• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 6 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 3

حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳﴾

تفسیر سرسید :

١ ؎ اذا اختلفوا فی الشیء لمن یکون اجالوا القاح واعطرہ من خرج لہ (شمس العلوم)
(حرمت علیکم) اس آیت میں جن چیزوں کو حرمت کا ذکر ہے ان میں سے مرے ہوئے جانور اور خون اور سور کے گوشت اور اس جانور کی حرمت کا بیان جو خدا کے سوا اور کسی کے نام پر مارا جاوے سورة بقر کی تفسیر میں گزرا (دیکھو تفسیر جلد اول صفحہ لغایت) اور ” مااھل لغیر اللہ “ ہی کے حکم میں ” وماذبح علی النصب و ان تستقموا بالا زلام “ بھی داخل ہے۔ بضب اور منعم دونوں ایک ہی چیز ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ صنعم میں کوئی صورت بنی ہوئی ہوتی ہے اور نصب میں کسی صورت کا بنا ہوا ہونا ضروری نہیں اکثربت پرستوں میں رواج ہے کہ ایک بن گھڑا پتھر کسی دیوتا کے نام پر نصب کردیتے ہیں اور اسی کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ اس میں کوئی صورت کھدی ہوئی نہیں ہوتی پس جو چیز غیر خدا کے نام پرستش کے لیے قائم کی جاوے خواہ وہ صورت وار ہو یا بےصورت جیسے کہ سید کا امتحان یا شہید کا استھان یا سیتلا کا استھان وہ سب نصیب میں داخل ہیں۔
” وما اھل لغیر اللہ بہ “ کے کہنے کے بعد ” وما ذبح علی انصب “ کہنے سے جو فرق ان دونوں میں ہے وہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مذبوح علیٰ النصب کی حرمت میں ذبح کے وقت ہلال لغیر اللہ مشروط نہیں ہے، ان کا وہ فعل ہی بروقت ذبح قائم مقام اھلال لغیر اللہ کیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگوں نے کعبہ کے گرد بن گھڑے پتھر کھڑے کرلیے تھے اور ان پر جانوروں کو چڑھایا کرتے تھے اور ذبح کرکے ان کا خون ان پتھروں کو لگا دیتے تھے جیسے کہ ٹھیک ہندوستان کے بت پرست بعض دیبیوں کے مندروں پر جانوروں کو چڑھا کر مارتے ہیں پس یہ ان کا فعل ہی قطعی ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ ذبح تقرباً لغیر اللہ تھا اور اس لیے اس کی حرمت کے لیے بروقت ذبح اھلال لغیر اللہ مشروط نہیں ہوا۔
” وان تستقسموا بالا زلام “ کی تفسیر میں ہمارے مفسرین نے ایسی تفسیریں لکھی ہیں جن میں کوئی بھی اس مقام کے مناسب نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ جو جانور علیٰ النصب ذبح ہوتے تھے ان کی نسبت یہ قرار دینا کہ پوچاریوں میں سے کون نیوے ازلام کے ذریعہ سے ہوتا تھا جب ذبح علیٰ النصب کی حرمت بیان ہوئی تو اسی کے ساتھ جو فعل کہ اس کے ساتھ کیا جاتا تھا اس کو بھی بیان کیا ہے اس کو اس مقام پر فال لینے یا استعلام بالغیب سے کچھ تعلق نہیں ہے اور نہ وہ کوئی علیحدہ حکم ہے بلکہ ماذبح علے النصب ہی کا بیان ہے اور فعل استقسام کا وہی مفعول ہے اور تقدیر کلام یوں ہے کہ حرمت علیکم ذبح علی النصب وان تسقسموھا بالازلام۔
اور موتوذۃ۔ اور سترذیۃ۔ اور نطیحۃ۔ اور ما اکل السبع۔ کی حرمت بھی ایسی ہی ہے جیسے کہ میتہ کی اور سیتہ کی حرمت کا بیان بھی سورة بقرہ میں ہوچکا ہے صرف ” منحنقۃ “ پر بحث ہونی چاہیے۔
خنق اور اختناق کے معنی حلق کے اس قدر گھٹنے کے ہیں جس سے جاندار مرجاوے اور وہ تین طرح پر ہوسکتا ہے۔ یا تو انسان جانور کا گلا گھوٹ ڈالے۔ یا شکار کرنے میں اس کے گلے میں اس طرح پھندا پڑجاوے کہ وہ گھٹ کر مرجاوے۔ یا کسی درخت کی ٹہنیوں میں گردن پھنس کر گلا گھٹ جاوے۔ چوپایہ جانور ان تینوں طرح میں سے جس طرح پر مرجاوے یا ماراجاوے حرام ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ان تینوں حالتوں میں بسبب نہ خارج ہونے خون کے جو چوپاؤں میں کثرت سے ہوتا ہے اور جس کو دم سفوح کہتے ہیں اس کی موت، موت طبعی کے مشابہ ہوجاتی ہے، اور وہ بہت سی باتوں میں مثل سیتہ کے ہوجاتا ہے۔ جس کا بیان اوپر ہوچکا ۔ مگر بحث باقی رہتی ہے طیور منخنفۃ میں جن میں خون سیال نہایت کم ہے اور جس کا خارج ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کہ آیا جب انسان نے اپنے قصد و ارادہ سے ان کو گلا گھوٹ کر مارا ہو تو وہ بھی اس حکم حرمت میں داخل ہے یا نہیں۔
