• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

بہائیت کا تعارف از ویکیپیڈیا

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بہائی مت
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

امر بہائی کی تعریف ، بہائیوں کے موقع روۓ خط کے مطابق یوں بیان کی گئی ہے کہ ؛ یہ آزاد حیثیت رکھنے والے مذاہب میں سے دنیا کا سب سے نومولود مذہب ہے جس کے بانی ، مرزا حسین علی نوری (1817ء تا 1892ء) کو اس کے ماننے والے، ابراھیمی و غیرابراھیمی مذاہب کے پیامبروں میں سب سے حالیہ (نیا ترین) پیامبر قرار دیتے ہیں[1]۔ بعد میں مرزا حسن علی کے بڑے فرزند عبد البھاء نے بہائیت کو مشتہر کرنے اور وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا[2]۔ بہائیت کو ایک الگ مذہب سمجھا جاتا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود پیدائش و آغازِ بہائیت پر اسلام کی ؛ جغرافیائی حدود، معاشرتی نفسیات اور اس کے فکری محرکات جیسے عوامل کے اثر کی وجہ سے پیدا ہونے والی نسبت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا[3]۔ بہائیت اور اسلام کی اس تاریخی و معاشرتی نسبت سے بعض اوقات ایک ابہام کی کیفیت بھی دیکھنے میں آتی ہے جو ان افراد میں زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بہائیت کے تاریخی پس منظر سے ناواقف ہوں، یہ ابہام بہائی مت کی دستاویزات کے مطالعے کے دوران سامنے آنے والے قرآنی آیات و احادیث کے حوالوں کی موجودگی میں اس وقت واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں ان کی تفسیر بہائیت کے نظریات کے مطابق پیش کی گئی ہو، جیسے رسول اور نبی میں فرق کا نظریہ[4]۔ بہائی مت کے ماننے والوں کی موجودہ تعداد بعض زرائع کے مطابق پچاس لاکھ[2] اور خود ایک بہائیموقع کے مطابق ساٹھ لاکھ سامنے آتی ہے[5]۔


تاریخ


ویکیمیڈیا العام
(Wikimedia Commons) پر شیخ احمد احسائی کی مبینہ تصویر (اصل ماخذ ، نامعلوم)۔


شیخ احمد احسائی (1775ء تا 1826ء) جو ایک ایرانی نہیں بلکہ خلیج کے علاقے سے ایک عرب تھا [6] اس نے انیسویں صدی میںاہل تشیع کے درمیان ایک تحریک (مکتبۂ خیال) کی بنیاد رکھی جس کو شیخیہ کہا گیا ، بعد میں اس تحریک کی راہنمائی شیخ احمد احسائی کے ایک طالب علم ، سید کاظم رشتی (1793ء تا 1843ء) کو دی گئی؛ ان دونوں ابتدائی اشخاص کا تعلق اثنا عشریہ اہل تشیع سے تھا جبکہ پانچ پشتوں قبل شیخ احمد احسائی کے اجداد سنی تفرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ احمد احسائی کا رجحان ، تصوف میں پاۓ جانے والے تصورات؛ مشاہدۂ نفس، گوشہ نشینی اور رہبانیت کی جانب مائل تھا اور انہیں ذاتی طور پر بصارت کے تجربات بھی درپیش آچکے تھے[7]، مثلاً وہ دیکھنا یا سننا کہ جو دوسرے نا دیکھ اور سن سکیں اور یا عالم غیب کے خواب وغیرہ۔ انہوں نے متعدد ایسے بیانات دیۓ جن پر دیگر مسلم علماء نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا؛ جیسے انہوں نے امامیان (فارسی برائے ائمہ) کے بارے میں کہا کہ وہ تخلیق کی طاقت رکھتے ہیں[8][9]۔ گو احمد احسائی نے کبھی کسی نۓ مذہب یا فرقے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن ان کے بیان کردہ مافوق الفطرت واقعات اور خوابوں کی مدد سے ان کے شاگرد سید کاظم رشتی نے شیخ احمد احسائی کو براہ راست امام حسینسمیت دیگر امامیان سے علم حاصل کرنے کیوجہ سے دیگر علماء سے اشرف اور جدا حیثیت میں پیش کرنا شروع کردیا۔ MacEoin کے مطابق سید کاظم رشتی نے احمد احسائی کو اسلام کی بارہ سو سالہ --- ظاہری تعلیمات --- کے بعد ، اندرونی سچ ( مشاہدۂ نفس) یا --- باطنی تعلیمات --- کو رائج کرنے والا قرار دیا۔ کاظم رشتی کی جانب سے اسلام کے عمومی اجتماع سے الگ انتہاء پسندانہ رجحانات ان کی موت کے بعد دو تفرقوں کی بنیاد بنے؛ ایک کی راہنمائی حاج محمد کریم خان کرمانی (1810ء تا1817ء) کو ملی جبکہ دوسرا سید علی محمد شیرازی (1819ء تا 1850ء) کے گرد مرتکز ہوا۔ اول الذکر نے شیخ احمد احسائی کی شدت پسند تعلیمات سے دور رہتے ہوئے مجموعی طور پر اہل تشیع سے تعلق استوار کرنے کی کوشش کی اور بعد الذکر نے ایسے خیالات پر عمل جاری رکھا کہ جن کو علماء کی اجتماعیت قبول نہیں کرتی تھی ، سید علی محمد شیرازی نے اپنے لیۓ باب کا لقب اختیار کیا۔ اس بات کی شہادتیں ملتی ہیں کہ سید محمد شیرازی کے اپنے لیۓ باب کا لقب اختیار کرنے سے بہت قبل ، شیخیہ میں ایسے افراد بھی تھے کہ جو شیخ احمد احسائی اور سید کاظم رشتی کے لیۓ بابان (فارسی برائے ابواب) کا تصور رکھتے تھے؛ شیخ احمد احسائی کی تعلیمات سے متاثرہ اس دوسرے فرقے سے ہی، جس کی قیادت سید علی محمد شیرازی (باب) کے ہاتھ میں تھی ، بابیت (babism) کی بنیادیں تیار ہوئیں[7]۔

