• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 15 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 1

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾

تفسیر سرسید : ۱

(سبحان الذی) معراج کے متعلق حدیثوں اور روایتوں میں جس قدر اختلاف ہے غالباً اور اسی امر میں اس قدر اختلاف نہ ہوگا ان اختلافات کا بیان کرنا اور ان کی تنقیح کرنا سب سے مقدم امر ہے اور اس لیے ہم ہر ایک امر کو معہ ان کے اختلافات کے جدا جدا بیان کرتے ہیں۔
زمانہ معراج
بخاری میں شریک کی روایت سے ایک حدیث ہے جس کے یہ الفاظ ہیں ” قبل ان یوحی الیہ “ یعنی اسراء آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی آنے یعنی نبی ہونے سے پہلے ہوئی تھی مگر خود محدثین نے بیان کیا ہے کہ وہ الفاظ اسرا سے متعلق نہیں ہیں چنانچہ اس حدیث کی اس بحث کو بھی بیان کرینگے اس وقت ان اختلافات کو بیان کرتے ہیں جو اسرایا معراج سے متعلق ہیں۔
اس باب میں کہ معراج کب ہوئی مندرجہ ذیل مختلف اقوال ہیں۔
ہجرت سے ایک برس پہلے ربیع الاول کے مہینہ میں۔
ہجرت سے ایک برس پانچ مہینے پہلے شوال کے مہینہ میں ۔ بعضوں نے کہا کہ رجب کے مہینہ میں۔
، ہجرت سے اٹھارہ مہینے پیشتر۔
ہجرت سے ایک برس تین مہینے پہلے ذی الحجہ میں۔
ہجرت سے تین برس پہلے
، نبوت سے پانچ برس بعد۔
، نبوت سے بارہ برس بعد بعضوں کے نزدیک قبل موت ابی طالب اور بعضوں کے نزدی بعد موت ابی طالب۔
، نبوت سے تیرھویں برس ربیع الاول یا رجب میں۔
، ہجرت سے سولہ مہینے قبل ذیقعدہ کے مہینہ میں اور بعضوں کے نزدیک ربیع الاول میں۔
ستائیسویں تاریخ رجب کے مہینہ میں۔
رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو۔
ستائیسویں تاریخ رمضان کے مہینہ میں ہفتہ کی رات کو۔
یہ تمام اختلافات جو ہم نے بیان کئے عینی شرح بخاری میں مندرج ہیں اور اس کی عبارت بلفظہ ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
وبختلف فی وقت المعراج فقیل انہ کان قبل المبعث وھوشاذالا اذا حمل علی انہ وقع فی المنام فلہ وجہ و قیل کان قبل ھجرۃ بسنۃ فی ربیع الاول وو قول الا کثرین حتی بالغ ابن حزم فنقل الاجماع علی ذلک وقال السدی قبل الھجرت بسنۃ و خمسۃ اشھر و اخر جہ من طریقہ الطبری والبہقی فعلی ھذا کان فی شوال وحکی ابن عبدالبرانہ کان فی رجب و جزم بہ النودی وقیل شیمانیۃ عشرشھہر احکاہ ابن البراضا وقیل کان قبل الھجرۃ بسنۃ وثلاثۃ اشھر فعلی ھذا یکون فی ذل الحجہ و بہ جزم این فارس وقیل کان قبل الھجرۃ بثلاث سنین حکاہ ابن الا ثیر و حکی عیاض عن الزھری انہ کان بعد المبعث بخمس سنین وروی ابن ابی شیبہ من حدیث جابر و ابن عباس (رض) قال ولدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوم الاثنین و فیہ بعث وفیہ عرج بہ الی السماء وفیہ مات۔ (صفحہعینی شرح بخاری جلد)
عیسیٰ میں لکھا ہے کہ معراج کے وقت میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں نبوت سے پہلے ہوئی یہ قول شاذ ہے لیکن اگر اس کا واقع ہونا خواب میں خیال کیا جائے تو بےوجہ نہیں ہے۔ بعض ہجرت سے ایک سال پہلے ربیع الاول میں مانتے ہیں۔ یہ قول اکثر لوگوں کا ہے یہاں تک کہ ابن حزم نے اس پر اجماع امت ہونا بیان کیا ہے۔ اور سدی کے نزدیک ہجرۃ سے ایک برس پانچ مہینے پہلے ہوئی اس قول کو طبری اور بیہقی نے بیان کیا ہے۔ اس قول کی بنا پر معراج ماہ شوال میں ہوئی۔ اور ابن عبدالبر نے ماہ رجب میں بیان کیا ہے۔ نووی بھی اسی کو مانتا ہے۔ اور بعض کا قول ہے کہ ہجرۃ سے اٹھارہ مہینے پہلے ہوئی۔ ابن البر نے اس قول کو بھی بیان کیا ہے۔ اور بعض کے نزدیک ہجرۃ سے ایک برس تین مہینے پہلے ہوئی۔ اس کی بنا پر ذی الحجہ کا مہینہ تھا ابن فارس اسی قول کو مانتا ہے۔ اور بعض کے نزدیک ہجرۃ سے تین برس پہلے ہوئی۔ اس کو ابن اثیر نے بیان کیا ہے اور قاضی عیاض نے زہری سے حکایت کی ہے کہ معراج نبوت سے پانچ برس بعد ہوئی اور ابن ابی شیبہ نے عباس اور جابر سے روایت کی ہے کہ وہ دونوں کہتے تھے کہ پیغمبر خدا پیر کے دن پیدا ہوئے۔ اور اسی دن نبوت ملی اور اسی دن معراج اور اسی دن وفات ہوئی۔
وکان ای الا سراء فی السنۃ الثانیۃ عشر من النبوۃ رفی روایۃ البیہقی من طریق موسیٰ بن عقبہ عن الزھری
عینی میں دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ معراج نبوت کے بارھویں سال ہوئی۔ بیہقی نے موسیٰ بن عقبہ سے اور اس نے زہری سے روایت کی ہے کہ معراج مدینہ جانے سے ایک برس پہلے ہوئی۔
انہ اسرے بہ قبل خروجہ الی المدینۃ بسنۃ وعن السدی قبل مھجرتہ بلستۃ عشرشھہر افعلی قولہ یکون الا سراء فی شہر ذیقعدۃ وعلی قول الزھری یکون فی ربیع الاول وقیل کان الا سراع لیلۃ السابع والعشرین من رجب وقد اخترہ الحافظ عبدالغنی بن سرورالمقدسی فی سیرتہ ومنتہ من یزعم انہ کان فی اول لیلۃ جمعۃ من شعر رجب ثم قیل کان قبل موت ابی طالب وذکر ابن الجوزی انہ کان بعد موتہ فی سنۃ اثنی عشرۃ للنبوۃ ثم قیل کان فی لیلۃ السبت لسبع عشرۃ لیلۃ خلت من رمضان فی السنۃ الثالثۃ عشر للنبوۃ وقیل کان فی ربیع الاول وقیل کان فی رجب۔ (صفحہ جلد ثانی عینی شرح بخاری)
اور سدی کا قول ہے کہ ہجرت سے دو ماہ پہلے پس اس کے قول کے موافق ماہ ذیقعدہ میں اور زہری کے قول کے موافق ربیع الاول میں بعض کہتے ہیں ستائیسویں رجب کو ہوئی۔ حافظ عبدالغنی بن سرور مقدسی نے اپنی سیرت میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور بعض کا گمان یہ ماہ رجب کو جمعہ کی اول شب میں ہوئی۔ پھر بعض کا قول ہے کہ ابوطالب کے مرنے سے پہلے ہوئی اور رابن جوزی نے لکھا ہے کہ ان کے مرنے کے بعد نبوت کے بارھویں سال ہوئی۔ پھر کوئی کہتا ہے کہ نبوت کے تیرھویں سال رمضان کی سترہ تاریخ کو ہفتہ کی رات کو ہوئی۔ اور کوئی کہتا ہے کہ ربیع الاول میں کوئی کہتا ہے رجب میں۔
یہ روایتیں اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی علانیہ قرینہ یا دلیل بین ان میں سے کسی روایت کو مرجح کرنے کی نہیں ہے۔ قرآن مجید سے اس بات پر یقین ہوسکتا ہے کہ اسراء جس کا دوسرا نام معراج ہے رات کو واقع ہوئی اور احادیث مختلفہ سے جو امر مشترک اور نیز قرآن مجید سے بطور دلالت النص پایا جاتا ہے وہ اس قدر ہے کہ زمانہ نبوت میں معراج ہوئی اور یہ بات کہ کب ہوئی بسبب اختلاف روایات و احادیث محقق ثابت نہیں ہوسکتا۔ پس ان تمام اختلافات کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض علما تو نہ معراج اور اسرا کے قائل ہوئے اور معراج اور اسرا کو دوجداگانہ واقعے قرار دیئے چنانچہ عینی شرح بخاری میں لکھا ہے۔
واختلفوا فی المعراج والا سراء ھل کا ثانی لیلۃ واحماۃ اوفی لیلتین وھل کانا جمیعا فی الیقظۃ اونی للنہ حما واحد ھما فی الیقظ والا خر فی المنام فقیل ران الاسراء کان مریتین مرۃ بروح مناما و مرۃ بروحہ ویدنہ یقظۃ ومنھم من یدعی تعدد الا سراء فی الیقظۃ اضحتی قال انہ اربع اسرا ایت وزعم بعضھم ان بعضہا کان بالمدینۃ ووفق ابوشامۃ فی روایات حدیث الا سلء بالجمع بالتقدء فجعل ثلاث اسراءت مرۃ من مکۃ الی بیت المقدس فقط علی البراق ومرۃ من ھکۃ الی نموات علی الباق ایض ومرۃ من مکۃ الی بیت المقدس ثم الی السموات وجمہولمرلسلف والخلف علی ان الا سرا کان بیدنہ ورح واما من مکۃ الی بیت المقدس فبنص القرآن۔ (عینی شرح بخاری جلد صفحہ )
کہ معراج اور اسرا میں اختلاف ہے کہ دونوں ایک رات میں ہوئے یا دو رانوں میں اور دونوں جاگنے میں ہوئیں یا خواب میں یا ایک خواب میں۔ اور ایک بیداری میں۔ بعض کا قول ہے اسرا دونوں مرتبہ ہوئی۔ ایک دفعہ خواب میں روح کے ساتھ۔ اور ایک دفعہ روح اور بدن کے ساتھ بیداری میں بعض کے نزدیک بیداری میں کئی دفعہ اسرا ہوئی۔ یہاں تک کہ بعض چار دفعہ اسرا کے قائل ہوئے ہیں۔ اور بعض نے گمان کیا ہے کہ ان میں سے بعض مدینہ میں ہوئیں۔ ابوشامہ کی حدیث اسرا کی مختلف روایتوں میں تین مرتبہ اسراء مان کر توفیق کی ہے۔
ایک دفعہ مکہ سے بیت المقدس تک براق پر ۔ دوسری دفعہ مکہ سے آسمانوں تک براق پر۔ تیسری دفعہ مکہ سے بیت المقدس تک پھر آسمانوں تک۔ متقدمین اور متاخیرین سب متفق ہیں کہ اسرا بدن اور روح کے ساتھ واقع ہوئی۔ اور مکہ سے بیت المقدس تک جانا تو نص قرآنی سے ثابت ہے۔
ان تمام روایتوں پر لحاظ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ اس اختلاف کے جو زمانہ معراج میں ہے نسبت نفس معراج یا اسراء کے حسب تفصیل ذیل علما میں اختلاف ہوگیا ہے۔
بعضوں کا قول ہے کہ اسرا اور معراج دوجداگانہ واقعات ہیں۔
بعضوں کا قول ہے کہ ایک دفعہ صرف اسراء ہوئی اور ایک دفعہ اسراء معہ معراج۔
، بعضوں کا قول ہے کہ معراج دو دفعہ ہوئی ایک دفعہ بغیر اسراء کے اور ایک دفعہ معہ اسرا کے۔
بعض کا قول ہے کہ اسراء معہ معراج کے دو دفعہ ہوئی۔
اکثر علما کا یہ قول ہے جو قول مقبول بھی ہے کہ اسراء و معراج ایک دفعہ ایک ساتھ ایک ہی رات میں ہوئی۔
یہی قول صحیح اور متفق علیہ ہے اور احادیث سے جو امر مشترک پایا جاتا ہے اور جو قرآن مجید کی دلالت النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بھی یہی ہے مگر ہم اس مقام پر ان تمام اقوال کو جن سے یہ اختلاف ظاہر ہوتے ہیں ذیل میں لکھتے ہیں۔
اقوال ان علما کے جو اسراء اور معراج کو دو جداگانہ واقعے کہتے ہیں
جولگ کہ الاسرا اور معراج کو علیحدہ علیحدہ دو واقعے قرار دیتے ہیں ان کا بیان یہ ہے :۔
جو لوگ کہ الاسرا اور معراج کو علیحدہ علیحدہ دو واقعے قرار دیتے ہیں ان کا بیان یہ ہے۔
جنح البخاری الے ان لیلۃ الاسروکانت غیر لیلۃ المعراج لا نہ افرد لکل منھما ترجمۃ۔ (فتح الیسری جلد ھفتم صفحہ )
ابن دحیہ کا یہ قول کہ خود بخاری کا میلان اس پر ہے کہ لیلۃ الاسراء الگ واقعہ ہے۔ اور لیلۃ المعراج الگ واقعہ۔ اور وہ دلیل یہ لاتا ہے کہ بخاری نے ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے جدا جدا ترجمہ الباب قرار دیا ہے (اور واضح ہو کہ بخاری کا ترجمۃ الباب بطور استنباط مسائل کے سمجھا جاتا ہے۔
ترجمۃ ابواب البخاری باب حدیث الا سراء وقول اللہ تعالیٰ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا قصیٰ ۔ (بخاری صفحہ )
بخاری نے ایک علیحدہ باب میں لکھا ہے کہ یہ باب ہے حدیث اسراء کا اور خدا کی اس قول کا جہاں اس نے فرمایا ہے ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک “۔
کتاب بصرۃ باب کیف فرضت الصلوٰۃ فی الا سرا۔ (بخاری صفحہ )
اور دوسرے علیحدہ باب میں لکھا ہے کہ جو باب ہے اس بیان میں کہ اسراء میں نماز کیونکر فرض ہوئی۔
ولا دلانہ فی ذلک علی التغائر عندہ بل کلامہ فی اول الصرۃ ظاھرنی اتحاد ھما وذلک انہ ترجم باب کیف فرضت الصلوٰۃ لیلۃ الا سراء والصلوٰۃ انما فرضت فی معراج فدل علی اتحاد ھما عندہ وانما افرد کلا منھما بترجمۃ لان کلا منھما یشتمل علیٰ قصۃ ممردۃ وان کا زاوقعامعا۔ (فتح لیاری جلدصفحہ )
مگر اس دلیل کو خود علامہ حجر عسقلانی نے رد کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس سے دونوں کا جدا جدا ہونا بخاری کے نزدیک نہیں نکلتا بلکہ کتاب الصلوٰۃ کے عنوان سے دونوں کا ایک ہونا ظاہ رہے۔ کیونکہ اس نے لکھا ہے۔ کہ لیلۃ الاسراء میں نماز کیونکر فرض ہوئی اور نماز یقیناً معراج میں فرض ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بخاری کے نزدیک دونوں واقعے ایک ہیں جدا جدا ترجمۃ الباب اس لیے قرار دیا ہے کہ ان میں الگ الگ قصے ہیں اگرچہ وہ ایک ہی ساتھ واقع ہوئے ہیں۔
وقال بعض متاخرین کانت قصۃ الاسراء فی لیلۃ والمعراج فی سیتہ بتمسکابمرودفی حدیث انس من روایۃ شریک من ترک ذکرالا سراء وکذافی ظاھر حدیث مالک بن صعصعہ۔ (فتح لباری جلد ھفتم صفحہ )
اور بعض علمائے متاخرین بھی قصہ اسراء اور معراج کو دو واقعے سمجھتے ہیں۔ علامہ حجر عسقلانی نے لکھا ہے۔ بعض متاخرین نے کہا ہے کہ اسراء ایک رات میں ہوئی اور معراج ایک رات میں۔ ان کی حجت یہ ہے کہ انس کی حدیث میں جو شریک سے مروی ہے سراء کا ذکر نہیں اور ایسا ہی مالک بن صعصعہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
مگر خود علامہ حجر عسقلاتی لکھتے ہیں کہ متاخرین نے ان روایتوں کی بنا پر اسرا کا ایک رات میں اور معراج کا دوسری رات میں ہونا خیال کیا ہے مگر ان روایتوں سے اسرا اور معراج ولا کن ذلک لا یستزم التعدد بل ھو محمد ل علی ان بعض لرواۃ ذکر الم یذکرہ الا حزب۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
کا علیحدہ علیحدہ واقع ہونا لازم نہیں آتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے تعدد واقع لازم نہیں آتا۔ بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے بعض رایوں نے جو بیان کیا ہے اس کو دوسرے راویوں نے ترک کردیا ہے۔
واحتجمن زعم ان الا سرء وقع مرد الیما اخرجعہ الیزاروالطبرنی وسحجۃ البیہقی زید دلائل من حدیث شداد بن اوس قلندیارب الیطہ کنہ اسرائے یک قال صلیت صلوۃ نعمۃ بمکۃ فاتا لی جبرائیل بدیۃ فذکر الحدیث فی مجیہ بیت المقسد و مہ وقع لہ فیہ دن ثم انصرف لی فمران بعیر القریشر برن کذافذکرہ قال ثم اتیت صحابی قبل الصحیح سکۃ۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
جن کے گمان میں اسراء الگ واقع ہے۔ ان کی دلیل شداد ابن اوس کی حدیث ہے جس کو بزار اور طبرانی نے بیان کیا اور بیہقی نے دلائل میں اس کی تصحیح کی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم نے کہا یارسول اللہ آپ کو کیونکر اسراء ہوئی۔ فرمایا کہ میں نے عشاء کی نماز مکہ میں پڑھی پھر جبرائیل میرے پاس سواری (براق) لایا۔ پھر بیت المقدس جانا اور وہاں جو کچھ گزرا سب بیان کیا۔ پھر فرمایا کہ واپسی میں ہمارا قریش کے اونٹوں پر فلاں جگہ گزر ہوا۔ پھر اس کا ذکر کیا پھر فرمایا کہ میں صبح سے پہلے مکہ میں اپنے اصحاب کے پاس آگیا۔
اقوال ان علما کے جو کہتے ہیں کہ ایک دفعہ صرف اسراء ہوئی اور ایک دفعہ اسرا مع معراج کے
وقیل کا نلا سراء مرتین فی بیفان فالا ولی رجع من بیت المقدس وفی صیحتہ اخبر قریشیا بما وقع والثانیۃ اسرے بہ الی بدت المقدس ثم عرج بہ من لیلۃ الی السماء لی اخرما واقع ولم بمع لقریش فی ذلک اعتراض لان ذلک اعندھم من حین نورانی است یاتیہ من السماء فی اسرع من طرفۃ عین کا نوا بمنقد وان استحالۃ ذلک من قیام الحجۃ علی صدقہ، معجزات الباھرۃ لکنھم عاند ونی ذلک و ستمرو وھی تکذیبہ فیہ بخلاف اخیرہ انہ جاء بیت المقدس فی لیلۃ واحدۃ ورجع فانھم سرحوا بتکذیبہ فبہ فطلبوا مندنعت بیت المقدس لمعرفیھم بہ وعلم تہ بانہ مان راہ قبل ذلک وامکنھم استعلام ورقدنی ذلک بخلاف المعراج۔ (فتح الباری جلد ھفتم صفحہ )
بعض نے کہا ہے کہ اسرا بیداری میں دو دفعہ ہوئی۔ پہلی دفعہ پیغمبر خدا بیت المقدس سے لوٹے اور اس کو صبح کو جو کچھ دیکھا قریش سے بیان کیا۔ دوسری دفعہ بیت المقدس تک گئے پھر وہاں سے اسی رات آسمانوں پر گئے۔ قریش نے اس واقعہ پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ ایسا ہی تھا جیسے ان کا یہ قول کہ فرشتہ آسمان سے پلک جھپکانے سے بھی پہلے آتا ہے اور اس کو محال سمجھتے تھے حالانکہ روشن معجزات کا واقع ہونا ان کے سچے ہونے کی دلیل تھی لیکن انھوں نے اس میں مخالفت کی اور برابر پیغمبر خدا کو کو اس میں جھٹلاتے رہے۔ برخلاف اس کے کہ آپ نے ایک رات میں بیت المقدس جانے اور وہاں سے پھر آنے کی خبر دی اس واقعہ میں انھوں نے کھلم کھلا پیغمبر خدا کی تکذیب کی اور بیت المقدس کا حال پوچھا کیونکہ وہ اس سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ پیغمبر خدا نے بیت المقدس کو نہیں دیکھا۔ پس معراج کے برخلاف اس میں ان کو رسول اللہ کے بچے ہونے کی آزمائش کا موقع ملا۔
و فحدیث امھانی عند ابن اسحق و با یعلی نحومانی حدیث ابی سعید ۔ فان تبت ان المعراج کان مثلھا علی ظاھر روایۃ شریک وعن انس فینتظم من ذلک وان الاسراء وقع مرتین۔ مرۃ علی قرادۃ ومرۃ مضموما الیہ المعراج وکلہ ھمانی الیقظۃ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
اور ام ہانی کی حدیث میں ابن اسحق اور ایویعلی کے نزدیک وہی مضمون ہے جو ابو سعید کی حدیث میں ہے۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ معراج خواب میں ہوئی تھی جیسا کہ شریک کی روایت میں انس سے مروی ہے تو اس سے معلوم ہوگا کہ اسرا دوبارہ ہوئی۔ ایک بار تنہا اور ایک بار معراد کے ساتھ اور دونوں دفعہ حالت بیداری میں ہوئی۔
اقوال ان علما کے جو کہتے ہیں کہ معراج دو دفعہ ہوئی ایک دفعہ
بغیر اسرا کے اور ایک دفعہ معہ اسرا کے
والمعراج وقع مرتین ۔ مرۃ فی سنام عی غرادہ توطئۃ وتمھیدا۔ ومرۃ فی الیقضۃ مضمون الی لا بلر (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
فتح الباری میں ہے کہ معراج دو بار ہوئی ایک بار بطور تمہید کے تنہا خواب میں ہوئی اور ایک بار اسرا کے ساتھ جاگنے میں۔
وجنح الا مام ابی شامتا لی وقوع المعران من الا واستند الی مااخوجہ البرزار و سعید بن منصور من طریق ابی عمران الجونی عن انس دفعہ قال بینا انا جالس اذ جاء جبرائیل الجونی عن انس دفعہ قال بینا انا جلل اذ جاء جبرائیل خوکزبین کتفی لقمنا الی شجرۃ فیھا مثل وکرالطائر فقعدت فی احد مما وقعہ جبرائیل فی الاخرفارتفعت حتی سدۃ الخائقین الحدیث۔ وفیہ ففتح لی یاب من السماء ورایت لنور الا عظم
امام ابوشامہ کامیلان معراج کے کئی بار واقع ہونے کی طرف ہے۔ اور سند میں اس حدیث کو بیان کرتے ہیں جو بزار اور سعید بن منصور نے ابوعمران جونی سے اور اس نے انس سے مرفوعاً روایت کی کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ میں بیٹھا تھا کہ جبرائیل آئے ۔ اور میرے دونوں موندھوں کے درمیان ہاتھ مارا۔ پھر ہم دونوں ایک درخت کے پاس گئے جس میں رندوں کے دو گھونسلے سے رکھے تھے ۔ ایک میں جبرائیل اور ایک واذادونہحجاب رفرف المدرولیاقوت ۔ قال اعلامۃ ابن الحجر ورجالہ لاباس بہم الا ان الدار قطنی ذکر لہ علۃ تقتضی ارسالہ وعلی کل حال فہی قصۃ اخری الظاھر انھا وقعت بالمدینۃ ولا جدنی وقوع امثالھا و انما المستبعد وقوح التصدفی قصۃ المعراج اللتی وقع فیھا سوالہ عن کل بنی و سوال اھل کل باب ھل بعث الیہ و فرض الصہوت لخمس و غیر ذلک فان تعدد ذلک فی الیقظۃ لا یحتجہ نیتعین روبعض الروایات المختلفۃ الی حبض والترجیح الا انہ لا بعد فی جمیع وقوع ذلک فی المنام توطئۃ ثم وقوعہ فی الیقظۃ عی وتغہ کما قدمنہ۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
میں میں بیٹھ گیا ۔ پھر میں بلند ہوا یہاں تک کہ آسمان و زمین سے گزر گیا۔ اسی حدیث میں ہے کہ میرے لیے آسمان کا دروازہ کھولا گیا۔ اور میں نے نور اعظم کو دیکھا اور اس سے درے ایک پردہ تھا موتیوں اور یا قول کا۔ علامہ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے رایوں میں کوئی غیب نہیں ہے۔ مگر دارقطنی نے ایک ایسی علت بیان کی ہے جس سے اس کا مرسل ہونا معلوم ہوتا ہے بہرحال یہ ایک اور قصہ ہے اور ظاہر وہ مدینہ میں ہوا۔ اور ایسے واقعوں کے ہونے میں کوئی تعجب نہیں ہے۔ اور اگر تعجب انگیز ہے تو معراج کے قصہ کا کئی بار ہونا ہے جس میں ہر نبی کا سوال اور ہر آسمان کے دربان کا سوال کہ کیا ادھر بھیجے گئے ہیں۔ اور پانچ نمازوں کا فرض ہونا مذکور ہے۔ کیونکہ حالت بیداری میں اس قصہ کے کئی بار واقع ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے پس بعض مختلف روایتوں کو بعض کی طرف پھیرنا یا ان میں سے ایک کو ترجیح دینی ضروری ہے۔ مگر اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ یہ سب خواب میں تمہید کے طور پر ہوا ہو پھر اس کے موافق بیداری میں جیسا کہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔
ومن المستغربقول ابن سبدالسلام فی تفسیرہ کان الاسلء فی النوم والیقفۃ ووقع بمکۃ والمدینۃ فان کان یرد تخصیص المدینۃ بالنوم ویکون کلامہ علی طریق اللف والنشر خیر امرتب فیحتمل ویکون الاسراء الذی تصل بہ المعرح وفرضت فیہ اصلوات فی الیتعظۃ بمکۃ والاخر فی المستر بالمدینۃ و ینبغی ان یزادفیہ ان لا سراء فی المنام تکرر بالمدینۃ النبویہ۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
اور ابن عبدالسلام کا قول اس حدیث کی تفسیر میں اور بھی عجیب ہے کہ اسراء خواب و بیداری اور مکہ اور مدینہ میں ہوئی اگر اس کی مراد یہ ہے کہ مدینہ میں خواب میں ہوئی اور اس کا کلام بطور لف ونشر غیر مرتب کے ہو تو احتمال ہے کہ ایسا ہی ہو اور اسراء جس کے ساتھ معراج ہوئی جس میں نمازیں فرض ہوئیں حالت بیداری میں مکہ میں ہوئی ہو اور دوسری خواب میں مدینہ میں۔ اور اتنی بات اور بڑھانی چاہیے کہ اسرا خواب میں کئی بار مدینہ میں ہوئی۔ اقوال ان علما کے جو اسرء کا مع معراج کے دو دفعہ ہونا بیان کرتے ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 1

