خالس سنی
رکن ختم نبوت فورم
تعارف مصنف
تبیا ن القران عصر حاضر کے عظیم مفسر و محدث علامہ غلام رسول سعیدی کی مایہ ناز شہرہ آ فاق تفسیر ہے۔12 جلدوں پر مشتمل ہے۔اسکی جلد 10 صفحہ 703 تا 712 سے تحقیقی اقتباس لیا ہے۔اس میں "نزول عیسیٰ علیہ السلام پر مرزا ّیوں کے اعترا ضات کےزبردست جوابات کے علاوہ مرزا کی جھو ٹی نبوت کا بطلان اور اسکا کفر ثابت کیا گیا ہے۔
وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَةً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَ 60وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِفَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 61
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ فرشتے پیدا کردیتے جو تمہارے بعد زمین میں رہتے اور بے شک وہ (ابن مریم) ضرور قیامت کی نشانی ہیں، سو (اے مخاطب !) تم قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہی صراط مستقیم ہے اور شیطان تم کو روکنے نہ پائے، بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے (الزخرف : 60-62)
فرشتوں کے اللہ کی بیٹیاں نہ ہونے کی ایک اور دلیل
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے جو تمہارے بعد زمین میں رہتے، بستے اور فرشتوں کے آسمانوں پر رہنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے حتیٰ کہ ان کی عبادت کی جائے یا یہ کہا جائے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٩٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اے مردو ! ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے اور تمہارے بعد زمین پر فرشتے اس طرح رہتے جس طرح تمہاری اولاد تمہارے بعد رہتی ہے اور جس طرح ہم نے عیسیٰ کو عورت سے بغیر مرد کے پیدا کردیا تاکہ تم ہماری عظیم قدرت کو پہچانو اور تم یہ جان لو کہ فرشتوں کا بھی اسی طرح پیدا ہونا ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہوں۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٤٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے نازل ہونے کی تحقیق
الزخرف : ٦٣۔ ٦٢ میں فرمایا : اور بے شک وہ (ابن مریم) ضرور قیامت کی نشانی ہیں، سو (اے مخاطب !) تم قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہی صراط مستقیم ہے اور شیطان تم کو روکنے نہ پائے، بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے“
حضرت ابن عباس (رض)، مجاہد، ضحاک اور قتادہ سے روایت ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خروج مراد ہے کیونکہ وہ قیامت کی علامتوں میں سے ہیں، وقوع قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے نازل فرمائے گا، جیسا کہ خروج دجال بھی قیامت کی علامتوں میں سے ہے اور اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت عیسیٰ کے آسمان سے نزول کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، احکام نافذ کرنیوالے، عدل کرنے والے، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، حتیٰ کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا اور تم چاہو تو اس کی تصدیق میں یہ آیت پڑھو : ” اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا“۔ (النساء : ١٥٩) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٤٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٨)
حضرت نواس بن سمعان کلابی (رض) ایک طویل حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ ایک صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دجال کے تذکرہ میں فرمایا : حضرت عیسیٰ ابن مریم جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی منارہ پر اس حال میں اتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حلے پہنے ہوئے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوئوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے جب آپ سر نیچا کریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اوپر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٣٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٢١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٤٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور وہ (آسمان سے) نازل ہوں گے، جب تم ان کو دیکھو گے تو پہچان لو گے، ان کا رنگ سرخی آمیزسفید ہوگا، قد متوسط ہوگا، وہ ہلکے زرد حلے پہنے ہوئے ہوں گے، ان پر تری نہیں ہوگی، لیکن گویا ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور وہ لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، جزیہ موقوف کردیں گے، اللہ ان کے زمانہ میں اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو مٹا دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، چالیس سال زمین میں قیام کرنے کے بعدوفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٢٤، مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٧)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میں لوگوں کی بہ نسبت ابن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء باپ شریک بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور امام تم میں سے ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٥٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣٣)
