• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 3 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 55

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾

تفسیر سرسید :

حضرت مسیح کے واقعات میں جیسے کہ آپ کی ولادت کا مسئلہ بحث طلب ہے ویسا ہی آپ کی وفات کا مسئلہ بھی غور کے لائق ہے، یہودی یقین رکھتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر ڈالا، عیسائی یقین رکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ان کو صلیب پر چڑھایا اور وہ صلیب پر چڑھا کر قتل کر ڈالا۔ عیسائی یقین رکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ان کو صلیب پر چڑھایا اور وہ صلیب ہی پر مرگئے پھر صلیب پر سے اتار کر قبر میں دفن کیا پھر وہ جی اٹھے ، جمہور مسلمین کا یہ اعتماد ہے کہ وہ صلیب پر چڑھائے ہی نہیں گئے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ پر الحاد کا اور یہودی شریعت کے مسائل مقررہ سے پھرجانے کا الزام لگایا تھا۔ انجیل یوحنا کے ساتویں باب کی بارھویں آیت میں لکھا ہے کہ ” لوگوں میں اس کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) بابت بہت تکرار تھی بعض کہتے تھے کہ وہ نیک ہے اور کتنے کہتے تھے کہ نہیں بلکہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے “۔ اور اسی انجیل کے باب آیت میں لکھا ہے کہ ” سردار امام نے اپنے کپڑے پھاڑ کر کہا کہ یہ (یعنی حضرت عیسیٰ ) کفر کرچکا ہے اب ہم کو اور گواہوں کی کیا درکار ہے دیکھو اب تم نے اس کا کفر بکنا سنا “
یہودی شریعت میں جیسے کہ توراۃ کی کتاب احبار باب درس و کتاب استثناء باب سے پایا جاتا ہے ارتداد یا الحام کی سزا سنگسار کرنا تھا، مگر اس زمانہ میں رومیوں کی سلطنت تھی اور وہ یہودی شریعت سے مرتد ہونے کے جرم میں کسی کو سنگسار نہیں کرتے تھے ۔ اس لیے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ پر بادشاہ وقت سے باغی ہونے کی تہمیت لگائی اور پلاط سے کہا وہ اپنے تئیں یہودیوں کا بادشاہ کہتا ہے ، (دیکھو انجیل متیٰ باب درس و باب درس و و انجیل لوک باب درس و باب درس و انجیل یوحنا باب درس ) لوگوں کو ورغلا تا ہے، اور قیصر کو خراج دینے سے منع کرتا ہے جرم بغاوت کی سزا صلیب پر چڑھا کر مار ڈالنا تھی، اس لیے یہودیوں نے پلاط سے جو وہاں کا حاکم تھا درخواست کی کہ وہ صلیب پر چڑھا دیا جاوے۔
واقعہ صلیب کے بعد مختلف فرقوں نے مختلف رائیں اس کی نسبت قائم کیں، یہودی اپنی شیخی سے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو شریعت کے بموجب پہلے سنگسار کرکے قتل کر ڈالا اور پھر صلیب پر لٹکا دیا، عیسائی سنگسار کرکے مار ڈالتا تو تسلیم نہیں کرتے جو درحقیقت میں غلط بھی ہے، مگر صلیب پر چڑھا کر مار ڈالنا تسلیم کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ بعد اس کے حضرت عیسیٰ قبر میں دفن کئے گئے اور پھر مردوں میں سے جی اٹھے اور حواریوں سے ملے، اور پھر زندہ آسمان پر چلے گئے اور اپنے باپ یعنی خدا کے دائیں ہاتھ پر جا بیٹھے۔ بعض قدیم عیسائی فرقے جن کو حضرت
عیسیٰ کا صلیب پر چڑھایا جانا نہایت ناگوار تھا حضرت عیسیٰ کے صلیب پر چڑھائے جانے سے قطعاً منکر تھے، بعض کہتے تھے کہ شمعون قرینی صلیب پرچڑھایا گیا، اور بعض کہتے تھے کہ یہوداے اینحریوطی شمعون وہ شخص ہے جو صلیب لے کر چلنے کو بیگار میں پکڑا گیا تھا اور یہودا وہ شخص ہے جس نے مخبری کرکے حضرت عیسیٰ کو پکڑوایا تھا۔