شیعوں میں شیخ احسائی ظہور
اخباری اور اصولی شیعوں میں کشمکش کی شدت کے زمانے میں شیعی نظریات کو اساس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شیخ احسائی نے ایک نیا راستہ اختیار کیا کہ بلا تنقید ، نا تو احادیث پر قائم ہوا جاسکتا ہے اور نا ہی اجتہاد (یا علماء) پر اقرار کیا جاسکتا ہے۔ شیخی مدرسۂ فکر کے مطابق الشیعہ الکامل ، بارھویں غیبی امام اور انسانوں کے مابین ایک رابطہ یا دروازہ یا باب کا قیام کرتا ہے؛ 874ء تا 941ء کے دوران چار ابواب کے نام دیۓ جاتے ہیں عثمان بن سعید العمری الاسدی، ابو جعفر محمد بن عثمان، ابو القاسم حسین بن روح النوبختی اور حسن علی بن محمد السمری یہاں سے غیبت صغرٰی کا اختتام اور غَیبَتِ کبرٰی (major occultation) کا آغاز ہوتا ہے۔ شیخ احسائی کے مطابق ایمان کے الارکان الاربعۃ کو یوں بیان کیا جاتا ہے 1- توحید 2- نبوت 3- امامت اور 4- اولیا الامام (الشیعہ الکامل)۔ شیخ احمد احسائی کے مکمل نظریات ہمیشہ سے قابل بحث رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ شیعہ دنیا میں موجود تقیہ کا طرز عمل بھی بیان کی جاتی ہے جو احسائی مخالفین کے پیش نظر اختیار کیا گیا[6]۔