حضرت عیسیٰ کے آسمان سے نزول کے متعلق قرآن مجید کی آیات
وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما اقتلوہ وما صلبوہ ولکن شیہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ وکان اللہ عزیزاً حکیما
(النساء : 157-158)
(اور یہود کا کفر) ان کے اس قول کی وجہ سے ہے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا، حالانکہ انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ انہوں نے اس کو سولی دی لیکن ان کے لیے (کسی شخص کو عیسیٰ کا) مشابہ بنادیا گیا تھا اور بے شک جنہوں نے اس کے معاملہ میں اختلاف کیا وہ ضرور اس کے متعلق شک میں ہیں، انہیں اس کا بالکل یقین نہیں ہے، ہاں وہ اپنے گمان کے مطابق کہتے ہیں اور انہوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بہت غالب نہایت حکمت والا ہے
یہود کا کفر کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کے قتل کا دعویٰ کیا
اس آیت میں یہود کے ایک اور کفر کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کا بہت بڑا کفر ہے، کیونکہ اس قول سے یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس میں بہت کوشش کرتے تھے، ہرچند کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قاتل نہیں تھے لیکن چونکہ وہ فخریہ طور پر یہ کہتے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے، اس لیے ان کا یہ قول کفر یہ قرار پایا۔
یہود کا حضرت عیسیٰ کے مشابہ کو قتل کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” انہوں نے (حضرت) عیسیٰ(علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا نہ انہوں نے ان کو سولی دی لیکن ان کے لیے کسی شخص (عیسیٰ کا) مشابہ بنا دیا گیا تھا“۔
امام بو جعفر ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ سترہ حواریوں کے ساتھ ایک گھر میں اس وقت داخل ہوئے جب یہودیوں نے ان کو گھیر لیا تھا، جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی صورت حضرت عیسیٰ کی صورت کی طرح بنادی، یہودیوں نے ان سے کہا : تم نے ہم پر جادو کردیا ہے، تم بہ بتلائو کہ تم میں سے عیسیٰ کون ہے ورنہ ہم سب کو قتل کردیں گے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے کہا : تم میں سے کون آج اپنی جان کو جنت کے بدلہ میں فروخت کرتا ہے ؟ ان میں سے ایک حواری نے کہا : میں ! وہ یہودیوں کے پاس گیا اور کہا : میں عیسیٰ ہوں، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت حضرت عیسیٰ کی طرح بنائی ہوئی تھی، انہوں نے اس کو پکڑ کر قتل کردیا اور سولی پر لٹکا دیا، اس وجہ سے وہ شخص ان کے لیے حضرت عیسیٰ کے مشابہ کردیا گیا تھا، یہودیوں نے گمان کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے اور عیسائیوں نے بھی یہی گمان کرلیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اسی دن اٹھا لیا تھا۔
(جامع البیان جز ٦ ص ١٧، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں :
ابو علی جبائی نے کہا ہے کہ یہودی سرداروں نے ایک انسان کو پکڑ کر قتل کردیا اور اس کو ایک اونچی جگہ پر سولی دے دی اور کسی شخص کو اس کے قریب جانے نہیں دیا حتیٰ کے اس کا حلیہ متغیرہ ہوگیا اور ان یہودیوں نے کہا : ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا تاکہ ان کے عوام اس وہم میں رہیں، کیونکہ یہودیوں نے جس مکان میں حضرت عیسیٰ کو بند کررکھا تھا جب وہ اس میں داخل ہوئے تو وہ مکان خالی تھا اور ان کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ واقعہ یہودیوں کے ایمان لانے کا سبب نہ بن جائے، اس لیے انہوں نے ایک شخص کو قتل کرکے یہ مشہور کردیا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک حواری منافق تھا، اس نے یہودیوں سے تیس درہم لے کر یہ کہا کہ میں تم کو بتادوں گا کہ عیسیٰ کہاں چھپے ہیں، وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے گھر میں داخل ہوا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا گیا اور اس منافق کے اوپر حضرت عیسیٰ کا شبہ ڈال دی گئی، یہودیوں نے اس کو اس گمان میں قتل کردیا کہ وہ حضرت عیسیٰ ہے۔
(امام ابن جریر نے جامع البیان جز ٦ ص ١٨ اور حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر کی ج ٢ ص ٤٣١۔ ٤٣٠ پر اس روایت کو وہب بن منبہ سے بہت تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے)