تفسیر سرسید : ۲
نعم جاء فی بعض الاخبار ویخوغا بعض ذلک فجنح لا جل ذلک بعض اھل العلم منھم الی ان ذلک کلہ وقع مرنین مرۃ فی المنام ترھنۃ و تمھیہ ومرۃ ثانیۃ فی الیقظۃ کما وقع نظیر ذلک فی ابتداء مجی الملک بالوجی فقد قدمت فی الر الکتب ماذکرہ ابن میسرۃ التابعی الکبیر وغیرہ وان ذلک ووقع فی للنام (فتح الباری شرح صحیح بخاری حسد ہفتم صفحہ )
ہاں بعض حدیثوں میں وہ باتیں ہیں جو بعض کی مخالف ہیں۔ اسی لیے بعض اہل علم کا میلان اس طرف ہے کہ یہ سب کچھ دو مرتبہ ہوا ایک مرتبہ نیند میں بطور تمہید اور پیش بندی کے اور دوسری مرتبہ جاگتے ہیں۔ جیسا کہ فرشتہ کے اول اول وحی لانے میں ہوا۔ اور میں اس کتاب کے شروع میں ابن میسر و تابعی کبیر وغیرہ کا یہ قول ذکر کرچکا ہوں کہ یہ نیند کی حالت میں ہوا۔
وحکاہ (اے مھلب) عن طائفۃ وابو نصربن العشیری فالو سعید فی شرف المصطفیٰ قال کان لل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاریج منہا ما کان فی الیقضۃ ومنہ ماکان نے المنام۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
اور مہلب شارح بخاری نے اس قول کو ایک گروہ کی جانب سے بیان کیا ہے اور ابو نضر قشیری نے اور ابو سعیدنے شرف المصطفیٰ میں کہا کہ پیغمبر کو کئی بار معراج ہوئی بعض دفعہ خواب میں اور بعض دفعہ بیداری میں۔
اب ہم ان حدیثوں اور روایتوں کو نقل کرتے ہیں جن میں بیان ہے کہ اسرا اور معراج ایک ہی دفعہ اور ایک رات میں ہونی تھیں اور انھیں روایتوں کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔
اقوال ان علما ک جو اسرا اور معراج دونوں کا ایک رات میں ہونا تسلیم کرتے ہیں
والا اکثر علی انہ اسرے بجسدہ اور بیت المقدس ثم عرج بہ الی السموات حتی انتہی لی سدرۃ المنتہیٰ ۔
(تفسیر بیضاوی جلد اول صفحہ )
جمہور علما اور محدثین اور فقہا اور متکلمین کا یہ مذہب ہے کہ اسراء اور معراج دونوں ایک رات میں واقع ہوئیں۔ ظاہر وہ لوگ مکہ سے بیت المقدس تک جانے کا نام اسراء رکھتے ہیں اور بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا معراج۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے۔ اور اکثر علماء اس پر متفق ہیں۔ کہ بیت المقدس تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجسدہ گئے پھر آسمانوں کی طرف بلند کئے گئے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک جا پہنچے۔
وقد اختلف السلف بحسب اختلاف الاخبار الوارد ۃ فنھم من ذھب الی ان الا سراء والمعراج وقعافی لیلۃ واحدۃ فی الیقظۃ بجسد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وروحہ بعد المبعث والی ھذا ذھب الجمہور من علماء المحدثین والفقہاء والمتکلمین وتواردت علیہ علواھرا الا خبارا الصحیحہ ولا ینبغی العدول عن ذلک اذلیس فے العقل ما یجعلہ حتی یحتاج الی تاویلہ۔ (فتح الباری جلد ہفتم صفحہ )
اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ علمائے متقدمین نے احادیث کی مختلف ہونے کے سبب سے اختلاف کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ اسرا اور معراج دونوں ایک رات میں حالت بیداری میں جسم اور روح کے ساتھ بعثت کے بعد واقع ہوئیں۔ تمام علمائے محدثین ۔ فقہا اور متکلمین اسی کے قائل ہیں۔ اور تمام احادیث صحیحہ سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور اس سے انکار کرنے کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ عقل کے نزدیک محال نہیں ہے تاکہ تاویل کی ضرورت ہو۔
ویوئید وقوع المعراج عقب الاسراء فی لیلۃ واحدۃ روایۃ ثابت عن انس عند مسلم قفی اولا اوتیت بالبراق فرکبت حتی اتیت بیت المقدس فذکر الفصۃ الی ان قال ثم عرج الی السماء الدنیا فی حدیث ابی سعید الخدری عند ابن اسحق فلما فرغت مما کان فی بیت المقدس اتی لا معراج فذکر الحدیث۔ ووقع فی اول حدیث مالک بن صعصعۃ ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدثھم عن لیلۃ اسرے بہ فذکر الحدیث فھو وان لم یذکر فیہ الاسراء الی بیت المقدس فقد اشارالیہ وصرح بہ فی روایتہ فھو المعتمد۔ (فتح الباری جلد ھفتم صفحہ )
علامہ حجر عسقلانی نے دوسرے مقام پر یہ لکھا ہے۔ کہ اسرا کے بعد معراج کے ایک ہی رات میں واقع ہونے کی تائید مسلم کی اس روایت سے ہوتی ہے جو ثابت نے انس سے روایت کی ہے۔ اس کے اول میں ہے کہ براق لایا گیا۔ پھر میں اس پر سوار ہوا۔ یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچا ۔ پھر وہاں کا حال بیان کرکے کہا کہ پھر ہم آسمان دنیا کی طرف بلند ہوئے اور ابن اسحق نے ابوسعید خدری کی حدیث میں بیان کیا ہے کہ جب میں بیت المقدس کی سیر سے فارغ ہوا تو ایک سیڑھی لائی گئی۔ پھر پوری حدیث بیان کی اور ملک بن صعصعہ کی حدیث کے شروع میں ہے کہ پیغمبر خدا نے ان سے لیلۃ الاسرء ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ پھر اگرچہ اس نے اس حدیث میں بیت المقدس تک جانے کا ذکر نہیں کیا ۔ مگر اشارہ کرگیا ہے اور اپنی روایت میں اس کی تصریح کردی ہے۔ او یہی معتبر ہے۔
جن روایتوں میں میں اسراکو علیحدہ اور معراج کو علیحدہ دو چیزیں قرار دیا ہے۔ ان کو ہم تسلیم نہیں کرسکتے۔ بلکہ اسرا اور معراج کو ایک دوسرے کا متحد المعنی یا مرادف تصور کرتے ہیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید میں صرف لفظ اسرے واقع ہوا ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من للمسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ “ مگر اس کے بعد فرمایا ہے ” لنریہ من ایتنا انہ ھوا لسمیع البصیر “ یہ آخر فقرہ ایک قسم کے عروج پر دلالت کرتا ہے جس کے سبب لفظ معراج مستعمل ہوگیا ہے پس معراج اور اسرا کا مفہوم متحد ہے۔ اور یہ ایک ہی واقعہ ایک ہی رات میں اور ایک ہی دفعہ واقع ہوا تھا۔
جن علما نے اسرا اور معراج کا ہونا متعدد دفعہ تسلیم کیا ہے اس کا اصلی سبب یہ ہے کہ اسرا اور معراج کے متعلق جو حدیثیں اور روایتیں وارد ہیں وہ آپس میں بےانتہا مختلف ہیں۔ علما نے ان تمام حدیثوں کی تطبیق کرنے کے خیال سے وہ تمام شقوق اختیار کرلی ہیں جو ان حدیثوں اور روایتوں سے پیدا ہوتی تھیں۔
ہم اس طریق کو صحیح نہیں سمجھتے ۔ مختلف حدیثوں میں وجہ تطبیق پیدا کرنی نہایت عمدہ طریقہ ہے۔ بشرطیکہ ان میں تطبیق ہوسکے۔ جو حدیثیں اس قسم کی ہیں کہ جن میں ایسے امور کا بیان ہے جو عادۃً یا امکاناً واقع ہوتے رہتے ہیں اور جن میں کوئی استبعاد عقلی نہیں ہے اگر ایسے امور میں مختلف حدیثیں ہوں تو کہا جاسکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوگا اور کبھی ویسا مگر ایسی حدیثوں میں جن میں ایسے امور کا بیان ہو جن کا واقع ہونا عادۃ یا عقلاً ممکن نہ ہو تو صرف ان حدیثوں کے اختلاف کے سبب ان کے تعدد وقوع کا قائم کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک اور کسی طرح یہ امر ثابت نہ ہوگیا ہو کہ ان حدیثوں میں جو واتفہ مذکور ہے۔ وہ متعدد دفعہ واقع ہوا ہے۔ اس وقت تک صرف اختلاف احادیث سے جن کی صحت بسبب اختلاف کے خود معر میں بحث میں ہے اس کا تعدد وقوع تسلیم نہیں ہوسکتا۔ یہ تو مصادر و علے لمطبوب ہے۔
الاصل ان یعمل بکل حدیث الا ان بیتنع العمل بالجمیع لتنا قض وانہ لیس فے الحقیقۃ اختلاف ولا کن فی نظرنا فقط فاذا اظھر حدیثان مختلفان فان کا نا من باب حکایۃ الفعل فح کی صحابیانہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فعل شیئا وحکی اخرانہ فعل شیئا اخر فلا تعارض ویکونان صباحین ان کانا من باب العادۃ دون لعبادۃ۔ (حجۃ اللہ البالعہ صفحہ )
شاہ ولی اللہ صاحب بھی حجۃ اللہ البالغہ میں باب القضافی الاحادیث المختلفہ میں لکھتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ ہر حدیث پر عمل کیا جائے جب تک کہ تناقض کے ہونے سے سب پر عمل کرنا ناممکن ہو۔ اور یہ حقیقت میں اختلاف نہیں ہے بلکہ فقط ہماری نظر میں اختلاف ہے۔ پس اگر دو مختلف حدیثیں ہوں۔ اور دونوں میں یہ پیغمبر خدا کا کوئی فعل مذکور ہو۔ اس طرح کہ ایک صحابی بیان کرے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فعل کیا اور دوسرا صحابی کوئی اور فعل بیان کرے تو ان میں کوئی تعارض نہ ہوگا اور دونوں مباح ہوں گے اگر وہ عادت کے متعلق ہوں نہ عبادت کے۔
جو لوگ اسرا اور معراج کو متحد مانتے ہیں اور ایک ہی ساتھ اس کا واقع ہونا قبول کرتے ہیں ان کے بھی باہم دوسری طرح پر اختلاف ہے ایک گروہ اعظم کی یہ رائے ہے کہ معراج ابتدا سے اخیر تک بجسدہ اور جاگنے کی حالت میں ہوئی تھی۔ ایک گروہ کی یہ رائے ہے کہ معراد ابتدا سے آخر تک سونے کی حالت میں یعنی بالروح بطور خواب کے ہوئی تھی۔ ایک گروہ کی یہ رائے ہے کہ مکہ معظمہ سے بیت المقدس تک بجسدہ جاگنے کی حالت میں اور وہاں سے آسمانوں تک بالروح ہوئی تھی۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ایک چوتھی رائے قائم کی ہے کہ معراج بجسدہ ہوئی تھی اور جاگنے میں مگر بجسد برزخی بین المثال و اشہادۃ چنانچہ ان سب رایوں کو ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔
ثم اختلف السلف والعلماء ھل کان اسراء بروحہ اوجدہ علی ثلاث مقالات فذھبت طائفۃ الی انہ اسرء بالروح وانہ رویا منام مع تفا اقہم ان رویا الانبیاء وحی وحق والی ھذا ذھب معاویۃ وحلی عن الحسن و المشہور رعنہ خلافہ والیہ اشارہ محمد بن اسحاق وجحتم قولہ تعالیٰ وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ لئن اس وما حکوا عن عائشہ مافقدت جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقولہ بینا اتا تائم وقول انس وھو نائم فی المسجد الحرام و ذکر القصۃ ثم قال فی اخر ھافا ستیقظت وانا المسجد الحرام۔ وذھب معظم السلف والمسلمین الی انہ اسراء بالجسد فی مالیقظۃ وھو لحق وھذا قول ابن عباس و جابر وانس وحذیفۃ عمروہ ابوہریرہ ومالک ابن صعصعہ وابی حبۃ البدری و ابن مسعود و ضحاک و سعید ابن جبیر و قتادہ ابن المسیب و ابن شہاب و ابن زاید والحسن و ابراھیم و مسروق و مجاہد و عکرمہ و ابن صریح و ھو دلیل قول عائشۃ وھو قول الطبری وابن حنبل وجماعۃ عظیمۃ من المسلمین و ھو قول اکثرات اخرین من الفقہاء والمحدثین والمتکلمین والمفسرین۔ وقال طائفۃ کان الا سراء بل اجسد یقضۃ الی بیت لمقدس والی السماء بالروح راحسنجو بقیلہ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا قصی غایۃ الا سرا نوقع التعجب بعظیم اقسرۃ والتمدح ب تشریف النبی محمد بہ واظھار الکرامۃ بالا سراء الیہ ولوکان الاسراء بجسدہ الی زائد علی المسجد الاقصیٰ لذکرہ فیکون ابلغ فی المدح۔ (قاضی عیاض شفا صحفہ - )
قاضی عیاض نے اپنی کتاب شفا میں لکھا ہے۔ پھر اگلے لوگوں اور عالموں کے اسراء کے روحانی یا جسمانی ہونے میں تین مختلف قول ہیں۔ ایک گروہ اسراء کی روح کے ساتھ اور خواب میں ہونے کا قائل ہے۔ اور اس پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبروں کا خواب وحی اور حق ہوتا ہے۔ معاویہ کا مذہب بھی یہی ہے حسن بصری کو بھی اسی کا قائل بتاتے ہیں۔ لیکن ان کا مشہور قول اس کے برخلاف ہے۔ اور محمد ابن اسحق نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی دلیل ہے خدا کا یہ فرماتا کہ نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے اور حضرت عائشہ کا یہ قول کہ نہیں کھویا میں نے رسول اللہ کے جسم کو یعنی آپ کا جسم مبارک معراج میں نہیں گیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ اس حالت میں کہ میں سوتا تھا اور انس کا یہ قول کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مسجد حرام میں سوتے تھے۔پھر معراج کا قصہ بیان کرکے آخر میں کہا کہ میں جاگا اور اس وقت مسجد حرام میں تھا بہت سے اگلے لوگ اور مسلمان اس بات کی قائل ہیں کہ اسراء جسم کے ساتھ اور جاگنے کی حالت میں ہوئی اور یہی بات حق ہے۔ ابن عباس ۔ جابر انس۔ حذیفہ سے عمر ابوہریرہ مالک بن صعصعہ ۔ ابوجتہ البدری۔ ابن مسعود۔ ضحاک۔ سعید بن جبیر۔ قتادہ۔ ابن المسیب۔ ابن شہاب۔ ابن زید۔ حسن۔ ابراہیم مسردق۔ مجاہد۔ عکرمہ۔ اور ابن جریح سب کا یہی مذہب ہے۔ اور حضرت عائشہ کے قول کی یہی دلیلیں ہے اور طبری۔ ابن حنبل اور مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا یہی قول ہے۔ متاخرین میں سے میں سے بہت سے فقیہ۔ محدت۔ متکلم اور مفسرا سی مذہب پر ہیں۔ ایک گروہ بیت المقدس تک جسم کے ساتھ بیداری میں جانے اور آسمانوں پر روح کے ساتھ جانے کا قائل ہے۔ ان کی دلیل خدا کا یہ قول ہے جہاں فرمایا پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔ یہاں اسرا کی انتہا مسجد اقصے کا بیان کی ہے۔ پھر ایسی بڑی قدرت اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بزرگی دینے اور اپنے پاس بلانے سے ان کی بزرگی ظاہر کرنے پر تعریف کی اور تعجب کیا ہے اور اگر مسجد اقصیٰ سے اوپر بھی جسم ج کے ساتھ جاتے تو اس کا ذکر کرنا تعریف کے موقع پر زیادہ مناسب تھا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 1

تفسیر سرسید : ۳
اور یہی عبارت جو شفا قاضی عیاض میں ہے۔ عینی شرح بخاری میں نقل کی گئی ہے۔ مگر شفا قاضی عیاض میں حضرت عائشہ کی روایت میں جہاں لفظ مافقدت کا ہے۔ وہاں صرف لفظ مافقد ہے بغیر ات کے عینی شرح بخاری جلد ہفتم مطبوعۃ مصر صفحہ ۔
اور مولوی احمد حسن مراد آبادی کی تصحیح و تحشی سے جو شفا قاضی عیاض چھاپی گئی ہے اس میں لکھا ہے۔ وروی عنہا (عن عائشۃ) ما فقد بمیغۃ الے بہول وھو اظھرنی لا حتجاج یعنی یقد مجہول کے صیغہ سے بغیر ات کے ہے اور صاحب معالم التنزیل نے بھی روایت کا ئشہ میں لفظ فقد بغیر تار کے بیان کیا ہے۔
واسرے بہ الی المسجد الاقصیٰ ثم الی سدرۃ المنتہیٰ والی ماشاء اللہ وکل ذلک بجسدہ فی البقظۃ ولکن ذلک فی موطن ھویرزخ بین المثال والشھادۃ جامع لا حکامہما افظھر علی الجسد احکام الروح و تمثیل الروح والمعانی الروحیۃ اجسادوالذالشبان لکل
اور شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ لکھا ہے۔ کہ پیغمبر خدا کو مسجد اقصیٰ تک پھر سدرۃ المنتہیٰ تک اور جہاں تک خدا نے چاہا معراج ہوئی اور یہ سب واقعہ جسم کے ساتھ بیداری میں ہوا۔ لیکن ایسی حالت میں کہ وہ حالت عالم مثال اور عالم شہادت کے برز خ میں واقعۃ من تلک الرقالع تعبیر وقد ظھر لحزقیل و موسیٰ وغیر ھم نحن تلک الوقائع وکذلک لا ولیاء الامۃ لیکون علودرجاتھم عنداللہ کحا لھم فی الرویا واللہ اعلم۔ (حجۃ اللہ البالغہ صفحہ )
ان دونوں احکام کی جامع تھی۔ روح کے آثار جسم پر طاری ہوئے اور روح اور روح کی کیفیتیں جسم کی شکل میں آگئیں۔ اس یلئے ان میں سے ہر ایک واقعہ کی ایک جدا تعبیر ہے حزقیل اور موسیٰ وغیرہ انبیاء پر بھی ایسے ہی حالات گزر چکے ہیں۔ اسی طرح کے واقعات اولیائے امت کو پیش آتے ہیں تاکہ ان کے مرتبے خدا کے نزدیک بلند ہوں جیسے کہ ان کا حال خواب میں ہوتا ہے۔
ان چار صورتوں کے سوا اور کوئی صورت معراج کی نہیں ہوسکتی۔ اور اس لیے ہم کو ضرور ہے کہ ان چاروں صورتوں میں سے کوئی صورت معراج کی اختیار کریں ۔ اور جس صورت کو اختیار کریں اس کی دلیلیں بیان کریں۔ اور جو اعتراض اس پر وارد ہوتے ہوں ان کے جواب دیں مگر قبل اس کے کہ اس امر کو اختیار کریں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اول صحاح سبعہ کی ان حدیثوں کو نقل کریں جو معراج سے متعلق ہیں۔ اور ان کے اختلافات کو بتائیں۔ اور تنقیح کریں کہ ان مختلف حدیثوں سے کیا ظاہر ہوتا ہے اور اگر کسی حدیث کو ترجیح دیں۔ تو وجہ ترجیح کو بیان کریں۔ واضح ہو کہ موطا امام مالک اور ابوداؤد میں کوئی حدیث متعلق معراج کے نہیں ہے بخاری۔ مسلم ۔ ترمذی۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہیں جن کو ہم بعینہ اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔
احادیث بخاری
حدثنا یحییٰ ابن بکیر قال حدثنا للیث عن یونس عن ابن شھاب عن انس بن مالک قال کان ابوذریحدث ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال فرج عن سقف بیتی وانا بمکۃ ننزل جبرائیل ففرج صدری ثم فسلہ بماء زمزم ثمجاء بطست من ذھب ممتلی حکمۃ وایمانا فافرغہ فی صدری ثم اطبقہ ثم اخذ بیدی زوج بی الی السماء فلما جئت الی السماء الدنیا قال جبرائیل (علیہ السلام) لخازن اسماء وافتح قال من ھذا قال ھذا جبرائیل قال ھل معک احد قال نعم معی محمد فقال مارسل الیہ قال نعم فلما فتح علونا السماء الدنیا فاذا رجل قاعد علی یمینہ اسودۃ ولی یسارہ اسودۃ
حدیث کی ہم سے یحییٰ بن بکیر نے اس نے کہا حدیث کی ہم سے لیث نے یونس سے اور اس نے ابن شہاب سے اور اس نے انس بن مالک سے انھوں نے کہا ابوذربیان کرتے تھے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت شق ہوئی اور میں اس وقت مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل نازل ہوئے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا اور اس کو آب زمزم سے دھویا پھر حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا ایک سونے اذا نظر قبل یمینہ ضحک واذ انظر قیل شمالہ بکی فقال مرحبا بالنبی الصالح والا بن الصالح قلت لجبرئیل من ھذا قال ھذا اٰدم وھذہ الا سودۃ عن یمینہ وشمالہ نسم بنیہ فاھل الیمین منھم اھل الجنۃ و الا سودۃ اللتی عن شمالہ اھل النار فاذا نظر عن بمینہ ضحک واذانظر قبل شمالہ بکی حتی عرج بی الی السماء الثانیۃ فقال لخازنھا افتح فقال لخاز بھا مثل ما قال الاول ففتح قال الا دل ففتح قال انس فذکرانہ وجد فی السموات آدم وادریس و موسیٰ و عیسیٰ وابراھیم ولم یثبت کیف منازلھم غیرانہ ذکرانہ وجد آدم فی السماء الدنیا وابراھیم فی السماء السادسۃ
قال انس فلما مرجبرئیل (علیہ السلام) بانلی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بادریس قال مرحبا بالنبی الصالح والا خ الصالح فقلت من ھذا قال ھذا ادریس ثم مررت بموسیٰ فقال مرحبا بالنبی الصالح ولاخ الصالح قلت من ھذا قال ھذا موسیٰ ثم مررت بعیسیٰ فقال مرحبا بالنبق الصالح ولاخ الصالح قلت من ھذا قال ھذا عیسیٰ ثم عورت بابراھیم فقال مرحبا بالنبی الصالح والا بن الصالح قلت من ھذا قال ھذا ابراھیم۔ قال ابن شہاب فاخبرنی ابن حزم ان ابن عباس واباحبۃ الا نصاری کانا یقولان قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثم عرج بی حتی ظھہر تلستوی اسمع فیہ صریف الا قلام۔ قال ابن حزم وانس ابن مالک قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ففرض اللہ عزوجل علی امتی خمسین صلوٰۃ فرجمت بذلک حتی ھورت علی موسیٰ فقال مافوض اللہ لک علی امتک قتل نرض خمسین صلواۃ۔ قال فارجع الی ربک فان امتک ولا قطیق۔ فراجعت نوصنع شطرھا۔ فرجعت الی موسیٰ قلت وضع شطرھا۔ فقال راجع ربک فان امتک لا تطیق ذلک فراجعت نوضع شطرھا فرجعت الیہ فقال ارجع الی ربک فان امتک تا تطیق ذل فواجعتہ فقال حی خمس خمسون لا یبدن الول ادقے
کا لگن لائے اور اس کو میرے سینہ میں انڈیل دیا۔ پھر میرے سینہ کو برابر کردیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان تک لے گئے ۔ جب میں آسمان دنیا تک پہنچا۔ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کے محافظ سے کہا کہ دروازہ کھول دے۔ اس نے کہا کون ہے ؟ جبرائیل نے کہا میں ہوں اس نے پوچھا تمہارے ساتھ کوئی ہے ؟ کہاں ہاں میرے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کہا کیا بلائے گئے ہیں۔ کہاں ہاں۔ جب دروازہ کھلا ہم آسمان اول پر چڑھے دیکھا تو ایک شخص بیٹھا ہوا ہے جس کے دائیں طرف بہت سے دھندلی صورتیں ہیں۔ دائیں طرف دیکھ کر ہنستا ہے اور بائیں طرف دیکھ کر روتا ہے۔ اس نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور فرزند صالح۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ یہ کون ہے۔ جبرائیل نے کہا یہ آدم ہے اور یہ دھندلی صورتیں جو اس کے دائیں اور بائیں طرف ہیں۔ اس کی اولاد کی روحیں ہیں
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 1

