• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تحویل ِ قبلہ اور مرزا غلام قادیانی کا عظیم شِرک

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزائی پادریوں کے دجل وفریب کی ایک مثال
دوستو ! ایک مرزائی پادری ملک عبدالرحمان گجراتی نے " لطیفوں " کی ایک کتاب لکھی جسے مرزائی " پاکٹ بک " کے نام سے یاد کرتے ہیں ، اسمیں اس بدذات پادری نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ مرزا قادیانی کو جھوٹا ہونے سے بچانے کے لئے ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بھی ناپاک حملے کیے ، اور آج کے مرزائی مربی پادری بھی اسی ملعون کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔ اسکی ایک مثال ہے مرزا کے عقیدے کی تبدیلی کو تحویل قبلہ پر قیاس کرنا جو کہ ایک کھلا دھوکا اور فریب ہے ۔
دوستو۔ دین میں ایک ہوتے ہیں " عقائد " جیسا کہ توحید ، رسالت ، قیامت پر ایمان ، اللہ کی کتابوں پر ایمان وغیرہ ۔ اور دوسرے ہوتے ہیں " احکام " جیسا کہ نماز کے احکام ، روزے کے احکام ، حج کے احکام ، حلال وحرام ہونے کے احکام وغیرہ ۔ جہاں تک بنیادی عقائد کا تعلق ہے وہ کبھی نہیں بدلتے ، مثال کے طور پر یہ نہیں ہوسکتا کہ بتوں کی عبادت پہلے شرک نہ ہو اور بعد میں شرک ہو ۔ ایک چیز پہلے توحید ہو اور بعد میں شرک بن جائے ، لیکن احکام شریعت میں حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ تبدیلی فرماتے رہے جب تک دین مکمل نہ ہوگیا ۔ اور اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دین کے احکام میں بھی اللہ کی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور عقائد میں تبدیلی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔ جو عقائد قرآن حدیث میں بیان ہوچکے ہیں پتھر پر لکیر ہیں ۔
لیکن مرزائی دجل وفریب تو دیکھیں کہ ایک طرف تو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ اب " تشریعی نبوت " کا تو امکان ہی نہیں ، اور غیر تشریعی نبوت بھی صرف ظلی بروزی ہوسکتی ہے جس میں اللہ اور رسول کی کامل اطاعت ہو ، لیکن دوسری طرف یہ بھی فریب دیتے ہیں کہ مرزا غلام قادیانی پر بھی اللہ کی طرف سے ایسی وحی آتی تھی جس سے عقائد میں تبدیلی کی جاتی تھی ۔۔ اور پھر اسکو قیاس کیا جاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں " احکام " میں ہونے والی تبدیلی پر ۔۔
دوستو ، مرزا غلام قادیانی آپنی زندگی کے کم وبیش 50 سال وہی عقیدہ رکھتا تھا جو تمام مسلمانوں کا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ ہیں اور قرب قیامت نازل ہوں گے ، بلکہ مرزا خود قرآن کی آیات سے یہ عقیدہ ثابت بھی کرتا تھا جیسا کہ براہین احمدیہ میں آج بھی لکھاہے ، لیکن پھر ایک وقت آیا کہ وہ اس عقیدے کو " شرک عظیم " کہنے لگا ۔