مسلمان مفسروں کی عادت ہے کہ پرانے قصوں میں بغیر تحقیقات اصلیت کے اور بلا غور کرنے کے مقصد قرآن مجید پر جہا تک ہوسکتا ہے یہودیوں اور عیسائیوں کی روایتوں کو لے لیتے ہیں۔ انھوں نے پچھلی روایت کو زیادہ موذب سمجھا اور ظاہری الفاظ قرآن مجید کو اس کے مناسب پایا اس لیے انھوں نے پچھلی روایت کو اختیار کیا، اور قرآن مجید کے ایک لفظ کی بنا پر جس کو ہم آگے بیان کرینگے یہ قرار دیا کہ شمعون یا یہودا کی صورت بدل کر بعینہ حضرت عیسیٰ کی سی صورت ہوگئی تھی اور یہودیوں نے اس کو حضرت عیسیٰ جان کر صلیب پر چڑھا دیا تھا، اور وہ زندہ آسمان پر چلے گئے تھے۔
ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر جانے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے اعتقاد میں چنداں تفادت نہیں ہے، کیونکہ دونوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زندہ آسمان پر چلے جانے کا اعتقاد رکھتے ہیں، مگر درحقیقت یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دونوں مذہبوں میں نہایت مختلف ہے عیسائی مذہب میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صلیب پر چڑھائے جانے اور صلیب ہی پر جان دینے کا اعتقاد رکن اعظم ایمان ہے، کیونکہ ان کے اعتقاد میں انسانوں کی نجات صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے فدیہ ہونے یعنی صلیب پر جان دینے میں منحصر ہے۔ جو کوئی اس امر کا اعتقاد نہ کرے وہ موجودہ عیسائی مذہب کے مطابق عیسائی نہیں ہے اور نہ نجات کا مستحق ہے، پس مسلمانوں کا یہ اعتقاد کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر صلیب پر چڑھائے زندہ آسمان پر چلے گئے موجودہ عیسائی مذہب کے بالکل بر خلاف ہے۔
اس واقعہ پر بحث کرنے سے پہلے ہم کو مناسب ہے کہ صلیب دینے کی نسبت کچھ بیان کریں۔ کہ وہ کیونکر دی جاتی تھی اور کس طرح اس پر جان نکلتی تھی۔ جاننا چاہیے کہ صلیب بطور چلیپا کے اس صورت کی ہوتی تھی اس پر چڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ انسان کے دونوں ہاتھ ان لکڑیوں پر جو یمین ویسار میں ہیں پھیلاتے تھے اور اس کی ہتھیلیوں کو ان لکڑیوں سے ملا کر آہنی کیلیں ٹھوک دیتے تھے ، جہاں گول نشان ہے وہاں ایک مضبوط لکڑی لگی ہوتی تھی جو دونوں ٹانگوں کے بیچ میں رہتی تھی اور انسان اس پر لٹک جاتا تھا اس سے غرض یہ تھی کہ انسان بدن کے بوجھ سے نیچے نہ کھسکنے پاوے پھر دونوں پاؤں کو اوپر تلے کرکے اور نیچے کی لمبی لکڑی پر رکھ کر ایک لوہے کی میخ اس طرح ٹھوکتے تھے کہ دونوں پاؤں کو توڑ کر لکڑی میں نکل جاتی تھی۔ اور کبھی پاؤں میں میخ نہیں ٹھوکتے تھے بلکہ رسی سے خوب جکڑ کر باندھ دیتے تھے۔
صلیب پر چڑھا دینے سے انسان مر نہیں جاتا کیونکہ اس کی صرف ہتھیلیاں اور کجی ہتیلیاں اور پاؤں زخمی ہوتے تھے، اس کے مرنے کا سبب یہ ہوتا تھا کہ چار چار پانچ پانچ دن تک اس کو صلیب پر لٹکائے رکھتے تھے اور ہاتھ پاؤں کے چھیدوں اور بھوک اور پیاس اور دھوپ کا صدمہ اٹھاتے اٹھاتے کئی دن میں مرتا تھا۔ چنانچہ اس کی سند ملیطوس کی شہادت سے جو کتاب سطیری کان صفحہ میں اور ازیجیرس کی شہادت سے جو تفسیر انجیل متی مطبوعہ گریگا ٹن صفحہ میں مندرج ہے اور ارنسط ینان کی کتاب صفحہ سے جو حضرت مسیح کے حالات میں لکھی ہے اور یوسی بیس کی تاریخ کلیسا صفحہ سے بخوبی پائی جاتی ہے۔ اب اس بات پر غور کرنی چاہیے کہ حضرت عیسیٰ کو کس طرح صلیب پر چڑھایا تھا۔ جس دن حضرت عیسیٰ صلیب پر چڑھائے گئے وہ جمعہ کا دن اور یہودیوں کی عید فصح کا تہوار تھا، دوپہر کا وقت تھا جب ان کو صلیب پر چڑھایا گیا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ان کی ہتیلوں میں کیلیں ٹھوکی گئیں، مگر یہ امر مشتبہ ہے کہ پاؤں میں بھی کیلیں ٹھوکی گئیں یا نہیں، کیونکہ انجیل یوحنا میں صرف ہتیلیوں کے چھید دیکھنے کا ذکر ہے اور لوک کی انجیل میں ہاتھ و پاؤں دونوں کا، مگر اس اختلاف سے جو اصل امر ہے اس میں کچھ اثر پیدا نہیں ہوتا۔
عید فصح کے دن کے ختم ہونے پر یہودیوں کا سبت شروع ہونے والا تھا، اور یہودی مذہب کی رو سے ضرور تھا کہ مقتول یا مصلوب کی لاش قبل ختم ہونے دن کے یعنی قبل شروع ہونے سبت کے دفن کردی جاوے ، مگر صلیب پر انسان اس قدر جلدی نہیں مرسکتا تھا، اس لیے یہودیوں نے درخواست کی کہ حضرت مسیح کی ٹانگیں توڑ دی جاویں تاکہ وہ فی الفور جاویں، مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ٹانگیں توڑی نہیں گئیں، اور لوگوں نے جانا کہ وہ اتنی ہی دیر میں مرگئے۔ برچھی کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پہلو میں ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی شناخت کے لیے چبھونا صرف یوحنا کی انجیل میں ہے اور کسی انجیل میں نہیں ہے اور نہ اس وقت جب کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں کے پھیلے حواریوں کو دکھلائے پسلی کے چھید کا دکھانا کسی انجیل میں لکھا ہے ، اس لیے برچھی کا چبھوتا نہایت مشتبہ ہے، معہذا اگر وہ صحیح بھی ہو تو وہ بھی کوئی ایسا زخم جس سے فی الغدہلاکت ہو متصور نہیں ہوسکتا جس طرح ان کے ہاتھ پاؤں زخمی تھے اسی طرح پسلی کے نیچے بھی ایک زخم تسلیم کیا جاوے۔
جب کہ لوگوں نے غلطی سے جانا کہ حضرت درحقیقت مرگئے تو یوسف نے حکم سے ان کے دفن کردینے کی درخواست کی ، وہ نہایت متعجب ہوا کہ ایسے جلد مرگئے، اس قدر جلدی سے مرجانے کی خبر سے کچھ حاکم ہی کو تعجب نہیں ہوا بلکہ عیسائی بھی اس کو ناممکن سمجھتے تھے اور اس لیے تیسری صدی عیسوی میں جو عیسائی علما تھے انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اس قدر جلد صلیب پر مرنا آخر کار ایک معجزہ قرار دیا۔
غرضیکہ یوسف کو دفن کرنے کی اجازت مل گئی اور حضرت عیسیٰ صرف تین چار گھنٹہ صلیب پر رہے کسی کتاب سے نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی رسم تجہیز و تکفین کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ عمل میں آئی تھی بلکہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یوسف نے ان کو ایک لحد میں رکھا اور اس پر ایک پتھر ڈھانک دیا۔ اس بات کا قصفیہ نہیں ہوسکتا کہ یوسف نے یہ کام اس لیے کیا تھا تاکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن یقین کرلیں کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مرگئے اور وہ جانتا تھا کہ وہ مرے نہیں ہیں، یا آنکہ درحقیقت ان کو مردہ سمجھ کر اس نے لحد میں رکھ دیا تھا۔ بہرحال رات کو وہ اس لحد میں نہ تھے، اور اس سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود یہودیوں کو بھی شبہ تھا کہ وہ مرگئے ہیں یا نہیں، اس لیے صبح کو یعنی بروز شنبہ انھوں نے حاکم کی اجازت سے وہاں پہرہ متعین کردیا، مگر اب کیا فائدہ تھا جو کچھ ہونا وہ اس سے پہلے ہوچکا تھا۔
