ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
۱۹۴۷ء میں پاکستان بنا۔ قادیانی جماعت کا لاٹ پادری مرزا محمود قادیان چھوڑ کر پاکستان آگیا۔ پنجاب کے پہلے انگریز گورنر موڈی کے حکم پر چنیوٹ کے قریب ان کو لب دریا ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین عطیہ کے طور پر الاٹ کی گئی۔ فی مرلہ ایک آنہ کے حساب سے صرف رجسٹری کے کل اخراجات 10,034/-روپے وصول کئے۔ قادیانیوں نے بلاشرکت غیرے وہاں پر اپنی اسٹیٹ ’’مرزائیل‘‘ کی اسرائیل کی طرز پر بنیاد رکھی۔ ظفراﷲ قادیانی پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنا۔ اس نے سرکاری خزانہ سے آب و دانہ کھا کر قادیانیت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ انگریز خود چلا گیا۔ مگر جاتے ہوئے اسلامیان برصغیر کے لئے اپنی لے پالک اولاد قادیانیت کے لئے ایک مضبوط بیس مہیا کرگیا۔ قادیانی علی الاعلان اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔ ان پر کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ قادیانیوں کی تعلّی اور لن ترانیاں دیکھ کر اسلامیان پاکستان کا ہردرد رکھنے والا شخص اس صورت سے پریشان تھا۔ قادیانی منہ زور گھوڑے کی طرح ہوا پر سوار تھے۔ ملک میں جداگانہ طرز انتخاب پر الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن قادیانیوں کو مسلمانوں کا حصہ شمار کیا گیا۔ چنانچہ اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے شیر اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو بریلوی مکتبہ فکر کے رہنما مولانا ابوالحسنات قادریؒ کے ہاں بھیجا۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث ، شیعہ مکاتب فکر اکٹھے ہوئے اور قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی۔ جسے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں مرکزی کردار ابنائے دارالعلوم دیوبند کا تھا۔ اس تحریک نے قادیانیوں کے منہ زور گھوڑے کو لنگڑا کردیا۔ ظفر اﷲ قادیانی ملعون اپنی وزارت سے آنجہانی ہوگیا۔ قادیانیت کی اس تڑاخ سے ہڈیاں ٹوٹیں کہ وہ زمین پر رینگنے لگی۔ عقیدئہ ختم نبوت کی ان عظیم خدمات پر دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔
قبل ازیں ۱۹۴۹ء میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے جس پلیٹ فارم کا اعلان ہوا تھا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد اسے مستقل جماعت کے طور پر قادیانیت کے احتساب کے لئے منظم کیا گیا جبکہ سیاسی و مذہبی طور پر اسلامیان پاکستان کی رہنمائی اور اسلامی نظام کے نفاذ اور اشاعت دین کے لئے ’’جمعیت علمائے اسلام پاکستان‘‘ کی تشکیل کی گئی۔ یہ سب ابنائے دارالعلوم کا کارنامہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے ایوبی دور میں مغربی پاکستان اسمبلی میں شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت باسعادت میں ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کے لئے جو خدمات انجام دیں۔ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ غرض مذہبی اور سیاسی اعتبار سے قادیانیت کا احتساب کیا گیا ’’مغربی آقائوں‘‘ کے اشارے پر قادیانی ’’فوج‘‘ و دیگر سرکاری دوائر میں سرگرم عمل تھے۔ علمائے کرام کی مستقل جماعت مولانا احمد علی لاہوریؒ مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ، مولانا گل بادشاہؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا خیر محمد جالندھریؒ، مولانا تاج محمودؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا عبدالرحمن میانویؒ، مولانا محمد حیاتؒ، مولانا عبدالقیومؒ، مولانا عبدالواحدؒ، مولانا محمد عبداﷲ درخواستی ؒ اور ان کے ہزاروں شاگرد لاکھوں متوسلین کروڑوں متعلقین نے جو خدمات سرانجام دیں۔ وہ سب دارالعلوم کا فیضان نظر ہے۔ سب اسماء گرامی کا استحضار و احصاء ممکن نہیں۔ وہ سب حضرات جنہوں نے اس سلسلہ میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ ہمارے ان الفاظ کے لکھنے کے محتاج نہیں۔ وہ یقینا رب کریم کے حضور اپنے حسنات کا اجر پاچکے ۔(فنعم اجر العاملین)
