانون کی ضرورت نہیں ۔ یہی نہیں یہاں پہنچ کر سمجھ میں آرہا ہے کہ بہاء اللہ نے الوہیت کا دعویٰ کیوں کیا کیونکہ بقول انکے یہ ایام قیامت ہیں اور روز قیامت تو صرف اللہ کی حکومت ہوگی۔ نبی اور رسول اپنی نبوت اور رسالت کے فرائض سے سبکدوش ہوچکے ہونگے ۔ بہاء اللہ نے پہلے نبوت کا اعلان کیا تاکہ روز قیامت کا اعلان کردیں اور جب لوگ ایمان لے آئے تو الوہیت کا اعلان کردیا۔
بہائیوں کا کفن
کتاب اقدس بہاء اللہ میں ہے کہ ”ان تکفنوہ فی خمسة اثواب من الحریراولقطن“ترجمہ ۔۔ مردوں کو پانچ کپڑوں کا کفن پہناوٴ جو ریشمی یا سوت کے ہوں۔“ لیجئے صاحب کفن بھی پانچ کپڑوں میں ہو۔ اور کیسا ہو وہ پانچ کپڑے مثلاً کرتا، لنگ اور چادر وغیرہ کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔
میت کو ایک گھنٹے سے زائد فاصلے پر لے جانا حرام ہے۔
بہاء اللہ نے کتاب اقدس میں تحریر فرمایا ہے کہ”حرم علیکم نقل المیت ازیدمن متنافة ساعة لمن المدینة ادفنوہ بالروح والریحان فی مکان قریب۔“یعنی”میت کو ایک گھنٹہ سے زیادہ کی مسافت طے کر کے لیجا کر دفن کرنا حرام ہے۔ کاش کسی بہائی نے آج تک اس حکم کے زیرنظر یہ تو سوچ لیا ہوتا کہ پھر علی محمد (ملقب یہ باب) کو تبریز سے فلسطین کے علاقے حیفا میں لاکر کیوں دفن کیا گیا تبریز (جو ایران میں واقع ہے) سے حیفا(جو فلسطین میں واقع ہے) کی مسافت ایک گھنٹہ سے کم ہے۔ اور پھر یہ واقعہ بھی کب رونما ہوا مرزا علی محمد باب ۱۲۶۶ھ میں تبریز میں دفن ہوئے اوووع۱۳۱۳ھ میں انکو قبر کھود کر حیفا لے جایا گیا۔(دیکھئے بہائیوں کا رسالہ تسع عشریہ نطق۱۷۔۱۶ اور مکاتب ج ۱/صفحہ ۲۹۲) یعنی ۴۷ سال بعد پتہ نہیں کیا لے گئے ۔ اور کیوں لے گئے ۔ لے بھی گئے یا نہیں یا صرف بازار گرم کرنے کے لئے قبر بنا دیا تاکہ لوگ آکر اپنے اپنے عطیات دالتے جائیں ایران کے شہر تبریز میں تو کوئی عطیات ڈالتا نہیں اورڈالتا بھی تو انکو نہ ملتا۔ ورنہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے دنیا کا کوئی بہائی مجھے اس کی معتبر وجہ بتادے۔ مذہب اورسائنس میں ہم آہنگی کا نغمہ گانے والو ذرا سائنس کی طرف رخ کرکے تو پوچھو کہ ۴۷/سال بعدمردے کا کون سا عضو آپکو صحیح و سالم ملے گا۔
نماز جنازہ میں کیا پڑھا جائے
ادعیہ محبو بہ بہاء اللہ صفحہ ۲۱۵۔۲۱۴ /پر نمازجنازہ کیلئے یوں رقمطراز ہے ہیں۔”قد نزلت فی صلوة المیت سنة تکبیرات۔۔والذی عندہ علم القراة لہ ان یقرء مانزل قبلھا والاعفا اللہ عنہ۔“ ترجمہ: نمازجنازہ کی چھ تکبیریں ہونگی جو شخص پڑھنا چاہے اسے چاہئے کہ جو کچھ اس سے پہلے (ادعیہ محبوبہ صفحہ ۲۱۵/۔۲۱۴/پر) اتارا گیاوہ پڑھے اور جسے نہ آتا ہو اسے معاف ہے۔
باب صاحب فرماتے ہیں ۔”ولے کسے مقدم نہ ایستد کل در صفوف خودقائمانماز گذار ندبراو بقصد فرادی ولے در صورت جماعت۔“(بیان فارسی) ترجمہ”نماز جنازہ میں کوئی شخص بطور امام کے آگے کھڑا نہ ہو جماعت جمع ہو مگر ہر شخص اپنی الگ نماز جنازہ پڑھے۔“