یہ بحث مسلمانوں کی نسبت کچھ زیادہ قابل بحث نہیں ہے اس لیے کہ مسلمانوں کی نسبت بغرض مخالفت طریقہ شرک کے ہر ایک جانور کو خواہ چرند ہو خواہ پرند خدا کے نام پر ذبح کرنے کا حکم ہے پس اس حکم حرمت میں جو اس آیت میں منخنقہ کی نسبت ہے پرند داخل ہوں یا نہ ہوں اگر کسی مسلمان نے اس کا گلا گھوٹ کر مار ڈالا ہو تو اس کا کھانا حرام ہوگا اس لیے کہ اس کو ذبح کرنے کا حکم تھا اور اس نے برخلاف اس حکم کے اس کو مارا ہے۔
جہاں تک بحث ہے نسبت اہل کتاب کے ہے کہ اگر اہل کتاب نے کسی پرند جانور کو گلا گھوٹ کر مار ڈالا ہو اور پرند کو اس طرح مار کر کھانا وہ اپنے مذہب میں جائز سمجھتے ہوں تو آیا مسلمان کو اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں۔
اس مسئلہ کے تصفیہ کے لیے تین امر کا بیان ضروری ہے۔ اول یہ کہ یہ آیت طیور منخنقہ کی حرمت پر نص قطعی ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ۔ اگر نص قطعی ہے تو یہ حرمت اس کی عین ذات سے علاقہ رکھتی ہے یا کسی امر خارجی سے۔ تیسرے یہ کہ ۔ کوئی امر ہو اس کی اگلی آیت نے جس میں ہمارے لیے طعام اہل کتاب کی حلت بیان ہوئی ہے طیور منخنقہ اہل کتاب کو حرمت سے مستثنیٰ کردیا ہے یا نہیں۔
امراول کا تعنیقہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ طیور منخنقہ کی حرمت پر نص صریح نہیں ہے اس لیے کہ اس آیت میں چار لفظ ہیں۔ المنخنقہ۔ الموقوذہ۔ المتردیۃ۔ النطیحۃ۔ ان چاروں لفظوں میں حرف تاء فوقانی موجود ہے اور بموجب محاور ہ زبان عرب کے اس بات کا قرار دینا چاہیے کہ یہ ” قے “ کس قسم کی ہے اور جو کہ دوسری آیت قرآن مجید سے قسمم ” قے “ کا تعینجو ان کلموں میں ہے نہیں پایا جاتا اس لیے اجتہاد سے اس کا تعین کرنا پڑتا ہے ، پس اب یہ ’ دقے “ کس قسم کی قرار دیجاوے اور کسی جانور کی حرمت کا مسئلہ اس سے نکالا جاوے اس کی حرمت منصوص نہ ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ” قے “ اس قسم کی نہ ہو بلکہ دوسری قسم کی ہو اور اس قسم کے جانوروں کی حرمت پر حاوی نہ ہو۔
مثلاً ہم قرار دیتے ہیں کہ ان چاروں لفظوں میں تاء تانیث ہے جیسا کہ اکثر مفسروں نے بھی قرار دیا ہے پس اس حالت میں بموجب محاورہ زبان عرب کے ضروری ہے کہ یہ چاروں لفظ صفت ہوں کسی موصوف مخدوف مونث کی۔
اب ہم کو دوسرا اجتہاد کرنا پڑا کہ وہ موصوف مونث مخدوف کون ہے جس کو ہم قرار دیں بہرحال جس کو قرار دیں اس کی حرمت البتہ اس آیت سے نکلے گی مگر اس کی حرمت اجتہادی ہوگی نہ منصوصی، کیونکہ ہم نے دو باتوں کو یعنی قسم قے کو اور موصوف مخدوف کو نص قرآنی سے نہیں بلکہ صرف اپنے اجتہاد سے قائم کیا ہے۔ امام فخرالاسلام رازی فرماتے ہیں کہ یہاں موصوف مونث مخدوف (شاۃ) ہے کہ وہی اکثر کھانے میں آتی ہے اور باقی تمام جانوروں چرند و پرند کی حرمت کا اس پر قیاس کیا جاتا ہے۔ قبول کرو کہ یہی اجتہاد صحیح ہے اس حالت میں پرند منخنقہ کی حرمت دو اجتہادوں اور ایک قیاس غیر منصوص العلۃ سے قرار پاویگی نہ نص قطعی سے۔
مگر امام صاحب نے ناحق شاۃ کو موصوف مونث مخدوف مانا ہے اگر وہ نفس کو موصوف مونث مخدوف مانتے تو تمام منخنقہ جانوروں کی حرمت آجاتی اور بکرے کی حرمت پر باقی جانوروں کے قیاس کی حاجت نہ رہتی اور تقدیر کلام یہ ہوتی کہ ” حرمت علیکم النفس المنخنقۃ الخ اب قبول کرو کہ یہی اجتہاد صحیح ہے تو بھی پرند جانوروں کی حرمت دو اجتہادوں مذکورہ باہ سے قرار پاویگی نہ نص قطعی سے۔
اب ہم اس قے کوتاہ تانیث نہیں قرار دیتے بلکہ تاء نقل و تحویل قرار دیتے ہیں جیسا کہ صاحب تفسیر بیضاوی نے قرار دیا ہے اور جو کہ یہ قے صفت کو اسم بنادیتی ہے اس لیے کسی موصوف مونث محذوف کی کی تلاش کی حاجت نہیں رہتی اور جس پر اطلاق منخنقہ اور مترویہ وغیرہ کا ہوگا اس کی حرمت اس آیت سے ثابت ہوگی مگر اس کی حرمت کا ثبوت ایک اجتہاد سے یعنی حرف تا کو تاء نقل قرار دینے سے ہوگا نہ نص صریح قطعی سے۔
ہمارے نزدیک ان چاروں کلموں میں تاء تانیث ہے اور موصوف مونث بہیمہ ہے بمعنی مویشی یا چوپایہ یا چرند کے پس تقدیر آیت کی یہ ہے کہ حرمت علیکم المھیمۃ المنختقۃ والبھیمۃ الموقودۃ والبھیمۃ المترذیۃ والبھیمۃ النطیحۃ پس پرند اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔
خود قرآن مجید سے بوجوہات مفصلہ ذیل ثابت ہے کہ یہاں موصوف محذوف بہمیہ ہے۔
اول یہ کہ خود قرآن مجید میں اسی آیت کے قبل شروع سورة میں خدا نے فرمایا ” احلت علیکم بھیمۃ الا نعام الا ما یتلیٰ علیکم “ یعنی حلال ہوئے تمہارے لیے چوپائے مویشی مگر وہ جو آگے بتا دینگے پس اس کے بعد جو حرام جانور باشارہ صفت مونث بتائے وہ خود خدا کے فرمانے سے اسی استثنائے کی تفصیل ہیں جن کی نسبت فرمایا تھا ” الا مایتلیٰ علیکم “ اور کسی کی اور موصوف مونث محذوف بھی دہی بہیمہ ہے جس کی نسبت اوپر فرمایا تھا کہ احلت علیک ربھیمۃ الانعام پس خود خدا نے صاف بتادیا ہے کہ وہ موصوف مونث محذوف بہیمہ ہے نہ اور کوئی۔
دوسرے یہ کہ منجملہ صفات چہارگانہ کے جو اس آیت میں مذکور ہوئیں اخیر دو صفتوں۔ تردی۔ یعنی اوپر سے گر کر مرجانے اور فطح ۔ یعنی لڑنے میں سینگ کی چوٹ سے مرجانے کی صفت سوائے بہیمہ یعنی چرند کے پرند میں متحقق ہی نہیں ہوسکتی باقی رہا۔ وقذ یعنی لکڑی سے یا لٹھ سے یا اور کسی چیز سے مار ڈالنا اگرچہ یہ فعل پرند کی نسبت بھی ممکن ہے مگر جو لوگ اگلے زمانہ کی تاریخ سے اور جنگلی قوموں کے حالات سے اور خود عرب کے بیابان کے رہنے والوں کی عادت سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ صرف چوپائے جانوروں کا اس طرح پر شکار ہوتا تھا کہ ان کو گھیر کر لٹھوں سے مار ڈالتے تھے نہ پرند کا پس یہ صفت بھی درحقیقت حسب عادت عرب مختص بہایم سے ہے نہ پرند سے۔
اب بحث طلب رہا۔ خنق ۔ یعنی گلا گھوٹ کر مار ڈالنا۔ اگرچہ یہ فعل پرند کی نسبت بھی ممکن ہے مگر عرب میں چوپاؤں کا گلا گھوٹ کر مار ڈالنا مروج تھا جس کی حرمت میں یہ آیت نازل ہوئی۔
امام فخر الدین رازی صاحب، تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ ” واعلم ان المنخنقۃ علے وجوہ منھا ان اھل الجاھلیۃ کانوا ینخنقون الشاۃ فاذاماتت اکلوھا ومنھلما ینخنق بحبل الصائد ومنھا ما یدخل راسھا بین عودین فی شجرۃ فتنختنق نت موت الخ “ پس اس بیان سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ جو احکام اس آیت میں مذکور ہیں وہ بہیمہ کی نسبت ہیں نہ پرند کی اور اس لیے اس آیت سے طیور منخنقہ کی حرمت منصوص نہیں ہے البتہ ممکن ہے کہ قیاسی ہو۔
اس تقریر پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر اس آیت میں اس استثنا کی تفصیل ہے جس کا ذکر ” الا ما یتلیٰ علیکم “ میں ہے تو یہ آیت من اولھا الی اخرھا بھیمۃ الانعام ہی سے متعلق ہوگی پھر کلمہ میتہ۔ والدم۔ وما احل لغیر اللہ ۔ وما اکل السبع ۔ وماذبح علی النصب۔ سے کیوں حرمت چرند و پرند کی لی جاتی ہے چاہیے کہ وہ بھی مخصوص بہ بھیمۃ الانعام ہو اور پرند اس میں داخل نہ ہوں۔
مگر یہ سوال صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ان تمام کلموں کا مفہوم عام ہے گو محل خاص ہو اس لیے یہ سبب اپنے مفہوم عام ہونے کے چرندو پرند دونوں کو شامل ہیں برخلاف منخنقہ۔ وموقودہ ومتردیہ۔ ونطیحہ کے کہ بسبب صفت ہونے ایک موصوف محذوف کے نہ ان کا مفہوم عام ہے اور نہ محل عام ہے اس لیے وہ سوائے جنس مستثنیٰ منہ کے اور کسی سے متعلق نہیں ہوسکتی۔
دوسرے امر کے تصفیہ کے وقت ہم فرضاً تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ آیت طیور منخنقہ کی حرمت پر نص قطعی ہے۔ گو یہ حرمت عین ذات طیور منخنقہ ماکول اللحم کی نہیں ہے بلکہ ایک فعل خارجی سے متعلق ہے اور جو حرمت کسی ماکول کی کسی امر خارجی سے ہوتی ہے تو وہ حرمت درحقیقت اس فعل سے علاقہ رکھتی ہے۔ نفس ماکول سے مگر جو کہ ماکول فعل اکل سے منفع نہیں ہوسکتا اس لیے مجازاً ماکول پر بھی اطلاق حرمت کیا جاتا ہے۔ کوئی چیز جس کو خدا نے پاک بنایا ہے جب تک کہ اس کی ذات میں تغیر واقع نہ ہو کسی خارجی فعل سے ناپاک نہیں ہوسکتی۔ اور کوئی چیز جس کو خدا نے حرام بنایا ہے کسی فعل خارجی سے حلال نہیں ہوسکتی سور نہ خدا کے نام سے ذبح کرنے پر پاک ہوسکتا ہے نہ شیطان کے نام پر ذبح کرنے سے۔ غریب بکری نہ غیر اللہ ذبح کرنے سے ناپاک ہوسکتی ہے اور نہ علیٰ النصب ذبح کرنے سے البتہ انسان کے افعال سے حرمت و علت کا تعلق ہوتا ہے۔
