• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر البیان از جاوید احمد غامدی پارہ نمبر 5 یونیکوڈ

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 24


وَّ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ۚ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ۚ وَ اُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ ؕ فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا تَرٰضَیۡتُمۡ بِہٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡفَرِیۡضَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۲۴﴾

اس لیے کہ کسی کی ملکیت میں آتے ہی ان کا پہلا نکاح آپ سے آپ کالعدم سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس زمانے کا قانون تھا جسے قرآن نے بھی باقی رکھا۔ چنانچہ قیدی عورتیں اگر چاہتیں تو پکڑے جانے کے بعد کسی بھی شخص سے نکاح کرسکتی تھیں۔ اس کے لیے انھیں اپنے پہلے شوہروں سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اِس سے واضح ہے کہ نکاح مال، یعنی مہر کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یہ نکاح کی ایک لازمی شرط ہے۔ چنانچہ آگے ہدایت فرمائی ہے کہ اس سے پہلے اگر کسی عورت کا مہر ادا نہیں کیا گیا تو اسے فوراً ادا کردیا جائے۔ یہ مہر کیا ہے ؟ مردو عورت نکاح کے ذریعے سے مستقل رفاقت کا جو عہد باندھتے ہیں، اس میں نان و نفقہ کی ذمہ داریاں ہمیشہ سے مرد اٹھاتا رہا ہے، یہ اس کی علامت (token ) ہے۔ قرآن میں اس کے لیے ’ صَدَقَۃ ‘ اور ’ اَجْر ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی وہ رقم جو عورت کی رفاقت کے صلے میں اس کی ضرورتوں کے لیے دی جائے۔ نکاح اور خطبے کی طرح یہ بھی ایک قدیم سنت ہے جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بعثت سے پہلے عرب میں اسی طرح رائج تھی۔ بائیبل میں بھی اس کا ذکر اسی حیثیت سے ہوا ہے۔اِس کی یہ اہمیت کیوں ہے ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے : ”۔۔ جس معاملے کے ساتھ اداے مال کی شرط لگی ہو اور اس اداے مال کی حیثیت محض ایک تبرع اور احسان کی نہ ہو، بلکہ ایک فریضے کی ہو، یہاں تک کہ اگر وہ مذکور نہ بھی ہو جب بھی لازماً مضمر سمجھا جائے اور عورت کی حیثیت عرفی کے اعتبار سے اس کی ادائیگی واجب قرار پائے، شرعاً و عرفاً ایک اہم اور سنجیدہ معاملہ بن جاتا ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش آدمی ایسے معاہدے میں ایک پارٹی بننے کی جرات نہ کرے گا جب تک وہ سو بار سوچ کر اس میں شرکت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہ کرے۔۔ اِن مصالح سے مہر کی شرط ضروری ہوئی۔ جن لوگوں کی نظر ان مصالح کی طرف نہیں گئی وہ سمجھتے ہیں کہ اس شرط نے عورت کو ایک خریدنی و فروختنی شے کے درجے تک گرا دیا ہے۔ یہ خیال محض ناسمجھی کا نتیجہ ہے۔ یہ شرط تو ایک آگاہی ہے کہ جو بھی عورت کے حرم میں قدم رکھنا چاہے، وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر قدم رکھے۔ نکاح و طلاق کے معاملے میں کسی مذاق کی گنجایش نہیں ہے۔ یہاں مذاق بھی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٧٨) اِس سے واضح ہے کہ نکاح کے لیے پاک دامن ہونا ضروری ہے۔ کوئی زانی یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی عفیفہ سے بیاہ کرے اور نہ کوئی زانیہ یہ حق رکھتی ہے کہ کسی مرد عفیف کے نکاح میں آئے، الاّ یہ کہ معاملہ عدالت میں نہ پہنچا ہو اور وہ توبہ و استغفار کے ذریعے سے اپنے آپ کو اس گناہ سے پاک کرلیں۔ پیدایش ٣٤: ١٢، خروج ٢٢: ١٧۔
0
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 25


وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِکُمۡ ؕ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَانۡکِحُوۡہُنَّ بِاِذۡنِ اَہۡلِہِنَّ وَ اٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ۚ فَاِذَاۤ اُحۡصِنَّ فَاِنۡ اَتَیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصۡفُ مَا عَلَی الۡمُحۡصَنٰتِ مِنَ الۡعَذَابِ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ الۡعَنَتَ مِنۡکُمۡ ؕ وَ اَنۡ تَصۡبِرُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۲۵﴾
یہ بھی انھی اقدامات میں سے ہے جو غلامی کے ادارے کو بتدریج ختم کردینے کے لیے کیے گئے۔ چنانچہ اجازت دی گئی کہ جن لونڈیوں کی تربیت ان کے مالکوں نے اچھے طریقے سے کی ہے، انھیں پاک دامن رکھا ہے اور وہ مسلمان بھی ہوگئی ہیں، ان کے ساتھ وہ لوگ نکاح کرلیں جنھیں خاندانی عورتوں کے ساتھ نکاح کا مقدور نہیں ہے تاکہ ان کی ضرورت بھی پوری ہوجائے اور یہ عورتیں بھی، جنھیں ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے پستی میں گرا دیا گیا ہے، خاندانی عورتوں کے برابر ہو کر زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔ یعنی عزوشرف کی اصلی بنیاد ایمان پر ہے اور یہ محض خاندانی گھرانوں ہی کا حصہ نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ ایک لونڈی اپنے ایمان کے لحاظ سے بڑے بڑے شریف زادوں اور شریف زادیوں پر فوقیت رکھتی ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تم سب آدم و حوا کی اولاد ہو۔ لونڈی اور غلام ہونا محض ایک عارضی حالت ہے۔ انسان ہونے کے اعتبار سے تم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اِس لیے کہ سوسائٹی کے اندر ان کا معیار اونچا ہو اور انھیں بھی عام عورتوں کے برابر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہوجاتی ہے کہ سورة نور میں زنا کے مجرموں کے لیے سو کوڑے کی جو سزا بیان ہوئی ہے، وہ اس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف انھی مجرموں کو دی جائے گی جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہوجائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ پاگل، بدھو، مجبور، سزا کے تحمل سے معذور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری ماحول، حالات اور حفاظت سے محروم سب لوگ اس سے یقیناً مستثنیٰ ہیں اور عدالت انھیں کوئی کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ خاندان کی حفاظت سے محرومی اور ناقص اخلاقی تربیت کی وجہ سے لونڈیوں کو سو کوڑے کی یہ سزا نہیں دی جائے گی، یہاں تک کہ اس صورت میں بھی جب ان کے مالکوں اور شوہروں نے انھیں پاک دامن رکھنے کا پورا اہتمام کیا ہو، وہ اس سزا کی نسبت سے آدھی سزا کی مستحق ہوں گی۔ یعنی سو کے بجائے انھیں پچاس کوڑے مارے جائیں گے۔ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ اس طرح کے نکاح میں حقوق ملکیت اور حقوق نکاح میں تصادم کا اندیشہ تھا اور یہ چیز ازدواجی زندگی کو برباد کردے سکتی تھی۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 26


یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶﴾
اصل میں ’ یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ یُرِیْدُ ‘ کے بعد ’ ل ‘ ہے اور اس کے بعد آیت ٢٧ میں ’ اَنْ ‘۔ یہ فرق کیوں ہے ؟ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ قرآن مجید میں ان دونوں اسلوبوں کے تتبع سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ’ ارادہ ‘ کا لفظ دومعنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو قطعی فیصلے اور حتمی ارادہ کے معنی میں، دوسرے چاہنے کے معنی میں۔ جب پہلے معنی مراد ہوتے ہیں تو اس کے بعد ’ ل ‘ آتا ہے اور جب مجرد چاہنے کے معنی میں آتا ہے تو اس کے بعد ’ اَنْ ‘ آتا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٨٢) ہم نے ترجمہ انھی اسالیب کی رعایت سے کیا ہے۔ یہ پوری بات ایک فیصلہ الٰہی کی حیثیت سے بیان ہوئی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے نزدیک، یہ ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ذریعے سے تمام عالم کے لیے اتمام ہدایت کا اہتمام اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں پہلے سے طے تھا، انبیاء (علیہم السلام) نے اس کی خبر دی تھی اور یہ خدا کے علم و حکمت کا تقاضا بھی تھا، اس لیے کہ وہ علیم و حکیم لوگوں کو پیدا کرکے ان کی ہدایت کے اہتمام سے غافل نہیں ہوسکتا تھا۔