تفسیر سرسید : ۴

میں سے دائیں طرف والی جنتی ہیں۔ اور بائیں طرف والی دوزخی اسی لیے دائیں طرف دیکھ کر ہنستا ہے اور بائیں طرف دیکھ کر روتا ہے پھر مجھ کو دوسرے آسمان تک لے گئے اور اس کے محافظ سے کہا کھول۔ اس محافظ نے بھی وہی کہا جو پہلے محافظ نے کہا تھا۔ پھر دروازہ کھل گیا۔ انس کہتے ہیں کہ پھر ذکر کیا کہ آسمانوں میں آدم۔ ادریس۔ موسیٰ ۔ عیسیٰ اور ابراہیم سے ملے اور ان کے مقامات فرجعت الی موسیٰ فقال راجع ربک فقلت استحییت من ربی ثم انطلق بی بنتی انتہی بی الی سدرۃ المنتہیٰ وغشیھا الوان لا ادری ماھی ثما دخلت الجنۃ فاذاھی حبائل (جنابذ) اللولو واذا ترابھا المسک۔ (صحیہ بخاری مطبوعہ عددھلی صفحات - )
کی تعیین نہیں کی سوائے اس کے کہ پہلے آسمان پر آدم اور چھٹے آسمان پر ابراہیم سے ملنے کا ذکر کیا ہے انس کہتے ہیں جب جبرائیل (علیہ السلام) پیغمبر خدا کے ساتھ ادریس (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ۔ انھوں نے کہا اے بنی صالح اور برادر صالح۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں جبرائیل نے کہا یہ ادریس ہیں۔ پھر موسیٰ پر گزر ہوا انھوں نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں جبرائیل نے کہا یہ موسیٰ ہیں۔ پھر میں عیسیٰ کے پاس پہنچا ۔ انھوں نے کہا اے نبی صالح اور برادر صالح۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں یہ عیسیٰ ہیں۔ پھر میں ابراہیم کے پاس پہنچا۔ انھوں نے کہا انھوں نے کہا اے نبی صالح اور برادر صالح۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں کہا یہ ابراہیم ہیں۔ ابن شہاب کہتے ہیں مجھے ابن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس اور ابوجنہ انصاری دونوں کہتے تھے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ پھر مجھ کو چڑھا لے گیا یہاں تک کہ میں ایسی جگہ پہنچا جہاں سے قلموں کے چلنے کی آواز سنتا تھا۔ ابن حزم اور انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا کہ خدا نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ جب میں واپس ہو کر موسیٰ کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا کہ خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا میں نے کہا پچاس نمازیں کہا پھر خدا کے پاس جائے۔ آپ کی امت سے یہ فرض ادا نہ ہوسکے گا۔ میں پھر گیا تو خدا نے ان میں سے ایک حصہ کم کردیا پھر موسیٰ کے پاس آیا اور میں نے کہا ایک حصہ ان میں سے خدا نے کم کردیا۔ کہا پھر جائیے آپ کی امت اس کا بھی تحمل نہ کرسکے گی۔ میں پھر گیا۔ خدا نے ایک حصہ اور کم کردیا۔ پھر جب موسیٰ کے پاس آیا تو کہا پھر جائیے آپ کی امت یہ بھی ادا نہ کرسکے گی۔ میں پھر خدا کے پاس گیا۔ کہا پانچ نمازیں ہیں اور وہی پچاس کے برابر ہیں۔ میرا یہ قول نہیں بدلتا۔ میں موسیٰ کے پاس آیا تو کہا پھر جائیے میں نے کہا اب تو مجھے خدا سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے لے چلا۔ یہاں تک کہ میں سدرہ کے پاس پہنچ گیا اور اس پر رنگ چھائے ہوئے تھے جن کی حقیقت میں نہیں جانتا۔ پھر میں جنت میں داخل ہوا اور دیکھا کہ موتی کے قبے ہیں اور اس کی مٹی مشک خالص ہے۔
حدیث بیان کی ہم سے ہدبہ بن خالد نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ہمام نے قتادہ سے اور کہا مجھ سے خلیفہ نے حدیث بیان کی ہم سے یزید بن زریع نے کہا اس نے حدثنا ھدبۃ بن خالد حدثنا ھمام عن قتادہ وقال لی خلیفۃ حدثنا یزید بن سردیع حدثنا سعید و ہشام حدثنا قتادہ حدثنا انس بن مالک عن مالک بن صعصعہ قال قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بینا اتا عندا لبیت بین قائم والیقظان فذکر رجلا بین الرجلین فاتیت بطست من ذھب ملان حکمۃ ویامانا نشق من النحولی مراق البطن ثم غسل البطن بماء زمزم ثم ملئی حکمۃ فایمانا و اتیت بدابۃ ابیض دول الیغل وفوق الحورا البراق فانظلفت مع جبرائیل حتی اتینا السما مالد نیا قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم مرحبا بدلنعم المجئی جاء ۃ اتبیت علی ادم نسلمنت علیہ فقال مرحبابک من ابن و نبی فاتینا السماء لثانیۃ قیل من ھذا قال جبرائیل قیل وھن معک قال محمد قیل وارس الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ ولنعم المجئی جاء فاتیت علی عیسیٰ و یحییٰ فقال مرحبا بک من اح وینی فاتینا السماء الثالثۃ قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ ولنعم المجئی جاء فاتیت علی یوسف فسلمت علیہ فقال مرحبا بک من اخ وبنی قائیت السماء الرابعۃ قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قیل محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیل وتدارسل الیہ قیل نعم قیل مرحبا بہ ولنعم المجئی جعاء قاتیت علی ادریس فسلمت علیہ فقال مرحبا بک ھمن اخ و نبی فاتیت السماء الخامسۃ قیل من ھذا قیل جبرائیل قیل ومن معک قیل محمد قیل وقدارسل الیہ قیل نعم قیل مرحبا بہ ولنعم المجئی جاء فاتینا علی ہارون نسلمت علیہ فقال مرحبا بک من اخ ونبی فاتینا السماء السادسۃ قیل من ھذا قیل جبرائیل قیل ومن معک قیل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیل وقدارسل البیہ قیل نعم قیل مرجا وبدلتعم المجئی جاء فاتیت علی مری فسلمت علیہ فقال مرحبا بک عمن اخ دنبی فلما جاوزت ی کی فقیل ما ابکاک قال یارب ھذا الغلام الذی بعث بعدی یدخل الجنۃ من
حدیث بیان کی ہم سے سعید اور ہشام نے ، کہا انھوں نے حدیث بیان کی ہم سے قتادہ نے اس نے حدیث بیان کی ہم سے انس بن مالک نے مالک بن صعصعہ سے کہا اس نے فرمایا رسول خدا نے کہ میں کعبہ کے پاس کچھ سوتا کچھ جاگتا تھا پھر ذکر کیا ایک شخص کا دو شخصوں کے درمیان پھر سونے کا نگن حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا لایا گیا۔ پھر میرا سینہ پیٹ کی نرم جگہ تک چیرا گیا۔ پھر اندر کی چیز (دل) آب زمزم سے دھو کر حکمت اور ایمان سے بھر دیا۔ اور ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ یعنی براق۔ پھر میں جبرائیل کے ساتھ چلا۔ یہاں تک کہ ہم پہلے آسمان تک پہنچے۔ پوچھا گیا کہ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا وہ بلائے گئے ہیں کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آتا ہوا۔ پھر میں آدم کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا کہا مرحبا فرزند اور نبی پھر میں عیسیٰ اور یحییٰ کے پاس آیا دونوں نے کہا مرحبا اے بھائی اور نبی پھر ہم تیسرے آسمان پر پہنچے پوچھا یہ کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں۔ کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا۔ پھر میں یوسف کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا۔ کہا مرحبا تم پر اے بھائی اور نبی پھر ہم چوتھے آسمان پر پہنچے پوچھا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا
استا فضل مما یدخل من امتی فاتینا السماء السابعۃ قیل من ھذا قیل جبرائیل قیل ومن معک قیل محمد قیل وقد ارسی الیہ مرحبا بدو لخم المجئی جاء فاتیت علی ابراھیم فلسمت علیہ فقال مرحبا بک ومن ابن و نبی فوقع لی البیت المعمور فسالت جبرائیل فقال ھذا البیت المعمور یصلی فیہ کل یو م سبعون الف ملک اذا خرجوا الم یعودوا اخر ما علیھم زرفعت و سدرۃ المنتہیٰ فاذا انبع تھا کانہ قلال ھجردور قھا کانہ اذان فیول فی اصلھا ریعبتدا انصار ن عمران باطنان ولھران ظاھراک فسالت جبرائیل فقال اما الباطنان ففی الجنہ واما الظاھران فانعرات والفیل ۔ ثم نرضت علی خمسون صلوٰۃ فاقبلت حتی جئت موسیٰ فقال ما صنعث قلت نرھنستا علی خمسون صلوٰۃ قال انہ اعلم بالتا س منک عالجت بنی اسرائیل اشدا المعالجۃ ون امتک لا تطیق فارجع الی ربک نسلم فرجعت نسلتہ فجعا با اریحین ثم مثلہ ثم ثلث زین شمعثہ فجعل اعشرین ثم مثل فجعل عشرافاتیت اس میں فقال مثلہ نجعلھا خمسا قاتیت موسیٰ فقال ما صنعت قلت جعلھا اخمسا فقال مثلہ قلت سلمت ننوی انی قدا مضیت تریضتی وخفعت عن عبادی واجزی الحسنۃ عشرا وقال ھمام عن قتادہ عن الحسن عن ابوہریرہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی البیت المعمور۔ (صحیح بخاری مطبوعہ دھلی صفحات - )
تیرے ساتھ اور کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس نے کہا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں۔ کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا۔ پھر میں ادریس کے پاس آیا اور ان کو سلام کیا کہا مرحبا تم پر اے بھائی اور نبی پھر میں پانچویں آسمان پر پہنچا۔ پوچھا کون ہے کہا جبرائیل تیرے ساتھ اور کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں۔ کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا۔ پھر ہم ہارون کے پاس پہنچے میں نے ان کو سلام کیا۔ کہا مرحبا تم پر اے نبی اور برادر پھر ہم چھٹے آسمان پر پہنچے پوچھا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں۔ کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا۔ پھر میں موسیٰ کے پاس پہنچا ۔ ان کو میں نے سلام کیا۔ کہا مرحبا اے برادر اور نبی۔ جب میں وہاں سے بڑھا تو وہ روے پوچھا کہ تم کیوں روتے ہو۔ کہا اے خدا یہ لڑکا جو میرے بعد مبعوث ہوا ہے۔ اس کی امت کے لوگ میری امت والوں سے زیادہ جنت میں داخل ہوں گے ۔ پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے کہا کون ہے۔ کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں۔ کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا۔ پھر میں ابراہیم کے پاس پہنچا۔ میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا تم پر اے فرزند اور نبی پھر بیت المعمور میرے قریب لایا گیا۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا تو کہا یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ اور جب یہاں سے نکلتے ہیں تو پھر کبھی نہیں آتے۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ مجھ سے نزدیک ہوا۔ جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر بڑے تھے اور پتے ہاتھیوں کے کان کے برابر تھے۔ چار نہریں اس کی جڑ میں سے نکلتی تھیں ۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا تو کہا دو پوشیہ نہریں تو جنت میں ہیں۔ اور وہ ظاہر فرات اور نیل ہیں پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر میں موسیٰ کے پاس آتا۔ پوچھا آپ نے کیا کیا۔ میں نے کہا مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئی ہیں۔ کہا میں لوگوں کے حال سے آپ سے زیادہ واقف ہوں۔ میں نے بنی اسرائیل کی سوح میں سخت تکلیف اٹھائی ہے۔ آپ کی امت اس کا تحمل نہ کرسکے گی آپ خدا کے پاس پھر جائیے۔ اور درخواست کیجئے میں پھر گیا اور خدا سے سوال کیا تو چالیس نمازوں کا حکم دیا۔ پھر ایسا ہی ہوا پھر تیس کا حکم دیا پھر ایسا ہی ہوا پھر بیس کا حکم دیا۔ پھر ایسا ہی ہوا پھر اس کا حکم دیا پھر میں موسیٰ کے پاس آیا پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ پھر خدا نے پانچ نمازوں کا حکم دیا میں پھر موسیٰ کے پاس آیا۔ کہا آپ نے کیا کیا میں نے کہا اب پانچ کا حکم دیا ہے موسیٰ نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میں نے کہا اب تو میں قبول کرچکا۔ پھر آواز آئی کہ ہم نے اپنا فرض جاری کیا۔ اور اپنے بندوں کو آسانی دی۔ اور ہم ایک نیکی کے بدلے دس کا ثواب دینگے۔ ہمام نے قتادہ سے اس نے حسن سے اور اس نے ابوہریرہ سے اور انھوں نے پیغمبر خدا سے روایت کی ہے کہ یہ واقعہ بیت المعمور میں ہوا۔
قال حدثنا ھدبہ بن خالد قال ھدثنا ھم بن یحییٰ حدثنا قتادہ عن انس بن مالک و عن مالک بن صعصعہ ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدثھم ھن سینۃ اسری بہ بینما انافی الحظیم وربما قال فی الحجر مضطجعا افا اتائی ات فقد قال وسمعۃ یقول عشق مابین ھذہ الی ھذہ یعنی من ثغرۃ نحرہ الی تعریا وسمعنہ یقول من قصتہ الی شعرتہ نا ستخرج قبی شہر تیت بطست من ذھب مملوۃ ایمانا نفل قبل عم حشی ثم اعید ثم اتیت بدابۃ دون البغی و فوق الحمارا ببض وھو البراق یضع خطوہ عنبا قضی طرفہ فحملت علیہ فانطلق فی جبریا حتی الی السھد الدنیا فاستفتح فقیل من ھذا قال جبرائیل قبل و من معک قال محمد قیل و قدارس لیہ قل نعم قیل مرحبا بہ تعم الجئی جاء نفتح فلما خصت فاف فیھا اٰدم فقال ھذا ابرک ادہ فلم عہ فسلمت علیہ فرد السلام ثم قال مرجابالا بن العت الخ۔
حدیث بیان کی ہم سے ہر ہر بن خالد نے کہا ہ اس نے حدیث بیان کی ہم سے ہمام بن یحییٰ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے قتادہ نے انس بن مالک سے اس نے مالک بن صعصعہ سے کہ پیغمبر خدا نے ذکر کیا ان سے معراج کی رات کا کہ اس حالت میں کہ میں حطیم میں تھا اور کبھی کہا میں حجر میں کروٹ پر سوتا تھا۔ کہ ایک آنے والا آیا پھر اس نے چیرا اور میں نے سنا کہ فرمایا یہاں سے یہاں تک چاک کیا یعنی گلے کے گڑھے سے بالوں کی جگہ تک اور میں نے سنا کہ فرمایا سینہ کے سرے سے بالوں کی جگہ تک پھر میرا دل نکالا پھر ایمان سے بھرا ہوا سونے کا لگن لایا گیا اور میرا دل دھویا گیا پھر بھرا گیا پھر وہیں رکھ دیا گیا جہاں پہلے تھا ۔ پھر ایک جانور سواری کا لایا گیا خچر سے والنبی الصالح ثم صعد حتی اتی السما ما لثانیۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک فاقل محمد قیل وقدا رسل الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ فنعم المجئی جاء ففتح فلما خلصت اذا یحییٰ و عیسیٰ و ھما ابنا الخالۃ قال ھذا یحییٰ و عیسیٰ فسلم علیھما فلمت فردا ثم قال مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح ثم صعد بی الی السماعالت لشۃ فا ستفتح قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسن الیہ قال نعم قیل مرحبا بہ فنعم المجئی جاء نفتح فلما خلصت اذایوسف قال ھذا یوسف نلم علیہ نسلمت علیہ فردثم قال مرحبا بالاح الضالح والنبی اصلالح ثم صعد بی حتی اتی السماء الرابعۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جیریا قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیم قال نعم قیل مرحبا بہ قعم المجئی جاء ففتح فما خلصت افا ادریس قال ھذا ادریس فسلم علیہ فلمت علیہ نرد ثم قال مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح ثم صعد بی حتی اتی السماء الخامسۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک وقال محمد قیل وقدارسل الیہ قال نعم قیل مرحبابہ فنعم المجئی جاء فلما خلصت فاذا ہارون قال ھذا ہارون فلم علیہ فلمت علیہ فردثم قال مرحبا بالاخ الصالح والنبی الضالح ثم صعد بی حتی اتی عاساد سۃ فاستفتح قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد ارسل الیہ قال نعم قال مرحبا نہ فتھم المجئی جاء فلما خلصت فاذا موہلی قس ھذا موسیٰ فلم علیہ نسلحت علیہ فردثم قال مرحباء لا نہر الصالح والنبی لاوغلامابعث بعدی یدخل الجنۃ من امتہ اکثر ممن یلخلھا من امتی ثم صعد بی لی السماء البالعۃ فاستفتح جبرائیل قیل من ھذا قال جیری قیل ومن معک
چھوٹ گدھے سے بڑا سفید رنگ کا اور وہ براق تھا جو منتہائے نظر پر قدم رکھتا تھا ا۔ میں اس پر سوار ہوا اور جبرائیل میرے ساتھ چلے یہاں تک کہ پہلے آسمان پہنچا اور اس نے دروازہ کھلوانا چاہا۔ پوچھا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا گیا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر دروازہ کھل گیا جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں آدم ہیں۔ جبرائیل نے کہا کہ یہ آپ کے باپ آدم ہیں ان کو سلام کیجئے میں نے سلام کیا۔ آدم نے سلام کا جواب دیا پھر کہا اے فرزند صالح اور نبی صالح مرحبا ! پھر چڑھا یہاں تک کہ دوسرے آسمان پر پہنچا۔ اور دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا بلائے گئے ہیں کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر دروازہ کھل گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ یحییٰ و عیسیٰ ہیں۔ اور وہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیل نے کہا یہ عیسیٰ اور یحییٰ ہیں ان کو سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا۔ دونوں نے جواب دیا۔ پھر کہا مرحبا اے بر اور صالح اور نبی صالح۔ پھر مجھ کو تیسرے آسمان پر چڑھالے گیا۔ پھر اس نے دروازہ کھلوانا چاہا ۔ پوچھا گیا کون ہے کہا جبرئیل۔ کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کہا بلائے گئے ہیں۔
قال محمد قیل وقد بعث الیہ قال نعم قال مرحبا بہ فنعم المجئی جاء فلما خلصت فاذا ابراھیم قال ھذا ابوک فسلم علیہ قال فسلمت علیہ زداللا مفتعال رس بالا بن الصالح والنبی الصلاح ثم رفتبی سدرۃ المنتہیٰ فاذا فقھا مثل قلال ھجرواذارو تھا مثل انان الفضیلۃ قال ھذا سدرۃ المنتہیٰ واذاربعۃ انھار نھران باطنان ونھران ظاھران فقلت ماھذان یا جبرائیل قال لم الباد ننھران فی الجنۃ واما الظاھران فالفیل والفرات ثم رقع لی البیت المعمور ثم تیت باناء من خمرواناء من لئن واناء من عسل فاخذت اللبن فقالھی نفطرۃ انت علیھا وامتک ثم فرضیت علی الصلوات خمسون صلوات کل یوم فرجعت قمر ستا علی موسیٰ نقال بم امرت بخمسین صدیات کل یوم قال ان امتک ولا تستطیع خمسین صلوۃ کل یوم و اتی واللہ قد جو بت الناس قبلک وعالجت بنی اسرائیل اشدما لمعا لجۃ فارجع الی وبک فسلہ التخفیف لا متک درجت فرضع علی عثل فرجعت الی من سی فقال مثہ فرجعت توضع عنی عشرا فرجعت الی موسیٰ فقال مثلہ فرجعت فوضع عنی عشرا فرجعت الی من سی فقال مثلہ فرجعت فامرت نجمس ھکوت کل یوم فرجعت الی موسیٰ فقال امرت قلت امرت نجمس صلوات کل یوم قال ان امتک لا تستطیع خمس صلوٰت کل یوم وانی قد جو بت سالہ قبلک وما لجت بنی اسرائیل اشدالمعالجۃ فارجع اف ربک نسلہ التخفیف لا ستک قال سالت ربی حتی استحییت ولکنی ارضی واسلم قال فلما جاو ورت نادیٰ مناد امضیت فریضتی وخفف عن عباد (صفحات - صحیح بخاری مطبوعہ دھلی)
کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا۔ پھر دروازہ کھل گیا اور میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں یوسف ہیں۔ جبرائیل نے کہا کہ یہ یوسف ہیں۔ ان کو سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا۔ یوسف نے جواب دیا اور کہا مرحبا اے برادر صالح اور بنی صالح پھر مجھ کو چوتھے آسمان پر چڑھالے گیا وہاں بھی دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا کون ہے کہ جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے۔ کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کیا بلائے گئے ہیں۔ کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر دروازہ کھل گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں ادریس ہیں۔ جبرائیل نے کہا یہ ادریس ہیں ان کو سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا ادریس نے جواب دیا اور کہا مرحبا اے برادر صالح اور نبی صالح۔ پھر مجھ کو پانچویں آسمان پر چڑھا لے گیا اور وہاں بھی دروازہ کھلوانا چاہا۔ پوچھا گیا کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا جب میں پہنچا تو دیکھا وہاں ہارون ہیں۔ جبرائیل نے کہا یہ ہارون ہیں ان کو سلام کیجئے میں سنے سلام کیا ہارون نے سلام کا جواب دیا اور کہا مرحبا اے برادر صالح اور نبی صالح پھر مجھ کو چھٹے آسمان پر لے گیا اور دروازہ کھلوانا چاہا پوچھا گیا کہ کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں۔ کہا ہاں کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر میں پہنچا تو دیکھا وہاں موسیٰ ہیں۔
جبرئیل نے کہا یہ موسیٰ ہیں ان کو سلام کیجئے۔ میں نے سلام کیا۔ موسیٰ نے جواب دیا پھر کہا مرحبا اے برادر صالح اور نبی صالح ۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا موسیٰ روئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں روتے ہیں کہا میں اس لیے روتا ہوں کہ اس لڑکے کی امت کے لوگ جو میرے بعد مبعوث ہوا ہے۔ میری امت والوں سے زیادہ جنت میں جائینگے پھر مجھ کو ساتویں آسمان پر لے گیا اور دروازہ کھلوانا چاہا پوچھا گیا کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کہا کیا طلب کئے گئے ہیں۔ کہاں ہاں۔ کہا مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر جب میں پہنچ گیا تو دیکھا وہاں ابراہیم ہیں۔ جبرائیل نے کہا یہ آپ کے دادا ابراہیم ہیں۔ ان کو سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا سلام کا جواب دیا اور کہا مرحبا اے فرزاد صالح اور نبی صالح پھر سدرۃ المنتہیٰ مجھ سے نزدیک ہوا میں نے دیکھا کہ اس کے پھل حجر مٹکوں کے برابر اور پتے ہاتھیوں کے کان کے برابر ہیں۔ جبرائیل نے کا یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی ہیں دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کیا ہیں۔ کہا دو پوشیدہ نہریں تو جنت میں جاتی ہیں اور دو ظاہر نیل اور فرات ہیں۔ پھر بیت المعمور مجھ سے نزدیک ہوا۔ پھر ایک طرف شراب سے دوسرا دودھ سے اور تیسرا شہد سے بھرا ہوا پیش کیا گیا میں نے دودھ کو پسند کیا جبرائیل نے کہا یہی آپ کی فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت پیدا ہوئی ہے۔ پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ پھر میں الٹا پھرا اور موسیٰ کے پاس آیا پوچھا کیا حکم ہوا۔ میں نے کہا ہر روز پچاس نمازوں کا حکم ہوا ہے کہا آپ کی امت پچاس نمازیں ہر روز ادا نہیں کرسکے گے۔ اور خدا کی قسم میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح میں سخت تکلیف اٹھاچکا ہوں۔ خدا کے پاس پھر جائیے۔ اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کیجئے۔ میں پھر گیا اور خدا نے دس نمازیں کم کردیں ۔ اور میں پھر موسیٰ کے پاس آیا۔ موسیٰ نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میں پھر گیا اور خدا نے دس اور کم کردیں پھر موسیٰ کے پاس آیا موسیٰ نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا میں پھر گیا اور خدا نے دس نمازیں اور کم کردیں۔ پھر موسیٰ کے پاس آیا پھر بھی وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میں پھر گیا تو ہر روز دس نمازوں کا حکم ہوا۔ جب میں موسیٰ کے پاس آیا تو پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میں پھر گیا اور اب کی دفعہ ہر روز پانچ نمازوں کا حکم ہوا۔ لوٹ کر موسیٰ کے پاس آیا تو پوچھا کیا ہوا میں نے کہا ہر روز پانچ نمازوں کا حکم ہوا ہے۔ کہا آپ کی امت ہر روز پانچ نمازیں ادا نہیں کرسکے گی۔ میں آپ سے پہلے لوگوں کو آزما چکا ہوں اور بنی اسرائیل کی اصلاح میں تکلیف اٹھاچکا ہوں۔ آپ پھر جائیے اور اپنی امت کے لیے کمی کی درخواست کیجئے۔ کہا میں نے اپنے رب سے سوال کیا یہاں تک کہ مجھے شرم آئی اب تو میں راضی ہوں اور اسی کو قبول کرتا ہوں۔ کہا جب میں اس مقام سے چلا تو ایک پکارنے والے نے پکارا میں نے اپنا فرض جاری کردیا اور اپنے بندوں پر آسانی کی۔
حدثنا محمد بن بشار حد ثنا غتد رحدثنا شعبۃ عن قتادہ وقال لی خلیفۃ حدثنا یزید بن زدیع حدثنا سعید عن قتادہ عن ابی العالیۃ حدثنا ابن عم نجیکم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی ابن عباس عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال رایت لیلۃ اسرے بی موسیٰ رجلا اٰدم طوالا جعدا کانہ من رجال شنؤۃ ولایت عیسیٰ رجلا مربی عامر بوع الخلق الی انحمرۃ والبیاض سبط الراس ورایت مانکا خازن الناروالدجال فی ایات اراھن اللہ یاہ فلا تکن فی مریۃ من لقاہ قال انس و ابوبکرۃ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تحریں الملائکۃ المدینۃ من الدجال (صحیح بخاری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے محمد بن بشار نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے غندر نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے شعبہ نے قتادہ سے اور کہا مجھ سے خلیفہ نے حدیث بیان کی ہم سے یزید بن زریع نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے سعید نے قتادہ سے اس نے ابوالعالیہ سے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے تمہارے نبی کے چچا کے بیٹے نے یعنی ابن عباس نے پیغمبر خدا سے فرمایا میں نے دیکھا معراج کی شب موسیٰ کو لمبے قد کا اور گھونگریالے بالوں والا گویا کہ وہ قبیلہ شنواۃ کے مردوں میں سے ہیں۔ اور میں نے عیسیٰ کو دیکھا میانہ قد میانہ بدن رنگت مائل بسرخی و سفیدی بال چھوٹے ہوئے۔ اور میں نے دیکھا مالک محافظ دوزخ کو اور دجال کو ان نشانیوں میں جو خدا نے دکھائیں۔ پس نہ شک کر تو اس کے دیکھنے میں۔ روایت کی انس نے اور ابو بکرہ نے پیغمبر خدا سے کہ فرشتے مدینہ کو دجال سے بچاتے اور اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔
حدثناعبدان حدثنا عبداللہ حدثنا یونس عن الزھری وحدثنا احمد بن صالح حدثنا عنبۃ حدثنا یونس عن ابن شہاب قال قال انس بن مالک وکان ابوذر یحدث ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال فرج سقف بیتی وانا بمکۃ فنزل جبرائیل ففرح صدری ثم غسلہ بماعزمزم ثم جاء بطست من ذھب مستلی حکمۃ وایمانا قانرغہانی صدری ثم طبقہ ثم اخذ بیدی فعرج بی الوالسماء فلما جاء الی السماء لاینا
حدیث بیان کی ہم سے عبدان نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے یونس نے زہری سے اور ہم سے حدیث بیان کی احمد بن صالح نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عنیسہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے یونس نے ابن شہاب سے کہا اس نے کہا انس بن مالک نے ابوذر حدیث بیان کرتے تھے کہ پیغمبر خدا قال جبرائیل الخازن السموا فتح قال من ھذا قال ھذاجبرئیل قال معک احد قال سعی محمد قال ارسل الیہ قال نعم ففتح فلما عفونا سماء الدنیا اذار جل عن یمینہ اسودۃ وعن سارہ سودۃ فاذا انظر قیل عینہ ضحک واذ انظر قیل شما لہ بکی فقال مرحبا بالنبی الصالح والا بن الصالح قلت من عذابا جبرائیل قال ھہ دم وھذا الا سود ۃ عن یمینہ وعن شمالہ نسم بنیہ ۃ ھل الیمین متھم اھل الجنۃ والا سودۃ اللتی عن شمالہ اھل سار فاذانظر قبل عیتہ ضحاک واذا نظر قبل شمالہ ی کی ثم عرج بی جبرائیل حتی اتی سمعا الثانیۃ فقال لخازنھا افتح فقال لہ خازنہ امثل ما قال الاول نفتح قال زیں فذکرانہ وجد فی السموات ادریس و موسیٰ و عیسیٰ وابراھیم ولم یثبت لی کیف ضازلھسفیراہ قد فکو انہ قد وجداٰدم فی اسماء الدنیا وابراھیم فی السادسۃ وقال انس فلما مر جبرائیل بادریس قال مرحبا بالنبی الصلاح ولاخ الصلاح فقلت من ھذا قال ھذا ادریس ثم مررت بموسی فقال مرحبا بالنوا صالح والا خ الصالح قلت من ھذا قال ھذا موسیٰ ثمصورت بعیسی فقال مرحبا بالنبی الصالح ولاح الصالح فقلت من ھذا قال ھذا عیسیٰ شمصورت با براھیم فقال مرحبا بالنبی الصالح والا بن الصالح قلت من ھذا ابراھیم قال ابن شہاب واخبرنی ابن خرمران ابن عباس وابا حبۃ الانصاری کا نایقولا تہ قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثم عرج بی جبرائیل حتی ظھہرات لمستوی اسمع صریف الا قلام قال ابن حزم وانس بن مالک متوال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ففرض اتہ علی خمسین صلوۃ عن جعت بذلک حتی امربموسی فقال موسیٰ ماالذی فرض ربک علی امتک قلت فرض علیھم خمسون صلوۃ قال فرجع ربک فان امتک لا تطیق ڈنک فرجعت فراجعت ربی تواضع شطرہ فرجعت الی موسیٰ فقال راجع ربک فذکر مثلہ فوضع شطرھا فرجعت الی موسیٰ فاخبرتہ فقال فلک فنعلت فوضع شطرھا فرجعت الی موسیٰ فاخیرتہ فقال ارجع ربک فان امتک
نے فرمایا ۔ میرے گھر کی چھت شق کی گئی اور میں اس وقت مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل نازل ہوا اور میرا سینہ چیر کر آپ زمزم سے دھویا پھر حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا لگن لایا اور اس کو میرے سینہ میں الٹ دیا۔ پھر اس کو برابر کردیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے چلا جب پہلے آسمان پر پہنچا جبرائیل نے آسمان کے محافظ سے کہا کھول کہا کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کوئی ہے کہا میرے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کہا بلائے گئے ہیں کہا ہاں پھر دروازہ کھل گیا۔ اور ہم آسمان اول پر جا پہنچے میں نے دیکھا ایک مرد ہے جس کے دائیں بائیں بہت سی صورتیں ہیں۔ دائیں طرف دیکھ کر ہنستا ہے اور بائیں طرف دیکھ کر روتا ہے۔ اس نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور فرزند صالح میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون ہے کہ یہ آدم ہیں اور یہ صورتیں جو ان کے دائیں بائیں ہیں۔ ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ ان میں سے دائیں طرف والے جنتی اور بائیں طرف والے دوزخی ہیں۔ اس لیے دائیں طرف دیکھ کر ہنستے اور بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھ کو دوسرے آسمان پر چڑھا لے گئے۔ اور کھول کہا کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کوئی ہے کہا میرے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ کہا بلائے گئے ہیں کہا ہاں پھر دروازہ کھل گیا۔ انس کہتے ہیں کہ ابوذر نے آسمانوں پر ادریس ۔ موسیٰ ۔ عیسیٰ اور ابراہیم کا ملنا تو بیان کیا مگر ان کے مقامات کی تعیین نہیں کی سوائے لا تطیق ذلک فراجعت ربی نقالھی خمس وھی خمسون لا یبدل القول لدی فرجعت الی موسیٰ فقال راجع ربک فقلت قد استحیمیت من ربی ثم انطلق حتی اتی فی السدرۃ المنتہیٰ نخشیھا الوان لا ادری ماھی ثم ادخلت الجنہ فاذا فیھا جسابد قلولوواذ ترابھا المسک۔ (صحیح بخاری صفحات - )
اس کے کہ آسمان اول پر آدم اور چھٹے آسمان پر آدم اور چھٹے آسمان پر ابراہیم کے ملنے کا ذکر کیا۔ انس کہتے ہیں جب جبرائیل کا گزر ادریس کے پاس ہوا۔ ادریس نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح میں نے کہا یہ کون ہیں کہا یہ ادریس ہیں پھر میں موسیٰ کے پاس پہنچا موسیٰ نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں۔ کہا موسیٰ ہیں۔ پھر میں عیسیٰ کے پاس پہنچا عیسیٰ نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح میں نے پوچھا یہ کون ہیں کہا یہ عیسیٰ ہیں۔ پھر میں ابراہیم کے پاس پہنچا۔ ابراہیم نے کہا مرحبا اے فرزند صالح اور نبی صالح میں نے پوچھا یہ کون ہیں کہا یہ ابراہیم ہیں۔ کہا ابن شہاب نے اور خبر دی مجھ کو ابن حزم نے کہ ابن عباس اور ابوجتہ الانصاری دونوں کہتے تھے کہ رسول خدا نے فرمایا پھر مجھ کو جبرائیل ایسے مقام پر چڑھا لے گیا جہاں سے قلموں (ای صوت الا قلا محال الکتابہ کانت الملائکۃ تکتب قضیۃ) کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ کہا ابن حزم اور انس بن مالک نے فرمایا رسول خدا نے کہ فرض کیں خدا نے مجھ پر پچاس نمازیں۔ پھر میں لوٹ کر موسیٰ کے پاس آیا موسیٰ نے پوچھا کہ خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا۔ میں نے کہا ان پر پچاس نمازیں فرض ہوئی ہیں کہا خدا کے پاس پھر جائیی آپ کی امت اس کا تحمل نہیں کرسکے گی۔ میں پھر خدا کے پاس گیا خدا نے ان میں سے ایک حصہ کم کردیا۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا کہا پھر جائیے اور وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ پھر خدا نے ان میں سے ایک حصہ اور کم کردیا۔ میں پھر موسیٰ کے پاس آیا اور ان کو خبردی موسیٰ نے پھر کہا خدا کے پاس پھر جائیے۔ میں نے ایسا ہی کہا۔ ایک حصہ خدا نے اور کم کردیا ۔ میں پھر موسیٰ کے پاس آیا اور ان کو خبر دی ۔ کہا خدا کے پاس پھر جائیے آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ میں پھر گیا۔ اور پھر سوال کیا کہا پانچ اور یہی پچاس ہیں۔ اب میرا قول نہیں بدلتا پھر میں موسیٰ کے پاس آیا کہا خدا کے پاس پھر جائیے میں نے کہا مجھ کو خدا سے شرم آتی ہے پھر جبرائیل مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ پر لے گیا۔ کچھ رنگ اس پر چھائے ہوئے تھے۔ ان کی حقیقت سے میں خبردار نہیں ہوں۔ پھر میں جنت میں داخل ہوا ۔ وہاں موتی کے قبے اور شک کی مٹی تھی۔
بقیہ تفسیر اگلی آیت میں۔
 
آخری تدوین :

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 2

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾

تفسیر سرسید :

