aliali
رکن ختم نبوت فورم
علم کی تعریف
علم کی تعریف اور اس کے ذریعے جاننے کےبعد اسکی تقسیم کو جاننا بھی ضروری ہےمنطق میں پہلی تقسیم تصور اور تصدیق کی جاتی ہےیعنی کہ علم تصور کے متعلق ہوتا ہے یا تصدیق کےلہذا تصور اور تصدیق کو جاننا ضروری ہے۔
تصور:
تصور باب تفعل کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی صورت یا نقشہ کا ذہن میں آجانا۔
مفرد الفاظ اور ناقص جملوں کا تصور اس حیثیت سے ذہن میں آتا ہے کہ یقین حاصل نہیں ہوتا۔جیسے پہاڑ ، آدمی اور عالیشان مکان۔زید کا گھوڑا۔ وغیرہ۔ان کو سوچنے سے ایک نقشہ ذہن میں آتا ہے اور لیکن ان کے وجود کا یقین نہیں ہوتاکہ یہ ہیں کے نہیں ہیں۔کسی شاعر کا شعر ہے۔
جل بجھا بے چارہ شب کو،سنی پروانے کی بات
شمع کو گل گیر چھیڑے،تھی ہی مر جانے کی بات۔
لفظ گل گیر ایسا لفظ ہے کہ اس کو جاننے کے لیے آپ کو ماضی کے دور کا تصور کرنا پڑتا ہے کہ جب بجلی نہیں تھی اس وقت لوگ دیے میں روئی ڈال کر جلاتے تھے وہ حصہ جو اوپر سے جل جاتا اس کو تنکے سے گرا دیا جاتا اس جلی ہوئی راکھ کو گل گیر کہتے ہیں۔ اس مثال سے آپ کو گل گیر کا تصور حاصل ہو گیا اور تصور کی وضاحت بھی ہو گی۔
اور جب کہنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ جا سکے تو اس کو بھی تصور کہتے ہیں۔جیسے میری کتاب۔ اونچا پہاڑ۔اس مثال میں قائل کی کتاب ہے یا نہیں ۔پہاڑ اونچا ہے کہ نہیں ۔کچھ پتا نہیں ۔کیونکہ مثبت اور منفی دونوں پہلوں میں یقین نہیں اس وجہ سے اس کو تصور کہا جاتا ہے۔اور قائل کو نہ سچا کہا جاسکتا ہے نہ جھوٹا۔ جاری ہے
علم کی تعریف اور اس کے ذریعے جاننے کےبعد اسکی تقسیم کو جاننا بھی ضروری ہےمنطق میں پہلی تقسیم تصور اور تصدیق کی جاتی ہےیعنی کہ علم تصور کے متعلق ہوتا ہے یا تصدیق کےلہذا تصور اور تصدیق کو جاننا ضروری ہے۔
تصور:
تصور باب تفعل کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی صورت یا نقشہ کا ذہن میں آجانا۔
مفرد الفاظ اور ناقص جملوں کا تصور اس حیثیت سے ذہن میں آتا ہے کہ یقین حاصل نہیں ہوتا۔جیسے پہاڑ ، آدمی اور عالیشان مکان۔زید کا گھوڑا۔ وغیرہ۔ان کو سوچنے سے ایک نقشہ ذہن میں آتا ہے اور لیکن ان کے وجود کا یقین نہیں ہوتاکہ یہ ہیں کے نہیں ہیں۔کسی شاعر کا شعر ہے۔
جل بجھا بے چارہ شب کو،سنی پروانے کی بات
شمع کو گل گیر چھیڑے،تھی ہی مر جانے کی بات۔
لفظ گل گیر ایسا لفظ ہے کہ اس کو جاننے کے لیے آپ کو ماضی کے دور کا تصور کرنا پڑتا ہے کہ جب بجلی نہیں تھی اس وقت لوگ دیے میں روئی ڈال کر جلاتے تھے وہ حصہ جو اوپر سے جل جاتا اس کو تنکے سے گرا دیا جاتا اس جلی ہوئی راکھ کو گل گیر کہتے ہیں۔ اس مثال سے آپ کو گل گیر کا تصور حاصل ہو گیا اور تصور کی وضاحت بھی ہو گی۔
اور جب کہنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ جا سکے تو اس کو بھی تصور کہتے ہیں۔جیسے میری کتاب۔ اونچا پہاڑ۔اس مثال میں قائل کی کتاب ہے یا نہیں ۔پہاڑ اونچا ہے کہ نہیں ۔کچھ پتا نہیں ۔کیونکہ مثبت اور منفی دونوں پہلوں میں یقین نہیں اس وجہ سے اس کو تصور کہا جاتا ہے۔اور قائل کو نہ سچا کہا جاسکتا ہے نہ جھوٹا۔ جاری ہے
مدیر کی آخری تدوین
: