مرتضیٰ مہر
رکن ختم نبوت فورم
’’کسی سچے اور عقلمند او ر صاف دل انسان کے کلام میں اتنا تناقض نہیں ہوتا ۔ ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو ۔ اس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتا ہے ۔‘‘ (ست بچن ص 30،خزائن ج 10ص142)
اگر آپ لوگوں نے مرزا کا یہ اصول پڑھ لیا ہے تو نیچے کے بھی دو اقتباس پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ مرزا پاگل ،مجنون ،منافق انگریزوں کا خوشامدی اور اپنے کلام میں تناقض رکھنے والا انسان ان مذکورہ القابات کا سب سے زیادہ روئے زمین پر حقدار ہے ۔ کسی مدعی نبوت کے کلام میں تناقض اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ منجانب اللہ نہیں ہے۔
ملاحظہ ہو پہلا حوالہ
یہود خود یقیناًاعتقاد نہیں رکھتے کہ اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے ۔(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 278)
اب ملاحظہ فرمائیں دوسرا حوالہ
کسی شخص نے اعتراض کیا کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما قتلوہ وما صلبوہ (النسا:158) نہ قتل کیا اور نہ صلیب دیا ۔ اس میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے ؛ حالانکہ پہلے کسی کو صلیب پر چڑھایا جاتا ہے اور بعد میں صلیب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قتل ہو جائے ۔ برخلاف اس کے قرآن شریف میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے ہے ۔ فرمایا:۔
اؤل تو یہود کا اعتراض جو قرآن شریف میں درج ہے وہ یہی ہے کہ انا قتلنا المسیح (النساء:158)یعنی ہم نے مسیح کو قتل کیا ۔ چونکہ اُنہوں نے قتل کا لفظ بولا تھا ۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے پہلے لفظ کی ہی نفی کی ۔ دوم یہ کہ یہود میں دو روایتیں تھیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے یسوع کو تلوار سے قتل کر دیاہے اور دوسرا یہ کہ اس کو صلیب پر مارا ہے ۔پس اللہ تعالیٰ نے ہر دو کی جدا جدا نفی کی تیسری بات یہ ہے کہ یہودیوں کی بعض پرانی کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ یسوع کو پہلے سنگسار کیا گیا تھا اور جب وہ مر گیا تو بعد میں اس کو کاٹھ پر لٹکایا گیایعنی پہلے قتل ہوا اور پیچھے صلیب ۔پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نفی کی اور فرمایا کہ یہود جھوٹے ہیں ۔ نہ حضرت مسیح اُن کے ہاتھوں قتل ہوئے اور نہ صلیب کے ذریعے سے مارے گئے ۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ نمبر 352)
اصلی صفحات
اگر آپ لوگوں نے مرزا کا یہ اصول پڑھ لیا ہے تو نیچے کے بھی دو اقتباس پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ مرزا پاگل ،مجنون ،منافق انگریزوں کا خوشامدی اور اپنے کلام میں تناقض رکھنے والا انسان ان مذکورہ القابات کا سب سے زیادہ روئے زمین پر حقدار ہے ۔ کسی مدعی نبوت کے کلام میں تناقض اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ منجانب اللہ نہیں ہے۔
ملاحظہ ہو پہلا حوالہ
یہود خود یقیناًاعتقاد نہیں رکھتے کہ اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے ۔(ضمیمہ براہین احمدیہ صفحہ 278)
اب ملاحظہ فرمائیں دوسرا حوالہ
کسی شخص نے اعتراض کیا کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما قتلوہ وما صلبوہ (النسا:158) نہ قتل کیا اور نہ صلیب دیا ۔ اس میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے ؛ حالانکہ پہلے کسی کو صلیب پر چڑھایا جاتا ہے اور بعد میں صلیب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قتل ہو جائے ۔ برخلاف اس کے قرآن شریف میں قتل کا ذکر پہلے ہے اور صلیب کا پیچھے ہے ۔ فرمایا:۔
اؤل تو یہود کا اعتراض جو قرآن شریف میں درج ہے وہ یہی ہے کہ انا قتلنا المسیح (النساء:158)یعنی ہم نے مسیح کو قتل کیا ۔ چونکہ اُنہوں نے قتل کا لفظ بولا تھا ۔ اس واسطے اللہ تعالیٰ نے پہلے لفظ کی ہی نفی کی ۔ دوم یہ کہ یہود میں دو روایتیں تھیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے یسوع کو تلوار سے قتل کر دیاہے اور دوسرا یہ کہ اس کو صلیب پر مارا ہے ۔پس اللہ تعالیٰ نے ہر دو کی جدا جدا نفی کی تیسری بات یہ ہے کہ یہودیوں کی بعض پرانی کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ یسوع کو پہلے سنگسار کیا گیا تھا اور جب وہ مر گیا تو بعد میں اس کو کاٹھ پر لٹکایا گیایعنی پہلے قتل ہوا اور پیچھے صلیب ۔پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی نفی کی اور فرمایا کہ یہود جھوٹے ہیں ۔ نہ حضرت مسیح اُن کے ہاتھوں قتل ہوئے اور نہ صلیب کے ذریعے سے مارے گئے ۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ نمبر 352)
اصلی صفحات