حدیث کی ہم سے عبدالعزیز بن عبدالہل نے کہا اس نے حدیث کی مجھ سے سلمان نے حدثنا عبدالعزیزبن عبداللہ قال حدثنی سلیمان عن شریک بن عبداللہ انہ قال سمعت انس بن مالک یقول لیلۃ اسری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من مسجد الکعبۃ نہ جاء ہ ثلثۃ نفر قیل ان یرحیٰ الیہ وھونائم فی المسجد الحرام فقال ولھم ایہم ھو فقال اوسطھم ھو غیر ھم فقال اخرھم خذواخیرھم فکانت تلک اللیلۃ فلم برھمحتی اتوہ یستاخری قیماری قلبہ وتنام عینہ ولا ینام قلبہ وکذلک الانبیاء تنام اعینھم ولا تنام قلوبھم فلم یکلمو لحتی احتملوہ فوضعولا عند بئزبزم تولاء مہم جبرائیل نیق جبرائیل مابین نحرہ البتہ خنی قوۃ من فدرہ و جو نہ نفسلہ من ماء زمزم بیدہ حتی انقی جو نہ ثم اتی بطست من ذھب فیہ ترر من ذھب بحشوایمانا و حکمۃ فحشا بہ صدرہ ولغادید ہ یعنی عروق حلقہ ثما طبقہ ثم عرج بہ الی السماء الدنیا فضرب بابا من ایں ایھا ننا داہ اھل السماء من ھذ نقال جبرائیل قالوا ومن معک وقال معی محمد قال وقد بعث قال نعم قالو افمن جبارو اھلا ببنشر لبعن السماء لا یعرھل انسماء بما یرید اللہ بہ فی الارض حتی یعمھم فوجدنی السماء الدنیا اٰدم نقال لاجبرئیل ھذا ابوک نسلم علیہ تسلم علیہ ورد علیہ اٰدم وقال من جبارا ھلایا ینی فنعم الا بن ائت فاذا ا ھو فی السلم الدنیا بنھرین یھرفان فقال ماھذان النھوان یا جبرائیل قال ھذا القیل والقرات عنصر ھما ثم مضی بہ فی السماء فاذا ھویراہ اخر علیہ قصر من لو لو وزبرجد نضرب یدہ فاذ ھومسک ذفرنقال ماھذا یاجبرئیل قال ھوھذا الکوثر لذی قد خبالک ربک ثم عرج بہ الی السماء انشانیۃ فقالت ملائکۃ لہ مثل ما قلت لہ الا ولی من ھذا قال جبریاۃ لواومن معک قال محمد قال وقد بعث الیہ قال نعم قالو مرحبا بہ واھلا ثم عرج بہ الی السماء الثالثۃ وقالوا الہ مش ماقالت اولا لی والثانیۃ ثم عرج بہ الی السماء رابعۃ فقالوا لہ مثل ذلک ثم عرج بہ الی اسماء الخامسۃ فقالوا الہ مثل ذلک ثم عرج بہ الی السماء السادسۃ فقالوالہ مثل ذلک ثم عرج بہ الی السماء السابعۃ مثل ذلک کل سماء فیھا انبیاء قد سماھم فاوعیت منھم ادریس
شریک بن عبداللہ سے کہا اس نے سنا میں نے انس بن مالک سے کہ ذکر کرتے تھے وہ اس رات کا جب کہ رسول خدا کو مسجد کعبہ سے معراج ہوئی۔ کہ تین شخص (فرشتے) وحی آنے سے پہلے رسول خدا کے پاس آئے اور وہ مسجد حرام میں سوتے تھے۔ ان میں سے اول نے کہا ان میں سے کون بیچ والے نے کہا جو ان میں بہتر ہے۔ ان میں سے اخیر شخص نے کہا لو ان میں سے بہتر کو وہ رات تو گزر گئی پھر کسی نے ان کو نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ ایک دوسری رات کو آئے ایسی حالت میں جب کہ رسول خدا کا دل دیکھتا تھا۔ اور آنکھیں سوتی اور دل جاگتا تھا اور اسی طرح پیغمبروں کی آنکھیں سوتی اور ان کے دل نہیں سوتے ہیں۔ پھر انھوں نے رسول خدا سے بات نہیں کی اور ان کو اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے گئے ۔ پھر ان میں سے جبرائیل نے کام کا ذمہ لیا۔ پھر جبرائیل نے ان کے سینہ کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک چیر ڈالا۔ یہاں تک کہ سینہ اور جوف کو بالکل خالی کردیا۔ پھر آب زمزم سے اس کو دھویا۔ یہاں تک کہ جوف کو صاف کر ڈالا۔ پھر سونے کا لگن لایا گیا جس میں سونے کا لوٹا ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ جبرائیل نے اس سے انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ اور حلق کی رگوں کو پر کردیا پھر برابر کردیا۔ پھر ان کو آسمان دنیا پر لے گیا اور اس کا ایک دروازہ کھٹکھٹایا۔ آسمان والوں نے فی الثانیۃ وھارون فی الرابعۃ واخر فی الخامسۃ لم احفظ اسھ وا ابراھیم فی السادسۃ و موسیٰ فی السابعۃ بتفصیل کلام اللہ فقال موسیٰ رب لم اٹھن ان یرفع علی حدثم علابہ فوق ذلک بما لا یعلمہ الا اللہ حق جاء سدرۃ المنتہیٰ ودتا الجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان قاب قوسین اوادنی فاوحی اللہ الیہ فیما یوحی اللہ خمسین صلوۃ علی امتک کل یوم ولیلۃ ثم ھبط حتی بلغ موسیٰ فاحتبسہ موسیٰ فقال یا محمد ماذا عھد حیث رب فقال عھدالی خمسین صلوۃ کل یوم ولیلۃ فان ان امتک لا تستطیع ذلک فارجع فلیخفف عنک ربک وعنھم فالتفت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی جبریا کانہ یستشیرہ فی ذلک فاشارالیہ جبرائیل نعم ان شئت فعلابہ الی الجبار فقال وھو مکانہ یارب خفف عتافان امتی لا تستطیع ھذا فوضع عنہ عشر صلوۃ ثم رجع الی موسیٰ انما حتبسہ فلم یزل یرددہ موسیٰ الی ربہ حتی صارت علی خمس صلوٰۃ ثم احتبسہ موسیٰ عندالخمس فقال یا محمد واللہ لقد روادت بنی اسرائیل قومی علی ادنی من ھذا فغعفوا وترکوہ فلعتک اضعف احیا داوقلوبا والداتاوابصولو اسماعا فارجع فلیخفف عنک ربک کلی ذلک یلتفتہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی جبرائیل لبشیر علیہ وکان لا ککرذلک وجبرئیل فرض عندا الخامسۃ فقال یارب ان امتی ضعقا ما جسادھم وقلوبھم و اسماعھم وابصارھم وابدانھم فخفف عنا فقال الجبار یا محمد قل لبیک وسعد یک قال اندلا یبدلا القولہ لدی کما فرضت علیک فی ام الکتاب فکل حسنۃ بعشر امثالھا نبی خمسون فی ام الکتاب وھی خمس علیک فرجع الی موسیٰ فقال کیف فعلت قال خنف عنا اعطانابکل حسنۃ عشرسات لھا قال موسیٰ قدواللہ راودث بنی اسرائیل علی ادفی من ذلک وفقرکوہ فارجع الی ربک فلیخفف عنک ایضا قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا موسیٰ قدواللہ استحیت سع ربی مما انتم الف الیہ قال فاھبط بسم اللہ فاستیقظ وھو فی المسجد الحرام (صحیح بخاری صفحات - )
پکارا کہ کون ہے۔ کہا جبرائیل کہا اور تیرے ساتھ کون ہے کہا میرے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا بلائے گئے ہیں۔ کہا ہاں کہا مرحبا آئے اہل آسمان اسی بشارت کو طلب کررہے ہیں۔ کوئی آسمان کا فرشتہ نہیں جانتا کہ ان سے خدا زمین پر کیا چاہتا ہے جب تک کہ ان کو معلوم نہ ہو۔ پھر آسمان اول پر آدم کو دیکھا جبرائیل نے کہا یہ آپ کے باپ ہیں۔ اس کو سلام کیجئے رسول خدا نے آدم کو سلام کیا اور آدم نے جواب دیا۔ اور کہا مرحبا اے بہترین فرزند۔ پھر یکایک آسمان اول پر دو نہریں بہتی دیکھیں کہا اے جبرائیل یہ کیسی نہریں ہیں۔ کہا یہ نیل و فرات کی اصل ہیں پھر ان کو آسمان میں لے گیا۔ ایک اور نہر دیکھی جس پر موتی اور زبر جد کے محل بنے تھے۔ پھر اس میں ہاتھ ڈالا تو اس کی مٹی بالکل مشک خالص کی مانند تھی۔ کہا اے جبرائیل یہ کیا ہے اس نے کہا یہ کوثر ہے جو خدا نے آپ کے لیے تیار رکھی ہے۔ پھر دوسرے آسمان پر لے گیا یہاں بھی فرشتوں نے وہی کہا جو پہلوں نے کہا تھا۔ کہ کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا طلب کئے گئے ہیں۔ کہا ہاں کہا مرحبا پھر تیسرے آسمان پر لے گیا وہاں بھی فرشتوں نے وہی کہا جو پہلے اور دوسرے آسمان پر کہا تھا۔ پھر چوتھے آسمان پر لے گیا۔ پھر وہی انھوں نے کہا جو پہلی کہہ چکے تھے۔ پھر پانچویں آسمان پر لے گیا اور یہاں بھی مثل اول کے فرشتوں نے کام کیا۔ پھر چھٹے آسمان پر لے گیا اور فرشتوں نے مثل اول کے کلام کیا۔ پھر ساتویں آسمان پر لے گیا وہاں کے فرشتوں نے بھی وہی کہا جو پہلوں کہا تھا۔ ہر ایک آسمان میں پیغمبروں کے جدا جدا نام بتائے ۔ جن میں سے میں نے یاد رکھا ادریس دوسرے آسمان میں۔ ہارون چوتھے میں اور کوئی دوسرے نبی پانچویں میں جن کا نام یاد نہیں رہا۔ ابراہیم چھٹے میں اور موسیٰ ساتوی میں اس لیے کہ ان کو خدا کے ساتھ کلام کرنے کی فضیلت ہے۔ پھر موسیٰ نے کہا اے خدا میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی کو مجھ پر فضیلت دی جائے گی ۔ پھر خدا ان کو اس سے بھی اوپر لے گیا جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں ہے یہاں تک کہ ستدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ پھر خدا نزدیک ہوا پھر اور بھی نزدیک ہوا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہے گیا۔ پھر خدا نے ان کو وحی بھیجی کہ تیری امت پر پچاس نمازیں ہر روز و شب میں فرض ہوئیں۔ پھر اترے یہاں تک کہ موسیٰ کے پاس پہنچے۔ پھر موسیٰ نے ان کو روک لیا۔ اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا نے آپ کو کیا حکم دیا۔ کہا مجھ کو ہر رات دن میں پچاس نمازوں کا حکم ہوا ہے۔ موسیٰ نے کہا آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی پھر جائیے تاکہ خدا اس میں تخفیف کرے۔ رسول خدا نے جبرائیل کی طرف دیکھا گویا کہ اس بارہ میں اس سے صلاح پوچھتے ہیں۔ جبرائیل نے کہا ہاں اگر آپ چاہیں۔ پھر خدا کے پاس گئے۔ اور کہا جب کہ وہ اپنے پہلے مقام پر تھے۔ اے حدا کمی کر کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی خدا نے دس نمازیں کم کردیں۔ پھر موسیٰ کے پاس آئے اور موسیٰ نے ان کو روک لیا موسیٰ بار بار ان کو خدا کی طرف بھیجتے تھے یہاں تک کہ پانچ نمازیں فرض رہے گئیں۔ موسیٰ نے پھر روکا اور کہا اے محمد قسم خدا کی میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے اس سے بھی کم محنت چاہی تھی۔ انھوں نے کمزوری دکھائی اور اس کو چھوڑ دیا۔ آپ کی امت کا جسم۔ قلب۔ بصارت اور سماعت اور بھی زیادہ ضعیف ہے۔ پھر جائیے تاکہ خدا اس کو بھی معاف کردے۔ رسول خدا نے جبرائیل کی طرف دیکھا تاکہ اس میں مشورہ دے جبرائیل اس کو برا نہیں جانتا تھا پھر پانچویں دفعہ رسول خدا کو لے گیا۔ پھر رسول خدا نے کہا اے رب میری امت کے جسم۔ قلب۔ بصارت ۔ سماعت اور بدن ضعیف ہیں۔ پس ہمارے حق میں کمی کر خدا نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ کہا لبیک (حاضر ہوں) کہا میرا قول نہیں بدلتا جس طرح ام الکتاب میں تجھ پر فرض کرچکا ہوں۔ اور ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر ہوگا۔ اس لیے اب یہ نمازیں آم الکتاب میں پچاس کی برابر اور تیرے نزدیک وہی پانچ ہیں۔ پھر موسیٰ کے پاس آئے کہا آپ نے کیا کیا۔ کہا خدا نے تخفیف کی اس طرح پر کہ ہر نیکی کے بدلے ہم کو دس نیکیوں کا ثواب عنایت کیا۔ موسیٰ نے کہا واللہ میں نے تو بنی اسرائیل سے اس سے بھی کم محنت چاہی تھی۔ انھوں نے اس کو بھی چھوڑ دیا۔ خدا کے پاس پھر جائیے۔ تاکہ خدا ان کو بھی معاف کردے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے موسیٰ قسم ہے خدا کی کہ مجھ کو اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ بار بار اس کے پاس جاؤں کہا۔ تو بسم اللہ اترئیے۔ پھر جاگے اور اس وقت مسجد حرام میں تھے۔
حدثناابراھیم بن موسیٰ حدثنا ہشام بن یوسف حدیثنا محمد عن الزھری عن سعید بن المسیب عن ابوہریرہ قال قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسرے بی روایت موسیٰ واذا ھوررجل ضرب رحیل کانہ من رجال شنوء ۃ ورایت عیسیٰ فاذا ھو رجل ربعۃ احمر کا نھا اخریج من دیم اس وانا اشبہ ولدابراھیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہ ثم اتیت بانا ثین فی احدھما لبن وفی الاخرخموفقال اشرب ایہما شئت فاخذت اللبر فشریۃ فقیل اخذت الفطرۃ امانک اتئلواخذت الخمر غوت امتک۔ (صحیح بخاری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ہشام بن یوسف نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے معمر نے زہری سے اس نے سعید بن مسیب سے اس نے ابوہریرہ سے کہا انھوں نے فرمایا رسول خدا نے معراج کی رات میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا اور وہ بدن کے دبلے تھے اور بال چھوٹے ہوئے گویا کہ وہ قبیلہ شنوہ کے ایک آدمی ہیں۔ اور میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا اور وہ میانہ قد سرخ رنگ تھے گویا ابھی حمام سے نہا دھو کر نکلے ہیں اور میں ابراہیم (علیہ السلام) کا فرزند ہمشکل ہوں پھر دو برتن پیش کئے گئے ۔ ایک میں دودھ اور ایک میں شراب تھی۔ پھر کہا پی جس کو چاہے ۔ میں نے دودھ لے کر پی لیا مجھ سے کہا گیا کہ تونے فطرت کو پسند کیا۔ گر تو شراب کو پسند کرتا تو تیری امت گمراہ ہوجاتی۔
حدثنامحمد بن بشار حدثنا غندر سمعۃ عن قتادہ قال سمعت اباالعالیہ حدثنا ابن ھم نبیکم یعنی ابن عباس عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لا ینبغی لعبدان یقول انا خیر من یونس بن میتی و لبہ الی ابیہ و ذکر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسرے بہ فقال موسیٰ اٰدم طوالی کانہ من رجال شنوء ۃ و قال عیسیٰ جعدمر بوع وذکر مالکان خازن النار وذکر الدجال۔ (صحیح بخاری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے محمد بن بشار نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عندر نے کہا اس نے سنا
میں نے قتادہ سے کہا اس نے سنا میں نے ابوالعالیہ سے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے تمہارے پیغمبر کے چچا کے بیٹے یعنی ابن عباس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کسی بندہ خدا کو نہیں کہنا چاہیے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ اور یونس کو ان کے باپ کی طرف منسوب کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات کا ذکر کیا اور کہا موسیٰ لمبے قد کے تھے گویا کہ وہ قبیلہ سنوء ۃ میں سے ہیں۔ اور عیسیٰ گھونگریالے بالوں والے اور میانہ قد تھے اور دوزخ کے محافظ مالک اور دجال کا بھی ذکر کیا ہے۔
حدثنا ھدبہ بن خالد حدثنا ھمام بن یحییٰ عن قتادہ عن انس بن مالک عن مالک بن صعصعہ ان نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدثہم عن بیننا سری بدثمہ سعد حتی اتی السماء لثانیہ ای ستفتح بین من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وتدارسل الیہ قال نعم فلما خلصت فاذا یحییٰ و عیسیٰ وھما ابن خالۃ قال ھذا یحییٰ و عیسیٰ فسلم علیہما فسلمت فرداثم قالا مرحبا بالاخ الصالح والنبی الصالح۔ (صحیح بخاری صفحہ - )
حدیث بیان کی ہم سے ہدیہ بن خالد نے اس نے حدیث بیان کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے اس نے انس بن مالک سے اس نے مالک بن صعصعہ سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے شب معراج کا ذکر کیا پھر چڑھا یہاں تک کہ دوسرے آسمان پر پہنچا۔ اور دروازہ کھلوانا چاہا پوچھا کون ہے کہا جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا کیا طلب کئے گئے ہیں کہا ہاں جب میں پہنچ گیا تو میں یحییٰ اور عیسیٰ کو دیکھا اور وہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیل نے کہا یہ یحییٰ اور عیسیٰ ہیں ان کو سلام کیجئے ۔ میں نے سلام کیا دونوں نے جواب دیا اور کہا مرحبا اے برادر صالح اور نبی صالح۔
حدثناابراھیم ابن موسیٰ حدثنا ہشام عن معمر و حدثنی محمود حدثنا عبدالرزاق حدثنا معمر عن الزھری خبرنی سعید بن المسیب عن ابوہریرہ قال قال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسرے بی لقیت موسیٰ قال نعمتہ فاذا رجل حسبۃ قال مضطرب وحیل الراس کا تبھن رجال شنوۃ قال ولقیت عیسیٰ فنعتہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال ربعۃ احمر کانما خرج من دیم اس یعنی الحمام وسل یت ابراھیم واتہ شبہ والدہ بہ قال واتیت بانا ئین احدھما لبن والا خزفیہ خمر نقیل لی خذایہما شئت فاخذت اللمن نشربتہ فقل لی ھدائت الفطرۃ اوا صبت الفطرۃ اماتک لواخذت الخمر غوت امتک (پحیح بخاری صفحہ )
حدیث بیان ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ہشام نے معمر سے اور حدیث بیان کی مجھ سے محمود نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبدالرزاق نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے معمر نے زہری سے کہا اس نے خبر دی مجھ کو سعید بن مسیب نے ابوہریرہ سے کہا انھوں نے فرمایا رسول خدا نے کہ معراج کی رات میں موسیٰ سے ملا کہا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موسیٰ کی صفت بیان کی۔ کہ میں نے دیکھا وہ ایک مرد ہیں میں خیال کرتا ہوں کہ فرمایا بدن کے دبلے سر کے بال چھوٹے ہوئے گویا کہ وہ قبیلہ شنوہ میں سے ہیں۔ کہا اور میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملا پھر رسول خدا نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی صفت بیان کی اور فرمایا کہ وہ میانہ قد سرخ رنگ ہیں گویا ابھی حمام سے نکلے ہیں اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا اور میں ان کا ہم شکل فرزند ہوں کہا دو پیالے لائے گئے ایک میں دودھ تھا ایک میں شراب مجھ کو کہا گیا کہ جس کو چاہو پی لو۔ میں نے دودھ لے کر پی لیا۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپ فطرت پر ہدایت کئے گئے یا خطرت کو حاصل کرلیا اگر شراب پی لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
حدثنامحمد بن کثیر حدثنا اسرائیل حدثنا عثمان بن المغیرۃ عن مجاہد عن ابن عمر قال قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رایت عیسیٰ و موسیٰ وابراھیم فاما عیسیٰ فاحم جعد عریض الصدورا ما موسیٰ فادم جسیم سبط کانہ من رجال الزط۔ (صحیح بخاری صفحہ )
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 2

تفسیر سرسید : ۲

حدیث بیان کی ہم سے محمد بن کثیر نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے اسرائیل نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عثمان بن مغیرہ نے مجاہد سے اس نے عمر سے کہا اس نے فرمایا رسول خدا نے دیکھا میں نے عیسیٰ ۔ موسیٰ اور ابراہیم کو۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تو سرخ رنگ گھونگریالے بالوں والے اور چوڑے سینہ والے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) بدن کے بربہ اور سر کے بال چھوٹے ہوئے تھے۔ گویا کہ وہ قوم زط میں سے ہیں۔
حدثناعبدان قال حدثنا عبداللہ قال اخبر سنا یونس وحدثنا احمد بن صالح قال حدثنا عنبسۃ قال حدثنا یونس عن ابن شہاب قال ابن المسیب قال ابوھریرۃ اتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسری بہ یا یلیاء بقد حین من خمر ولبن نظر الیہما فاخذ اللبن قال جبرائیل الحمد للہ الذی ھداک للفطرۃ لواخذت الخمر غوث امتک۔ (صحیح بخاری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے عبدان نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ نے کہا اس نے خبر دی ہم کو یونس نے اور حدیث بیان کی ہم سے احمد بن صالح نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عنبسہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے یونس نے ابن شہاب سے کہا ابن مسیب نے کہا ابوہریرہ نے کہ جس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس گئے۔ دو پیالہ دودھ اور شراب کے پیش کئے گئے ۔ رسول اللہ نے ان کی طرف دیکھا اور دودھ کو لے لیا جبرائیل نے کہا خدا کی تعریف ہے جس نے آپ کو فطرۃ پر ہدایت کی۔ اگر شراب لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
حدثنا احمدبن صالح قال حدثنا ابن وھب قال الخبرنی یونس عن ابن شہاب قال ابوسلمۃ سمعت جابر بن عبداللہ قال سمعت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لاکذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطفقت اخبرھم عن ایاتہ وانا انظر الیہ۔ (صحیح بخاری بعض دھلی ھجری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے احمد بن صالح نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ابن وہب نے کہا اس نے خبر دی مجھ کو یونس نے ابن شہاب سے کہا ابوسلمہ نے سنا میں نے جابر بن عبداللہ سے کہا اس نے سنا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ فرماتے تھے جب مجھ کو قریش نے جھٹلایا۔ میں حجر میں کھڑا ہوا اور خدا نے بیت المقدس کو میری نظر کے سامنے کردیا۔ میں اس کی نشانیاں ان کو بتاتا تھا اور اس کی طرف دیکھتا تھا۔
حدثنایحییٰ بن بکیر قال حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شہاب حدثنی ابو سلمۃ بن عبدالرحمن سمعت جابر بن عبداللہ انہ سمع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطفقت اخبرھم عن ایاتہ واناانظر الیہ۔ (صحیح بخاری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے یحییٰ بن بکیر نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے لیث نے عقیل سے اس نے ابن شہاب سے کہا اس نے حدیث بیان کی مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہا اس نے سنا میں نے جابر بن عبداللہ سے سنا اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ فرماتے تھے جب مجھ کو قریش نے جھٹلایا میں حجر میں کھڑا ہوا۔ خدا نے بیت المقدس کو میری نظروں میں جلوہ گر کردیا۔ میں اس کی نشانیاں ان کو بتاتا تھا اور اس کو دیکھتا جاتا تھا۔
وقال عبدان اخبر عبداللہ قال اخبر نایونس عن الزھری قال انس بن مالک کان ابو خمر یحدث ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال فوج سقفی وانا بمکۃ فنزل جبرائیل نفرج صدری ثمغسلہ بماء زمزم ثم جاء بطست من ذھب ممتلئی حکمۃ وایمانا فامنھما فی صدری ثم اطبقہ ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء الدنیا فقال جبرائیل لحازن السماء الدنیا افتح قال من ھذا قال جبرئیل۔ (صفحہ صحیح بخاری)
کہا عبدان نے خبر دی ہم کو عبداللہ نے کہا اس نے خبر دی ہم کو یونس نے زہری سے کہا انس بن مالک نے کہ ابوذر حدیث بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا
کہ میرے گھر کی چھت شق ہوئی اور میں اس وقت مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل نازل ہوا اور اس نے میرے سینہ کو چاک کیا پھر آب زمزم سے اس کو دھویا پھر سونے لگن حکمت و ایمان سے بھرا ہوا لایا۔ اور اس کو میرے سینہ میں ڈال کر سینہ کو برابر کردیا ۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان اول پر چڑھا لے گیا۔ جبرائیل نے آسمان کے محافظ سے کہا کھول کہا کون ہے کہ جبرئیل۔
حدثنااسمعیل حدثنی اخی عن سلیمان عن شریک بن عبداللہ بن ابی غرقال سمعت انس بن مانک یحدثنا عن للیلۃ اسری بالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من مسجد الکعبۃ جاء ہ ثلاثۃ نفرقبل ان یوحی الیہ وھو نائم فی المسجد احرام فقال اولھم ایھم ھو فقال اوسطھم ھو خیر ھم وقا لاخرھم خذواخیر ھم فکانت تلک فلمیں قسم حتی جاؤ الیلۃ اخری فیما یری قلبہ والنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نائمۃ عیناہ ولا ینام قلبہ وکذلک الانبیاء تنام اعینھم ولا تنام قلوبھم فتولا ہ جبرائیل ثم عرج بہ الی السماء۔ (صحیحہ بخاری صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے اسماعیل نے کہا اس نے حدیث بیان کی مجھ سے میرے بھائی نے سلیمان سے اس نے شریک بن عبداللہ بن ابونمر سے کہا اس نے سنا میں نے انس بن مالک بیان کرتے تھے ہم سے اس رات کا جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد کعبہ سے معراج ہوئی ۔ کہ وحی آنے سے پہلے تین شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور روہ مسجد حرام میں سوتے تھے۔ ان میں سے پہلے نے کہا کہ وہ ان میں سے کون ہے۔ درمیانی شخص نے کہا کہ وہ ان سب میں سے بہتر ہے۔ اخیر شخص نے کہا کہ ان میں سے بہتر کو لے چلو پھر وہ رات تو گزر گئی۔ اور ان کو کسی نے دیکھا یہاں تک کہ وہ ایک اور شب کو آنحضرت کے پاس ایسی حالت میں آئے کہ آپ کا دل دیکھتا تھا اور حضرت کی آنکھیں سوتی اور دل جاگتا تھا۔ اسی طرح پیغمبروں کی آنکھیں سوتی اور دل جاگتا ہے پھر جبرائیل نے ان کا کام اپنے ذمہ لیا۔ پھر ان کو آسمان پر چڑھالے گیا۔