(روح المعانی جز ٦ ص ١٠، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
” بل رفعہ اللہ الیہ“ پر مرزائیہ کے اعتراض کے جوابات
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا“ مرزائی اس آیت سے استدلال کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں رفع سے مراد ہے : روح کا اٹھا لینا، ان کا یہ کہنا اس لیے غلط اور باطل ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ میں کلام سابق سے اضراب ہے، کلام سابق میں جس چیز کی نفی کی ہے ” بل“ سے اضراب کرکے اس چیز کا اثبات کیا ہے، کلام سابق میں مذکور ہے کہ یہود نے کہا تھا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے اور ان کو سولی دی ہے، ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کے جسم مع روح کو قتل کیا ہے اور ان کے جسم مع روح کو سولی دی ہے، کیونکہ روح کو قتل کرنا اور اس کو سولی دینا غیر معقول ہے اور نہ یہ یہود کا دعویٰ تھا۔ پس ” بل“ سے پہلے جسم مع روح کو قتل کرنے کا ذکر تھا تو ” بل“ کے بعد جسم مع روح کے رفع اور اس کے اٹھانے کا ذکر ہے اور اس کو صرف روح کے رفع اور اٹھانے پر محمول کرنا سیاق وسباق اور قواعد نحو کے خلاف ہے اور غلط اور باطل ہے۔ لہٰذا اس آیت سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ کے جسم مع روح کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔
اس آیت سے استدلال پر مرزائیہ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حدیث میں ہے : حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
من تواضع اللہ رفعہ اللہ۔
جس نے اللہ کے لیے تواضع کی اللہ اس کا مرتبہ بلند فرماتا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء ج ٧ ص ١٢٩، العلل المتناہیہ ج ٢ ص ٣٢٥، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥١١٩)
سو جس طرح اس حدیث میں رفع کا معنی رفع درجات ہے اسی طرح ” بل رفعہ اللہ الیہ“ کا معنی بھی یہ ہے : اللہ نے حضرت عیسیٰ کے درجات بلند کیے، نہ کہ یہ کہ ان کو زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا۔
اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :
اس حدیث کی سند بہت رقیق ہے، اس میں راوی ہے سعید بن سلام، ابن نمیر نے کہا : یہ کذاب ہے، امام بخاری نے کہا : یہ حدیث وضع کرتا ہے۔ امام نسائی نے کہا : یہ ضعیف ہے، امام احمد بن حنبل نے کہا : یہ عذاب ہے۔
(میزان الاعتدال ج ٣ ص ٢٠٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ٤١٦ ھ)
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ متعین ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ“ کا معنی یہ ہے : اللہ تعالیٰ نے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا نہ یہ کہ ان کے درجہ کو بلند فرمایا۔
اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ کا معنی ان کا درجہ بلند کرنا مجاز ہے اور مجاز پر اس وقت محمول کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور یہاں حقیقت محال نہیں ہے، نیز ” بل رفعہ اللہ “ کے ساتھ ” الیہ“ بھی مذکور ہے، اگر اس کا معنی درجہ بلند کرنا ہوتا تو پھر الیہ کی ضرورت نہ تھی۔
مرزائیہ کا اس استدلال پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ“ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا حالانکہ تمہارا مدعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان والے سے تعبیر کیا گیا ہے، قرآن مجید میں ہے :
ء امنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض فاذا ھی تمور (الملک :16)
کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کو آسمان والا تم کو زمین میں دھنسا دے اور زمین اچانک لرزنے لگے
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وحی کے منتظر ہوتے تو آسمان کی طرف دیکھتے تھے :
قد نری تقلب وجھک فی السماء
(البقرہ :144)
بے شک ہم آپ کے چہر کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
اس لیے زیر بحث آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں کا کنایہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور اس کی تائید اور تقویت ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور قرب قیامت میں وہ آسمان سے نازل ہوں گے اور اس پر اجماع امت ہے، مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی براہین احمدیہ میں یہی لکھا ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا۔
تبیا ن القران عصر حاضر کے عظیم مفسر و محدث علامہ غلام رسول سعیدی کی مایہ ناز شہرہ آ فاق تفسیر ہے۔12 جلدوں پر مشتمل ہے۔اسکی جلد 10 صفحہ 703 تا 712 سے تحقیقی اقتباس لیا ہے۔اس میں "نزول عیسیٰ علیہ السلام پر مرزا ّیوں کے اعترا ضات کےزبردست جوابات کے علاوہ مرزا کی جھو ٹی نبوت کا بطلان اور اسکا کفر ثابت کیا گیا ہے۔
