سبحن الذی : سورۃ الإسراء : آیت 4
وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾
تفسیر سرسید :۱
پچھلی تفسیر کا بقیہ
پانچویں دلیل بھی نہایت بودی ہے۔ وہ دلیل اس امر پر مبنی ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں جانا خواب کی حالت میں بیان کرتے تو قریش اس سے انکار نہ کرتے اور جھگڑے کے لیے مستعد نہ ہوتے۔ ان کا جھگڑا صرف اسی لیے تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیت المقدس بجسدہ جانا خیال کیا گیا تھا۔ اس دلیل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی مخالفت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی وجہ سے تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعویٰ نبوت و رسالت کیا تھا۔ اور واقعات معراج جو کچھ ہوئے ہوں وہ نبوت اور رسالت کے شعبوں میں سے تھے اور اس لیے ضروری تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان واقعات کا سوتے میں دیکھنا فرمایا ہو یا جاگنے کی حالت میں۔ قریش اس سے انکار کرتے اور نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے کیونکہ وہ اصل نبوت و رسالت سے منکر تھے پھر جو امور کہ شعبہ نبوت تھے ان سے بھی انکار کرنا ان کو لازم تھا۔
قریش خواب کو بھی شعبہ نبوت سمجھتے تھے اور جو خواب کو ان کے مقصد کے برخلاف ہوتا تھا۔ اس سے گھبراہٹ اور ناراضی ان میں پیدا ہوتی تھی۔ اس کی مثال میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک لمبا چوڑا خواب ہے۔
وکانت عاتکۃ بنت عبدالمطلب قدر ات قبل قدومہ ضمضم مکۃ بثلاث لیال رویا افزعنھا فقص تھا علیٰ اخیہ العباس واستکتمہ خبرھا۔ قالت رایت را کیا علی بعیر لہ و اقفا بالا بطح شدہ صرخ با علی صوتہ ان انفرولیاہل قدرالمصارعکم فے ثلاث قالت فاری الناس قد اجتمعوا الیہ ثم دخل المسجد فمثل بعیرہ علی الکعبۃ ثم صرخ مثلھا ثم مثل بعیرہ علی راس ابی قیس فصرخ مثلھا ثم اخذ صخرۃ عظیمۃ و ارلھا فلما کانت باسفل الوادی ار فضبت فما بقی تیت من مکۃ الا دخلہ فلقہ مربا فخرج العباس فلقی الولید بن عتنبہ بن ربیعہ وکان فدیقہ فان کرھا لہ واستکتمہ ذلک فذکر ھا الولید لا بیہ عتبہ ففنا الخبر فلقی ابوجھل العباس فقال لہ یا ابا الفصل اقبل الینا قال فلما فرغت من طوافی اقبلت الیہ فقال لی متی حدثنا فیکم ھذہ النبیۃ وذکر رویا عاتکۃ ثم قال ما رضیتم ان نبنا و جالکم حتی حجانساؤ کم (صیحہ جلد دوئم تاریخ کامل ابن اثیر)
عاتکہ نے جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں ضمضم کے مکہ میں آنے سے تین دن پہلے ایک ہول ناک خواب دیکھا تھا۔ اور اس کو اپنے بھائی عباس سے بیان کیا اور چاہا کہ وہ اس خاب کو پوشیدہ رکھیں۔ عاتکہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک شتر سوار دیکھا جو وادی بطی میں کھڑا ہے۔ اس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکارو اپنے مقتل کی طرف تین دن میں بھاگو۔ عاتکہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور وہ مسجد میں داخل ہوا اور کعبہ کے سامنے اپنا اونٹ کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر اپنے اونٹ کو کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر پتھر کی ایک بڑی چٹان لے کر ہاتھ سے چھوڑی چونکہ مکہ وادی کے نشیب میں بسا ہوا تھا چٹان کے ٹکڑے بکھرگئے اور کوئی مکان مکہ کا نہیں بچا جس میں پتھر کا ٹکڑا نہ گرا ہو۔ اس خواب کو سن کر عباس نکلے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے جو ان کا دوست تھا ملے اور اس خواب کا اس سے ذکر کیا۔ اور اس سے اس خواب کے چھپانے کی خواہش کی ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس خواب کو بیان کیا اور چرچا پھیل گیا۔ پھر ابوجہل کی ملاقات عباس سے ہوئی۔ اس نے ان سے کہا اے ابوالفضل میرے پاس آؤ۔ عباس کہتے ہیں کہ کعبہ کے طواف سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ تم میں یہ پیغمبر ی کب سے پیدا ہوگئی اور اس نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا۔ پھر کہا اس سے تمہاری تسلی نہیں ہوئی کہ تمہارے مردوں نے نبوت کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ تمہاری عورتیں بھی پیغمبری دعویٰ کرنے لگیں۔
اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی بہت سی باتیں جو خواب میں دیکھی ہونگی لوگوں سے بیان کی ہونگی منجملہ ان کے بیت المقدس میں جانا اور اس کو دیکھنا بھی بیان فرمایا ہوگا۔ قریش سوائے بیت المقدس کے اور کسی حال سے واقف نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیت المقدس کے حالات دریافت کئے۔ چونکہ انبیاء کے خواب صحیح اور سچے ہوتے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بیت المقدس کا حال خواب میں دیکھا تھا بیان کیا جس کو رایوں نے ” فجعلی اللہ لی بیت المقدس، فرفعہ اللہ لی انظر الیہ “ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے پس اس مخاصمت سے جو قریش نے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ اور بیداری کی حالت میں بیت المقدس جانا ثابت نہیں ہوسکتا۔
چھٹی دلیل طبرانی اور بیہقی کی احادیث پر مبنی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا ایسا درجہ نہیں ہے جن کی حدیثوں سے رداً و قبولاً بحث ہوسکتی ہے۔ اس کا کچھ ذکر نہ ہو۔ باایں ہمہ امہانی کی حدیث سے تو کوئی امر ثابت نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس حدیث میں ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء یہاں پڑھی اور ہمارے پاس سو رہے۔ پھر صبح کو ہم کو جگایا اور صبح کی نماز ہمارے ساتھ پڑھی۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عشاء کی نماز تو میں نے تمہارے ساتھ پڑھی اور پھر میں بیت المقدس میں گیا اور وہہاں نماز پڑھی پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی۔
