• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 1 سورہ الفاتحہ یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
Al Bayan Javed Ahmad Ghamidi


Al-Bayan-Javed-Ahmad-Ghamidi.jpg

الم : سورۃ الفاتحة : آیت 1


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ


یہ آیت سورة توبہ کے سوا قرآن مجید کی ہر سورة کے شروع میں بالکل اسی طرح آئی ہے، جس طرح یہاں ہے۔ لہٰذا یہ قرآن کی ایک آیت تو یقیناً ہے اور اس کی سورتوں کے شروع میں اسی طرح نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے لکھی گئی ہے ، لیکن اپنے اس محل میں سورة فاتحہ سمیت کسی سورة کی بھی آیت نہیں ہے، بلکہ ہر جگہ سورة سے الگ اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ ’إقرأہ علی الناس ‘ کا مفہوم اس میں عربیت کی رو سے مقدر ہے ، یعنی اللہ، رحمن و رحیم کے نام سے یہ قرآن لوگوں کو پڑھ کر سناؤ، اے پیغمبر——چنانچہ اس لحاظ سے دیکھیے تو اس میں ’ ب ‘ گویا سند کے مفہوم میں ہے اور یہ قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق توراۃ کی اس پیشین گوئی کا ظہور ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ خدا کا کلام خود اسی کے نام سے لوگوں کے سامنے پیش کریں گے۔ استثنا میں ہے :

” میں ان کے لیے ، انھی کے بھائیوں میں سے ، تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا ، وہی وہ ان سے کہے گا ۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو، جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ، نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لے لوں گا۔ “ (١٨: ١٨۔ ١٩)
 
مدیر کی آخری تدوین :

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 2


اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 2

سورة کا تعارف
الفاتحہ (The Opening )
اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ سورة پروردگار عالم کے حضور میں اس سیدھی راہ کے لیے ہدایت کی دعا ہے جو زمانہ بعثت نبوی میں ہر سلیم الفطرت انسان کی تمنا تھی۔ یہودو نصاریٰ نے اپنے انحرافات اور ضلالتوں سے دین کا چہرہ جس بری طرح بگاڑ دیا تھا، اس کے بعد اس راہ کی ہدایت گویا ہر دل کی صدا تھی جسے اللہ تعالیٰ نے اس سورة کے بےمثل اور لافانی الفاظ میں اپنے پیغمبر کی زبان پر جاری فرمایا ہے۔

توراۃ و انجیل کے بعد آں سوے افلاک سے ایک نئی ہدایت کی دعا یہی اس سورة کا مرکزی مضمون ہے۔ چنانچہ قرآن کے اس پہلے باب کی مدنیات کے ساتھ اس کا تعلق تو جیسا کہ باب کے تعارف میں بیان ہوا ، اجمال اور تفصیل ہی کا ہے، لیکن اپنے اس مضمون کی رعایت سے یہ نہایت موزوں دیباچہ قرآن بھی ہے۔

اِس لحاظ سے دیکھیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی پہلی سورة ہے جو ام القریٰ مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد آپ پر نازل ہوئی ہے۔
آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت ۔
اصل میں لفظ ’ الْحَمْدُ ‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ کسی کی خوبیوں اور کمالات کے اعتراف کے لیے بولا جاتا ہے۔ پھر ان خوبیوں اور کمالات کا فیض اگر حمد کرنے والے کو بھی پہنچ رہا ہو تو اس میں شکر کا مفہوم آپ سے آپ شامل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سورة اعراف (٧) آیت ٤٣، سورة یونس (١٠) آیت ١٠ اور سورة ابراہیم (١٤) آیت ٣٩ میں اس کے نظائر سے واضح ہوتا ہے کہ ’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ‘ کی ترکیب میں یہ بالعموم اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے ہم لفظ شکر سے ادا کرتے ہیں۔ اس سورة میں ، اگر غور کیجیے تو یہ اس جذبہ شکر وسپاس کی تعبیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عالم گیر ربوبیت اور بےپایاں رحمت کے مشاہدے اور قیامت میں اس کی ہمہ گیر دینونت کے بارے میں انبیاء (علیہم السلام) کی تذکیر سے پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونا چاہیے ۔
اللہ کا نام لفظ ’ الٰہ ‘ پر الف لام داخل کر کے بنا ہے، نزول قرآن سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی یہ نام اسی پروردگار کے لیے خاص تھا جو زمین و آسمان اور ان کے مابین تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود اپنے دیوی دیوتاؤں میں سے کسی کو بھی اس کے برابر قرار نہیں دیتے تھے۔
اصل میں ’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ رب کے معنی اصلاً پالنے والے کے ہیں۔ پھر اس مفہوم کے لازمی نتیجے کے طور پر مالک اور آقا کے معنی اس لفظ میں پیدا ہوئے اور اردو کے لفظ پروردگار کی طرح اس پر ایسا غلبہ حاصل کرلیا کہ پرورش کرنے والے کے معنی میں اس کا استعمال عربی زبان میں باقی نہیں رہا ۔ سورة کی ابتدا جس جذبہ شکر کی تعبیر سے ہوئی ہے ، یہ ’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ اور اس کے بعد کی صفات اس کی دلیل ہیں جو استدلال کے طریقے پر نہیں، بلکہ ایک بدیہی حقیقت کے اعتراف و اقرار کے اسلوب میں بیان ہوئی ہیں۔ یعنی شکر اس اللہ کے لیے ہے جو پوری کائنات کا مالک ہے۔ ہم اس کی مخلوق ہیں۔ چنانچہ وہی ہمارا بھی مالک ہے۔ ہم دنیا میں قدم نہیں رکھتے کہ ہماری پرورش، نگہداشت اور تربیت کا پورا سامان اس مالک کی طرف سے بالکل تیار موجود ہوتا ہے۔ پھر جب تک ہم زندہ رہتے ہیں ، صبح و شام اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ سورج ، چاند، ابروہوا، غرض یہ کہ کائنات کے سب چھوٹے بڑے عناصر ہماری ہی خدمت کے لیے سرگرم عمل ہیں اور اس لیے سرگرم عمل ہیں کہ ان کی باگ ایک ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہے جو ان کے دائرہ عمل اور ان کی غایت اور مقصود سے انھیں سرمو انحراف کی اجازت نہیں دیتی۔ ’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ یہاں اسی حقیقت کی تعبیر ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 3


الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت
اصل میں ’ رَحْمٰن ‘ اور ’ رَحِیْم ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ دونوں اگرچہ رحمت ہی سے صفت کے صیغے ہیں ، لیکن معنی کے لحاظ سے دیکھیے تو ان میں واضح فرق ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ” تدبر قرآن “ میں اس فرق کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

” اسم ’ رحمٰن ‘، ’ غضبان ‘ اور ’ سکران ‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ، اور اسم ’ رحیم ‘، ’ علیم ‘ اور ’ کریم ‘ کے وزن پر صفت کا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ رحیم ‘ کے مقابل میں ’ رحمٰن ‘ میں زیادہ مبالغہ ہے، اس وجہ سے ’ رحمٰن ‘ کے بعد ’ رحیم ‘ کا لفظ ان کے خیال میں ایک زائد لفظ ہے جس کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی، لیکن یہ تاکید مزید کے طور پر آگیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے ’ فعلان ‘ کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور ’ فعیل ‘ کا وزن دوام و استمرار اور پائیداری و استواری پر۔ اس وجہ سے ان دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی براے بیت نہیں ہے، بلکہ ان میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اس کے دوام و تسلسل کو ۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ خدا کی رحمت اس خلق پر ہے بھی اسی نوعیت سے۔ اس میں جوش ہی جوش نہیں ہے ، بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا پیداتو کر ڈالی ہو ، لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا ہو، بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے ، وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے ، پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی ہی تک محدود نہیں ہیں ، بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ، ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوسکتی ، جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اس کو ظاہر نہ کریں ۔ “ (١/ ٤٨)

’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ کے بعد یہ دونوں صفات جس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں ، وہ یہ ہے کہ جس پروردگار نے عالم میں ربوبیت کا یہ اہتمام فرمایا ہے ، اس کے بارے میں یہ بات اگر نہیں کہی جاسکتی اور یقیناً نہیں کہی جاسکتی کہ اس کی کوئی ذاتی غرض اس اہتمام سے وابستہ ہے یا وہ اپنی سلطنت کے قیام و بقا کے لیے اس کا محتاج ہے یا کسی کا کوئی حق اس پر قائم ہوتا ہے جسے ادا کرنے کے لیے یہ اہتمام اسے کرنا پڑا ہے تو اس کی وجہ پھر یہی ہوسکتی ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے۔ اس کی رحمت کا جوش ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اس رحمت کا دوام و استمرار ہے کہ اس کا فیضان برابر ہمیں پہنچ رہا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 4


مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی یہ اس کی پروردگاری اور اس کی رحمت کے دوام و استمرار کا تقاضا ہے کہ وہ ایک دن اپنی عدالت برپا کرے۔ چنانچہ وہ اسے برپا کرے گا اور اس طرح برپا کرے گا کہ اس دن سارا زور و اختیار اسی کو حاصل ہوگا ۔ سب کے سر اس کے سامنے جھکے ہوں گے ، کسی کو یارا نہ ہوگا کہ اس کے سامنے زبان کھول سکے۔ ہر معاملے کا فیصلہ وہ خود کرے گا اور کوئی اس کے فیصلے پر کسی پہلو سے اثر انداز نہ ہو سکے گا۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 5


اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

عبادت کا لفظ عربی زبان میں اصلاً خضوع اور تذلل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن میں یہ اس خضوع و خشوع کے لیے خاص ہوگیا ہے جو بندہ اپنے خداوند کے لیے ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ظہور کی اصل صورت پرستش ہی ہے ، لیکن انسان چونکہ اس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے ، اس وجہ سے اس ظہور سے آگے بڑھ کر یہ عبادت انسان کے اس عملی وجود سے بھی لازماً متعلق ہوتی ہے اور اس طرح پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اس وقت یہ انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس کا باطن جس ہستی کے سامنے جھکا ہوا ہے ، اس کا ظاہر بھی اس کے سامنے جھک جائے۔ اس نے اپنے آپ کو اندرونی طور پر جس کے حوالے کردیا ہے ، اس کے خارج میں بھی اس کا حکم جاری ہوجائے۔ یہاں تک کہ اس کی زندگی کا کوئی پہلو اس سے مستثنیٰ نہ رہے۔ یہی عبادت ہے جسے شرک کی ہر آلایش سے پاک کر کے اللہ ہی کے لیے خاص کرنے کا اقرار اس آیت میں کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس میں صرف اتنی بات نہیں کہی گئی کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ، بلکہ پورے زور کے ساتھ اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس اعتراف و اقرار کے بعد ظاہر ہے کہ نہ بندے کے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ رہا ہے اور نہ کسی سے کچھ مانگنے کی کوئی گنجایش اس کے لیے باقی رہ گئی ہے۔ چنانچہ خاص عبادت کے معاملے میں بھی اور زندگی کے دوسرے تمام معاملات میں بھی وہ اللہ ہی سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔ سورة کی ابتدا جس جذبہ شکر کے اظہار سے ہوئی ہے ، غور کیجیے تو یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے جو اس اعتراف و اقرار کی صورت میں بندے کی زبان پر جاری ہوگیا ہے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 6


اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

اصل الفاظ ہیں : ’ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ‘۔ ان میں الف لام عہد کا ہے، یعنی وہ سیدھی راہ جس کی وضاحت آگے کی آیت میں کی گئی ہے۔
آیت میں ’ اِھْدِنَا ‘، ’ الی ‘ کے بغیر آیا ہے۔ چنانچہ عربیت کی رو سے اب اس کا مفہوم صرف اسی قدر نہیں رہا کہ ہمیں سیدھی راہ دکھا ، بلکہ اس سے بہت کچھ زیادہ ہوگیا ہے۔ یعنی اس پر ہمارے دلوں کو مطمئن کر دے۔ اس پر چلنے کا شوق عطا فرما، اس پر ثبات و استقامت بخش دے۔ اس کے نشیب و فراز میں ہماری رہنمائی کر اور مرتے دم تک اس پر اسی طرح چلتے رہنے کی توفیق عنایت فرما دے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
الم : سورۃ الفاتحة : آیت 7


صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

(تفسیر البیان (الغامدی :

یعنی ان لوگوں کی راہ جنھیں تو نے اپنی ہدایت سے نوازا اور انھوں نے پورے دل اور پوری جان کے ساتھ اس طرح اسے قبول کیا کہ تیری نعمت ہر لحاظ سے ان پر پوری ہوگئی ۔ سورة نساء (٤) آیت ٦٩ میں وضاحت ہے کہ اس سے مراد انبیاء و صدیقین اور شہدا و صالحین کی مقدس جماعت ہے ۔
یعنی وہ لوگ جنھوں نے اپنی سرکشی کے باعث اس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا یا قبول کیا تو دل کی آمادگی سے قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اس سے انحراف پر مصر رہے۔ خدا کے جن بندوں نے ان کی اصلاح کرنا چاہی، انھیں جھٹلایا۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو اذیتیں دیں اور بعض کو قتل کردیا۔ چنانچہ اپنے ان جرائم کی پاداش میں وہ خدا کے غضب کے مستحق ٹھیرے۔ اس میں اشارہ یہود کی طرف ہے جن پر آگے سورة بقرہ میں اتمام حجت کیا گیا ہے۔
یعنی جنھوں نے دین کا چہرہ اپنی بدعتوں اور ضلالتوں سے اس طرح مسخ کردیا کہ اب خود بھی اسے پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اس میں اشارہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے پیرؤوں کی طرف ہے جن پر آگے سورة آل عمران میں اتمام حجت کیا گیا ہے۔

 
Top