احادیث مسلم
حدثنا شیبان بن فروخ قال حدثنا حماد بن سلمۃ قال حدثنا ثابت بعننو عن انس بن سالک ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال تیت بالبراق وھودابۃ بیت۔ طویل فوق الحمارو دون البغل یضع حائرۃ عندمفتہی مفرفہ قال نرکبتہ حتی اتیت بیت المقدس قال فربطنہ بالحلقۃ للقی یربطہ بھا لا نبیاء قال ھم دخلت المسجد فصلیت فیہ رکعتیں ثم خرجت فجلس جبرائیل ابناء من خمر واناء من لبن فاخترت الذین فقال جبرائیل (علیہ السلام) اخترت الفطرۃ ثم عرج بنا لی السماء فاستنفتح جبرائیل فقل من انت قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بعث الیہ قال قد بعث الیہ نفتح لنا فاذاتابادم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی حب بی ودعابی بخیر ثم عرج بنا الی السماء
حدیث بیان کی ہم سے شیبان بن فروخ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے حماد بن سلمہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ثابت بنانی نے انس بن مالک سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ براق لایا گیا اور وہ ایک سفید رنگ کا جانور تھا گدھی سے بڑا خچر سے چھوٹا اپنی نظر کی انتہا پر قدم رکھتا تھا۔ میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا۔ اور براق کو حلقہ سے باندھ دیا جس سے اور نبی باندھتے تھے۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر مسجد سے نکلا۔ جبرائیل ایک پیالہ شراب کا اور ایک دودھ کا لایا۔
الثانیۃ فاستفتح جبرائیل (علیہ السلام) فقیل من انت قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بعثالیہ قال قد بعث الیہ ففتح لناقاذا انا بابنی الخالۃ عیسیٰ بن مریم و یحییٰ بن ذکر یا صلی اللہ علیہما وسلم فرحیا بی ودعوالی بخیر ثم عرج بنا الی السماء ما لثائثۃ فاستفتح جبرائیل فقیل من انت قال جبرائیل قیل و معک قال محمد قیل وفد بعث الیہ قال قد بعث الیہ نفتح لنا فاذا انا بیوسف (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واذا ھوتد اعطی شطرالحسن قال فوجت لے ودعالی بخیر ثم عرج بنا الی السماء الرابعۃ فاستفتح جبرائیل (علیہ السلام) قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بعث الیہ قال قد بعث الیہ ففتح لت فاذا انا بادریس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرحب بی و عالی بیخر قال اللہ عزوجل ورفعناہ مکانا علیہ ثم عرج بنا الی السماء الخامسۃ فاستفتح جبرائیل فقیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بعث الیہ قال تدبعث الیہ ففتح لنا فاذا انا بھارون (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوحب بی ود عالی الخیر ثم عرج بناالی السماء السادسۃ فاستفتح جبرائیل قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بعث الیہ قال قدبعث الیہ ففتح لتا فاذا اناموسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ففرحب بی ودعانی بخیر ثم عرج بنا الی السماء السابعۃ فاستفتح جبرائیل قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد قیل وقد بث الیہ قال قدبعث لیہ ففتح لنا فاذا انا ابراھیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسند ہ ظھرہ الی انبیت المعمور واذال ھرید خلہ کل یوم سبعوت اغاملک لا یعودن الیہ ثم ذھب بی الی الشدۃ المنتہیٰ فاذا اور تھا کا ذان الغیلۃ واذا ثمر ھب کا لئلافی قال فلما غثیب من امن اللہ ما غشی تفیرت فما احد من خلق ادلا یستطیع ان ینع تھا من حسنہا فاوحی الی ما اوحی نفرض علی خمسین ھلوۃ فی کل یوم والیلۃ فنزلت فی موسیٰ (علیہ السلام) فقال بافرض
میں نے دودھ کو پسند کیا ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھر مجھ کو آسمان پر لے گیا جبرائیل نے آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا کیا طلب کئے گئے ہیں کہا ہاں طلب کئے گئے ہیں پھر ہمارے لیے دروازہ کھل گیا۔ ناگاہ مجھ کو آدم نظر پڑے۔ آدم نے مجھ کو مرحبا کہہ کر میرے لیے نیک دعا کی پھر جبرائیل ہم کو دوسرے آسمان پر لے گیا اور دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا کیا طلب کئے گئے ہیں کہا ہاں طلب کئے گئے ہیں پھر ہمارے لیے دروازہ کھل گیا اور میں نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان کو حسن کا ایک حصہ عطا ہوا تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے مرحبا کہہ کر میرے لیے نیک دعا کی۔ پھر جبرائیل ہم کو چوتھے آسمان پر لے گیا بک علی امتک قلت خمسین صلوۃ قال ارجع الی ربک فلما لہ التخفیف فان امتک لا یطیتون ذلک فانی قد بلوت بنی اسرائیل او خبر تہم قال فرجعت الی رب فقلت یارب خفف علی امتی فحہ عنی خمسا فرجعت الیٰ موسیٰ فقلت حطعنی خمسا قال ان اعتک و لا یطبقون ذلک فاجع الی ربک نسلہ التخفیف قال فلم ازل ارجع بین بی تبارک وتعی وبین موسیٰ (علیہ السلام) حتی قال یا محمد ھن حمس صلوٰۃ کل یوم ولیلۃ لکل صلوۃ عشر فذلک محمسون صلوۃ ومنھم بحسنۃ فلم یعملھا کتبت حسنۃ فان علھا کتبت لہ عشرا ومنھم نبی ئۃ فلم یعلھا لم تکتب شیئا فان عملھا کتبت سیئۃ واحدۃ قال فنزلت حتی انتھیت الی موسیٰ (علیہ السلام) فاخبر تہ فقال ارجع الی ربک نسلہ لتخفیف فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقلت تندرجعت الی ربی حتی استحییت منہ۔ (صحیح مسلم جلداول صفحہ)
اور دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں بلائیگئے ہیں دروازہ کھل گیا۔ اور میں نے ادریس (علیہ السلام) کو دیکھا۔ ادریس نے بھی مرحبا کہہ کر میرے لیے نیک دعا کی ۔ خدا نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو اونچی جگہ اٹھا لیا۔ پھر جبرائیل رسم کو پانچویں آسمان پر لے گیا اور دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا کیا بلائے گئے ہیں کہا ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لیے دروازہ کھل گیا۔ اور میں نے ہارون کو دیکھا۔ ہارون نے بھی میرے لیے مرحبا کہا کر نیک دعا کی پھر جبرائیل ہم کو چھٹے آسمان پر لے گیا اور دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا کیا بلائے گئے ہوں کہا ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لیے دروازہ کھل گیا۔ اور میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا موسیٰ نے بھی مرحبا کہہ کر میرے لیے نیک دعا کی پھر جبرائیل ہم کو ساتویں آسمان لے گیا اور دروازہ کھلوانا چاہا کہا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا کیا بلائے گئے ہوں کہا ہاں بلائے گئے ہیں پھر ہمارے لیے دروازہ کھل گیا او میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا بیت المعمور کی طرف پشت کا سہارا لیے بیٹھے ہیں اور بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور پھر دوبارہ نہیں آتے پھر جبرائیل مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے گیا اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر اور پھل مٹکوں کے برابر تھے۔ جب حکم الٰہی سے اس پر جو چھانا تھا چھا گیا تو اس کی حلت بدل گئی پھر کسی انسان کی طاقت نہیں ہے کہ اس کے حسن کی تعریف کرسکے پھر خدا نے مجھ پر جو وحی بھیجنی تھی بھیجی۔ اور مجھ پر پچاس نمازیں ہر روز فرض کیں پھر میں نیچے اتر کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا میں نے کہا پچاس نمازیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خدا کے پاس پھر جائیے اور کمی کی درخواست کیجئے آپ کی امت میں اس فرض کے ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے میں بنی اسرائیل کو خوب آزما چکا ہوں میں دوبارہ خدا کے پاس گیا اور کہا اے خدا میری امت کے لیے تخفیف کر خدا نے پانچ نمازیں کم کردیں پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ خدا نے پانچ کم کردیں۔ کہا آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی خدا کے پاس پھر جائیے اور کمی کی درخواست کیجئے رسول اللہ فرماتے ہیں کہ میں بار بار خدا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان آتا جاتا تھا یہاں تک کہ خدا نے فرمایا کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات دن میں پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز پر دس کا ثواب اس طرح پر پچاس نمازیں ہوئیں۔ اور جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس کو عمل میں نہ لائے میں اس کی ایک نیکی لکھونگا اور جو عمل میں لائے اس کی دس نیکیاں لکھونگا۔ اور جو بدی کا ارادہ کرے اور اس کو عمل میں نہ لائے اس کی بدی نہیں لکھی جائے گی اور اگر عمل میں لائے تو صرف ایک بدی لکھونگا۔ پھر میں نیچے اتر کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ اور ان کو خبر دی کہا خدا کے پاس پھر جائیے اور اس میں کمی کی درخواست کیجئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں خدا کے پاس اتنی دفعہ جاچکا ہوں کہ اب مجھے اس سے شرم آتی ہے۔
حدثناھارون بن سعید الایلی قال حدثنا ابن وھب قال ابخرنی سلیمان وھو ابن بلال قال حدثنی شریک بن عبداللہ بن ابی غرقان سمعت انس بن مالک یحدثنا عن لیلۃ سری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من مسجد الکعبۃ انہ جاء ثلاثۃ نفرقبل ان یوحی الیہ وھو نائم فی المسجد لحرام وساق الدیث بقصۃ محر حدیث ثابت البنانی وقدم فیہ شیئا واخروزاد ونقص۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے ہارون بن سعید ایلی نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ابن وہب نے کہا اس نے خبر دی مجھ کو سلیمان نے اور وہ بلال کے بیٹے ہیں کہا اس نے حدیث بیان کی مجھ سے شریک بن عبداللہ بن ابونمر نے کہا اس نے سنا میں نے انس بن مالک سے کہ ذکر کرتے تھے ہم سے اس رات کا جب کہ رسول خدا کو مسجد حرام سے معراد ہوئی۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی آنے سے پہلے تین شخص آئے۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام سوتے تھے راوی نے ثابت بناتی کی حدیث کی مانند تمام قصہ کو بیان کیا اور اس میں کچھ تقدیم و تاخیر کی۔ کچھ کمی اور زیادتی ۔
حدیث بیان کی ہم سے حرملہ بن یحییٰ تحصی نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے حدثنی حرملۃ بن یحییٰ التجیبی قال حدثنا ابن وھب قال اخبرنی یونس عن ابن شہاب عن انس بن مالک قال کان ابوذر یحدث ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال فرج سقف بیتی وانا بمکۃ فنزل جبرائیل (علیہ السلام) ففرج صدری ثم غسلہ من ماء زمزم ثم جلم بطست من ذھب منتلیء حکمۃ وایمانا فافرفھا فی صدری ثم اطبقہ ثم اخذ بدی فعرج بےالی السماء فلما جئنا السما مالدنیا قال جبرائیل الخازی السماء الدنیا افتح قال من ھذا قال ھذا جبرائیل قال ھل معک احد قال نعم معی محمد قال فارس الیہ قال نعم ففتح قال علما علوناالسماء والدنیا فاذا رجل عن یمینہ اسودۃ وعن یسارہ اسودۃ قال فاذا ائقر قیل عینہ منحک واذا نظر قبل شمالہ بکی قال القال مرحبا باطبئی الصلاح والا بن الصالح قال قلت یا جبرائیل من ھذا قال ھذا ادم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھذہ الاسودۃ عن عینہ وعن شمالہ نسم بنیہ فاضل لیمن الھ الجنۃ والا سودۃ التی عند شمالہ اھل النار فاذ نضرقبل یحینہ شنحک واذا نظر قبل شمالہ بکی قال ثم عرج بی جبرائیل حتی اتی السماء الشانیۃ فقال لخانھا افتح قال فقال لہ خاز نہا مثل ماقال خازن السماء الدنیا فففتح فقال انس بن مالک وزن کو انہ وجدفی السموات ادم و ادریس و عیسیٰ موسیٰ وابراھیم (علیہم السلام) ولم یثبت کیف منازلھم غیر انہ ذکرانہ قدوجد آدم (علیہ السلام) فی السماء الدنیا وابراھیم فی انماعالسدستہ قال فلما امر جبرائیل ورسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بادریس قال مرحبا بالنبی الصالح ولاخ الصالح فقلت من ھذا قال ھذا ادریس قال لمرمرات بموسیٰ (علیہ السلام) فقال مرحبا بالنبی الصالح ولاخ الصالح قلت من ھذ قال ھذا موسیٰ قال ثم مورت بعیسی فقال مرحبا لاالنبی الصالح ولاخ الصالح قلت من ھذا قال ھذا عیسیٰ بن مریم قال ثم مررت بابراھیم (علیہ السلام) فقال مرحبا بالنبی الصالح ولاخ الصالح قلت من ھذا
ابن وہب نے کہا اس نے خبر دی مجھ کو یونس نے ابن شہاب سے اس نے انس بن مالک سے کہا اس نے کہ ابوذر بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت شق ہوئی اور میں اس وقت مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل نازل ہوا اور اس نے میرے سینہ کو چیرا اور اس کو آب زمزم سے دھویا پھر سونے کا لگن لایا جو حکمت و ایمان سے بھرا ہوا تھا پھر اس کو میرے سینہ میں اونڈیل دیا اور پھر میرے سینہ کو برابر کردیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گیا جب ہم پہلے آسمان پر پہنچے جبرائیل نے محافظ سے کہا کھول پوچھا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا کہ تیرے ساتھ کوئی ہے کہا ہاں میرے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا بلائے گئے ہیں کہا ہاں پھر دروازہ کھل گیا جب ہم آسمان اول پر گئے تو ہم نے دیکھا کہ ایک شخص کی دائیں اور بائیں طرف کچھ دھندلی سی صورتیں ہیں دائیں طرف دیکھ کر ہنستا ہے اور بائیں طرف دیکھ کر روتا ہے اس نے کہا اے نبی صالح اور فرزند صالح میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہے کہا یہ آدم ہیں اور صورتیں جو ان کے دائیں اور بائیں طرف ہیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ اور دائیں طرف والی جنتی اور بائیں طرف والی دوزخی ہیں۔ اس لیے دائیں طرف دیکھ کر ہنستے اور بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھ کو قال ھذا ابراھیم۔ قال بن شہاب واخبرنی ابن حزم ان ابن عباس واباحیۃ الا نصاری یقولان قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثم عرج بی حتی طہرت لستوی اسمع فیہ صریف الاقلام۔ قال ابن حزم وانس بن مالک قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفرض اللہ علی امی خمسین صلوۃ قال فوجعت بذلک حتی امر بموسی (علیہ السلام) ثقال موسیٰ ماذا فرض ربک علی امتک قلت فرض علیھم خمسین صلوۃ قال لی موسیٰ فراجع ربک فان امتک ولا لطیق ذلک قال فراجت ربی قوضع شعرھا قال فرجعت الی موسیٰ (علیہ السلام) فاخترتاہ قال رجع ربک ٹرن امتک لا تطیق ذلک قال فراجعت ربی فقارھی خمس وھی خمسون لا یبدل انقول لدی قال نرجعتہ لی موسیٰ فقال راجع ربک فقلت تدا استحییت من ربی قال ثم انطلق بی جبرائیل حتی ناقی سدرۃ المنتہیٰ فغشیبہ الوان لا ادری ماھی قال ثم دخلت الجنۃ فاذا فیھا جنا بذ الولو واذ ترابھا المسک (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
دوسرے آسمان پر لے گیا۔ اور محافظ سے کہا کھول اس محافظ نے بھی وہی کہا جو آسمان اول کے محافظ نے کہا تھا پھر دروازہ کھل گیا۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ ابوذر نے یہ تو بیان کیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمانوں میں آدم۔ ادریس عیسیٰ ۔ موسیٰ اور ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا مگر ان کے مقامات کی تعیین نہیں کی۔ سوائے اس کے کہ آدم کو پہلے آسمان پر اور ابراہیم کو چھٹے آسمان پر پایا۔ راوی کہتا ہے کہ جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جبرائیل ادریس کے پاس پہنچے ۔ ادریس نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح میں نے پوچھا یہ کون ہے کہا یہ ادریس ہیں۔ پھر میں موسیٰ کے پاس پہنچا۔ موسیٰ نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح میں نے پوچھا یہ کون ہے کہا یہ موسیٰ ہیں پھر میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور برادر صالح میں نے پوچھا یہ کون ہے کہا یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ہیں۔ پھر میں ابراہیم کے پاس پہنچا ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مرحبا اے نبی صالح اور فرزند صالح میں نے پوچھا یہ کون ہے کہا یہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں کہا ابن شہاب نے اور خبر دی مجھ کو ابن حزم نے کہ ابن عباس اور ابوجتہ الانصاری کہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر جبرائیل مجھ کو ایسی جگہ لے گیا جہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سنتا تھا ۔ کہا ابن حزم اور انس بن مالک نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خدا نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ پھر میں الٹا پھرا اور موسیٰ کے پاس آیا۔ موسیٰ نے پوچھا کہ خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا میں نے کہا ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں موسیٰ نے مجھ سے کہا پھر خدا سے کہئے کیونکہ آپ کی امت ہرگز اس کا تحمل نہیں کرسکے گی میں نے پھر کہا خدا نے ایک حصہ اس میں سے معاف کردیا۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا اور ان کو خبر دی کہا خدا سے پھر کہئے آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی ۔ میں نے پھر کہا۔ خدا نے فرمایا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں اور یہی پچاس کے برابر ہیں میرا قول نہیں بدلتا ۔ میں پھر موسیٰ کے پاس آیا کہا خدا سے پھر کہے میں نے کہا مجھ کو خدا سے شرم آتی ہے پھر جبرائیل مجھ کو لے چلا تاکہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جائیں۔ سدرہ پر کچھ رنگ چھائے ہوئے تھے جن کی حقیقت میں نہیں جانتا۔ پھر میں جنت میں گیا اس میں موتی کے قبے تھے اور اس کی مٹی مشک تھی۔
حدثنامحمد بن المثنی قال حدثنا محمد بن ابی عدی عن سعید عن قتادہ عن انس بن مالک لعلہ قال عن مالک بن صعصعہ رجل من قومہ قال قال بنی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بینا انا عند انبیت بین اشائم و الیقظ ان اذ سمعت قائلا یقول احد الثلاثۃ بین الرجلیں قاتیت فانطلق بی فانیت بطست من ذھب فیھا من ماء زمزم فشرح صدری الی کذا ولکذماقال قتادہ فظت للذی معی ما یعنی قال الی اسفل بطنہ فاستخرج قلبی فغل یماء زھن مرثم اعید مکانا نحم حشی یمانا و حکمت ثم اقیت بدابۃ ابیض یقین الرابراق فوق الحمادودون البغل یفع خطرہ عندا قصی طرفہ فحملت علیہ ثم انطلقنا منی اتینا السماء الدنیا فاستفتح جبرائیل (علیہ السلام) فقیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیل وقد بعث الیہ قال نعم قال نفتح لنا وقال مرحبا ولنعم ایلحیء جاء مذاواتینا علی اٰدم (علیہ السلام) وساق الحدیث فنصۃ وذکرانہ لقی فی السماء الثانیۃ عیسیٰ وحی (علیہما السلام) وفی الثالثۃ یوسف (علیہ السلام) وفی لوابعۃ ادریس (علیہ السلام) وفی الخامسۃ قارون (علیہ السلام) قال ثم انصقاحتی انتھینا الی السماء السادسۃ فانیت علی موسیٰ (علیہ السلام) فسمت علیہ فقان مرحبا بالا، الصالح والنبی صالح قلما وزتہ بکی فنودی ما یکیک قال رب ھذا غلام یعشتہ بعدی یدخل من امتہ الجنۃ اکثر مما یدخل من متی قال ثم انطلقنا حتی انھینا الی السماء الساعۃ فاتیت علی ابراھیم (علیہ السلام) وقان نے الحدیث وحدث نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
حدیث بیان کی آم سے محمد بن مثنے نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے محمد بن ابوعدی نے سعید سے اس نے قتادہ سے اس نے انس بن مالک سے شاید راوی نے کہا اس نے مالک بن صعصعہ سے جو اسی کی قوم کا ایک شخص ہے کہا اس نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں کعبہ کے قریب کچھ ہوتا کچھ جاگتا تھا کہ میں نے سنا کوئی کہتا ہے تین میں کا جودو کے درمیان ہے پھر میرے پاس آیا اور مجھے لے چلا پھر سونے کا لگن جس میں آب زمزم بھرا تھا لایا گیا اور میرا سینہ یہاں سے یہاں تک کھولا گیا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا اس سے کیا مراد ہے کہا شکم کے زیرین حصہ تک پھر میرا دل نکالا آب زمزم سے دھویا گیا اور اسی جگہ رکھ دیا گیا پھر ایمان اور حکمت سے بھردیا گیا پھر ایک سفید رنگ کا جانور لایا گیا جس کو براق کہتے ہیں گدھے سے بڑا خچر سے چھوٹا انتہائے نتہ تک قدم مارتا تھا۔ میں اس پر سوار کیا گیا پھر ہم چلے اور آسمان دنیا پر پہنچے۔ جبرائیل نے دروازہ کھلوانا چاہا اس سے پوچھا گیا کہ کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا کیا بلائے انہ رای اربعۃ انھا ویخرج من اصلھا لحران ظاھران ونھران باطنان فقلت یا جبرائیل ماھذہ الانھار قال مالنھر ان الباطنا فنھران فی الجنۃ واما الظاھران نالفیل والفرات ثم رفع لی البیت المعمور فقلت یا جبرائیل ما ھنا تان ھذا البیت المعمور یدخلدکل یوم سبعون الف ملک اذاخرجوامنہ لم یعود والیہ اخرما علیھم ثم اتیت بانائین اعندھما خروا لا خرلبن فعرھنا علی فاختر اللبن فقیل اھبت اصاب اللہ بک امتک علی الفطرۃ ثم فرضت علی کل یوم خمسون صلوۃ ثم ذکر قص تھا الی اخر الحدیث ۔ (حصیح مسلم جلد اول صفحہ )
گئے ہیں۔ کہاں ہاں پھر ہمارے لیے دروازہ کھل گیا اور کہا مرحبا کیا خواب آتا ہوا۔ پھر ہم آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے پھر راوی نے تمام قصہ بیان کیا اور یہ ذکر کیا کہ دوسرے آسمان پر عیسیٰ اور یحییٰ (علیہم السلام) سے اور تیسرے آسمان پر یوسف (علیہ السلام) سے اور پانچویں پر ہارون (علیہ السلام) سے ملے پھر فرمایا کہ ہم چلے اور چھٹے آسمان پر پہنچے ۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) سے ملا اور ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے برادر صالح اور بنی صالح جب میں آگے بڑھا تو موسیٰ (علیہ السلام) روئے آواز آئی کہ کیوں روتے ہو کہا اے خدا یہ لڑکا جس کو تونے میرے بعد نبوت دی ہے۔ اس کی امت کے لوگ میری امت والوں سے زیادہ جنت میں جائینگے۔ پھر ہم چلے اور ساتویں آسمان پر پہنچے اور میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا ۔ پھر راوی نے حدیث میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذکر کیا کہ چار نہریں دیکھیں جو اس کی جڑ سے نکلتی ہیں دو نہریں ظاہر اور دو پوشیدہ میں نے جبرائیل سے پوچھا کہ کیا نہریں ہیں۔ کہا پوشیدہ نہریں تو جنت میں جاتی ہیں اور دو ظاہر نیل اور فرات ہیں۔ پھر بیت المعمور مجھ سے نزدیک ہوا میں نے پوچھا کہ اے جبرائیل یہ کیا ہے کہا یہ بیت المعمور ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے آتے ہیں اور جب جاتے ہیں تو دوبارہ کبھی نہیں آتے پھر دو پیالہ پیش کئے گئے ایک شراب کا اور ایک دودھ کا میں نے دودھ کو پسند کیا مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرۃ کو حاصل کیا خدا آپ کی امت کو بھی یہی نصیب کرے۔ پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض ہوئیں پھر راوی نے تمام قصہ آخر حدیث تک بیان کیا۔
حدثنامحمد بن المثنے قال حدثنا معاذ بن ہشام قال حدثنی ابی عن قتادہ قال حدثنا انس بن مالک عن مالک بن صعصعہ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال فذکر یخوہ وزادنیہ قاتیت بصت من ذھب ممتلی حکمۃ وابما نا نشق من النحرالی من ق بطن نفسل بماء زمزم ثم منئی حکمۃ وایمانا۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 2

