فلسفے کی بنیادی شاخ میٹافزکس ہے۔ میٹا فزکس کی تین اور شاخیں ہوتی ہیں۔ آنٹولوجی، کوسمولوجی اور ٹیلیولوجی۔
کوسمولوجی حقائق کی ترتیب سے بحث کرتی ہے۔ یعنی مختلف حقیقتوں کی ترتیب کیا ہے اور کس کی کیا علت ہے۔
خدا کے وجود ہے کے لئے کاسمولوجیکل آرگیومنٹ ایک بہت پرانی دلیل تھی جو کہ پرانے یونانی فلسفہ میں بھی پائی جاتی تھی۔ یہ دلیل ایک شکل میں نہیں رہی۔ مختلف ادوار میں اس کو غلط بھی ثابت کیا جاتا رہا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل آج بھی ٹھوس ہے۔
دلیل کچھ یوں ہے۔
ہر وجود کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ چونکہ یہ کائنات ہے اور کائنات خود اپنے آپ کو وجود نہیں دے سکتی اس لئے لازمی طور پر کوئی نہ کوئی ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا۔
یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے۔
اس پر یہ اعتراضات ہوسکتے ہیں
· اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟
· دوسرا اعتراض یہ ہے کیا ضروری ہے ہر وجود کی کوئی علت ہو؟
ان دونوں اعتراضات کے جوابات کچھ یوں ہیں۔
کائنات کے بارے میں ہمارا مشاہدہ ہے یہ ہے کہ یہ رو بہ تنزل ہے۔ چیزیں پرانی ہوجاتی ہیں۔ قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ہوگا جہاں سے یہ دھیرے دھیرے ڈھل کر اس حالت میں پہونچی ہے۔ اس مستقل تنزلی کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ضرور ہے۔ جس چیز کا نکتہ آغاز ہے تو لازمی طور پر اس کی علت ہونی ہی چاہئے۔ اگر کسی کا نکتہ آغاز ہی نہ ہو اس کی علت ہونا ضروی نہیں۔چونکہ کائنات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نکتہ آغاز ہے اس لئے اس کی علت ہونی لازمی ہے۔ چونکہ خدا کے بارے میں ایسے کسی دعوے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اس لئے خدا کی علت کی جسجتو بے کار ہے۔
کچھ یونانی فلاسفہ کا یہ دعوی تھا کہ اجرام سماوی جیسے سورج اور تارے مستقل ایک ہی کیفیت میں ہیں اور صدیوں سے ان کی گرمی یا روشنی میں کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ قدیم ہیں اور اسی بنا پر خدا کے وجود ثابت نہیں ہوتا۔
امام غزالی نے یونانی فلاسفہ کے دعوے کی تردید یوں کی کہ ان کے بقول یہ اجرام سماوی اتنی بڑی چیزیں ہیں کہ اگر ان کی روشنی یا گرمی میں کوئی کمی بھی ہورہی ہو تو وہ اتنے دھیرے دھیرے ہوگی کہ صدیوں میں معلوم نہیں ہوگا۔
خدا کی علت کے سوال کے جواب میں ایک اور نکتہ بھی ہے۔
چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ کائنات کی علت زیڈ ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیڈ کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ زیڈ کی علت وائی ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائی کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ وائی کی علت ایکس ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایکس کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایکس کی علت ڈبلیو ہے۔
اس طرح آپ مانتے چلے جائیں تو یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے۔ اوراگر یہ سیزیز سچ مچ لامحدود ہے تو پھر کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور آپ بھی ہیں۔
تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی علت اولی ہے جو بذات خود موجود ہے۔ اور کائنات کے بارے میں یہ بات محقق ہے کہ وہ علت اولی کائنات نہیں ہے۔یہی علت اولی خدا ہے۔