وَلَوْ نَشَاۗءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَّلٰۗىِٕكَةً فِي الْاَرْضِ يَخْلُفُوْنَ 60وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِفَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ 61
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اور اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ فرشتے پیدا کردیتے جو تمہارے بعد زمین میں رہتے اور بے شک وہ (ابن مریم) ضرور قیامت کی نشانی ہیں، سو (اے مخاطب !) تم قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہی صراط مستقیم ہے اور شیطان تم کو روکنے نہ پائے، بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے (الزخرف : 60-62)
فرشتوں کے اللہ کی بیٹیاں نہ ہونے کی ایک اور دلیل
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے جو تمہارے بعد زمین میں رہتے، بستے اور فرشتوں کے آسمانوں پر رہنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے حتیٰ کہ ان کی عبادت کی جائے یا یہ کہا جائے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ٩٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اے مردو ! ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے اور تمہارے بعد زمین پر فرشتے اس طرح رہتے جس طرح تمہاری اولاد تمہارے بعد رہتی ہے اور جس طرح ہم نے عیسیٰ کو عورت سے بغیر مرد کے پیدا کردیا تاکہ تم ہماری عظیم قدرت کو پہچانو اور تم یہ جان لو کہ فرشتوں کا بھی اسی طرح پیدا ہونا ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے کہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہوں۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٦٤٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان سے نازل ہونے کی تحقیق
الزخرف : ٦٣۔ ٦٢ میں فرمایا : اور بے شک وہ (ابن مریم) ضرور قیامت کی نشانی ہیں، سو (اے مخاطب !) تم قیامت میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہی صراط مستقیم ہے اور شیطان تم کو روکنے نہ پائے، بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے“
حضرت ابن عباس (رض)، مجاہد، ضحاک اور قتادہ سے روایت ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خروج مراد ہے کیونکہ وہ قیامت کی علامتوں میں سے ہیں، وقوع قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے نازل فرمائے گا، جیسا کہ خروج دجال بھی قیامت کی علامتوں میں سے ہے اور اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت عیسیٰ کے آسمان سے نزول کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے، احکام نافذ کرنیوالے، عدل کرنے والے، وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور اس قدر مال لٹائیں گے کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، حتیٰ کہ ایک سجدہ کرنا دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوگا اور تم چاہو تو اس کی تصدیق میں یہ آیت پڑھو : ” اہل کتاب میں سے ہر شخص حضرت عیسیٰ کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا“۔ (النساء : ١٥٩) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٤٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٨)
حضرت نواس بن سمعان کلابی (رض) ایک طویل حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ ایک صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دجال کے تذکرہ میں فرمایا : حضرت عیسیٰ ابن مریم جامع مسجد دمشق کے سفید مشرقی منارہ پر اس حال میں اتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حلے پہنے ہوئے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوئوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے جب آپ سر نیچا کریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اوپر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٣٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٢١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٤٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور وہ (آسمان سے) نازل ہوں گے، جب تم ان کو دیکھو گے تو پہچان لو گے، ان کا رنگ سرخی آمیزسفید ہوگا، قد متوسط ہوگا، وہ ہلکے زرد حلے پہنے ہوئے ہوں گے، ان پر تری نہیں ہوگی، لیکن گویا ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور وہ لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، جزیہ موقوف کردیں گے، اللہ ان کے زمانہ میں اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو مٹا دے گا، وہ مسیح دجال کو ہلاک کریں گے، چالیس سال زمین میں قیام کرنے کے بعدوفات پائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٣٢٤، مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٧)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میں لوگوں کی بہ نسبت ابن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء باپ شریک بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٦٧٥)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور امام تم میں سے ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٥٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣٣)