مثلاً ایک شخص نے کسی کے گیہوں چورا لیے تو اس چور کی وجہ سے وہ گیہوں فی نفسہ حرام نہیں ہوگئے کیونکہ ان کی ماہیت میں کسی کا تغیر نہیں آیا بلکہ ان کا کھانا اور ایک فعل ممنوع ہے۔ اسی طرح جب حلال جانور بغیر اللہ ی اعلیٰ النصب ذبح کیا جاوے تو ذات مذبوح میں کچھ حرمت نہیں لگ جاتی کیونکہ صبیا گوشت اس کا اس وقت تھا جب کہ وہ خدا کے نام سے ذبح کیا جاتا ویسا ہی اس کا گوشت اب بھی ہے جب کہ وہ بغیر اللہ یا علیٰ النصب ذبح کیا گیا ہے ، مگر یہ سبب شرک ہونے کی وہ فعل ممنوع ہوا ہے، اور بنظر محفوظی اس شرک کے اس کا کل بھی حرام کیا گیا ہے پس ایسی حالت میں حرمت حقیقۃً فعل اکل سے متعلق ہے اور مارکوں پر نجاناً ، اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
میتہ۔ اور بہایم منختقہ۔ وموتوذہ۔ ومتردیہ۔ ونطیحہ۔ اور ماکول السبح کا حال اس سے مختلف ہے کیونکہ بوجہ موت طبعی۔ یا عدم اخراج دم مسفوح جو حرام ہے۔ یا بسبب عدم علم کہ فی ای حال ماتت اس کے نفس ماہیت کا متغیر ہونا یقینی یا ظنی ہے، اور اس لیے وہ بذاتہ و بنفسہ حرام ہے۔ مگر طیور منخنقہ بفعل الانسان کا یہ حال نہیں ہے، اور یہ کہنا کہ یہ سب عدم اخراج دم ان کا حال بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ بہایم منخنقہ کا ایک محض مکابرہ و جدال ہے کیونکہ جو خون کو بہایم میں ہے مقداراً و ماہیتہ جس کے عدم اخراج سے تغیر نفس بہائم مذکور میں واقع ہوتا ہے کوئی سلیم العقل نہیں قبول کرسکتا کہ ویسا ہی طیور میں ہے اور اس کے عدم اخراج سے تغیر اس کی ذات میں واقع ہوتا ہے طیور و بہائم کا خون بالکل مختلف لاجزا و مختلف الترکیب سے، مچھلی میں اور دریائی جانوروں میں بھی خون ہے مگر وہ طیور سے بھی زیادہ مختلف الترکیب اور مختلف الاجزا ہے پس جو امر کہ بہایم میں ہے اس کا قیاس طیور پر صحیح نہیں ہے اور اس لیے حرمت طیور منخنقہ کی ان کی عین ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ بسبب ایک امر خارجی کے ہے جو خلاف حکم ذبح خلق سے واقع ہوا ہے اور جب کہ یہ فصل ایک مسلمان کے ہاتھ سے واقع ہو جو مامور بالذبح ہے تو گو اس طیر منخنقہ کے نفس و ذات سے حرمت متعلق نہ ہو مگر اس کا اکل یعنی فعل اکل حرام و ممنوع ہوگا۔
تیسرے امر کے تصفیہ کے لیے ہم ان دونوں امر سے قطع نظر کرتے ہیں اور جو فیصلہ ان کا قرار دیا جاوے اس کو تسلیم کرتے ہیں تو طیور منخنقہ کی حرمت عدم الذبح یا موت بالخنق قرار پاویگی۔ مگر اگلی آیت میں خدا تعالیٰ نے طعام اہل کتاب ہمارے لیے بلا کسی قیدوشرط کے حلال کردیا ہے۔ پس جس طرح کہ اہل کتاب موانق اپنے اپنے مذہب کے اس طعام کو جس کا عین ہمارے لیے حرام نہیں ہے اپنے لیے طیار کرتے ہیں ان کا کھانا ہمارے لیے جائز ہے اور اگلی آیت یعنی ” وطعام الذین اوتو الکتب حل لکم “ ان تمام احکام میں سے جو بنسبت ذبائح ہیں طعام اہل کتاب کو مستثنیٰ کردیتی ہے پس باوصف تسلیم کرنے تمام باتوں کے جو امرا دل و دوم سے علاقہ رکھتی ہیں طیور منخنقہ اہل کتاب کا کھانا حرام و ممنوع نہیں رہتا۔
یہ صرف میرا ہی اجتہاد نہیں ہے بلکہ بہت سے علمائے متقدمین و محدثین کا بھی یہی اجتہاد و مذہب ہے۔ ابوداؤد میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ جو آیت ہے کہ ” کلوا مما ذکراسم اللہ علیہ ولا تاکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ “ اس سے طعام اہل کتاب مستثنیٰ ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم۔
شعبی۔ اور عطا۔ اور زہری۔ اور مکحول۔ کا جو علمائے متقدمین میں سے ہیں یہ مذہب ہے کہ اگر عیسائی حضرت مسیح کے نام پر جانور ذبح کریں تب بھی اس کا کھانا مسلمان کو جائز ہے۔
معیار میں حضرت امام محی الدین ابن عربی کا فتویٰ اور ابو عبداللہ العجار کا مذہب نقل کیا گیا ہے کہ اگر عیسائی مرغی کی گردن مروڑ کر توڑ ڈالے تو اس کا کھانا مسلمان کو درست ہے۔ احکام ١ ؎ طعام اہل کتاب کی نسبت میرا ایک جداگانہ رسالہ ہے جس کو زیادہ تفصیل دیکھنی ہو اس میں دیکھے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 6

