• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 15 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 12

ثُمَّ بَعَثۡنٰہُمۡ لِنَعۡلَمَ اَیُّ الۡحِزۡبَیۡنِ اَحۡصٰی لِمَا لَبِثُوۡۤا اَمَدًا ﴿٪۱۲﴾

تفسیر سرسید :

بارہویں آیت سے صحیح اور واقعی قصہ اصحاب کہف کا شروع ہوتا ہے۔ تفسیر کبیر میں یہ لکھا ہے کہ پہلی آیتوں میں اس قصہ کا ایک ٹکڑا بیان کیا ہے اور اس کی بعد کی آیتوں میں ضورا قصہ ہے مگر کوئی وجہ نہیں بیان کی ہے کہ کیوں ان دونوں مقاموں میں اس طرح پر تفریق کی ہے کہ پہلے تو اس کی وحی ہونے کی بابت کچھ ذکر نہیں کیا اور پھر جہاں سے وہ قصہ شروع ہوا ہے وہاں فرمایا ہے ” لخق نقص علیک نبنا ھم بالحق “ یعنی ہم ان کا سچا تجھ پر بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی کہ اس اخیر جملہ میں ” بالحق “ کے لفظ سے کیوں تاکید کی گئی پس صاف ظاہر ہے کہ پہلی آیتوں میں وہ بیان ہے جو لوگوں نے اس قصہ میں عجائبات ملاوے تھے اور اس کی نفی کی ” ام حسبت “ سے اور پھر کہا کہ صحیح اور سچا قصہ ہم بیان کرتے ہیں۔ جو صاف دلل اس بات کی ہے کہ سچا اور صحیح قصہ اس آیت سے شروع ہوا ہے نہ پہلی آیتوں سے۔
قبل اس کے کہ ہم اصحاب کہف کی قصہ کی آیتوں کی تفسیر شروع کریں ہم کو ضرور ہے کہ اصحاب کہف کے کچھ حالات بیان کریں اور ان کے مذہب کا بھی کچھ ذکر کریں کیونکہ خدا نے فرمایا ہے ” انہم فتبۃ امنوا ربھم وزدنا ھم ھدی “ یعنی وہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو زیادہ ہدایت کی تھی زیادہ ہدایت کرنے سے یہ اشارہ ہے کہ جب وہ بادشاہ ظالم کے سامنے پکڑے گئے تو وہ اپنے سچے مذہب پر قائم رہے جیسا کہ ان کے قصہ میں بیان ہوا پس اس استقامت کو زیادتی ہدایت سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلمان خدا پرست تھے اور اس لیے ان کے مذہب کی تحقیق کرنی بہت ضروری ہے۔
اصحاب الکہف والرقیم
سب سے اول اس امر کا تصفیہ کرنا چاہیے کہ اصحاب کہف در قیم کا ایک ہی گروہ پر اطلاق ہوا ہے یا وہ مختلف گروہوں پر یعنی جن لوگوں پر اصحاب کہف کا اطلاق ہوا ہے انھیں پر رقیم یعنی اصحاب رقیم کا اطلاق ہوا ہے یا اصحاب کہف ایک جدا گروہ تھا اور اصحاب رقیم جدا گروہ۔
جو کچھ بحث ہوسکتی ہے وہ رقیم کے لفظ پر ہوسکتی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے جیسا کہ تفسیر بیضاوی اور کتابوں میں یہی لکھا ہے کہ اصحاب الرقیم ایک جدا گروہ تھے اور ہو تین شخص تھے کہیں جانے تھے رستہ میں مینھ آیا ایک پھاڑ کے غار میں ہو بیٹھے اوپر سے پہاڑ گرا اور غار کا منہ بند ہوگیا ان لوگوں نے خدا کے سامنے عاجزی کی اور اس مصیبت سے نکلنے کی دعا مانگی کچھ عرصہ کے بعد جو پتھر پہاڑ کا اوپر سے پھسل گرا تھا اور جس نے غار کا منہ بند کردیا تھا وہ اور نیچے کو پھسل گیا اور غار کا منہ کھل گیا۔
یہ قصہ امام محمد اسماعیل بخاری نے بھی اپنی کتاب صحیح بخاری میں بیان کیا ہے۔ مگر کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس مقام پر لفظ رقیم سے ان لوگوں کے قصہ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔
اول تو اس لیے کہ اس گروہ پر اصحاب الرقیم کا اطلاق نہیں ہوا۔ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے اس مقام پر دو گروہ کے قصے نہیں بیان کئے بلکہ صرف ایک گروہ کا قصہ بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب کہف ورقیم ایک ہی گروہ کا لقب تھا۔
ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جہاں خدا نے اصحاب کہف کی تعداد میں لوگوں کا اختلاف بیان کیا ہے کہ کوئی تو کہتا ہے کہ وہ تین شخص تھے کوئی کہتا ہے کہ پانچ تھے کوئی کہتا ہے سات تھے۔ پس بعض لوگوں نے تین کی تعداد پر خیال کرکے رقیم کے لفظ سے اس گروہ کا اشارہ سمجھا جن کی تعداد تین تھی اور وہ بھی پہاڑ کے غار میں اوپر سے پتھر گرنے کے سبب بند ہوگئے تھے۔ مگر جیسا کہ ہم نے بیان کیا نہ کوئی وجہ پائی جاتی ہے اور نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ ان لوگوں پر اصحاب الرقیم کا اطلاق ہوا ہو البتہ قسطلانی شرح صحیح بخاری میں شہاب الدین احمد بن محمد الخطیب نے اصحاب الغار کا ان پر اطلاق کیا ہے مگر اصحاب الرقیم کا کسی نے اطلاق نہیں کیا۔
پس اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اصحاب کہف اور اصحاب رقیم ایک ہی گروہ کا لقب ہے۔ اصحاب کہف تو ان کو اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ایک ظالم بت پرست بادشاہ کے ظلم سے ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جا چھپے تھے عربی زبان میں پہاڑ کی کہ وہ کو کہف کہتے ہیں اس لیے ان کا لقب اصحاب کہف ہوگیا ہے۔
بیضاوی اور نیز اور مورخوں اور مفسروں نے رقیم کے معنوں میں اختلاف کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رقیم اس شہر کا نام ہے جس میں اصحاب کہف رہتے تھے بعضوں کا قول ہے کہ پہاڑ کی کہ وہ کا نام ہے جس میں اصحاب کہف چھپے تھے ۔ بعضوں نے کہا کہ جس جنگل میں وہ پہاڑ تھا اس جنگل کا نام ہے بعض کہتے ہیں کہ ان کے کتے کا نام ہے جو ان کے ساتھ تھا اس لیے ان کو اصحاب الرقیم کہنے لگے اور اس کی سند میں امیہ بن ابی الصلت شاعر جاہلی کا شعر لایا جاتا ہے جس میں اس نے کہا ہے ” ولیس بہا الاالرقیم مجاوراً “ مگر ان میں سے کوئی بات اعتبار کے قابل نہیں ہے ” عربی کتابوں میں ان کے کتے کا نام قطمیر لکھا ہے اور انگریزی کتابوں میں کر اٹیم یا کر اٹیمر اور یہ نام ملتے جلتے ہیں صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے میں جو فرق لہجہ اور تلفظ میں ہوجاتا ہے وہی کر اٹیمر اور قطمیر میں ہوگیا ہے۔
رقیم کے معنی زروے بغت کے لکھے ہوئے کے ہیں محمد اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں رقیم کی تفسیر میں لکھا ہے الرقیم الکتاب مرقوم مکتوب من الرقم اور اس میں سعید ابن جبیر کا قول نقل کیا ہے کہ انھوں نے ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ اصحاب کہف کا حال اور نام ایک زمانہ میں جست کے پترے پر کندہ کر کر اور بعض روایتوں کے مطابق پتھر پر کھود کر رکھا گیا تھا اور اس سبب سے انہی لوگوں کا لقب اضحاب الرقیم بھی ہوگیا ہے۔ پانچویں صدی کے اخیر میں یا چھٹی صدی عیسوی کے شروع میں یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیشتر ایشیا مانر کے بشپ نے اس قصہ کو بطور عیسائی مذہب کے متبرک قصہ کے تحریر کیا تھا پس ہر صورت سے اصحاب کہف پر اصحاب الرقیم کا اطلاق صحیح اور درست ہوتا ہے اور رقیم عطف تفسیری ہے اصحاب کہف کی وہو الصحیح عندنا۔
اس بات میں نہایت اختلاف ہے اور آج تک تحقیق نہیں ہوا کہ یہ لوگ تعداد میں کتنے تھے غالب رائے یہ ہے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا جو ان کے ساتھ تھا۔
ان کے ناموں میں بھی بہت اختلاف ہے مگر وہ اختلاف زیادہ تر ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے اور الفاظ کے تلفظ کے اختلاف سے علاقہ رکھتا ہے اور کاتبوں نے زیادہ تر تحریف کردیا ہے بہرحال ہم اس مقام پر ان کے ناموں کو جس طرح کہ مختلف کتابوں میں لکھے ہیں لکھتے ہیں۔
تفسیر معالم التنزیل اور اس میں ان کی تعداد لکھی ہے
منسلمینا یحشلمینا کلیخا مرطونس کشتونس ویرونس بطیوس۔ ویموس قالوس کلبھم قطمیر
تفسیر بضاوی و کشاف و تفسیر کبیر و تفسیر مسدارک
یملیخا مکشلینیا مشلینیا مرنوش دیرنوش شاذنورش والراعے کلبھم قطمیر
تاریخ کامل لابن اثیر
مکسلمینا تملیخا مرطوس نیرونس کسطومس دینموش ریطوفس فالوس فحسلمینا کلبھم قطمیر
معجم البلدان یاقوت حموی
یملیخا مکسملینا مشلینیا مرطونس دبریوس سراپیون افستیطیوس کلبھم قطمیر
تاریخ طبری
مکسملینا فخسملینا یمنیخ یا یملخا مرطوس لسوطونس بیرونس دوسمونس بطونس قالوس
تاریخ احمد ابی یعقوب العروف بالیعقوبی
مکسلمینا مراطوس شاہ نونیوس بطرنوش ذولس یوانس کینفرطونیوطوا ملیخا الراعی کلبھم قطمیر
کیورس متہس مولفہ بارنگ گولڈ
میکنی میں مالکس مارشین ڈائیونی سس جان سیرا پین کا نسطین ٹاین
کلبھم کر اٹیم یا کر اٹیم شہر جس میں اصحاب کہف رہتے تھے
اکثر مورخین و مفسرین کا قول ہے جو ہر طرح پر صحیح معلوم ہوتا ہے کہ جس شہر میں اصحاب کہف رہتے تھے اس کا نام افسوس تھا یا قوت حموی نے اپنی کتاب معجم البلدان میں اس کے اعراب کو بھی ضبط کیا ہے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس متہیس میں اس شہر کا نام ایفی سس لکھا ہے اور یقین ہوتا ہے کہ عربی تاریخوں میں یہی نام متغیر ہو کر افسوس ہوگیا ہے۔
لانگ میں گرین کمپنی نےء میں بمقام لندن قدیم رومیوں کے زمانہ کا نقشہ جغرافیہ چھاپا ہے جس میں شہروں کے وہی قدیم نام ہیں جو اس زمانہ میں تھے اس میں جو نقشہ ایشا مینیر کا ہی اس میں ایفی سس شہر کا نام درجہ وقیقہ عرض شمالی اور درجہ دقیقہ طول شرقی پر عین دریاے ایجین کے کنارہ پر مثبت ہے اس کے قریب پہاڑ بھی واقع ہیں اور کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس جگہ ایفی سس شہر تھا جس میں اصحاب کہف رہتے تھے۔
بعضوں نے کہا ہے کہ اصحاب کہف کے شہر کا نام رقیم تھا اور بعضوں نے کہا کہ اس پہاڑ کی کہ وہ کا نام تھا جس میں اصحاب کہف جاکر رہے تھے مگر یہ صحیح نہیں یاقوت حموی نے بھی لکھا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ اہل روم کی سلطنت میں جو شہر افسوس تھا وہی شہر اصحاب کہف کا تھا محمد بن محمود القردینی نے اپنی کتاب آثار البلاد و اخبار العباد میں افسوس ہی کو اصحاب کہف کا شہر قرار دیا ہے۔ شاید لوگوں نے اس خیال سے کہ اصحاب کہف کے نام جست کی تختی پر کہود کر شہر میں رکھے گئے تھے اس شہر کو اور بعضوں نے اس خیال سے کہ اس پہاڑ پر جس میں وہ کہ وہ تھی ان کے نام کندہ ہوئے تھے اس پہاڑ کو یا اس کہ وہ کو رقیم کے نام سے موسوم کردیا ہو۔
اصحاب کہف کس زمانہ اور کس بادشاہ کی عہد میں تھے
ابوالفرج مالطہیاے عیسائی مورخ نے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ آخر کو مسلمان ہوگیا تھا اپنی کتاب مختصر الدول میں لکھا ہے کہ اصحاب کہف ذوقیوس قیصر کے عہد میں ہے جو عیسائیوں کا نہایت دشمن تھا اور ان کو قتل کرنا تھا۔ تاریخ طبری میں اس بادشاہ کا نام دقینوس لکھا ہے۔
اتاریخ کامل ابن اشیر میں اس کا نام دقیوس لکھا ہے اور یہی لکھا ہے کہ بعض آدمی اس کا نام دقیانوس کہتے ہیں۔
ابوالفدا اسماعیل نے اپنی تاریخ میں بھی یہی نام بیان کئے ہیں اور کلھا ہے کہ وہ اسکندری میں بادشاہ ہوا تھا اور میں مرگیا ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب آثار الباقیہ عن قرون الخالیہ میں اس بادشاہ کا نام داقیاوس لکھا ہے اور مسٹر بارنگ گولڈ نے اپنی کتاب کیورس متہس میں اس بادشاہ کا نام دی سس لکھا ہے۔
اسی مصنف نے لکھا ہے کہ روم میں ویکٹورم کے عجائب خانہ میں گچ سے اصحاب کہف کی تصویریں بنی ہوئی ہیں ان تصویروں سے بعضوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہء میں دی سس بادشاہ کے عہد میں مارے گئے تھے۔
عموماً مسلمان مورخ اور مفسرین اس بادشاہ کا نام جس کے عہد میں اصحاب کہف تھے دقیانوس لکھتے ہیں اور ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ تمام اختلافات ایک زبان کے ناموں کو دوسری زبان میں تلفظ کرنے سے پیدا ہوئے ہیں اور سب کے ملانے سے یقین ہوتا ہے کہ وہ رومی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔
جو زمانہ کہ اصحاب کہف کا ابوالفدا نے بیان کیا ہے وہ قریباً صحیح و درست معلوم ہوتا ہے۔ اسکندر تین سو چھتیس برس قبل حضرت مسیح کے تخت پر بیٹھا تھا اور اصحاب کہف پانسو چالیس سنہ سکندری میں تھے اس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ 540 ء میں تھے۔ مسٹر بارنگ گولڈ نے ان کا تخمینہ انداز سےء قرار دیا ہے معندا جو بادشاہ کہ زمانہ سکندر سے دقیوس تک گزرے ان کے زمانہ سلطنت میں بھی کسی قدر اختلاف ہے اور یہ بھی ایک سبب ہے کہ اصحاب کہف کے زمانہ میں کسی قدر اختلاف پیدا ہوتا ہے مگر عام طور پر خیال کرنے سے جو زمانہ قرار دیا گیا ہے قریباً صحیح معلوم ہوتا ہے۔
بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ کے زمانہ سے بہت پیشتر تھے اور حضرت عیسیٰ نے ان کی خبر دی تھی اور بعد حضرت عیسیٰ کے زمانہ فترت میں یعنی جبکہ کوئی پیغمبر نہ تھا وہ زندہ ہوئے تھے یا اپنی نیند سے جو اخ الموت تھی اٹھے تھے مگر اس کی صحت کا انجیلوں یا حواریوں کے ناموں یا کسی معتبر یا مظنون طریقہ سے کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا۔
اصحاب کہف کا مذہب
کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اصحاب کہف عیسائی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں تھے تمام کتابوں اور مختلف روایتوں سے یہی امر ثابت ہوتا ہے اور خود ان کا واقعہ کہ ایک ظالم اور بت پرست بادشاہ کے خوف سے جو عیسائیوں کو قتل کرتا تھا جان اور ایمان بچا کر بھاگے تھے ان کے عیسائی ہونے کا کافی ثبوت ہے۔
البتہ جیسا ان کا تقدس اور خدا پرستی تاریخوں اور تفسیروں میں لکھی ہے اور جس کی نسبت قرآن مجید سے بھی اشارہ پایا جاتا ہے اس کی نسبت شبہ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ صلیب کو اور حضرت عیسیٰ کی تصویر کو پوجتے تھے اور کم سے کم یہ کہ تثلیث کے فائل تھے تو کیونکر ان کو خدا پرست اور موحد مسلمان یا مومن خیال کیا جاسکتا ہے مگر ان میں سے کسی بات کا ثبوت نہیں ہے۔ اس زمانہ کے عیسائیوں میں عقائد مذہبی بہت کم قرار پائے تھے اور مجھ کو عیسائی مذہب کی اکلریا سٹیکل ہسٹری پر غور کرنے سے نہایت شبد ہے۔ کہ جو عقائد بعد عیسائی ہوجانے قسطنطین کے رومی اور یونانی چرچ میں قائم ہوگئے وہی عقائد عام طور پر اس زمانہ کے تمام عیسائیوں کے تھے۔
دقیوس ہی کے زمانہ کے قریب جس زمانہ میں اصحاب کہف کا ہونا تسلیم کیا گیا ہے ایک فرقہ تہا جس کا ابوانصرح عیسائی مالطیائی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ وہ اقانیم ثلاثہ باپ اور بیٹے اور روح القدس کو نہیں تسلیم کرتا تھا بلکہ وجود اور کلمہ اور حیات کو اقانیم ثلاثہ جانتا تھا اور کہتا تھا کہ ان اقانیم سے کوئی زیادتی ذات باری پر نہیں ہوتی جبکہ یہ صفات اعتباری ہیں کوئی شے اس کا مسمی موجود فی المخارج نہیں ہے اور کہتا تھا کہ ذات باری موجود ہے لا بوجود اور حکیم ہے لا بحکمۃ اور حی ہی لا بجیوۃ اور انبیذ وقلس کا بھی یہی مذہب تھا اس کے بعد مصنف مذکور لکھتا ہے کہ اس مذہب کو ایک گروہ مسلمانوں نے جو صفات کے نفی کرنے والے ہیں (یعنی صفات باری سے کچھ زیادتی ذات باری پر نہیں سمجھتے) اختیار کیا ہے۔
اسی زمانہ کے قریب ایک فرقہ خولی الشمیشاطی کا پیرو تھا جو کہتا تھا کہ تمام معلولات باری تعالیٰ کے ارادے ہیں اور اس کا کوئی معلول ذاتی نہیں ہے اور اسی لیے وہ لم یلدولم یولد ہے اور اس لیے مسیح نہ کلمۃ اللہ ہے اور نہ جس طرح کہ ظاہر مذہب عیسائی میں ہے وہ کو اری سے پیدا ہوا ہے۔