جب اس تمام واقعہ پر مورخانہ طور پر نظر ڈالی جاوے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب پر مرے نہ تھے بلکہ ان پر ایسی حالت طاری ہوگئی تھی کہ لوگوں نے ان کو مردہ سمجھا تھا۔ اس امر کی نظیر ہیں کہ صلیب پر سے لوگ زندہ اترے ہیں تاریخ میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر کلارک نے متی کی انجیل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایسی کئی ایک مثالیں کہ شخص مصلوب کئی دن تک زندہ رہا ہے۔ ہیروڈونس رومی مورخ نے لکھا ہے کہ سندوکیس دارا کے حکم سے صلیب پر چڑھا گیا اور پھر اس کے حکم سے اتارا گیا وہ زندہ رہا اور رہا کردیا گیا۔ یوسی بیس مورخ نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ طیطوس بادشاہ کے حکم سے بہت سے قیدی صلیب پر چڑھائے گئے، ان میں سے تین آدمی اس کے ملاقاتی تھے، اس نے بادشاہ سے ان کی سفارش کی اور ورہ صلیب پر سے اتارے گئے اور ان کا معالجہ کیا گیا، مگر ان میں سے دو آدمی مرگئے اور ایک شخص اچھا ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ تین چار گھنٹہ کے بعد صلیب پر سے اتار لیے گئے تھے اور ہر طرح پر یقین ہوسکتا ہے کہ وہ زندہ تھے، رات کو وہ لحد میں سے نکال لیے گئے اور وہ مخفی اپنے مریدوں کی حفاظت میں رہے، حواریوں نے ان کو دیکھا اور ملے اور پھر کسی وقت اپنی موت سے مرگئے۔ بلاشبہ ان کو یہودیوں کی عداوت کے خوف سے نہایت مخفی طور پر کسی نامعلوم مقام میں دفن کردیا ہوگا جو اب تک نامعلوم ہے، اور یہ مشہور کیا ہوگا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے وقت بھی نہایت شبہ تھا کہ بنی اسرائیل جو پہاڑوں اور جنگلوں میں پھرتے پھرتے اور دسمنوں سے لڑتے لڑتے حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے نہایت تنگ ہوگئے تھے حضرت موسیٰ کی لاش کے ساتھ کیا کرینگے اس لیے ان کو بھی ایک پہاڑ کی کھو میں ایسے نامعلوم مقام میں دفن کیا تھا کہ آج تک کسی کو اس کا پتہ معلوم نہیں ہوا۔ چنانچہ توراۃ کی پانچویں کتاب میں لکھا ہے کہ ” پس موسیٰ بندہ خداوند درانجابز میں موآب موافق قول خداوند وفات کرو دور راہ دررہ زمین موآب برابر بیت یعوردفن کرو و سچ کس از مقبرہ اوتابہ امروز واقف نیست “ حضرت علی مرتضیٰ کا جنازہ بھی خوارج کے خوف سے اسی طرح مخفی طور پر دفن کیا گیا تھا حالانکہ خوابرج کا خوب بہ نسبت یہودیوں کے بہت کم تھا، اور اسی طرح بعض فرق شیعہ نے حضرت علی مرتضیٰ کی نسبت بھی کہا تھا کہ وہ آسمان پر چلے گئے۔
اب ہم کو قرآن مجید پر غور کرنا چاہیے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے۔
اول تو سورة آل عمران میں اور وہ یہی آیت ہے جس کی ہم تفسیر لکھتے ہیں کہ ” جب اذقال اللہ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک اللہ نے عیسیٰ سے کہا کہ بیشک میں تجھ کو الی (اٰل عمران آیت ) وفات دینے والا ہوں اور تجھ کو اپنی طرف رفع کرنے والا ہوں “۔