رابطہ عالم اسلامی کا سالانہ اجتماع اپریل ۱۹۷۴ء میں منعقد ہوا۔ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ، شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور دوسرے اکابرین دیوبند اس اجتماع میں نہ صرف موجود تھے۔ بلکہ اس قرار داد کو پاس کرانے کے داعی تھے۔ رابطہ عالم اسلامی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کے خلاف قرارداد منظور کی جو دور رس نتائج کی حامل ہے۔ اس سے پوری دنیا کے علمائے اسلام کا قادیانیت کے کفر پر اجماع منعقد ہوگیا۔
اﷲ رب العزت کے فضل و احسان کے بموجب ۱۹۷۰ء میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی مثالی جدوجہد سے مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ ،شیر اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحقؒ، مولانا عبدالحکیمؒ، مولانا صدر الشہیدؒ اور دیگر حضرات قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم برسر اقتدار آئے۔ قادیانیوں نے ۱۹۷۰ء میں پیپلز پارٹی کی دامے درمے اور افرادی مدد کی تھی۔ قادیانیوں نے پھر پرپرزے نکالے۔ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو چناب نگر (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں تحریک چلی۔ اسلامیان پاکستان ایک پلیٹ فارم ’’مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان‘‘ پر جمع ہوئے جس کی قیادت دارالعلوم دیوبند کے مرد جلیل، محدث کبیر مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے فرمائی اور قومی اسمبلی میں امت مسلمہ کی نمائندگی کا شرف حق تعالیٰ نے دارالعلوم دیوبند کے عظیم سپوت مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کو بخشا۔ یوں قادیانی قانونی طور پر اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ کہاں قادیانی اقتدار کا خواب اور کہاں چوہڑوں، چماروں میں ان کا شمار۔ اس پوری جدوجہد میں دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان کی خدمات اﷲ رب العزت کے فضل و کرم کا اظہار ہے۔ غرض دارالعلوم دیوبند کے سرپرست اول حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ کی ’’الف‘‘ سے تحفظ ختم نبوت کی جو تحریک شروع ہوئی۔ وہ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی ’’یائ‘‘ پر کامیابی سے سرفراز ہوئی۔
قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے متعلق جو کارروائی ہوئی وہ سب قومی ’’تاریخی دستاویز‘‘ کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے شائع کردی ہے۔ قومی اسمبلی میں دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتگان ہمارے اکابر نے مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت باسعادت میں قادیانیوں کو جس طرح چاروں شانے چت کیا۔ یہ دستاویز اس پر ’’شاہد عدل‘‘ ہے۔ قادیانیوں نے اسمبلی میں ایک محضر نامہ پیش کیا تھا۔ جس کا جواب مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی نگرانی میں مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سمیع الحق نے لکھا۔ حوالہ جات مولانا محمد حیاتؒ اور مولانا عبدالرحیم اشعرؒ نے فراہم کئے اور قومی اسمبلی میں اسے مفکر اسلام قائد جمعیت مولانا مفتی محمودؒ نے پڑھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل محمد ضیاء الحق برسراقتدار آئے۔ ان کے زمانہ میں پھر قادیانیوں نے پر پرزے نکالے۔ ایک بار ووٹنگ لسٹوں کے حلف نامہ میں تبدیلی کی گئی۔ اس زمانہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکریٹری جنرل مولانا محمد شریف جالندھریؒ بھاگم بھاگ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سیکریٹری جنرل مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کے پاس راولپنڈی پہنچے۔ حضرت مفتی صاحبؒ ملٹری ہسپتال میں پائوں کے زخم کے علاج کے سلسلہ میں زیر علاج تھے۔ اس حالت میں حضرت مفتی صاحبؒ نے جنرل ضیاء الحق کو فون کیا۔ آپ کی للکار سے اقتدار کا نشہ ہرن ہوا اور وہ غلطی درست کردی گئی۔ وہ غلطی نہ تھی۔ بلکہ حقیقت میں قادیانیوں سے متعلق قانون کو نرم کرنے کی پہلی چال تھی۔ جسے دارالعلوم دیوبند کے ایک فرزند کی للکار حق نے ناکام بنادیا۔
۱۹۸۲ء میں جنرل ضیاء الحق کے زمانہ اقتدار میں پرانے قوانین کی چھانٹی کا عمل شروع ہوا (جو قانون کہ اپنا مقصد حاصل کرچکے ہوںان کو نکال دیا جائے) اس موقع پر ابہام پیدا ہوگیا کہ قادیانیوں سے متعلق ترمیم بھی منسوخ ہوگئی ہے۔ اس پر ملک کے وکلاء کی رائے لی گئی۔ اڑھائی سو وکلاء کے دستخطوں سے مجلس تحفظ ختم نبوت نے روزنامہ جنگ میں اشتہار شائع کرایا۔ مولانا قاری سعیدالرحمن مہتمم جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ صدر راولپنڈی، مولانا سمیع الحق صاحب مہتمم جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک جنرل صاحب کو ملے۔ ان کی کابینہ میں محترم جناب راجہ ظفرالحق وفاقی وزیر تھے۔ ان کے مشورہ سے جنرل صاحب نے ایک آرڈی نینس منظور کیا اور قادیانیوں سے متعلق ترمیم کے بارے میں جو ابہام پایا جاتا تھا۔ وہ دور ہوا اور اسلامیان پاکستان نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس آرڈی نینس کو اس وقت بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔
جناب بھٹو کے زمانہ میں پاس شدہ آئینی ترمیم پر قانون سازی نہ ہوسکی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں قادیانی خواہش تھی کہ کسی طرح یہ ترمیم منسوخ ہوجائے۔ اس کے لئے وہ اندرون خانہ سازشوں میں مصروف تھے۔ قادیانی سازشوں اور اشتعال انگیز کارروائیوں سے مسلمانوں کے رد عمل نے تحریک ختم نبوت ۱۹۸۴ء کی شکل اختیار کی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ اﷲ کو پیارے ہوچکے تھے۔ اب اس نئی آزمائش میں دارالعلوم دیوبند کے زعماء خواجہ خواجگان حضرت مولانا خان محمد صاحبؒ، قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن، مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، مولانا محمد اجمل خانؒ، مولانا عبیداﷲ انورؒ، پیر طریقت مولانا عبدالکریم بیرشریفؒ، مولانا محمد مراد ہالیجویؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ، مولانا میاں سراج احمد دینپوری، مولانا سید محمد شاہ امروٹیؒ، مولانا عبدالواحدؒ، مولانا منیر الدینؒ کوئٹہ، ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا حبیب اﷲ مختارشہیدؒ، مولانا محمد لقمان علی پوریؒ، مولانا عزیزالرحمن جالندھری، مولانا ضیاء القاسمیؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا سید امیر حسین گیلانیؒ، ایسے ہزاروں علمائے حق نے تحریک کی قیادت کی اور اس کے نتیجہ میں قادیانیوں کے متعلق پھر قانون سازی کے اس خلاء کو پر کرنے کے لئے امتناع قادیانیت آرڈی نینس منظور ہوا۔ یہ آرڈی نینس اس وقت قانون کا حصہ ہے۔ اس سے یہ فوائد حاصل ہوئے:
۱… قادیانی اپنی جماعت کے چیف گرو یا لاٹ پادری کو امیر المومنین نہیں کہہ سکتے۔