پس جبکہ اس زمانہ کے عقائد و مذہب کا یہ حال تھا تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ اصحاب کہف تثلیث کے قائل تھے بلکہ مسلمانوں کو جو قرآن مجید کو برحق سمجھتے ہیں اس بات کے یقین کرنے کے لیے کہ اصحاب کہف عیسائی اور موحد خدا کو واحد اور حضرت عیسیٰ کو پیغمبر برحق مانتے تھے ثبوت کافی ہے۔ فھم کانوا مومنین مسلمین موحدین قائلین بان لا الہ الا اللہ عیسیٰ رسول اللہ۔
اس قدر بیان کرنے کے بعد ہم کو ضروری ہے کہ قرآن مجید کی ان آیتوں کی جو اصحاب کہف کے قصہ سے متعلق ہیں تفسیر لکھیں مگر مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم اصحاب کہف کا قصہ صحیح صحیح بلا تعرض آیات کے لکھ دیں اور پھر آیات کی تفسیر بیان کریں۔ اس طریقہ کے اختیار کرنے سے امید ہے کہ آیات کی تفسیر بخوبی لوگوں کی سمجھ میں آئیگی۔
اصحاب کہف کا قصہ یعنی وہ واقعات جو ان پر گزرے
مذکورہ بالا حالات سے ظاہر ہے کہ اصحاب کہف تاریخی اشخصا ص ہیں فرض قرار دیئے ہوئے نہیں ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جو سید ہے ساد ہے واقعی حالات ان پر گزرے تھے ان میں بہت لغو اور بیہودہ اور خلاف قیاس باتیں اور عجائبات شامل کرلیے گئے ہیں اور یہ ایک معمولی بات ہے کہ نیک اور بزرگ لوگوں پر جو ظلم اور سختی ظالموں کے ہاتھ سے گزر جاتی ہے بعد کو ان کی نسبت بہت سے زائد اور عجیب باتیں بڑھا دی جاتی ہیں اسی طرح اصحاب کہف پر جو حالات اور واقعات گزرے اس کو بطور تعجب انگیز کہانی کے بنا لیا ہے اور بےسروپا اور محض بیہودہ روایتیں مشہور ہوگئی ہیں ہمارا کام یہ ہے کہ ان روایتوں میں سے جو قابل طمانیت ہیں ان پر لحاظ کرکے صحیح قصہ اصحاب کہف کا اول بیان کریں اور پھر قرآن مجید کی آیتوں سے تطبیق دے کر دکھلادیں کہ کس قدر قصہ اس میں کا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور مفسرین کو جو اس قصہ کے بیان میں اور آیتوں کی تفسیر میں دھوکا ہوا ہے حتی المقدور اس کو ظاہر کریں۔
ابو الفرج مسیحی نے اپنی تاریخ مختصروں میں اور اسماعیل ابوالفدا نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ غور ذیانوس رومی قیصر عیسائی ہو کیا تھا اور عیسائیوں پر مہربانی کرتا تھا اس پر دقیوس نے جس کو دقیانوس بھی کہتے ہیں اور جو بت پرست اور عیسائیوں کا دشمن تھا چڑھائی کی اور سکندری میں اس کو مار ڈالا اور خود بادشاہ ہوا اور عیسائیوں کو قتل کرنا یا بت پرستی پر مجبور کرنا شروع کیا۔
اسی کے عہد میں اصحاب کہف عیسوی مذہب پر تھے ان کے عیسائی ہوجانے کی مختلف کہانیاں مشہور ہیں جن کی نسبت ہم کو بحث کرنا محض فضول معلوم ہوتا ہے وہ کسی طرح عیسائی ہوئے ہوں اس امر کا مسلم ہونا کہ وہ عیسائی تھے ان کے اصلی واقعات کے بتانے کو کافی ہے۔
تمام روایتیں اور تاریخیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس ظالم بادشاہ نے ان لوگوں کو جو تعداد میں اس وقت چھ تھے بلا یا اور مذہب عیسوی چھوڑنے اور بت پرستی کرنے کو کہا مگر ان سب نے انکار کیا اس پر بادشاہ نے ان کو مہلت دی اور اس مہلت میں وہ شہر سے بھاگے اور ایک چرواہا معہ کتے کے ان کے ساتھ ہولیا اور وہ سب ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جو شہر افسوس سے کچھ فاصلہ پر تھے جاکر چھپ رہے۔ یہاں تک روایتوں میں چند ان اختلاف نہیں ہے لیکن اس کے بعد کے واقعات میں اختلاف شروع ہوتا ہے یعنی پہاڑ کی کہ وہ میں چھپنے کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو شہر بھیجا کہ چپکے سے کھانا خرید لاوے اکثر مورخین اور اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ وہ لوگ پہاڑ کی کہ وہ میں جاکر سو رہے اور زمانہ دراز تین سو یا تین سو نو برس سونے کے بعد جب اٹھے تو انھوں نے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو شہر میں بھیجا۔ بعض مورخین نے پہلی دفعہ اسی دن جب وہ کہ وہ میں گئے ایک شخص کو کھانا خریدنے کو بھیجنا اور پھر دوسری دفعہ کئی سو برس سو کر اٹھنے کے بعد ایک شخص کا بھیجنا لکھا ہے جو محض غلط ہے اور صرف بنایا ہوا قصہ ہے ان پر پہاڑ کی کہ وہ میں سوتے ہونے کے خیال سے یہ قصہ گڑھ لیا گیا ہے مگر اصلیت اس کی جیسے کہ محققانہ نظر سے پائی جاتی ہے صرف اس قدر ہے۔ کہ وہ لوگ رات کے وقت شہر سے بھاگے تھے جیسے کہ فروینی نے لکھا ہے کہ ” انھوں نے رات کو بھاگنے کا قصد کیا جب رات کا اندھیرا ہوگیا تو ہر ایک شخص اپنے گھر سے کچھ مال لے کر چل کھڑا ہوا “۔
صبح ہوتے وقت وہ لوگ پہاڑ کی کہو پر پہنچے جیسا کہ قرہونی نے بھی لکھا ہے پس وہ کہ وہ میں گئے رات کے جاگے رستہ چلے تھکے ہوئے تھے کہ کہ وہ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا سو رہے۔ کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تین پہر سو نیکے بعد وہ اٹھے اور آپس میں پوچھنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے کسی نے کہا دن بھر کسی نے کہا کچھ کم کیونکہ کہ وہ کی اندھیری میں وہ دن کا اندازہ ٹھیک ٹھیک نہیں کرسکتے تھے۔
جب وہ اٹھے تو انھوں نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو کھانا لانے کو بھیجا قرذینی نے صاف لکھا ہے کہ جس دن وہو کہ وہ میں گئے اسی دن انھوں نے کھانا لینے کو بھیجا تھا۔ تفسیر معا الم التنزیل میں بھی محمد بن اسحاق کی روایت سے لکھا ہے کہ جب وہ کہ وہ میں گئے تو تملینی ان کے لیے شہر سے کھانا خرید لایا کرتا تھا اور چند روز تک جس کی تعداد نہیں بیان کی مگر معلوم ہوتا ہے کہ دو تین روز تک یعنی دقیانوس کے دوبارہ شہر میں آنے تک اسی طرح خرید کر لاتا رہا۔
جب وہ بادشاہ جو ان کو مہلت دے کر شہر سے باہر چلا گیا تھا پھر شہر میں آیا جیسا کہ قرذبنی نے بالتصریح بیان کیا ہے تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ شہر سے بھاگ گئے ہیں اس نے ان کی تلاش شروع کی اور پہاڑ کہ وہ میں ان کا پنالگا اور اس نے پہاڑ کی کہ وہ کا منہ بند کروادیا تاکہ اسی میں بہو کے پیاسے مرر ہیں تفسیر معالم التنزیل میں محمد بن اسحاق کی روایت میں بھی بالتصریح یہ امر مذکور ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پہاڑ کی کہ وہ کا مونہہ بند ہونے کے بعد وہ وہیں بند ہوگئے اور وہیں مر کر رہ گئے اگرچہ بعض مورخوں اور مفسروں نے لکھا ہے کہ کہ وہ میں پڑے سوتے ہیں یعنی مرے نہیں ہیں اور معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو وفات دی جس طرح سونے میں روحوں کو وفات دیتا ہے۔ مگر اگلے بیان سے اور ان روایتوں سے جو بیان ہونگی صاف ثابت ہوگا کہ درحقیقت وہ مرگئے تھے۔
اکثر مورخین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس واقعہ پر ایک زمانہ گزر نے کے بعد اس کہ وہ کا منہہ کہولا گیا اور اصحاب کہف کا اس کہ وہ میں ہونا معلوم ہوا اور شہر میں اس کا چرچا ہوگیا اور بادشاہ اور شہر کے تمام لوگ اس کہ وہ میں ان کے دیکھنے کو گئے۔
ابوالفرج مسیحی کی تاریخ کے بموجب یہ زمانہ سادذوسیوس قیصر الصغیر کی سلطنت کا تھا اور اصحاب کہف کے کہ وہ میں جا چھپنے کے دو سو چالیس برس بعد وہ ظاہر ہوئے تھے۔
ابوالفدا اسماعیل بھی اسی بادشاہ کے زمانہ میں اصحاب کہف کا متنبہ ہونا لکھتا ہے۔ یہ بادشاہء سکندری میں بادشاہ ہوا تھا اورء سکندری میں فوت ہوا۔ اس سبب سے کہ بموجب ابوالفدا کے دقیوس جس کے زمانہ میں اصحاب کہف تھےء سکندری میں تھے زمانہ ظاہر ہونے اصحاب کہف کا دو سو برس کے قریب ہوتا ہے نہ دو سو پچاس برس جیسا کہ ابوالفرج نے بیان کیا ہے۔
تاریخ یعقوبی میں اس بادشاہ کا نام دسیوس لکھا ہے اور صاف لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں اصحاب کہف جو مرگئے تھے زمانہ طویل کے بعد ظاہر ہوئے۔ اس میں مطلق اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ وہ سوتے تھے اور اس کے زمانہ میں جاگے یا مرے ہوئے تھے اور زندہ ہوئے بلکہ صاف لکھا ہے کہ ظاہر ہوئے یعنی اس کہ وہ میں ان کا ہونا معلوم ہوا۔
علاوہ اس کے جتنی روایتیں ہیں سب سے یہی امر ماخوذ ہوتا ہے کہ درحقیقت اصحاب کہف جب معلوم ہوئے تو وہ مرئے ہوئے تھے اور مرے ہوئے رہے۔
بعض تفسیر کی کتابوں میں جیسے تفسیر کبیر ومارک و بیضاوی ہیں یہ لکھا ہے کہ جب بادشاہ اور لوگوں ان کو دیکھنے اور ان سے ملنے کو گئے تو وہ زندہ ملے بادشاہ کو دعا بھی دی اور پہر فی الفور مرگئے۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا زندہ ملنا اور بادشاہ کو دعا دینا سب ایک کہانی ہے ورنہ درحقیقت وہ مرے ہوئے تھے اور طبری اور کالم ابن اشیر اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ زندہ ہوئے مگر جو روایتیں بیان کی ہیں ان سے صاف پایا جاتا ہے کہ کسی شخص نے جو ان کے دیکھنے کو گئے تھے ان کو زندہ نہیں دیکھا۔
طبری کی ایک روایت میں ہے کہ وہ زندہ ہوگئے تھے مگر جب لوگ ان کے دیکھنے کو کہف کے قریب پہنچے تو خدا نے ان کو پہر مردہ کردیا یا پر سلا دیا اور لوگ اندر جانے سے ڈر گئے اور اندر نہ جاسکے۔
دوسری روایت میں طبری نے لکھا ہے کہ بادشاہ اور لوگ کہ وہ میں گئے تو دیکھا کہ صرف ان کے جسم ہیں جو کسی طرح بگڑے نہ تھے مگر ان میں ارواح نہ تھی۔
کامل ابن اثیر میں ایک اور بات زیادہ لکھی ہے کہ وہ زندہ تو ہوگئے تھے مگر انھوں نے دعا مانگی کہ خدا ان کو مار ڈالے اور جو لوگ ان کو دیکھنے آئے ہیں ان میں سے کوئی ان کو نہ دیکھے پس وہ فی الفور مرگئی۔ اور یہ تمام روایتیں اس بات کی مثبت ہیں کہ وہ زندہ نہ تھے اور نہ کسی نے ان کو زندہ دیکھا اصل یہ ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا صدمہ نہیں پہنچتا اور لاشیں اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہوجاتی ہیں تو وہ سوراخ میں سے ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں کہ گویا پورے مجسم اجسام بلا کسی نقص کے رکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح لوگوں نے ان کو دیکھا اور جانا کہ پوری مجسم بلا کسی نقصان کے لاشیں رکھی ہیں یا وہ لوگ سو رہے ہیں۔
دہلی میں اسی قسم کا ایک واقعہ گزرا تھا جہاں حضرت نظام الدین کی درگاہ ہے وہاں بہت پرانا قبرستان ہے۔ ایک اونچی جگہ پر ایک چبوترہ تھا اور اس کے اوپر تین قبروں کے نشان تھے۔ اتفاق سے اس چبوترہ کی ایک طرف کی دیوار میں سے کچھ پتھر گرپڑے اور چھید ہوگیا کہ اندر سے پیر دکھائی دینے لگے لوگوں نے اس چھید میں سے جھانکا تو ان کو معلوم ہوا کہ قبر بہت بڑی مثل ایک مربع کوٹھری کے ہے اور تین لاشیں بالکل سفید کفن پہنے ہوئے مجسم بلا کسی نقصان کے ان میں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کا چرچا ہوا اور بہت آدمی ان کے دیکھنے کو گئے اور سب نے یہی بات بیان کی۔ میرے مخدوم دوست مولوی امام بخش صاحب صہبائی مرحوم کو اس قسم کی باتوں کے دریافت کا بہت شوق تھا وہ خود ان لاشوں کے دیکھنے کو گئے۔ اول انھوں نے جہانک کر دیکھا تو ان کو بھی اسی طرح مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوئیں۔ ان کو تعجب ہوا۔ انھوں نے دیوار کے دو ایک پتھر اور نکال ڈالے اور اندر گھسے۔ ایک عجیب بات تو یہ دیکھی کہ قبر ایک مربع کو ٹھہری کے برابر بنی ہوئی تھی اور تین لاشیں اس میں رکھی ہوئی تھیں۔ مگر سب بوسیدہ اور راکھ کے طور پر ہوگئی تھیں۔ لیکن جو کہ ہوا کا صدمہ کچھ نہ تھا تو جہاں ان کے ہاتھ رکھے ہوئے تھے وہیں ان کے ہاتھ کی راکھ تھی اور جہاں سر رکھا تھا وہیں سر کی راکھ تھی ۔ جہاں پاؤں رکھا ہوا تھا وہیں پاؤں کی راکھ تھی۔ اور سب کے نشان معلوم ہوتے تھے۔
وہ لاشیں کاٹھ کے تخت پر رکھی گئی تھیں وہ تخت بھی بوسیدہ ہو کر اور گل کر زمین کے برابر ہوگیا تھا مگر اس کے نشان بھی راکھ میں جدا محسوس ہوتے تھے۔ انھوں نے انگلی سے چھوا تو معلوم ہوا کہ بالکل راکھ ہے اور ہڈیوں اور راکھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر جب سوراخ میں سے دیکھا جاتا تھا تو وہ تمام نقش جو راکھ میں قائم تھے بالکل مجسم اور مسلم لاشیں معلوم ہوتی تھیں۔ تم خیال کرو کہ اگر ہم ایک تصویر کو ایک صندوق میں رکھ دیں اور ایسی حکمت کریں کہ کسی قدر شعاع آفتاب کی اس میں پہنچی اور اس کے پہلو میں ایک چہید کرکے اس کو دیکھیں تو وہ تصویر بالکل مجسم معلوم ہوگی۔ پس اس طرح سے اس قسم کی پرانی لاشیں جو کسی پہاڑ کے نل میں سے دیکھی جاتی ہیں تو وہ مسلم معلوم ہوتی ہیں اسی طرح اصحاب کہف کی لاشوں کے دیکھنے والوں کو وہ لاشیں مجسم معلوم ہوئی ہونگی ۔ کیورس متہس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کرکے مار سلیس کو بھیجی گئیں جو اب بھی سائنٹ ویکٹر کے گر جا میں دکھائی جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق تاریخ طبری سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ قتادہ نے روایت کی ہے کہ جب ابن عباس حبیب بن مسلمہ کے ساتھ جہاد پر گئے تو وہ کہف پر گزرے اور اس میں کچھ ہڈیاں تھیں۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ ان کی ہڈیاں تو تین سو برس سے زیادہ ہوا کہ یہاں نہیں رہیں۔
بہرحال جب اس ظالم بادشاہ نے اس کہ وہ کا منہ بند کرادیا تو یہ بیچارے اس میں بند ہوگئے اور مرگئے ایک زمانہ دراز کے بعد خواہ زمانہ دو سو برس کا ہوا یا ڈھائی سو برس کا یا تین سو برس کا یا تین سونو برس کا کسی شخص نے اس کہ وہ کے منہ کو کھولا جیسا کہ اکثر روایتوں میں بیان ہوا ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے پاس جو کہ وہ میں گئے تھے اس زمانہ کے سکہ کے روپے موجود تھے اور جس شخص نے اس کا منہ کہولا تھا اس نے وہ روپے پائے ہوں گے اور جب بازار میں لے گیا لوگوں نے چرچا کیا ہوگا کہ اس نے خزانہ پایا ہے حکم تک اس کو پکڑ کرلے گئے ہوں گے اور اس نے تمام قصہ پہاڑ کی کہ وہ میں لاشوں کے ہونے کا اور دہان سے روپیہ ملنے کا بیان کیا ہوگا اس پر وہاں کے حاکم اور شہر کے لوگ ان کے دبکنے کو آئے اور جانا کہ یہ ان لوگوں کی لاشیں ہیں جو دقیوس قیصر کے ظلم سے بھاگے تھے رایوں اور لوگوں نے اس اصلی واقعہ کی اس طرح پر بنا لیا کہ اصحاب کہف کئی سو برس بعد سونے سے اٹھے یا مردہ سے زندہ ہوگئے اور انھیں میں کا ایک شخص روبپہ لے کر بازار میں آیا اور چرچا ہوا اور سب لوگ پہاڑ کی کھو پر گئے۔ پھر کسی نے کہا وہ زندہ تھے ایک آیا وہ بات کہہ کر مرگئے۔ کسی نے کہا کہ مسلم بغیر کسی نقصان کے لاشیں تھیں مگر اس میں ارواح نہ تھی۔ ایسے واقعات میں اس قسم کی افواہیں دوڑا کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ روایتیں بن جاتی ہیں اور کتابوں میں لکھی جاتی ہیں اور مذہبی لگاؤ سے لوگ اس کو مقدس سمجھتے ہیں اور معجزہ اور کرامات قرار دیتے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 13

