• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

بہائی تعلیمات ۔ایک فریب

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بہائی تعلیمات ۔ایک فریب


آج بہائی حضرات لوگوں کو ہم خیال و ہم مذہب بنانے کیلئے جو آلہٴ کار استعمال کرتے ہیں وہ بارہ اُصولوں میں سے سات ایسے اُصول ہیں جن کا کم و بیش ایک ہی مقصد ہے۔ یعنی سات اُصول کا مطلب گھوم پھر کر ایک ہی نکلتا ہے بلکہ ایک ہی لفظ نکلتا ہے اور وہ ہے ”اتحاد“چنانچہ قرن بدیع مصنفہ ولی عزیز امر اللہ شوقی آفندی ربّانی کے اردو مترجم پروفیسر سیّد ارتضیٰ حسین عابدی فاضل نو گا نوی نشر موسسد مطبوعات ملی بہائیان ، پاکستان ۱۹۴۴ء نے صفحہ ۱۹ پر لکھا ہے ۔ سطر نمبر ۱۱۔ ۱۰ ”موجودہ دنیا کے بہترین دماغوں کی امیدوں اور خیالات کا خلاصہ اور جوہر و نتیجہ وہی بارہ اصول قرار پائے ہیں۔ جو حضرت عبدالبہاء نے نہایت سادہ الفاظ میں بیان فرمادےئے تھے۔۔۔۔“ قارئین ملاحظہ فرمائیں ان چھوٹی سی دوسطروں میں کتنی دقیق باتوں کی طرف اشارہ ہے۔


”موجودہ دنیا کی بہترین دماغوں۔۔۔۔“ جملہ خود یہ بتا رہا ہے کہ اس تنظیم اور ان اصولوں کے پیچھے دنیا کے بہترین دماغ کام کر رہے ہیں۔ اور وہ اسرائیل ،امریکہ اور روس جیسی انسان دشمن اور خصوصاً اسلام دشمن لوگوں کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ۔ جس کی ترجمانی عبدالبہاء نے۵/نومبر ۱۹۱۲ ءء کی تقریر میں کھلے الفاظ میں یوں کی ہے Cincinnati, Ohio, America is a noble nation, a standard bearer of peace (Narrated from the book "throughout the world ------ of "The Promised Day is come " by shoghi Effendi page 5 before preface.

ترجمہ: امریکہ ایک باشرف ملک ہے۔ اس دنیا میں امن وامان کا علم بردار ہے۔


یہ بارہ اصول جناب عبدالبہاء نے بنائے ہیں نہ کہ بہاء اللہ نے یعنی بہاء اللہ اور ان سے پہلے مرزا یحیٰ نوری اور مرزا علی محمد باب سب اس مقصد کے تحت نہیں آئے تھے۔ اور چونکہ ان لوگوں نے اتحاد کے خلاف کام کیا اسلئے عبدالبہاء نے اتحاد کا نعرہ بلند کرنا شروع کیا۔ لیکن سب سے بڑا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عبدالبہاء خود نبی تھے۔ ملاحظہ فرماےئے باپ بیٹے کے کلام میں اختلاف جناب عبدالبہاء صاحب بدائع الاثار جلد دوم صفحہ ۵۸۔۵۷ مطبوعہ کریمی پریس ، بمبئی۱۳۴۰ ئھ مطابق ۱۹۲۱ ءء ”حضرت عبدالبہاء پیغمبر مشرق۔۔۔۔۔۔“ ”یعنی عبدالبہاء اہلِ مشرق کے لئے پیغمبر تھے“ جب کہ بہاء اللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ آئندہ ایک ہزار سال تک کوئی پیغمبر نہیں آئے گا یا اگر آئے بھی تو وہ جھوٹا ہوگا‘’(کتاب الاقدس: صفحہ/۱۱)


وہ سات اصول ملاحظہ فرمائیے۔ (۱) سیاسی دنیا میں اتحاد۔(۲) دنیاوی معاملات کے متعلق خیالات میں اتحاد۔ (۳) آزادی میں اتحاد (۴) دینی اتحاد (۵) قومی اتحاد (۶) نسلی اتحاد (۷) زبان کااتحاد ۔


دل یہ چاہتا ہے کہ جناب عبدالبہاء صاحب یا شوقی آفندی صاحب ہوتے تو ان سے باز پرس کر کے مندرجہ ذیل سوالات کے جواب حاصل کر لیتا اور ان لوگوں کی غیر موجودگی میں یہ ذمہ داری مترجم عالی مقام جناب پروفیسر ارتضیٰ حسین صاحب عابدی فاضل نوگانوی پر عائد ہوتی ہے اور اگر وہ بھی زندہ نہ ہوں تو پھر یونیورس ہاوٴس آف جسٹس ہی یہ کام انجام دیں کہ وہ ان سوالوں کے جوابات پہلے تو مذہب ِ بہائیت کے ہمنواوٴں کو تعلیم دیں اور پھر ہم لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔


”آزادی میں اتحاد“ کا کیا مطلب ہو تاہے۔ آیا آزادی کے لئے متحد ہونا ہے یا آزادی کے بعد متحد ہونا ہے اگر آزادی کے لئے متحد ہونا ہے تو آزادی ملتی ہی ہے۔ متحد ہونے پر متحد ہونے کے بعد کونسی نئی بات بتائی ان بہترین دماغ والوں نے اور آزادی کے بعد متحد ہونا کیا مطلب رکھتا ہے۔


