(تبدیلی مذہب کا سوال نہیں)
2884تو یہ دجل وفریب کا ایک ایسا جال ہے کہ جس سے ایک ایسا غیرطبعی مادہ ملت کے جسم کے اندر اسی(۸۰)، نوے(۹۰) سال سے پرورش پارہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ملت کو چین نصیب نہیں ہوا اور اب اس کے پنجے باہر بھی بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسی حکومت کو، کسی اسمبلی کو، یہ حق نہیں ہے کہ وہ زبردستی کسی کا مذہب تبدیل کرائے۔ یہ باہر کے لئے پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے نہایت مکروہ اور گھناؤنا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ یعنی کہیں یہ بات نہیں آئی کہ جبراً ان کا مذہب بدل دیا جائے۔ ان کے عقائد بدل دئیے جائیں۔ اس سے زیادہ فیاضی اور روادارانہ بات کیا ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمہارے جو معتقدات ہیں تم ان کی رو سے مسلمان نہیں ہو۔ اگر تم مسلمان ہو تو ہم مسلمان نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو دستور میں یہ لکھ دیں کہ ہم سب کافر ہیں یا پھر ان کے لئے لکھنا ہوگا۔ اس میں تبدیلی مذہب کا سوال ہی نہیں ہے۔ بلکہ دو الگ الگ امتیں ہیں، ان کا تعین کرنا ہے۔ یہ صرف پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دنیا میں پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ قرآن کی آیت پیش کی جاتی ہے۔ ’’
لا اکرہ فی الدین
‘‘ کون جبر کر رہا ہے؟ اس سے زیادہ فضول قسم کا عقیدہ بھی کوئی رکھتا ہے؟
باقی مملکت پاکستان کا معاملہ ہے۔ ہر مملکت کو اپنی جغرافیائی حدود کے تحفظ کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے۔ ہماری مملکت ایک نظریاتی مملکت ہے۔ ہمارا یہ حق ہی نہیں بلکہ فرض ہو جاتا ہے کہ اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں۔ اگر اس فرض میں کوئی کوتاہی کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک کے ساتھ غداری کرتا ہے۔ لہٰذا اسلام کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اس کا نہ صرف اختیار ہے بلکہ یہ بنیادی فرائض میں ہے۔ اگر کوتاہی کرے تو وہ اپنے فرائض سے غداری برت رہا ہے۔