دوم۔ سورة مائدہ میں جہا فرمایا ہے کہ ” جب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہے گا ماقلت ھم الاما امرتنی بہان اعبدو اللہ وبی وریک یوکنت علیھم شھیدا ملامت فیھم فلما توفیتنی کنت ما کنت الرقیب علیھم وانت علی کل شی شھید (سورة مائدہ آیت ) کہ کیا تونے لوگوں سے کہا تھا کہ تجھ کو اور تیری ماں کو خدا بناؤ تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہینگے کہ میں نے ان سے نہیں کہا بجز اس کے جس کا تونے مجھ کو حکم دیا تھا کہ خدا کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان پر شاہد تھا پھر جب تونے مجھ کو وفات دی تو ان پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔
سوم۔ سورة مریم میں جہاں فرمایا ہے کہ ” واوصانی یا لصلوۃ والزکوۃ مادست حیا وہوابوالدتی ولم یجعلنی جبار شقیا۔ والسلام علی یوم ولدت و یوماموت ویوم ابعت حیا (سورة مریم آیت ،, ) جب مریم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو علماء یہود سے کلام کرنے کو لے آئیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں خدا کا بندہ اور نبی ہوں مجھ کو کتاب ملی ہے اور مجھ کو حکم دیا ہے نماز کا اور زکوٰۃ کا جب تک کہ میں زندہ رہوں اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرنے کا اور مجھ کو جبار و شقی نہیں بنایا ہے اور مجھ پر سلامتی ہے جس دن کہ میں پیدا ہوا اور جس دن کہ مروں گا اور جس دن کہ پھر زندہ ہو کر اٹھوں گا (یعنی بروز حشر) ۔
چہارم۔ سورة نساء میں جہاں یہودیوں کے کفر کے اقوال بیان کئے ہیں وہاں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وقولھم ناقتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وما قتلوہ وما ھلبوہ ولکن شبہ لحم وان الذین اختلفوافیہ لغی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن و ما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اللہ الیہ (سورة نساء آیت )
یہودی کہتے تھے ہم نے عیسیٰ بن مریم رسول خدا کو قتل کر ڈالا حالانکہ نہ انھوں نے ان کو قتل کیا اور نہ صلیب پر مارا لیکن ان پر (صلیب پر مار ڈالنے کی) شبیہ کردی گئی اور جو لوگ کہ اس میں اختلاف کرتے ہیں البتہ وہ اس بات میں شک میں پڑے ہیں ان کو اس کا یقین نہیں ہے بجز گمان کی پیروی کے انھوں نے ان کو یقیناً قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے اپنے پاس ان کو اٹھا لیا۔
پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی موت سے وفات پانا علانیہ ظاہر ہے مگر جو کہ علمائے اسلام نے یہ تقلید بعض فرق نصارے کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کرلیا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں، اس لیے انھوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کو بےجا کوشش کی ہے۔
پہلی آیت میں صاف لفظ ” متوفیک “ کا واقع ہے جس کے معنی عموماً ایسے مقام پر سوت کے لیے جاتے ہیں، خود قرآن مجید سے اس کی تفسیر پائی جاتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” اللہ یتوفی الانفس حین موتھا “ ابن عباس اور محمد ابن اسحق نے بھی جیسے کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے ” متوفیک “ کے معنی ” یمتک “ کے لیے ہیں۔
یہی حال لفظ ” توفتنی “ کا ہے جو دوسری آیت میں ہے اور جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تونے مجھ کو موت دی یعنی جب میں مرگیا اور ان میں نہیں رہا تو تو ان کا نگہبان تھا۔
