ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُ اللّٰہُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ٭ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ عِظۡہُمۡ وَ قُلۡ لَّہُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَوۡلًۢا بَلِیۡغًا ﴿۶۳﴾ یہ ہدایت اس لیے ہوئی کہ بڑی سے بڑی غلطی پر بھی نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کا رویہ نہایت نرم اور کریمانہ ہوتا تھا۔ قرآن نے فرمایا کہ اب زیادہ نرمی برتنے کا موقع نہیں ہے، اس لیے ان منافقوں کو نیک و بد اچھی طرح سمجھا دیا جائے اور واضح الفاظ میں تنبیہ کردی جائے تاکہ یہ سنبھلنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ کی آخری گرفت سے پہلے پہلے سنبھل جائیں۔
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾ یہ رسول کا صحیح مرتبہ واضح فرمایا ہے کہ رسول صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اس لیے نہیں آتا کہ لوگ اسے نبی اور رسول مان کر فارغ ہوجائیں۔ اس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اس کی بےچون و چرا تعمیل کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے دیتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ پھر یہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کا مطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اور انتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہیے۔ انسان کو خدا کی محبت اسی اطاعت اور اسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔ آیت میں رسول کے استغفار کی جو شرط عائد کی گئی ہے، استاذ امام نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :”۔۔ ایک تو یہ کہ رسول کا یہ استغفار ان کے لیے اس دنیا میں بمنزلہ شفاعت ہے جس سے ان کے اس گناہ عظیم کے بخشے جانے کی توقع ہے، دوسرا یہ کہ رسول کی عدالت کے ہوتے ان کا ’
تحاکم الی الطاغوت
‘ رسول کی صریح توہین ہے۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ وہ رسول کی رضا اور ان کی دعا بھی حاصل کریں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٢٩)
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۶۵﴾ نبی (
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
) کے لیے اس التفات خاص میں جو دل نوازی ہے، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی بلاغت کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے زبان وبیان کے ذوق سے کچھ بہرہ عطا فرمایا ہے۔منافقین کی جھوٹی قسم اوپر آیت ٦٢ میں مذکور ہے۔ یہ قرآن نے سچی قسم سے اس کی تردید کرتے ہوئے رسول کے مقام و مرتبہ کی آخری حد واضح کردی ہے کہ دین و شریعت کے احکام تو ایک طرف، اپنے درمیان پیدا ہونے والی نزاعات تک میں رسول کے فیصلے کو بےچون وچرا اور پورے اطمینان کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک یہ اپنے درمیان پیدا ہونے والی تمام نزاعات میں تمھی کو حکم نہ مانیں اور پھر ساتھ ہی ان کے اندر یہ ذہنی تبدیلی نہ واقع ہوجائے کہ وہ تمہارے فیصلے کو بےچون وچرا پورے اطمینان قلب کے ساتھ مانیں اور اپنے آپ کو بلا کسی استثنا و تحفظ کے تمہارے حوالے کردیں۔ رسول کی اطاعت خود خدا کی اطاعت کے ہم معنی ہے، اس وجہ سے اس کا حق صرف ظاہری اطاعت سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے دل کی اطاعت بھی شرط ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٢٩) والمحصنت : سورۃ النسآء :
آیت 66-67-68 تفسیر موجود نہیں۔
وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ ان میں ’
صِدِّیْقِیْن
‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے علم وعمل میں سچے ہوں اور ہر موقع پر یہ سچائی اپنے قول و فعل سے ثابت کردیں اور ’
شُہَدَآء
‘ ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو جان کی بازی لگا کر بھی حق کی گواہی دینے والے ہوں۔
ذٰلِکَ الۡفَضۡلُ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیۡمًا ﴿٪۷۰﴾ یعنی اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ کا علم کافی ہے کہ کون اس کی عنایتوں کا مستحق ہے۔ وہ اپنے بندوں کو جانتا ہے، ان سے بیخبر نہیں ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا ﴿۷۱﴾ اصل میں لفظ ’
حِذْر
‘ آیا ہے۔ اس کے معنی کسی خطرے اور آفت سے بچنے کے ہیں۔ اپنے اسی مفہوم سے ترقی کر کے یہ زرہ، سپر اور خود وغیرہ کے لیے استعمال ہوا، اس لیے کہ یہ چیزیں جنگ میں دشمن کے حملوں سے بچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ اس کا خاص استعمال ہے، لیکن اپنے عام استعمال میں یہ محض اسلحہ کے مفہوم میں بھی آجاتا ہے۔ موقع کلام دلیل ہے کہ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے۔ یعنی ٹکڑیوں کی صورت میں دشمن پر چھاپے مارنے کے لیے۔ یہ حملے کا وہی طریقہ ہے جسے اس زمانے میں گوریلا جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