تفسیر سرسید : ۳
حدیث بیان کی ہم سے محمد بن مثنے نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے معاد بن ہشام نے کہا اس نے حدیث بیان مجھ سے میرے باپ نے قتادہ سے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے انس بن مالک نے مالک بن صعصعہ سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر راوی نے اسی کی مانند بیان کیا اور زیادہ کیا اس میں یہ بیان کہ سونے کا لگن حکمت و ایمان سے بھرا ہوا لایا گیا ۔ پھر گلے سے پیٹ کی نرم جگہ تک چیرا گیا پھر آب زمزم سے دھویا گیا پھر ایک حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا۔
حدثنی محمد بن المثنے وابن بشار قال ابن المثنے حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا شعبۃ عن قتادہ سمعت ابالعالیۃ یقول حدثنی ابن عم نبی ئکم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی ابن عباس قال ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حین اسرے بہ فقال موسیٰ دم طوال کانہ من رجال سنوء ۃ وقال عی نبی جعد مریوع وذکر ما لکا خازن جھنم وذکر الدجال۔ (صحیح مسلم جلد اول صفح )
حدیث کی مجھ سے محمد بن مثنے اور ابن بشار نے کہا ابن مثنے نے حدیث بیان کی ہم سے محمد بن جعفر نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے شعبہ نے قتادہ سے کہا اس نے سنا میں نے ابوالعالیہ سے کہتے ہیں وہ کہ حدیث بیان کی مجھ سے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کے بیٹے یعنی ابن عباس نے کہا انھوں نے ذکر کیا رسول اللہ نے وقت معراج کا اور کہا موسیٰ (علیہ السلام) لمبے قد کے ہیں گویا کہ وہ قبیلہ شنوٰۃ میں سے ہیں اور کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) گھونگریالے بال والے اور میانہ قد کے ہیں۔ اور دوزخ کے محافظ مالک اور دجال کا بھی ذکر کیا (مگر واضح ہو کہ دجال کے قصہ کی اس حدیث میں کچھ تفصیل نہیں ہے) ۔
حدثنا عبد بن حمیدقال حدثنا یونس بن محمد قال حدثنا شیبان بن عبدالرحمن عن قتادہ عن ابی العالیۃ قال حدثنا ابن عم نبی ئکم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن عباس قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مورت لیلۃ اسری بی علی موسیٰ بن عمران رجل دم طوال جعد کانہ من رجال سنوء ۃ ورایت عیسیٰ بن مریم مربوع الخلق الی الحمرۃ والبیاض سبط الراس واری کا خازن النار والدجال فی ایات اراھن اللہ ایا فلا تکن فی مریۃ من لقاہ قال کان قتادہ یفسرھا ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قد لقی موسیٰ (علیہ السلام) ۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے عبد بن حمید نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے یونس بن محمد نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے قتادہ سے اس نے ابوالعالیہ سے کہا اس نے حدیث بیان ہم ہم سے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا کے بیٹے ابن عباس نے کہا انھوں نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں معراج کی رات موسیٰ بن عمران کے پاس پہنچا۔ وہ دراز قامت گھونگریالے بالوں والے ہیں گویا کہ وہ قبیلہ شنوء ہ میں سے ہیں اور میں نے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو میانہ بدن مائل بسرخی و سپیدی لمبے بالوں والا دیکھا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوزخ کے مالک اور دجال کو بھی دیکھا ان نشانیوں میں جو خدا نے دکھائیں ۔ تم اس کے دیکھنے میں کچھ شک نہ لاؤ۔ قتادہ اس کی تفسیر میں کہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا۔
حدثنا محمد بن رمح قال حدثنا اللیث عن ابی الزبیر عن جابر ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال عرض علی الانبیاء فاذا موسیٰ ضرب من الرجال کانہ من رجال شنؤۃ وریت عیسیٰ بن مریم ذا اقرب من رایت بہ شبیہ عردۃ بن مسعود روایت بن ھیم فاذا اقرب من رایتہ بہ شبھا صاحبکم یعنی نفسہ ورایت جبرائیل (علیہ السلام) فاذا اقریب من رایت بہ شبھاد حیۃ وفی روایۃ ابن رمح دجبۃ بن خلیفۃ۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے محمد بن رمح نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے لیث نے ابوزبیر سے اس نے جابر سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انبیاء میرے سامنے لائے گئے۔ میں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بدن کے دبلے ہیں گویا کہ وہ قبیلہ شنوء ہ میں سے ہیں اور میں نے مریم کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ ان میں سے جن کو میں نے دیکھا عروہ بن مسعود سے مشابہ ہیں اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ ان میں سے ہیں جن کو میں نے دیکھا تمہارے آقا سے ملتے جلتے ہیں۔ اور اس سے خود اپنی ذات مراد لی۔ اور میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ ان میں سے جن کو میں نے دیکھا دحیہ کے مشابہ ہیں اور ابن رمح کی روایت میں ہے دحیہ بن خلیفہ۔
حدثنی محمد بن رافع وعبد بن حمید بافی اللفظ قال ابن رافع حدثنا وقال عبدحدثنا عبدالرزاق قال حدثنا معمر عن الزھری قال خبرنی سعید بن المسیب عن ابوہریرہ قال قال النبو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمیع اسریٰ بی لقیت موسیٰ (علیہ السلام) فنعمۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاذا رجل حسبنہ قال مضطرب رجال الراس کا ندمن رجال شنوء ہ قال ولقیت عینی نعمتۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فافاربعۃ احمر کا منا خرج من دیم اس یعنی حرما روایات ابراھیم (علیہ السلام) مروانا اشبہ ولدہ بہ قال فاتیت باتانین فی احمد مانبن وفی احد ھمانبن وفی الاخر خمر فقیل لی خظ یہما شئت فاخذت اللبن شربۃ فقال ھدبت الفطرۃ اواصبت الفطرۃ اما انک لراخذت خمر غوت امتک۔ (صحیح مسلم جلد صفحہ )
حدیث بیان کی مجھ سے محمد بن رافع اور عبد بن حمید نے اور دونوں کے لفظ قریب قریب ہیں کہا ابن رافع نے کہ حدیث بیان کی ہم سے اور کہا بعد نے حدیث بیان کی ہم سے عبدالرزاق نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے معمر نے زہری سے کہا اس نے خبر دی مجھ کو سعید بن مسیب نے ابوہریرہ سے کہا انھوں نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا حلیہ بیان کیا کہ وہ ” میں خیال کرتا ہوں کہ آپ نے فرمایا “ بدن سے دبلے ہیں اور بال چھوٹے ہوئے گویا کہ وہ قبیلہ شنوء ہ میں سے ہیں اور فرمایا میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا حلیہ بیان کیا کہ وہ میانہ قد سرخ رنگ میں گویا ابھی حمام سے نہا کر نکلے ہیں اور فرمایا کہ میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا اور میں ان کا ہمشکل فرزند ہوں پھر فرمایا کہ میرے آگے دو پیالے پیش کئے گئے ایک میں دودھ اور ایک میں شراب تھی اور مجھ سے کہا گیا کہ ان میں سے جس کو چاہیے لیجئے میں نے دودھ کو لے کر پی لیا کہا کہ آپ فطرت پر ہدایت کئے گئے یا آپ نے فطرت کو پسند کیا اگر آپ شراب کو لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی (لبن جو ایک قدرتی چیز ہے اس سے مراد فطرت لی ہے اور خمر جو مصنوعی چیز ہے دنیا کی اس سے غوایت مراد لی ہے) ۔
حدثنا ابوبکر بن شیبۃ قال حدثنا ابواسامۃ قال حدثنا مالک بن مغول وحد ثنا ابن نمر و زھیر بن حرب جمیعا عن عبداللہ بن نمیر والفاظھم متقاربۃ قال این نمیر ابی قال حدثنا مالک بن مغول عن الزبیر بن عدی عن طلحہ بن مصرف عن مرۃ عن عبداللہ قال نما اسرے برسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہیٰ بہ الی سدرۃ المنتہیٰ وھی لی الما مالسادسۃ الیھا منتہیٰ ما یعرج بہ من الارض فیقبض منھا والیہا منتہیٰ ما یھبط بہ من فوقہا نیقبض منھا قال اذا یغشی السدرۃ ما یغشی قال فراش من ذھب قال فاعطی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثلاثا اعلی الصلوۃ الخمس واعطی خراتم سورة البقرہ و غضقیلی لما یشرک باللہ من امۃ شیئا المخمات۔ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے ابوبکر بن شیبہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ابواسامہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے مالک بن مغول نے اور حدیث بیان کی ہم سے ابن نمیر اور زبیر بن حرب دونوں نے عبداللہ بن نمیر سے اور ان کے الفاظ ملتے جلتے ہیں کہا ابن نمیر نے حدیث بیان کی میرے باپ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے مالک بن مغول نے زبیر بن عدی سے اس نے طلحہ بن مصرف سے اس نے مرہ سے اس نے عبداللہ سے کہا انھوں نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج ہوئی سدرۃ المنتہیٰ تک گئے اور وہ چھٹے آسمان میں ہیں جو چیز زمین سے اوپر جاتی ہے یہیں تک جاکر رک جاتی ہے۔ اور جو چیز اس کے اوپر سے آتی ہے وہ بھی یہیں آکر رک جاتی ہے۔ خدا فرماتا ہے جب چھا جائے سدرہ پر جو چھا جائے۔ راوی کہتا ہے کہ اس سے مراد سونے کے پروانے ہیں۔ پھر کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین چیزیں عطا ہوئیں۔ پانچ نمازیں اور سورة بقر کی اخیر آیتیں اور ان کی امت میں سے جس نے خدا کے ساتھ شرک نہیں کیا اس کے گناہ کبیرہ معاف کردیئے۔
حدثنااقیتبۃ بن سعید و احدثنا لیث عن عقیل عن الزھری عن بی سلمۃ بن عبدالرحمن عن جابر بن عبداللہ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ما کذبتنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغقت اخبرھم عن ایاتہ وانا انظرالیہ (صحیح مسلم جلد اول صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے قسیبہ بن سعید نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے لیث نے عقیل سے اس نے زہری سے اس نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے اس نے جابر بن عبداللہ سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب مجھ کو قریش نے جھٹلایا میں حجر میں کھڑا ہوا خدا نے بیت المقدس کو میرے سامنے جلوہ کر کردیا میں اس کی نشانیاں ان کو بتاتا تھا اور اس کی طرف دیکھتا جاتا تھا۔
حدثنیزھیر بن حرب قال حدثنا حجین بن المثنی قال حدثنا عبدالعزیز وھو ابن ابی سلمۃ عن عبداللہ بن الفضل عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن عن ابوہریرہ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لقد رایتنی فی الحجر و قریش تمسالنی عن مسری نسا لتنی عن اشیاء من بیت المقدس لما شب تھا فکربیت کر بۃ ماکربت مثل قظ قال و رفعہ اللہ لی انظرالیہ ماب لونی عن شیء الا انبائتھم بہ وقد رایتی فی جماعۃ من الانبیاء فاذ موسیٰ (علیہ السلام) قائم یصلی فاذار رجل ضرب جعد کانہ من رجال شوء ۃ واذا عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) قائم یصلی اقرب الناس بہ شبہا عروۃ بن مسعود الثففی واذا ابراھیم (علیہ السلام) قائم یصلی اشبہ الناس صاحبکم یعنی نفسہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فحانت المصنوۃ قائتم فلما نزغت من الصلوۃ قال قائل یا محمد ھذا مالک صاحب لنا رلم علیہ فالتفت الیہ جدائی بالسلام۔ (صفحہ صحیح مسلم جلد اول)
حدیث بیان کی مجھ سے زہیر بن حرب نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے حجین بن مثنے نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبدالعزیز نے اور وہ ابوسلمہ کے بیٹے ہیں۔ عبداللہ بن فضل سے اس نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے اس نے ابوہریرہ سے کہا انھوں نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنے تئیں جو حجر میں دیکھا اور قریش مجھ سے بیت المقدس تک میرے جانے کا حال پوچھتے تھے۔ انھوں نے بیت المقدس کی ایسی باتیں مجھ سے پوچھیں جو مجھ کو یاد نہیں تھیں۔ میں اس قدر گھبرایا کہ کبھی ایسا نہیں گھبرایا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ خدا نے بیت المقدس کو مجھ سے قریب کردیا میں اس کی طرف دیکھتا تھا اور قریش مجھ سے جو پوچھتے تھے میں ان کو بتاتا تھا۔ اور میں نے انبیاء کی جماعت میں اپنے آپ کو دیکھا میں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کھڑے نماز پڑھتے ہیں اور ان کا بدن دبلا اور بال گھونگریالے تھے گویا کہ وہ قبیلہ شنوء ہ میں سے ہیں اور میں نے دیکھا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کھڑے نماز پڑھتے ہیں اور وہ سب آدمیوں میں عروہ بن مسعود ثقفی سے زیادہ مشابہ ہیں۔ اور میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا کہ کھڑے نماز پڑھتے ہیں اور وہ سب آدمیوں سے تمہارے آقا سے زیادہ مشابہ ہیں۔ اس سے حضرت نے اپنی ذات مبارک مراد لی پھر نماز کا وقت آیا اور میں نے امامت کی جب نماز سے فارغ ہوا ایک نے کہا اے محمد یہ مالک ہے دوزخ کا محافظ اس کو سلام کیجئے۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے پہلے سلام کیا۔
احادیث ترمذی
حدثنا یعقوب بن ابراھیم الدورقی حدثنا ابوقبیلہ عن الزبیر ابن جنادہ عن ابن بریدہ عن ابیہ قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لما انتھینا الی بیت المقدس قال جبرائیل باصبعہ محسرق بہ الحجروشد بہ البراق۔ (ترمذی صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے یعقوب بن ابراہیم دو رقی نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ابوتمیمہ نے زبیر بن جنادہ سے اس نے ابن بریدہ سے اس نے اپنے باپ سے کہا اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب ہم بیت المقدس پہنچے جبرائیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور اس پتھر کو شق کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
حدثنا اسحاق منصور حدثنا عبدالرزاق حدثنا معمر عن قتادہ عن انس ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالبراق لیلۃ اسرے بہ صبحما سرجا فاستصعب علیہ یقال لہ جبرائیل بامحجور تفعل مذا فار کبک۔ حطکرمہ علی اللہ منہ قال فارفض غرقا۔ (ترمذی صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے اسحاق بن منصور نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبدلرازق نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے معمر نے قتادہ سے اس نے انس سے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس معراج کی شب براق زین اور لگام سے آراستہ آیا اور اس نے حضرت کو دیکھ کر شوخی کی۔ جبرائیل نے اس سے کہا تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایسا کرتا ہے کوئی شخص جو خدا کے نزدیک ان سے زیادہ مقبول ہو تجھ پر سوار نہیں ہوا یہ سن کر براق ندامت سے پسینہ پسینہ ہوگیا۔
حدثنا محمود بن غیلان حدثنا عبدالرزاق حدثنا معمر عن الزھری قال اخبرئی سعید بن المسیب عن ابوہریرہ قال قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حین سری بی لقیت موسیٰ قال فنعتہ فاذا رجل قال حسبنہ قال مضطرب الرجل الراس کانہ من رجال شنوء ۃ قال و لقیت عیسیٰ قال ننعتہ قال ربعۃ احمر کانہ خرج من دیم اس یعنی الحام دایت ابراھیم قال وانا اشبہ وندہ بہ قال واتیت بانانین احد ھمالین والا خرفیہ خمر نقیل لی خذایھما شئت فاخذت اللین فشربتہ فقیل لی حدیث للفطرۃ واحبت الفطرۃ اما انک لواخذت الخمر نغوت امتک۔ (ترمذی صحیہ )
حدیث بیان کی ہم سے محمود بن غیلان نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبدالرزاق نے حدیث بیان کی ہم سے معمر نے زہری سے کہا اس نے خبر دی مجھ کو سعید بن مسیب نے ابوہریرہ سے کہا انھوں نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے معراج کی شب موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا پھر ان کی تعریف کی کہ وہ دی کہتا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ فرمایا بدن سے دبلے تھے اور ان کے سر کے بال چھوٹے ہوئے تھے گویا کہ وہ قبیلہ شنوء ۃ میں سے ہیں۔ اور فرمایا کہ میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا کہا راوی نے کہ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا علیہ بیان کیا اور فرمایا کہ وہ میانہ قد سرخ رنگ تھے گویا ابھی حمام سے نکلے ہیں اور میں نے ابراہیم کو دیکھا اور فرمایا کہ میں ان کا فرزند ہم شکل ہوں۔ پھر فرمایا کہ میرے سامنے دو پیالے پیش ہوئے ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب ۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ ان میں سے جس کو چاہیں لے لیں ۔ میں نے دودھ لے کر پی لیا مجھ سے کہا گیا کہ آپ فطرۃ پر ہدایت کئے گئے یا فطرت پر کامیاب ہوئے اگر شراب لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی۔
حدثناابن ابی عمر حدثنا سفیان عن مالک بن مغول عن طلحۃ بن مصرف عن مرۃ عن ابن مسعود قال لما بلغ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سدرۃ المنتہیٰ قال انتھی المیھا ما یعرج من الارض وما ینزل من نوق فاعطاہ اللہ عندھا ثلاثا لم یعطھن نبیا کان قبلہ فرضت علیہ الصلوۃ خمسادا عطی خواتیم سورة البقر دغزۃ منہ المفخات ۔ الم یشکوا باللہ شیئا قال ابن مسعود اذیغشی السدرۃ ما یغشی قال السدرۃ فی السماء بیدہ فارعد ھا وقال غیر مالک بن مغول الیھا یتتہی علم الخلق لا علم لھم بما فوق ذلک۔ (ترمذی صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے ابن ابی عمر نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے مالک بن مغول سے اس نے طلحہ بن مصرف سے اس نے مرہ سے اس نے ابن مسعود سے کہا انھوں نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ کہا راوی نے جو چیز زمین سے اوپر جاتی ہے اور جو چیزاوپر سے آتی ہے سدرہ پر رک جاتی ہے۔ خدا نے ان کو تین چیزیں عطا کیں جو ان سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیں اول پانچ نمازیں ان پر فرض ہوئیں دوم سورة بقرہ کی آخر آیتیں ان کو عظا ہوئیں سوم جس نے ان کی امت میں سے خدا کے ساتھ شرک نہیں کیا اس کے گناہ کبیرہ معاف کردیئے۔ ابن مسعود اس آیت کی تفسیر میں کہ جب چھا جائے سدرہ پر جو چھا جائے ۔ کہتے ہیں کہ سدرہ چھٹے آسمان پر ہے سفیان کہتے ہیں سونے کے پتنگے تھے جو سدرہ پر چھائے ہوئے تھے۔ اور سفیان نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اس کو بلایا اور مالک بن مغول کے سوا اور راوی کہتا ہے کہ سدرہ پر تمام دنیا کا علم منتہیٰ ہوتا ہے۔ اس سے اوپر کا کسی کو علم نہیں۔
حدثناقتیباء حدثنا اللیث عن عقیل عن الزھری عن ابی سلمۃ عن جابر بن عبداللہ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لاکذبتنی قریش ثمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطفتقت اخبرھم عن ایاتہ وانا انظر الیہ۔ (ترمذی صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے قتیبہ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے لیشہ نے عقیل سے اس نے زہری سے اس نے ابوسلمہ سے اس نے جابر بن عبداللہ سے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھ کو جھٹلایا میں حجر میں کھڑا ہوا اور خدا نے بیت المقدس کو میری نظر میں جلوہ گر کردیا میں اس کی نشانیاں ان کو بتاتا تھا اور اس کی طرف دیکھتا جاتا تھا۔
احادیث نسائی
اخبرنا یعقوب ابراھیم حدثنا یحییٰ بن سعید حدثنا ہشام الدستوائی حدثنا قتادہ عن انس بن مالک عن مالک بن صعصعہ ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال بینا انا ھذا البیت بینالنائم والیقطان اذا قبل احد الثلاثۃ بین الرجلین فاتیت بطست من ذھب سلاء ن حکمۃ وایمانا فشق من الفحوالی سراق البطن فضل القلب بماء زمزم ثم ملی حکمۃ دایہانا ثم اتیت بدابقردون الہغل وفوق الحما ثم انطلقت مع جبرائیل (علیہ السلام) فاتینا السماء الدنیا فقیل من ھذا قال جبرائیل قیل ذمن معک قال محمد قیل وقدار رسل الیہ مرجابہ نعم المجنی جاء فاتیت علی اٰدم (علیہ السلام) فسلمت علیہ قال مرحبا بک من ابن ونبی ثم اتینا الی السواء الثانیۃ قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد مثل ذلک فاتیت علی یحییٰ و عیسیٰ نسلمت علیما فقال مرحبابک من اخ ونبی ثما تینا الی السماء الثالثۃ قیل من ھذا قال جبرائیل قیل ومن معک قال محمد فمثل ذلک فاتیت علی یوسف (علیہ السلام) فلمت علیہ قال مرحبا بک من اخ ونبی ثم اتینا الی السماء الرابعۃ فمثل ذلک فاتیت علی ادریس (علیہ السلام) فسلمت علیہ قال مرحبا بک من اخ ونبی ثم اتینا الی السماء الخاسۃ فمثل ذلک فاتیت علی ہارون (علیہ السلام) فسلمت علیہ قال مرحبا بک من اخ وبنی ثم اتینا
خبر دی ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے یحییٰ بن سعید نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ہشام دستوائی نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے قتادہ نے انس بن مالک سے انھوں نے مالک بن صعصعہ سے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں کعبہ کے قریب کچھ سوتا کچھ جاگتا تھا کہ ایک فرشتہ آیا جو تین میں کا ایک اور دو کے درمیان تھا۔ پھر سونے کا لگن لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اور میرا سینہ پیٹ کی نرم جگہ تک چیرا گیا پھر میرا دل آب زمزم سے دھویا گیا اور حکمت و ایمان سے بھرا گیا پھر ایک بانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا گدھے سے بڑا تھا۔ پھر میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ چلا اور پہلے آسمان پر پہنچا۔ پوچھا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا کیا بلائے گئے ہیں۔ مرحبا کیا خوب آنا ہوا پھر میں آدم کے پاس پہنچا میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے فرزند اور نبی پھر ہم دوسرے الی السماء السادسۃ فمثل ذلک ثم اتیت علی موسیٰ (علیہ السلام) فسلمت علیہ قال مرحبا بک من اخ و بنی فلما جاوزتہ بکی قیل مایبکیک وقال یارب ھذا الغلام الذی بعثتہ یعدی یدخل من امتہ الجنۃ اکثر و افضل مما یدخل من امتی ثما تینا السماء السابعۃ فمثل خلک فاتیت علی ابراھیم (علیہ السلام) فسلمت علیہ قال مرحبا بک من ابن ونبی ثم رفع لی البیت المعمور فسالت جبرائیل فقال ھذا لبیت المعمور یصلی فیہ کل یوم سبعون الف ملک فاذا خرجوا منہ لم یعود وافیہ اخرما علیھم ثم رفعت الی سدرۃ المنتہیٰ فاذا انبقہا مثل قلال ھجرواذا ورقھا مثل اذان الفیلہ واخانی اصلھا اربعۃ انھاء نھران باطنان وانھران ظاھران فسالت جبرائیل فقال اما الباطنان ففی الجنۃ واما الظاھران فالقرات و النیل ثم فرخت علی خمسون صلوٰۃ فاتیت علی موسیٰ فقال ما صبنعت قلت فرضت علی خمسون صلوۃ قال انی اعلم بالناس منک انی عالجت بنی اسرائیل ارض المعالجۃ وان امتک لن یطیقوا ذلک فارجع الی ربک ناسالہ ان یخفف عنک فرجعت الی ربی فسالتہ ان یخفف عن فجعلھا اربعین ثم رجعت الی موسیٰ (علیہ السلام) فقال مامنعت قلت جعلھا اربعین فقال لی مثل فاللہ الا ولی فرجعت الی ربی عزوجل فجعلھا اثلثین قاتیت علی موسیٰ (علیہ السلام) فاخبر تہ فقال لی مثل مقالتہ الا ولی فرجعت الی ربی فجعلھا عشرین ثم عشرۃ ثم خمسۃ فاتیت علی موسیٰ (علیہ السلام) فقال لی مثل مقالتہ الاولی فقلت انی استحیی من ربی عزوجل لک ارجع الیہ فودی ان تدا مضیت فریضتی و خففت عن عبادی واجزی بالحسنۃ عشرامثالھا۔ (نسانئی صفحہ - )
آسمان پر پہنچے پوچھا گیا کون ہے کہ جبرائیل کہا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہاں بھی ویسی ہی باتیں ہوئیں۔ پھر میں یحییٰ اور عیسیٰ کے پاس پہنچا۔ اور میں نے ان کو سلام کیا۔ دونوں نے کہا مرحبا اے بھائی اور نبی پھر ہم تیسرے آسمان پر پہنچے ۔ پوچھا گیا کون ہے کہا جبرائیل پوچھا تیرے ساتھ کون ہے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور یہاں بھی ویسے ہی باتیں ہوئیں پھر میں یوسف کے پاس پہنچا۔ میں نے ان کو سلام کیا۔ کہا مرحبا اے بھائی اور نبی پھر ہم چوتھے آسمان پر پہنچے اور وہاں بھی ویسی ہی باتیں ہوئیں۔ پھر میں ادریس کے پاس پہنچا میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے بھائی اور نبی۔ پھر ہم پانچویں آسمان پر پہنچے وہاں بھی ویسی ہی باتیں ہوئیں پھر میں ہارون کے پاس پہنچا۔ میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے بھائی اور نبی پھر ہم چھٹے آسمان پر پہنچے اور ویسی ہی باتیں ہوئیں۔ پھر میں موسیٰ کے پاس پہنچا۔ میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے بھائی اور نبی جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو موسیٰ روئے پوچھا گیا کہ کیوں روتے ہو ۔ کہا اے خدا یہ لڑکا جس کو تونے میرے بعد نبی کیا ہے اس کی امت کے لوگ میری امت والوں سے زیادہ جنت میں جائینگے۔ پھر ہم ساتویں آسمان پر پہنچے اور ویسی ہی باتیں ہوئیں پھر میں ابراہیم کے پاس پہنچا۔ میں نے ان کو سلام کیا کہا مرحبا اے فرزند اور نبی پھر بیت المعمور مجھ سے نزدیک ہوا۔
میں نے جبرائیل سے پوچھا تو کہا یہ بیت المعمور ہے ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب جاتے ہیں پھر کر دوبارہ نہیں آتے۔ پھر سدرہ مجھ سے قریب آگیا اس کے بیر ہجر کے منکوں کے برابر اور پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں دو ظاہر اور دو باطن میں نے جبرائیل سے پوچھا تو کہا یہ دو پوشیدہ نہریں تو جنت میں جاتی ہیں اور یہ دو ظاہر نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ کہا آپ سے زیادہ میں لوگوں کی حالت سے واقف ہوں۔ میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور سخت تکلیف اٹھائی۔ آپ کی امت اس فرض کا تحمل نہ کرسکے گی۔ آپ خدا کے پاس پھر جائیے۔ اور کمی کی درخواست کیجئے۔ میں پھر خدا کے پاس گیا اور کمی کے لیے التجا کی۔ خدا نے چالیس کا حکم دیا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا پوچھا کیا کر آئے میں نے کہا چالیس نماز کا حکم دیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میں پھر خدا کے پاس گیا۔ تو تیس نماز کا حکم دیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو خبر دی موسیٰ نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا ۔ میں پھر خدا کے پاس گیا۔ اب کی دفعہ بیس نمازوں کا حکم دیا پھر دس کا پھر پانچ کا میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میں نے کہا مجھ کو خدا سے شرم آتی ہے کہ میں پھر اس کے پاس جاؤں۔ آواز آئی کہ میں نے اپنا فرض جاری کردیا اور اپنے بندوں کو آسانی دی اور میں ایک نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا ثواب دونگا۔
اخبرنایونسبن عبدالاعلی حدثنا ابن وھب قال اخبرنی یونس عن ابن شہاب قال انس بن مالک وابن خرم قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و فرض اللہ عزوجل علے امتی خمسین صلوۃ فرجعت بذلک وحتی امر یموسیٰ (علیہ السلام) فقال ما فرض ربک علی امتک قلت فرض علیھم خمسین صلوۃ قال لی موسیٰ فراجع ربک رجل فان امتک لا تطیق ذلک فراجعت ربی عزوجل قومنع شطرھا فرجعت الی موسیٰ باخیر نہ فقال راجع ربک فان امتک لا تطیق ذلک فراجعت ربی عزاجل فقالھی خمس وھی خمسون لا یبدل انقول لدی فرجعت الی موسیٰ فقال راجع ربک فقلت انی استحییت من ربی عزوجل۔ (نسائی صفحہ )
خبر دی ہم کو یونس بن عبدالاعلیٰ نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے ابن وہب نے کہا اس نے خبر دی مجھ کو یونس نے ابن شہاب سے کہا انس بن مالک اور ابن خرم نے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں الٹا پھرا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا۔ میں نے کہا ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا دوبارہ خدا سے کہئے آپ کی امت اس کا تحمل نہ کرسکے گی۔ میں نے دوبارہ خدا سے کہا اور خدا نے ان میں سے ایک حصہ کم کردیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو خبر دی کہا پھر خدا سے کہئے آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں ہے۔ میں نے خدا سے پھر کہا خدا نے فرمایا کہ پانچ نمازیں ہیں اور وہی پچاس کی برابر ہیں۔ میرا قول نہیں بدلتا۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ کہا پھر خدا سے کہئے ۔ میں نے کہا اب تو مجھے خدا سے شرم آتی ہے۔
خبرنا عمرو ابن ہشام قال حدثنا مخلد عن سعید بن عبدالعزیز حدثنا یزید بن ابی ملک حدثنا وانس بن مالک و ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال اتیت بلا بترفوق الحمارودون البغل خطوھا ھند منتہی طوفھا فرکبت وحی جبرائیل (علیہ السلام) تسرت فقال النزل فضل فنعلت فقال اتدری ایر سلیت سلیت بطبیۃ والیھا المجاجر ثم قال انزلی فصل حصلیت فقال تدری این حصلیت صلیت بطور سینا حیث کلم اللہ موسیٰ (علیہ السلام) ثم قال انزل فصر صلیت فقال اتدری ابن صلیت صلیت ببیت لحم حیث والدعنی (علیہ السلام) ثم دخلت الی بیت المقدس فجمع لی الانبیاء علیھم السلام فقد سنی جبرائیل حتی امتھم ثم صعد بی الی السماء الدنیا فا ا فیھا اٰدم (علیہ السلام) ثم تعد بی الے السماء الثانیۃ فاذا فیھا ابن الخالۃ عینی ویحییٰ ۔ (علیہما السلام) ثم صعد بی الی السماء الثالثۃ فاذا فیھا یوسف (علیہ السلام) ثم صعد بی الی السماء الرابعۃ فاذا فیھا ہارون (علیہ السلام) ثم صعد بی الی السماء الخامسۃ فاذ فیھا ادریس (علیہ السلام) ثم صعد بی الی السماء والسادسۃ فاذ فیھا موسیٰ (علیہ السلام) ثم سعد بی الی الیاء السابعۃ فاذایھا البراھیم (علیہ السلام) ثم صعد بی فوق سبع سموت فاتیناسدرۃ المنتہی ففشیشتی ضبابۃ فخروت ساجد فقیل لی انی یوم خلقت السموات والارض فرضت علیک دخلی امتک خمسین صلوۃ فم بھا
خبر دی ہم کو عمر بن ہشام نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے مخلد نے سعید بن عبدالعزیز سے کہا اس نے حدیث بیان کی یزید بن ابی ملک نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے انس بن مالک نے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے لیے ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ اور اس کا قدم منتہائے نظر تک پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوا انت وامتک فرجعت الی ابراھیم فلم یسا لئی عن شیء ثماتیت علی موسیٰ فقال کم فوض علیک وعلیٰ امتک فلت خمسین صلوۃ قال فانک لا تستطیع ان تقوم بھا انت ولا امتک فارجع الی ربک فاسالہ التخفیف فرجعت الی ربی فخفف عنی عشل ثم اتیت الی موسیٰ نامرتی بالرجوع فرجعت فخفف عنی عشرا ثمردت الی خمس اصنوۃ قال فارجع الی ربک فاسالہ التخفیف فانہ فوض علی بنی اسرائیل صلوتین فماقاموا بھافرجعت الی ربی عزوجل فسالہ التخفیف فقال انی یوم خلقت السموات والارض فرضت علیک و علی امتک و خمسین صلوۃ فخمر بخمسین فقم بھا انت وامتک فعرفت انھا من اللہ عزوجل مہری فرجعت الی موسیٰ (علیہ السلام) فقال ارجع فعرفت انھا من اللہ صری یقول حتم نعم ارجع۔ (نسائی صفحات - )
بیت المقدس میں داخل ہوا۔ انبیاء (علیہ السلام) میرے لیے جمع تھے۔ جبرائیل نے مجھ کو آگے بڑھا دیا میں نے امامت کی پھر مجھ کو آسمان اول پر لے گیا میں نے اس میں آدم (علیہ السلام) کو پایا۔ پھر دوسرے آسمان پر لے گیا۔ میں نے اس میں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) دیکھے۔ پھر تیسرے آسمان پر لے گیا ۔ وہاں یوسف (علیہ السلام) نظر آئے۔ پھر چوتھے آسمان پر لے گیا۔ اس میں ہارون عیہ السلام تھے۔ پھر پانچویں آسمان پر لے گیا اس میں ادریس (علیہ السلام) تھے۔ پھر چھٹے آسمان پر لے گیا ۔ اس میں موسیٰ (علیہ السلام) دکھائی دیئے۔ پھر ساتویں آسمان پر لے گیا میں نے اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھا۔ پھر مجھ کو ساتوں آسمانوں سے ادھر لے گیا پھر ہم سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ مجھ پر ایک کہر سی چھاگئی میں س جدے میں گرا آواز آئی کہ میں نے جس روز آسمان و زمین کو پیدا کیا تجھ پر اور تیری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ اب تو اور تیری امت اس کو قائم کریں ۔ میں وہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس لوٹ کر آیا۔ انھوں نے کوئی سوال مجھ سے نہیں کیا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا پوچھا کتنی نمازیں آپ پر اور آپ کی امت پر فرض ہوئیں۔ میں نے کہا پچاس کہا آپ اس کو ادا کرسکے گیے نہ آپ کی امت ۔ خدا کے پاس پھر جائیے اور کمی کی درخواست کیجئے۔ میں پھر خدا کے پاس گیا۔ تو دس نمازیں معاف کردیں پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو مجھ کو پھرجانے کو کہا ۔ میں پھر گیا تو خدا نے دس اور معاف کردیں۔ پھر پانچ نماز کا حکم لے کر آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر کہا کہ خدا کے پاس پھر جائیے۔ اور کمی کی درخواست کیجئے۔ خدا نے بنی اسرائیل پر دو منازیں فرض کی تھیں ان کو بھی ادا نہ کرسکے۔ میں پھر خدا کے پاس گیا اور کمی کی درخواست کی۔ خدا نے فرمایا کہ میں نے جس روز زمین و آسمان پیدا کئے اسی روز تجھ پر اور تیری امت پر پچاس نماز فرض کردی تھیں۔ اور یہ پانچ نمازیں پچاس کے برابر ہیں۔ تو اور تیری امت ان نمازوں کو دا کریں اب میں نے جان لیا کہ یہ خدا کی طرف سے قطعی حکم ہے۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پھر جائیے۔ میں نے سمجھا کہ یہ خدا کا حکم قطعی ہوچکا اس لیے میں پھر نہیں گیا۔ بقیہ تفسیر اگلی آیت میں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 3

ذُرِّیَّۃَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا ﴿۳﴾

تفسیر سرسید:۱

اخبرنااحمد بن سلیمان حدثنا یحییٰ بن اٰدم حدثنا مالک بن مغول عن لزبیر بن عدی بن طلحہ بن مصارف عن مرۃ عن عبداللہ قال لما اسری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہیٰ بہ الی سدرۃ المنتہیٰ وھی فی السما مالساد سۃ والیھا منتھی ما عرج بہ من تحتھا والیھا ینتہی ما ھبط بہ من فوقھا حتی یقبض منھا قال اذ یغشی السدرۃ سا یغشی قال فراش من ذھب فاعطی ثلثا الصلوۃ الخمس وخراتم سورة البقر ویغفوطن مات من امتہ لا یشرک باللہ شیئا المقحمات۔ (نسائی صفحہ )
خبر دی ہم کو احمد بن سلیمان نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے یحییٰ بن آدم نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے مالک بن مغول نے اس نے زبیر بن عدی بن طلحہ بن مصرف سے اس نے مرہ سے اس نے عبداللہ سے کہا انھوں نے کہ جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج کو گئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے اور وہ چھٹے آسمان پر ہے۔ اور جو کچھ اس کے نیچے سے اوپر کو جاتا ہے اور جو کچھ اس کے اوپر سے نیچے کو آتا ہے وہیں آکر رکتا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں کہ جب چھا جائے اس پر جو چھا جائے۔ راوی نے کہا کہ اس سے مراد ہیں سونے کے پتنگے۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین چیزیں دی گئیں۔ پانچ نمازیں اور سورة بقر کی آخیر آیتیں اور ان کی امت میں سے جو شخص خدا کے ساتھ شرک نہ کرے اس کے کبیرہ گناہ معاف کریگا۔
اخبرنا سلیمان بن داؤد عن ابن وھب قال اخبرنی عمرو بن الحارث ان عبدوبہ بن سعید اخبرہ ان البنائی حدثہ عن انس بن مالک ان الصلوات فرضت بمکۃ وان ملکین اتیار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فذھبا بہ الی زمزم فشقابطنہ واخرجا حوہ فی طیت من ذھب فغسلاہ بماء زمزم ثم کبسا جو لہ حکمۃ وعلما۔ (نسائی صفحہ )
خبر دی ہم کو سلیمان بن داؤد نے ابن وہب سے کہا اس نے خبر دی مجھ کو عمرو بن حارث نے کہ عبد ربہ بن سعیہ نے خبر دی اس کو کہ ینانی نے حدیث بیان کی اس نے انس بن مالک سے کہ نماز مکہ میں فرض ہوئی اور دو فرشتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور ان کو زمزم کے پاس لے گئے۔ دونوں نے ان کا پیٹ چیرا اور اندر کی چیز اول سونے کے لگن میں نکالی۔ اور آب زمزم سے اس کو دھویا پھر علم و حکمت اس کے اندر بھر دیا۔
حدیث ابن ماجہ
حدثناحرملہ بن یحییٰ المصری حدثنا عبداللہ بن وھب اخبرنی یونس بن یزید عن ابن شھاب عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض اللہ علی امتی خمسین صلوۃ فرجعت بذلک حتی اتی علی موسیٰ فقال موسیٰ ماذافترض ربک علی امتک قلت فرض علی خمسین صلوۃ قال فارجع الی ربک فان امتک لا تطیق ذلک فراجعت ربی فرضع عن شطرھا فرجعت الی موسیٰ فاخبرتہ فقال ارجع الی ربک فان امتک لا تطیق ذلک و فراجعت ربی فقالھی خمس وھی خمسون لا یبدل القول لدی فرجعت الی موسیٰ فقال راجع الی ربک فقلت قد استحبیت من ربی۔ (ابن ماجہ صفحہ )
حدیث بیان کی ہم سے حرملہ بن یحییٰ مصری نے کہا اس نے حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ بن وہب نے کہا اس نے خبر دی مجھ کو یونس بن یزید نے ابن شہاب سے اس نے انس بن مالک سے کہا انھوں نے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خدا نے میری امت پرپچاس نمازیں فرض کیں میں الٹا پھر کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا میں نے کہا پچاس نمازیں کہا خدا کے پاس پھر جائیے آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی میں نے دوبارہ خدا سے کہا اور خدا نے ان میں سے ایک حصہ معاف کردیا ۔ پھر میں موسیٰ کے پاس آیا اور ان کو خبر دی کہا پھر خدا کے پاس جائے۔ آپ کی امت میں اس کے ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ میں نے پھر خدا سے کہا خدا نے فرمایا کہ پانچ نمازیں ہیں اور یہی پچاس ہیں۔ میرا قول نہیں بدلتا۔ پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا پھر خدا کے پاس جائے۔ میں نے کہا مجھ کو خدا سے شرم آتی ہے۔
اختلافات جو ان حدیثوں میں ہیں
ان حدیثوں کے طرز بیان میں اور واقعات جو ان میں بیان ہوئے ہیں اور ان کے الفاظ و عبارات میں ایسا اختلاف ہے جو اس بات کے یقین کرنے کے لیے کافی دلیل ہے کہ وہ الفاظ وہ نہیں ہیں جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان مبارک سے فرمائے ہوں گے یہ بات مسلم ہے کہ حدیثیں بلفظ یعنی انہی الفاظ سے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائے تھے بیان نہیں ہوتی تھیں بلکہ روایت بالمعنی کا عام رواج تھا یعنی راوی حدیث کے مطلب کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک مطلب کی حدیثوں کو متعددرایوں نے مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے اور اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ان حدیثوں کے جو الفاظ ہیں وہ اخیر راوی کے الفاظ ہیں جس کی روایت حدیثوں کی کتابوں میں لکھی گئی ہے۔
علاوہ اس کے ان حدیثوں کے مضامین بھی نہایت مختلف ہیں اور راویوں نے اپنی یاد اور اپنی سمجھ کے موافق ان کو بیان کیا ہے ان سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ درحقیقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا بیان کیا تھا اور زبانی نقل درنقل ہوتے ہوتے اخیر راوی تک کس قدر پہنچی اور کیا کمی یا زیادتی ان میں ہوگئی اور مطلب بھی ان میں وہی باقی رہا جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا یا اس میں بھی کچھ تغیر و تبدیل ہوگئی ہے۔
اب ہم الفاظ کے اختلافات سے قطع نظر کرتے ہیں اس خیال سے کہ راویوں کے سبب وہ مختلف ہوگئے ہیں اور صرف اختلافات مضامین کو دکھلاتے ہیں جو مذکور بالا حدیثوں میں پائے جاتے ہیں۔
۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ جب معراج شروع ہوئی تو آپ کہا تھے
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیثوں میں ہے کہ آپ مکہ میں اپنے گھر میں تھے کہ آپ کے گھر کی چھت پھٹ گئی۔
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث میں ہے کہ آپ خانہ کعبہ کے پاس تھے۔
بخاری میں انہی کی دوسری حدیث میں ہے کہ آپ حطیم میں تھے یا حجر میں تھے۔
بخاری اور مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث میں ہے کہ مسجد کعبہ میں سے آپ کو معراج ہوئی۔
جس قدر حدیثیں ان کے سوا ہیں ان میں سے کسی میں اس بات کا ذکر نہیں کہ جب معراج شروع ہوئی تو آپ کہاں تھے۔
جبرئیل تنہا آئے تھے یا اور بھی ان کے ساتھ تھے
بخاری میں مالک ابن صعصعہ اور بخاری و مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ تنہا جبرائیل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے۔
نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ دو فرشتے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے۔
بخاری میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے جس کے یہ لفظ ہیں ” فذکررجلا بین الرجلین “
اور مسلم اور نسائی میں ہے ” احدالثلثۃ بین الرجلین “ یعنی تین کا ایک جو دو کے درمیان میں ہے۔
فتح الباری اس سے مراد لیتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمزہ و جعفر کے بیچ میں سوتے تھے جس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں دو آدمیوں یعنی تمزہ و جعفر کے بیچ میں سوار تھا۔
مگر کو اکب الدراری اور خیر المجاری میں جو بخاری کی شرحیں ہیں لکھا ہے ” ای ذکر النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثلاث رجال وھم الملائکۃ تصور وابصورۃ الانس “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین آدمیوں کا ذکر کیا جو فرشتے تھے کہ آدمیوں کی شکل بن کر آئے تھے پس اس روایت سے تین فرشتوں کا آنا معلوم ہوتا ہے۔
بخاری اور مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس تین فرشتے آئے۔
۔ اس وقت آپ سوتے تھے اور اخیر تک سوتے رہے یا جاگتے تھے
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث میں ہے۔ بین القائم والیقظان یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں کچھ سوتا اور کچھ جاتا تھا۔
بخاری کی انہی کی دوسری حدیث میں ہے ” مضطجعا “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں کروٹ پر لیٹا یا سوتا تھا۔
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ” وھونائم “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے تھے اور اس کے بعد ہے ” فیما یری قلبہ وتنام عینہ ولا یتام قلبہ “ یعنی فرشتے آپ کے پاس آئے ایسی حالت میں کہ آپ کا دل دیکھتا تھا اور آنکھیں سوتی تھیں اور دل نہیں سوتا تھا۔ اس حدیث کے اخیر میں ہے ” فاستقیظ وھو فی المسجد الحرام “ یعنی تمام قصہ معراج بیان کرکے انس بن مالک نے کہا کہ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگے اور وہ مسجد حرام میں تھے۔
اور مسلم میں انس بن مالک کی حدیث میں ہے وھونائم فی المسجد الحرام یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوتے تھے مسجد حرام میں۔
ان حدیثوں کے سوا کسی حدیث میں اس بات کا بیان ہی نہیں ہے کہ اس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگتے تھے یاسوتے تھے۔
۔ شق صدر اور اس کے اختلافات
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل نے میرا سینہ چیرا اور زمزم کے پانی سے دھویا۔
بخاری میں مالک ابن معصعصہ کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حلقوم سے پیٹ کی نرم جگہ تک چیرا گیا۔ اور پیٹ کے زمزم کے پانی سے دھویا گیا۔
اور بخاری اور مسلم اور نسائی میں انھیں کی حدیث ہے کہ گلے کے گڑھے سے پیرو تک چیرا گیا۔ پھر میرا دل نکالا اور زمزم کے پانی سے دھویا۔
بخاری میں انس بن مالک کی حدیث ہے کہ تین فرشتہ جو آئے تھے ان میں سے جبرائیل نے سینہ کو ایک سرے سے دوسرے تک چیر ڈالا اور جبرائیل نے اپنے ہاتھ سے زمزم کے پانی سے دھویا۔ نسائی میں انس بن مالک کی حدیث ہے کہ دو فرشتے آئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چاہ زمزم کی پاس لے گئے اور دونوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش کو چیرا اور دونوں نے مل کر زمزم کے پانی سے دھویا۔
ان حدیثوں کے سوا جو اور حدیثیں ہیں ان میں شق صدر کا کچھ ذکر نہیں۔
۔ براق کا ذکر کن حدیثوں میں ہے اور کن میں نہیں
بخاری اور مسلم میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ ایک چوپایہ میرے پاس لایا گیا سفید رنگ کا گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا جس کو براق کہتے ہیں۔
مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ میرے پاس براق لایا گیا اور وہ ایک چوپایہ ہے سفید رنگ کا گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا۔
ترمذی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس معراج کی شب براق زین اور لگام سے آراستہ لایا گیا۔
نسانئی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے اس میں براق کا نام نہیں ہے صرف یہ ہے کہ ایک چوپایہ میرے پاس لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔
نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے اس میں بھی براق کا نام نہیں ہے صرف یہ ہے کہ ایک چوپایہ میرے پاس لایا گیا۔
ان حدیثوں کے سواہ اور کسی حدیث میں براق کے لائے جانے کا ذکر نہیں ہے۔
۔ آپ براق پر سوار ہو کر گئے یا کس طرح
بخاری اور مسلم میں ابوذر اور انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جبرائیل میرا ہاتھ پکڑ کر آسمانوں پر لے گئے۔ اور انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ مجھ کو آسمانوں پر لے گئے واضح ہو کہ ان حدیثوں میں براق کا کچھ ذکر نہیں ہے۔
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے جس سے پایا جاتا ہے کہ براق پر سوار ہو کر جبرائیل کے ساتھ گئے۔
مسلم اور نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں براق پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک پہنچا۔
ترمذی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ سوار ہوتے وقت براق نے شوخی کی اور جبرائیل نے اس سے کہا کہ تو محمد کے ساتھ اس طرح شوخی کرتا ہے۔ کوئی تجھ پر سوار نہیں ہوا جو مقبول ہو خدا کے نزدیک ان سے زیادہ راوی نے کہا کہ براق ندامت سے پسینہ پسینہ ہوگیا۔
اور سب سے زیادہ عجیب روایت وہ ہے کہ جو بزار نے اور سعید ابن منصور نے ابوعمران جونی سے اور اس نے انس سے مرفوعاً بیان کی ہے۔ کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ میں بیٹھا تھا کہ جبرائیل آئے اور میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں ہاتھ مارا۔ پھر ہم دونوں ایک درخت کے پاس گئے جس میں پرندوں کے گھونسلے
رکھے تھے۔ ایک میں جبرائیل اور ایک میں میں بیٹھ گیا۔ پھر وہ گھونسلے بلند ہوئے۔ یہاں تک کہ زمین و آسمان کو گھیر لیا۔
بیت المقدس میں براق کے باندھنے کا اختلاف
مسلم میں انس بن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے براق کو اس کنڈے سے باندھ دیا جس سے سب پیغمبر باندھتے تھے۔
ترمذی میں بریدہ کی حدیث ہے کہ جبرائیل نے انگلی کے اسارہ سے ایک پتھر کو شق کیا اور اس سے براق کو باندھ دیا۔
۔ بیت المقدس پہنچنے سے پہلے کہاں کہاں تشریف لے گئے اور کیا کیا کیا
نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں سوار ہو کر جبرائیل کے ساتھ چلا اور طیبہ میں اترا اور نماز پڑھی جہاں کہ ہجرت ہوگی پھر طور سینا پر اترا اور نماز پڑھی جہاں اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا تھا۔ پھر بیت لحم میں اترا اور نماز پڑھی جہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ پھر میں بیت المقدس میں پہنچا جہاں تمام انبیاء جمع تھے اور میں نے امام سن کر سب کو نماز پڑھائی۔
اس واقعہ کا سوائے اس حدیث کے کسی اور حدیث میں ذکر نہیں ہے۔
۔ اختلافات مقامات انبیاء آسمانوں پر جن سے ملاقات ہوئی
ادریس (علیہ السلام)
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ادریس دوسرے آسمان پر ملے۔
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ ادریس چوتھے آسمان پر ملے۔
مسلم میں انس ابن مالک کو حدیث ہے کہ ادریس چوتھے آسمان پر ملے۔
نسائی میں انس ابن مالک کی حدث ہے کہ ادریس پانچویں آسمان پر ملے۔
ہارون (علیہ السلام)
بخاری اور نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ہارون چوتھے آسمان پر ملے۔
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ ہارون پانچویں آسمان پر ملے۔
مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ہارون پانچویں آسمان پر ملے۔
موسیٰ (علیہ السلام)
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ موسیٰ چھٹے آسمان پر ملے۔
مسلم اور نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ موسیٰ چھٹے آسمان پر ملے۔
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ موسیٰ ساتویں آسمان پر ملے۔
ابراہیم (علیہ السلام)
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) چھٹے آسمان پر ملے۔
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ابراہیم چھٹے آسمان پر ملے۔
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ ابراہیم ساتویں آسمان پر ملے۔
مسلم اور نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ابراہیم ساتویں آسمان پر ملے۔
حلیہ موسیٰ (علیہ السلام)
بخاری میں ابوہریرہ کی اور مسلم میں جابر کی اور ابوہریرہ کی ترمذی میں حدیث ہے جن میں حضرت موسیٰ کا دبلا یا چہریرہ ہونا بیان ہوا ہے۔
بخاری میں عبداللہ ابن عمر کی حدیث ہے جس میں موسیٰ کا موٹا ہونا بیان ہوا ہے۔
بخاری اور مسلم میں عبداللہ ابن عباس کی حدیث ہے جس میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے گھونگریالے بال تھے۔
بخاری میں ابوہریرہ کی اور عبداللہ ابن عمر کی اور مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ کی حدیث ہے جس میں حضرت موسیٰ کے سیدھے لمبے بال بیان ہوئے ہیں۔
حلیہ عیسیٰ (علیہ السلام)
بخاری اور مسلم میں عبداللہ ابن عباس کی حدیث ہے جس میں حضرت عیسیٰ کے لمبے بات ہونے معلوم ہوتے ہیں۔
بخاری میں عبداللہ ابن عمر کی اور بخاری اور مسلم میں عبداللہ ابن عباس کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے گھونگریالے بال تھے۔
ذریات آدم و بکاء آدم
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ پہلے آسمان پر آدم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملے۔ اور آدم کے دائیں اور بائیں ان کی ذریات تھی۔ دائیں طرف والوں کو دیکھ کر ہنستے تھے کہ وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف والوں کو دیکھ کر روتے تھے کہ وہ دوزخی ہیں۔
باقی حدیثوں میں سے کسی حدیث میں اس واقعہ کا ذکر نہیں ہے۔
بکاء موسیٰ (علیہ السلام)
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت موسیٰ سے مل کر آگے بڑھے تو حضرت موسیٰ روئے کہ اے خدا یہ لڑکا جو میرے بعد مبعوث ہوا اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ جنت میں جائینگے۔
باقی حدیثوں میں سے کسی حدیث میں اس واقعہ کا ذکر نہیں ہے۔
۔ تخفیف نمازوں میں
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے اور نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موسیٰ اور خدا کے پاس تخفیف نماز کے لیے بنتی دفعہ آئے گئے ہر مرتبہ ایک حصہ نمازوں کا معاف ہوا۔ تعداد کچھ نہیں بیان کی۔
بخاری اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ اور انس ابن مالک کی حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دفعہ کے جانے میں دس دس نمازیں معاف ہوئیں اور آخر کو پانچ رہ گئیں۔
مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دفعہ میں پانچ پانچ نمازیں معاف ہوئیں۔
بخاری اور نسائی میں ابن مالک کی حدیث ہے کہ پانچ نمازیں مقرر ہونے کے بعد بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پاس معافی کے لیے گئے مگر قبول نہ ہوئی۔ اور حدیثوں میں ہے کہ پانچ نمازوں کے مقرر ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اب تو مجھ کو خدا کے پاس جانے میں شرم آتی ہے۔
متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے سے پہلے نماز فرض ہوئی تھی۔ اور بعض میں مذکور ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے کے بعد نماز فرض ہوئی۔
۔ اختلافات نسبت سدرۃ المنتہیٰ و بیت المعمور
مسلم اور ترمذی اور نسانئی میں عبداللہ ابن مسعود سے حدیث ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ چھٹے آسمان پر ہے۔
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ سب آسمانوں کے بعد ہے اور سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے سے پہلے نماز فرض ہوئی۔
بخاری اور نسائی مالک ابن صعصعہ کی اور مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ بیت المعمور سب آسمانوں کے بعد ہے اور اس کے بعد سدرۃ المنتہیٰ ہے اور نماز سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچنے کے بعد فرض ہوئی۔
بخاری اور مسلم میں مالک ابن صعصعہ کی دوسری حدیث ہے کہ ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے اور اس کے بعد بیت المعمور میں اور اس کے بعد نماز فرض ہوئی۔
بخاری اور نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ ساتوں آسمانوں کے بعد سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے اور اس کے بعد نماز فرض ہوئی۔
۔ الوان سدرۃ المنتہیٰ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سجدہ کرنا
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے جس میں بیان ہے کہ میں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچا اور اس پر ایسے رنگ چھائے ہوئے تھے جن کی حقیقت کو میں نہیں جانتا۔
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ پھر وہ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتویں آسمان سے اوپر گئے جس کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے اور خدا تعالیٰ ان سے نزدیک ہوا پھر اور بھی نزدیک ہوا یہاں تک کہ دوکمانوں کایا اس سے بھی کم فاصلہ رہے گیا پھر خدا نے ان کو وحی بھیجی اور پچاس نمازیں مقرر کیں۔
مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سدرۃ المنتہیٰ کی نسبت کہ جب اس پر حکم الٰہی سے چھا گیا جو چھانا تھا تو اس کی حالت بدل گئی کسی انسان کی طاقت نہیں ہے کہ اس کے حسن کی تعریف کرسکے۔
مسلم اور ترمذی اور نسائی میں عبداللہ ابن مسعود کی حدیث ہے اس میں قرآن مجید کی اس آیت کی اذا یغشی السدرۃ مایغشی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اس سے مطلب ہے سونے کے پروانوں سے یعنی سونے کے پروانے (یعنی پتنگے) درخت پر چھائے ہوئے تھے۔
نسائی میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر ہم ساتوں آسمانوں بعد سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے پھر مجھ پر کہر سی چھا گئی پھر میں سجہ کے لیے جھکا یعنی سجدہ کیا۔
۔ سدرۃ المنتہیٰ کی نہریں
بخاری اور مسلم اور نسائی میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے اس میں لکھا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں سے چار نہریں نکلتی ہیں دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ دونوں پوشیدہ نہریں جنت میں بہتی ہیں اور دو ظاہر نہریں نیل اور فرات ہیں۔
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آسمان دنیا یعنی آسمان اول پر دو نہریں بہتی ہوئی دیکھیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کیا نہریں ہیں جبرائیل نے کہا یہ نیل و فرات کی اصل ہیں۔
اور کسی حدیث میں سوائے ان حدیثوں کے نہروں کا ذکر نہیں ہے۔
۔ شراب اور دودھ
مسلم میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب میں بیت المقدس کی مسجد سے نماز پڑھ کر نکلا تو جبرائیل نے دو پیالے پیش کئے ایک شراب اور ایک دودھ کا۔
مسلم میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ بیت المعمور میں شراب اور دودھ کے دو پیالے پیش کئے گئے۔
بخاری میں مالک ابن صعصعہ کی حدیث ہے کہ بیت المعمور میں تین پیالے پیش کئے گئے ایک دودھ کا ایک شراب کا اور ایک شہد کا۔
۔ جنت میں داخل ہونا
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سدرۃ المنتہیٰ کے بعد جنت میں داخل ہوئے۔
اور کسی حدیث میں جنت میں جانے کا ذکر نہیں ہے۔
۔ کوثر
بخاری میں انس ابن مالک کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان اول پر ایک اور نہر دیکھی جس پر موتی اور زبر جد کے محل تھے جبرائیل نے بتایا کہ یہ نہر کوثر ہے۔
اور کسی حدیث میں کوثر کا ذکر نہیں ہے۔
۔ سماعت صریف الاقلام
بخاری اور مسلم میں ابوذر کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ایسے مقام پر پہنچا جہاں سے قلموں کے چلنے کی آواز آتی تھی۔
اور کسی حدیث میں یہ مصمون نہیں ہے۔
۔ آسمانوں پر جانا بذریعہ معراج کے
اختلاف اقوال علما نسبت اسرائے اور معراج کے جہاں ہم نے بیان کئے ہیں اس میں ابو سعید خدری کی حدیث کے بالفاظ نقل کئے ہیں۔
وفی حدیث ابی سعید الخدری عند ابن اسحاق فلما فرخت مما کان فی بیت المقدس اتی بالمعراج یعنی جو کچھ کہ بیت المقدس میں ہونا تھا جب وہ ہوچکا تو لائی گئی معراج۔ معراج کا ترجمہ ہم نے سیڑھی کیا ہے جس کے ذریعہ سے بلندی پر چڑھتے ہیں۔
فاما العروج نفی غیر ھذہ الروایت من الاحبار انہ لم یکن علی البراق بل رقی المعراج وھوا السلمکا رقع فی الدلا بل دلفظہ فاذا نابدابۃ کا بغل مضطرب الا ذنین یقال لرالبراق وکانت الانبیاء ترکبہ قبلی فرکبتہ فذکو الحدیث قال ثم دخلت انا وجبرئیل بیت المقدس فصلیت ثم اتیت بالمعراج وفی روایت ابن اسحق سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لما فرغت مما کان فی بیت المقدس باقی بالمعراج فلما او قط شیئا کان احسن منہ وھو الذی یمدالیہ العیت عینیہ اذا حضر فاصعدنی صاحبی فی حتی انتھی بی الی باب من ابواب السماء الحدیث وفی روایتکعب فرضعت لدسوقاۃ من فضہ ومرقاۃ من ذھب حتی عرج ھو وجبرئیل وفی روایۃ لا بی سعید فی شرف المطفیٰ انہ اتی بالمعراج من جنۃ الفردوس وانہ منفضل بالوالوء وعن بمینہ مملائکۃ وعن یسارہ ملائکۃ (فتح الباری جلد ہفتم صحفہ )
معراج کے معنی سیڑھی کے لینے میں سہ ند ہے کہ فتح الباری جلد ہفتم صفحہ میں علامہ ابن حجر نے تکھا ہے یعنی اس روایت کے سوا اور روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آسمانوں پر جانا براق پر نہ تھا بلکہ معراج پر گئے تھے جس سے مراد سیڑھی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 3
تفسیر سرسید:۲
چنانچہ ابن اسحق کے نزدیک ابو سعید کی حدیث میں اور بیہقی کی کتاب الدلائل میں صاف طور پر اس کی تصریح ہے۔ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ یکایک ایک چوپایہ خچر کی مانند پتلے کانوں والا لایا گیا جس کو براق کہتے ہیں۔ مجھ سے پہلے پیغمبر اس پر سوار ہوتے تھے۔ میں اس پر سوار ہوا۔ پھر حدیث میں بیان کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب میں اور جبرائیل دونوں بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ میں نے نماز پڑھی۔ پھر میرے پاس معراج یعنی ایک سیڑھی لائی گئی اور ابن اسحق کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ فرماتے تھے کہ بیت المقدس میں جو کچھ ہونا تھا میں اس سے جب فارغ ہوا تو معراج یعنی سیڑھی لائی گئی جس سے زیادہ خوبصورت چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی اور وہ ایسی خوشنما تھی کہ مرنے والا عین جانکنی کے وقت اس کے دیکھنے کے لیے آنکھیں کھول دے پھر میرے ساتھی یعنی جبرائیل نے مجھ کو سیڑھی پرچڑھایا یہاں تک کہ آسمان کے ایک درواز کے پاس لے پہنچا اور کعب کی روایت میں ہے کہ ایک سیڑھی چاندی کی اور ایک سونے کی رکھی گئی یہاں تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جبرائیل اس پر چڑھے اور شرف المصطفیٰ میں ابوسعید کی روایت میں ہے کہ بہشت سے ایک سیڑھی لائی گئی جس میں موتی جڑے ہوئے تھے اس کے دائیں طرف بھی فرشتے اور بائیں طرف بھی فرشتے تھے۔
اگر ان روایتوں پر کچھ اعتبار ہوسکے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج مثل حضرت یعقوب کی معراج کے ہوجاتی ہے جس کا ذکر توراۃ میں ہے۔
توریت میں لکھا ہے کہ ” پس یعقوب ازبیر شبع بیروں آ مدو بحاران روانہ شد۔ و بجائے رسید کہ درانجا بیتوتت نمودر یرا کہ آفتاب فرو میرفت وازسنگ ہا بےآں مکان گرفتہ سجہبت بالیں گذاشتہ وہمان جا خوابید۔ پس نجو اب دید کہ اینک نرد بانے بز میں برپا گشتہ سرشن مآسماں میخور دو اینک فرشتگان خدا ازاں ببا لا وزیر سیر فتند۔ دانیک خداوند براں ایستادہ گنت من خداوند خدائے قدرت ابراہیم وہم خداے اسحاقم ایں زمینے کہ براں میخوابی بتو ویذریت تو معدہم ۔ وذریت تو مانند خاک زمین گردیدہ بمغرب و مشرق و شمال و جنوب منتشر خواہند شدد ہم از توداز ذریہ ات تمامی قبائل زمین متبرک خواہند سد۔ واینک من باتوام وہر جائے کہ میروی ترانگاہداشتہ بایں زمین باز پس خواہم آوردوتا ب وقتیکہ آنچہ تبو گفتہ ام بجائے آور م ترادا نخواہم گزاشت۔ و یعقوب ازخواب خود بیدار شدہ گفت بدزستی کہ خداوند دریں مکان سست ومن ندانستم۔ پس ترسیدہ گفت کہ ایں مکان چہ تر سناک است ایں نیست مگر خانہ خدا واین است دروازہ آسمان۔ (کتاب پیدائش باب درس لغایت )
اختلافات احادیث کا نتیجہ
ان واقعات کا جن کا حدیثوں میں بیان ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ تر عجیب باتوں کا خواب میں دیکھنا ناممکن نہیں ہے مگر ہم نے ان کے اختلافات اس لیے دکھانے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ بسبب ان اخلافات کے یقین نہیں ہوسکتا کہ درحقیقت کیا حالات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھے تھے۔ اور کیا واقعات خواب میں گزرے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا تھا اور راوی کیا سمجھا اور کس قدر تغیر الفاظ میں۔ طرز بیان میں ۔ واقعات میں اور معانی الفاظ میں ہوگیا۔ اور کسی راوی نے اپنی سمجھ کے مطابق کون کون سی باتیں ان میں زیادہ کردیں اور کون سی کم۔ کیونکہ ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت جگہ راویوں کے قول ان حدیثوں میں شامل ہیں۔ پس جس قدر قرآن مجید میں مذکور ہے کہ ” لنریہ من ایاتنا انہ ھوالسمیع البصیر “ اس قدر تو تسلیم ہے کہ خدا نے اس خواب میں کچھ اپنی نشانیاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھلائیں مگر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کیا نشانیاں دکھلائیں اور اگر ہم آیات سے احکام مراد لیں جیسا کہ قرآن مجید کے بہت سے مقاموں میں آیات سے احکام مراد ہیں اور ” لنریہ “ سے ارادت قلبی یعنی کسی بات پر ولی اور کامل یقین ہوجانا سمجھیں تو آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں۔ تاکہ ہم اس کو یقین کرادیں اپنے بعض حکموں پر۔ اور یہ الفاظ جو حدیثوں میں آئے ہیں ” فاوحی الی ما اوحی “ اور ” فرضت علی امتی خمسون صلوۃ “ اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ آیات سے احکام مراد ہیں۔
ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ اس بات میں کہ معراج جاگتے میں اور بجسبدہ ہوئی تھی یا سوتے میں بروحہ بطور ۔ خواب کے۔ علمائے متقدمین کے تین مذہب ہیں مگر شاہ ولی اللہ صاحب نے ایک چوتھا مذہب اختیار کیا تھا کہ جاگتے میں بجسدہ ہوئی مگر بجسد برزخی میں المثال والشہادۃ ۔ چوتھے مذہب کو ہم چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ یہ تو انہی کی رائے یا مکاشفہ ہے جس کا پتہ نہ کسی روایت میں ہے نہ اقوال علما میں سے کسی قول میں۔ بلکہ حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کو بھی معراج بالجسد ہونے پر یقین نہیں ہے۔ صاف صاف نہیں کہتے اور بجسد برزخی معراج کا بیان کرتے ہیں۔ جس کا صریح مطلب یہ ہے کہ جسد اصلی موجودہ کے ساتھ معراج نہیں ہوئی۔ اور اس لیے ان کا مذہب بھی انہی لوگوں کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ بجسد معراج نہیں ہوئی۔
شاہ ولی اللہ صاحب کے مذہب کو چھوڑ کر تین مذہب باقی رہے جاتے ہیں۔ یعنی معراج کا ابتدا سے انتہا تک بجسد ہ اور حالت بیداری میں ہونا۔ یا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ اور حالت بیداری میں ہونا اور اس کے بعد بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک ہونا بروحہ یا معراج کا جس میں اسری بھی داخل ہے ابتدا سے انتہا تک بروحہ اور سونے کی حالت میں یعنی خواب میں ہونا۔ ہم پہلی دونوں صورتوں کو تسلیم نہیں کرتے لیکن ہر ایک صورت کو معہ اس کے دلائل کے بیان کرتے ہیں۔
صورت اول یعنی معراج بحسبدہ ابتدا سے انتہا تک بحالت بیداری
اس میں کچھ شک نہیں کہ کر محت برما اگر وہ علما کا اس بات کا قائل ہے کہ معراج ابتدا سے انتہا تک حالت بیداری میں بحسبد ہوئی تھی۔ مگر اس کے ثبوت کے لیے ان کے پاس ایسی ضعیف دلیلیں ہیں جن سے امرمذکور ثابت نہیں ہوسکتا۔
پہلی دلیل ان کی یہ ہے۔ خدا نے فرمایا ہے ” اسری بعبدہ “ اور عبد جسم اور روح دونوں کو شامل ہے۔ اس لیے متعین ہوا کہ معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم اور روح دونوں گئے تھے۔
ان العبداسم لمجموع الجدوالروح فوجب ان یکون الاسراء حاصلا لمجموع الجسد والروح (تفسیر کبیر جلد صفحہ - )
تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ کہ عبدنام ہے جسم اور روح دونوں کا۔ پس ضرور ہوا کہ اسرا میں جسم اور روح دونوں گئے ہوں پھر اس پر بحث ہے کہ انسان جسم کا یا روح کایا مجموع کا نام ہے۔
لوکان منا مالقال بروح عبدہ ولم یقل بعبدہ (شفای قاضی عیاض صفحہ )
اور شفائے قاضی عیاض میں ہے کہ معراج کا واقعہ اگر خواب ہوتا تو خدا فرماتا بروح عبدہ اور بعبدہ نہ کہتا مگر وہ اس طرح پر کلام عرب کی کوئی مثال نہیں بتاتے۔
دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ سرے پر خدا نے فرمایا ہے ” سبحان الذی “ اور سبحان کا لفظ تعجب کے موقعہ پر بولا جاتا ہے اگر اسرا اور معراج خواب میں ہوتی تو کچھ تعجب کی بات نہ تھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ معراج حالت بیداری میں اور بحسبدہ ہوئی ۔ اور یہ عجیب واقعہ تھا اس لیے صرف خدا نے شروع میں فرمایا ” سبحان الذی “
تیسری دلیل ان کی یہ ہے۔ کہ انھوں نے سورة والنجم کو بھی معراج سے متعلق سمجھا ہے۔
مازاغ البصر و ماطغی ولوکان منا مار کانت فیہ ایۃ ولا معجزۃ (شفائے قاضی عیاض صفحہ)
سورة نجم میں آیا ہے نہیں ادھر ادھر پھری اس کی گناہ اور نہ مقصد سے آگے بڑھی۔
اور اگر معراج ہوتی سوتے میں تو اس میں نہ کوئی نشانی ہوتی نہ معجزہ۔ اور جب امر واقع کو بصر کی طرف منسوب کیا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معراج روایت عینی تھی نہ رویت قلبی۔ چوتھی دلیل ان کی یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے سورة و النجم کی ایک آیت کی تفسیر میں اس بات سے انکار کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو آنکھوں سے دیکھا ہے اور اگر معراج خواب میں ہوئی ہوتی تو حضرت عائشہ اس سے انکار نہ کرتیں شفائے قاضی عیاض میں لکھا ہے۔
انذی علیہ صحیح تروانہ بجسد لا لا نکارھا ان تکون رویاء لربہ رویا عبن ولرکانت عندھا مقام لم تنکرہ۔ (شفائے قاضی حسین صفحہ )
ہماری مراد اس حدیث سے ہے جس سے حضرت عائشہ کا یہ صحیح قول معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج جسمانی تھا۔ کیونکہ انھوں نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو آنکھوں سے دیکھا۔ اگر واقعہ معراج ان کے نزدیک خوب ہوتا تو ہرگز اس بات کا انکار نہ کرتیں۔
عن مسروق قال کنت منک عند عائشۃ فقالت یا اباعائشۃ ثلاث من تکلم براحدۃ منھن فقد اعظم ھلی اللہ الغرینہ فکت سروھن نت من زعم ان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مای ربہ فقد اعظم علی اللہ الفریہ قال وکنت متک افجلست فقت باامرالمومنین انظرینی ولا تجلینی الدیغل افلہ تعالیٰ ویقدراہ بالا فق المبین ولقد راہ نزلۃ خوف فقالت ان اول ھذہ الا مدسال نحن ذلک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال نما ھو جبرائیل (علیہ السلام) مارہ علی صورتہ اللتی خلق علیھا غیر ھایتن المرتین ویتا مفہف من السماء ساد عظیم خلقہ مابین اسم عالی الارض فقالت اولم تسمع ان اللہ عزوجل یقول لا تذر کہ الابصار وو لمطیف الخبیر۔ اولم تسبمع ان اللہ عزوجل یقول۔ وما کان لبشران بکہ لنذلا وحیا اومن وراء حجاب ویرسل رسولا لی قولہ علی حکیم۔ (صحیح مسلم صفحہ )
مسروق کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ کے پاس تکیہ لگائے بیٹھا تھا انھوں نے کہا اے ابو عائشہ تین باتیں ہیں جو شخص ان میں سے ایک بھی زبان لاتا ہے خدا پر بہت بڑا بہتان باندھتا ہے۔ میں نے کہا وہ باتیں کیا ہیں کہا جو شخص گمان کرے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا وہ خدا پر بہت بڑا بہتان باندھتا ہے۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا ۔ یکایک سیدھا ہوا بیٹھا اور میں نے کہا اے ام المومنین مجھ کو دم لینے دو اور جلدی نہ کرو کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے کہ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو یعنی خدا کو افق مبین پر دیکھا اور اس نے دوبارہ اس کو یعنی خدا کو دیکھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس سے مراد جبرائیل (علیہ السلام) ہیں میں نے اس صورت میں جس پر وہ پیدا ہوئے ہیں ان کو دو دفعہ کے سوا نہیں دیکھا۔ میں نے ان کو آسمان سے اترتے دیکھا کہ انھوں نے اپنے حبثہ کی بڑائی سے زمین اور آسمان کی درمیانی فضا کو بھر دیا تھا۔