پہلی آیت میں اور چوتھی آیت میں لفظ ” رفع “ کا بھی آیا ہے جس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قدرومنزلت کا اظہار مقصود ہے نہ یہ کہ ان کے جسم کو اٹھالینے کا ۔ تفسیر کبیر (قولہ رافعک الی ان المراد الی محل کر امتی وجعل ذلک رفعا الیہ التفخیم والتعظیم و مثلہ قولہ انی ذاھب الی ربی وا نماز ھب ابراھیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من العراق والشام رقد یقول السلطان ارفعن ھذا الا موالی القاضی رتد یسمی الحجاج زوار اللہ ولیمی المجارون جیران ادوہ والمراد من کل ذلک التفخیم والتعظیم فکذلک ھھنا) میں بھی بعض علماء کا قول لکھا ہے کہ لفظ ” دفع “ کا تعظیماً تفخیماً بولا گیا ہے۔
متوفیک اے ممیتک وھومروی عن ابن عباس و محمد ابن اسحاق قالوا والمقصودان ال ایصل اعداوھ من الیھود الی قتلہ ثمانہ بعد ذلک اکرمۃ بان رفعہ الی السماء ثم اختلفوا علیٰ ثلاثۃ اوجد احد ماقال وھب توفی ثلاث ساعات ثم رفع و ثانیھا قال محمد ابن اسحاق توفی سمیع ساعات ثم احیاء اللہ و رفعہ الثالث قال الربیع بن انس انہ تعالیٰ توفاہ حین رفعہ الی السماء قال تعالیٰ اللہ یتوفی الا نفس حین موتھا والتی لم تمت منامھا۔ (تفسیر کبیر)
جن علما نے ” متوفیک “ کے معنی ” ممیتک “ کے قرار دیئے تھے انھوں نے قرآن مجید کے ٹھیک ٹھیک معنی سمجھے تھے، ان کا خیال تھا کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی موت سے مرے مگر انھوں نے ” رافعک “ کے معنوں میں غلطی کی جو یہ خیال کیا کہ پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے، کیونکہ ” رافعک “ کے لفظ سے جیسا ہم نے اوپر بیان کیا آسمان پر جانا لازم نہیں آتا۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر موت طبعی طاری کرنے سے مقصود یہ تھا کہ ان کے دشمن ان کو قتل نہ کرسکیں۔ وہب کا یہ قول ہے کہ وہ تین گھنٹہ تک مردہ رہے اور محمد ابن اسحاق کا قول ہے کہ سات گھنٹہ تک ، پھر زندہ ہوئے اور آسمان پر چلے گئے، اور ربیع ابن انس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھاتے وقت موت دی۔
بہرحال ان اقوال سے اس قدر ثابت ہوا کہ بعض علماء اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو موت طبعی طاری ہوئی، اور بعض علما نے رفع کے لفظ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے جسم کا آسمان پر اٹھالینا مراد نہیں لیا، بلکہ اس سے ان کی قدرومنزلت مراد لی ہے۔ پس جب ان دونوں قولوں کو تسلیم کیا جاوے تو جو ہم بیان کرتے ہیں وہی پایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں نے نہ سنگسار کرکے قتل کیا نہ صلیب پر قتل کیا بلکہ وہ اپنی موت سے مرے اور خدا نے ان کے درجہ اور مرتبہ کو مرتفع کیا۔
ان آیتوں میں ایک اور لفظ بھی غور کے قابل ہے یعنی ” مادمت فیھم “ اس کے صاف معنی ہیں کہ جب تک میں زندہ تھا، اور اس کی سند خود قرآن مجید کی دوسری آیت میں موجود ہے جہاں فرمایا ہے ” مادمت حیا “ پس صاف ظاہر ہے کہ جو معنی ” حیا “ کے ہیں وہی معنی ” فیھم “ کے ہیں، اس کے بعد ہے ” فلما توفیتنی “ تو اس سے اور بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس لفظ سے حیا ہی مراد تھی اور مطلب بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ جب تک میں ان میں تھا یعنی زندہ تھا تو میں اس پر شاہد تھا، اور جب تونے مجھے موت دی تو تو ان کا نگہبان رہا۔ پس ان دونوں آیتوں میں اس دنیا ہی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ رہنا اور اس دنیا ہی میں اپنی موت سے مرنا بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔