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ ؕ مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۶﴾

تفسیر سرسید :

(فاغسلو وجوھکم) اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیتوں میں طہارت کا ذکر ہے، کوئی شخص قرآن مجید کی آیتوں اور ان حدیثوں سے جو طہارت کے باب میں ہیں یہ خیال نہیں کرسکتا کہ طہارت سے مقصود اصلی صرف منہ کا اور ہاتھ پاؤں کا دھونا یا کھانا یا ظاہری نجاست کا بہانہ ہے بلکہ اس سے اصلی مقصود و اندرونی نجاستوں کا دور کرنا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ ” بنی الدین علی النظافۃ “ اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ ” الطھور شطر الایمان “ ظاہر ہے کہ ایمان، دلی یقین قلبی یا اعتقاد کا نام ہے پس جو امر کہ ولی یقین یا قلبی اعتقاد پر مبنی ہو نہ اس کی بنیاد ظاہری نظافتہ پر ہوسکتی ہے اور نہ ظاہری طہارت کا اس کا جزو ہونا ممکن ہے ایمان ایک روحانی امر ہے اور اسی لیے روحانی نظافۃ اس کی بنیاد اور روحانی طہارت اس کا جزو ہوسکتی ہے۔
قرآن مجید میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ” رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحما المطہرین “ اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ” مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولا کن یرید لیطھرکم “ پس صاف ظاہر ہے کہ اللہ جس طہارت کو دوست رکھتا ہے وہ ہاتھ پاؤں پر پانی ڈالنا اور بدن پر پانی بہانا نہیں ہے بلکہ وہ دلی و روحانی طہارت ہے جس کو خدا دوست رکھتا ہے۔ ہاں ظاہری طہارت کا بھی اور بالتخصیص جب کہ کوئی شخص کسی عبادت میں اور خصوصاً فرض عبادت میں مصروف ہو خدا نے حکم دیا ہے اور وضو کو شرط نماز یا طہارت کو مفتل الصلوٰۃ قرار دیا ہے یہ حکم بھی مثل احکام محافظ کے ہے جو نماز سے علاقہ رکھتے ہیں جیسے قیام و قعود و سجدہ وغیرہ۔
خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسی فطرت پر پیدا کیا ہے کہ وہ جو کچھ آنکھ سے دیکھتا ہے۔ کان سے سنتا ہے۔ ناک سے سونگھتا ہے۔ زبان سے چکھتا ہے۔ ہاتھ سے چھوتا ہے۔ اس کا اثر اس کے دل پر پہنچتا ہے اور ایک خیال اس میں پیدا ہوتا ہے جو اس کے اخلاق پر اثر کرتا ہے انسان کے دل سے نکلنے والی چیزوں کی بنسبت وہ چیزیں بہت ہیں جو باہر سے انسان کے دل میں جاتی ہیں بلکہ ٹھیک ٹھیک یوں کہنا چاہیے کہ جو کچھ انسان کے دل سے نکلتا ہے وہ وہی ہے جو باہر سے اس کے دل میں جاتا ہے پس وضو نماز کے وقت جو ایک ظاہری فعل ہے روحانی طہارت کا خیال پیدا کرنے کو قرار دیا گیا ہے۔ صفائی و طہارت و نظافۃ تمام ظاہری چیزوں میں یہاں تک کہ لباس میں سواری میں مکان میں استعمال چیزوں میں کھانے پینے میں بشرطیکہ وہ اعتدال سے متجاوز نہ ہوجاوے اور مالیخولیا کی حد تک نہ پہنچ جاوے اخلاق کی درستی و اصلاح پر نہایت موثر ہوتی ہے پس جب کہ وہ ایک فعل عبادت کے ساتھ لازم کردی جاوے تو درستے و اخلاق اور روحانی طہارت پر اس کا بہت زیادہ اور قوی اثر ہوجاتا ہے۔ اسی اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لیے اسلام نے
نماز کے لیے ظاہری طہارت کو بھی شرط کیا ہے۔ نماز کے لیے ان اعضا کا دھو لینا مقرر ہے جن کا دھونا مختلف اسباب سے زیادہ تر مناسب اور طہارت ظاہری کو بھی زیادہ تر مفید ہے۔ حالت جنب میں تمام بدن کا دھونا زیادہ تر طہارت کے مناسب ہے مگر پانی نہ ہونے کی حالت میں کسی ایسے فعل کا جو اندرونی طہارت کا خیال پیدا کرے اس کے قائم مقام قرار دینا ضروری تھا اور اسی لیے ایسی حالت میں تیمم کا حکم دیا گیا ہے مگر ظاہری اعمال کا روح پر جب ہی اثر ہوتا ہے جب ان کو روحانی نیکی کا یاد دلانے والا سمجھے۔ اور اگر صرف ان ظاہری اعمال ہی کو مقصود اصلی سمجھ لے تو روحانی تربیت معدوم رہتی ہے کما یشاھدفی ز ماننا۔
اس بات میں بحث چلی آتی ہے کہ اعضاء وضو میں جن کے دھونے کا حکم ہے پاؤں بھی داخل ہیں یا نہیں۔ بلاشبہ قرآن مجید کے ایسے الفاظ ہیں جن سے اس بات کا قطعی یقین نہیں ہوسکتا۔ کہ پاؤں کا دھونا فرض ہے یا صرف مسح کرنا۔ میرے نزدیک نہایت عمدہ اصول یہ ہے کہ اگر قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت موجود ہو جس کے دو معنی سمجھ میں آتے ہوں اور ان دونوں میں سے کسی ایک کی تعین خود قرآن مجید سے نہ ہوتی ہو تو ان دونوں معنوں میں سے جس معنی پر عمل کوئی کرے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ہر ایک شخص مختار ہے کہ ان معنوں میں سے جس کو عمدہ یا مرجح سمجھے اسے اختیار کرے پس جن لوگوں نے پاؤں پر صرف مسح کرنا فرض سمجھا ہے نہ ان پر کچھ الزام ہے، ورنہ ان کے وضو میں کچھ نقصان ہے۔ مگر میری رائے میں پاؤں دو ہونے کو ترجیح ہے اور اسی لیے میں پاؤں دھونا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ پاؤں کے ساتھ ” الی الکعبین “ کی حد لگادی ہے جیسے کہ ہاتھوں کے دھونے کے ساتھ ” الی المرافق “ کی قید لگائی تھی اگر پاؤں پر صرف مسح ہی کرنے کا حکم ہوتا تو جس طرح سر کے مسح میں کوئی حد نہیں لگائی اسی طرح پاؤں کے مسح میں بھی کوئی حد نہ لگائی جاتی اور صرف یوں کہا جاتا کہ ” وامسحوا برذسکم وار جلکم “
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 27

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲۷﴾

تفسیر سرسید :