۲… قادیانی اپنی جماعت کے سربراہ کو خلیفۃ االمؤمنین یا خلیفۃ المسلمین نہیں کہہ سکتے۔
۳… مرزا غلام احمد قادیانی کے کسی مرید کو معاذاﷲ ’’صحابی‘‘ نہیں کہہ سکتے۔
۴… مرزا قادیانی کے کسی مرید کے لئے ’’رضی اﷲ عنہ‘‘ نہیں لکھ سکتے۔
۵… مرزا غلام احمد قادیانی کی بیوی کے لئے ’’ام المؤمنین‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرسکتے۔
۶… قادیانی اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔
۷… قادیانی اذان نہیں دے سکتے۔
۸… قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔
۹… قادیانی اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتے۔
۱۰… قادیانی اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرسکتے۔
۱۱… قادیانی اپنے مذہب کی دعوت نہیں دے سکتے۔
۱۲… قادیانی مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرسکتے۔
۱۳… قادیانی کسی بھی طرح اپنے آپ کو مسلمان شمار نہیں کرسکتے۔
۱۴ … غرض کہ کوئی بھی شعائر اسلام استعمال نہیں کرسکتے۔
بحمدہٖ تعالیٰ اس قانون کے منظور ہونے سے قادیانی جماعت کا سالانہ جلسہ جسے وہ ظلّی حج قرار دیتے تھے۔ پاکستان میں اس پر پابندی لگی۔ قادیانی جماعت کے چیف گرو، لاٹ پادری مرزا طاہر کو ملک چھوڑ کر لندن جانا پڑا۔ اس تمام تر کامیابی و کامرانی کے لئے ’’ابنائے دارالعلوم دیوبند‘‘ نے جو خدمات سرانجام دیں ان کو کوئی منصف مزاج نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس قانون کے نافذ ہوتے ہی قادیانیوں کے لئے ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ والا قصہ ہوگیا۔
۱… قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون کو چیلنج کردیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ کے حکم پر کیس کی تیاری اور پیروی کے لئے شہید مظلوم حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ، حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ پر مشتمل جماعت نے لاہور ڈیرے لگادیئے۔ ملتان عالمی مجلس کے مرکزی کتب خانہ سے بیسیوں بکس کتب کے بھر کے لاہور لائے گئے۔ فوٹو اسٹیٹ مشین کا اہتمام کیا گیا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کی لائبریری اس کیس کی پیروی کے لئے جامعہ کے حضرات نے وقف کردی۔ ۱۵؍ جولائی سے ۱۲؍ اگست ۱۹۸۴ء تک اس کی سماعت جاری رہی۔ حضرت امیر مرکزیہؒ اور خانقاہ رائے پور کی روایات کے امین حضرت اقدس سید نفیس الحسینیؒ اور مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر خالد محمود بھی تشریف لاتے رہے۔ لاہور کی تمام جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا اور بالکل بہاولپور کے مقدمہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ اﷲ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے نہایت ہی کرم کا معاملہ فرمایا۔ ۱۲؍ اگست ۱۹۸۴ء کو جب فیصلہ آیا تو قادیانیوں کی رٹ خارج کردی گئی۔ کفر ہار گیا۔ اسلام جیت گیا۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس فخر عالم نے تحریر کیا۔
۲… قادیانیوں نے اس فیصلہ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کی اپیل بینچ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اﷲ رب العزت نے فضل فرمایا۔ ۱۲؍ جنوری ۱۹۸۸ء سپریم کورٹ اپیل بینچ نے اس اپیل کو بھی مسترد کردیا۔ اسی طرح قادیانیوں نے لاہور، کوئٹہ، کراچی ہائی کورٹس میں کیس دائر کئے۔ تمام جگہ ان کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ قادیانی ان تمام مقدمات کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں لے کر گئے۔ حق تعالیٰ شانہ نے یہاں بھی فیض یافتگان دارالعلوم دیوبند کو توفیق بخشی۔ اس کی پیروی کے لئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بزرگ رہنما حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، مولانا عزیزالرحمن جالندھری، مولانا علامہ احمد میاں حمادی، شہید اسلام مولانا محمد عبداﷲؒ، قاری محمد امینؒ، مولانا محمد رمضان علویؒ، شیخ القرآن مولانا غلام اﷲ خانؒ کے جانشین مولانا قاضی احسان احمدؒ، مولانا عبدالرؤفؒ اور اسلام آباد ، راولپنڈی کے تمام ائمہ و خطباء نے ایمانی جرأت و دینی حمیت کا مظاہرہ کیا۔ یوں ۳؍ جنوری ۱۹۹۳ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ جج صاحبان پر مشتمل بینچ نے قادیانیوں کے خلاف فیصلہ دیا۔
بحمدہٖ تعالیٰ ان تمام فیصلہ جات پر مشتمل کتاب ’’قادیانیت کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے‘‘ شائع شدہ ہے۔ جس میں دیگر تفصیلات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
۳… اسی طرح قادیانیوں نے جوہانسبرگ افریقہ میں ایک مقدمہ دائر کیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا منظور احمد الحسینیؒ نے اس کی پیروی کے لئے وہاں کے سفر کئے۔ یہ فیصلہ بھی قادیانیوں کے خلاف ہوا۔
امتناع قادیانیت قانون کے نافذ ہوتے ہی قادیانی جماعت کے بھگوڑے چیف گرو مرزا طاہر نے لندن کو اپنا مستقر بنایا۔ ابنائے دارالعلوم دیوبند وہاں بھی پہنچے۔ سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس برطانیہ ۱۹۸۵ء سے ہر سال تسلسل کے ساتھ منعقد ہوتی رہی ہے۔ پاکستان ، ہندوستان، عرب، افریقہ و یورپ سے علمائے کرام اور ابنائے و فضلائے دارالعلوم دیوبند تشریف لاکر اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں مستقل طور پر قادیانیت کے احتساب کے لئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اپنا مستقل دفتر قائم کردیا ہے۔ جہاں سے ختم نبوت کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیا جارہا ہے۔ امریکہ، افریقہ، یورپ کے کئی ممالک ایسے ہیں۔ جہاں مستقل بنیادوں پر قادیانیت کے خلاف کام ہورہا ہے اور وہ تمام ترکام بحمدہٖ تعالیٰ ابناء دارالعلوم دیوبند سرانجام دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام عظیم الشان ختم نبوت کانفرنسوں کے علاوہ تربیتی کورسز کا سلسلہ شروع ہے۔ کتب، لٹریچر کی اشاعت و تقسیم ہورہی ہے اور اس کام کے لئے دارالعلوم دیوبند میں ہی ’’کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ قائم کردی گئی ہے۔
اکابر دیوبند کی مساعی اور ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مقاصد و خدمات کا مختصر ساخاکہ آپ کے سامنے آچکا ہے۔ اب ایک نظر ان آثار و نتائج پر بھی ڈال لینا چاہئے جو جماعت کی جہد مسلسل اور امت اسلامیہ کے اتفاق و تعاون کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئے:
اوّل… پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ علاوہ ازیں قریباً تیس اسلامی ممالک قادیانیوں کو کافر‘ مرتد‘ دائرہ اسلام سے خارج اور خلاف قانون قرار دے چکے ہیں۔ دوم… ختم نبوت کی تحریک پاکستان میں کامیاب ہوئی تو پوری دنیا پر قادیانیوں کا کفر و نفاق واضح ہوگیا۔ اور دنیا کے بعید ترین ممالک کے مسلمان بھی قادیانیوں کے بدترین کفر سے واقف ہوگئے۔ سوم… بہاولپور سے ماریشس جوہانسبرگ تک کی بہت سی عدالتوں نے قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے فیصلے دیئے۔ چہارم… مجلس تحفظ ختم نبوت کی تحریک نے نہ صرف پاکستان کو بلکہ دیگر اسلامی ممالک کوقادیانیوں کے غلبہ اور تسلط سے محفوظ کردیا اور تمام دنیا کے مسلمان قادیانیوں کو ایک سازشی اور مرتد ٹولہ سمجھ کر ان سے محتاط اور چوکنا رہنے لگے۔ پنجم… بے شمار لوگ جو قادیانیوں کے دام ہمرنگ زمین کا شکار ہوکر مرتد ہوگئے تھے۔ جب ان پر قادیانیت کا کفر کھل گیا تو وہ قادیانیت کو چھوڑ کر دوبارہ دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے۔ ششم… ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کا ملازم پیشہ نوجوان طبقہ قادیانیوں سے بے حد مرعوب تھا۔ چونکہ قادیانی پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر قابض تھے۔ اس لئے وہ ایک طرف اپنے ماتحت عملے میں قادیانیت کی تبلیغ کرتے اور دوسری طرف اچھے مناصب کے لئے صرف قادیانیوں کا انتخاب کرتے۔ اس سے مسلمانوں کے نوجوان طبقہ کی صریح حق تلفی ہوتی تھی اور بہت سے نوجوان اچھی ملازمت کے لالچ میں قادیانی مذہب کے ہمنوا ہوجاتے تھے۔ اب بھی اگرچہ کلیدی آسامیوں پر بہت سے قادیانی فائز ہیں اور ملازمتوں میں ان کا حصہ مسلمانوں کی نسبت اب بھی زیادہ ہے۔ مگر اب قادیانیوں کے سامنے مسلمان نوجوانوں کا احساس کمتری ختم ہورہا ہے اور نوجوانوں کی طرف سے مطالبے ہورہے ہیں کہ قادیانیوں کو ان کی حصہ رسدی سے زیادہ کسی اور ادارے میں نشستیں نہ دی جائیں۔ ہفتم… قیام پاکستان سے ۱۹۷۴ء تک ’’ربوہ‘‘ مسلمانوں کے لئے ایک ممنوعہ قصبہ تھا۔ وہاں مسلمانوں کے داخلہ کی اجازت نہیں تھی‘ حتی کہ ریلوے اور ڈاک خانہ کے سرکاری ملازموں کے لئے قادیانی ہونے کی شرط تھی۔ لیکن اب ’’ربوہ‘‘ کی سنگینی ٹوٹ چکی ہے۔ وہاں اکثر سرکاری ملازم مسلمان ہیں۔ ۱۹۷۵ء سے مسلمانوں کی نماز باجماعت بھی ہوتی ہے اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے مدارس و مساجد دفتر و لائبریری قائم ہیں۔ ہشتم… قادیانی اپنے مردوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے پر اصرار کیا کرتے تھے‘ لیکن اب مسلمانوں کے قبرستان میں ان کا دفن کیا جانا ممنوع ہے۔ نہم… پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ اور فوجی ملازمتوں کے فارموں میں قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تصریح کرنا پڑتی ہے۔ دھم… پاکستان میں ختم نبوت کے خلاف کہنا یا لکھنا تعزیری جرم قرار دیا جاچکا ہے۔ یازدھم… سعودی عرب‘ لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک میں قادیانیوں کا داخلہ ممنوع ہے اور انہیں ’’عالم کفر کے جاسوس‘‘ قرار دیا جاچکا ہے۔ دوازدھم… مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے خلاف لب کشائی کی پاکستان میں اجازت نہیں تھی‘ مگر اب صورت حال یہ ہے کہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ سیزدھم… قادیانی جو بیرونی ممالک میں یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ: پاکستان میں قادیانیوں کی حکومت ہے اور دارالخلافہ ’’ربوہ‘‘ ہے۔ وہ اس جھوٹ پر نہ صرف پوری دنیا میں ذلیل ہوچکے ہیں‘ بلکہ خدا کی زمین اپنی فراخی کے باوجود ان پر تنگ ہورہی ہے۔ حتی کہ قادیانی سربراہ کو لندن میں بھی چین نصیب نہیں۔ ربوہ کانام مٹ کر اب ’’چناب نگر‘‘ ہے۔ آج قادیانی شہر کا نام مٹا ہے تو وہ وقت آیا چاہتا ہے جب قادیانیت کا نشان بھی مٹے گا۔
انشاء اﷲ العزیز!
خصوصی نوٹ:
موضوع کی مناسبت اور سوال کی نوعیت کے پیش نظر صرف علمائے دیوبند کی خدمات دربارہ تحفظ ختم نبوت کا تذکرہ کیا ہے ورنہ تمام علمائے کرام چاہے وہ بریلوی ہوں یا اہلحدیث‘ سب اس محاذ پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہے۔ سب نے اس محاذ پر گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی شائع کردہ کتاب ’’تحریک ختم نبوت۱۹۵۳ئ‘‘ ’’تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ئ‘‘ (تین جلدیں) ان میں تمام مکاتب فکر کے اکابر کی سنہری خدمات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