بہائی مردوں کو کس رخ دفن کیا جائے
ایک عشق آباد کے بہائی نے عباس آفندی سے سوال کیا کہ بہائی فرقہ کے مردوں کو قبر میں کس رخ دفن کرنا چاہئے۔ انہوں نے جو جواب دیا وہ آج بھی مکاتب ج ۳/ صفحہ ۲۸۷/ پر باین الفاظ میں موجود ہیں۔” اما قضیہ دفن اموات ہنوز اگر بقرار سابق باشد بہتر ابست زیر ابنائد نوعے نمود کہ میان آشناو بیگانہ بکلی فسبح وجدائیافنند زیرا جدائی مانع از تبلیغ است وچون زمانے آید کہ اجرائیاحکام بحیج وجہ وسب وحشت قلوب نگر دوامراللہ اعلان شود آن وقت در ترکستان بایداز شرق توجہ بغرب مائل بشمال کنند واموات راسر بقبلہ و پابشمال دفن نمائند۔“ترجمہ۔۔” تم نے جو سوال مردوں کے دفن کرنے کے متعلق کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ابھی مردے اس طرح دفن کئے جائیں کہ جس طرح پہلے دفن ہوتے تھے تو یہ بہتر ہے کیونکہ مردوں کے دفن کرنے میں ابھی سے ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جس اپنوں (بہائیوں) اور بیگانوں (غیر بہائیوں ) میں بالکل جدائی واقع ہوجائے تبلیغ میں روک ہوتی ہے اور جب وہ زمانہ آجائے کہ بہائی مذہب کے حکموں کو جاری کرنا کسی طرح لوگوں کیلئے دلی نفرت کا موجب نہ بنے اور اس مذہب کا اعلان ہو جائے تواس وقت روسی ترکستان میں یہ ہونا چاہئیے نمازمیں منہ مشرق سے مغرب کی طرف ذرا شماک کو جھکے ہوئے رکھا جائے اور مردوں کو اس طرح دفن کیا جائے کہ سر زری قبلہ (عکا) کی طرف ہو اور پاوٴں شمال کی طرف ہو۔“
امید ہے اس چھوٹے سے احکام بہائی کے مضمون نے قارئین کو یہ بات ذہن نشین کرادی ہوگی کہ بہائیت نہ کسی مذہب کا نام ہے اور نہ انسان دوست لوگ اس کے ماننے والے ہوسکتے ہے بلکہ یہ دشمن اسلام ہے۔ اور اسلام مخالف سازشوں نے اسے اسلام کے خلاف اٹھایا ہے اور ان کے فاجر عقائد کے بعد احکام خدا کی کھلے طور پر مخالفت نے یہ باکل ثابت کردیا ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں اور ان لوگوں سے کسی قسم کا ربط رکھنا یا شادی بیاہ کرنا قطعاً ناجائز ہے اور نبی کریمﷺ کے لئے باعث ناراضگی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمانان نبی کریم نہ صرف انکا سماجی بائیکاٹ بلکہ اس ایمان دشمن سازش کو اپنے قریب ہی نہ کھڑا کریں۔ علماء اسلام سے خاص طور سے التماس ہے کہ وہ کوئی بھی نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین سے نبی کریم ﷺ کی آخری نبوت اور آخری رسالت کا تحریری اقرار حاصل کرلیں کیونکہ یہ لوگ کبھی کبھی اسلامی نکاح کرکے پھر بہائی شادی بھی کراتے ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دشمنان نبی کریمﷺ سے لڑتے لڑتے موت دے اور شہادت کے درجے پر فائز کریں۔