اس حدیث میں یہ لفظ ہیں ” ثم جئت بیت المقدس “ اور اسی پر قاضی عیاض نے استدلال کیا ہے کہ اسراء بجسدہ تھی حالانکہ صرف ” جئت “ کے لفظ سے جس کے ساتھ کچھ بیان نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جانا یہ روحانی طور پر تھا یا جسمانی طور پر ۔ بجسدہ جانے پر استدلال نہیں ہوسکتا خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس کی تشریح اس مقام پر ہونی ضروری تھی۔
دوسری حدیث۔ شداد بن اوس کی ایسی رکاکت لفظ و معنی پر مشتمل ہے اور جو طرز کہ حدیث بیان کرنے کا ہے۔ اس سے اس قدر بعید ہے کہ کسی طرح قابل اعتماد نہیں۔
صورت دوم یعنی اسراء کا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہونا
اور معراج کا اس کے بعد بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک بروحہ ہونا
ایک قلل گروہ علما اور محدثین کا یہ مذہب ہے کہ اسرا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہوئی اور اس کے بعد بروحہ ۔ جن لوگوں کا یہ مذہب ہے وہ مکہ سے بیت المقدس تک جانے کا نام اسرا رکھتے ہیں اور بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا معراج۔
وذھب بعضھمالی ان الا سراء کان فی الیقظۃ والمعراج کان فی النوم۔ قال اللہ سبحانہ و تعالیٰ قال ” سبحان الذی اسرے بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا قصیٰ “ فلووقع المعراج فی الیقظۃ کان ذلک ابلغ فی الذکوالی اخرہ۔ (فتح الباری جلد صفحہ )
ان کی اس رائے کی تائید میں نہ قرآن مجید میں کچھ تصریح ہے اور نہ احادیث سے اس کی تصریح معلوم ہوتی ہے مگر فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ اسرا بیداری کی حالت میں ہوئی اور معراج سونے کی حالت میں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک “ اور اگر معراج جاگنے میں ہوتی تو اس کا ذکر کرنا زیادہ بلیغ ہوتا۔
اگرچہ اس بیان میں اسرا کے بجسدہ ہونے کا کچھ ذکر نہیں مگر لفظ فی الیقظۃ اسرا ہونے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بجسدہ فی الیقظۃ ہوئی تھی۔
مگر اس دلیل کے ناکافی ہونے کے لیے اسی بات کا کہنا کافی ہے کہ بلاشبہ خدا نے فرمایا ہے کہ ” سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد والحرام الی المسجد الاقصیٰ “ مگر اس میں کچھ ذکر یا اشارہ اس بات کا کہ اسرا بحالت بیداری اور بجسدہ ہوئی تھی نہیں ہے پس اس آیت سے اس بات پر کہ معراج بحالت بیداری ہوئی تھی استدلال نہیں ہوسکتا۔
اس بیان سے جو فتح الباری میں ہے لازم آتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں پہنچنے کے بعد سو رہے تھے اور اس کے بعد معراج یعنی عروج الی السموات سونے کی حالت میں ہوا تھا حالانکہ کسی حدیث سے نہیں پایا جاتا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں پہنچ کر سو رہے ہوں۔
علاوہ اس کے ہم نے صورت اول کی بحث میں ظاہر کیا ہے کہ کوئی دلیل اس بات پر نہیں ہے کہ اسرایا معراج بحالت بیداری وبجسد ہوئی تھی اور جو کہ اسرا بھی اسی کا ایک جزو ہے اس لیے اسرا کا بھی بحالت بیداری اور بجسدہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور اس کے لیے جداگانہ دلیلوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
تیسری صورت یعنی معراج کا جس میں اسرا بھی داخل ہے ابتدا سے
انتہا تک بروحہ اور سونے کی حالت میں یعنی خواب میں ہونا
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک قلیل گروہ علماء محدثین کا یہ مذہب ہے کہ معراج ابتدا سے انتہا تک سونے کی حالت میں ہوئی تھی یعنی وہ ایک خواب تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا مگر اس کی دلیلیں ایسی قوی ہیں کہ جو شخص ان پر غور کرے گا وہ یقین کرے گا کہ تمام واقعات معراج سونے کی حالت یعنی خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھے تھے اور اس کے لیے یہ دلیلیں ہیں۔
اول۔ دلالت النص یعنی خدا کا یہ فرمانا کہ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا یعنی رات کو خدا اپنے بندہ کو لے گیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خواب میں یہ امر واقع ہوئے تھے جو وقت عام طور پر انسانوں کے سونے کا ورنہ ” لیلا “ کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی۔ اور ہم اس کی مثالیں بیان کرینگے کہ خواب کے واقعات بلا بیان اس بات کے کہ وہ خواب ہی بیان ہوئے ہیں کیونکہ خود وہ واقعات دلیل اس بات کی ہوتے ہیں کہ خواب کا وہ بیان ہے۔
دوم : خود اسی سورة میں خدا نے معراج کی نسبت فرمایا ہے ” وما جعلنا الوڈیا اللتی اینک الا فتنۃ للناس “ یعنی ہم نے نہیں کیا اس خواب کو جو تجھے دکھایا مگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔ بخاری میں عبداللہ ابن عباس سے دو حدیثیں ہیں کہ اس آیت میں جس میں رویا کا ذکر ہے اس سے معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دیکھا وہ مراد ہے مگر اس مقام پر لفظ رویا کی نسبت جو قرآن مجید میں ہے اور لفظ عین کی نسبت جو عبداللہ ابن عباس کی روایت میں ہے بحث ہے جس کو ہم آئندہ بیان کرینگے اور ثابت کرینگے کہ رویا سے خواب ہی مراد ہے اور لفظ عین سے جو عبداللہ ابن عباس کی حدیث میں آیا ہے ان معنوں میں کچھ تغیر نہیں ہوتا۔
حدثناعلی ابن عبداللہ قال حدثنا سفیان عن عمرو عن عکرمہ عن ابن عباس و ما جعلنا الرویا اللتی ادیناک الا فتنۃ للناس قالھی رویا عین ارنھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسری بہ الخ۔ (بخاری صفحہ )