اُس کے علاوہ ”دینی اتحاد“ سے کیا مطلب ہے ؟ کیا اس سے یہ مطلب ہے کہ تمام لوگ ایک دین کے ماننے والے ہوجائیں تو یہ بہترین دماغ والوں کی کم علمی ہے۔ حدیث شریف میں ایک جگہ یہ آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علی نبینا نے ایک بار اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے درخواست کی کہ اے خدا تمام لوگوں کو میرا ماننے والا اور ہم خیال بنادے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا موسیٰ یہ چیز تو میں نے خود اپنے لئے نہیں کی۔ اس حدیث شریف کو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ تمام بنی نوع انسان مل کر دینی اتحاد نہ قائم کر پائیں گے۔ اب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہائیوں کے خدا بہاء اللہ نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے خدا نے اس نعرے سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے تو اب میں کرنے کی کوشش کروں۔ لیکن صد افسوس کہ کامیابی کے آثار ۱۸۹۲ ء یعنی معموریت عبدالبہاء سے لیکر آج تک ۲۰۰۶ءء ۱۱۴ سال میں ایک فی صد بھی نہیں دیکھائی دیتا بلکہ نفی ایک فی صد ضرور دکھائی دیتا ہے اور وہ بہائیت میں خود پھوٹ پڑنا۔ ایک Third Generation Bahaiاور دوسری Oxthodox Bahai۔


دینی اتحاد کے بعد ” قومی اتحاد“ اور ”نسلی اتحاد“ کا مفہوم سمجھنے سے ہماری عقلیں حیران ہیں۔ خصوصاً ”نسلی اتحاد“ ہاں اسکا مفہوم صرف اُسی وقت سمجھ میں آسکتا ہے جب بدشت کے میدان پر ایک طائرانہ نظر کریں اور بہائیت کی معصوم ترین عورت کی زبان مبارک سے یہ جملے گوشہٴمبارک تک پہنچیں کہ ”باپ کو حق ہے کہ وہ کسی کی بیوی کسی کو دے۔“ اور جب باپوں کا انکشاف نہ ہو پائے گا تب ہی نسل کا پتہ نہ لگ پائے گا ورنہ حلال زادہ ہوگا تو نسل میں انفرادیت ہوگی، اتحاد نہ ہوگا۔


”زبان کا اتحاد“ بہائی حضرات اتنے عظیم عرصے میں کم از کم اُس زبان کی حروف تہجی سے ہی آگاہ کردیں۔جب مسلمان نبی کریم کی بتائی ہوئی احادیث کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے حضرت مہدیپر عقیدہ رکھتے ہیں اور انکے ظہور کا انتظار کرتے ہیں تو مذاق اڑاتے ہو اور بیچارے بہائی ڈیڑھ سو سال سے نیٴ زبان کے حروف تہجی کا انتظار کر رہے ہیں نہ جانے کب وجود میں آتی ہے۔


”سیاست میں اتحاد“ کیا مضحکہ خیز اصول ہے۔ سیاست میں اگر اتحاد ہوجائے تو پھر سیاست کس کا نام ہے اور اگر سیاسی پارٹی کے مخالفین نہ ہوں تو پھر حکومت من مانی کرنے لگتی ہے اور عوام الناس کا خون چوسنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ اب معلوم ہوا بہائیت کا مقصد اور سیاست میں اتحاد کا مطلب۔ اور اگر ہر چیز میں اتحاد ہی اتحاد ہوجائے تو پھر شناخت بھی تو مشکل ہوجائے۔


اچھا آئیے ایک نظر مذہب بہائیت پر بھی کریں کہ اُس میں خو د کتنا اتحاد پایا جاتا ہے۔


۱:- مرزا یحیٰ نوری ملقب صبح بہ ازل اور مرزا حسین علیملقب بہ بہاء اللہ میں آپس میں اتحادپروفیسر براوٴن نے اپنی کتاب ”مٹیریلز فور دی اسٹڈی آف بابی اینڈ بہائی ریلیجن“ میں ۵/ربیع لآخر ۱۲۸۵ ئھ کا ترکی زبان کا فرمانِ حکومتِ عثمانی مع فارسی ترجمہ شائع کیا ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ”مرزا حسین علی اور ازل کے ساتھیوں نے باہمی دشمنی کی اور مرزا آقا جان ، شیخ علی سیاہ، مرزا حسین علی وغیرہ فسادی کاموں میں مصروف ہوئے۔ اس لئے حکم ہوا کہ صبح ازل اور اسکے رفیق جزیرہ قبرس کو اور مرزا حسین علی بہاء ، آقان جان اور بہاء کے د یگر مرید عکا کو جلا وطن کئے جائیں۔“ ملاحظہ فرمایا آپ نے یہ سیاسی اتحاد کا دعویٰ کرنے والے د و بھائی آپس میں ایک وطن میں نہیں رہ سکتے اور حکومت کو دو الگ الگ جگہیں بھیجنا پڑتا ہے اور یہ طریقہ کا ر صرف ترکی حکومت نے ہی نہیں اپنایا بلکہ جہاں جہاں یہ لوگ جاتے ہیں یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ زبان سے حکومت کی حمایت کا نغمہ گائیں گے اور عمل سے حکومت کی خلاف ورزی کریں گے۔


۲- بہائیوں نے سیّد محمد اصفہانی، آقا جان کاشانی، مرزا رضا قلی اور مرزا نصراللہ تفرشی کو محمود خان کج کلاہ کے ساتھ ۲۲/جنوری ۱۸۷۶ ءء کو عکا میں قتل کردیا ۔ جس کی باداش میں جناب بہاء ان کے فرزند جناب عبدالبہاء و مرزا محمد علی چھ ماہ جیل کی قید کاٹ کر رہا ہوئے اور باقی بہا ہیوں کو سات سال اور بعض کو پندرہ سال کی سزا ملی۔“ (نگاشتہ حاجی مفتون یزدی ص ۲۳۲) قارئین ملاحظہ فرمائیں یہ تو بالکل ویسا ہی واقعہ ہوگیا جو بنی اسرائیل میں واقع ہوا تھا جس کا ذکر سورہ بقرہ میں اللہ نے کیا ہے کہ ایک بھائی نے دوسرے بھایٴ کو قتل کیا اور گھر جا کر تلوار میان میں صاف کر کے گھر سے باہر نکلا یہ نعرہ لگاتے ہوئے کہ میرے بھائی کو کس نے قتل کیا مجھے اس کا بدلہ لینا ہے ۔۔۔ بالکل اسی طرح بہائی حضرات دنیا میں قتل و غارت گیری پھیلانے کے بعد اب اتحاد کا نعرہ بلند کرنے چلے اس لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرآن ہدایت کا چراغ ہے ہر اندھیرے میں اور گمراہی میں۔