عقیدۂ غَیبَت سے بابیت تک
امامت کے جاری رہنے اور غیبت صغریٰ و کبریٰ سے مدرسۂ شیخیہ میں ایک رجل الغائب یا غیبی انسان کا تصور ملتا ہے جسے روحانی مرتبہ حاصل ہے اور وہ الشیعہ الکامل براہ راست امام سے رابطے میں رہتا ہے اور اس کا ناطق الواحد ہے؛ ان نظریات کی رو سے اللہ ناطق ہے اور وہ کلام کرتا ہے اور جبرائیل صامت سننے والے ہیں ، پھر جبرائیل ناطق ہیں اور محمد سننے والے صامت ، پھر محمد ناطق ہیں اور امام صامت ، پھر امام ناطق ہیں اور ان کے باب صامت سننے والے اور پھر باب ناطق ہے اور تمام انسان (شیعہ) صامت سننے والے ہیں۔ یعنی ایک باب کا تصور اور فلسفہ اللہ سے ہی شروع ہوجاتا ہے اور پھر حضرت علی کے بارے میں وہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ؛ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ (باب) ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی کے باب حضرت سلمان فارسی ہوئے اور اسی طرح تمام امامیان کا بارہویں امام تک کوئی نا کوئی باب رہا ہے جو اپنے امام کے لیۓ صامت (خاموش) اور انسانوں کے لیۓ ناطق (مکلم) ہوتا ہے۔ مورخین کے مطابق ایران میں امام اور امامت کے تصور میں غلو شامل کرنے والے اقلیتی بھی تھے جن کے لیئے بادشاہ یا راہنما کے الہایاتی اور ربّانی تعلق کا ساسانی فلسفہ موجود تھا ؛ ان اقلیتی افراد نے امام کا درجہ معصوم سے بڑھا کر سماوی ، خداوندی یا ربّانی تک پہنچا دیا ان افراد کے لیے کتب میں غالی کی اصطلاح بھی مستعمل ملتی ہے جو امام کی صفات میں غلات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ احسائی کے انتقال کے بعد سید کاظم رشتی (جس کے بارے میں محققین نے کہا ہے کہ وہ رشت میں نہیں بلکہ ولاڈی واسٹک (vladivostok) میں پیدا ہوا تھا اور روس کا سیاسی کارندہ تھا[10]) نے شیخیہ نظریات استعمال کرتے ہوئے اہل تشیع میں نفاق پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، اسی رشتی کی جماعت میں علی محمد شیرازیبھی تھا۔ یہ انیسویں صدی کا وسط تھا جب مسلم دنیا میں یورپی تسلط کے خلاف جذبات بڑھ رہے تھے اور ان ہی جذبات اور رجحانات سے استفادہ اٹھاتے ہوئے مسلم دنیا میں تین اطراف مہدی نمودار ہوئے۔ ایران میں علی محمد شیرازی (1819ء تا 1850ء) کا ظہور ہوا تو سوڈان میں محمد احمد المہدی (1844ء تا 1885ء) اور ادھرہندوستان میں مرزا غلام احمد (1853ء تا 1908ء) منظر عام پر آیا۔ شیعہ فلسفے سے کامل آگاہی علی محمد شیرازی کی پہلی کتاب زیارت نامہ سے ظاہر ہوتی ہے اور اس نے ملا احمد بشروئی (1813ء تا 1849ء) کے سامنے اپنے باب ہونے کا بیان دیتے وقت 1260ھ یعنی 1844ء کی اہمیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا ، ملا احمد بشروئی ہی کو بابیت پر سب سے پہلے ایمان لانے والا تسلیم کیا جاتا ہے[6]؛ موجان مومن نے اس تاریخ کے بارے میں یوں لکھا ہے

”1260ھ (ھجری) کے قرب کا زمانہ عمومی طور پر غائب امام کے ظہور کا امکان زیادہ رکھتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جو بارھویں امام کے غائب ہونے اور غیبت کا زمانہ شروع ہونے کے ہزار سال مکمل ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں متعدد اشارے ملتے ہیں کہ محمد کی حلت ہزار سال طویل ہوگی لہٰذا تمام شیعہ دنیا میں سال 1260ھ کو بہت زیادہ متوقع سمجھا جارہا تھا[11]۔“
بابیت سے اظہار اللہ تک
تصوف کے عمل دخل کو بابیت کے پس منظر سے خارج نہیں کیا جاسکتا اور علی محمد شیرازی کے خود کو باب کہنے کے پس منظر میں امام مہدی کے تصور کے ساتھ ساتھ قرآن کی باطنی تعلیمات کی جانب باب (دروازے) کا تصور بھی شامل تھا[12]۔ مذکورہ بالا قطعے میں درج کاظم رشتی نے عین اسی عہد میں پائے جانے والے عیسائی دنیا کے متوقع نزولِ مَسِیحا کے رجحانات کی مماثلت میں مسلم دنیا کے عقیدۂ غیبت میں پوشیدہ انتظارِ مَسِیحا کے رجحانات سے استفادہ کرتے ہوئے اختتامِ انتظار اور آمد مسیحا کے افکار کی تشہیر شروع کردی تھی[13]۔ شیرازی نے 1841ء میں کچھ عرصہ کربلا میں بھی صرف کیا اور سید کاظم رشتی کی جماعتوں میں شرکت (یعنی تعلیم حاصل) کی[14]۔ خود کو باب کی حیثیت میں پیش کرنے کے بعد جب علی محمد شیرازی کے پاس معتقدین کی تعداد کثیر ہوئی تو اس نے اپنے دعویٰ کو امام مہدی تک وسعت دے دی جس کی نا صرف شیعہ بلکہ خود شیخیہ تحریک میں بھی مخالفت ظاہر ہوئی جو اس کی اپنی کتاب بنام 'بیان' میں خود کو نبوت پر فائز کرنے کے بعد انتہائی شدت اختیار کر گئی[15] اور اس کتاب بیان کو نئی الہامی کتاب کا درجہ دیا گیا اور قرآن منسوخ ہوگیا[16]۔ باب یا شیرازی کی جانب سے کیئے جانے والے دعوں میں ؛ قائم ، باب (دروازہ) ، امام مہدی ، نبی اور پھر خود خدا کا مظہر ، اظہاراللہ (manifestation of God) کے دعوے شامل ہیں[17] [18]۔ شیرازی نے ابتدائی دعوے بارھویں امام کے باب سے بذات خود بارھواں امام بنتے وقت اپنے پچھلے دعوے کے اخفا پر بھی توجہ نا دی[14]۔ شیعہ علماء اور عوام کی جانب سے باب کے اپنے لیئے امام مہدی کے دعوے اور حضرت محمد کی نبوت کے اختتام کے بیان کی شدید مخالفت 1845ء میں اس کی گرفتاری اور پھر سزائے موت (1850ء) کا سبب بنی[19]۔