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾

تفسیر سرسید :

قرآن مجید میں جس قدر اس قصہ کا بیان آیا ہے وہ بالکل سیدھا اور صاف ہے بلکہ خدا نے اس قصہ کو اسی مقصد سے بیان کیا ہے کہ جو غلط باتیں اور عجائبات اس قصہ کے ساتھ مشہور تھے ان کی غلطی ظاہر ہو یا ان کی تکذیب کیجاوے اور تادیا جاوے کہ اصل واقعہ کیا ہے۔
مگر افسوس ہے کہ مفسرین نے جن کے کان انہی پرانی افواہی روایتوں سے بھرے ہوئے تھے اور عیسائی بھی اور ان کے سوا عرب اور ایشیا کے لوگ بھی اس قصہ کو عجائبات یا کرامت اور معجزات کے طور پر بیان کرتے تھے قرآن مجید کی آیتوں کی بھی وہی تفسیر کی جس سے خود خدا انکار کرتا تھا۔ فمثلھم کمثل الذی فسر القول بما لا یرضی قائلہ۔
تمام مفسرین کی سوائے معتزلہ کے یہ عادت ہے کہ اپنی تفسیروں میں محض بےسند اور افواہی روایتوں کو بلا تحقیق لکھتے چلے جاتے ہیں اور ذرا بھی تحقیق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ علاوہ اس کے انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ جہاں تک ہوسکے ہر ایک سیدھی سادی بات کو بھی ایک حیرت انگیز طریقہ پر اور عجائبات و کرامات کے نمونہ پر بیان کریں۔ اسی عادت کے موافق اصحاب کہف کے قصہ میں بھی عجیب و غریب باتیں ملا دی ہیں مگر قرآن مجید ان سب کو غلط بتاتا ہے۔
اب ہم کو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ان آیتوں کی جو اصحاب کہف کے قصہ سے متعلق ہیں تفسیر لکھیں اور دکھلائیں کہ قرآن مجید میں ان کا قصہ کس قدر اور کس طرح بیان ہوا ہے اور مفسرین ان آیتوں کی تفسیر میں کیسے دھوکا میں پڑگئے ہیں واللہ المستعان۔
یہ آیتیں جن کی ہم تفسیر لکھنی چاہتے ہیں نہایت صاف ہیں اول تو خدائے تعالیٰ نے اصحاب کہف کے باایمان ہونے کا ذکر کیا ہے اور ان لفظوں سے کہ ہم نے ان کو زیادہ ہدایت کی تھی اور مضبوط کردیا تھا ان کے دلوں کو اس میں اس واقعہ کا بیان ہے جبکہ ایک جابر اور بت پرست بادشاہ نے ان کو بلایا اور وہ اس کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس نے بت پرستی پر مجبور کیا اور وہ اپنے مذہب پر مستقل رہے اور انھوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ہم نہیں پکارتے اس کے سوا کسی کو معبود۔ اس کے بعد اس بات کا ذکر ہے کہ وہ ان مشرکین سے الگ ہو کر ایک پہاڑ کی کہ وہ میں جا چھپے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 17

وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا ﴿٪۱۷﴾

تفسیر سرسید :

(17) اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے اس کہ وہ یعنی کہف کا حال بتایا ہے جس میں اصحاب کہف جاکر چھپے تھے کہ جب آفتاب طلوع کرتا ہے تو کہ وہ کی دائیں طرف مائل ہوتا ہے اور جب غروب کرتا ہے تو اس کو کاٹتا ہوا بائیں طرف جاتا ہے اور اس کہ وہ یعنی کہف کی چوڑی جگہ میں اصحاب کہف جاکر رہے۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کہف یعنی پہاڑ کی کہو میں بالکل اندھیرا رہتا تھا اور اس کہف کا منہ شمال کی جانب تھا۔ اور لوگوں نے یہی اس کے مونہہ کی جانب بنات النعش کہا ہے جو آسمان پر جانب شمام چند کواکب ہیں۔ پس اگر کوئی شخص اپنا منہ شمال کی جانب کرکے کھڑا ہو تو مشرق دائیں ہاتھ کی طرف ہوگی اور مغرب بائیں ہاتھ کی طرف اور سورج جو مشرق سے نکلے گا اس کو کاٹتا ہوا بائیں ہاتھ کی طرف غروب ہوجائے گا ۔
پہاڑ میں جو اس قسم کی کہ وہ ہوتی ہے وہ دور تک لمبی اور تنگ چلی جاتی ہے اور کسی مقام پر چوڑی ہوجاتی ہے اسی چوڑی جگہ پر خدا نے فرمایا ہے کہ ” وھم فی فجوۃ منہ یعنی اصحاب کہف اس کہ وہ کی چوڑی جگہ میں تھے۔
اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ یہی اللہ کی نشانیوں میں سے جس کو خدا ہدایت کرے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جس کو گمراہ کرے پھر تو اس کا کوئی دوست راہ بتانے والا نہیں پائیگا۔
اگر کوئی یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ نے اصحاب کہف کو یا اس پہاڑ کی کہ وہ کو یا اصحاب کہف کے وہاں جاکر رہنے کو اللہ کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے تو یہ محض غلطی ہوگی کیونکہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ من یھد اللہ فھو المھتدو من یضل فلن یخذلہ سبیلا۔ وہ صاف بتاتے ہیں کہ اصحاب کہف جو اپنے ایمان پر اور خدا پرستی پر مستحکم رہے اور خدا نے نہایت سختی اور جبر میں بھی جو بت پرست بادشاہ کی طرف سے بتوں کے پوجنے پر ہوتے تھے ان کے دلوں کو مضبوط رکھا اس کی نسبت خدا نے فرمایا ذلک من ایات اللہ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 18

وَ تَحۡسَبُہُمۡ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمۡ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَ کَلۡبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالۡوَصِیۡدِ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَیۡہِمۡ لَوَلَّیۡتَ مِنۡہُمۡ فِرَارًا وَّ لَمُلِئۡتَ مِنۡہُمۡ رُعۡبًا ﴿۱۸﴾

تفسیر سرسید :

(18 ) اس آیت میں خدا تعالیٰ اصحاب کہف کی حالت بیان کرتا ہے کہ تو ان کو (یعنی اگر دیکھے تو) گمان کرے کہ وہ جاگتے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں اور ہم ان کو دائیں کروٹ اور بائیں کروٹ پر بدل دیتے ہیں اور ان کا کتا کہ وہ کے دہانہ پر ہاتھ پھیلائے ہوئے بیٹھا ہے۔
خدا تعالیٰ نے اس سے پہلے اصحاب کہف کا پہاڑ کی کہ وہ میں جانا بیان کیا ہے اس کے بعد اس کہ وہ کی حالت بیان کی ہے اور اب اصحاب کہف کی حالت بیان فرمائی ہے۔ پس یہ حالت اسی وقت کی ہے جبکہ اصحاب کہف کہ وہ میں گئے تھے نہ زمانہ موجودہ کی یا اس کے کسی زمانہ ممتد کے بعد کی تحسبھم ایقاظا کی نسبت مفسروں نے بہت سی بےاصل باتیں لکھی ہیں الا قرآن مجید سے جو اس کی وجہ پائی جاتی ہے وہ صرف خدا کا یہ فرمانا ہے کہ نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال اور یہی بات سچ ہے وہ پتھریلی کہ وہ میں جاکر سوئے تھے اور اس کے سبب سے گھڑی گھڑی کروٹیں بدلتے ہوں گے اور ان کی اس تکلیف کو خدا نے اس طرح پر ظاہر فرمایا ہے۔
اس کے بعد خدا تعالیٰ اس وحشت اور خوفناک حالت کو جس میں اصحاب کہف پہاڑ کی کہ وہ میں جاکر چھپنے سے مبتلا ہوئے تھے بتاتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر تو ان کو دیکھتا تو ان سے الٹا بھاگتا اور تجھ پر ان سے رعب چھا جاتا۔ مفسرین نے اس آیت کی نسبت بھی بہت سی افواہی اور بےسند روایتیں لکھی ہیں اور ان کی اس حالت کو زمانہ ممتدبابعد کی حالت قرار دیا ہے حالانکہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اصحاب کہف کی اس وقت کی حالت کو جب وہ پہاڑ کی کہ وہ میں گئے تھے بیان کیا ہے اسی طرح اسی وقت کی ان کی وحشت انگیز حالت کو ظاہر فرمایا ہے۔
قرآن مجید کا سیاق کلام یہی ہے کہ جب کسی گزشتہ واقعہ پر متنبہ کرنا یا توجہ دلانا چاہتا ہے تو گزشتہ واقعہ کو موجود قرار دے کر خطاب کے لفظوں سے مخاطب کرتا ہے جیسے کہ ” الم ترکیف فعل ربک باصحب الفیل “۔
پہاڑ کی کہو فی نفسہ ایک وحشت ناک جگہ ہوتی ہے۔ جبکہ میں لندن میں تھا تو ایک دوست سے ملنے پرسنل میں گیا جو ایک خوبصورت شہر ہے اس کے قریب سمندر کی کہا ری کے کنارے پر ایک چھوٹا سا پہاڑ کا ٹیبہ ہے اس میں ایک کہ وہ ہے جس میں کسی اگلے زمانہ میں کوئی ہر مٹ یعنی عیسائی درویش رہتا تھا میں اس کہ وہ کو دیکھنے گیا غالباً وہ کچھ بہت بڑی نہ تھی کئی سو فٹ کی لمبی ہوگی مگر ایسی تنگ و تاریک تھی کہ کوئی چیز یہاں تک کہ پاس کا آدمی بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جو شخص اس کے دکھانے کو ہمارے ساتھ تھا مہربانی سے روشنی لایا کہ ہم روشنی کے ذریعہ سے اس میں جاویں۔ قریباً نصف راستہ ہم نے طے کیا ہوگا کہ اس زور سے اور عجیب نفرت انگیز آواز سے ہوا آنی شروع ہوئی جس نے ہم کو پریشان کردیا اور جو روشنی ہمارے ساتھ تھی وہ گل ہوگئی ہم آگے نہ گئے اور واپس چلے آئے معلوم ہوا کہ اس کہ وہ سمندر کی جانب کوئی سوراخ یا موکہا ہے اس میں سے یہ شدید ہوا آئی ہے۔ جو شخص ہمارے ساتھ تھا اس نے بیان کیا کہ تھوڑی دور آگے قریباً دو ڈھائی گز چوڑی ایک جگہ ہے اس میں ہر مٹ رہتا تھا میں سمجھتا ہوں کہ اسی قسم کی جگہ پر شورہ کہف میں خدا تعالیٰ نے ” وھم فی فجوہ منہ “ کا اطلاق کیا ہے یہاں تک صرف اس قدر بات قرآن مجید سے پائی گئی کہ اصحاب کہف اس بت پرست بادشاہ کے خوف سے بہاگے اور پریشانی کی حالت میں ایک وحشت انگیز جگہ میں جو پہاڑ کی تنگ و تاریک کہ وہ تھی جاکر چھپے اور وہاں سو رہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 19

وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالُوۡا رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ ؕ فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ ہٰذِہٖۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ وَ لۡـیَؔ‍‍‍تَلَطَّفۡ وَ لَا یُشۡعِرَنَّ بِکُمۡ اَحَدًا ﴿۱۹﴾

تفسیر سرسید :

پھر خدا نے ان کو جگایا یعنی وہ جاگے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ” اور اسی طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ وہ آپس میں میں پوچھیں۔ اس میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ تم کتنا سوئے انھوں نے کہا ایک دن سوئے یا ایک دن سے کچھ کم وہ بولے کہ تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم کتنا سوئے۔ “
پہاڑ کی کہو جس میں وہ جاکر چھپے تھے نہایت اندھیری تھی سورج کی روشنی اس میں نہیں پہنچتی تھی یہ ایک معمولی بات تھی کہ جب وہ سو کر اٹھے تو پوچھا کہ کس قدر سوئے اس اندھیری کہ وہ میں کسی نے کہا دن بھر یا کچھ کم سوئے جو کہ وہ لوگ بسبب اندھیرے کے ٹھیک اندازہ نہیں کرسکتے تھے انھوں نے کہا خدا معلوم کتنا سوئے۔
یہ ان کا سونا اور جاگنا پہاڑ کی کہ وہ میں جانے کے بعد ایک معمولی زمانہ تک سو کر جاگنا تھا اور کوئی عجیب بات اس میں نہ تھی اور نہ قرآن میں اس مقام پر یعنی اس قصہ میں جس کی نسبت خدا نے کہا ” نحن نقص علیک نباع لھم بالحق “ کوئی اشارہ اس بات کا ہے کہ ان کے ہوتے رہنا زمانہ طویل غیر عادی اور غیر قیاسی اور غیر طبعی تک ہوا تھا بلکہ تمام سیاق سے پایا جاتا ہے کہ وہ کہ وہ میں چھپے وہاں سو رہے اور معمولی قاعد پر اٹھے آپس میں پوچھنے لگے کہ کتنا سوئے۔
بعض مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ ہر گاہ ان کے اوٹھنے کی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ آپس میں سوال کریں کہ کتنا سوئے تو زمانہ نوم میں ضرور کوئی ندرت ہوئی اور اس ندرت کو نوکم زمانہ طویل قرار دیا ہے۔ مگر یہ ان کی محض غلطی ہے ایک امر کے بعد دوسرے امر کو جو اس کے متصل واقع ہوا ہو۔ لام کے ساتھ بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا امر اس کی علت ہو قرآن مجید کا سیاق کلام ایسا ہی ہے کہ ایک واقعہ کے بعد جو دوسرا واقعہ ہوتا ہے اس کو لام کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے جس سے محض تعقیب مراد ہے نہ علت چنانچہ قرآن مجید میں بہت جگہ جس پر لام آیا ہے وہ ہرگز اپنے ماقبل کی علت نہیں ہے اس سورة میں خدا نے فرمایا ہے ” ثم بعلنا لھم نعلم ای الخریین احصیٰ لما لبثوا “ پس خدا کا علم ان کے زمانہ نوم کی نسبت ان کے اٹھنے کا معلول نہ تھا۔ اس کے سوا اور بہت سے مقام قرآن مجید میں اس سے زیادہ صاف طور پر آئے ہیں جہاں خدا نے فرمایا ” وماجعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول “ اور جہاں فرمایا ہے ” وماکان لہ علیھم من سلطان الالنعلم من یومن بالاخرۃ “ اور جہاں فرمایا ہے ” فی النقطر ال فرعون لیکون لھم عدواو خزنا “ پس جبکہ ان کے جگا نے کی علت ان کا باہم سوال کرنا نہ تھا جو دلیل ندرت زمانہ نوم کی ان مفسرین نے سمجھی تھی گو وہ کیسی ہی لغو اور مہمل تھی مگر وہ باطل ہوجاتی ہے۔ یہ امر بھی انسانوں میں بہت واقع ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنی کے بعد پوچھتے ہیں کہ کتنا سوئے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے جاگنے کی علت سوئے کی ملک کا سوال کرنا تھی۔
اصل یہ ہے کہ مفسرین اور وایت گڑھنے والوں کو اس وجہ سے غلطی پڑی ہے کہ ابتدا میں یعنی جس مقام پر خدا نے لوگوں کی غلط افواہ اور غلط تعجب کا ذکر کرتے وقت ان کا قول نقل کیا تھا کہ ” فضربنا علے اذانھم فی اکھف سنین عددثم بعثنا “ اور سنین عددا سے زمانہ ممتد مقصود تھا اس پر انھوں نے سمجھ لیا کہ کئی سو برسوں سونے کے بعد اٹھے ہوں گے حالانکہ اس واقعی اور صحیح قصہ میں خدا تعالیٰ نے ان کا سونا اور پھر جاگنا مسلسل طور پر کہ وہ میں جانیکے بعد بیان کیا ہے۔
شروع قصہ میں خود خدا تعالیٰ نے قصہ کے عجیب ہونے کی نفی کردی تھی اور اس کا عجیب ہونا صرف مدت دراز تک سوئے رہنے سے تھا اس صحیح اور واقعی قصہ میں خدا تعالیٰ نے ان کا زمانہ دراز تک سوئے رہنے کا ذکر نہیں فرمایا۔ پس اس مقام پر بھی اس غلط شہرت کو داخل کرنا صریح غلطی ہے۔
جب وہ اٹھے تو انھوں نے کہا کہ بھیجو اپنے میں سے ایک کو اپنے پاس سے چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر کو تاکہ دیکھے کہ کونسا اچھا کھانا ملتا ہے اور اس میں سے تمہارے لیے کھانا لادے اور جلدی آوے اور کسی کو تمہاری خبرب نہ کرے بیشک اگر وہ تم پر چڑھ آوینگے تو پتھر مار کر مار ڈالیں گے یا تم کو اپنے مذہب میں پھیرلیں گے اور اس وقت تم کبھی فلاح نہیں پانے کے۔
اس کی تصریح قرآن مجید میں نہیں کہ وہ صرف ایک ہی دفعہ کھانالینے گیا یا اسی طرح متعدد دنوں تک کھانا لایا کرتا تھا۔ مگر تفسیر معالم التنزیل میں محمد بن اسحق کی روایت لکھی ہے کہ ” فلبثوا بذلک مسالھثوا “ یعنی وہ اسی طرح کرتے تھے جب تک کہ وہ کرتے رہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عرصہ تک وہ اسی طرح اپنا کھانا شہر سے منگاتے رہے۔
اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کی خبر کردی۔ مگر اس کے بعد خدا نے یہ نہ بتایا کہ ان لوگوں نے ان کی خبر پاکر ان کے ساتھ کیا کیا مگر یہ فرمایا تاکہ وہ جان لیں کہ بیشک وعدہ اللہ کا سچا ہے اور بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔ اس مقام پر جو بحث ہے وہ یہ ہے کہ ” یعلموا “ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع کون ہیں عموماً مفسرین عام لوگوں کی طرف جن کو ان کی خبر ہوگئی تھی اس کا مرجع بیان کرتے ہیں مگر لوگوں کو ان کی خبر ہوجانے سے کہ وہ پہاڑ کی کہ وہ میں چھپے ہوئے ہیں۔ ” ان وعد اللہ احق وان الساعۃ
لاریب فیھا “ سے کیا تعلق ہے۔
اگر کہا جاوے کہ ان کی خبر ملنے کا واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ وہ ایک مدت درازتک سو کر اٹھے تھے تو اول تو ان کی مدت دراز تک سوتے رہنے کی نفی ہوچکی اور اگر بالفرض تسلیم کیا جاوے تو بھی ایک مدت تک گو کہ وہ کتنی ہی دراز ہو سو کر اٹھنے سے اس بات کا کہ ” وعداللہ حق وان الساعۃ لاریب فیھا “ کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔
اور اگر بالفرض وہ اس کہ وہ میں مرگئے ہوں جیسے کہ بعض مورخین کا قول ہے اور تین سو برس بعد پھر زندہ ہوئے ہوں اور ان کے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد لوگوں کو خبر ہوئی ہو تو بھی ان کا دوبارہ زندہ ہونا کسی نے نہیں دیکھا تو پھر کیونکر ان لوگوں کو جنہوں نے ان کی خبر سنی تھی قیامت یعنی جس میں اجساد پر یقین ہوسکتا تھا۔
کچھ شبہ نہیں ہے کہ ضمیر العلموا کی خوداصحاب کہف کی طرف راجع ہے کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ لوگوں کو ان کی خبر ہوگئی تو ان کو یقین ہوا کہ اب وہ مارے جاوینگے ۔ پس خدا کا یہ فرمانا کہ لیعلموان وعدابدحق دن الساعۃ لاریب فیھا اشارہ اس بات کا ہے کہ وہ مارے گئے کیونکہ اس بات کا جاننا کہ وہ اللہ حق جیسا کہ موت سے ہوتا ہے اور طرح پر نہیں ہوسکتا۔ قال اللہ تعالیٰ والذین امنو وعملوا الصحلت سند خلھم جنات تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا وعداللہ حقاومن اصدق من اللہ قیلا “۔
پس جن مورخین کا یہ قول ہے کہ جب اس بت پرست بادشاہ کو ان کے پہاڑ کی کہو میں چھپے ہونے کی خبر ہوئی تو اس نے اس کہ وہ کا منہ بند کرادیا تاکہ وہ بھوکے اور پیاسے اس میں مرجاویں اور وہ کہ وہ ان لیے بمنزلہ قبر کے ہوجاوے چنانچہ وہی مرگئے بہت صحیح درست معلوم ہوتا ہے اور قرآن مجید سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا واقعہ کی کئی سو برس بعد پہاڑ کی کہ وہ کا مونہہ جو بند کردیا گیا تھا کھل گیا اس کہ وہ میں ان کی لاشیں جو صرف ہڈیاں باقی تھیں معلوم ہوئیں اور ضرور کہ وہ کے اندر بموجب قاعدہ علم مناشر کے پوری لاشیں دکھائی دیتی ہونگی اس وقت لوگوں نے ان کی زیارت کی اور جیسے کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے کہ ” اسوقت آپس میں ان کے باب میں جھگڑا کرنے لگے۔ پھر انھوں نے کہا کہ ان کے اوپر کوئی مکان یعنی مقبرہ بنادوں ان کا خدا ان کے حال کو بخوبی جانتا ہے “۔
ان لوگوں نے جو ان کے کہنے والوں کے کام پر غلبہ رکھتے تھے یعنی حاکم یا پادری انھوں نے کہا کہ ان کو قرار دینگے مسجد یعنی عبادت گاہ۔ چنانچہ بعض انگریزی کتابوں میں جن میں یہ قصہ بیان ہوا ہے لکھا ہے کہ ان کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے پندوق میں بند کرکے مارسیٹیس کو بھیجی گئی تھیں اور سینٹ ویکٹر کے گرجا میں موجود ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 22

سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَۃٌ سَادِسُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡہِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا ﴿٪۲۲﴾

تفسیر سرسید :

( 22) اس بات میں کہ اصحاب کہف کے آدمی تھے لوگ مختلف تھے۔ چنانچہ خدا فرماتا ہے کہ کہیں گے (یعنی جب ان سے پوچھو) کہ تین تھے ان میں چوتھا ان کا کتا تھا اور کہیں گے پانچ تھے ان میں چھٹا ان کا کتا بن نشانہ دیکھے پتھر مارتے ہیں اور کہیں گے سات تھے اور ان میں آٹھواں ان کا کتا تھا تو کہہ دے اے پیغمبر کہ میرا پروردگار خوب جانتا ہے ان کی تعداد کو ان کو نہیں جانتے مگر تھوڑے ۔ پہر تو ان سے ان کے باب میں جھگڑا مت کر سوائے ظاہری بات چیت کے اور نہ ان کے باب میں ان میں سے کسی ایک سے کچھ پوچھ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 23

وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

تفسیر سرسید :