جب مرزائی پادریوں سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ کیا مرزا " تشریعی " نبی تھا ؟ کہ اس پر بھی وحی آتی تھی کہ اب یہ عقیدہ بدل لو اور نیا عقیدہ اپنا لو ۔ تو پادریوں کا جواب ہوتا ہے کہ " جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے لیکن بعد میں انہیں اللہ نے متنبہ کیا تو انہوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کر لیا " اسی طرح مرزا جی بھی پہلے ( غلطی ) سے یہ عقیدہ رکھتے تھے ، بعد میں جب اللہ نے انہیں بتایا تو انہوں نے بدل لیا ۔
دوستوں ، غور کریں مرزائی دھوکے پر ، قبلہ کی تبدیلی ایک حکم تھا جس کا تعلق اعمال سے تھا نہ کہ عقائد کے ساتھ ۔۔۔ اور اس وقت ابھی دین مکمل نہ ہوا تھا بلکہ احکام نازل ہو رہے تھے ،۔۔ اور ایک اہم بات کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنا ( نعوذباللہ ) کسی غلطی یا ناعلمی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اللہ کا اس وقت یہی حکم تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے " وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ " ( سورہ البقرہ 143 ) اور ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ اس وقت ہیں ( یعنی بیت المقدس ) اس لیے بنایا ( یعنی آپ کو اسکی طرف منہ کرنے کا حکم اس لئے دیا ) تاکہ یہ جان لیں کے کون ہے جو رسول کی اتباع کرتا ہے ۔
اور اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَكَانَ أَكْثَرُ أَهْلِهَا الْيَهُودَ، أَمَرَهُ اللهُ أَنْ يَسْتَقْبِلَ بَيْتَ الْمَقْدِسِ" (السنن الکبریٰ للبیھقی جلد 2 صفحہ 20 حدیث 2246 ) جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور چونکہ مدینہ میں اکثریت یہود کی تھی تو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ( نماز پڑھیں )۔
اور خود مرزائی پادری بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلے انبیاء کا قبلہ یہی تھا اور اسی پر آنحضرت صلی اللی علیہ وسلم بھی عمل پیراتھے ۔۔ یہاں تک کے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش پر اللہ نے اس امت کے لئے قبلہ میں تبدیلی فرما دی جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے :
"قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ" ( سورہ البقرہ 144 )
(اے محمدﷺ) ہم تمہارا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم تم کو اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو، منہ کرنے کا حکم دیں گے تو اپنا منہ مسجد حرام (یعنی بیت اللہ ) کی طرف پھیر لو۔
اور آج بھی بیت المقدس کو " قبلہ اول " کہا جاتا ہے ۔ تو نہ تو یہ غلطی تھی اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے بیت المقدس کو قبلہ بنایا ۔ اگر اپنی مرضی سے بنایا ہوتا تو پھر اپنی مرضی سے اسے بدل بھی لیتے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر آپنی خواہش کا اظہار فرماتے تھے لیکن اللہ کے حکم کے بغیر تبدیلی نہ کی اور جب اللہ کی وحی نازل ہوگئی تو پھر ایک لمحہ بھی اسے قبول کرنے میں دیر نہ کی ۔