پہلی حدیث بخاری کی یہ ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی بن عبداللہ نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے عمر سے اس نے عکرمہ سے اس نے ابن عباس سے کہ آیت ” وماجعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں لفظ رویا سے آنکھ کو دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء کی رات دکھایا گیا ۔
حدثنا
دوسری حدیث بخاری کی یہ ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے حمیدی نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے عمر نے عکرمہ سے اس نے ابن عباس سے کہ آیت ” وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں لفظ رویا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا گیا اس رات جب کہ بیت المقدس لے جائے گئے۔
سوم : مالک بن صعصعہ اور انس بن مالک کی حدیثیں جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ معراج کے وقت آپ سوتے تھے اور ان حدیثوں کے مندرجہ ذیل الفاظ ہیں۔
مالک بن صعصعہ کی حدیثوں میں ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” بینا انا عند البعیت بین النائم والیقظان “
ان یہ مالک بن صعصعہ کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” بینما انافی الحطیم وربما قال فی الحجر مضطجعا “
انس بن مالک کی حدیثوں میں ہے ” فیما یری قلبہ وتنامہ عینہ ولا بنا مرقلبہ “ اور اسی حدیث کے آخر میں ہے ”
فاستیقظ وھو فی المسجد الحرام “
صحاح کی اور کسی حدیث میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کسی وقت معراج کے اوقات میں آپ جاگتے تھے۔
چہارم : معاویہ ۔ حسن۔ حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ کا مذہب تھا کہ اسراء یا معراج خواب میں ہوئی ہے۔
مگر قاضی عیاض نے جو قول نقل کئے ہیں ان کے اوپر کچھ اعتراض بھی وارد کئے ہیں۔ خصوصاً حضرت عائشہ کے قول پر۔ مگر جب ہم اس وجہ کی تشریح کرینگے تو بیان کرینگے کہ وہ اعتراض صحیح نہیں ہے اور اس قدر ہم اب بھی یاد دلا دیتے ہیں کہ شفاء قاضی عیاض میں حضرت عائشہ کا قول مذکور ہے اور جس میں ” مافقدت “ کا لفظ بصیغہ متکلم آیا ہے وہ صحیح نہیں بلکہ صحیح لفظ ہے ” مافقد “ بصیغہ مجہول۔ چنانچہ ہم اس کا اشارہ اوپر بھی کرچکے ہیں۔ اور بیان کرچکے ہیں کہ عینی شرح بخاری میں بجائے لفظ ” مافقدت “ کے لفظ ” ما فقد “ چھایا ہوا ہے اور مصحیح شفا نے ” مافقد “ کے لفظ کو اختیار کیا ہے۔ دیکھو ہماری تفسیر کا صفحہ ۔
بہرحال جن روایتوں سے معاویہ اور حسن اور حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ کا مذہب پایا جاتا ہے ان کو ہم بعینہ نقل کرتے ہیں۔
واختلف فی انہ کان فی الیقظۃ ارفی المنام فعن عائشہ (رض) انھا قالت واللہ ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولا کن عرج بروحہ وعن معاویۃ انما عرج بروحہ وعن الحسن کان فی المنام رویاواھا و اکثر الا قاویل بخلاف ذلک۔ (کشاف صفحہ )
کشاف میں ہے کہ اس بات میں اختلاف ہے کہ معراج جاگتے میں ہوئی یا سوتے میں۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا خدا کی قسم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم غائب نہیں ہوا بلکہ ان کو روح کو معراج ہوئی اور معاویہ کا قول ہے کہ معراج بروحہ ہوئی۔ اور حسن سے منقول ہے کہ معراج ایک واقعہ تھا جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا۔ اور اکثر قول اس کے برخلاف ہیں۔
وفی التفسیرالکبیر حکی عن محمد بن جریر الطبری فی تفسیر عن حذیفۃ ان قال ذلک رویا وانہ ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و انما اسری بروحہ وحکی ھذا القول عن عائشۃ وعن معاویہ ۔ (تفسیر کبیر جلد چھارم صفحہ )
اور تفسیر کبیر میں ہے کہ محمد بن جربر طبری نے اپنی تفسیر میں حذیفہ بن الیمان کا یہ قول لکھا ہے کہ واقعہ معراج ایک خواب تھا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم غائب نہیں ہوا۔ بلکہ ان کی روح کو معراج ہوئی اور یہی قول حضرت عائشہ اور معاویہ سے منقول ہے۔
قال ابن اسحاق وحدثنی بعض ال ابی بکر ان عائشۃ کانت تقول ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولکن اللہ اسری بروحہ وسال ابن اسحاق وحدثنی یعقوب بن عتبہ بن المغیرۃ بن الاخنس ان معاویۃ بن سفیان کان اذا سئل عن سری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال کانت رویا من اللہ صاقۃ فلمہ یکنکر ذلک من تولھما لقول الحسن ان ھذہ الا یہ نزلت فی ذلک قول اللہ عزوجل وما جعلناالرویا اللتی اریناک الا فتنۃ الناس ولقول اللہ عزوجل فی الخبر عن ابراھیم (علیہ السلام) اذا قال لا بنہ یا بنی انی
اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ سے آل ابوبکر میں سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا بلکہ خدا ان کی روح مبارک کو معراج میں لے گیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ سے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن اخنس نے بیان کیا ہے کہ معاویہ بن سفیان سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کا حال پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ تمام واقعہ خدا کی طرف سے ایک سچا خواب تھا۔ دونوں کے اس قول کا کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔
اری فی المنام انی اذبحک ” ثم مضی علیٰ ذلک فعرفت ان الوی من اللہ یاتی الانبیاء ایقاظاً ونیاما قال ابن اسحق وکان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیما بلغنی یقول تنامہ عینی وقلبی یقطان نا اللہ اعلم ای ذلک کان قدجاہ عاین فیہ ماعا ین من امر اللہ علیٰ ای حالیہ کا نائما اویقظان کل ذلک و حق وصدق۔ (سیرۃ اعن ہشام جلد اول صفحات - مطبوعہ لندن)