(23) اس آیت میں خدا نے اپنے پیغمبر کو جب تو بھول جاوے اور کہہ دے کہ شاید ہدایت کرے مجھ کو میرا پروردگار اس سے بھی قریب زیادہ ٹھیک بات کی۔
تمام مفسرین نے اس آیت کے معنی بیان کرنے میں غلطی کی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ جو غلط شان نزول قصہ اصحاب کہف کی بیان کی ہے اس کے سبب سے اس آیت کی تفسیر میں بھی غلطی واقع ہوئی ہے۔
تمام مفسرین قصہ اصحاب کہف کی شان نزول میں لکھتے ہیں کہ نصر بن الحارث اور عتبہ بن ابی معیط مدینہ کے یہودیوں کے احبار یعنی علما کے پاس گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات ان سے کہے ان لوگوں نے کہا کہ تم ان سے تین سوال کرو اگر وہ جواب دیں تو نبی ہیں اور نہیں تو نہیں۔
ایک یہ کہ چند جوان جو اگلے زمانہ میں گزرے ان کا کیا حال ہے۔
ایک یہ کہ اس شخص کی جو بڑا پھرنے والا تھا اور زمین کے مشرق اور مغرب تک پہنچا تھا اس کے حالات کیا ہیں۔
ایک یہ کہ روح کیا ہے۔
پہلے سوال کے جواب میں اصحاب کہف کا قصہ نازل ہوا۔ مگر ہمارے نزدیک نہ اس تمہید کی جو سوالات کرنے کے باب میں بیان ہوئی ہے کوئی سند ہے اور نہ اس بات کی طرف کہ اصحاب کہف کے قصہ کی نسبت کسی نے سوال کیا تھا کوئی اشارہ ہے۔ ذوالقرنین کا حال اور روح کی ماہیت بلاشبہ لوگوں نے آنحضرتئ سے پوچھی تھی۔ اور قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہے جہاں فرمایا ہے ” یسئلونک عن ذی القرنین یسئلونک عن الروح “ مگر اصحاب کہف کے قصہ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس پایا جاوے کہ وہ قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے پوچھا تھا۔ معھذا نبی ہونے کی شناخت ان سوالوں کے جواب پر منحصر کرنا کیسی ایک لغو اور بیہودہ بات ہے۔
اس روایت میں ایک صریح غلطی یہ ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ یہودیوں کا یا یہودی مذہب کا قصہ نہیں ہے بلکہ عیسائی مذہب کے لوگوں کا قصہ ہے پس اس کی نسبت علمائے یہود سے پوچھنا یا علمائے یہود کا اس کی نسبت سوال بتانا اور اس کے جواب پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبی ہونا منحصر کرنا کیسا غلط ہے۔
علاوہ اس کے یہ قصہ کچھ بہت پرانا قصہ نہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ سے تھوڑے زمانہ پہلے کا ہے جیسے کہ آئندہ معلوم ہوگا۔ معہذابہ قصہ عرب جاہلیت کو بھی معلوم تھا جیسے کہ ایمیہ بن ابی الصلت جاہلی کے شعر سے پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے ؎
ولیس بھا الا الرقیم مجاورا
وصیدھم والقوم فی الکھف ھمد
پس ایسے قصہ کو پوچھنا اور اس پر نبی ہونے کو منحصر کرنا کسی طرح سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔
علاوہ اس کے خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کہ قبل اس کے کہ خدا تعالیٰ اس قصہ کی حقیقت بتلادی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قصہ کو مع ان عجائبات کے جو لوگوں نے اس میں شامل کردیئے تھے سن چکے تھے اور متعجب ہوئے تھے خدا نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تونے سمجھا ہے کہ اصحاب کہف و رقیم میری عجیب نشانیوں میں سے تھے اور جب تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ قصہ مع ان عجائبات کے جو لوگوں نے اس میں شامل کرلئے تھے۔ نہ سن لیا ہو تو خدا کا یہ فرمانا کہ کیا تونے اس کو عجیب سمجھا ہے صحیح نہیں ہوسکتا بےجانی ہوئی چیز پر نہیں کہا جاسکتا کہ کیا تونے اس کو عجیب جانا ہے۔
یہ کہانی کہ قریش نے احبار یہود کے کہنے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوال کہے تھے اور آپ نے فرمایا کہ میں کل اس کا جواب دونگا مگر انشاء اللہ تعالیٰ نہ کہا اور پندرہ روز تک نہ جبرائیل آئے نہ وحی لائے اور قریش ایسی ویسی باتیں بنانے لگے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملول و متفکر ہوئے محض غلط اور ساختہ کہانی ہے اور حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت نہیں ہے۔
لوگوں کی عادت ہے کہ جہاں قرآن مجید کی کسی آیت میں اس قسم کا کوئی لفظ دیکھا جس پر کوئی قصہ مبنی ہوسکتا ہے اس کی مناسبت سے ایک قصہ روایت کرنے لگے اور ہمارے مفسرین نے ان روایتوں کو اپنی تفسیروں میں نقل کرنا شروع کیا۔ اسی سورة میں جو یہ آیت ہے کہ ” اور تو کبھی نہ کہنا کسی چیز کے لیے کہ میں اس کو کل کرونگا بغیر انشاء اللہ کہے اور یاد کر اپنے پروردگار کو جب تو بھول جاوے “ اس آیت سے لوگوں نے قصہ بنایا کہ قریش نے یہ قصہ پوچھا تھا اور آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں کل جواب دونگا مگر انشاء اللہ نہیں کہا تھا اس پر خدا روٹھ گیا اور دو ہفتہ تک وحی نہیں بھیجی نعوذ باللہ من بذہ الشطحیات۔
اول تو غداً کے معنی کل کے یعنی دوسرے دن کے قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ غداً اور غدا کا استعمال زمانہ مستقبل غیر معین و غیر محدود پر ہوتا ہے خدا نے سورة لقمان میں فرمایا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا پس غدا کے لفظ سے جس کا ترجمہ کل (اور فروا) ہے دوسرا دن مراد نہیں ہے بلکہ اس سے زمانہ مستقبل یعنی آنے والا زمانہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ وہ کیا کریگا۔
زمانہ جاہلیت میں بھی غد کے لفظ کا اس معنی میں استعمال ہوتا تھا جیسے کہ زیاد ابن معاویہ المعروف بالنابغہ الزبیانی جاہلی شاعر نے کہا ہے ؎
لامرحبا بغد ولا اھلا بہ
ان کان تفریق الاحبۃ فی غد
پس اس آیت میں جو لفظ غداً کا ہے اس کے معنی دوسرے دن کے نہیں ہیں خدا نے فرمایا کہ جب تم آئندہ زمانہ میں کسی کام کے کرنے کو کہو تو اس کے ساتھ انشاء اللہ کہہ لیا کرو۔ لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ آیت سورة کہف کی آیتوں میں شامل ہے اور غدا کا لفظ اس میں آیا ہے اور لوگوں کا ذوالقرنین کی نسبت اور روح کی نسبت بھی سوال کرنا قرآن میں مذکور ہے ایک روایت جس کی کوئی سند نہیں ہے کٹھری کی اور ہمارے مفسروں نے اپنی تفسیروں میں نقل کرنا شروع کردیا۔
خدا تعالیٰ نے اس مقام پر اصحاب کہف کے قصہ کو اخیر تک بیان نہیں کیا بلکہ صرف اسی قدر بیان کیا ہے جہاں تک اس بات سے علاقہ رکھتا ہے جس سے اس قصہ کا عجیب و غریب اور مافوق الطبیعت ہونا لوگوں نے بیان کیا ہے باقی قصہ کو چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ اس کے بیان کی ضرورت نہ تھی اس لیے جس مقام پر اس قصہ کو چھوڑا اپنے پیغمبر کو نصیحت کی ہے جو کام آئندہ کو کرنا ہو بغیر انشاء اللہ کہے مت کہو کہ میں کرونگا اور اگر انشاء اللہ کہنا بھول جاوے تو اس کی یاد کرلے یعنی یاد آنے پر کہہ لے۔ یہ جملہ اس مقام پر اس لیے فرمایا کہ خدا نے قصہ کو ناتمام چھوڑا کر اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ یہ کہہ دے کہ ہدایت کرے مجھ کو میرا پروردگار اس سے بھی قریب زیادہ ٹھیک بات کی۔ یعنی جو قصہ باقی رہ گیا ہے اس کو بھی تحقیق طور پر بتادینے کی اور اسی کے بعد فرمادیا کہ خدا کو معلوم ہے کہ وہ کہف میں کتنی مدت رہے ۔ غرضیکہ جو شان نزول مفسرین نے بتائی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ قاضی عبدالجبار معتزلی نے بھی اس شان نزول پر اعتراض کیا ہے کہ یہ شان نزول صحیح نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 25

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا ﴿۲۵﴾

تفسیر سرسید :

( 25) پچیسویں آیت میں جو لفظ ” والبثو “ کا ہے اس کا عطف ” یقولون “ پر ہے جو اس کی پہلی آیت میں ہے یعنی کہیں گے کہ وہ پہاڑ کی کہ وہ میں تین سو برس اور انھوں نے زیادہ کئے (یعنی اس پر) نور برس تو کہہ دے کہ خدا خوب جانتا ہے کہ کتنی مدت وہ رہے اسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننا خوب دیکھنے والا ہے اس کا یعنی غیب کا اور خوب سننے والا اس کے سوا ان کے لیے کوئی دوست نہیں ہے اور وہ شریک نہیں کرتا اپنے حکم میں کسی کو۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ اصحاب کہف کسی مدت تک پہاڑ کی کہ وہ میں رہے اور اس کہنے سے لازم آتا ہے کہ وہ کسی مدت کے بعد پہاڑ کی کہ وہ میں سے نکلے مگر کوئی مورخ اس بات کو نہیں کہتا کہ وہ کسی زمانہ میں پہاڑ کی کہ وہ میں سے زندہ نکل کر کہیں رہے ہوں اور نہ کسی روایت میں ایسا بیان ہوا ہے پس جس مدت کا اس آیت میں ذکر ہے اس سے وہی مدت مراد ہے جو ان کے پہاڑ کی کہ وہ میں جانے اور ان کی ہڈیوں کو اس میں سے نکالنے میں گزرا بیشک اس زمانہ کی مدت ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہے لیکن جہاں تک کہ تاریخ سے معلوم ہوسکتا تھا اور سب کو ہم بیان کرچکے ہیں۔
یہ ہے صحیح قصہ اصحاب کہف کا بعض لوگوں کو جہاں کہیں پرانی لاشیں برآمد ہوئی ہیں شبہ پڑا ہے کہ یہ لاشیں اصحاب کہف کی ہیں معجم البلدان میں یاقوت حموی نے ایک قصہ لکھا ہے کہ واثق باللہ نے محمد بن موسیٰ نجومی کو روم میں بھیجا کہ وہ اصحاب کہف کو دیکھے اور وہ روم کے ایک شہر میں گیا وہاں ایک چھوٹا سا پہاڑ تھا کہ اس کا گھیر نیچے سے ہزار گز سے کچھ کم تھا اور زمین سے ملی ہوئی اس میں ایک سرنگ تھی وہ اس میں گیا اور وہ تین سو قدم نیچے چلے گئے وہاں پہنچ کر اس کو ایک مکان ملا جو ستونوں پر بنایا ہوا تھا اور ستون بھی پہاڑ ہی میں سے کھودے ہوئے تھے اور اس میں کئی کوٹھریاں تھیں ایک کوٹھری کی کرسی آدمی کے قد کے برابر اونچی تھی اور اس پر ایک پتھر کا دروازہ تھا وہاں ایک آدمی متعین تھا وہ ان لاشوں کے دیکھنے اور تلاش کرنے کو منع کرتا تھا اور ڈراتا تھا کہ کچھ آفت لگ جائے گی منجم نے اس کے منع کرنے کو نہ مانا اور نہایت مشکل اور وقت سے اس کے اوپر چڑھا وہاں اس نے لاشیں دیکھیں جو صبر اور مراد کافور سے لیپ کئے ہوئے رکھی نہیں۔
ایک اور قصہ ہے کہ بلاء میں یہ اطراف دمشق ایک جگہ عمان کے قریب ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ جگہ اصحاب کہف والرقیم کی ہے۔
اور ایک یہ قصہ ہے کہ اندلس کے جنگل میں ایک جگہ ہے جس کو جنان الورد کہتے ہیں اور اسی کو اصحاب الکہف والرقیم کی جگہ بتاتے ہیں اور وہاں لاشیں ہیں کہ وہ بگڑتی نہیں۔
ایک اور قصہ ہے کہ علی بن یحییٰ اٹلی کے ملک میں ایک جگہ گیا اس نے غار دیکھا اور اس کے اندر تیرہ لاشیں تھیں اور یہ خیال کیا کہ سات لاشیں تو اصحاب کہف کی ہیں اور باقی لاشیں اہل روم نے اپنے بزرگوں کی صبر اور دوا میں مل کر رکھ دیں ہیں۔
عبادہ بن صلت سے ایک روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے پہلے سال خلافت میں اس کو روم میں بھیجا قریب قسطنطنیہ کے اس نے ایک شرخ رنگ کا پہاڑ دیکھا اور لوگوں نے کہا کہ اس میں اصحاب الکہف ہیں وہاں ایک گرجا تھا گرجا کے لوگوں نے ایک سرنگ بتائی جو پہاڑ میں تھی وہ مجھ کو وہاں لے گئے اور وہاں ایک لوہے کا دروازہ لگا ہوا تھا وہ کھولا تو ہم ایک بڑے مکان میں پہنچے اس میں تیرہ لاشیں چت رکھی ہوئی تھیں گویا کہ وہ سوتے ہیں ہم نے ان کا مونہہ کھول کر دیکھا تو وہ بالکل تروتازہ تھا جیسا کہ زندہ آدمیوں کا۔ ایک شخص کے مونہہ پر تلوار کا زخم تھا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ابھی زخم لگا ہے۔ میں نے ان لوگوں سے ان کا حال پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنی کتابوں میں پاتے ہیں کہ یہ لاشیں حضرت عیسیٰ کے مبعوث ہونے سے چار سو برس پہلے سے ہیں اور یہ سب ایک وقت میں انبیاء مبعوث ہوئے تھے اس کے سوا اور کچھ ہم نہیں جانتے۔
ء میں جب ایک انگریزی کمیشن افغانی اور روسی سرحد مقرر کرنے کو ترکمانوں کے ملک میں گیا تو اس وقت ایک شخص نے ایک پہاڑ کا جس کا نام اس نے کوہ رقیم لیا ہے اس طرح حال لکھا ہے۔
کوہ رقیم جس میں سات شخص خوابیدہ ہیں یہ زیارت مسلمانوں کی ہے اور ہمارے کیمپ سے چار میل جنوب و غرب کی وادی حراق میں ہے کیمپ کے مسلمان اس کی طرف چلے اور میں بھی گھوڑے پر سوار معہ صوبیدار محمد حسین خاں صاحب دوسری پلٹن سکہ کے گیا۔ اہل اسلام اس مقام کو اس لیے متبرک مانتے ہیں کہ اصحاب کہف کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اس پہاڑ کو جس میں یہ زیارت واقع ہے یہاں کے باشندے چہار شنبہ یہی بولتے ہیں اور اس کے نواح میں پہلے کسی زمانہ میں ایک آبادی قشلان نام کی تھی جس میں ہزار باشندے بستے تھے شاید کسی مقام پر شہر فسوس بھی ہوگا جس کا ذکر قصہ اصحاب کہف میں کیا جاتا ہے کہ ایک شخص منجملہ ان سات شخصوں کے شہر فسوس میں گیا۔ تاکہ روٹی خرید لاوے ۔ لیکن اس کا صحیح پتہ مشکل ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ مقام (التیمور) میں تھا جو جنوبی جانب پہاڑوں میں ہے اور جہاں اب تک ایک قطعہ موجود ہے فی الحال اس قطعہ کی سیر ممکن نہیں کیونکہ برف بہت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مقام مچکو میں تھا جو چہار شنبہ سے مشرق کی طرف سات میل کے فاصلہ پر ہے واقعی مچکو ایک آباد جگہ تھی اور بڑا موضوع تھا جس کو ترکمانون نے غارت کرکے اجاڑ دیا ہے۔ یہ مقام درمیان مروچک اور اندخوی کے ہے۔ کوہ رقیم پر اس وقت بیس خاندان سیدوں کے آبا د ہیں اور ایک موضع خاص سادات کا غار کے مونہہ پر واقع ہے آگے بڑھ کر ایک اور موضع ڈھائی سو خاندان کی آبادی کا ہے۔ یہ پہاڑ ایک تنگ وادی میں ہے اور جس میں مجاورین تردد کرتے ہیں وہ ان کو معاف ہے۔ علاوہ اس کے جو لوگ زائرین یہاں آتے ہیں وہ مجاورین کی خدمت کرتے ہیں پہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہے اور غار کے مونہہ پر ایک محراب وارد روازہ بیس فٹ بلند بنا ہوا ہے اور اس پر ایک چوب بطور نشان استادہ ہو کر ایک کپڑا اس میں لگا ہوا اڑتا ہے۔ اس غار کے چاروں طرف ایک وسیع قبرستان ہے جو شخص مرتا ہے یہیں لاکر دفن ہوتا ہے اسی وجہ سے کہ یہ پہاڑ متبرک ہے۔ غار کے مونہہ سے دس بارہ گز کے فاصلہ پر ایک طرف تہ خانہ ہے تہ خانہ میں دور چل کر ایک دروازہ مٹی سے چھپا ہوا ہے۔ سیدون نے کہا کہ یہ سیدھا راستہ مکہ کا ہے مگر قدرت اس کو کھولنے نہیں دیتی جب مٹی ہٹاتے ہیں اور مٹی یہاں گرجاتی ہے دہنی طرف ایک تاریک حجرہ میں ایک زینہ لگا ہے اور اس میں تختے بچھے ہیں اور یہاں سے راستہ خفتگان کا بند کردیا ہے۔ سیدون نے بہت کچھ کرامات اصحاب کہف کی بیان کی اور کہا اصحاب موصوفین اب بھی غار کے اندر سوتے ہیں۔ اور کچھ تبرکات بھی دکھلائے اور سب سے بڑا مشاہدہ یہ ہوا کہ انھوں نے شمع اندر بڑھا کر کہا دیکھو یہ سوتے ہیں ایک چادر سفید گوٹ کی نظر آئی۔
نامہ نگار کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ ہم کو یہ بھی دکھلادو کہ اس چادر کے نیچے کیا ہے انھوں نے کہا یہ نہ ہوگا کیونکہ ہم خود واقف نہیں کہ اس کے نیچے کیا ہے اور کہنے لگے کہ بزمانہ ماسبق ایک شخص نے کپڑا اٹھا کر دیکھنا چاہا تھا فوراً اندھا ہوگیا تھا۔ اور کہا کہ اگر تمہیں شک ہے تو ادھر دیکھو اور یہ کہہ کر شمع ایک طرف پھیر دی دیوار کے ساتھ کتے کی ٹانگیں نظر آئیں گمان تھا کہ کتا سوتا ہے۔ واللہ اعلم کیا اسرار ہے۔
اس قسم کی لاشوں کا برآمد ہونا اگر وہ درحقیقت اور فی الواقع برآمد ہوں تو کچھ تعجب کی بات نہیں ہے مصر میں ہزاروں برس کا دستور تھا کہ لاشوں کو ممی بنا کر رکھتے تھے چنانچہ بہت سے موزیم میں وہ لاشیں جو برآمد ہوئی ہیں موجود ہیں۔
ایشیا میں بھی قدیم زمانہ میں ممی بنانے کا کسی قدر رواج ہوا تھا اور اس سبب سے بعض ایشیا کے مقاموں میں سے ایسی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ علاوہ اس کے بعض ملکون اور پہاڑوں میں بسبب تاثیرات ملکی اور برف کے اسی طرح کی افتادہ لاشیں بھی نکل آتی ہیں اور لوگ ان کو اصحاب کہف کی لاشیں سمجھ جاتے ہیں۔
علاوہ اس کے ان مقاموں کے خادم روپیہ کمانے کے لیے بہت کچھ فریب کیا کرتے ہیں اور جھوٹی روایتیں بیان کرتے ہیں جس زمانہ میں کہ سید احمد صاحب سکون سے لڑکر شہید ہوئے ان کی لاش میدان جنگ میں دستیاب نہیں ہوئی غالباً اس وجہ سے کہ مغلوبین تو کافی تھے پر تلاش نہ کرسکے اور جو غالب ہوئے تھے وہ یقیناً پہچان نہیں سکتے تھے پس ان کے مریدوں کو موقع ملا اور انھوں نے کہا کہ وہ زندہ ہیں اور پہاڑ کی کہ وہ میں خدا کی عبادت اور نماز میں مشغول ہیں اور انھوں نے کہ وہ میں ایک لکڑی پر عمامہ رکھ کر اور جبہ کرتا پہنا دیا تھا اور دور سے لوگوں کو دکھا دیتے تھے کہ وہ بیٹھے نماز میں مشغول ہیں۔
ہزروں لوگ اب بھی بعض بزرگوں کی نسبت یقین رکھتے ہیں کہ وہ سینکڑوں برس سے پوشیدہ زندہ ہیں اور وقت مقرر پر تشریف لاوینگے یہودی چند بزرگوں کو زندہ جانتے ہیں۔ مسلمان و عیسائی حضرت عیسیٰ کے زندہ ہونے کے اور پھر دنیا میں آنے کا یقین کرتے ہیں۔ شیعہ حضرت امام مہدی کے پوشیدہ ہوجانے اور اب تک بلکہ وقت ظہور تک جو قیامت کے قریب ہوگا زندہ ہونے کے قائل ہیں۔ اس قسم کے خیالات واعتقادات ایسی باتوں پر جو لوگ بنا لیتے ہیں زیادہ یقین کرلینے کے باعث ہوتے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 49