اب باقی رہی چوتھی آیت، مگر جب یہ تحقیق ہوگیا کہ یہودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سنگسار کر کے قتل کیا تھا۔ اور عیسائی یہ یقین کرتے تھے کہ یہودیوں نے صلیب پر حضرت عیسیٰ کو قتل کیا تھا، حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط تھیں، وہ سنگسار تو ہرگز نہیں ہوئے، صلیب پر البتہ لٹکائے گئے مگر صلیب پر مرے نہیں۔ ان دونوں اعتقادوں کے رد کرنے کو خدا نے فرمایا کہ ” ماقتلوہ ما ھلبوہ “ پہلے ” ما “ ناقیہ سے نفس قتل کا مطلب ہوتا ہے اور دوسرے سے کمال صلیب کا، کیونکہ صلیب پر چڑھانے کی تکمیل اسی وقت تھی جب صلیب کے سبب موت واقع ہوتی، حالانکہ صلیب پر موت واقع نہیں ہوئی ” ولکن شبہ لھم “ سے اور زیادہ تشریح اس مطلب کی ہوتی ہے۔ تشبیہ میں چار چیزیں ہوتی ہیں، ایک مشبہ، ایک مشبہ بہ، ایک وجہ تشبیہ ایک مشبہ لہ، اس آیت میں صرف دو چیزیں بیان ہوئی ہیں ، ایک مشبہ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے۔ دوسری مشبہ لہم جو یہودی تھے اور جو درپے قتل حضرت مسیح تھے۔ مشبہ بہ قرآن میں مذکور نہیں ہے۔ علمائے اسلام نے جب بعض عیسائی فرقوں کا یہ قول پایا کہ شمعون یا یہود اصلیب پر چڑھایا گیا تھا انھوں نے جھٹ قرآن کے معنی بدل دیئے، اور یہودا یا شمعون کو مشبہ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو مشبہ بہ ، اور یہودا یا شمعون کی تبدیل صورت کو وجہ تشبیہ قرار دے دیا، حالانکہ یہاں صرف شبہ بہ محذوف ہے اور وہ ” موتی “ ہے، اور وجہ تشبیہ وہ حالت ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر طاری ہوئی تھی جس کے سبب وہ مردہ تصور ہوئے تھے۔ پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ ” وما صلبوہ ولکن شبہ لھم بالموتی “ اس کی زیادہ تعریح اسی آیت کے اگلے لفظوں سے ہوتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ” جو لوگ اس میں اختلاف کرتے ہیں وہ شک میں ہیں ان کو کچھ علم نہیں ہے بجز گمان کی پیروی کے “ اور پھر اس کے بعد تاکیداً اور یقیناً فرمایا کہ ” انھوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا “ اور اس مقام پر صلیب کا کچھ ذکر نہیں کیا بلکہ صرف قتل کی نفی کی، اور اس سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ اوپر جو صلیب کی نفی کی تھی اس سے نفی قتل بالصلیب مراد تھی نہ مطلق صلیب کی۔ شما ماتہ اللہ باجل مسمی و رفعہ الیہ کما قال اللہ تعالیٰ بل رفعہ اللہ الیہ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 61

فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۱﴾

تفسیر سرسید :