کیونکہ حسن کا قول ہے کہ اسی معراج کے باب میں یہ آیت نازل ہوئی ” وما جعلنا الرویا اللتی ایرناک الا فتنۃ للناس “ اور خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) کا خواب بھی حکایتاً بیان کیا ہے ” اذ قال لابنہ یا بنی انی اری فی المنام انی ذبحک “ پھر اس پر عمل کیا اس لیے میں نے جان لیا کہ خدا کی طرف سے انبیاء پر خواب و بیداری دونوں میں وحی آتی ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ پس خدا ہی جانتا ہے کہ کس حالت میں وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کس حالت میں دونوں حالتوں میں سے جو کچھ خدا کے حکم سے دیکھنا تھا دیکھاجاگتے میں با سوتے میں اور یہ سب کچھ حق اور سچ ہے۔
ثم اختلف السلف والعلماء ھل کان الاسراء بروحہ اوجسدہ علی ثلاث مقالات فذھبت طائفۃ الی انہ اسری بروحہ وانہ رویامنام مع القافھم ان رویا الا بنیاء وحی حق والی ھذاذھب معاویہ و حکی عن الحسن والمشہور عنہ خلافہ والیہ اشار محمد بن اسحاق و حجتھم قولہ تعالیٰ ” ووما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ وما حکوا عن عائشۃ مافتدت جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتولہ بنیا انا نائم وقول انس وھو نائم فی المسجد احرام وذکر القضۃ ثم قال فی اخر فاستیقظت وانا بالمسجد الحرام الخ (شفا ھاضی غیاض صفحہ )
شفا قاضی عیاض میں ہے کہ اگلے لوگوں اور عالموں کے اسراء کے روحانی یا جسمانی ہونے میں تین مختلف قول ہیں۔ ایک گروہ اسراء کے روح کے ساتھ خواب میں ہونے کا قائل ہے اور وہ اس پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبروں کا خوب وحی اور حق ہوتا ہے معاویہ کا مذہب بھی یہی ہے۔ حسن بصری کو بھی اسی کا قائل بتاتے ہیں لیکن ان کا مشہور قول اس کے برخلاف ہے اور محمد ابن اسحاق نے اس طرف اشارہ کیا ہے ان کی دلیل ہے خدا کا یہ فرمانا کہ ” نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے “ اور حضرت عائشہ کا یہ قول کہ نہیں کھویا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم کو یعنی آپ کا جسم مبارک معراج میں نہیں گیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ اس حالت میں کہ میں سوتا تھا اور انس کا یہ قول کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مسجد حرام میں سوتے تھے پھر معراج کا قصہ بیان کرکے آخر میں کہا کہ میں جاگا اور اس وقت مسجد حرام میں تھا۔ الخ
پنجم : اگر کسی حدیث میں ایسے امور بیان ہوں جو ایک طرح پر بداہت عقل کے برخلاف ہوں اور ایک طرح پر نہیں اور اگلے علما اور صحابہ کی رائیں مختلف ہوں کہ کوئی اس طرف گیا ہو اور کوئی اس طرف تو بموجب اصول علم حدیث کے لازم ہے کہ اس صورت کو اختیار کیا جاوے جو بداہت عقل کے مخالف نہیں ہے۔
تصریح پہلی دلیل کی
اب ہم پہلی دلیل کی تصریح کرتے ہیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید اور نیز احادیث میں جب کوئی امر خواب کا بیان کیا جاتا ہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس سے پہلے یہ بھی بیان کیا جاوے کہ یہ خواب ہے کیونکہ قرینہ اور سیاق کلام اور نیز وہ بیان خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ بیان خواب کا تھا مثلاً حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اپنا خواب بیان کرتے وقت بغیر اس بات کے کہتے کے میں نے خواب دیکھا ہے یوں کہا ” یا ابت انی رایت احد عشر کو کہ کہا والشمس والقمر رایتم لی سجدین “ لیکن فرینہ اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ خواب ہے اس لیے ان کے باپ نے کہا ” یا بنی لا تعصرو یاک علی اخوتک فیکید والک کیدا “ پس معراج کے واقعات خود اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ کہ وہ ایک خواب ہے اس لیے اس بات کا کہنا کہ وہ خواب ہے ضروری نہیں تھا بلکہ صرف یہ کہنا کہ رات کو اپنے بندہ کو لے گیا صاف قرینہ ہے کہ وہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔
اسی طرح چار حدیثیں عبداللہ ابن عمر کی روایت سے مسلم میں موجود ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کعبہ کے پاس حضرت مسیح (علیہ السلام) اور مسیح دجال کے دیکھنے کا ذکر ہے ان حدیثوں کے لفظ جیسا کہ روایت بالمعنی میں راویوں کے بیان میں ہوتا ہے کسی قدر مختلف ہیں مگر سب میں مسیح (علیہ السلام) اور مسیح دجال کے دیکھنے کا ایک ہی قصہ بیان ہوا ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو خواب میں دیکھا تھا ان حدیثوں میں سے ایک حدیث کے ابتدا میں یہ لفظ ہیں ” رایت عندالکعبۃ رجلا “ یعنی میں نے دیکھا کعبہ کے پاس ایک شخص کو۔ پس اس میں سے کوئی اشارہ لفظی اس بات کا نہیں ہے کہ خواب میں دیکھا تھا مگر خود مضمون اس قصہ کا دلالت کرتا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا اس لیے کسی ایسے لفظ کے لانے کی جس سے خواب کا اظہار ہو ضرورت نہ تھی۔
دوسری حدیث کے شروع میں سے ” ارانی لیلۃ عند الکعبۃ “ اس میں صرف لیلۃ کا لفظ اس بات کا مطلب ادا کرنے کو کو افی سمجھا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا تھا اسی طرح معراج کے قصہ میں خدا کا یہ فرمانا ” اسری بعبدہ لیلا “ اس بات کے اسارہ کے لیے کہ وہ خواب ہی کافی ہے اور بطور دلالت النٹ کے معراج کا روحانی یعنی خواب میں ہونا پایا جاتا ہے۔
تیسری حدیث کے شروع میں یہ الفاظ ہیں ” بینما انا نائم ایتنی اطوف بالکعبۃ “ یعنی جب کہ میں سوتا تھا میں نے دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کرتا ہوں۔ انہی الفاظ کے مثل وہ الفاظ ہیں جو بعض حدیثوں میں جن کو ہم لکھ چکے ہیں معراج کی نسبت آئے ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو خواب نہ سمجھیں۔
وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾
تفسیر سرسید :۱
پچھلی تفسیر کا بقیہ
پانچویں دلیل بھی نہایت بودی ہے۔ وہ دلیل اس امر پر مبنی ہے کہ اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں جانا خواب کی حالت میں بیان کرتے تو قریش اس سے انکار نہ کرتے اور جھگڑے کے لیے مستعد نہ ہوتے۔ ان کا جھگڑا صرف اسی لیے تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیت المقدس بجسدہ جانا خیال کیا گیا تھا۔ اس دلیل کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی مخالفت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی وجہ سے تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعویٰ نبوت و رسالت کیا تھا۔ اور واقعات معراج جو کچھ ہوئے ہوں وہ نبوت اور رسالت کے شعبوں میں سے تھے اور اس لیے ضروری تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان واقعات کا سوتے میں دیکھنا فرمایا ہو یا جاگنے کی حالت میں۔ قریش اس سے انکار کرتے اور نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے کیونکہ وہ اصل نبوت و رسالت سے منکر تھے پھر جو امور کہ شعبہ نبوت تھے ان سے بھی انکار کرنا ان کو لازم تھا۔
قریش خواب کو بھی شعبہ نبوت سمجھتے تھے اور جو خواب کو ان کے مقصد کے برخلاف ہوتا تھا۔ اس سے گھبراہٹ اور ناراضی ان میں پیدا ہوتی تھی۔ اس کی مثال میں عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک لمبا چوڑا خواب ہے۔
وکانت عاتکۃ بنت عبدالمطلب قدر ات قبل قدومہ ضمضم مکۃ بثلاث لیال رویا افزعنھا فقص تھا علیٰ اخیہ العباس واستکتمہ خبرھا۔ قالت رایت را کیا علی بعیر لہ و اقفا بالا بطح شدہ صرخ با علی صوتہ ان انفرولیاہل قدرالمصارعکم فے ثلاث قالت فاری الناس قد اجتمعوا الیہ ثم دخل المسجد فمثل بعیرہ علی الکعبۃ ثم صرخ مثلھا ثم مثل بعیرہ علی راس ابی قیس فصرخ مثلھا ثم اخذ صخرۃ عظیمۃ و ارلھا فلما کانت باسفل الوادی ار فضبت فما بقی تیت من مکۃ الا دخلہ فلقہ مربا فخرج العباس فلقی الولید بن عتنبہ بن ربیعہ وکان فدیقہ فان کرھا لہ واستکتمہ ذلک فذکر ھا الولید لا بیہ عتبہ ففنا الخبر فلقی ابوجھل العباس فقال لہ یا ابا الفصل اقبل الینا قال فلما فرغت من طوافی اقبلت الیہ فقال لی متی حدثنا فیکم ھذہ النبیۃ وذکر رویا عاتکۃ ثم قال ما رضیتم ان نبنا و جالکم حتی حجانساؤ کم (صیحہ جلد دوئم تاریخ کامل ابن اثیر)
عاتکہ نے جو عبدالمطلب کی بیٹی تھیں ضمضم کے مکہ میں آنے سے تین دن پہلے ایک ہول ناک خواب دیکھا تھا۔ اور اس کو اپنے بھائی عباس سے بیان کیا اور چاہا کہ وہ اس خاب کو پوشیدہ رکھیں۔ عاتکہ نے بیان کیا کہ میں نے ایک شتر سوار دیکھا جو وادی بطی میں کھڑا ہے۔ اس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکارو اپنے مقتل کی طرف تین دن میں بھاگو۔ عاتکہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور وہ مسجد میں داخل ہوا اور کعبہ کے سامنے اپنا اونٹ کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر اپنے اونٹ کو کھڑا کیا پھر اسی طرح چلایا پھر پتھر کی ایک بڑی چٹان لے کر ہاتھ سے چھوڑی چونکہ مکہ وادی کے نشیب میں بسا ہوا تھا چٹان کے ٹکڑے بکھرگئے اور کوئی مکان مکہ کا نہیں بچا جس میں پتھر کا ٹکڑا نہ گرا ہو۔ اس خواب کو سن کر عباس نکلے اور ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے جو ان کا دوست تھا ملے اور اس خواب کا اس سے ذکر کیا۔ اور اس سے اس خواب کے چھپانے کی خواہش کی ولید نے اپنے باپ عتبہ سے اس خواب کو بیان کیا اور چرچا پھیل گیا۔ پھر ابوجہل کی ملاقات عباس سے ہوئی۔ اس نے ان سے کہا اے ابوالفضل میرے پاس آؤ۔ عباس کہتے ہیں کہ کعبہ کے طواف سے فارغ ہو کر میں اس کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ تم میں یہ پیغمبر ی کب سے پیدا ہوگئی اور اس نے عاتکہ کے خواب کا ذکر کیا۔ پھر کہا اس سے تمہاری تسلی نہیں ہوئی کہ تمہارے مردوں نے نبوت کا دعویٰ کیا یہاں تک کہ تمہاری عورتیں بھی پیغمبری دعویٰ کرنے لگیں۔
اصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی بہت سی باتیں جو خواب میں دیکھی ہونگی لوگوں سے بیان کی ہونگی منجملہ ان کے بیت المقدس میں جانا اور اس کو دیکھنا بھی بیان فرمایا ہوگا۔ قریش سوائے بیت المقدس کے اور کسی حال سے واقف نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نے امتحاناً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیت المقدس کے حالات دریافت کئے۔ چونکہ انبیاء کے خواب صحیح اور سچے ہوتے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ بیت المقدس کا حال خواب میں دیکھا تھا بیان کیا جس کو رایوں نے ” فجعلی اللہ لی بیت المقدس، فرفعہ اللہ لی انظر الیہ “ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے پس اس مخاصمت سے جو قریش نے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بجسدہ اور بیداری کی حالت میں بیت المقدس جانا ثابت نہیں ہوسکتا۔
چھٹی دلیل طبرانی اور بیہقی کی احادیث پر مبنی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا ایسا درجہ نہیں ہے جن کی حدیثوں سے رداً و قبولاً بحث ہوسکتی ہے۔ اس کا کچھ ذکر نہ ہو۔ باایں ہمہ امہانی کی حدیث سے تو کوئی امر ثابت نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اس حدیث میں ہے۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز عشاء یہاں پڑھی اور ہمارے پاس سو رہے۔ پھر صبح کو ہم کو جگایا اور صبح کی نماز ہمارے ساتھ پڑھی۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عشاء کی نماز تو میں نے تمہارے ساتھ پڑھی اور پھر میں بیت المقدس میں گیا اور وہہاں نماز پڑھی پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی۔