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ﴿٪۴۹﴾

تفسیر سرسید :

یہ آیت اور اس سے پہلے کی آیتیں قیامت کے حال سے متعلق ہیں۔ اور اس آیت میں جو لفظ ہے ” ووضع الکتب “ اس سے مفسرین نے اعمالنا سے مراد لیے ہیں۔ مگر سب سے پہلے ہم کو یہ بیان کرنا چاہیے کہ اعمالنامون کا ہونا اور ان کا لکھا جانا جو تسلیم کیا گیا ہے اس کی بناکن آیتوں پر ہے اور کون ان کے لکھنے والے قرار دیئے گئے ہیں اور اعمالنامون کے لکھے جانے کی حقیقت کیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی بنیاد مفصل ذیل آیتوں پر ہے۔
کلا بل تکذبون بالدین وان علیکم لحاقطین کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون (انقطار - )
سورة انقطار میں خدا نے قیامت کا حال بیان کرکے فرمایا ہے کہ ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔ اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ نہیں نہیں ! اے کافرو تم اسی بات سے منکر نہیں ہو بلکہ تم جھوٹ سمجھتے ہو قیامت کو اور حال یہ ہے کہ بیشک تم پر نگہبان ہیں بڑے قدر والے لکھنے والے وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔ تمام مفسروں نے ” حافظین “ سے فرشتے مراد لیے ہیں یعنی تم پر فرشتے نگہبان ہیں۔ اور ” کراما کاتبین “ حافضین “ سے بدل واقع ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ جو فرشتے محافظ ہیں وہی لکھنے والے ہیں۔
ام یحسبون انا لا تسمع سرھم ونجواھم بلی ورسلنا لدیھم یکتسبون (زخرف۔ )
اور سورة زخرف میں خدا نے فرمایا ہے کہ کیا وہ یعنی کافر گمان کرتے ہیں کہ ہم نہیں سنتے ہیں ان کی پوشیدہ باتوں اور ان کی سرگوشیوں کو یوں نہیں ہے حال یہ ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس لکھتے ہیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” رسلنا “ سے مراد ملائکہ حفظ میں جو انسانوں کے حالات لکھتے رہتے ہیں۔
قل اللہ اسرع مکرا ان رسلنا یکتبون ما تمکرون (یونس )
اور سورة یونس میں خدا نے فرمایا ہے کہ جب لوگوں کو بھلائی کے بعد کچھ برائی پہنچتی ہے تو وہ ہماری نشانیوں میں مکر کرتے ہیں اے پیغمبر ان سے کہہ دے کہ اللہ بہت تیز ہے مکر میں بیشک ہمارے بھیجے ہوئے لکھ لیتے ہیں جو کچھ تم مکر کرتے ہو۔ اس آیت میں بھی مفسرین نے ” رسلنا “ کے لفظ سے ملائکہ حفظ مراد لی ہے۔
ان کل نفس لما علیھا حاقط (طارق )
اور سورة طارق میں خدا نے فرمایا ہے کہ کوئی شخص نہیں کہ اس پر ایک نگہبان نہ ہو اس آیت میں بھی ” حافظ “ کے لفظ سے مفسرین نے حفاظت کرنے والا فرشتہ مراد لیا ہے۔
لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ (رعد )
اور سورة رعد میں خدا نے فرمایا ہے کہ ہر انسان کے لیے باری باری سے آنے والی ہیں فرشتے اس کے سامنے اور اس کے پیچھے نگہبانی کرتے ہیں اس کی خدا کے حکم سے اس آیت میں بھی ” معقبات “ کے لفظ سے تمام مفسرین نے ملائکہ حفظ مراد لی ہے۔
ولقد خلقنا الانسان ونعلم ماتوسوس بہ نفسہ ونحن اقرب الیہ من جل الوریداذ یتلقے المتلقیان عن الیمین وعن الشمال فعیدہ ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید (ق - )
اور سورة ق میں خدا نے فرمایا ہے کہ بیشک ہم نے پیدا کیا انسان کو اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کے دل میں آتا ہے اور ہم اس کے گردن کی رگ سے بھی زیادہ اس کے پاس ہیں۔ اس کے بعد فرمایا ہے کہ جب یاد کرلیتے ہیں دو یاد کرنے والے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے وہ کوئی بات زبان سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس مستعد نگہبان ہے اس آیت میں اکثر مفسرین نے ” متلقیان “ کے لفظ سے وہ دونوں فرشتے مراد لیے ہیں جو انسان کا اعمال نامہ لکھتے ہیں۔
ان تمام آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں جن کو ملائکہ حفظہ کہا گیا ہے وہی کراماً کاتبین ہیں اور ظاہراً اس میں مفسرین متفق معلوم ہوتے ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اگرچہ ہم اپنی تفسیر میں وضاحت اس بات پر بحث کرچکے ہیں کہ ملائکہ کا اطلاق کسی وجود خارج از موجودات عالم پر نہیں ہوا بلکہ جو قوی خدا تعالیٰ فی انسان میں اور تمام موجودات عالم میں رکھے ہیں انہی پر ملائکہ کا اطلاق ہوا ہے مگر ہم اب اس بات کو خود قرآن مجید سے ثابت کرتے ہیں کہ حفظہ سے مراد کوئی وجود خارج از انسان مراد نہیں ہے بلکہ حفظ کا اور کراماً کا تبین کا جن کو مفسرین متحد مانتے ہیں صرف قویٰ انسانی پر اطلاق ہوا ہے اور جس آیت سے ہم اس بات پر استدلال کرتے ہیں وہ آیت یہ ہے۔
وھوالقاھر فوق عبادہ ویرسل علیکم حفظۃ حتی اذا جاء احدکبرالموت توفتہ رسلنا وھم لا یفرطون (انعام )
خدا تعالیٰ سورة انعام میں فرماتا ہے کہ وہی یعنی خدا زبردست ہے اور اپنے بندو پر اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے ایک کو موت آتی ہے تو اس کو ہمارے بھیجے ہوئے مار ڈالنے ہیں اور وہ تقصیر نہیں کرتے۔
اگر لفظ ” حفظہ “ سے سوائے قوای انسان کے فرشتے خارج از انسان مراد لیے جائیں تو پھر انہی فرشتوں کو انسان کی روح کا قبض کرنے والا کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے اور آیت میں کوئی اشارہ اس بات کا نہیں پایا جاتا کہ ” رسلنا “ سے سوائے ” حفظہ “ کے اور دوسرے فرشتے مراد ہیں پس لازم آتا ہے کہ دونوں لفظوں سے ایسی قوی مراد ہوں جو انسان میں موجود ہیں اور جن پر حیات و ممات انسان کی منحصر ہے۔ جو قوی کہ انسان میں خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں۔
اور جو باعث حیات انسان ہیں وہی ملائکہ حفظ میں اور وہی کراماً کاتبین ہیں اور جب موت آتی ہے تو وہی قوی ایسے مختل ہوجاتے ہیں کہ انسان مرجاتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے اور یہی فطرت ان آیتوں سے نکلتی ہ۔
یہاں تک ہم نے صرف یہ بیان کیا ہے کہ جن ملائکہ کو حفظہ اور کراماً کاتبین کرکے تعبیر کیا ہے درحقیقت وہ قوی ہیں جو خدا نے انسان کی فطرت میں ودیعت کئے ہیں۔ اب ہم کو اس بات پر بحث کرنی ہے کہ کتابت اعمال سے کیا مراد ہے ؟
ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ انسان کے اعمال کسی چیز پر لکھے جاتے ہیں اور وہی چیز قیامت کے دن ترازو میں رکھ کر تولی جائے گی بلکہ ہم اس کو بطور مثال کے سمجھتے ہیں جس کا مقصود اس بات کا بتانا ہے کہ جو کچھ انسان نے اپنی زندگی میں اچھا یا برا کیا ہے اس میں سے کچھ بھی کہو یا نہیں جاتا بلکہ قیامت کے دن بےگم وکاسب سب موجود ہوگا اور اس پر سزا اور جزامرتب ہوگی جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے ” فلا ظلم نفس شیئا وان کان مثقال حبۃ من خردل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین “ یعنی کسی شخص پر ذرہ بھی ظلم نہیں ہوگا۔ اور اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر ہے تو ہم اس کا بدلا بھی دینگے اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔
حالات معاویہ یا واقعات مابعد الموت اس قسم کے ہیں جن سے انسان بالکل ناواقف ہے اور ان کی حقیقت واقعی کا عموماً انسان کو سمجھانا نہایت دشوار بلکہ قریب ناممکن کے ہے اور اس لیے بجز اس کے اور کچھ چارہ نہیں ہے کہ ایسی تمثیلوں سے ان کا بیان کیا جاوے کہ انسان کے دل پر اس کا کچھ خیال پیدا ہو خدا خود فرماتا ہے ” ویضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون “ یعنی خدا انسانوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے شاید وہ چیتین اور ہوشیار ہوں۔
جو کہ انسان کی عادت ہے کہ جو حالات واقع ہوں ان کی یادداشت ایک کاغذ پر لکھ لے اور ایک چیز کا دوسری چیز سے کم وبیش ہونا دریافت کرنے کو ان کو وزن کرلیں اور ایسا کرنے سے ان کو لکھی ہوئی یادداشت پر یقین ہوتا ہے اور دونوں چیزوں کے کم و بیش ہونے میں کچھ شبہ نہیں رہتا اس لیے بطور تمثیل کے خدا نے فرمایا ” کراماً کا تبین یعلمون ما تفعلون “ وتضع الموازینالقسط لیوم القیامۃ فلا تظلم نفس شیاء “ یعنی بڑی قید والے لکھنے والے وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو ہم قیامت کے دن عدل کی ترازو کھڑی کرینگے اور کسی شخص پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔
یہ مقصود جو قرآن مجید کا تھا اس کو بلا خیال اس کے کہ یہ بیان حقیقت ہے تا تمثیلی تمام بدوان عرب اور صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین بخوبی جانتے تھے اور سمجھتے تھے اور یقین کرتے تھے کہ اس سے زیادہ جاننے کی اور بیان کی اور حجت کرنے کی ضرورت نہیں ہے مگر جب علوم نے ترقی کی اور متعدد قسم کے علوم شائع ہوئے اور یہ خیال پیدا ہوا کہ خدا تو خود عالم ہے ” وھو یعلم سرکم وجھر کم ویعلم مافی انفسکم اوتخفوہ یحاسیکم بہ اللہ “ وان تبدوانی انفسکم یعنی خدا تمہاری کھلی اور چھپی باتوں کو جانتا ہے اور تمہارے دل کی باتیں جانتا ہے۔ تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ خدا اس بات پر تمہیں ضرور پکڑیگا۔
اور نسیان کا اس پر احتمال نہیں سو اس کے لیے یا دواشت لکھنے کے کیا معنی ہیں پھر فرشتوں کے لکھنے سے کیا مراد ہے اداراعمال تو اعراض ہیں وہ ترازو سے کیونکر تولے جاسکتے ہیں ان کی شدت اور خفت کا کیونکر اندازہ ہوسکتا ہے تو ان آیات کی حقیقت پر زیادہ غور کرنا واجب ہوئی اور مطابق سیاق قرآن مجید کے اور دیگر آیات کے اشارات سے ثابت ہوا کہ جو کچھ ان آیتوں میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی ہے۔
ہم نے قرآن مجید کی تفسیر میں روح کے وجود پر مستوعب دلیلیں بیان کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ روح ایک جسم لطیف ہے قائم بالذات اور وہ ایسے مادہ میں جو اس کی قابلیت رکھتا ہے داخل ہوجاتی ہے اور تمام حیوانوں اور انسانوں میں وہی باعث تعقل دراروہ ہے۔
اس بات کو بھی ہم نے ثابت کیا ہے کہ روح کا سب اور مکتسب ہے اور بذریعہ جسم انسان کے جب وہ اس میں شامل ہوتی ہے سعادت اور شقاوت کا اکتساب کرتی ہے۔
اس وقت دنیا میں بہت لوگ ہیں جو نہایت نیک ہیں اور اخلاق حمیدہ اور صفات پسندیدہ اپنے میں رکھتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو نہایت بد ہیں اور اخلاق و خصائل ذمیمہ اپنے میں رکھتے ہیں اور ان اخلاق حمیدہ اور خصائل رذیلہ کا اثر ان کے اعضا میں سے کسی عضو میں نہیں ہوتا بلکہ اس چیز میں ہوتا ہے جس کو روح سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر وہ اثر اعضا میں ہوتا تو کسی عضو کے ضائع ہونے سے اخلاق میں کچھ کمی ہوجاتی حالانکہ کچھ کمی نہیں ہوتی اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ گوشت پوست اعضاء کے سوا جو اور کوئی چیز انسان میں ہے اس میں اخلاق اور ذائل مستقر ہوتے ہیں۔
علاوہ اس کے انسان کے اعضا اس کی ہڈیاں اس کا گوشت پوست تبدیل ہوتا رہتا ہے اگر انسان کا جسم اخلاق حمیدہ یا خصائل رذیلہ کا محل ہوتا تو وہ بھی تبدیل ہوتے رہتے پس کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ روح جو انسان میں ہے وہی کا سب اور مکتسب اور محل علم و اخلاق ہے نہ انسان کا جسم اور نہ کوئی عضو اعضائے انسان میں سے۔
کسب واکتساب کے معنی ہیں کسی چیز کو کسی ذریعہ سے حاصل کرلینا۔ قرآن مجید میں یہی الفاظ یا ان کے مشتقات بہت جگہ آئے ہیں اور اسی بھلائی یا برائی کی نسبت بولے گئے ہیں جس کو انسان نے حاصل کرلیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرمایا ہے ” تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ما کسبتم لھا ما کسبت وعلھما ما اکتسبت “ یعنی وہ قوم چل بسی جو انھوں نے کیا تھا ان کے لیے ہے اور جو تم کرتے ہو تمہارے لیے ہے اسی کو ملتا ہے جو کیا اور اسی پر پڑتا ہے جو کمایا۔ غرضیکہ اعمال و افعال کا اثر فی الفور انسان کی روح پر پڑتا ہے اور وہی کتابت اعمال ہے۔
جب تک روح بدن انسانی میں شاغل ہے اس وقت تک اس کو ان اثرات کے جو اس نے کمائے ہیں نتیجے محسوس نہیں ہوتے۔ مگر جب وہ بدن سے الگ اور مجروعن العلائق ہوجاتی ہے اس وقت اس کو اپنے کمائے ہوئے اثرات کے نتائج اچھے یا برے محسوس ہوتے ہیں جن کو اعمال کی سزا اور جزا سے تعبیر کیا ہے۔
پس اعمال نیک یا افعال بد کے جو اثرات روح انسانی میں مستقر ہوتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ فی کتابت کراماً کا تبین کی مثال میں بیان کیا ہے اور وہی ذریعہ ہیں نیکی اور بدی کا مقدار ظاہر ہونے کا جو نتیجہ ہے میزان اور موازانہ کا۔ اس لیے وزن اعمال کی مثال سے تعبیر کیا ہے اور اس بات کو جتلایا ہے کہ قیامت میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا جاویگا لہٰذا قال فی موضع و نضع الموازین القسط “ فالقسط ھو العدل وموازین القسط ہوا لعدل کما یقال الموازین ھوالعدل والمیزان ھوالعدل وقول حکماء الاسلام ان الکتابۃ عیارۃ عن نقوش مخصوصۃ وضعت بالاصطلاح لتعریف المعانی المخصوصۃ فلوقدرنا کون تلک النفوش والۃ علی تلک المعانی لاعیانھا وزوا تھا کانت تلک الکتبۃ اقوی واکمل اذاثبت ھذہ فنقول ان الانسان اذا اتی بعمل من الاعمال مرات وکرات کثیرۃ متوالیۃ حصل فی نفسہ بسبب تکررہا ملکۃ قویۃ راسخۃ فان کانب قلک الملکۃ ملکرسارۃ بالا عمال النافعۃ فی السعادات الروحانیۃ عظھم ابتھاجہ بھا بعد الموت وان کانت تلک الملکۃ ضادۃ فی الاحوال الروحانیۃ عظم ضررہ بھا بعد الموت اذاثبت ھذا فتقول ان التکریر الکثیر ملا کان یدیھا لحصول تلک الملکۃ الراسخۃ کان لکل واحد من الاعمال المتکررۃ اثر فی حصول تلک الملکۃ الراسخۃ وذالک الاثروان کان غیر محسوس الاانہ حاصل فی الحقیقۃ واذا عرفت ھذا ظھرانہ لا یحصل للانسان لمحۃ ولا حرکۃ ولا سکون الا ویحصل فی جوھر نفسہ اثر من اثارالسعادۃ اواثار الشقاوۃ قل اوکثر فھذا ھوالمراد من کتبۃ الاعمال عندھولاء واللہ اعلم ب حقائق الامور (تفسیر کبیر جلد رابع صفحہ )