۳- ”بہائیوں نے استاد محمد علی سلما نی اور دو اور ازلیوں کو مار کر ان کی لاشوں کو خان عکا کے مکان کی دیوار کے شگاف میں چھپادیا۔ جب بد بو پھیلی تو بہائیوں نے روپئے دے کر جھوٹی گواہی دلوائی کہ یہ اپنے سے مرے ہیں“

نگاشتہ حاجی مفتون یزدی ص ۲۳۲۔


۴- پروفیسر براوٴن نے فارسی مقدمہ نقطہ ألکاف میں تحریر فرمایا ہے کہ ” حروف حي (وہ لوگ جو مرزا علی باب پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے)میں سے آقا سیّد علی عرب تبریزی اور ملا رجب علی کربلا میں ان کے بھائی آقا محمد علی اصفہان ابران اور حاجی مرزا احمد کاشانی برادر مرزا جانی بغداد میں (مصنف نقطةالکاف ) اور حاجی مرزامحمد رضا، حاجی ابراہیم، حاجی جعفر، حسین علی، آقا ابوا لقاسم کاشانی اور مرزا بزرگ کرمانشاہی، مختلف مقامات پر بہائیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے کیونکہ وہ تھے توبابی لیکن بہاء اللہ کی بہاء اللّٰہی کے مخالف تھے۔“


۵- مرزا یحیٰ نوری ملقب بہ صبح ازل اور مرزا حسین علی ملقب بہ بہاء اللہ دونوں بھائی ایک دوسرے کو ظلم و جور کا الزام دیتے رہے۔ ازل کا گذارہ۱۱۹۳ ماہوار پر ہوتا تھا۔ بہاء اللہ نے عثمانی حکومت سے شکایت کر کے بند کر وادیا۔ اور مفلسی کی حالت میں مرزا یحییٰ نوری نے ۲۹/ اپریل ۱۹۱۲ ءء کو وفات پائی۔ اور اس کا جنازہ اٹھانے کو کوئی بہائی یا ازلی موجود نہ تھا۔مٹیر یلز براوٴن ص ۲۴


۶- ازل کا بڑا بیٹا غربت کی وجہ سے قبرس میں ریلوے قلی کا کام کر کے روٹی کماتا رہا۔ ایک لڑکا رضوان علی عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنا نام کنٹائین ایرانی رکھا۔ مٹیر یلز براوٴن ص ۳۱۴۔


بہاء اللہ کے آخری ایّام

براوٴن نے اپنی کتاب مٹیر یلز کے صفحہ ۲۰۶ میں یوں نقل کیا ہے کہ ” آخر میں عکا کے باہر دور جگہ قصر بہجہ میں اپنی دوسری بیوی اور بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کے پیرو اور بڑے بیٹے عباس آفندی عکا میں رہتے تھے۔۔۔۔۔انکے مزاج میں ایسی افسردگی اور اداسی تھی۔ جس کا نہ بیان ہو سکتا تھا اور نہ وہ لکھی جاسکتی ہے اور نہ اس سے پہلے ان میں کبھی دیکھی گئی۔ اور وہ اپنے بعض رفقاء کو بار بار کہا کرتے تھے کہ مجھے ایک اندھیرے اورتنگ کمرے میں لے جاوٴ تاکہ میں اپنی غلطیوں پر افسوس کروں اور رووٴں۔“


عباس آفندی ملقب بہعبدالبہاء کا ان کے بھائیوںکے ساتھ برتاوٴ اتحاد کی بہترین مثالبہاء اللہ کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی سے سوا ے ٴ عباس آفندی کے کوئی نہ بچا اور باقی تمام اولادیں دوسری بیوی سے تھیں اور بہاء اللہ کے انتقال کے فوراً بعد بھائیوں میں نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ مر زا جواد کے مطابق ” عباس آفندی نے بہائیوں میں نفرت و حقارت پیدا کردی اور جو بھی اُس کے بھائی محمد علی (جسے بہاء اللہ نے غصن اکبر کا خطاب دیا تھا) کو برا نہ کہتا وہ اُسے ناقص ومتزلزل بلکہ کافر کہتا“

مٹیریلز براوٴن ص ۸۱۔۸۰
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر

۱۸۹۸ءء میں محمد علی کا چھوٹا بھائی ضیاء اللہ کا انتقال ہوا تو عباس آفندی اور اس کے ماننے والوں نے جنازے میں شرکت بھی نہیں کی بلکہ عباس آفندی نے بیوہ کو اغواہ کرنے کی کوشش کی لیکن مرزا جواد اور خادم اللہ وغیرہ کی کوششوں سے ناکام رہے۔“

مٹیریلز براوٴن

۱۸۹۷ءء میں خادم اللہ اور محمد علی نے عباس آفندی کے اقوال و افعال کو احکامِ خدا کے خلاف بتلایا۔ اور عباس آفندی کو اس کی خبر ہوئی تو وہ اس جگہ فوراًجا پہنچااور اسے محمد علی کو سروپا برہنہ مکان سے نکالا اور عباس آفندی کے پیرو اس کے سر و چہرہ پر مارتے تھے۔ خود عباس آفندی نے بھی اسے درد انگیز چوٹ لگائی اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیا کہ اسے اصطبل میں قید کرو اور بہاء اللہ کے تمام نو شتجات چھین لو اور اسے شیطان کا لقب دیا۔“

براوٴ ن کی مٹیریلز : ص ۸۷۔۸۵


یہ حقارت اور نفرت امریکہ تک پھیل گئی اور ڈاکٹر خیراللہ جو بہت موثر بہائی مبلغ تھا اس نے عباس آفندی کو چھوڑ کر محمد علی کا ساتھ دیا۔ تو مرزا حسن خراسانی (جو عباس أفندی کے بھیجے ہوئے تھے) نے خیراللہ کو کہا کہ اگر عباس کو نہ مانو گے تو قتل کئے جاوٴگے اور مقامات پر بھی عباس کے ماننے والوں نے خونریزی کی کوشش کی ۔