انہی باتوں پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عیسائی عالموں سے مباہلہ چاہا جس سے ایک نہایت عمدہ طور پر فطرت انسانی ظاہر ہوتی ہے۔ تمام اہل مذاہب خواہ صحیح مذہب رکھتے ہوں یا غلط دو قسم کے ہوتے ہیں جہلا اور علما۔ جہلا کا یقین مذہبی باتوں پر نہایت پختہ اور مستحکم ہوتا ہے، اور جو کچھ انھوں نے سمجھا ہے یا سیکھا ہے اس کے سوا وہ اور کچھ نہیں جانتے، اور کوئی شبہ ان کے دل میں نہیں ہوتا۔ ان کی مثال اندھے آدمی جیسی ہے کہ وہ اس رستہ پر جو اس کو کسی نے بتلا دیا ہے چلا جاتا ہے اور اس کے ٹھیک ہونے پر یقین رکھتا ہے اور خود نہیں جانتا کہ درحقیقت یہ رستہ اسی جگہ جاتا ہے جہاں اس کو جانا ہے یا نہیں۔ پھر اگر کسی نے کہہ دیا کہ میاں اندھے آگے گڑھا ہے یا دیوار ہے تو وہ بغیر کسی شک کے اس پر یقین کرلیتا ہے اور ٹھہر جاتا ہے، پھر جس نے جو راہ بتائی اس طرف ہولیا۔ یہی جہلاے اہل مذہب کا حال ہے جس مذہب میں وہ ہیں ان کو اس پپر ذرا بھی شبہ نہیں۔ مگر علما کا حال اس کے برخلاف ہوتا ہے، گو وہ بھی مذہب کی پیروی کرتے ہیں اور جس مذہب میں وہ ہیں اس کو سچ کہتے ہیں اور دل میں بھی اس پر یقین رکھتے ہیں، مگر ان کا دل شبہ سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ مذہب کے ہزاروں مسئلوں کو سچ کہتے ہیں مگر ان کی عقل ان کو قبول نہیں کرتی، ان کا علم ان کے ویسے ہی ہونے پر ان کی تصدیق نہیں کرتا، اور وہ اس پر سچا یقین نہیں کرسکتے تو اپنے دل کو سمجھاتے ہیں کہ گویا یہ بات عقل سے اور سمجھ سے دور ہو مگر مذہب کی رو سے ہم کو یونہی ماننا اور اس پر یقین کرنا ضرور ہے۔ پس درحقیقت ان پر ان کو سچا یقین نہیں ہوتا، دل میں ایک کانٹا کھٹکتا رہتا ہے، اور جس پر ان کو حقیقی یقین نہیں ہوتا، اس پر یقین بٹھلانا چاہتے ہیں۔ علمائے عیسائی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا اعتقاد رکھتے تھے یہ بھی ایسی ہی باتیں تھیں جن کو وہ مذہباً مانتے تھے اور مذہباً اس پر اعتقاد رکھتے تھے، مگر سچائی سے دل نہیں مانتا تھا۔ فطرت انسانی میں یہ بات ہے کہ جو سچا شبہ اس کے دل میں ہوتا ہے وہ دور کرنے سے دور نہیں ہوتا اور یقین بٹھلانے سے یقین نہیں بیٹھتا، بلکہ وہ شبہ جب ہی دور ہوتا ہے جب حقیقتاً دور ہوجاوے، اور یقین جب ہی آتا ہے جب کہ حقیقتاً یقین آجاوے۔ ایسی حالت میں کوئی شخص ایسی بات کرنے پر فطرۃً آمادہ نہیں ہوسکتا جو اس کے دل میں کھٹکنے والے شبہ کے برخلاف ہو۔ اسی لیے علما سے عیسائی سے نہ جہلائے عیسائی سے کہا گیا کہ اگر تم اس پر سچا یقین رکھتے ہو تو مباہلہ کرو، اور ظاہر ہوگیا کہ وہی دل میں کھٹکنے والا شبہ اس پر آمادہ نہیں کرسکتا، اور ثابت ہوگیا کہ خود علما سے عیسائی کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ابن اللہ ہونے اور مر کے جی اٹھنے پر سچا یقین نہیں تھا، اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی بجز ایسے یقین کے جو مذہباً ہوتا ہے سچا یقین نہیں ہے۔
ہم اہل اسلام کو بھی ان باتوں سے بری نہیں سمجھتے۔ ہزاروں مسلمان اس وقت موجود ہیں جو بہت سے مسئلوں پر صرف اس وجہ سے یقین رکھتے ہیں کہ مذہباً ان پر یقین رکھنا چاہیے، مگر وہ دل میں کھٹکنے والا شبہ ان کے دل موجود ہے۔ البتہ اسلام میں ایسے علماء اہل اللہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے درحقیقت مذہب اسلام پر غور و فکر کی ہے اور حقیقۃً تمام شبہات ان کے دل سے دور ہوئے ہیں، اور حقیقۃً ان کے دل میں یقین آیا ہے۔ ایسے محققین کو ہمیشہ لوگوں نے کافر کہا ہے اور اب بھی کہتے ہیں مگر کچھ شبہ نہیں کہ خدا کے سامنے ان کے کفر کے مقابلہ میں دوسروں کا ایمان بجوے ہم نمے ارڑو۔
 
Top