(انما یتقبل اللہ من المتقین) آدم کے دونوں بیٹوں یعنی، ہابیل اور قابیل کا قصہ بہت پرانے زمانہ سے مشہور چلا آتا ہے توراۃ میں بھی اس کا ذکر ہے قابیل نے جس کا نام توراۃ میں قاین ہے ہابیل کو مار ڈالا اس حسد سے کہ ہابیل کی نذر خدا نے قبول کی اور قابیل کی نذر خدا نے قبول نہیں کی۔
غور طلب یہ بات ہے کہ ہابیل کی نذر کا قبول ہونا اور قابیل کی نذر کا قبول نہ ہونا کیونکر ہوا۔ قرآن مجید میں کچھ اس کی تفصیل نہیں ہے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ قابیل کھیتی کرنے کا پیشہ کرتا تھا اور ہابیل بکریوں اور بھیڑوں کے گلہ رکھنے کا اور اسی سبب سے قابیل نے اپنے کھیت کی پیداوار میں سے اور ہابیل نے اپنے گلہ کے نوزائیدہ بچوں میں سے خدا کی نذر دی تھی۔ اس کے بعد قابیل کی کھیتی میں پیداوار اچھی نہیں ہوئی ہوگی جیسا کہ اکثر ہوجاتا ہے، اور ہابیل کی بکریوں اور بھیڑوں میں جن کے چرنے کے لیے جنگل اور گھاس اور غیر مزروعہ زمین بافراط موجود تھی بہت زیادہ برکت اور بڑھوتری ہوئی ہوگی جس کے سبب سے ایک کی نذرکا قبول ہونا اور دوسرے کی نذر کا قبول نہ ہونا تصور کیا گیا۔ جیسا کہ ان لوگوں کا خیال تھا اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا کہ ” فتقبل من احد ھما ولم یتقبل من الاخر “ یہی امر ہے جو اس قصہ پر تازیخانہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے۔
توریت میں بھی بجز اس کے کہ ہابیل کی نذر قبول ہوئی اور قاین کی نذر قبول نہیں ہوئی اور کچھ زیادہ تصریح نہیں ہے اس میں لکھا ہے کہ ” بعداز مرو ورایا ہے ایں واقع شد کہ قاین از محصول زمین بخداہ ند ہدیہ آروے اور دوہابیل نیز از اول زادہائے گو سفندان خودہ ازییہ آنہا آوردو خداوند ہابیل وہم ہدیہ اور اقبول نمود ماقاین رادہم ہدیہ اور اقبول ننمود (کتاب پیدائش باب درس۔ ) ۔ مگر عیسائی و یہودی عالموں نے اس واقعہ کو عجیب و کراماتی واقعہ بنانے کے لیے کوشش کی اور یہ قرار دیا کہ ہابیل کی نذر اس طرح پر قبول ہوئی تھی کہ آسمان سے آگ اتری اور ہابیل کی قربانی کو جلا دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ابراہیم نے قربانی کی تھی تو آفتاب کے غروب ہونے کے بعد جب اندھیرا ہوا تو قربانی کے جانوروں کے ٹکڑوں میں تنور دو وکنندہ اور آتشی مشعل آئی تھی (پیدائش باب درس )
اور جب حضرت موسیٰ نے قربانی کی تو خداوند کی حضور سے آگ نکلی اور قربانی سو ختنی کو جو مذبح پر رکھی ہوئی تھی جلا دیا (لویان بابدرس ) ان کے نزدیک یہ آگ آدمیوں کی جلائی ہوئی نہ تھی بلکہ خدا نے جلائی تھی۔
اور جب گدعون نے قربانی کی تھی اور اس کو پتھر پر رکھ دیا تھا تو فرشتہ نے پتھر پر لکڑی ماری اور اس میں سے آگ نکلی جس نے قربانی کو جلا دیا (قضات بابدرس ) ان کے نزدیک یہ آگ بھی پتھر میں سے نہیں نکلی بلکہ خدا کے پاس سے یا آسمان سر سے آئی تھی۔
اور جب ایلیاہ نے قربانی کی تھی تو بہت سی لکڑیاں چن کر قربانی کے گوشت کو لکڑیوں پر رکھ دیا تھا اور لکڑیوں پر بہت سا پانی ڈال کر ایک خندق میں بہادیا تھا مگر جب ایلیاہ نے دعا کی کہ میری قربانی قبول ہو تو اس وقت خدا نے آگ لکڑیوں میں ڈال دی تھی (اول سلاطین باب درس -) ان کے نزدیک یہ آگ بھی خدا ہی نے آسمان پر سے ڈالی تھی کسی انسان نے نہیں جلائی تھی۔
اور جب حضرت داؤد (علیہ السلام) نے قربانی کی اور خدا سے دعا مانگی تو آسمان پر سے آگ اتری اور قربانی کو جلا دیا (کتاب اول تواریخ باب درس )
اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے قربانی کی تھی تب بھی آسمان پر سے آگ اتری تھی (کتاب دوم تواریخ بابدرس )
ان قرینوں سے علمائے یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ جب کہ تمام قربانیاں آسمان کی آگ سے قبول ہوتی تھیں تو غالب ہے کہ ہابیل کی قربانی بھی اسی طرح قبول ہوئی ہوگی کہ آسمان سے آگ اتری ہوگی اور اس کو جلادیا ہوگا۔ ہمارے علمائے مفسرین جو ان باتوں میں ٹھیک ٹھیک علمائے یہود کے مقلد ہیں انھوں نے یہودیوں سے بھی ایک قدم آگے بڑھایا، یہودیوں نے تو بطور ظن غالب اس بات کو لکھا تھا، مگر ہمارے علما نے بطور یقین اپنی تفسیروں میں لکھ دیا کہ آسمان سے آگ اتری اور ہابیل کی نذر کو جلا دیا جیسے کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” فنزلت نار من السماء فاحتملت قربان ھابیل ولم تحمل قربان قابیل “
توریت کی آیتوں سے جو آسمان پر سے آگ اترنے پر یہودیوں اور عیسائیوں نے غلط استدلال کیا ہے اس پر بحث کرنا ہم اس مقام پر ضرور نہیں سمجھتے بلکہ اس مقام پر ان کے تمام اقوال و استدلال ہم نے اس بات کے دکھانے کو نقل کئے ہیں کہ قربانی یا نذر کے جلانے کو آسمان پر سے آگ کا اترنا اسلام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ علمائے اسلام نے یہودی اور عیسائی علما کی پیروی سے اس کو مانا ہے اور مفسرین نے قرآن کی تفسیروں میں شامل کردیا ہے اسلام ایسی بیہودہ باتوں سے پاک ومبرا ہے۔ یہودیوں میں قربانی سو ختنی کی رسم ایسی ہی تھی جیسے کہ ہندوؤں میں ہوم کی رسم ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہ تھی آسمان پر سے آگ کا اترنا اور قربانی کو جلانا محض غلط ہے اور نہ توراۃ سے اور نہ ان درسوں سے جو اوپر مذکور ہوئے آسمان پر سے قربانی کے جلانے کو آگ کا اترنا ثابت ہوتا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 32

مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚۛؔ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ ﴿۳۲﴾

تفسیر سرسید :