براوٴ ن کی مٹیریلز: ص ۱۵۷۔۱۵۶


کوکب ہند جلد ۷ صفحہ ۹۔۱۱ پر نقل ہے کہ ”جدہ والے مرزا یحییٰ جو محمد علی کے طرفدار تھے عباس والوں نے قتل کر ڈالا۔ محمد علی کے پیرو عباس کے مریدوں کو مشرکین کہتے تھے۔ عباس آفندی نے اپنے ماننے والوں کو محمد علی کے پیروں سے ملنے سے منع کردیا تھا۔“


قارئین ملا خطہ فرمائیں جس مذہب کے قائد ین اپنے خود کے خاندان میں اتحاد،امن و سکون ویگا نگت نہ قائم کر سکیں بلکہ انکی تاریخ کے اوراق خونر یز یوں سے بھرے پڑے ہوں۔ یہاں تک کہ وقت آخر تک اپنی غلطیوں پر رونے کا دل چا ہتا ہو وہ دنیا بھر کواتحاد کا پیغام زبانی تو پہنچا سکتے ہیں لیکن محمد عربی صلعم کی طر ح عملی تبلیغ نہیں کر سکتے۔اور جس قوم کو اللہ نے محمد عربی صلعم کی تعلیمات سے نوازا ہو اُسکی آنکھوں میں ان لوگوں کے نغموں کا کیا اثر ہو سکتاہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کے ایک جنگ میں جہاں شھداء اسلام ضرب کھا کر میدان میں پڑے تھے۔ ایک شخص پانی لے کرپہلے زخمی کے پاس آیا تو اس نے اپنے بعد والے زخمی کی طرف اشارہ کیا۔ جب وہ دوسرے کے پاس گیا تو اس نے بھی اپنے بعد وا لے زخمی کی طرف اشارہ کیا۔یہاں تک کی وہ آخری زخمی کے پاس گیا تو اس نے پہلے زخمی کے پاس جانے کو کہاجب وہ پہنچا تو وہ دم توڑ چکا تھا۔دوسرے کے پاس پہنچا تو وہ بھی دم توڑ چکا تھا۔یہ ہے بھائی چارگی کی عملی مثال۔ کہاں یہ ایک چھوٹی سی عملی مثال اورکہاں وہ بہائیت کی تاریخ کے رنگین اوراق۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر روشنی کا اندازہ اندھیرے کو دیکھ کر ہی ہوتاہے ۔قارئین یہ تو بہائیت کی تاریخ کی ادنیٰ سی مثال تھی۔پروفیسر براؤن،ماونٹ گوبینو اور خود مرزا جانی کی کتا بوں سے یہ بات ثابت ہے کے عمل کے میدان میں بہائیوں نے جو انسانیت کو پست کر دینے والی حرکتیں کی ہیں اس کو نقل کرنا بھی باعث شرم ہے۔ بہر حال آئیے ان کے کلمات میں بھی تضا د دیکھتے چلیں۔


مرزا علی محمد ملقب بہ ”باب“

مرزا اُسے کہتے ہیں جس کی ماں تو سیّد ہو لیکن باپ سیّد نہ ہو اور چونکہ اسے سیّد نہیں کہہ سکتے اسلئے مرزا کہتے ہیں تاکہ کم ازکم ماں کا سیّد ہونا ثابت ہوجائے۔ مرزا علی محمد کے باپ کا نام مرزا رضابزاز تھالیکن بہائی حضرات انھیں سید کہتے ہیں۔ Travellers Narrative Pg.2. Published New York, 1930)


بہائی حضرات کا کہنا ہے کہ باب نے کسی اسکول یا کسی انسان سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔"He had never studied in any school and had not acquired knowledge from any teacher."(Some Answer Questions Page 25, Chapter 8 by Abdul Baha Published from Delhi Reprinted - 1996).

ترجمہ : ”انہوں نے (علی محمد باب) نہ کسی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور نہ ہی کسی استاد سے۔“


لیکن باب کے خود کے یہ جملے ثابت کرتے ہیں کہ باب کے کم از کم تین استاد ضرور تھے۔(i)سات برس کی عمر سے شیخ عابد سے تعلیم فارسی۔ عربی مشق خط وغیرہ حاصل کرتے تھے۔(ii) ایک لوح میں فرمایا ” یا محمدیا معلمی لاتضربنی فوق حد معین“ اے محمد! اے میرے استاد مجھے حد سے زیادہ نہ ماریں۔(iii) سیّد کاظم جو کچھ کہتے تھے یہ لکھتے جاتے تھے۔ (ہدیةالمہدویہ صفحہ ۲۱۲) ( iv)صحیفہ رابع شرح دعائے غیبت میں فرمایا ” انی احد من تلا مذةسیدالمقدس“ ترجمہ ”بے شک میں سیدالمقدس (کاظم)کے طلّاب میں سے ایک تھا۔“


پتہ نہیں باب صحیح کہتا تھا یا عباس آفندی۔ وہ کہتا تھا میں پڑھا ہوں یہ کہتے تھے وہ نہیں پڑھے تھے۔ قارئین ملاحظہ فرمائیں ۔ اس چھوٹے سے تاریخی عرصے میں کس طریقے سے آنکھ میں دھول جھو نکنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔


معلوم نہیں مرزا علی محمد تھے کیا؟ (i) مرزا علی محمد نے شیعوں کے بارہویں امام کے ”باب“ یعنی باب فیض ہونے کا دعویٰ کیا۔ (T.N. Page7 Published : N. Y. 1930) (ii) باب نے کچھ دن بعد خود شیعوں کے بارہویں امام حضرت مہدی علی نبینا ہونے کا دعویٰ کیا۔ (iii) جناب عباس آفندی صاحب ملقب بہ عبدالبہاء فرزند بہاء اللہ مرزا علی محمد باب کو نبی جانتے ہیں۔ (iv) مرزاعلی محمد باب نے خود اپنے آپ کوعین خدا کہا۔ (لوح ہیکل الدین: صفحہ ۵)۔ (v)جناب باب خود ہی اپنے آپ کو شیعوں کے بارہویں امام کا عبد بتاتے ہیں۔ ” اِنَّنِی اَنَا عَبْدً مِن بَقِیَّةُ اللّٰہِ“ (vi) بہائی حضرات ان سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں بہاء اللہ کا مبشر مانتے ہیں۔ بس اسکے علاوہ کچھ نہیں۔(vii) تاریخ کے اوراق انھیں روس اور پھر اسرائیل کا نمائندہ خاص جانتے ہیں۔ (viii) باب ان تمام منسبوں سے انکار کرتے ہیں۔ اَسْتَغْفِرُاللہ مِنْ اَن یُنْسَبَ اِلَی الَامر (کشف الخطاء: صفحہ ۲۰۶) قارئین کیا آپ نے ایسا اتحاد بھی کہیں سنا ہے۔ جی ہاں آپ نے سنا ہو یا نہ سنا ہو میں نے تو سنا ہے ۔ دراصل چارسوبیس، مکاری ، دھوکا دہی، شیطانیت، منافقت ،بے ایمانی ، حرام زدگی اور ان جیسی سب برائیوں کے بعد اتحاد کا صاف و شفاف لبادہ پہنے ہوئے بے شرم اور بے حیائی کا اتحاد ہے۔


بہاء اللہ کے دعوے :

بہاء اللہ مرزا علی کو اپنا مبشر جانتے ہیں حالانکہ (i) مرزا علی محمد ملقب بہ با ب بہاء اللہ کے بعد میں پیدا ہوئے۔ (ii) بقول بہن بہاء اللہ ، بہا’ اللہ نے کبھی مرزا علی محمد باب کو حق پر جانا ہی نہیں۔ (iii) بہاء اللہ کا شمار ۱۸ حروف حی میں بھی نہیں ہوتا۔ ( iv) بقول پروفیسر براوٴن مرزا علی محمد باب نے اپنی وصیت میں مرزا یحییٰ نوری کو اپنا جانشین مقرر کیا۔


بہاء اللہ مَنْ یَّظْھَرُاللہ تھے؟ بقول بہائی حضرات کہ چونکہ مرزا علی محمد باب نے مَنْ یَّظْھَرُاللّٰہ جسے اللہ ظاہر کرے گا کی خوشخبری دی تھی ۔ لہٰذا بہاء اللہ وہی تھے ۔ حالانکہ(i) کوکب ہند: ج/۲- صفحہ/ ۸۲ کے حوالے کے مطابق بقولے باب من یظھراللہ ظاہر ہوگا۔ باب کے بعد سال غیات یا مستفیت میں جب کہ بہاء اللہ نے صرف سال بعد دعویٰ کردیا ۔ (ii) بقول باب مَنْ یَّظْھَرُاللّٰہ پاک منی سے پیدا ہوگا اور منی کو پاک با ب نے آکے کیا ۔ جبکہ بہاء اللہ باب سے پہلے پیدا ہوئے ۔ (iii) باب نے کہا تھا مَنْ یَّظْھَرُاللّٰہ عربی قواعد سے واقف حضرات خوب جانتے ہیں یظھر صیغہٴ مضارع ہے جس کا مطلب ہوتا ہے حال اور مستقبل ناکہ ماضی اور مرزا حسین علی ملقب بہ بہاء اللہ باب سے پہلے ہی ظاہر ہو گئے تھے۔ بہائی حضرات دنیا میں ایک مثال بتادیں کہ بشیر کو مبشر سے پہلے بھج دیا ہو۔ بلکہ ایسا کرنے والوں کو لوگ دماغی طور پر کمزور جانتے ہیں ۔“ (iv) بقول باب مَنْ یَّظْھَرُاللہ کے ظہور سے پہلے پوری دنیا کو بابی مذہب اختیار کرلینا چاہئے۔ لیکن بہاء اللہ کے آکر چلے جانے کے بعد آج تک دنیا میں بابی مذہب نہ صرف ہے کہ اختیار کیا گیا ہو بلکہ بہاء اللہ نے اسے نسخ و ختم کرنے کے اقدامات کئے۔ یہی وجہ ہے کہ باب کی نہ بیان دنیا کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔ نہ مرزاجانی کی نقطہ ألکاف کو نہ صرف یہ کہ فروغ دیا گیاہو بلکہ نیست و نابود کرنے کے اقدامات کئے گئے۔ یہی نہیں بلکہ براوٴن کی کتاب ”مٹیریلز فور دی اسٹڈی آف بابی ریلی جن“ کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ہر نسخہ کو حاصل کر کے ختم کردیا جائے ۔ یگانگت مذاہب کا گیت گانے والوں اپنے مبشر کے دین کو پھیلانے میں تو خطرہ محسوس کرتے ہو۔ کیا تم دوسرے مذاہب کی عزت کروگے۔ یہ تو بس دوسرے مذہب کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے ایک حربہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ لوگ ظاہر کو دیکھ کر تمہارے پاس آئیں۔


بہاء اللہ اپنے آپ کو نبی جانتے ہیں

بہاء اللہ نے اپنے آپ کو صاحبِ شریعت نبی بتایا نہ صرف صاحبِ شریعت نبی بلکہ شریعتِ محمدی کو نسخ کرنے والا ، حالانکہ (i) شوغی آفندی نے انھیں عیسائیوں کے لئے مسیح، ہندووٴں کیلئے کرشنا، مسلمانوں کے لئے کبھی عیسیٰ اور کبھی پیغمبر جیسا وقت مل گیا اور جب زیادہ مخلص اور منقلب لوگوں کو پایا تو خدائی کا دعویٰ کر دیا ۔ کرشنا اور بدھا کا دعویٰ شوغی آفندی کی کتاب قرن بدیع God Pass By . Pg اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کتاب البیان والبرہان نوشتہ جناب فاضل ا۔ح آل محمد (عراق عرب) مترجم جناب فاضل سید محفوظ الحق شائع کردہ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ دہلی کے صفحہ ۲۵۔۲۳ پر دیکھا جا سکتا ہے۔