آج کے دور میں کچھ ایسی دریافتیں ہوئیں جن کی بنیاد پر یہ آرگیومنٹ مزید مستحکم ہوگیا۔
اینٹروپی کی دریافت کی وجہ سے یہ بات تمام کے نزدیک قابل قبول ہوگئی ہے کہ کائنات متغیر اور رو بہ زوال ہے۔ یعنی کائنات میں قوت موجود ہے لیکن ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے اور بلینیوں سال کے بعد کائنات کی تمام قوتیں غیر مفید ہوجائیں گی اور کائنات ایک فرسودہ اور یونی فارم شکل اختیار کرے گی جس میں قوت کا تنوع نہیں ہوگا۔ بغیر تنوع کے زندگی اور حرکت ختم ہوجاتی ہے۔اس کی وضاحت کے لئے یہ لنک ملاحظہ کیجئے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Heat_death_of_the_universe
کائنات کے وجود کے بارے میں سائنسی حلقوں میں ایک ہی تھیوری اب قابل قبول ہے اور تمام تجربات اس کی تصدیق کرتے جارہے ہیں اور وہ تھیوری بگ بینگ تھیوری کہلاتی ہے۔
بگ بینگ تھیوری بھی اور اینٹروپی کا نظریہ بھی ایک بات کی تصدیق کرتا ہے اور وہ یہ کہ کائنات ازلی نہیں ہے۔
ایک چیز حادث ہے تو لازماً اس کی علت ہونی چاہئے۔ ایک چیز قدیم ہے اور جس کی کوئی ابتداء نہیں، ممکن ہے کہ اس کی علت نہ ہو۔
تو جناب یہان پر بات صرف علت کی نہیں بلکہ علت اولی کی ہے۔ خدا کو ثابت کرنے کے لئے علت کی جو دلیل دی جاتی ہے وہ صرف علت کے نہیں بلکہ علت اولی حوالے سے ہے۔
تو جناب یہاں پر یہ بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ کوسمولوجیکل آرگیمونٹ، علت و معلولی کی دلیل، بگ بینگ تھیوری اور انٹروپی کی باتیں ایک ہی چیز کے حوالے ہورہی ہے۔
ملحدین کی لاجیکل تردید میں قرآن کی ایک عظیم آیت
قرآن نے ملحدین کے خلاف ایک بہت مضبوط اور لاجیکل دلیل پیش کی ہے یہ پوچھ کر کہ:
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴿٣٥﴾أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚبَل لَّا يُوقِنُونَ﴿٣٦﴾الطور
ترجمہ: کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟یا زمین اور آسمانوں کو اِنہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے
قرآن کی ان دو آیات میں دو بہت اچھے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا یہ (کافر و ملحد) لوگ عدم سے وجود پا گئے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کیا انہوں نے خود کو اور اپنے ارد گرد ہر چیز کو خود ہی پیدا کر لیا ہے؟
یہ دونوں سوالات ملحدین کی منطقی نامعقولیت کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں۔ ملحدین کی دنیا وہ ہے، جہاں کوئی تخلیق کار نہیں، کوئی خدا نہیں، لہٰذا خدا نے تو ہمیں بنایا نہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ کوئی ہمیں تخلیق کرنے والا نہیں تو اس انکار کے بعد دو ہی راستے ہیں کہ یا تو یہ مانئے کہ ہم عدم سے خود ہی وجود پا گئے ہیں۔ یعنی پہلے کچھ نہیں تھا اور ہم "کچھ نہیں" سے تخلیق ہو کر اچانک ظاہر ہو گئے۔۔۔اور یا یہ کہ ہم نے ہی اس کائنات کو اور خود کو تخلیق کر لیا ہے؟
ملحدین کا "عقیدہ" یہ ہے کہ ہماری اور ہمارے ساتھ کائنات کی تخلیق بس تکے سے، بغیر کسی وجہ کے، ہو گئی اور خودبخود ہی ہو گئی۔ یہ انتہائی نامعقولیت پر مبنی بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا عین انصاف پر مبنی ہوگا کہ خدا کے وجود پر یقین رکھنے کے لئے ہمیں جس مقدار میں "عقیدہ" کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ ملحدین کو اس بغیر خدا والی کائنات پر ایمان لانے کے لئے "عقیدہ" بلکہ اندھے عقیدے کی ضرورت ہے۔