( من اجل ذلک) اس آیت میں بحث یہ ہے کہ ” کتبنا “ کا مفعول کیا ہے اکثر مفسرین نے ” انہ من قتل “ کو اس کا مفعول قرار دیا ہے مگر میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ان مفسرین نے کتبنا کو بمعنی حکمنا لیا ہے اور جس جملہ کو بذریعہ لفظ ” انہ “ کے اس کا مفعول قرار دیا ہے اس میں کوئی حکم مندرج نہیں ہے بلکہ وہ صرف بطور بیان کے یا بطور خبر کے ہے پس میرے نزدیک ” کتبنا “ کا مفعول محذوف ہے جو قرینہ مقام سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ لفظ قصاص ہے اور ” انہ “ بحذف لام علت قصاص کے حکم کی علت کو بیان کرتا ہے اور ایسے مقام پر لام علت کا حذف کرنا کثرت سے کلام عرب میں جاری ہے پس تقدیر آیت کی یوں ہے کہ کتبنا علیٰ بنی اسرائیل القصاص لانہ من قتل نفسا بغیر نفس الخ۔
قصاص کا حکم توراۃ میں متعدد جگہ موجود ہے۔ سفراعداد باب درس میں لکھا ہے کہ ” وازیراے جان قاتلے کہ واجب القتل است دیت گوفتہ نشود البتہ کشتۃ شوو “ اور سفر لویان باب درس میں ہے کہ ” وک سے کہ نف سے از نفوس بنی آدم را گمشدالبتہ کشتۃ شود “ اور اسی باب کے درس میں ہے کہ ” کشندہ مردکشتہ شود “ اور سفر خروج باب درس میں لکھا ہے کہ ” کسے کہ مردے راچنداں یزندتا بمیروالبت باید کشتہ شود “ اور نرباں زد ہر خاص و عام ہیں۔ چشم بعوض چشم دنداں بعوض دنداں دست بعوض دست پابعوض پا سوختن بعوض سو ختن زخم بعوض زخم مطمہ بعوض لطمہ (خروج باب درس - ) جان بعوض جان وچشم بعوض چشم و دنداں بعوض دنداں دست بعوض دست و پابعوض پا دادہ شود “ (سقریویۃ مستثنیٰ باب درس ) قرآن مجید میں اس آیت سے پہلے قابیل و ہابیل کا تفسیر بیان ہوا ہے کہ ایک نے دوسرے کو مار ڈالا اس قصہ کے بیان کرنے سے مقصد یہ تھا کہ قتل و خونریزی انسان میں قدیم سے چلی آتی ہے اور اسی لیے ہم نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ جو شخص ناواجب کسی کا قتل کرے اس سے قصاص لیا جاوے پس الفاظ من اجل ذلک کے معنی جو اس آیت میں آتے ہیں نہایت صاف ہیں ہمارے مفسرین نے بےفائدہ ان الفاظ کی نسبت کج بحثی کی ہے۔
اس کے بعد خدا تعالیٰ نے قصاص کا فائدہ بیان کیا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ جس کسی نے کسی کو بغیر جان کے بدلے کے یا ملک میں فساد مچانے کے مار ڈالا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا یعنی ان کا قتل کردینا جائز قرار دے دیا، اور جس نے جان کو زندہ رکھا یعنی قصاص کا حکم تعمیل کرنے سے قیمتی جانوں کو بچایا تو اس نے تمام انسانوں کو زندہ کیا کیونکہ قصاص کے حکم سے زندہ بےگناہوں کی جان جانے سے محفوظ ہوگئی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 33

اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾

تفسیر سرسید :