بہاء اللہ کا دعویٰ ربوبیت

کتاب اقدس نوشتہ بہاء اللہ صفحہ ۴۲ ”لَااِلٰہ اِلَّا اَنَا العزیز الحکیم“

ترجمہ : ”مجھ حاکم غالب (بہاء) کے سوا کوئی معبود نہیں۔“ (۲)صفحہ ۹۶ کتاب اقدس ” خذوا مایا مرکم بہ مالکٴ القدم“ ترجمہ : ہمیشگی کے مالک خدا بہاء جو حکم دیتا ہے اسے لے لو۔“ صفحہ ۵۸کتاب اقدس ” لاَ اِلٰہَ اَنالْمُھَیمِنُ الْقَیِّوم قَدْ اَرسلناالرسل انزلنا الکتاب “ ترجمہ: ” نہیں ہے کوئی خداسوائے میرے (بہاء کے) اور ہم ہی نے کتابوں اور رسولوں کو نازل کیاہے۔‘ (۳) کتاب اقتدارات نوشتہ بہاء اللہ صفحہ ۳۶ ” مالک القدم فی سجنہ“ ہمیشگی کا مالک (بہاء ) قید خانہ میں ۔ (۴) کتاب مبین نوشتہ بہاء اللہ ”مادونی قد خلق بامری“ ترجمہ : ” میرے سوا سب میرے امر سے پیدا ہوئے۔“ (۵) بہجة الصدور نوشتہ مرزا حیدر علی اصفہانی بہائی مبلیغ شائع کردہ بمبئی صفحہ ۳۵۰“ ترجمہ: ”بہاء اور اس قدیم جڑ سے نکلی ہوئی شاخ اس کا بیٹا عبد البہاء بھی وحدہ لا شریک ہے۔“ (۶) کتاب بہجة الصدور، صفحہ ۲۱۷، ہم اہل بہاء جمال قدم (بہاء اللہ ) کی خدائی کا جو دائمی زندہ ہے بے مثال و بے زوال ہے ۔ یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں ۔“ (۷) تجلیات بہاء تجلی نمبر ۴ ” وانتی انا اللہ لا اِلٰہ اِلّا انا رب کل شی وان مادرونی خلقی ان یا خلقی ایای فاعبدون“ ترجمہ : ” یقینا میں ہی اللہ ہوں میرے بہاء کے سوا کوئی خدا نہیں۔ میں ہر چیز کا رب ہوں اور جو کچھ میرے سوا ہے میرے مخلوق ہے۔ بس اے میرے مخلوق تم سب میرے یعنی بہاء کی عبادت کرو۔“
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر

بہاء اللہ کا اپنے آپکو نا چیز چیونٹی شمار کرنا

بہاء اللہ نے ان تمام دعویٰ کے بعد بغداد میں بڑے بڑے بہائیوں کے سامنے اپنے آپکو ” نملہ فانیہ“ یعنی فنا ہونے والی چیونٹی شمار کیا۔

آثار قلم اعلی جلد ۴، صفحہ ۳۶۴”


قارئین ! دیکھا آپ نے بہائیوں کا بانی مرزا حسین علی بہاء اللہ اپنے آپکو فنا ہونے والی چیونٹی بھی کہتا ہے۔ مسیح بھی ۔کرشنا بھی۔ حضرت عیسیٰ بھی۔ نبی صاحب شریعت بھی۔ اور خدا بھی۔ اتحاد کی ایسی نادر مثالیں لوگ دنیا وآخرت میں کہیں بھی ڈھونڈیں ملنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ سوائے دنیا کے مشہور پاگل خانوں کے کہیں اور ملنا بھی ناممکن ہے لیکن تاریخ کے اوراق اور پاگل خانوں کے ریکارڈ بھی ایسی شخصیت کو پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ بہائیت کا معجزہ ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ بہائیت میں کوئی اور معجزہ نہیں۔


ان سات اتحادی اصولوں ، بہائیت کے شخصی اتحاد اور اجماعی اتحاد پر ایک تحقیقاتی نظر کے بعد بہتر سمجھتے ہیں کہ باقی ان پانچ اتحادی اصولوں پر غور و فکر کی جائے تاکہ بہائیت کے اس شدید مکر و فریب سے لوگوں کو مکمل طور پر آشنا کرسکیں۔ اور اس کی وجہ سے کوئی ان کے چنگل میں نہ پھنسنے پائے۔ وہ پانچ اصول یہ ہیں۔(۸) مردوں اور عورتوں کے حقوق میں مساوات ہونا چاہئے۔ (۹) انصاف سب کے لئے عام اور مساوی ہونا چاہئے۔ (۱۰) سب آدمیوں کو کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئے۔ (۱۱) انتہائی دولتمندی اور انتہائی مفلسی کو ختم کرنا چاہئے۔ (۱۲)انسانی زندگی کے محرک اعلی روح القدس الٰہی ہونا چاہئے۔


مردوں اور عورتوں کے حقوق میں مساوات ہونا چاہئے۔

بہائیوں کے اس قانون کا مقصد ظاہری طور پر عورتوں کو خوش کرنا ہے۔ کیونکہ عورتوں میں یہ برابری کا جذبہ بہت حد تک پایا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی خوش اور چونکہ مرد حقیقت سے واقف ہیں کہ عورت بطور خلقت طور پر ہی کمزور بنائی گئی ہے۔ لہٰذا اس کے حقوق کبھی ہمارے برابر ہو ہی نہیں سکتے۔ (۲) یہی نہیں بلکہ بہائیت نے خود ہی کہاں عورتوں اور مردوں کو مساوی حقوق دے رکھے ہیں ملاحظہ فرمائیے ۔