یہ رائے صرف میری ہی نہیں ہے بلکہ حکمائے اسلام کی بھی یہی رائے ہے چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حکمائے اسلام کا قول یہ ہے کہ کتابت ان خاص نقوش سے مراد ہے جو خاص معانی کے بتانے کے لیے اصطلاحاً بنائے گئے ہیں اگر ہم اس بات کا اندازہ کریں کہ وہ نقوش معانی کی حقیقت اور ذات پر دلالت کرتی ہیں تو وہ کتابت (کتابت اعمال) نہایت کامل اور نہایت قوی ہوگی۔ جب یہ بات معلوم ہوچکی تو اب ہم کہتے ہیں کہ انسان جب کسی کام کو بہت دفعہ باربار اور پے درپے کرتا ہے تو اس کام کے بار بار کرنے سے اس کے نفس میں ایک قوی اور مضبوط ملکہ پیدا ہوجاتا ہے پھر وہ بلکہ اگر ایسے اعمال کی سبب سے جن سے روحانی سعادت حاصل ہوتی ہے خوشی پیدا کرنے والا ہے تو مرنے کے بعد اس کے سبب سے بےانتہا خوشی حاصل ہوگی اور اگر وہ ملکہ روحانی حالات میں تکلیف دینے والا ہے تو مرنے کے بعد اس کے سبب سے بےانتہا رنج ہوگا۔ جب یہ بات معلوم ہوچکی تو ہم کہتے ہیں کہ چونکہ عملون کا بہت دفعہ بار بار اور پے درپے کرنا اس ملکہ راسخہ کے پیدا ہونے کا سبب تھا اس لیے اس ملکہ راسخہ کے پیدا ہونے میں ہر مکرر عمل نے
اثر کیا تھا اور یہ اثر اگرچہ غیر محسوس تھا مگر فی الحقیقت موجود تھا۔ جب یہ بات بھی معلوم ہوچکی تو صاف ظاہر ہوگیا کہ انسان کا کوئی اشارہ کوئی حرکت اور کوئی سکون ایسا نہیں ہے جس سے سعادت یا شقاوت کا کم و بیش اثر انسان کے نفس پر نہ ہوتا ہو۔ حکمائے اسلام کے نزدیک کتابت اعمال سے یہی مراد ہے۔ وھوالحق عندنا فجزاھم اللہ خیر الجزا۔
اب ہم کو یہ بتانا ہے کہ اگر کتابت اعمال سے وہ اثر مراد ہیں جو اعمال نیک اور بد سے نفس انسانی پر منقش ہوتے ہیں تو قرآن مجید میں جو یہ بات آئی ہے کہ اعمال نامے لوگوں کے دائیں ہاتھ میں اور بائیں ہاتھ میں اور پیٹھ کے پیچھے جاویں گے اس سے کیا مراد ہے۔ یہ مضمون مندرجہ ذیل آیتوں میں بیان ہوا ہے۔
یوم ندعوا کل اناس باسلمھم فمن اولی کتابہ فاولئک یقرون کتابھم ولا یظلمون فتیلا۔ (بنی اسرائیل)
سورة بنی اسرائیل میں خدا نے فرمایا ہے کہ جس دن ہم ہلادینگے ہر فرقی کے لوگوں کو ان کے پیشواؤں سمیت پھر جس شخص کے دائیں ہاتھ میں اس کی کتاب یعنی اعمالنامہ دیا جاویگا تو وہ لوگ پڑھ لیں گے اپنی کتاب یعنی اعمالنامہ۔ اور نہ ظلم کئے جاویں گے تاگے کے برابر۔
فاما من اوتی کتابہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا ویلتقلب الی اھلہ مسرور اوا مامن اولی کتابہ وراء ظھرہ فسوف یدعواثبور او یصلیٰ سعیرا نہ کان فی اھلہ مسرورا۔ انہ ظن ان لن یحور بلی ان ربہ کان بہ بصیرا (انشقاق )
اور سورة انشفاق میں خدا نے فرمایا ہے کہ تمام انسان خدا سے ملنے والے ہیں پھر جس شخص کے دائیں ہاتھ میں اس کے کتاب یعنی اعمال نامہ دیا جاویگا تو اس سے بہت تھوڑا سا حساب کیا جاویگا اور وہ پھرے گا اپنے لوگوں میں خوش مگر جس شخص کو اس کی پیٹھ پیچھے اس کی کتاب یعنی اعمال نامہ دیا گیا تو وہ پہنچے گا ہلاکت کو اور دوزخ میں جاویگا اور بیشک وہ اپنے لوگوں میں خوش تھا اور اس کو گمان نہ تھا کہ وہ خدا کے پاس جاویگا۔ یوں نہ تھا جو وہ سمجھا تھا بیشک اس کا پروردگار اس کے کاموں کو دیکھنے والا تھا۔
یومئذ تعرضون لا تخفے منکم خافیۃ فاما من اوتی کتابہ بیمینہ فیقول ھاؤم اقراؤ اتبابیہ انی ظنت انی ملاق حسابیہ (الحاقہ - )
سورة الحاقہ میں خدا نے انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ جس دن تم خدا کے سامنے کئے جاؤ گے توتمہار کوئی بات چھپی نہیں رہیگی پس جس شخص کے دائیں ہاتھ میں اس کی کتاب یعنی اعمالنامہ دیا جاویگا تو کہے گا کہ لو پڑھو میرے اعمالنامہ کو بیشک میں جانتا تھا کہ مجھ سے حساب ہوگا۔
واما من اوتی کتابہ بشمالہ فیقول یا الیتنی لم ادت کتابیہ ولم ادرما حسابیہ یا لی تھا کانت القافیہ (الحاقہ - )
پس جس شخص کے بائیں ہاتھ میں اس کی کتاب یعنی اعمال نامہ دیا جاویگا تو کہے گا کہ کاش یہ اعمال نامہ مجھ کو نہ دیا جاتا اور اپنے حساب کو نہ جاننا ۔ کاش میری موت ہی فیصلہ کردیتی۔
تفسیر کبیر میں اس آیت کے متعلق ایک عجیب روایت لکھی ہے اگرچہ ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے مگر اس مقام پر اس کا لکھ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے۔
روی ابوھریرۃ انہ (علیہ السلام) قال ان الرجل اوتی بہ یوم القیامۃ ویونی کتابہ فتکتب حسناتہ
ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال بھی لایا جائے گا پھر اس کی نیکیاں اس کے ہاتھ کی پشت پر لکھی جائینگی۔ اور اس کی بدیان اس کی ہتھیلی پر فی ظھر کفہ وتکتب سیئا نہ فی بطن کفہ فینظر الی سیئا تہ فیحزن فیقال لہ اقلب کفک فینظر فیہ فیری حسناتہ فیفرح ثم یقل ھاؤم اقراوتابیہ انی ظننت عند النظرۃ الاولیٰ انی ملاق حسابیہ علی سبیل الشدۃ واما الآن فقد فرج اللہ عنی ذلک انعم و تفسیر کبیر جلد صفحہ
لکھی جائیں گی وہ اپنی بدیوں کو دیکھ کر غمگین ہوگا اس سے کہا جائے گا کہ اپنا ہاتھ الٹا کرو۔ اور وہ ہاتھ کی دوسری طرف اپنی نیکیاں دیکھ کر خوش ہوگا پھر کہے گا لو پڑھو میرے اعمال نامے کو میں پہلی دفعہ دیکھ کر سمجھا تھا کہ مجھ سے نہایت سختی کے ساتھ حساب ہوگا مگر اب خدا نے میرا سارا غم دور کردیا۔
جس طرح اعمال ناموں کا لکھا جانا تمثیلاً بیان کیا ہے اسی طرح ان کا دائیں اور بائیں ہاتھ میں دیا جانا تمثیلاً بیان ہوا ہے۔ دایاں ہاتھ جو کہ اشرف گنا جاتا ہے اس میں اچھے اعمال ناموں کا دیا جانا تمثیلاً بیان کیا ہے اور بائیاں ہاتھ جو اشرف نہیں سمجھا جاتا اس میں برے اعمال ناموں کا دیا جانا تمثیلاً بیان کیا ہے۔ اب ہم ان آیتوں کو بیان کرتے ہیں جن میں اعمال نامے کے لفظ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور ان میں صرف اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کے الفاظ ہیں۔
خدا تعالیٰ نے سورة واقعہ میں کئی جگہ اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال کا ذکر کیا ہے۔
ایک جگہ فرمایا ہے کہ ” واضحاب الیمین ما اصحاب الیمین “ یعنی داہنے ہاتھ والے کون ہیں وہ داہنے ہاتھ والے ؟ وہ جو جنت میں ہیں۔
اور دوسری جگہ فرمایا ہے ” واصحاب الشمال ما اصحاب الشمال “ یعنی بائیں ہاتھ والے۔ کون ہیں وہ بائیں ہاتھ والے ؟ وہ جو دوزخ میں ہیں۔
واما ان کان من اصحاب الیمین فسلام لک من اصحاب الیمین واما ان کان من المکذبین الضالین فنزل من حمیم وتصلیۃ جحیم (سورة الواقعہ - )
اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ اگر وہی داہنے ہاتھ والوں میں سے تو داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے تجھ کو سلام اور اگر وہ ہے جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے تو اس کی دعوت ہے گرم پانی سے اور اس کو جلنا ہے دوزخ میں۔ اس آیت میں اصحاب الشمال کی جگہ ” المکذبین الضالین “ کا لفظ آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصحاب الشمال صرف ایک تمثیل ہی کافروں کے لئے۔
ثم کان من الذین امنوا وتواصوبالصبر وتواصوبالمرحمہ۔ اولئک اصحاب المیمنہ والذین کفروا بایاتنا ھم اصحاب المشائمہ علیھم نار موصودہ (البلد - )
اور سورة بلد میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے پھر وہ ہوگیا ایمان والوں میں سے جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو خلق اللہ پر شفقت کرنے کی نصیحت کی وہی اصحاب میمنہ ہیں اور جن لوگوں نے انکار کیا ہماری نشانیوں سے وہ ہیں اصحاب شامہ ان کو آگ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔
اس آیت میں بجائی الفاظ ” اصحاب الیمین “ کے اصحاب المیمتہ “ فرمایا ہے جس کے معنی ہیں نیک بختی والے اور بجائے الفاظ ” اصحاب الشمال “ کے ” اصحاب المشمہ “ فرمایا ہے جس کے معنی ہیں بدبختی والے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی نسبت کہا گیا تھا کہ ان کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ہوگا اور جن کی نسبت کہا گیا تھا کہ ان کی بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ہوگا وہی اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال تھے اور جو اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال تھے وہی اصحاب المیمنہ اور اصحاب المشئمہ ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ پہلی آیتوں میں بیان ہوا تھا وہ صرف تمثیل تھی۔
یوم القیمۃ کتابایلقاہ منشورا وکل انسان الزمناہ طائرہ فی عنقہ ونخرج لہ اقرا کتابک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا (بنی اسرائیل)
جس طرح اعمال ناموں کا دائیں ہاتھ میں اور بائیں ہاتھ میں دیا جانا تمثیلاً بیان کیا ہے اسی طرح ان اعمال ناموں کا کھولا جانا بھی تمثیلاً بیان ہوا ہے جہاں خدا نے سورة التکویر کی دسویں آیت میں فرمایا ہے ” واذا الصحف نشرت “ یعنی جس وقت کہ اعمال نامے کھولے جاوینگے۔ اور سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر انسان کی گردن سے اس کی شامت عمل کو وابستہ کردیا ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے اعمال نامہ کو ظاہر کرینگے وہ اس کو کھلا ہوا پائے گا پڑھ اپنے اعمال نامے کو آج تو خودہی اپنا حساب لینے والا ہے۔ جو کہ کملے ہوئے کاغذ کو دیکھنے سے جو کچھ اس میں لکھا ہوا ہے انسان کو اس پر یقین آجاتا ہے اسی یقین کے ظاہر کرنے کو خدا تعالیٰ نے تمثیلاً اعمال نامہ کا کھولا جانا بیان کیا ہے۔
کل نفس بما کسبت رھنیۃ الا اصحاب الیمین (مدثر )
اب ہم ایک اور آیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں اصحاب الیمین کا لفظ ہے مگر کسی طرح وہ الفاظ ان پر صادق نہیں آسکتے جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا گیا ہو اور وہ آیت سورة مدثر کی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ہر شخص اپنے کئے کی کے ساتھ گرو ہے مگر اصحاب یمین۔ اصحاب یمین سے مراد بعض لوگوں نے مسلمان لیے ہیں اور بعض نے ان سے مراد لی ہے جو حضرت آدم کے دائیں ہاتھ پر تھے اور بعض نے ان سے مراد لی ہے جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا۔ مگر ان میں سے کوئی مراد بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ” بما کسبت رہینۃ “ میں تمام انسان داخل ہیں خواہ انھوں نے اچھے کام کئے ہوں یا برے کام کئے ہیں۔ پس کسی کا استثنا ان میں نہیں ہوسکتا اگر ہوسکتا ہے تو صرف انہی کا ہوسکتا ہے جو اپنے اعمال کے ساتھ مرہون نہ ہوں اور بجز نابالغ بچوں کے اور کوئی نہیں ہوسکتے اور جو کہ ان کی اعمال پر برے کام اور اچھے کام کا اطلاق نہیں ہوسکتا اس لیے کوئی اعمال نامہ ان کے ہاتھ میں نہیں دیا جائے گا پس صاف ظاہر ہے کہ یہاں اصحاب الیمین سے وہ لوگ مراد نہیں ہیں جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔
قال علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) وابن عمر ھم اطفال المسلمین قال الفراء وھواشبہ بالصواب (تفسیر کبیر جلدصفحہ )
تفسیر کبیر میں حضرت علی مرتضیٰ اور عبداللہ بن عمر کا یہی قول لکھا ہے اور فرا نے جو بہت بڑا نحوی ہے اس قول کی تصدیق کی ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اور ابن عمر اس آیت اصحاب الیمین کے لفظ سے مسلمان بچے مراد لیتے ہیں۔ فرا نے کہا ہے کہ یہ قول نہایت صحیح ہے۔
اب ہم دو آیتیں قرآن مجید کی اور نقل کرتے ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ خدا نے جو کچھ تمثیلاً کیا تھا اس کی حقیقت کیا ہے۔
خدا تعالیٰ سورة حدید میں فرماتا ہے۔ کہ جس دن تو دیکھے گا مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو یوم تری المومنین والمومنات یسعی نور ھم بین ایدیھم وبایما نھم بشریٰ کم الیوم جنات تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ذالک ھو الفوز العظیم (حدید )
کہ ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے داہنے ہاتھ چلتی ہے۔ خوشخبری ہو تم کو ۔ آج تمہارے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں سدا رہیں گے۔ یہی بڑی مراد ملنی تھی۔
یوم لایخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ نورھم یسعی بین ایدیھم وبایمانھم یقولون ربنا اتمم لنا نورنا (تحریم)
دوسری جگہ خدا تعالیٰ سور تحریم میں فرماتا ہے کہ جس دن خدا اپنے نبی کو ذلیل کرے گا تو ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ان کی روشنی ان کے آگے اور ان کے داہنے ہاتھ دوڑتی ہوگی اور وہ کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم کو ہماری کامل روشنی عطا فرما۔
فمنھم شقی و سعید فاما الذین شقوا ففی النار لھم فیھا زفیرو شھیق خالد من فیھا واما الذین سعدوا ففی الجنۃ خالدین فیھا (ھود - )
اس کی مثل ایک آیت سورة ہود میں ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ انسانوں میں کوئی بدبخت ہے اور کوئی نیک بخت جو لوگ بدبخت ہیں وہ دوزخ میں چیختے چلاتے ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو نیک بخت ہیں وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس سے زیادہ اور کیا اس بات کا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اعمال ناموں کا لکھا جانا اور ان کا تولا جانا اور نیک بندوں کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ کا دیا جانا اور بد لوگوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ کا دیا جانا یا پیٹھ کے پیچھے سے دیا جانا اور اعمال ناموں کا کھلنا یا منتشر ہونا یہ سب تمثلیین ہیں اور حقیقت صرف اس قدر ہے کہ نور ایمان قیامت کے دن ایمان والوں کے ساتھ ہوگا اور ان کی پاک روحیں علانیہ ان نیک افعال کے نتیجوں کو ظاہر کرینگی جو کہ انھوں نے دنیا میں کئے تھے اور بدکاروں کی روحیں ان بداعمالیوں کے نتیجوں کو ظاہر کریگی جو دنیا میں ان سے ظاہر ہوئی تھیں۔ فمن شاء فلیومن علے طواھرایات القرآن ومن شاء فلیومن علے بواطنھا وحقائقھا ولا ریب فی انھاھی حقیقۃ الاسلام وقد نفشھا اللہ فی روعی فللہ الحمد۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سبحن الذی : سورۃ الكهف : آیت 60

وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا ﴿۶۰﴾

تفسیر سرسید :

اس آیت کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے ہم کو کچھ حال حضرت موسیٰ کا بیان کرنا چاہیے۔ واضح ہو کہ جب موسیٰ فرعون کے محل میں پرورش پاکر تعلیم کے قابل ہوئے تو انھوں نے بہت اعلیٰ درجہ کی تعلیم پائی تھی۔ اصل شہر جس میں فرعون کا پایہ تخت تھا اس کا نام رعمیس تھا اور اس سے تھوڑی دور ایک اور شہر تھا اس کا نام تھا ہیلیوپولس (یعنی مدینۃ الشمس) اس شہر میں ایک بہت بڑی یونیورسٹی تھی اور تمام علوم کی اس میں تعلیم ہوتی تھی اور حضرت موسیٰ نے نہایت اعلیٰ درجہ کے علوم تک اس یونیورسٹی میں تعلیم پائی تھی۔ اس کا مختصر ذکر اعمال حواریین میں بھی ہے جس کو ہم نے ابھی نقل کیا ہے علاوہ اس کے ڈاکٹر ولیم اسمتہ نے قدیم کتابوں سے ڈکشنری آف بائبل میں اس کا مفصل حال لکھا ہے جس کا بعینہ ترجمہ ہم لکھتے ہیں۔
اس میں لکھا ہے کہ ” اس وقت سے بہت برسوں تک موسیٰ کو باشندہ مصر خیال کرنا ضروری ہے۔ توراۃ میں اس زمانہ کا کچھ ذکر نہیں ہے مگر عہد جدید سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ تعلیم یافتہ تھے اور انھوں نے مصریوں کی ساری حکمت میں تربیت پائی اور قول و فعل میں بڑے لائق تھے (اعمال باب آیت )
مفصلہ ذیل مختصر احوال یہودی اور مصری روایات کا ہے جس سے کہ اس مقدس مصنف کے (اس زمانہ کے) جو حالات معلوم نہیں ہیں معلوم ہوتے ہیں ان کی تعلیم ہیلیوپولس میں ہوئی تھی (تصنیفات اسٹریبو سے مقابلہ کرو باب فقرہ اول) اور وہاں بطور مقدس قوہن کے جہاں کہ ان کا مصرف نام اوسارسف یا ٹسی تھن تہا پرورش پائی ۔ حسب رائے منیتھوا (جو قدیم مورخ ہے) لفظ اوسارسف مشتق ہے اوسائی رس سے جو ایک مصری معبود کا نام تھا اور اوسارسف کے معنی یہ ہیں جس کو اوسائی رس نے بچایا ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کل سلسلہ یونانی ، کا لڈی اور اسیرین لٹریچر کا پڑھایا گیا تھا۔ مصریوں سے انھوں نے می تھی مٹیکس سیکھا تاکہ ان کا ذہن بلا تعصب صدق کے قبول کرنے کے قابل ہو۔ انھوں نے کشتیاں اور تعمیر کے اوزار اور نیزآلات حرب اور پانی کی کلین اور حرف جو تصویروں کی صورت میں لکھے جاتے تھے اور زمین کی قسموں کو ایجاد کیا انھوں نے ارفیوس کی تعلیم دی اور اس وجہ سے یونانی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو موسیس کہنے لگے اور مصری ہر میز (ہر مس) کہنے لگے انھوں نے علم صرف ونحویہودیوں کو سکھایا اور وہاں سے وہ علم فنیشیا اور یونان میں پہنچا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک مہم پر جو بخلاف جشیون کے تھی بھیجا گیا تھا اور انھوں نے اس ملک کے سانپوں کو اس طرح پر معدوم کیا کہ ملک بہر میں کھانچے بہر پہر کر پرند مارخور جانور چھوڑواوے اور شہر ہر موپولیس بطور یادگار اپنی فتح کے آباد کیا پھر وہ شہر سبا کی طرف جو اینوپیا کا درالخلافت تھا روانہ ہوئے اور اس شہر کا نام اپنی مت نبی کرنے والی مان مسمیٰ مرہس کے نام پر مہرور کہا اور اسی جگہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دفن کیا۔ بادشاہ ایتھوپیا کی بیٹی مسمی تھا ریس کو ان سے تعشق ہوگیا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) معہ اس لڑکی کے بطور اپنی بی بی کے خوش و خورم مصر کو واپس آئے “۔
(ڈکشنری آف دی بائبل مصنفہ ڈاکٹر ولیم اسمتھ۔ جلد صفحہ )
حال میں جو احمد آفندی نجیب نے قدیم مصر کی تاریخ لکھی ہے اس میں بھی ابن شہر کا ذکر کیا ہے۔ ” وہ لکھتا ہے کہ عین الشمس کا قدیم نام “ ان “ ہے اور یہ مصریوں کا قدیم مقدس شہر تھا اور وہاں ان کے دیوتا ” رع “ (آفتاب) کا مندر تھا اور اس شہر میں ایک یونیورسٹی تھی جس کی شہرت کے سبب سے سولوں جو یونان کا مقنن تھا اور افلاطون اور فیثاغورس علم کی تحصیل کے لیے اس یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے اور عمیس ثالث کے زمانہ میں جو بیسویں شاہی خاندان کا بادشاہ تھا ایک مندر میں بارہ ہزار طالب علم تعلیم پاتے تھے “۔
(الاثر الجلیل لقد ماء وادی النیل صفحہ )
اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ شہر ہنیتہ الشمس یا عین الشمس میں رہتے تھے اور وہاں سے شہر رعمسیس میں آئے اور اسی شہر میں اس شخص کو گھونسا مار کر مار ڈالا جس کا ذکر قرآن مجید کے سورة قصص میں ہے۔
سورة قصص میں یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ کو ایک شخص نے خبر دی کہ وہاں کے سرداروں کا ان کو مار ڈالنے کا ارادہ ہے۔ اس لیے وہ وہاں سے بھاگ گئے۔ اور سفر خروج باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدین میں جانے کا انھوں نے ارادہ کیا۔ جبکہ وہ وہاں سے بھاگے ہیں اس وقت کا ذکر اس آیت میں ہے اور بھاگنے کے وقت ایک شخص ان کے ساتھ ہولیا۔ قرآن مجید سے تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ کون شخص تھا صرف اتنا قیاس ہوسکتا ہے کہ جس شخص نے آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی تھی کہ تمہارے مار ڈالنے پر مشورہ ہوا ہے وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہولیا جبکہ وہ رعمسیس سے نکل گئے ، مگر تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ وہ شخص یوشع تھے یا یوشع کے بھائی اور یہ بات ممکن ہے کیونکہ جبحضرت موسیٰ (علیہ السلام) رعمسیس سے نکلے ہیں تو یوشع کی عمر بموجب توراۃ کے بائیس برس کی تھی اور قفال اور عمر ابن عبید کا قول ہے کہ وہ شخص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غلام تھا۔
قرآن مجید میں جو یہ لفظ ہیں ” لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین “ یعنی جب تک دو سمندروں کے ملنے کی جگہ تک پہنچوں۔ پس یہ بات دریافت کرنی ہے کہ مجمع البحرین سے کون سی جگہ مراد ہے۔ تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ بحر فارس اور بحرروم جس مقام پر آپس میں ملے ہیں وہ مقام مجمع البحرین ہے۔ مگر یہ صریح غلطی ہے اس واسطے کہ بحر فارس اور بحرروم نہ کسی جگہ آپس میں ملے ہیں اور نہ مل سکتے تھے رڈسی یعنی بحر قلزم کی دو شاخیں نکلی ہیں ایک شرقی ہے اور ایک غربی۔ پہروہ دونوں شاخیں آپس میں ملی ہیں۔ اس زمانہ میں شرقی شاخ کو گلف آف اکابہ یعنی خلیج عقبہ اور غربی شاخ کو گلف آف سویزیا خلیج سویس کہتے ہیں۔ جہاں یہ دونوں شاخیں باہم ملی ہیں اس مقام کو مجمع البحرین کہا گیا ہے۔ ان دونوں شاخوں کے بیچ میں بہت سے پہاڑ ہیں اور اس زمانہ میں جنگل ہوگا اور عام طور پر وہ رستہ چلتا نہ ہوگا۔ اس کا ثبوت قرآن کے ان لفظوں سے نکلتا ہے ” فارتد اعلے اثارھما قصصا “ یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا ساتھی جوان مجمع البحرین سے چلے اور معلوم ہوا کہ مچھلی نہیں ہے تو پھر وہ اپنے پاؤں کے نشانات ڈھونڈتے ہوئے واپس آئے اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ عام رستہ نہیں تھا بلکہ جنگل تھا جس کے سبب ان کو اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس آنا پڑا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب رعمسیس سیبھاگے ہیں تو اس خیال سے کہ تعاقب کرکے لوگ پکڑ نہ لیں وہ عام رستہ اختیار کر نہیں سکتے تھے اس لیے انھوں نے جنگل کا اجنبی رستہ اختیار کیا اور وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب مجمع البحرین پہنچ جائینگے تو وہاں سے مدین کا رستہ جہاں ان کو جانا منظور تھا آسانی سے مل جائے گا ۔ اسی لیے انھوں نے کہا ” لا ابرح حتے ابلغ مجمع البحرین۔ “
صوبہ مدین رڈسی یعنی بحرقلزم کی مشرق شاخ (خلیج عقبہ) کے دونوں طرف واقع ہے جہاں کہ مدیانی قوم رہتی تھی اور اص شہر مدین خلیج عقبہ کے مشرقی کنارہ پر واقع تھا۔ ان تمام حالات سے جو جغرافیہ سے معلوم ہوتے ہیں بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) رڈسی کی ایک شاخ کے جنگل کے کنارے ہو کر وہاں پہنچے جہاں دونوں شاخیں رڈسی کی ملتی ہیں اور جس کو مجمع البحرین کہا ہے اور وہاں سے مدین کو چلے گئے۔
، مچھلی کی نسبت بہت سی دورازکار روایتیں کتب تفاسیر وغیرہ میں لکھی ہیں اصلی حقیقت صرف اتنی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس کوئی کھانے کا سامان موجود نہیں تھا وہ سراسیمگی کی حالت میں شہر سے بھاگے تھے جب وہ مجمع البحرین پر پہنچے تو انھوں نے ایک مچھلی پکڑی اور اس کو ایک چٹان پر رکھ دیا کیونکہ قرآن مجید میں اس بات کا کہ موسیٰ اپنے ساتھ مچھلی لے کر چلے تھے اور وہ مری ہوئی یابھنی ہوئی تھی کچھ اشارہ نہیں ہے مگر تھوڑی دیر میں وہ مچھلی تڑپ کر پھر دریا میں جاپڑی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے چلے تو ان کو خیال تھا کہ وہ مچھلی ہوگی انھوں نے اپنے ساتھی جوان سے کہا کہ ہمارا کھانا لاؤ۔ اس جوان نے کہا کہ وہ مچھلی تو پھر دریا میں چلی گئی اور اس کا ذکر کرنا میں تم سے بھول گیا جو کہ جنگل میں اور کچھ کھانے کا سامان نہیں۔ تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مجمع البحرین کو واپس ہوئے تاکہ پھر کوئی مچھلی کھانے کے لیے وہاں سے پکڑیں۔
مچھلی کے دریا میں چلے جانے کی نسبت قرآن مجید میں یہ لفظ ہیں ” اتخذ سبیلہ فی البحر سریا “ سرب کے معنی چلنے کے ہیں۔ مفسرین نے جو اس کے معنی مطابق ان حدیثوں کے جن میں یہ قصہ بیان ہوا ہے اور جن کو ہم بیان کرینگے اس طرح بیان کئے ہیں کہ مچھلی جب پانی میں گئی تو پانی دونوں طرف ہٹ گیا اور پانی میں طاق یا سرنگ کی صورت بن گئی اور بیان روایات یہود پر مبنی ہے جن کا کوئی اشارہ قرآذن مجید سے نہیں پایا جاتا ۔ تفسیر کبیر میں اس آیت کی ” اتخذ سبیلہ فی البحر سریا “ یہ معنی لکھے ہیں سرب فی البحر سربا یعنی وہ مچھلی سمندر میں چلی گئی اور الفاظ ” اتخذ سبیلا “ کو سرب کے قائم مقام بیان کیا ہے جس کا نتیجہ وہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی جوان نے جب مچھلی کے سمندر میں چلے جانے کا ذکر کیا تو یوں کہا ” واتخذ سبیلہ فی البحر عجبا “ یعنی مچھلی سمندر میں عجیب طرح سے چلی گئی ۔ ” عجبا “ کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ اس مچھلی نے کوئی عجیب طرح سے سمندر میں رستہ بنایا تھا کسی طرح پر درست نہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ مچھلی کو سمندر میں سے نکال کر چٹان پر ڈال دیا تھا اور یہ سمجھے تھے کہ وہ مرگئی مگر اس میں جان باقی تھی اور وہ تڑپ کر سمندر میں جاپڑی۔ اسی بات کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی جوان نے عجیب بات سمجھ کر کہا کہ ” واتخذ سبیلہ فی البحر عجبا “۔
اسی قسم کا واقعہ خود مجھ پر گزرا ہے۔ میں نہر سویز کی سیر کرنے کو کشتی پر بیٹھ کر گیا ۔ ایک ملاح نے نہر میں سے مچھلی پکڑی اور اس کو کشتی میں ڈال دیا دو ایک دفعہ تڑپ کر وہ سست ہوگئی ہم سب نے جانا کہ وہ مرگئی ہم سب نہر کے سیر دیکھتے جاتے تھے اور اس مچھلی کا کچھ خیال نہ تھا تھوڑی دیر بعد وہ مچھلی زور سے ترپی اور پھر نہر میں جا پڑی اور ہم سب دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ایسے واقعات عام طور پر واقع ہوتے ہیں اور اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بطور ایک عام واقعہ کے پیش آیا۔
 
Top