اب آتے ہیں مرزا قادیانی کی طرف ، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے رفع ونزول کا تعلق عقیدے سے ہے نہ کہ احکام سے ، مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کی کی کامل اطاعت کی ہے اس وجہ سے اسے نبوت ملی ہے ، اور وہ خود 1891 تک یہی عقیدہ رکھتا رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام دوبارہ نازل ہوں گے ، اب یا تو تسلیم کرو کہ یہ عقیدہ مرزا کا قرآن وسنت کے مطابق تھا ، اگر یہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر ثابت ہوا کہ مرزا 50 سال قرآن وسنت کی اتباع نہیں بلکہ اسکے خلاف کرتا رہا ۔۔ اس صورت میں مرزا نے تو اپنی عمر کے دوحصے تو قرآن وسنت کی مخالفت میں گزار دیے تو کامل اتباع کہاں ہوئی ؟؟

اسکے بعد شریعت تو مرزا کی پیدائش سے تقریباََ ساڑھے تیرہ سو سال پہلے مکمل ہوچکی تھی ، کیا حلال ہے اور کیا حرام ، کیا توحید اور کیا شرک ، یہ سب تو بیان ہوچکا تھا ، تو یہ کیسے ہوا کہ ایک عقیدہ جو لگاتار مانہ نبوت سے مسلمانوں میں چلا آرہا تھا اور مرزا بھی اسی پر عمل پیرا تھا اور قرآن سے اس عقیدے کو ثابت کرتا تھا اور اس کتاب میں ثابت کرتا تھا جو اسکے بقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں پسند فرمائی تھئ اور اس تفسیر سے ثابت کرتا تھا جو اسکے بقول اسے کشف میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر دی تھی کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی لکھی ہوئی تفسیر ہے ۔۔ ( طلب کرنے پر حوالے پیش کر دیے جائیں گے ) اس میں بھی تبدیلی کر دی جائے ؟ ؟ ۔

اب آگے ایک دلچسپ اور مضحکہ خیز بات ہوتی ہے ، مرزا کے اپنے اقرار کے مطابق ( جیسا کہ اس نے حقیقۃ الوحی ، خزائن جلد 22 صفحہ 153 ) پر لکھا ہے ، اسپر وحی نازل ہوئی کہ اے مرزا تو ہی وہ مسیح ہے جسکے آنے کی خبر دی گئی ہے ، لیکن کہتا ہے کہ میں آپنے اوپر نازل ہونے والی اس وحی کے ظاہری معنی کے بجائے اس میں تاویل کرتا رہا اور تاویل کیوں کرتا رہا ؟ اسکی وجہ بھی لکھتا ہے ، اس لئے کہ مسلمانوں کا عقیدہ تھا اور میرا اپنا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام آسمان سے نازل ہونگے ، اس لئے میں اپنی وحی میں تاویل کرتا رہا ( دوسرے لفظوں میں اسے غلط سمجھتا رہا ) ۔۔۔ اور دوستوں مرزا اپنے اوپر ہونے والی وحی کو تقریباََ دس سال تک جھٹلاتا رہا ( جب اس کو غلط سمجھتا رہا تو جھٹلاتا رہا ) ۔۔
اب آپ بتائیں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوتا ہے تو اسی وقت اس پر عمل کیا جاتا ہے ، کیونکہ اللہ کا نبی اپنے اوپر ہونے والی وحی کے سامنے کسی کی پرواہ نہیں کرتا ، لیکن مرزا وحی ہونے کے باوجود دس سال تک اسے ٹالتا رہا ایسا کیوں ؟؟

پھر جیسا کہ بیان ہوا کہ بیت المقدس قبلہ انبیاء تھا اور اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی عمل پیرا تھے اور جب تک تحویل قبلہ کا حکم نہ آیا بیت المقدس ہی قبلہ تھا نہ تو غلطی سے اسے قبلہ بنایا گیا اور نہ ہی لاعلمی سے ، مختصر طور پر سنہ 2 ہجری تک اللہ کے حکم کے مطابق اور انبیاء سابقین کی شریعتوں کے مطابق بیت المقدس قبلہ تھا اور بعد میں یہ حکم تبدیل ہوا ۔۔ تو اب مرزائی پادریوں سے سوال ہے کہ اسی پر قیاس کرو اور بتاؤ کیا 1891 تک حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ تھے ؟ کیونکہ مرزا کا اس وقت یہی عقیدہ تھا ، اور جیسے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا غلطی نہ تھا بلکہ اللہ کا حکم اس وقت تک وہی تھا اسی طرح ثابت ہوا کہ 1891 تک حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ تھے اور بعد میں جب مرزا پر بارش کیطرح وحی آئی ( اسکے بقول ) تو اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی موت ہوئی ؟؟ ہے کوئی جواب ؟؟