وَ اِنَّ مِنۡکُمۡ لَمَنۡ لَّیُبَطِّئَنَّ ۚ فَاِنۡ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَالَ قَدۡ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذۡ لَمۡ اَکُنۡ مَّعَہُمۡ شَہِیۡدًا ﴿۷۲﴾ اور اس طرح خود بھی جنگ سے جی چراتے اور دوسروں کو بھی پست ہمت کرتے ہیں۔
وَ لَئِنۡ اَصَابَکُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوۡلَنَّ کَاَنۡ لَّمۡ تَکُنۡۢ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ مَعَہُمۡ فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۳﴾ یہ الفاظ ان کے باطن کو نمایاں کرتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :”۔۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ اپنی شامت اعمال سے کسی مہم میں شامل نہیں ہوتے تو ایمانی و اسلامی اخوت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوں کہ اللہ نے ان کے دینی بھائیوں کو سرخرو کیا، لیکن انھیں اس بات کی کوئی خوشی نہیں ہوتی، بلکہ جس طرح حریف کی کسی کامیابی پر آدمی کا دل جلتا ہے کہ وہ اس میں حصہ دار نہ ہوسکا، اسی طرح یہ لوگ اس کو اپنی کامیابی نہیں، بلکہ حریف کی کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی محرومی پر سر پیٹتے ہیں۔ گویا اسلام اور مسلمانوں سے ان کا کوئی رشتہ ہی نہیں۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٣٥)
فَلۡیُقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یَشۡرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ مَنۡ یُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیُقۡتَلۡ اَوۡ یَغۡلِبۡ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۷۴﴾ یعنی ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو استاذ امام کے الفاظ میں صرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں نکسیر بھی نہ پھوٹے اور مال غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔
وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾ اس سے معلوم ہوا کہ
قتال فی سبیل اللہ
کی سب سے نمایاں اور اولین صورت یہی ہے کہ ان لوگوں کی مدد کی جائے جو دین کے لیے ستائے جا رہے ہوں۔ آیت میں ظالموں کی بستی کے الفاظ سے اشارہ ان بستیوں کی طرف ہے جن میں بہت سے مرد، عورتیں اور بچے ایمان لا چکے تھے، مگر ایسے سرپرستوں اور زبردستوں کے چنگل میں تھے کہ ان کے ظلم و ستم سے بچ کر اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے کوئی راہ نہیں پاتے تھے۔ اصل میں ’
مِنْ لَّدُنْکَ
‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اگرچہ بظاہر تو امید کی کرن نظر نہیں آتی، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے کیا بعید ہے۔ وہ جب چاہے اپنے بندوں کے لیے کوئی راہ کھول دے۔ اِس پوری آیت سے جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :” ایک یہ کہ ظالم کفار نے کمزور مسلمانوں پر خود ان کے وطن کی زمین اس طرح تنگ کردی تھی کہ وہ وطن ان کو کاٹے کھا رہا تھا اور باوجود یکہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے، لیکن وہ اس سے اس قدر بیزار تھے کہ اس کو ظالم باشندوں کی بستی کہتے ہیں، اس کی طرف کسی قسم کا انتساب اپنے لیے گوارا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ کوئی وطن اسی وقت تک اہل ایمان کے لیے وطن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک اس کے اندر ان کے دین و ایمان کے لیے امن ہو۔ اگر دین و ایمان کو اس میں امن حاصل نہ ہو تو وہ وطن نہیں، بلکہ وہ خونخوار درندوں کا بھٹ، سانپوں اور اژدہوں کا مسکن اور شیطانوں کا مرکز ہے۔تیسری یہ کہ اس زمانے میں حالات اس قدر مایوس کن تھے کہ مظلوم مسلمانوں کو ظاہر میں نجات کی کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ سارا بھروسا بس اللہ کی مدد پر تھا کہ وہی غیب سے ان کے لیے کوئی راہ کھولے تو کھولے۔ اس کے باوجود یہ مسلمان اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اللہ اکبر ! کیا شان تھی ان کی استقامت کی ! پہاڑ بھی اس استقامت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ چوتھی یہ کہ اگر کہیں مسلمان اس طرح کی مظلومیت کی حالت میں گھر جائیں تو ان تمام مسلمانوں پر جو ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں، جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اگر وہ ان کی مدد کے لیے نہ اٹھیں تو یہ صریح نفاق ہے۔ “ (تدبر قرآن ٢/ ٣٣٦)