حضرت عیسیٰ کے آسمان سے نزول کے متعلق قرآن مجید کی آیات
وقولھم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما اقتلوہ وما صلبوہ ولکن شیہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ وکان اللہ عزیزاً حکیما
(النساء : 157-158)
(اور یہود کا کفر) ان کے اس قول کی وجہ سے ہے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا، حالانکہ انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ انہوں نے اس کو سولی دی لیکن ان کے لیے (کسی شخص کو عیسیٰ کا) مشابہ بنادیا گیا تھا اور بے شک جنہوں نے اس کے معاملہ میں اختلاف کیا وہ ضرور اس کے متعلق شک میں ہیں، انہیں اس کا بالکل یقین نہیں ہے، ہاں وہ اپنے گمان کے مطابق کہتے ہیں اور انہوں نے اس کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بہت غالب نہایت حکمت والا ہے
یہود کا کفر کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کے قتل کا دعویٰ کیا
اس آیت میں یہود کے ایک اور کفر کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کا بہت بڑا کفر ہے، کیونکہ اس قول سے یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس میں بہت کوشش کرتے تھے، ہرچند کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قاتل نہیں تھے لیکن چونکہ وہ فخریہ طور پر یہ کہتے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے، اس لیے ان کا یہ قول کفر یہ قرار پایا۔
یہود کا حضرت عیسیٰ کے مشابہ کو قتل کرنا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” انہوں نے (حضرت) عیسیٰ(علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا نہ انہوں نے ان کو سولی دی لیکن ان کے لیے کسی شخص (عیسیٰ کا) مشابہ بنا دیا گیا تھا“۔
امام بو جعفر ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ سترہ حواریوں کے ساتھ ایک گھر میں اس وقت داخل ہوئے جب یہودیوں نے ان کو گھیر لیا تھا، جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی صورت حضرت عیسیٰ کی صورت کی طرح بنادی، یہودیوں نے ان سے کہا : تم نے ہم پر جادو کردیا ہے، تم بہ بتلائو کہ تم میں سے عیسیٰ کون ہے ورنہ ہم سب کو قتل کردیں گے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے کہا : تم میں سے کون آج اپنی جان کو جنت کے بدلہ میں فروخت کرتا ہے ؟ ان میں سے ایک حواری نے کہا : میں ! وہ یہودیوں کے پاس گیا اور کہا : میں عیسیٰ ہوں، اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی صورت حضرت عیسیٰ کی طرح بنائی ہوئی تھی، انہوں نے اس کو پکڑ کر قتل کردیا اور سولی پر لٹکا دیا، اس وجہ سے وہ شخص ان کے لیے حضرت عیسیٰ کے مشابہ کردیا گیا تھا، یہودیوں نے گمان کیا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے اور عیسائیوں نے بھی یہی گمان کرلیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اسی دن اٹھا لیا تھا۔
(جامع البیان جز ٦ ص ١٧، مطبوعہ دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی لکھتے ہیں :
ابو علی جبائی نے کہا ہے کہ یہودی سرداروں نے ایک انسان کو پکڑ کر قتل کردیا اور اس کو ایک اونچی جگہ پر سولی دے دی اور کسی شخص کو اس کے قریب جانے نہیں دیا حتیٰ کے اس کا حلیہ متغیرہ ہوگیا اور ان یہودیوں نے کہا : ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا تاکہ ان کے عوام اس وہم میں رہیں، کیونکہ یہودیوں نے جس مکان میں حضرت عیسیٰ کو بند کررکھا تھا جب وہ اس میں داخل ہوئے تو وہ مکان خالی تھا اور ان کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ واقعہ یہودیوں کے ایمان لانے کا سبب نہ بن جائے، اس لیے انہوں نے ایک شخص کو قتل کرکے یہ مشہور کردیا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کردیا اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے ایک حواری منافق تھا، اس نے یہودیوں سے تیس درہم لے کر یہ کہا کہ میں تم کو بتادوں گا کہ عیسیٰ کہاں چھپے ہیں، وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے گھر میں داخل ہوا تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا گیا اور اس منافق کے اوپر حضرت عیسیٰ کا شبہ ڈال دی گئی، یہودیوں نے اس کو اس گمان میں قتل کردیا کہ وہ حضرت عیسیٰ ہے۔
