''پس جس حالت میں لوگ بیماریوں میں علاج کی غرض سے بعض جانوروں کا پیشاب بھی پی لیتے ہیں'' روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 218
مرزا غلام قادیانی کہ ہی عادت تھی اس طرح کے الٹے سیدھے اور غلیظ علاج کرنے کی۔ اس کا ثبوت بھی پیش خدمت ہے خود بیمار ہوا تو گندا کیچڑ (گارا) اپنے اوپر اور نیچے ڈلوایا اور ٹھیک ہوگیا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک (چوڑھا) گندی نالیاں صاف کرنے والا ایک بار عطاروں کے بازار میں چلا گیا ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی تو اس کی چونکہ گند میں رہنے کی عادت تھی گند کی بدبو سے ہی مانوس تھا تو خوشبو سونگھتے ہی بے ہوش ہوگیا لوگوں نے بہت کوشش کی طرح طرح کی خوشبوئیں لگایئں مگر جتنا اس کو خوشبو سنگھاتے وہ اور بے ہوش ہوتا گیا کافی دیر کے بعد اس کی بیوی کو پتا چلا وہ بھاگی بھاگی آئی اور اپنی مٹھی اپنے خاوند کی ناک کے قریب کی تو وہ اسی وقت اٹھ کے بیٹھ گیا لوگوں نے یہ دیکھا تو عورت سے پوچھا کہ کون سی دوا سنگھائی ہے؟ اس عورت نے کہا کہ آپ لوگوں کو اصل بات کا پتہ ہی نہیں ہے یہ ہے چوڑھا خوشبو سے تو بے ہوش ہوا تھا تم لوگ الٹا پھر اس کو ہوش میں لانے کے لیئے اور خوشبو سنگھا رہے تھے یہ گند میں رہتا ہے گند سے ہی تھیک ہو سکتا ہے میری مٹھی میں گٹر کا خشک گند ہے جیسے ہی اس کی ناک میں اس کی بدبو گئی ہوش میں آگیا یہ ہی مرزا قادیانی کا حال تھا ورنہ بتا دیں آج تک کس انسان نے جانور کا پیشاب پیئا ہے علاج کی خاطر؟
اور جس چیز کا علاج بتا رہا ہے مرزا غلام قادیانی وہ بھی غور سے پڑھیے کہتا ہے '' محض سچے خلوص اور نیک نیتی سے انسانوں کی جان چھڑانے کے لیئے ایک آزمودہ اور پاک تجویز پیش کی گئی ہے''
مطلب صاف صاف واضع ہے کہ اس تجویز سے وہ انسانوں سے نیک نیتی سچا خلوص نکالنا چاہتا ہے پوری عبارت پڑھ لو یہ ہی مطلب بنتا ہے اور یہی الفاظ ہیں
مرزا غلام قادیانی کہ ہی عادت تھی اس طرح کے الٹے سیدھے اور غلیظ علاج کرنے کی۔ اس کا ثبوت بھی پیش خدمت ہے خود بیمار ہوا تو گندا کیچڑ (گارا) اپنے اوپر اور نیچے ڈلوایا اور ٹھیک ہوگیا۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ایک (چوڑھا) گندی نالیاں صاف کرنے والا ایک بار عطاروں کے بازار میں چلا گیا ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی تو اس کی چونکہ گند میں رہنے کی عادت تھی گند کی بدبو سے ہی مانوس تھا تو خوشبو سونگھتے ہی بے ہوش ہوگیا لوگوں نے بہت کوشش کی طرح طرح کی خوشبوئیں لگایئں مگر جتنا اس کو خوشبو سنگھاتے وہ اور بے ہوش ہوتا گیا کافی دیر کے بعد اس کی بیوی کو پتا چلا وہ بھاگی بھاگی آئی اور اپنی مٹھی اپنے خاوند کی ناک کے قریب کی تو وہ اسی وقت اٹھ کے بیٹھ گیا لوگوں نے یہ دیکھا تو عورت سے پوچھا کہ کون سی دوا سنگھائی ہے؟ اس عورت نے کہا کہ آپ لوگوں کو اصل بات کا پتہ ہی نہیں ہے یہ ہے چوڑھا خوشبو سے تو بے ہوش ہوا تھا تم لوگ الٹا پھر اس کو ہوش میں لانے کے لیئے اور خوشبو سنگھا رہے تھے یہ گند میں رہتا ہے گند سے ہی تھیک ہو سکتا ہے میری مٹھی میں گٹر کا خشک گند ہے جیسے ہی اس کی ناک میں اس کی بدبو گئی ہوش میں آگیا یہ ہی مرزا قادیانی کا حال تھا ورنہ بتا دیں آج تک کس انسان نے جانور کا پیشاب پیئا ہے علاج کی خاطر؟
اور جس چیز کا علاج بتا رہا ہے مرزا غلام قادیانی وہ بھی غور سے پڑھیے کہتا ہے '' محض سچے خلوص اور نیک نیتی سے انسانوں کی جان چھڑانے کے لیئے ایک آزمودہ اور پاک تجویز پیش کی گئی ہے''
مطلب صاف صاف واضع ہے کہ اس تجویز سے وہ انسانوں سے نیک نیتی سچا خلوص نکالنا چاہتا ہے پوری عبارت پڑھ لو یہ ہی مطلب بنتا ہے اور یہی الفاظ ہیں