اس حدیث میں یہ لفظ ہیں ” ثم جئت بیت المقدس “ اور اسی پر قاضی عیاض نے استدلال کیا ہے کہ اسراء بجسدہ تھی حالانکہ صرف ” جئت “ کے لفظ سے جس کے ساتھ کچھ بیان نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جانا یہ روحانی طور پر تھا یا جسمانی طور پر ۔ بجسدہ جانے پر استدلال نہیں ہوسکتا خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ اس کی تشریح اس مقام پر ہونی ضروری تھی۔
دوسری حدیث۔ شداد بن اوس کی ایسی رکاکت لفظ و معنی پر مشتمل ہے اور جو طرز کہ حدیث بیان کرنے کا ہے۔ اس سے اس قدر بعید ہے کہ کسی طرح قابل اعتماد نہیں۔
صورت دوم یعنی اسراء کا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہونا
اور معراج کا اس کے بعد بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک بروحہ ہونا
ایک قلل گروہ علما اور محدثین کا یہ مذہب ہے کہ اسرا مکہ سے بیت المقدس تک بجسدہ و بحالت بیداری ہوئی اور اس کے بعد بروحہ ۔ جن لوگوں کا یہ مذہب ہے وہ مکہ سے بیت المقدس تک جانے کا نام اسرا رکھتے ہیں اور بیت المقدس سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کا معراج۔
وذھب بعضھمالی ان الا سراء کان فی الیقظۃ والمعراج کان فی النوم۔ قال اللہ سبحانہ و تعالیٰ قال ” سبحان الذی اسرے بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الا قصیٰ “ فلووقع المعراج فی الیقظۃ کان ذلک ابلغ فی الذکوالی اخرہ۔ (فتح الباری جلد صفحہ )
ان کی اس رائے کی تائید میں نہ قرآن مجید میں کچھ تصریح ہے اور نہ احادیث سے اس کی تصریح معلوم ہوتی ہے مگر فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ اسرا بیداری کی حالت میں ہوئی اور معراج سونے کی حالت میں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ ” پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک “ اور اگر معراج جاگنے میں ہوتی تو اس کا ذکر کرنا زیادہ بلیغ ہوتا۔
اگرچہ اس بیان میں اسرا کے بجسدہ ہونے کا کچھ ذکر نہیں مگر لفظ فی الیقظۃ اسرا ہونے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بجسدہ فی الیقظۃ ہوئی تھی۔
مگر اس دلیل کے ناکافی ہونے کے لیے اسی بات کا کہنا کافی ہے کہ بلاشبہ خدا نے فرمایا ہے کہ ” سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد والحرام الی المسجد الاقصیٰ “ مگر اس میں کچھ ذکر یا اشارہ اس بات کا کہ اسرا بحالت بیداری اور بجسدہ ہوئی تھی نہیں ہے پس اس آیت سے اس بات پر کہ معراج بحالت بیداری ہوئی تھی استدلال نہیں ہوسکتا۔
اس بیان سے جو فتح الباری میں ہے لازم آتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں پہنچنے کے بعد سو رہے تھے اور اس کے بعد معراج یعنی عروج الی السموات سونے کی حالت میں ہوا تھا حالانکہ کسی حدیث سے نہیں پایا جاتا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت المقدس میں پہنچ کر سو رہے ہوں۔
علاوہ اس کے ہم نے صورت اول کی بحث میں ظاہر کیا ہے کہ کوئی دلیل اس بات پر نہیں ہے کہ اسرایا معراج بحالت بیداری وبجسد ہوئی تھی اور جو کہ اسرا بھی اسی کا ایک جزو ہے اس لیے اسرا کا بھی بحالت بیداری اور بجسدہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور اس کے لیے جداگانہ دلیلوں کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
تیسری صورت یعنی معراج کا جس میں اسرا بھی داخل ہے ابتدا سے
انتہا تک بروحہ اور سونے کی حالت میں یعنی خواب میں ہونا
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک قلیل گروہ علماء محدثین کا یہ مذہب ہے کہ معراج ابتدا سے انتہا تک سونے کی حالت میں ہوئی تھی یعنی وہ ایک خواب تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا مگر اس کی دلیلیں ایسی قوی ہیں کہ جو شخص ان پر غور کرے گا وہ یقین کرے گا کہ تمام واقعات معراج سونے کی حالت یعنی خواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھے تھے اور اس کے لیے یہ دلیلیں ہیں۔
اول۔ دلالت النص یعنی خدا کا یہ فرمانا کہ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا یعنی رات کو خدا اپنے بندہ کو لے گیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خواب میں یہ امر واقع ہوئے تھے جو وقت عام طور پر انسانوں کے سونے کا ورنہ ” لیلا “ کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی۔ اور ہم اس کی مثالیں بیان کرینگے کہ خواب کے واقعات بلا بیان اس بات کے کہ وہ خواب ہی بیان ہوئے ہیں کیونکہ خود وہ واقعات دلیل اس بات کی ہوتے ہیں کہ خواب کا وہ بیان ہے۔
دوم : خود اسی سورة میں خدا نے معراج کی نسبت فرمایا ہے ” وما جعلنا الوڈیا اللتی اینک الا فتنۃ للناس “ یعنی ہم نے نہیں کیا اس خواب کو جو تجھے دکھایا مگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔ بخاری میں عبداللہ ابن عباس سے دو حدیثیں ہیں کہ اس آیت میں جس میں رویا کا ذکر ہے اس سے معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دیکھا وہ مراد ہے مگر اس مقام پر لفظ رویا کی نسبت جو قرآن مجید میں ہے اور لفظ عین کی نسبت جو عبداللہ ابن عباس کی روایت میں ہے بحث ہے جس کو ہم آئندہ بیان کرینگے اور ثابت کرینگے کہ رویا سے خواب ہی مراد ہے اور لفظ عین سے جو عبداللہ ابن عباس کی حدیث میں آیا ہے ان معنوں میں کچھ تغیر نہیں ہوتا۔
حدثناعلی ابن عبداللہ قال حدثنا سفیان عن عمرو عن عکرمہ عن ابن عباس و ما جعلنا الرویا اللتی ادیناک الا فتنۃ للناس قالھی رویا عین ارنھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لیلۃ اسری بہ الخ۔ (بخاری صفحہ )
