الم : سورۃ الفاتحة : آیت 3
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾
(تفسیر البیان (الغامدی :
آیت کی تفسیر اور الفاظ کی وضاحت
اصل میں ’ رَحْمٰن ‘ اور ’ رَحِیْم ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ دونوں اگرچہ رحمت ہی سے صفت کے صیغے ہیں ، لیکن معنی کے لحاظ سے دیکھیے تو ان میں واضح فرق ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ” تدبر قرآن “ میں اس فرق کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
” اسم ’ رحمٰن ‘، ’ غضبان ‘ اور ’ سکران ‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے ، اور اسم ’ رحیم ‘، ’ علیم ‘ اور ’ کریم ‘ کے وزن پر صفت کا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’ رحیم ‘ کے مقابل میں ’ رحمٰن ‘ میں زیادہ مبالغہ ہے، اس وجہ سے ’ رحمٰن ‘ کے بعد ’ رحیم ‘ کا لفظ ان کے خیال میں ایک زائد لفظ ہے جس کی چنداں ضرورت تو نہیں تھی، لیکن یہ تاکید مزید کے طور پر آگیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ عربی زبان کے استعمالات کے لحاظ سے ’ فعلان ‘ کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اور ’ فعیل ‘ کا وزن دوام و استمرار اور پائیداری و استواری پر۔ اس وجہ سے ان دونوں صفتوں میں سے کوئی صفت بھی براے بیت نہیں ہے، بلکہ ان میں سے ایک خدا کی رحمت کے جوش و خروش کو ظاہر کر رہی ہے، دوسری اس کے دوام و تسلسل کو ۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ خدا کی رحمت اس خلق پر ہے بھی اسی نوعیت سے۔ اس میں جوش ہی جوش نہیں ہے ، بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ اپنی رحمانیت کے جوش میں دنیا پیداتو کر ڈالی ہو ، لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا ہو، بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے ، وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے ، پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی ہی تک محدود نہیں ہیں ، بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ، ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال زندگی میں بھی ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ساری حقیقت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوسکتی ، جب تک یہ دونوں لفظ مل کر اس کو ظاہر نہ کریں ۔ “ (١/ ٤٨)
’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘ کے بعد یہ دونوں صفات جس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں ، وہ یہ ہے کہ جس پروردگار نے عالم میں ربوبیت کا یہ اہتمام فرمایا ہے ، اس کے بارے میں یہ بات اگر نہیں کہی جاسکتی اور یقیناً نہیں کہی جاسکتی کہ اس کی کوئی ذاتی غرض اس اہتمام سے وابستہ ہے یا وہ اپنی سلطنت کے قیام و بقا کے لیے اس کا محتاج ہے یا کسی کا کوئی حق اس پر قائم ہوتا ہے جسے ادا کرنے کے لیے یہ اہتمام اسے کرنا پڑا ہے تو اس کی وجہ پھر یہی ہوسکتی ہے کہ وہ رحمن و رحیم ہے۔ اس کی رحمت کا جوش ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اس رحمت کا دوام و استمرار ہے کہ اس کا فیضان برابر ہمیں پہنچ رہا ہے۔