 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 27


وَ اللّٰہُ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ۟ وَ یُرِیۡدُ الَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الشَّہَوٰتِ اَنۡ تَمِیۡلُوۡا مَیۡلًا عَظِیۡمًا ﴿۲۷﴾
اشارہ ہے اہل کتاب، بالخصوص یہود کی طرف جو دین حق اور اس کے پیرؤوں کے ساتھ اپنے عناد کی وجہ سے دن رات اسی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 28


یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّخَفِّفَ عَنۡکُمۡ ۚ وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا ﴿۲۸﴾
یہ ان پابندیوں کی طرف اشارہ ہے جو علما کی فقہی موشگافیوں کے باعث لوگوں پر لگ چکی تھیں۔ قرآن نے دوسری جگہ انھیں اصرواغلال سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ انسان کی فطرت کا بیان ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو غیر فطری اور خود ساختہ بوجھ اس پر ڈال دیے گئے تھے، انھیں ایک دن اترنا ہی تھا۔ انسان کا خالق اس کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ ایسے بوجھوں تلے اس کو دبا رہنے دے جن کا تحمل اس کے لیے ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہوجائے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 29


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿۲۹﴾
اس سے مراد وہ طریقے ہیں جو عدل و انصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہوں اور جن میں لین دین اور معاملت کی بنیاد فریقین کی حقیقی رضامندی پر نہ ہو، بلکہ ایک کا مفاد ہر حال میں محفوظ رہے اور دوسرے کی بےبسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ضرر یا غرر کا ہدف بنایا جائے۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ رشوت، چوری، غصب، سود، جوا، غلط بیانی، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا، یہ سب اسی کے تحت داخل ہیں۔ روایتوں میں بیع و شرا اور مزارعت وغیرہ کی جن صورتوں سے منع کیا گیا ہے، وہ بھی اسی کے تحت ہیں۔ اصل الفاظ ہیں : ’ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ‘۔ ان میں ’ اَنْفُسَکُمْ ‘ کا لفظ بالکل اسی طرح آیا ہے، جس طرح اوپر ’ اَمْوَالَکُمْ ‘ کا لفظ ہے، اس لیے جن لوگوں نے اس سے خودکشی کے معنی لیے ہیں، ان کی راے عربیت کے خلاف ہے۔ اس کے لیے اسلوب دوسرا ہونا چاہیے۔ اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک دوسرے کا مال کھانے اور ناحق کسی کی جان لینے کی حرمت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایک ساتھ جمع کردیا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :”۔۔ ان کو ایک ساتھ جمع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ان دونوں میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ مال کی حرص اس کے حصول کے جائز و ناجائز طریقوں کی تمیز اٹھا دیتی ہے اور پھر یہ بیماری لوگوں کو اس طرح اندھا کردیتی ہے کہ اُ س کے لیے قتل و خون تک نوبت آجاتی ہے۔ سماجی فسادات اور خوں ریزیوں کے اسباب کا سراغ لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ حرص مال کو ان میں سب سے زیادہ دخل ہے۔ اسلام نے ان دونوں چیزوں کے اس گہرے باہمی رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مال اور ایک دوسرے کی جان، دونوں چیزوں کی حرمت کی یکساں تاکید فرمائی ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٨٥) مطلب یہ ہے کہ جب اللہ مہربان ہے تو وہ کس طرح پسند کرسکتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے کھائیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں۔ وہ تو یہی چاہے گا کہ لوگ آپس میں ’ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ ‘ بن کر زندگی بسر کریں۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 30


وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ عُدۡوَانًا وَّ ظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِیۡہِ نَارًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۳۰﴾
اصل میں ’ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اگر ایک ساتھ آئیں تو گناہ کی دو الگ الگ صورتوں پر دلالت کرتے ہیں۔ ظلم کا لفظ اس صورت پر دلالت کرتا ہے، جب دھاندلی سے کسی کا حق واجب ادا نہ کیا جائے اور عدوان کا اس صورت پر جب زور و زبردستی سے کسی کے جان و مال پر دست درازی کی جائے۔ اس کے برخلاف الگ الگ آئیں تو کم و بیش ایک ہی مفہوم کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اصل میں لفظ ’ نَارًا ‘ آیا ہے۔ اس کی تنکیر یہاں تفخیم کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ یہ الفاظ ایک مخفی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ استاذ امام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ”۔۔ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں، لیکن خدا کی صفات عدل و رحم کا صحیح تصور نہیں رکھتے، وہ اپنے آپ کو الاؤنس دینے میں بڑے فیاض ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے جرائم کرتے چلے جاتے ہیں، لیکن یہود کی طرح توقع یہی رکھتے ہیں کہ خدا ان پر بڑا مہربان ہے، اس لیے سب بخش دے گا۔ قرآن نے یہود کا قول ’ سَیُغْفَرُلَنَا ‘ جو نقل کیا ہے ، وہ اسی ذہنیت کی غمازی کر رہا ہے۔ درحقیقت اس قماش کے لوگ شہ تو حاصل کرتے ہیں اس ڈھیل اور مہلت سے جو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق عطا فرماتا ہے، لیکن ان کی حیلہ جو طبیعت آڑ ڈھونڈتی ہے خدا کی رحمت کی۔ حالانکہ خدا رحیم ہے تو آخر وہ ظالموں پر کیوں رحم فرمائے گا۔ اس کی رحمت کے اصلی مستحق تو وہ مظلوم ہیں جو ان کے ہاتھوں زندگی بھر ستائے گئے اور آہ بھی نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی ذہنیت رکھنے والوں کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ جو لوگ ظلم وعدوان کی زندگی بسر کررہے ہیں، ان کو جہنم میں جھونک دینا خداے رحیم پر ذرا بھی شاق نہیں گزرے گا، اس لیے کہ وہ جس طرح رحیم ہے، اسی طرح عادل بھی ہے اور یہ عدل بھی اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٨٦)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 31


اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾
بڑے گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جو قرآن کے ان احکام عشرہ کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتے ہیں جو سورة بنی اسرائیل (١٧) کی آیات ٢٢۔ ٣٩ میں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ ان سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کا صلہ اس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے بعد آدمی کے چھوٹے گناہوں کو وہ اپنی بےپایاں رحمت سے معاف کردیتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر میں ایک اور حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ” یہاں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صغائر سے بچنے کی راہ بھی یہی ہے کہ آدمی کبائر سے اجتناب کرے۔ جو آدمی اپنے ہزاروں کے قرضے چکاتا رہتا ہے، وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ کسی کے پانچ روپے دبا کر نادہند کہلانے کی ذلت گوارا کرے۔ برعکس اس کے جو لوگ کبائر کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، ان کا حال زندگی بھر یہ رہتا ہے کہ مچھر کو چھانتے رہتے ہیں اور اونٹ کو نگلتے رہتے ہیں۔ دوسروں کو تو یہ زیرے اور سونف تک کی زکوۃ کا حساب سمجھاتے ہیں، لیکن خود یتیموں کے مال اور اوقاف کی آمدنیوں سے اپنی کوٹھیاں بنواتے اور ان کو سجاتے ہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٨٨)
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 32