پہلی حدیث بخاری کی یہ ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی بن عبداللہ نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے عمر سے اس نے عکرمہ سے اس نے ابن عباس سے کہ آیت ” وماجعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں لفظ رویا سے آنکھ کو دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسراء کی رات دکھایا گیا ۔
حدثنا
دوسری حدیث بخاری کی یہ ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے حمیدی نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے عمر نے عکرمہ سے اس نے ابن عباس سے کہ آیت ” وما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ میں لفظ رویا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھایا گیا اس رات جب کہ بیت المقدس لے جائے گئے۔
سوم : مالک بن صعصعہ اور انس بن مالک کی حدیثیں جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں ان سے پایا جاتا ہے کہ معراج کے وقت آپ سوتے تھے اور ان حدیثوں کے مندرجہ ذیل الفاظ ہیں۔
مالک بن صعصعہ کی حدیثوں میں ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” بینا انا عند البعیت بین النائم والیقظان “
ان یہ مالک بن صعصعہ کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” بینما انافی الحطیم وربما قال فی الحجر مضطجعا “
انس بن مالک کی حدیثوں میں ہے ” فیما یری قلبہ وتنامہ عینہ ولا بنا مرقلبہ “ اور اسی حدیث کے آخر میں ہے ”
فاستیقظ وھو فی المسجد الحرام “
صحاح کی اور کسی حدیث میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کسی وقت معراج کے اوقات میں آپ جاگتے تھے۔
چہارم : معاویہ ۔ حسن۔ حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ کا مذہب تھا کہ اسراء یا معراج خواب میں ہوئی ہے۔
مگر قاضی عیاض نے جو قول نقل کئے ہیں ان کے اوپر کچھ اعتراض بھی وارد کئے ہیں۔ خصوصاً حضرت عائشہ کے قول پر۔ مگر جب ہم اس وجہ کی تشریح کرینگے تو بیان کرینگے کہ وہ اعتراض صحیح نہیں ہے اور اس قدر ہم اب بھی یاد دلا دیتے ہیں کہ شفاء قاضی عیاض میں حضرت عائشہ کا قول مذکور ہے اور جس میں ” مافقدت “ کا لفظ بصیغہ متکلم آیا ہے وہ صحیح نہیں بلکہ صحیح لفظ ہے ” مافقد “ بصیغہ مجہول۔ چنانچہ ہم اس کا اشارہ اوپر بھی کرچکے ہیں۔ اور بیان کرچکے ہیں کہ عینی شرح بخاری میں بجائے لفظ ” مافقدت “ کے لفظ ” ما فقد “ چھایا ہوا ہے اور مصحیح شفا نے ” مافقد “ کے لفظ کو اختیار کیا ہے۔ دیکھو ہماری تفسیر کا صفحہ ۔
بہرحال جن روایتوں سے معاویہ اور حسن اور حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ کا مذہب پایا جاتا ہے ان کو ہم بعینہ نقل کرتے ہیں۔
واختلف فی انہ کان فی الیقظۃ ارفی المنام فعن عائشہ (رض) انھا قالت واللہ ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولا کن عرج بروحہ وعن معاویۃ انما عرج بروحہ وعن الحسن کان فی المنام رویاواھا و اکثر الا قاویل بخلاف ذلک۔ (کشاف صفحہ )
کشاف میں ہے کہ اس بات میں اختلاف ہے کہ معراج جاگتے میں ہوئی یا سوتے میں۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا خدا کی قسم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم غائب نہیں ہوا بلکہ ان کو روح کو معراج ہوئی اور معاویہ کا قول ہے کہ معراج بروحہ ہوئی۔ اور حسن سے منقول ہے کہ معراج ایک واقعہ تھا جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا۔ اور اکثر قول اس کے برخلاف ہیں۔
وفی التفسیرالکبیر حکی عن محمد بن جریر الطبری فی تفسیر عن حذیفۃ ان قال ذلک رویا وانہ ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و انما اسری بروحہ وحکی ھذا القول عن عائشۃ وعن معاویہ ۔ (تفسیر کبیر جلد چھارم صفحہ )
اور تفسیر کبیر میں ہے کہ محمد بن جربر طبری نے اپنی تفسیر میں حذیفہ بن الیمان کا یہ قول لکھا ہے کہ واقعہ معراج ایک خواب تھا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم غائب نہیں ہوا۔ بلکہ ان کی روح کو معراج ہوئی اور یہی قول حضرت عائشہ اور معاویہ سے منقول ہے۔
قال ابن اسحاق وحدثنی بعض ال ابی بکر ان عائشۃ کانت تقول ما فقد جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولکن اللہ اسری بروحہ وسال ابن اسحاق وحدثنی یعقوب بن عتبہ بن المغیرۃ بن الاخنس ان معاویۃ بن سفیان کان اذا سئل عن سری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال کانت رویا من اللہ صاقۃ فلمہ یکنکر ذلک من تولھما لقول الحسن ان ھذہ الا یہ نزلت فی ذلک قول اللہ عزوجل وما جعلناالرویا اللتی اریناک الا فتنۃ الناس ولقول اللہ عزوجل فی الخبر عن ابراھیم (علیہ السلام) اذا قال لا بنہ یا بنی انی
اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ سے آل ابوبکر میں سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم مبارک غائب نہیں ہوا بلکہ خدا ان کی روح مبارک کو معراج میں لے گیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں مجھ سے یعقوب بن عتبہ بن مغیرہ بن اخنس نے بیان کیا ہے کہ معاویہ بن سفیان سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کا حال پوچھا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ تمام واقعہ خدا کی طرف سے ایک سچا خواب تھا۔ دونوں کے اس قول کا کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔
اری فی المنام انی اذبحک ” ثم مضی علیٰ ذلک فعرفت ان الوی من اللہ یاتی الانبیاء ایقاظاً ونیاما قال ابن اسحق وکان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیما بلغنی یقول تنامہ عینی وقلبی یقطان نا اللہ اعلم ای ذلک کان قدجاہ عاین فیہ ماعا ین من امر اللہ علیٰ ای حالیہ کا نائما اویقظان کل ذلک و حق وصدق۔ (سیرۃ اعن ہشام جلد اول صفحات - مطبوعہ لندن)