(امام ابن جریر نے جامع البیان جز ٦ ص ١٨ اور حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر کی ج ٢ ص ٤٣١۔ ٤٣٠ پر اس روایت کو وہب بن منبہ سے بہت تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے)
(روح المعانی جز ٦ ص ١٠، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
” بل رفعہ اللہ الیہ“ پر مرزائیہ کے اعتراض کے جوابات
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا“ مرزائی اس آیت سے استدلال کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں رفع سے مراد ہے : روح کا اٹھا لینا، ان کا یہ کہنا اس لیے غلط اور باطل ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ میں کلام سابق سے اضراب ہے، کلام سابق میں جس چیز کی نفی کی ہے ” بل“ سے اضراب کرکے اس چیز کا اثبات کیا ہے، کلام سابق میں مذکور ہے کہ یہود نے کہا تھا کہ ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے اور ان کو سولی دی ہے، ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کے جسم مع روح کو قتل کیا ہے اور ان کے جسم مع روح کو سولی دی ہے، کیونکہ روح کو قتل کرنا اور اس کو سولی دینا غیر معقول ہے اور نہ یہ یہود کا دعویٰ تھا۔ پس ” بل“ سے پہلے جسم مع روح کو قتل کرنے کا ذکر تھا تو ” بل“ کے بعد جسم مع روح کے رفع اور اس کے اٹھانے کا ذکر ہے اور اس کو صرف روح کے رفع اور اٹھانے پر محمول کرنا سیاق وسباق اور قواعد نحو کے خلاف ہے اور غلط اور باطل ہے۔ لہٰذا اس آیت سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ کے جسم مع روح کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا۔
اس آیت سے استدلال پر مرزائیہ کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حدیث میں ہے : حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
من تواضع اللہ رفعہ اللہ۔
جس نے اللہ کے لیے تواضع کی اللہ اس کا مرتبہ بلند فرماتا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء ج ٧ ص ١٢٩، العلل المتناہیہ ج ٢ ص ٣٢٥، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥١١٩)
سو جس طرح اس حدیث میں رفع کا معنی رفع درجات ہے اسی طرح ” بل رفعہ اللہ الیہ“ کا معنی بھی یہ ہے : اللہ نے حضرت عیسیٰ کے درجات بلند کیے، نہ کہ یہ کہ ان کو زندہ آسمان کی طرف اٹھا لیا۔
اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :
اس حدیث کی سند بہت رقیق ہے، اس میں راوی ہے سعید بن سلام، ابن نمیر نے کہا : یہ کذاب ہے، امام بخاری نے کہا : یہ حدیث وضع کرتا ہے۔ امام نسائی نے کہا : یہ ضعیف ہے، امام احمد بن حنبل نے کہا : یہ عذاب ہے۔
(میزان الاعتدال ج ٣ ص ٢٠٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ٤١٦ ھ)
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت کے سیاق وسباق سے یہ متعین ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ“ کا معنی یہ ہے : اللہ تعالیٰ نے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا نہ یہ کہ ان کے درجہ کو بلند فرمایا۔
اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ “ کا معنی ان کا درجہ بلند کرنا مجاز ہے اور مجاز پر اس وقت محمول کیا جاتا ہے جب حقیقت محال ہو اور یہاں حقیقت محال نہیں ہے، نیز ” بل رفعہ اللہ “ کے ساتھ ” الیہ“ بھی مذکور ہے، اگر اس کا معنی درجہ بلند کرنا ہوتا تو پھر الیہ کی ضرورت نہ تھی۔
مرزائیہ کا اس استدلال پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ” بل رفعہ اللہ الیہ“ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا حالانکہ تمہارا مدعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آسمان والے سے تعبیر کیا گیا ہے، قرآن مجید میں ہے :
ء امنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض فاذا ھی تمور (الملک :16)
کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کو آسمان والا تم کو زمین میں دھنسا دے اور زمین اچانک لرزنے لگے
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب وحی کے منتظر ہوتے تو آسمان کی طرف دیکھتے تھے :
قد نری تقلب وجھک فی السماء
(البقرہ :144)
بے شک ہم آپ کے چہر کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
اس لیے زیر بحث آیت میں بھی اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں کا کنایہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور اس کی تائید اور تقویت ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں تصریح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں کی طرف اٹھا لیا اور قرب قیامت میں وہ آسمان سے نازل ہوں گے اور اس پر اجماع امت ہے، مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی براہین احمدیہ میں یہی لکھا ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا۔