کوسمولوجی حقائق کی ترتیب سے بحث کرتی ہے۔ یعنی مختلف حقیقتوں کی ترتیب کیا ہے اور کس کی کیا علت ہے۔
خدا کے وجود ہے کے لئے کاسمولوجیکل آرگیومنٹ ایک بہت پرانی دلیل تھی جو کہ پرانے یونانی فلسفہ میں بھی پائی جاتی تھی۔ یہ دلیل ایک شکل میں نہیں رہی۔ مختلف ادوار میں اس کو غلط بھی ثابت کیا جاتا رہا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دلیل آج بھی ٹھوس ہے۔
دلیل کچھ یوں ہے۔
ہر وجود کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ چونکہ یہ کائنات ہے اور کائنات خود اپنے آپ کو وجود نہیں دے سکتی اس لئے لازمی طور پر کوئی نہ کوئی ہے جس نے اس کائنات کو وجود بخشا۔
یہ بہت ہی سادہ سی بات ہے۔
اس پر یہ اعتراضات ہوسکتے ہیں
· اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟
· دوسرا اعتراض یہ ہے کیا ضروری ہے ہر وجود کی کوئی علت ہو؟
ان دونوں اعتراضات کے جوابات کچھ یوں ہیں۔
کائنات کے بارے میں ہمارا مشاہدہ ہے یہ ہے کہ یہ رو بہ تنزل ہے۔ چیزیں پرانی ہوجاتی ہیں۔ قوتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے۔ اس لئے لازمی ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ہوگا جہاں سے یہ دھیرے دھیرے ڈھل کر اس حالت میں پہونچی ہے۔ اس مستقل تنزلی کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی نکتہ آغاز ضرور ہے۔ جس چیز کا نکتہ آغاز ہے تو لازمی طور پر اس کی علت ہونی ہی چاہئے۔ اگر کسی کا نکتہ آغاز ہی نہ ہو اس کی علت ہونا ضروی نہیں۔چونکہ کائنات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نکتہ آغاز ہے اس لئے اس کی علت ہونی لازمی ہے۔ چونکہ خدا کے بارے میں ایسے کسی دعوے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے اس لئے خدا کی علت کی جسجتو بے کار ہے۔
کچھ یونانی فلاسفہ کا یہ دعوی تھا کہ اجرام سماوی جیسے سورج اور تارے مستقل ایک ہی کیفیت میں ہیں اور صدیوں سے ان کی گرمی یا روشنی میں کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ قدیم ہیں اور اسی بنا پر خدا کے وجود ثابت نہیں ہوتا۔
امام غزالی نے یونانی فلاسفہ کے دعوے کی تردید یوں کی کہ ان کے بقول یہ اجرام سماوی اتنی بڑی چیزیں ہیں کہ اگر ان کی روشنی یا گرمی میں کوئی کمی بھی ہورہی ہو تو وہ اتنے دھیرے دھیرے ہوگی کہ صدیوں میں معلوم نہیں ہوگا۔
خدا کی علت کے سوال کے جواب میں ایک اور نکتہ بھی ہے۔
چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ کائنات کی علت زیڈ ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیڈ کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ زیڈ کی علت وائی ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائی کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ وائی کی علت ایکس ہے۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایکس کی علت کیا ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ایکس کی علت ڈبلیو ہے۔
اس طرح آپ مانتے چلے جائیں تو یہ ایک لامحدود سیریز ہوجاتی ہے۔ اوراگر یہ سیزیز سچ مچ لامحدود ہے تو پھر کائنات کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیں اور آپ بھی ہیں۔
تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ کوئی علت اولی ہے جو بذات خود موجود ہے۔ اور کائنات کے بارے میں یہ بات محقق ہے کہ وہ علت اولی کائنات نہیں ہے۔یہی علت اولی خدا ہے۔