کیونکہ حسن کا قول ہے کہ اسی معراج کے باب میں یہ آیت نازل ہوئی ” وما جعلنا الرویا اللتی ایرناک الا فتنۃ للناس “ اور خدا نے ابراہیم (علیہ السلام) کا خواب بھی حکایتاً بیان کیا ہے ” اذ قال لابنہ یا بنی انی اری فی المنام انی ذبحک “ پھر اس پر عمل کیا اس لیے میں نے جان لیا کہ خدا کی طرف سے انبیاء پر خواب و بیداری دونوں میں وحی آتی ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے کہ میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا ہے۔ پس خدا ہی جانتا ہے کہ کس حالت میں وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کس حالت میں دونوں حالتوں میں سے جو کچھ خدا کے حکم سے دیکھنا تھا دیکھاجاگتے میں با سوتے میں اور یہ سب کچھ حق اور سچ ہے۔
ثم اختلف السلف والعلماء ھل کان الاسراء بروحہ اوجسدہ علی ثلاث مقالات فذھبت طائفۃ الی انہ اسری بروحہ وانہ رویامنام مع القافھم ان رویا الا بنیاء وحی حق والی ھذاذھب معاویہ و حکی عن الحسن والمشہور عنہ خلافہ والیہ اشار محمد بن اسحاق و حجتھم قولہ تعالیٰ ” ووما جعلنا الرویا اللتی اریناک الا فتنۃ للناس “ وما حکوا عن عائشۃ مافتدت جسد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتولہ بنیا انا نائم وقول انس وھو نائم فی المسجد احرام وذکر القضۃ ثم قال فی اخر فاستیقظت وانا بالمسجد الحرام الخ (شفا ھاضی غیاض صفحہ )
شفا قاضی عیاض میں ہے کہ اگلے لوگوں اور عالموں کے اسراء کے روحانی یا جسمانی ہونے میں تین مختلف قول ہیں۔ ایک گروہ اسراء کے روح کے ساتھ خواب میں ہونے کا قائل ہے اور وہ اس پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبروں کا خوب وحی اور حق ہوتا ہے معاویہ کا مذہب بھی یہی ہے۔ حسن بصری کو بھی اسی کا قائل بتاتے ہیں لیکن ان کا مشہور قول اس کے برخلاف ہے اور محمد ابن اسحاق نے اس طرف اشارہ کیا ہے ان کی دلیل ہے خدا کا یہ فرمانا کہ ” نہیں کیا ہم نے وہ خواب جو دکھایا تجھ کو مگر آزمائش واسطے لوگوں کے “ اور حضرت عائشہ کا یہ قول کہ نہیں کھویا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم کو یعنی آپ کا جسم مبارک معراج میں نہیں گیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ اس حالت میں کہ میں سوتا تھا اور انس کا یہ قول کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مسجد حرام میں سوتے تھے پھر معراج کا قصہ بیان کرکے آخر میں کہا کہ میں جاگا اور اس وقت مسجد حرام میں تھا۔ الخ
پنجم : اگر کسی حدیث میں ایسے امور بیان ہوں جو ایک طرح پر بداہت عقل کے برخلاف ہوں اور ایک طرح پر نہیں اور اگلے علما اور صحابہ کی رائیں مختلف ہوں کہ کوئی اس طرف گیا ہو اور کوئی اس طرف تو بموجب اصول علم حدیث کے لازم ہے کہ اس صورت کو اختیار کیا جاوے جو بداہت عقل کے مخالف نہیں ہے۔
تصریح پہلی دلیل کی
اب ہم پہلی دلیل کی تصریح کرتے ہیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید اور نیز احادیث میں جب کوئی امر خواب کا بیان کیا جاتا ہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ اس سے پہلے یہ بھی بیان کیا جاوے کہ یہ خواب ہے کیونکہ قرینہ اور سیاق کلام اور نیز وہ بیان خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ بیان خواب کا تھا مثلاً حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اپنا خواب بیان کرتے وقت بغیر اس بات کے کہتے کے میں نے خواب دیکھا ہے یوں کہا ” یا ابت انی رایت احد عشر کو کہ کہا والشمس والقمر رایتم لی سجدین “ لیکن فرینہ اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ خواب ہے اس لیے ان کے باپ نے کہا ” یا بنی لا تعصرو یاک علی اخوتک فیکید والک کیدا “ پس معراج کے واقعات خود اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ کہ وہ ایک خواب ہے اس لیے اس بات کا کہنا کہ وہ خواب ہے ضروری نہیں تھا بلکہ صرف یہ کہنا کہ رات کو اپنے بندہ کو لے گیا صاف قرینہ ہے کہ وہ سب کچھ خواب میں ہوا تھا۔
اسی طرح چار حدیثیں عبداللہ ابن عمر کی روایت سے مسلم میں موجود ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کعبہ کے پاس حضرت مسیح (علیہ السلام) اور مسیح دجال کے دیکھنے کا ذکر ہے ان حدیثوں کے لفظ جیسا کہ روایت بالمعنی میں راویوں کے بیان میں ہوتا ہے کسی قدر مختلف ہیں مگر سب میں مسیح (علیہ السلام) اور مسیح دجال کے دیکھنے کا ایک ہی قصہ بیان ہوا ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو خواب میں دیکھا تھا ان حدیثوں میں سے ایک حدیث کے ابتدا میں یہ لفظ ہیں ” رایت عندالکعبۃ رجلا “ یعنی میں نے دیکھا کعبہ کے پاس ایک شخص کو۔ پس اس میں سے کوئی اشارہ لفظی اس بات کا نہیں ہے کہ خواب میں دیکھا تھا مگر خود مضمون اس قصہ کا دلالت کرتا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا اس لیے کسی ایسے لفظ کے لانے کی جس سے خواب کا اظہار ہو ضرورت نہ تھی۔
دوسری حدیث کے شروع میں سے ” ارانی لیلۃ عند الکعبۃ “ اس میں صرف لیلۃ کا لفظ اس بات کا مطلب ادا کرنے کو کو افی سمجھا گیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا تھا اسی طرح معراج کے قصہ میں خدا کا یہ فرمانا ” اسری بعبدہ لیلا “ اس بات کے اسارہ کے لیے کہ وہ خواب ہی کافی ہے اور بطور دلالت النٹ کے معراج کا روحانی یعنی خواب میں ہونا پایا جاتا ہے۔
تیسری حدیث کے شروع میں یہ الفاظ ہیں ” بینما انا نائم ایتنی اطوف بالکعبۃ “ یعنی جب کہ میں سوتا تھا میں نے دیکھا کہ میں کعبہ کا طواف کرتا ہوں۔ انہی الفاظ کے مثل وہ الفاظ ہیں جو بعض حدیثوں میں جن کو ہم لکھ چکے ہیں معراج کی نسبت آئے ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو خواب نہ سمجھیں۔