اظہار اللہ سے بہا اللہ تک
علی محمد شیرازی کی وفات کے بعد باقی رہ جانے والے بابی خاموشی سے اپنے مقصد پر کام کرتے رہے ؛ ان کے سامنے باب (شیرازی) کے وہ بیانات تھے جو اس نے جلد ہی کسی مظہراللہ کے نمودار ہونے کے بارے میں دیئے تھے۔ ان کا جذبہ اس بات سے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک عظیم دور (نزولِ مہدی ) سے گذر رہے تھے اور امام مہدی ظاہر ہو چکے تھے جبکہ اس وقت کی حکومت ان کے قتل (شہادت) کی مرتکب ہوئی تھی۔ مورخین کے مطابق باب سے محروم ہوجانے کے بعد تحریک بابیت میں متعدد راہنما یا جانشینی کے دعویدار نمودار ہوئے جن میں ملا شیخ علی ترشیزی (ترشیز کاشمر کا پرانا نام ہے) اور مرزا عباس نوری (وفات 1839ء) کے دو فرزند بنام مرزا حسین علی (بہاء اللہ) اور مرزا یحیٰی (صبح ازل) شامل ہیں۔ صبح ازل یا یحیٰی کو ابتداء میں زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی اور بابیوں نے یحیٰی کو عمومی طور پر باب کا جانشین تسلیم کرنا شروع کردیا۔

حوالہ جات
  1. ^ بہائی مت کے موقع روۓ خط پر بہائی مت کی تعریف
  2. ^ 2.0 2.1 ایک روۓ خط انگریزی دائرۃ المعارف پر بہائیت کے تحت اندراج
  3. ^ ایک روۓ خط، دائرۃ المعارف پر بہائیت کی پیدائش و اسلام سے نسبت
  4. ^ ایک بہائی موقع روۓ خط پر محمد (ص) کے آخری نبی سے انکار اور رسول و نبی کا نظریہ
  5. ^ ایک موقع حبالہ پر بہائی شماریات
  6. ^ 6.0 6.1 6.2 An introduction to the Bahai faith by Peter Smith روئے خط کتاب
  7. ^ 7.0 7.1 ایرانیکا نامی ایک دائرۃ المعارف پر شیخ احمد احسائی کے سنی تفرقے سے تعلق کا بیان
  8. ^ احمد احسائی کا امیامیان میں تخلیق کی طاقت کے بارے میں بیان
  9. ^ The Twelver Shia in Modern Times By Rainer Brunner: Publisher Brill گوگل کتاب
  10. ^ The rise and fall of the Pahlavi dynasty: By Hussein Fardust گوگل کتاب
  11. ^ Prophecy and the fundamentalist quest by Farzana Hassan گوگل کتاب
  12. ^ The Oxford dictionary of Islam by John L. Esposito (گوگل کتاب)
  13. ^ God speaks again: an introduction to the Bahai Faith by Kenneth E. Bowers روئے خط کتاب
  14. ^ 14.0 14.1 Studies in Babi and Bahai history by Moojan Memon روئے خط کتاب
  15. ^ Iran under the ayatollahs by Dilip Hiro روئے خط ربط
  16. ^ Bahaism and Its Claims by Wilson Samuel Graham (روئے خط کتاب)
  17. ^ Bahai Awareness موقع روئے خط
  18. ^ God Passes By: by Shoghi Effendi روئے خط کتاب
  19. ^ Shism and constitutionalism in Iran by By Abdul-Hadi Hairi روئے خط کتاب
 
Top