وَ لَا تَتَمَنَّوۡا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبُوۡا ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا اکۡتَسَبۡنَ ؕ وَ سۡئَلُوا اللّٰہَ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ﴿۳۲﴾
یہ اس لیے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے جدوجہد اور مسابقت کا اصلی میدان اس کی خلقی صفات نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلقی صفات کے لحاظ سے بعض کو بعض پر فی الواقع ترجیح حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذہنی، کسی کو جسمانی، کسی کو معاشی اور کسی کو معاشرتی برتری کے ساتھ پیدا کیا اور دوسروں کو اس کے مقابلے میں کم تر رکھا ہے۔ مرد و عورت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس میں زوجین کا تعلق ایک کو فاعل اور دوسرے کو منفعل بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ فعلیت جس طرح غلبہ، شدت اور تحکم چاہتی ہے، انفعالیت اسی طرح نرمی، نزاکت اور اثر پذیری کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ ان میں اگر مسابقت اور تنافس کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو یہ فطرت کے خلاف جنگ ہوگی جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ بالآخر دونوں اپنی بربادی کا ماتم کرنے کے لیے باقی رہ جائیں۔ یہ ایک دوسرے میدان کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ اکتسابی صفات، یعنی نیکی، تقویٰ ، عبادت، ریاضت اور علم و اخلاق کا میدان ہے۔ قرآن نے اس کے لیے جگہ جگہ ایمان اور عمل صالح کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ مسابقت اور تنافس کا میدان درحقیقت یہی ہے۔ اس میں بڑھنے کے لیے کسی پر کوئی پابندی نہیں، بلکہ مسابقت اس میدان میں اتنی ہی محمود ہے، جتنی خلقی صفات کے میدان میں مذموم ہے۔ مرد بڑھے تو اسے بھی اپنی جدوجہد کا پھل ملے گا اور عورت بڑھے تو وہ بھی اپنی تگ و دو کا ثمرہ پائے گی۔ بانو، باندی، آزاد، غلام، شریف، وضیع، خوب صورت، بدصورت اور بینا و نابینا، سب کے لیے یہ میدان یکساں کھلا ہوا ہے۔ دوسروں پر فضیلت کی خواہش ہو تو انسان کو اس میدان میں خدا کا فضل تلاش کرنے کے لیے نکلنا چاہیے۔ اپنی محنت غلط میدان میں برباد کرنے سے لاحاصل تصادم اور بےفائدہ تنازعات کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ حوصلہ آزمانے اور ارمان نکالنے کا صحیح میدان یہ ہے۔ جس کو اترنا ہو، وہ اس میدان میں اترے۔
 

محمد اویس پارس

رکن ختم نبوت فورم
والمحصنت : سورۃ النسآء : آیت 33


وَ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ؕ وَ الَّذِیۡنَ عَقَدَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ فَاٰتُوۡہُمۡ نَصِیۡبَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا ﴿٪۳۳﴾
یہ تقسیم وراثت کے اس ضابطے کی طرف اشارہ ہے جو اس سے پہلے اسی سورة میں بیان ہوا ہے۔ موقع کلام کی رعایت سے اس کا ذکر یہاں حصوں میں خدا کی قائم کی ہوئی ترجیحات کو بدلنے کی کوشش پر تنبیہ کے لیے ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ اس حوالے سے مقصود اس کو مزید موکد کرنا ہے کہ ہر مورث کے جو وارث خدا نے ٹھہرا دیے ہیں، وہی اصلی وارث ہیں۔ اب ان میں اپنے ذاتی رجحانات کی بنا پر نہ کسی ترمیم و تبدیلی کی گنجایش ہے اور نہ ان کے مقررہ حصوں میں کسی کمی بیشی کی۔ اگر کسی نے کسی غیر وارث سے کچھ دینے دلانے کا وعدہ کر رکھا ہے تو اس کو وہ حصہ دے جو اس کا ہے۔ ’ اس کا حصہ ‘ سے مراد ، ظاہر ہے کہ وہی حصہ ہوسکتا ہے جس کی مورث کو وصیت کی اجازت ملی ہوتی ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تقسیم سے علیحدہ کر رکھا ہے۔ یہ حصہ درحقیقت ایسے ہی لوگوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوڑا گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے ’ نَصِیْبَہُمْ ‘ کا لفظ استعمال ہوا۔ آخر میں اپنی صفت ’ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدًا ‘ کا حوالہ بطور تنبیہ دیا ہے کہ بےجا جانب داری کی مخفی سے مخفی کوشش بھی اللہ کے علم سے مخفی نہیں رہ سکتی۔ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر جلی و خفی سے آگاہ ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٢٨٩)
 
Top