اب کیا تحویل قبلہ کو مرزا غلام قادیانی کے عقیدے کی تبدیلی پر قیاس کیا جاسکتا ہے

آیئے دوستوں مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ مرزا غلام قادیانی کے عقیدے کی تبدیلی کو قبلہ کی تبدیلی پر قیاس کیا جاسکتا ہے ؟
1
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ماہ رجب سنہ 2 ہجری تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے کسی غلطی یا لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کا حکم اس وقت یہی تھا اور پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خواہش پر اللہ نے قبلہ بیت المقدس سے بیت اللہ ( کعبہ ) کی طرف تبدیلی کا حکم ارشاد فرمایا جیسا کہ سورہ البقرہ کی آیت 144 میں بیان ہے
جبکہ
مرزا غلام قادیانی اپنی زندگی کے تقریباَ پچاس سال تک یہی عقیدہ رکھتا رہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ ہیں اور دوبارہ نازل ہونگے ، اس نے 1891 میں اپنا عقیدہ بدلا ، اور پھر کہا کہ اس کا پہلا عقیدہ " غلطی اور لاعلمی کی وجہ سے تھا " اللہ نے اسے اس کی غلطی پر مطلع کر دیا تو اسے نے اپنا عقیدہ بدلا ، واضح رہے کہ مرزا نے یہ کہیں نہیں کہا اس کی اپنی خواہش پر یہ عقیدہ بدلا ۔

2
اس طرح جو نمازیں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی گئیں انکو لوٹانے کا حکم نہ دیا گیا کیونکہ اللہ کے حکم کے عین مطابق پڑھی گئیں نہ کہ غلطی سے پڑھیں گئیں ، ورنہ اللہ یہ نہ فرماتے کہ ہم آپ کو آپ کے پسند کے قبلے کی طرف پھیرتے ہیں ، بلکہ یوں فرماتے کہ آپ تو غلط کام کر رہے تھے اسے ٹھیک کریں ۔
اب
اگر قیاس کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ 1891 تک حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ تھے ، اسکے بعد انکی موت ہوئی ۔ کیونکہ رجب 2 ہجری تک قبلہ اللہ کے حکم کے مطابق بیت المقدس ہی تھا اسکے بعد بدلا گیا ۔

3

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جونہی تحویل قبلہ کا حکم ہوا آپ نے فوری اس پر عمل کرنا شروع فرما دیا آپ نے اپنی وحی کی کوئی تاویل نہ کی اور نہ یہ سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے
جبکہ
مرزا قادیانی کے اپنے اقرار کے مطابق اللہ نے براہین احمدیہ میں " اسکا نام عیسی رکھا اور یہ بھی بتایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی " لیکن وہ پھر بھی اپنے اوپر نازل ہونے والی اس وحی کی تاویل کرتا رہا اور اپنا عقیدہ وہی رکھا جو دوسرے مسلمانوں کا تھا ( کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ ہیں اور دوبارہ نازل ہوں گے) ۔ ( ملا خط ہو ، حقیقۃ الوحی ، خزائن جلد 22 صفحہ 153 ) ۔ واضح رہے کہ اپنی وحی کی تاویل دس سال تک کرتا رہا ۔

4

تحویل قبلہ سے پہلے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ سب کی سب ٹھیک اور صحیح تھیں انکو اللہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط نہیں فرمایا ۔ اور جب تحویل قبلہ ہوگیا تو اسکے بعد بھی جو نمازیں بیت اللہ کی طرف پڑھی گئیں وہ بھی ٹھیک تھیں اور ہیں ۔ یعنی پہلی اور دوسری دونوں نمازیں ٹھیک ، صحیح اور قبول ہیں ۔
جبکہ
مرزا نے کہا کہ اس کا پہلا عقیدہ غلط اور شرکیہ تھا اور صرف بعد والا ٹھیک تھا
نتیجہ

یوں تحویل قبلہ پر قیاس ہوہی نہیں سکتا ، ورنہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پہلے والا عقیدہ بھی ٹھیک تھا اور بعد والا بھی ۔ یعنی 1891 سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام زندہ تھے پھر بعد میں انکی وفات ہوئی ۔ کیا مرزائی حضرات اس کے لئے تیار ہیں ؟؟

 
Top