آج کے دور میں کچھ ایسی دریافتیں ہوئیں جن کی بنیاد پر یہ آرگیومنٹ مزید مستحکم ہوگیا۔
اینٹروپی کی دریافت کی وجہ سے یہ بات تمام کے نزدیک قابل قبول ہوگئی ہے کہ کائنات متغیر اور رو بہ زوال ہے۔ یعنی کائنات میں قوت موجود ہے لیکن ناقابل استعمال ہوتی جارہی ہے اور بلینیوں سال کے بعد کائنات کی تمام قوتیں غیر مفید ہوجائیں گی اور کائنات ایک فرسودہ اور یونی فارم شکل اختیار کرے گی جس میں قوت کا تنوع نہیں ہوگا۔ بغیر تنوع کے زندگی اور حرکت ختم ہوجاتی ہے۔اس کی وضاحت کے لئے یہ لنک ملاحظہ کیجئے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Heat_death_of_the_universe
کائنات کے وجود کے بارے میں سائنسی حلقوں میں ایک ہی تھیوری اب قابل قبول ہے اور تمام تجربات اس کی تصدیق کرتے جارہے ہیں اور وہ تھیوری بگ بینگ تھیوری کہلاتی ہے۔
بگ بینگ تھیوری بھی اور اینٹروپی کا نظریہ بھی ایک بات کی تصدیق کرتا ہے اور وہ یہ کہ کائنات ازلی نہیں ہے۔
ایک چیز حادث ہے تو لازماً اس کی علت ہونی چاہئے۔ ایک چیز قدیم ہے اور جس کی کوئی ابتداء نہیں، ممکن ہے کہ اس کی علت نہ ہو۔
تو جناب یہان پر بات صرف علت کی نہیں بلکہ علت اولی کی ہے۔ خدا کو ثابت کرنے کے لئے علت کی جو دلیل دی جاتی ہے وہ صرف علت کے نہیں بلکہ علت اولی حوالے سے ہے۔
تو جناب یہاں پر یہ بھی واضح ہوگیا ہوگا کہ کوسمولوجیکل آرگیمونٹ، علت و معلولی کی دلیل، بگ بینگ تھیوری اور انٹروپی کی باتیں ایک ہی چیز کے حوالے ہورہی ہے۔
ملحدین کی لاجیکل تردید میں قرآن کی ایک عظیم آیت
قرآن نے ملحدین کے خلاف ایک بہت مضبوط اور لاجیکل دلیل پیش کی ہے یہ پوچھ کر کہ:
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴿٣٥﴾أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚبَل لَّا يُوقِنُونَ﴿٣٦﴾الطور
ترجمہ: کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟یا زمین اور آسمانوں کو اِنہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے
قرآن کی ان دو آیات میں دو بہت اچھے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا یہ (کافر و ملحد) لوگ عدم سے وجود پا گئے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ کیا انہوں نے خود کو اور اپنے ارد گرد ہر چیز کو خود ہی پیدا کر لیا ہے؟
یہ دونوں سوالات ملحدین کی منطقی نامعقولیت کو ظاہر کرنے کے لئے ہیں۔ ملحدین کی دنیا وہ ہے، جہاں کوئی تخلیق کار نہیں، کوئی خدا نہیں، لہٰذا خدا نے تو ہمیں بنایا نہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ کوئی ہمیں تخلیق کرنے والا نہیں تو اس انکار کے بعد دو ہی راستے ہیں کہ یا تو یہ مانئے کہ ہم عدم سے خود ہی وجود پا گئے ہیں۔ یعنی پہلے کچھ نہیں تھا اور ہم "کچھ نہیں" سے تخلیق ہو کر اچانک ظاہر ہو گئے۔۔۔اور یا یہ کہ ہم نے ہی اس کائنات کو اور خود کو تخلیق کر لیا ہے؟
ملحدین کا "عقیدہ" یہ ہے کہ ہماری اور ہمارے ساتھ کائنات کی تخلیق بس تکے سے، بغیر کسی وجہ کے، ہو گئی اور خودبخود ہی ہو گئی۔ یہ انتہائی نامعقولیت پر مبنی بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا عین انصاف پر مبنی ہوگا کہ خدا کے وجود پر یقین رکھنے کے لئے ہمیں جس مقدار میں "عقیدہ" کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ ملحدین کو اس بغیر خدا والی کائنات پر ایمان لانے کے لئے "عقیدہ" بلکہ اندھے عقیدے کی ضرورت ہے۔