بہائیت سے ہمارا سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی عورت نبی ہوسکتی ہے یا ہوئی ہے۔


بیت العدل کے نو ممبروں میں سے کوئی ایک بھی عورت نہیں ہوسکتی سوائے شوقی آفندی کی امریکن بیوی روحی مارکس ویل کے۔


جب کوئی عورت بیت العدل کی ممبر نہیں ہوسکتی تو پھر یہ مخصوص اعجاز شوغی آفندی کی امریکن بیوی کو کیوں۔


بہائیت میں یہ قانون پایاجاتا ہے مردہ کا کفن بڑے لڑکے کو دینا چاہئے کیوں نہیں عورت یا لڑکی کو۔


مہر مرد عورت کو کیوں دے یا دونوں ایک دوسرے کو دیں اور یا پھر جو زیادہ قابل ہو اس کو کم قابل دے۔


کیا حق مساوات حقوق یہی ہے کہ مرد بیک وقت دو بیویاں رکھ سکتا ہے وہ تو بہتر ہے ایک رکھے لیکن بیوی؟


مسافرت کے احکام میں نقل ہوا ہے کتاب اقدس میں ہے کہ جب مرد سفر پر جارہا ہو تواُسے چاہئے کہ بیوی کو مدّت سفربتا کر جائے اور اگر غائب ہوجائے تو عورت کو نو ماہ صبر کرنا چاہئے اور اگر مرد نے یہ قانون ِ اقدس نہ سنا ہو تو پھر عورت کو زندگی بھر صبر کرنا چاہئے۔


شریعت بہائیت کی نظر میں بھی زوجہ کا نان ونفقہ مرد پر واجب ہے یہاں تک کہ طلاق کے ایک سال بعد بھی کیوں نہیں عورت مرد کا نان نفقہ دے۔


بہائی حضرات اپنے نام کے ساتھ جہاں باپ کا نام لگاتے ہیں وہاں ماں کا نام بھی لکھنا لازمی ہونا چاہئے اور جب بیوی اپنے مرد کا نام شادی کے بعد لکھتی ہے تو مرد کو بھی بیوی کا نام لکھنا چاہئے۔


کیا ضروری ہے کہ عورت گھر میں رہ کر امورخانہ داری اور تربیت اولاد کی اہم ذمہ داریوں کو ادا کرے۔ بلکہ چھ مہینے یہ کام مرد کو اور چھ مہینے عورتوں کو کرنا چاہئے۔


عجب نہیں کہ بہائیوں کا خدا (بہاء اللہ) اگر زندگی کے زیادہ تر حصے جیل میں نہ ہوتا تو کم ازکم بہائیوں کی خلقت ایسی کردیتا کہ مردوں میں بھی بچہ پیٹ میں رکھنے کی صلاحیت ہوتی اور پھر حکم دیتا کہ مرد ایک بچہ اپنے پیٹ میں رکھ کر پیدا کرے گا تو ایک عورت۔


عورتوں پر سے حج کیوں معاف کر دیا گیا اور ایام کے روز بھی معافکر دئیے گئے کم ازکم قضا ہی واجب قرار دی ہوتی۔


بیچاری قرة العین طاہرہ فضوینی نے بہائیت کے لئے جو قربانی دی بچوں ، شوہر خاندان سے دوری اختیار کرکے اپنی جان تک دے دی ۔ اتنی قربانی تو بہائیت اور بابیت کے بانیوں نے نہیں دی۔ لیکن اس کے قبر کے طواف کو حج میں شامل نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی اس کو بھی عکا لاکر دفن کیا۔


میراث میں رہائشی مکان اور پہنے کے خاص کپڑے صرف لڑکوں کو ملیں گے عورتوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔

کتاب اقدس


قارئین ملاحظہ فرمائیں جب بہائیت خود مردوں اور عورتوں میں مساوات کے قوانین نہیں دے سکتی تو پھر عمل کی بات تو بالکل نا ممکن ہے۔


انصاف سب کے لئے عام اور مساوی ہونا چاہئے

بہائیوں کا یہ قانون کانوں کو تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن اے کاش بہائی حضرات مندرجہ ذیل باتوں پر نظر رکھتے۔

یہ کونسی نئی بات انہوں نے بیان کر دی۔ یہ تو ہر مذہب اور ہر خالص فطرت کی آواز ہے۔


بہائیت اور بابیت خود عملی طور پر علمی طور پر اس کی تردید کرتی ہے ۔

عملی تردید

بہائیوں نے محمد ابراہیم کو دریائے دجلہ میں غرق کردیا۔ اور دیان کو قتل کردیا صرف اس لئے کہ ان دونوں نے بہاء اللہ کے دعویٰ کو قبول نہیں کیا تھا۔

کتاب حاجی مفتون یزدی صفحہ ۲۳


بہائیوں نے ایران کے بادشاہ ناصر الدین شاہ پر قاتلانا حملہ کیا۔


ایک ہی رات میں بہائیوں نے ۱۳۰ آدمیوں کو جان سے ختم کیا اور ان سے کھانے پینے کے سامان چھین لئے۔

نقطہٴ الکاف: صفحہ ۱۶۱


بہاء اللہ نے اپنے بھایٴ مرزا یحیٰ نوری کے ساتھ بدسلوکی کی اور فرزند بہاء اللہ عباس آفندی نے اپنے سوتیلے بھائیوں کو پہلے تو بھیک مانگنے والاپیالہ تھما دیا اور پھر قتل کروادیا۔


یہی نہیں تاریخ میں ایسے بیشمار واقعات بہائیوں کے ذیل میں ملتے ہیں ۔ اور یہ سب ان کی تعلیمات کا ردِّ عمل تھا۔


علمی تردید

مرزا علی محمد باب نے اپنی کتاب بیان میں بابیوں کو یوں اکسایا۔ ” بابیو ! خدا نے تم پر لڑائی فرض کی ہے ۔تم شہروں اور لوگوں کو بابی دین کے لئے فتح کرو۔“