حضرت عائشہ نے فرمایا کیا تونے نہیں سنا خدا فرماتا ہے کہ نہیں پاتیں اس کو نظریں اور وہ پاتا ہے سب نظروں کو اور وہی ہے باریک دیکھنے والا خبردار اور کیا تونے نہیں سنا خدا فرماتا ہے نہیں ممکن ہے کسی انسان کے لیے یہ کہ خدا اس سے باتیں کرے مگر بطور وحی کے یا پردے کی اوٹ سے یا کوئی رسول بھیجتا ہے آخر آیت تک۔
پانچویں دلیل ان کی یہ ہے کہ قریش نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیت المقدس جانے اور ان کے دیکھنے سے انکار کیا۔ اگر وہاں تک جانا بطور خواب دیکھنے کے ہوتا تو قریش کو اس سے انکار اور تنازع کرنے کا کوئی مقام نہ تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معراج حالت بیداری میں اور بحسبدہ تھی۔ جب کہ سب اسے قریش نے جھگڑا کیا فتح الباری شرح بخاری اور نیز بخاری میں جو کچھ اس کی نسبت لکھا ہے اس کو ہم اس مقام پر لکھتے ہیں۔
وذھببعضھم الی ان الا سراء کان فی الیقضۃ والمعراج کان فے المنام وان لا ختلاف فی کو بہ یقظۃ اور منا ما خاص بالمعراج لا یا لا سراء ونذلک لما اخیر بہ قریشا کذبوہ فی الاسل رواستبعدوا فوعد ولم یتعرضو اللمعراج وایضاً فان اللہ سبحانہ و تعالیٰ قال سبحان الذی اسرب بعبد ہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی فلو وقع المعراج فی الیقظۃ کان ذلک ابلغ فی الذکر فلما یقع ذکرہ فی ھذا الموضع مع کون شانہ اعجب وامرہ غرب من الاسراء بکثیو دال انہ کان منا ما واما الا سراء لوکن متا مالما کذبوہ ولا استنکرو ہ لجں ازوقوع مثل ذلک وابعد منہ لا حاد الناس (فتح الباری جص )
فتح الباری میں لکھا ہے۔ کہ بعض لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ اسرا حالت بیداری میں اور معراج سونے کی حالت میں ہوئی تھی یا اس بات میں اختلاف کہجاگتے میں ہوئی یا سو سے میں خاص معراج سے متعلق ہے نہ اسرا سے۔ اسی سبب سے جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو اس واقعہ کی خبر دی تو انھوں نے بیت المقدس جانے کی تکذیب کی اور اس وقوع کو ناممکن خیال کیا اور معراج سے کچھ تعرض نہیں کیا نیز خدا تعالیٰ فرماتا ہے ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرم سے مسجد اقصیٰ تک “ اگر معراج جاگتے میں ہوئی ہوتی تو اس کا ذکر کرنا اور بھی زیادہ بلیغ ہوتا۔ مگر جب خدا نے اس کا ذکر یہاں نہیں کیا حالانکہ اس کی کیفیت اسرا سے بہت عجیب اور اس قصہ اس سے زیادہ نادر تھا تو معلوم ہوا کہ معراج خواب میں ہوئی تھی۔ لیکن اسرا اگر خواب میں ہوتی تو قریش اس کی تکذیب نہ کرتے اور نہ انکار کرتے کیونکہ ایسی اور اس سے زیادہ دوراز قیاس باتیں لوگوں کو خواب میں دکھائی دے سکتی ہیں۔
اور بخاری کی ایک حدیث میں ہے بابربن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال جابر بن عبداللہ انہ سمع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس وطفقت اخیرھم عن ابوتہ وانا انظر الیہ۔ (صحیح بخاری صفحہ ) ۔
سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ جب قریش نے میری تکذیب کی میں مقام حجر میں کھڑا ہوا۔ خدا نے بیت المقدس کو میری نظروں میں جلوہ گر کردیا میں اس کی نشانیاں قریش کو بتاتا تھا اور اس کو دیکھتا جاتا تھا۔ صحیح مسلم میں بھی مثل صحیح بخاری کے حدیث ہے جس کے الفاظ اور مضمون میں بخاری کی حدیث سے اختلاف ہے۔
قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لقد یتنی فی الحجر و قریش تسالنی عن مسرای فنا گننی عن اشیاء من بیت المقدس لما تب تھا فکربت کر بۃ ساکر بت مثلہ قط قال فرفعہ اللہ لی انظر الیہ سابسالمون من شیء الا انباتھم۔ (صحیح مسلم صفحہ)
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو مقام حجر میں دیکھا اس حال میں کہ قریش مجھ سے بیت المقدس تک جانے کا حال پوچھتے تھے۔ انھوں نے بیت المقدس کی ایسی باتیں مجھ سے دریافت کیں جو مجھ کو یادنہ تھیں میں ایسا گھبرایا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ گھبرایا تھا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ خدا نے بیت المقدس مجھ سے نزدیک کردیا میں اس کی طرف دیکھتا تھا اور وہ جو کچھ مجھ سے پوچھتے تھے میں ان کو بتاتا تھا۔
چھٹی دلیل ان کی یہ ہے کہ اقہانی کی حدیث سے جو طبرانی نے نقل کی ہے اور شداد ابن اوس کی حدیث سے جو بیہقی نے ذکر کی ہے۔ صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج کو جانا جسم کے ساتھ بیداری کی حالت میں تھا چنانچہ ان دونوں حدیثوں کو قاضی عیاض نے کتاب شفا میں نقل کیا ہے اور وہ یہ ہیں۔
وعن امہانیما اسری برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الا وھونی بیتی تلک اللیلۃ صلی العشاء الاخوۃ ونام بینا قل کان قتیل الفجر اھبنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قلہ سلی صبح وصلیت قال یا ام ھانی لقد صلیت
حضرت امہانی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج ہوئی۔ اس رات میرے گھر میں تھے۔ عشاء کی نماز پڑھ کر ہمارے درمیان سو رہے صبح سے کچھ پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ کو جگایامعکم العشائالاخرۃ کما رایت بھذا الوادی ثم جئت بیت المقدس فصلیت فیہ ثم صلیت اغداۃ معکم الان کما تردن وھذا بین فی اندبحسبہ۔
جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہم صیح کی نماز پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا اے امہانی میں نے عشاء کی نماز تمہارے ساتھ اس وادی میں یعنی مکہ میں پڑھی جیسا کہ تونے دیکھا۔ پھر میں بیت المقدس گیا۔ اور اس میں نماز پڑھی پھر اس وقت صبح کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور یہ حدیث معراج کے جسمانی ہونے پر صریح دلیل ہے۔
وعن ابی بکر من روایۃ شداد بن اوس منہ انہ قال لل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسری بہ طلبتک یارسول اللہ بمارحۃ فی مکانک فلم اجدک فنجابد الہ جبرائیل حملہ الی المسجد الاقصیٰ ۔ (شفاء قاضی عیاض صفحہ )
شداد بن اوس نے ابوبکر سے روایت کی ہے کہ انھوں نے معراج کی رات کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں نے کل رات آپ کو مکان میں ڈھونڈھا آپ کو نہیں پایا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ جبرائیل مجھ کو بیت المقدس لے گئے تھے۔ یہ چھ دلیلیں ہیں جو حامیان معراج بالجسد نے بیان کی ہیں۔
ان تمام دلیلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ اسراو معران بجسدہ اور حالت بیداری میں ہوئی تھی ان کے پاس قرآن مجید سے یا حدیث سے کوئی سند موجود نہیں ہے قرآن مجید میں کہیں بیان نہیں ہوا ہے کہ اسرا یا معراج بجسدہ حالت بیداری میں ہوئی تھی صحاح کی کسی حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے بلکہ اگر کچھ ہے تو اس کے برخلاف ہے اور جو دلیلیں بیان کی ہیں وہ نہایت ہی ضعیف اور غیر مثبت مدعا ہیں جیسا کہ ہم بیان کرتے ہیں۔
پہلی دلیل کہ لفظ عبد میں جسم و روح دونوں شامل ہیں اور اس لیے اسراو معراج بجسد ہ ہوئی تھی ایسی بےمعنی ہے کہ اس پر نہایت تعجب ہوتا ہے اگر خدا یوں فرماتا کہ ” اسریت بعبدی فی المنام من الکعبۃ الی المدینۃ یا اریت عبدی فی المنام کذا وکذا “ تو کیا اس وقت بھی یہ لوگ کہتے کہ عبد ہیں جسم و روح دونوں شامل ہیں اور اس لیے خواب میں مع جسم جانا ثابت ہوتا ہے۔
جو شخص خواب دیکھتا ہے وہ ہمیشہ متکلم کا صیغہ استعمال کرتا اور اگر کوئی شخص اس بات پر قادر ہو کہ دوسرے کو بھی خواب دکھا سکے تو وہ ہمیشہ اس کو مخاطب کرے گا خواہ نام لے کر یا اس کی کسی صفت کو بجائے نام قرار دے کر اور اس پر اس طرح سے استدلال نہیں ہوسکتا جیسا کہ ان صاحبوں نے عبد کے لفظ سے استدلال چاہا ہے۔
قرآن مجید میں حضرت یوسف نے اپنے خواب کی منبت کہا ” یا ابت انی رایت احد عشر کو کیا “ اور قیدیوں نے اپنا خواب اس طرح بیان کیا ایک نے کہا ” انی ارانی اعصر خمرا “ دوسرے نے کہا ” انی ارانی احمل فوق لاسی خبرا “ حالانکہ یہ سب خواب تھے پھر لفظ ” انی “ پر یہ بحث کہ اس میں جسم و روح دونوں داخل ہیں اور خواب میں جو فعل کیا فی الواقع وہ جسمانی فعل ہی تھا کیسی لغو و بیہودہ بات ہے۔
خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خواب بیان کئے ہیں اور دوسروں نے بھی اپنے خواب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کئے ہیں جن میں متکلم کے صیغے ” رایت “ استعمال ہوئے ہیں اور ان اشیا اور اشخاص کا ذکر آیا ہے جن کو خواب میں دیکھا پس کیا اس پر خواب میں ان اشیا اور اشخاص کے فی الواقعہ سجبسدہا موجود ہونے پر استدلال ہوسکتا ہے۔
اور یہ قول کہ اگر معراج کا واقعہ خواب ہوتا تو خدا فرماتا ” اسری بروح عبدہ “ ایسا ہی بیہودہ ہے جیسا کہ عبہ کے لفظ سے جسمانی معراج پر استدلال کرنا۔ اس قول کے لیے ضروری تھا کہ کوئی سند کلام عرب کی پیش کی جاتی کہ خواب کے واقعہ پر ” فعل بروحہ کذاوکذا “ بولنا عرب کا محاورہ ہے پس صاف ظاہر ہے کہ جو دلیل پیش کی ہے وہ محض لغو و بیہودہ ہے اور اس سے مطلب ثابت نہیں ہوتا۔
دوسری دلیل کی نسبت ہم خوشی سے اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ سبحان کا لفظ تعجب کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ مگر اس کو اسرا سے خواہ وہ خواب میں ہوئی ہو یا حالت بیداری میں اور بجسدہ ہوئی ہو یا بروحہ کچھ تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کو اس سے تعلق ہے جو مقصد اعظم اس اسرا سے تھا اور وہ مقصد اعظم خود خدا نے فرمایا ہے ” لنریہ من ایاتنا انہ ھو السمیع البصیر “ اور اسی کے لیے خدا نے ابتدا میں فرمایا ” سبحان الذی “
تیسری اور چوتھی دلیل مبنی ہے سورة والنجم کی چند آیتوں اور سورة تکویر کی ایک آیت پر کہ انھوں نے ان آیتوں کو معراج سے متعلق سمجھا ہے حالانکہ قرآن مجید سے کسی طرح قصاً یا اشارتاً نہیں پایا جاتا کہ وہ آیتیں معراج سے متعلق ہیں۔ علاوہ اس کے کس قدر بعید معلوم ہوتا ہے کہ سورة بنی اسرائیل میں جس میں معراج کا ذکر ہے وہاں تو معراج کے حالات نہ بیان کئے جاویں اور ایک زمانہ کے بعد یا قبل جب سورة والنجم نازل ہوئی ہو اس میں معراج کا حال بیان ہو ۔ سورة والنجم سے ظاہر ہے کہ جو وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی تھی اور جس کو کفار تسلیم نہیں کرتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نعوذ باللہ جھٹلاتے تھے اس کی تردید اور وحی کے من اللہ ہونے کی تصدیق میں وہ آیتیں نازل ہوئی ہیں ان کو معراج سے کچھ تعلق نہیں۔
علما و محدثین کو سورة والنجم کی آیتوں کے معراج سے متعلق ہونے میں اس وجہ سے شبہ پڑا ہے کہ بعض راویوں نے معراج کا حال بیان کرنے میں سورة والنجم کی آیتوں کو بیان کیا جو بات مثلاً بخاری میں انس ابن مالک سے جو روایت ہے اس کے راوی نے اپنی روایت میں یہ الفاظ کہے ہیں۔ ” ردنا الجبار رب العزۃ فقال حتی کان قاب قوسین اوادنی فاوحی اللہ الیہ “ اور یہ الفاظ قریب قریب انہی الفاظ کے ہیں جو سورة والنجم میں آئے ہیں۔
اسی طرح مسلم میں عبداللہ ابن مسعود سے جو روایت ہے اس کے راوی نے اپنی روایت میں یہ الفاظ کہے ہیں ” اذیغشی السدرۃ ما یغثی “ اور یہ الفاظ بعینہ وہی ہیں جو سورة النجم میں آئے ہیں۔ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سورة والنجم کی آیتیں معراج سے متعلق ہیں کیونکہ حدیثوں کے راوی اپنے لفظوں میں حدیثوں کا مطلب بیان کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی مطلب کو مختلف رایوں نے مختلف لفظوں میں بیان کیا ہے کسی نے ” فلما غشیھا (ای السدرۃ) من امر اللہ ماغشی “ کسی نے بیان کیا ہے ” فغشیھا (ای السدرۃ) الوان لا ادری ماھی “ غرضیکہ کسی راوی کا حدیث کے مطلب کو قرآن مجید کے الفاظ سے تعبیر کرنا اس کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ وہ الفاظ اس واقعہ سے متعلق ہیں۔
علاوہ اس کے سورة والنجم میں یہ آیت ہے ” ولقد راہ نزلۃ خوی عند سدرۃ المنتہیٰ “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اور ایک دفعہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ یہ حالت ایک دفعہ معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طاری ہوئی تھی سورة والنجم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جو وحی آئی تھی اس وقت بھی وہی حالت طاری ہوئی تھی اور لفظ اخریٰ صاف دلالت کرتا ہے کہ جو واقعہ سورة والنجم میں مذکور ہے وہ واقعہ معراج سے علیحدہ ہے۔
سورة والنجم سے جس امر میں وحی آنا معلوم ہوتا ہے وہ متعلق اصنام عرب تھا اور اس لیے ان آیتوں کے بعد خدا نے فرمایا ” افرئیتم الات والعزی ومنات الثالثۃ الاخری “ اور آخر کو فرمایا ” ان یتبعون الا الظن واتھوی الانفس ولقد جامھم من ربھم الھدی “
سورة والنجم کی آیتیں جن کو مفسرین نے معراج سے متعلق سمجھا ہے او ہم نے ان آیتوں کو معراج کے متعلق قرار نہیں دیا وہ بلاشبہ تفسیر کے لائق ہیں تاکہ ہمارے نزدیک جو ان کی صحیح تفسیر ہے معلوم ہوجاوے اور پھر اس میں کچھ شبہ نہ رہے اور اگر ان آیتوں کی تفسیر عربی زبان میں ہو تو ان کی ضمیروں کا مرجع زیادہ وضاحت سے معلوم ہوگا اس لیے ہم ان کی تفسیر عربی زبان میں معہ اردو ترجمہ کے اس مقام پر لکھتے ہیں۔
تفسیر آیات سورة والنجم
والنجم اذا ھوی ماصاحبکم یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وماغوی۔ وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یوحی علم یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی التفسیر الکبیر والا ولی ان یقال الضمیر عائد الی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تقدیرہ علم محمدا۔ شدید القوی ذومرہ وھواللہ العلی الکبیر کمال قال لنفسہ ان اللہ قوی شدید العقاب۔ وھو شدید المحال۔ وقال کثر المفسرین وھو جبرائیل ولا نسلمہ فاستویٰ ای محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھو ای محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالا فق الاعلے۔ قال صاحب التفسیر الکبیر وظاھران المراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مضاہ استوی بمکان وھو بالمکان العالی ربنۃ ومنزلۃ فی رفعۃ القدر لا حقیقۃ فی الحصول فی للکان فان قیل کیف یچوز ھذا واللہ تفتہ یقول ولقد راہ
ستارہ کی قسم جب کہ وہ دھلتا ہے۔ نہیں بھٹکا تمہارا صاحب یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نہ بہکا۔ اور وہ نہیں بولتا اپنی خواہش سے۔ نہیں ہے وہ بولنا مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے سکھایا ہے اس کو یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علمہ میں جو ضمیر ہے اس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھیرا جائے ۔ تفسیر کبیر میں بھی لکھا ہے کہ بہتر ہے کہ یہ کہا جاوے کہ ضمیر پھرتی ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف۔ اور اس کی مراد یہ ہے کہ سکھایا محمد کو بہت بڑی قوتوں والے صاحب قوت نے اور اس سے مراد خدا ہے یعنی خدا نے محمد کو سکھایا۔ جو لفظ شدید کا اس آیت میں ہے اس کو خدا تعالیٰ نے بہت جگہ بالاقول المبین “ اشار ۃ الی اللہ رای جبرائیل بالافق المبین نقول وفی ذلک الموضع ایضاً نقول کما قلنا ھھنا انہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رای جبرائیل وھو بالا نو کبیر یقول القائل رایت ھلا فیقال لہراین رایتہ فیقول فوق السطح اذا الرای فوق السطح للموئی والمبین ھو الضارق من ابان ای فرق ای ھوبا لا فق الفارق بین درجۃ الانسان ومنزلۃ الملک فانہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہیٰ وبلغ الغایۃ وصار نبیا کما صار بعض الانبیاء بنیا یاتیہ الوحی فی نومہ وعلیٰ ھیئتہ رھو واصل البی الافق الاعلیٰ والا فق الفارق بین المنزلتین۔ وایضا فی التفسیرالمذکر رفان قیل الاحادیث تدل علی خلاف ماذکرتہ حیث وروفی الاخبار ان جبرائیل (علیہ السلام) اری النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفسہ علی صورتہ فسد المشرق فنقول نحن ما قلنا انہ لم یکنولیس فے الحدیث ان اللہ تعالیٰ اراد بھذہ الایۃ تلک الحکایۃ حتی یلزم مخالفۃ الحدیث وانما نقول ان جبرائیل دی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفسہ موتین وبسط جناحیہ وقد سترالجانب المشرق وسدہ لکن الایۃ لم ترد لبیان ذلک ثم قال تعالیٰ ثم نافتدلی۔ قال فی التفسیر الکبیر اندروا التدلی بمعنی واحد کانہ قال دنی قرب انتہیٰ ۔ والمعنی عندنا فقرب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی ربہ اور بہ الیہ تقربا
اپنی ذات کے لیے بولا ہے۔ جیسے کہ ان اللہ قوی شدید العقاب۔ وھو شدید المحال ۔ اکثر مفسروں نے شدید القوی ذومرہ یعنی بہت بڑی قوت والے صاحب قوت سے جبرائیل مراد لی ہے۔ مگر ہم اس کو نہیں مانتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد خدا ہے۔ پھر وہ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک بلند مکان یعنی اعلیٰ درجہ پر تھا ہم نے ” استوی “ اور ” ھو “ کی ضمیر دونوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد لی ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے یہ بات ظاہر ہے کہ اس سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور معنی یہ ہیں کہ وہ باعتیار رتبہ اور منزلت اور بلند قدر کے ایک عالی مکان میں یعنی درجہ میں تھے نہ یہ کہ وہ درحقیقت کسی مکان میں پہنچ گئے تھے۔ اگر یہ کہا جاوے کہ کس طرح یہ بات درست ہوگی ایسی حالت میں کہ خدا نے ایک اور جگہ فرمایا ” ولقدراہ بالافق المبین “ جس میں اشارہ اس بات کا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل کو افق مبین پر دیکھا تھا۔ تو ہم اس مقام پر بھی وہی کہینگے جو اس مقام پر کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل کو دیکھا اور وہ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افق مبین یعنی مکان روشن میں باعتبار رتبہ ومنزلت کے تھے جیسے کہ کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں نے چاند دیکھا فی المنزلۃ ہالدرجۃ لاتقربا حسیا قال فی التفسیر الکبیر ان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنامن الخلق والا مۃ ولا ن لھم وھار کو احد منھم فتدلی ای فتد لی الیھم بالقول اللین والدعا الرقیق فقال ” انا بشر مثلکم یوحی الی “ وعلی ھذا ففی الکلام کما لان کانہ تعالیٰ قال الوحی یوحے جبرائیل علی محمد فاستوی محمد وکمل فدنا من الخلق بعد علوہ وتدلی الیھم وبلغ الرسالۃ۔ وفی التفسیر المذکور اوالمودامنہ ھو ربہ تعالیٰ وھو مذہب القائلین لالجہۃ والمکان النھم الا ان یرید القرب بالمنزلۃ وعلی ھذا یکون فیہ مافی قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکایۃ عن ربہ تعالیٰ من تقرب الی تبرا تقویت الیہ ذراعا ومن تقرب الی ذرا عاتقربت الیہ باعاد ومن مشی الی اتیتہ ھرولۃ اشارۃ الی المعنی الجازی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استوی وعلی فے المنزلۃ العقلیۃ لا فی المکان الحسی قال و قرب الہ منہ تحقیقاً لما فی قولہ من ترقبالی ذراعا تقویت الیہ باعا۔
فکان قاب قوسین اوادنی ای بین محمد (علیہ السلام) وبین ربہ مقدار قوسین واقل وردھذا علی استعمال العرب قال فی التفسیر الکبیر یکون قوس عبارۃ عن بعد من قاس یقوس یقوس فاوحی ای اوحی اللہ الی عبدہ مااوحی ماکذب الفواد مارای قال فی التفسیر الکبیر المشہورانہ فواد
وہ پوچھے کہ کہا دیکھا اور وہ جواب دے کہ چھت پر۔ اس سے مراد یہ ہوگی کہ دیکھنے والا چھت پر تھا نہ کہ چاند چھت پر تھا۔ اور مبین کے معنی ہیں جدا کرنے والے لے اور یہ بنا ہے لفظ ابان سے جس کے معنی جدا کرنے کے ہیں۔ پس مطلب یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان اور فرشتہ کے درجہ اور منزلت کے جدا کرنے والے افق پر تھے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اخیر درجہ پر پہنچ گئے تھے اور نبی ہوگئے تھے جس طرح اور بعضے نبی نبی ہوئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی ہوتی تھی سوتے میں اور اصلی حالت میں۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنچ گئے تھے افق اعلیٰ کو یعنی اس افق کو جو جدا کرنے والا ہے دونوں درجوں کو (یعنی ملکیت اور بشریت کو) ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 3
تفسیر سرسید:۳
اور تفسیر کبیر میں لکھا ہے اگر یہ کہا جائے کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا۔ حدیثیں اس کے برخلاف دلالت کرتی ہیں۔ جہاں کہ حدیثوں میں آیا ہے کہ جبرائیل نے اپنے آپ کو اپنی اصلی صورت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا اور مشرق کو گھیر لیا۔ تو ہم کہینگے کہ ہم نے ایسا نہیں کہا کہ یہ نہیں ہوا۔ اور حدیث میں یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارادہ کیا ہے اس بات کے کہنے کا یعنی جو حدیثوں میں ہے تاکہ حدیثوں کی مخالفت لازم آوے۔ بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معناہ اندہ ماکذب فوادہ والام لتعریف ما علم احالہ لسبق ذکر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی خولۃ الی عبدہ وفی قولہ ” وھوبالا فق الاعلی وقولہ تعالیٰ “ ما ضل صاحبکم “ والرای ھو فواد محمد (علیہ السلام) والمرئی الایات العجیبۃ لا طیۃ۔ افتماروتہ علے مایری ای علی مانذرای محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولقدراہ ای محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ربہ برویۃ الفواد نزلۃ وفی التفسیر الکبیر النزول بالقرب المعنوی لا الحسی فان اللہ تعالیٰ قد یقرب بالرحمۃ والفضل من عبدہ ولا یراہ العبد ولھذا قال موسیٰ (علیہ السلام) رب ارنی ای ازل بعض حجب العظمۃ والجلال وادن من العبد بالرحمۃ والا فضال لاراک اخری فی تفسیر ابن عباس مرۃ اخری غیر الذی اخبر کم باعند سدرۃ المنتہیٰ عند ھاجنۃ الماوی وھذا دلیل علی ان الواقعۃ التی ذکر ھانی ھذہ السورۃ ماعد وانعۃ المعراج فانضما مھا براقعۃ المعراج لیس بصحیح ولہ دلیل ثابت فی لا یۃ الاتیۃ۔ اذ یغشی السدرۃ ما یغشی وھذا خبار عما وقع فی المعرج فی البخاری عن ابن شھاب عن انس ابن مالک
ہم کہتے ہیں کہ جبرائیل نے اپنے تئیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو دفعہ دکھایا اور اپنے بازو پھیلا دیئے اور مشرق کی طرف کو گھیر لیا۔ لیکن یہ آیت اس بیان میں نازل نہیں ہوئی۔ واضح ہو کہ اس مقام پر ہم کو اس بات سے بحث کرنی کہ جبرائیل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس طرح پر دکھلایا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کس طرح پر دیکھا ضرور نہیں ہے۔ کیونکہ اس بحث کو چھیڑیں تو خلط مبحث ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے فرمایا پھر وہ قریب ہوا پھر قریب ہوگیا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ دنو اور الی کے لفظ جو اس آیت میں آنے ہیں۔ ان کے ایک ہی معنی ہیں۔ ان کے ایک ہی معنی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قریب ہوا پھر قریب ہوگیا۔ ہمارے نزدیک ان دونوں لفظوں دنی۔ لتدلی میں جن کے معنی ہیں قریب ہوا پھر قریب ہوگیا۔ جو شھہریں ہیں وہ خدا اور پیغمبر خدا کی طرف پھرتی ہیں۔ اور معنی یہ ہیں۔ کہ قریب ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب سے یا ان کا رب ان سے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے۔ اس قرب سے قریب ہوا منزلت اور درجہ میں مراد ہے نہ ظاہر میں دو چیزوں کے عن ابی ذر۔ ثم انطلق بی حتی انتہی بی الے السدرۃ المنتہیٰ وغشیھا الوان لا ادری ماھی۔ وفی النسائی عن سعید ابن عبدالعزیز عن یزید ابن ابی مالک عن انس ابن مالک ۔ ثم صعدبی فوق سبع سموات فاتیناالسدرۃ المنتہیٰ فغشیتی ضبابۃ فخررت ساجدا۔ وشریک ابن عبداللہ فی حدیثہ عن انس ابن مالک اتی بعدۃ الفاظ من سورة النجم قال حتی جاء سدرۃ المنتہیٰ ودنی الجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان قاب قوسین اوادنی فاوحی اللہ الیہ فیما یوحی اللہ۔ مازاغ البصر وما صغی فی التفسیر الکبیر واما علی قولنا غشیھا نور فقولہ ” مازاغ “ ای ما مال عن الانوار ” وما طغیــ“ ای ما طلب شیئا ورائھا۔۔۔ وفیہ وجہ اخروھوان یکون ذلک بیان لوصول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی سدرۃ الیقین الذی لا یقین فوقہ ولقدری من ایات ربہ الکبری وھذا کقولہ تعالیٰ فی سورة الاسلا “ نترہ من ایاتنا “
پاس پاس ہوجانے سے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا کے لوگوں سے اور اپنی امت سے قریب ہوئے۔ اور ان کے لیے نرم ہوگئے۔ اور انہی میں سے ایک کی مانند ہوگئے۔ پھر قریب ہوگئے ان سے نرم باتوں اور نرم کلام سے پھر کہا میں انسان ہوں تم جیسا۔ وحی آتی ہے مجھ پر۔ اور اس بنا پر کلام میں دو خوبیاں ہیں گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر وحی کہ لاتے ہیں جبرائیل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کامل اور پورے ہوئے۔ پھر اپنے اونچے ہونے بعد دنیا کے لوگوں سے قریب ہوئے۔ اور ان سے نزدیک ہوئے اور خدا کا پیغام پہنچادیا۔
اسی تفسیر میں ہے کہ تدلی کی ضمیر خدا کی طرف پھرتی ہے اور یہ ان کا مذہب ہے جو خدا کے لیے جہت اور مکان کے قائل ہیں۔ مگر حاشوکلا قرب سے سوائے قرب منزلت کی اور کچھ مراد نہیں ہے۔ اور بلحاظ اس مطلب کے ہے مطلب اس قول کا جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کی طرف سے کا ہے کہ جو مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے میں اس سے ہاتھ بھر نزدیک ہوتا ہوں اور جو مجھ سے ہاتھ بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ اور جو میری طرف چلتا ہے میں اس کی طرف دوڑ کرجاتا ہوں۔ یہاں قرب سے معنی مجازی مراد ہیں نہ حقیقی۔ اور یہی ہم نے اختیار کیا ہے۔ اور یہاں جب بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کامل ہوئے اور عقلی مرتبہ میں اونچے ہوئے نہ کہ حسی مرتبہ میں۔ تو پھر فرمایا کہ خدا ان سے قریب ہوا تحقیقاً جیسا کہ اس نے فرمایا کہ ہجو میری طرف ہاتھ بھر بڑھتا ہے میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں۔ پھر رہ گیا فاصلہ دو کمانوں کا یا اس سے بھی کم یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خدا کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ یا اس سے بھی کم رہ گیا۔ یہ الفاظ عرب کے محاورہو کے موافق آئے ہیں۔
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ قوس سے دوری مراد ہوسکتی ہے کیونکہ قاس یقوس کے معنی ہیں دور ہوا اور دور ہوگا۔ پھر وحی بھیجی یعنی اللہ نے اپنے بندہ کی طرف جو بھیجی۔ نہیں جھٹلایا دل نے اس چیزکو کہ دیکھا تھا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ کہ مشہور یہ ہے کہ یہاں دل سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل مراد ہے۔ معنی یہ کہ ان کے دل نے نہیں جھٹلایا۔ اور لام تعریف کا اس لیے آیا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پہلے ذکر ہوچکا ہے خدا کے اس قول میں کہ اپنے بندہ کی طرف اور اس قول میں کہ وہ اونچی افق پر تھا اور اس قول میں کہ تمہارا صاحب نہیں بھٹکا۔ اور دیکھنے والا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل ہے اور جو دیکھا وہ خدا کی عجیب نشانیاں ہیں۔
کیا تم جھگڑتے ہو اس سے اس چیز پر کہ اس نے دیکھی یعنی اس پر جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا اور بیشک دیکھا اس کو یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دل کی بینائی سے دیکھا۔ انزتا تفسیر کبیر میں ہے کہ یہاں قرب سے نزول معنوی مراد ہے نہ حسی کیونکہ خدا کبھی رحمت اور مہربانی کے ساتھ اپنے مہربانی کے ساتھ اپنے بندہ سے قریب ہوتا ہے۔ اور بندہ اس کو نہیں دیکھتا۔ اسی لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے خدا مجھ کو دکھا یعنی عظمت و جلال کا ایک پردہ ہٹا دے اور رحمت اور مہربانی کے ساتھ اپنے بندہ سے قریب ہو۔ تاکہ تجھ کو دیکھوں۔ دوسری بار تفسیر ابن عباس میں ہے کہ دوسری بار نہ وہ کہ جس کی تم کو خبر دی۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جس کے پاس جنت الماویٰ ہے یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ جو واقعہ اس سورة میں بیان ہوا وہ معراج کے سوا ایک اور واقعہ ہے۔ اس کا ملانا واقعہ معراج کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ اور اگلی آیت میں دوسری دلیل ہے۔ جب چھا گیا سدرہ پر جو چھا گیا یعنی ڈھانپ لیا سدرہ کو جس نے ڈھانپ لیا یہ واقعہ معراج کی خبر ہے۔ بخاری میں ابن شہاب سے پھر انس بن مالک سے پھر ابوذر سے روایت ہے کہ پھر مجھ کو لے گیا یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا دیا۔ اور اس پر ایسے رنگ چھائے تھے کہ میں نہیں سمجھا وہ کیا چیز تھے اور نسائی میں سعید بن عبدالعزیز سے پھر یزید بن ابو مالک سے پھر انس بن مالک سے روایت ہے کہ پھر مجھ کو سات آسمانوں سے اوپر لے گیا۔ پھر ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے اور مجھ پر ایک کہر سی چھا گئی اور میں سجدہ میں گرا۔ اور شریک بن عبداللہ نے اپنی حدیث میں جو انس بن مالک سے روایت کی ہے چند الفاظ سورة النجم کے بیان کردیئے ہیں۔ اور کہا کہ یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک آیا۔ اور خدائے رب العزت قریب ہوا پھر قریب ہوگیا۔ یہاں تک کہ دو کمانوں کا فاصلہ یا اس سے بھی کم رہے گیا۔ پھر خدا نے اس کی طرف وحی بھیجی جو کچھ بھیجی۔ نہیں بہکی نظر نہ حد سے بڑھی تفسیر کبیر میں ہے کہ ہمارے اس قول کے موافق کہ اس پر نور چھایا ہوا تھا۔ خدا کے اس قول کے معنی یہ ہوں گے کہ نروہ انوار سے دور ہوا۔ نہ سوائے ان کے اور چیز اس نے طلب کی۔ اور ایک معنی اس کے اور بھی ہیں۔ وہ یہ کہ شاید یہ بیان ہو حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سدرۃ الیقین تک پہنچنے کا جس سے بالا تر کون یقین نہیں ہے۔ اور بیشک دیکھیں اس نے اپنے خدا کی بڑی نشانیاں۔ یہ قول خدا کا ایسا ہے جیسا سورة اسرا میں ہے تاکہ ہم اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں انتہیٰ ۔
اس تفسیر میں ہم نے ” شدید القوی ذومرہ “ سے خدا مراد لی ہے اور اکثر مفسرین نے جب جبرائیل مرادلی ہے حالانکہ جبرائیل کے مراد لینے کے لیے کوئی اشارہ اس مقام میں نہیں ہے بلکہ جب خدا نے سورة قیامہ میں فرمایا ہے ” ان علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ “ تو نہایت مناسب ہے کہ ” علمہ شدید القوی ذومرہ “ سے خدا مراد لی جاوے لیکن اگر جبرائیل مراد لیجاوے تو اس وقت یہ بحث پیش ہوگی کہ حقیقت جبرائیل کیا ہے اور نتیجہ بحث کا یہ ہوگا کہ ھو قوت اللہ قدرتہ اور اس وقت شدید القوی ذومرہ سے خدا مرا لینا یا جبرائیل مراد لینا دونوں کا نتیجہ متحد ہوجائے گا
سورة والنجم میں یہ آیت ہے ” فاستوی وھو بہ لا فق الا علی “ اسی کی مانند ایک آیت سورة تکویر میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” لقدراہ بالافق المبین “ صاحب تفسیر کبیر نے جس طرح کہ وھو بالا فق الا علی کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق کیا ہے اسی طرح بالافق المبین کو بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق کیا ہے مگر راہ میں جو ضمیر غائب کی ہے اس کو جبرائیل کی طرف راجع کیا ہے مگر جب ہم ان دونوں آیتوں میں سے ایک کی تفسیر دوسری آیت سے کریں تو سورة تکویر کی آیت کی تفسیر اس طرح پر ہوتی ہے لقدرا دی را اللہ محمد بالا من المبین ای علی مرتبۃ ومنزلۃ فی رتقہ القدر کما نسر صاحب لتفسیر الکبیر قولہ تعالیٰ بالا فق الا علی ۔
پس اس تیسری دلیل میں جو سورة والنجم کی آیت کو معراج سے متعلق کیا ہے اور شفاء میں قاضی عیاض نے جو یہ حجت پکڑی ہے کہ اگر معراج سوتے میں ہوتی تو اس میں نہ کوئی نشانی ہوتی نہ معجزہ درست نہیں ہے اس لیے کہ اگر معراج رات کو بجسدہ اور جاگنے کی حالت میں ہوئی ہوتی تو بھی اس پر معجزہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ معجزہ کے لیے تحدی اور اس کا وقوع سب کے سامنے اور کم سے کم منکرین کے سامنے ہونا لازم ہے معراج اگر رات کو چپکے چپکے ہوگئی تو وہ معجزہ کیونکر قرار پاسکتی ہے۔
مگر یہ کہنا قاضی صاحب کا کہ نہ کوئی نشانی ہوتی صحیح نہیں ہے اس لیے کہ انھوں نے آیت کو معجزہ سے علیحدہ بیان کیا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ انبیاء (علیہم السلام) کے خواب جن میں وحی کا ہونا بھی ممکن ہے آیت من ایات اللہ ہوتے ہیں بخاری میں حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے ” اول مایدءی بہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الوحی الیوبا الضالحہ فی النوم “ یعنی حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اول اول جب وحی آنی شروع ہوئی تو اچھی اور سچی خوابوں کا دیکھنا تھا اور بلاشبہ وہ ایک آیت ہوتی ہیں آیات اللہ میں سے۔
چوتھی دلیل تو اس سے زیادہ بودی ہے۔ حضرت عائشہ کا مذہب یہ ہے کہ معراج بجسدہ نہیں ہوئی۔ مگر قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ مشہور مذہب حضرت عائشہ کا یہ نہیں ہے۔ بلکہ صحیح مذہب ان کا اس کے برخلاف ہے کیونکہ انھوں نے خدا کی رویت سے واقعہ معراج میں انکار کیا ہے اور اگر معراج صرف خواب ہوتی تو وہ روایت کا انکار نہ کرتیں۔
اول تو یہ پوچھنا ہے کہ خواب میں خدا کے دیکھنے کی حضرت عائشہ قائل ہیں۔ اس کا کیا ثبوت ہے ؟ کیونکہ خدا کو نہ کوئی جاگتے میں دیکھ سکتا ہے نہ خواب میں۔
حضرت عائشہ کے انکار رویت پر جو دلیل قاضی عیاض نے بیان کی ہے وہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے استنباط کی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ اس حدث سے کسی طرح یہ استدلال نہیں ہوسکتا کہ حضرت عائشہ خواب میں روایت باری کی قائل تھیں۔ اس حدیث میں صرف اتنا بیان ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ بات کہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو دیکھا تھا۔ تو وہ خدا پر بہتان باندھتا ہے۔
مسروق وہاں موجود تھے انھوں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ قرآن میں تو ہے۔ ” ولقدراہ بالا فق المبین “ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو افق مبین پر دیکھا ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ چکی ہوں۔ اس سے مراد جبرائیل کا دیکھنا ہے۔ اور یہ بھی حضرت عائشہ نے کہا کہ خدا نے فرمایا ہے ” لا تدرکہ الا بصار وھو یدرک الا بصار “ اتنے کلام میں کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ خواب میں خدا کے دیکھنے کی قائل تھیں۔
اگر کوئی یہ استدلال کرے کہ حضرت عائشہ کا مذہب یہ تھا کہ معراج بجسدہ نہیں ہوئی اور اس لیے انھوں نے اس حدیث میں خدا کے دیکھنے سے انکار کیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ قاضی عیاض نے جو یہ بات لکھی ہے ” الذی یدل علیہ صحیح قولھا انہ بجسدۃ “ غلط اور باطل ہے۔
علاوہ اس کے حدیث مذکور میں عام طور پر بلا ذکر معراج کے حضرت عائشہ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے خیال کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خدا کو دیکھا ہے تو اس نے خدا پر بہتان کیا اور اس میں کچھ ذکر نہیں ہے آنکھ سے دیکھنے یا خواب میں دیکھنے کا۔ تو کسی طرح اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عائشہ کا یہ مذہب تھا کہ خواب کی حالت میں انسان خدا کو دیکھ سکتا ہے۔ بقیہ تفسیر اگلی آیت میں
 
Top