بیان باب۔۱


”۔۔۔۔ جو دین بیان (یعنی بابی بہائی) کو نہ مانتا ہو اسے زمین پر زندہ نہ رہنے دیں و۔“ بیان عربی باب ۱۶

جو بیان پر ایمان نہیں لاتے انکے مال ان سے چھین لو۔

بیان عربی باب:۵


” باب کے منکرو اگر تم دن میں ہزار مرتبہ بھی نہاوٴ گے تو پاک نہ ہوں گے۔“

بیان فارسی باب۔۲


” غیر بابیوں کی جو چیز بابیوں کے قبضے میں آجائے تبدیل قبضے سے پاک ہو جاتی ہے۔

بیان باب ۔۱۴


قارئین آپ خود بتائیں کیا یہی وہ انصاف کا تقاضا ہے جو عام ہونا چاہئے۔ یا ان سب حرکتوں اور قوانین کو چھپانے کے لئے یہ قوانین بنائے گئے ہیں۔ یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔


سب آدمیوں کو کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہئے

یہ بات ایسی ہے جو ہر کسی کے سمجھ میں آسانی سے آجاتی ہے اور دراصل بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ اگر کوئی عامل شخص یہ بیان کر رہا ہو تو اس بات کی تشویش بھی پیدا ہوتی ہے کہ آخر کیوں کہہ رہا ہے۔ یہی حال بہائیوں کابھی ہے ۔ ان کا یہ بیان کرنے کا مقصد ہے کہ چاہے وہ درویشی لباس میں جاسوسی کرنے کا کام ہو یا منہ پر نقاب ڈالکر قتل و غارت گیری کرنے کا کام ہو کام کرنا چاہئے۔


انتہائی دولت مندی اور انتہائی مفلسی دونوں کو ختم کرنا چاہئے

جی ہاں انتہائی دولتمند کو ختم کرنے کا طریقہ ناصرالدین شاہ پر قاتلانا حملہ کرکے قتل کرنے پر کامیابی حاصل ہوسکتی ہے اور انتہائی مفلسی کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہندوستان جیسے سات ممالک میں ایسی عبادت گاہیں بنائی جائیں جس میں ۱۰ کروڑ مالیت کے صرف اٹالین ماربل لگائے جائیں۔ کہاں ہے وہ علم و اصول و عمل میں ہم آہنگی۔


انسانی زندگی کے محرک اعلی روح القدس الٰہی ہونا چاہئے

عباس آفندی نے اپنی کتا ب"SOME ANSWERED QUESTIONS” ۔۳۴۳ ۔ ۳۴۱ " Page ۔۱پر صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو اخذ کرنے یا قبول کرنے اور رد کرنے کے چار طریقے ہیں۔ اور وہ یہ ہیں (۱) احساس (حواسِ خمسہ کے ذریعے) (۲) عقل انسانی (۳) نقلی یعنی حوالوں کے ذریعے ۔ (۴) روح القدس کے ذریعے پھر فرماتے ہیں کہ پہلے تین یعنی احساس ، عقل انسانی اور نقلی طریقہ کامیاب نہیں اور اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ قابل اعتماد صرف اور صرف روح القدس ہیں ۔


معلوم یہ ہوتا ہے کہ عباس آفندی نے یہ جواب دیتے ہوئے اس فارمولے پر عمل کیا ہے کہ جو اب دیتے ہوئے ۔ اگر مطمئن نہ کر پاوٴ تو کنفیوز کردو۔ بیچارے کو یہ نہیں معلوم کہ روح القدس کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ہمیشہ ہوں ۔ بھائی کتنے روح القدس ہیں ۔بروایت رسول اللہ کی وفات کے بعد روح القدس کا آنا جانا ختم ہو گیا۔ تو پھر اب ایک عام انسان کیسے اس بات کا فیصلہ کرے کہ بیان کردہ چیز صحیح ہے یا نہیں؟ یہی تو بہائی حضرات چاہتے ہیں کہ چونکہ آپ اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتے لہٰذا قبول کیجئے۔ ہوسکتا ہے عباس آفندی صاحب بہت گہری میوزک سن رہے ہوں اس وقت جب انہوں نے یہ جواب دیا ہو۔


قارئین ملاحظہ فرمائیں۔ کہاں اسلامی قوانین جنہیں خداوند عالم نے اپنے معصوم نبی حضرت سیّدنا محمّد مصطفیٰ ﷺ وبارک کے ذریعہ نافذ کئے اور کہاں یہ بہت سارے خاطی مخلوق کے بنائے ہوئے قوانین۔ اس کے علاوہ جو ان قوانین اور الٰہی قوانین میں فرق ہے وہ مقصد کا فرق ہے ۔ الٰہی قوانین کا مقصد انسان کو دین و دنیا میں سخت ترین مراحل کو طے کرتے ہوئے ابدی فتح وکامرانی سے ہمکنار کرنا ہے ۔ فطرت انسانی یا دوسرے الفاظ میں روح انسانی کو راحت بخشنا ہے۔ جبکہ ان مخلوقی قوانین کا مقصد انسانی روح کو اتنا دھوکا دینا ہے کہ روح صفحہ ھستی سے اپنا ا صل بھیس بدل کر نیست و نابود ہوجائے اور انسان ابدی پریشانی اور ابدی نالہ و بکا میں مبتلا ہوتا رہے۔ اے کاش کہ قدرت خداوندی کو ایک بار اس مظلوم انسانیت پر ترس آ جاتا اور وہ اپنے الٰہی نمائندے کے ذریعے ان باطل پرستوں کے چہروں سے نقاب ہٹا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باطل کو نیست و نابود کردیتا اور ایک منادی یہ ندا دیتا ہواانسانیت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سکون و اطمینان بخشتا ” قل جاء الحق و ذھق الباطل ان الباطل کان زھوقا“


نوٹ:۔ قارئین مضمون کی طوالت کی وجہ سے کہیں اگر حوالہ نہ دیا گیا ہو تو آپ ہم سے نہ صرف حوالہ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اصل کتاب کی فوٹو کاپی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔
 
Top