(انما جزاؤ الذین) اس آیت میں ان لوگوں کے احکام بیان کیے ہیں جن کا قتل کرنا یا ان کی اور کسی قسم کی سزا دینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
” یحاریون اللہ ورسولہ “ سے صاف مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو فطرت انسانی میں تمدن پیدا کیا ہے اور رسول نے بھی اسی کے مطابق انسانوں کے لیے احکام تمدن صادر فرمائے ہیں ان کے برخلاف کام کرنے کو خدا اور رسول سے جنگ کرنا فرمایا ہے۔
” یسعون فی الارض فسادا “ میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو امن اور راحت اور تمدن میں خلل ڈالتے ہیں جیسے ڈاکہ ڈالنے والے یا رستہ لوٹنے والے یا گھروں میں گھس کر یا کو مل دے کر چوری کرنے والے اور ان کے لیے اس آیت میں یہ سزائیں بیان فرمائی ہیں۔ یا قتل ۔ یاسولی پر لٹکا دینا۔ یا ان کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ ڈالنا۔ یا قید خانہ میں بند کر رکھنا۔ مگر پہلی تین سزائیں صرف چوری کرنے والوں سے متعلق نہ تھیں اس لیے اگلی آیت میں فرمایا کہ چور کو جب سزاے بدنی دیجاوے تو وہ صرف اس کا ہاتھ کاٹنا ہوگی۔ پس چور کے لیے صرف دو سزائیں باقی رہیں یا ہاتھ کاٹنا یا قید خانہ میں بند کر رکھنا۔
یہ سزائیں مختلف درجے کی ہیں اور ہر ایک سزا کر یا یہ یا یہ کرکے بیان کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلحاظ حیثیت و مقدار جرم کے وہ سزائیں مقرر کی گئی ہیں مثلاً ایسے شخص کے لیے جو فساد کرنے میں قتل کا بھی مرتکب ہوا ہو اس کو قتل کی سزا دیجاویگی۔ اور جب کہ وہ قاتل بھی ہو اور ڈاکہ زنی میں مشہور ہو جس کا خوف ملکوں میں پڑ رہا ہو اس کو سولی پر لٹکا دینے کی سزا دی جائے گی تاکہ بہت سے لوگ دیکھ لیں اور واقف ہوجاویں کہ وہ بدذات مارا گیا۔ اور جب کہ وہ ایسے ہوں کہ رستہ لوٹتے ہوں اور دور دور جا کر ڈاکہ مارتے ہوں مگر انھوں نے کوئی خون نہ کیا ہو یا خون کرنا ان پر ثابت نہ ہو تو ان کو ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کی یا صرف ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جائے گی یا ان کو قید خانہ میں بند کر کھا جاویگا۔
” اوینفوا من الارض “ نقی بلد یا نفی من الارض کے معنی شہر سے یا ملک سے غائب کردینے کے ہیں اور اس سے کسی خاص شہر یا کسی خاص ملک سے خارج کردینا بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر اس مقام پر یہ پچھلے معنی صحیح نہیں ہوسکتے کیونکہ ڈاکوؤں و تطاع الطریقوں اور چوروں کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں نکال دینے سے انسان ان کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس لیے اس مقام پر ” ینفوا “ سے وہی پہلے معنی مراد ہوسکتے ہیں جن کو ہم نے الفاظ ” غائب کردینے “ سے تعبیر کیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ صرف قید کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ پس قرآن میجد کے ان الفاظ کا ” اوینفوا من الارض “ یہ مطلب ہوا کہ ” او جعسوھم “ یعنی یا ” ان کو قید کردو “۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے کہ ” النقی من الارض ھوالحبس “ اور تفسیہ کبیر میں لکھا ہے ” وھو اختیار اکثر اھل اللتعتہ “ اسی لیے ہم نے ” ینفوامن الارض “ کے معنی قید خانہ میں بند کرنے کے لیے ہیں۔
ان آیتوں میں جو ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا حکم ہے اور نیز اس آیت میں جس میں چور کا صرف ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے وہ لازمی نہیں ہے اور جن لوگوں نے اس کو لازمی سمجھا ہے انھوں نے استنباط مسائل میں غلطی کی ہے۔ اول تو خودآیت ہی میں موجود ہے یا ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالو یا قید خانہ میں بند کر رکھو پس اختیار ہے کہ دونوں سزاؤں میں سے جونسی سزا چاہو دو۔ دوسرے جب کہ تمام فقہانے ایک مقدار مال مقرر کی ہے کہ جب اس قدر بالیت کا مال چوریا جاوے تب ہاتھ کاٹا جاوے۔
اس سے لازم آتا ہے کہ انھوں نے چوری کی سزا میں ہاتھ کا کاٹا جانا لازمی قرار نہیں دیا کیونکہ قرآن مجید میں کوئی مقدار مال کی ہاتھ کاٹنے کے لیے بیان نہیں ہوئی ہے۔ تیسرے یہ کہ ایسے واقعے بھی پائے جاتے ہیں کہ صحابہ کے وقت میں بھی ہاتھ نہیں کاٹا گیا اور صرف قید کیا گیا بلکہ اکثر ڈاکو سمجھتے تھے کہ اگر پکڑے جاوینگے تو قید کئے جاوینگے اور ہاتھ و پاؤں کاٹے جانے کا کسی کو خیال نہ تھا۔
حماسہ کی شرح میں لکھا ہے کہ ” حریث بن عناب بن مضر ایک غلام کے چوراکر بیچ ڈالنے کے جرم میں مدینہ کے قید خانہ میں قید کیا گیا تھا۔
ابو النشناس بنی تمیم کے قبیلہ کا ایک مشہور چور تھا اور رہزنی کیا کرتا تھا مروان کے عاملوں نے اسے پکڑا اور قید خانہ میں قید کیا گیا۔
عبدالرحمن ابن حاطب سے منقول ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کا ناقہ چرایا حضرت عمر (رض) نے اول ہاتھ کاٹنے کی تجویز کی مگر، اس کو ملتوی کیا اور مدعی سے پوچھا کہ وہ کس قیمت کا تھا اس نے چار سو درھم قیمت بتلائی حضرت عمر (رض) نے اس پر آٹھ سو درھم کا جرمانہ کیا اور وہ درھم مدعی کو دلوا دیئے اور مجرم کو رہا کردیا۔
حضرت علی مرتضیٰ کے وقت میں عمر بن کریب ایک مشہور چور تھا جو رہزنی کیا کرتا تھا اس کے گرفتار کرنے کو حضرت علی (رض) نے شمیط کے بیٹوں کو بھیجا مگر وہ بھاگ گیا اور گرفتار نہ ہوا تب عمر بن کریب نے یہ اشعار کہے :۔
ولماان رایت اینی شمیط
بسکۃ لحی والباب دونی
تجللت العصار وعلمت انی
رھین نحتیس ان ادر کونی
ولوانی لبثت بھم قلیلا
لجروانی الی شیخ بطین
شدید مجامع الکتغین باق
علی الحدثان مختلف الشوؤن
ان اشعار سے صاف پایا جاتا ہے کہ عمر بن کر یپ کا یہ خیال تھا کہ اگر وہ پکڑا گیا تو قید خانہ میں جس کا نام مخیس تھا قید کیا جاویگا۔
مخیس ایک قید خانہ کا نام تھا جس کو حضرت علی (رض) نے بنایا تھا پہلی دفعہ انھوں نے بانسوں کا قید خانہ بنایا تھا اور نافع اس کا نام رکھا تھا اس میں سے چور کو مل لگا کر نکل گئے تب انھوں نے دوسرا مضبوط قید خانہ بنایا اور مخیس اس کا نام رکھا اور یہ شعر کہے
اما ترانی کیسا مکیسا
بنیت بعد نافع مخیھا
بابا حصینا وامینا کیا
ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اس سے اس بات کی ضرور تسلیم لازم آتی ہے کہ قرآن مجید نے سرقہ کی علت میں عضوانسانی کا کاٹنا بھی جائز رکھا ہے جو نہایت سخت اور وحشیانہ اور بےرحمانہ خلاف انسانیت سزا ہے اور خدا کی شان سے ایسی سزا کا جائز رکھنا نہایت بعید ہے بعضوں کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی یہ سزا دی جاتی تھی جیسا کہ تاریخ ابوالغدا میں لکھا ہے مگر زمانہ جاہلیت میں اس کا رواج ہونا زمانہ اسلام میں بھی اس کے جائز رکھنے کی نہ دلیل ہوسکتا ہے اور نہ اسلام اس وحشیانہ سزا کے جائز رکھنے کے الزام سے بری ہوسکتا ہے۔
مگر یہ اعتراض صحیح نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید میں جس طرح کہ مختلف سزاؤں کا بیان ہوا ہے اور جس طرح کہ وہ مختلف حیثیت اور مقدار جرم سے علاقہ رکھتی ہیں اسی طرح زمانہ کی حالت سے بھی ان کا تعلق رکھنا ان کے احکام کے ضمن میں پایا جاتا ہے جس زمانہ میں کہ ملک کی یا قوم کی ایسی حالت ہو کہ قید خانوں کا انتظام ناممکن ہو اور نہ ایسے جزائر پر دست رس ہو جہاں مجرم جلا وطن کرکے قید کیے جاسکیں تو ان جرموں کے موقوف کرنے کے لیے اور تمام خلق اللہ کو امن دینے کے لیے بالاضطراء سزائے بدنی کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے گو کہ وہ ایک وحشیانہ سزا ہو مگر بامجبوری اختیار کی جاتی ہے۔ نہایت شایسۃ ملکوں میں بھی بحالت مجبوری سزائے بدنی دی جاتی ہے یبد کی سزا بھی ایسی ہی وحشیانہ سزا ہے مگر قید خانے اس قدر کثیر مجرموں کے قید کرنے کو کافی نہیں ہوتے قوم مجبوری سزائے بدنی دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے پس قرآن مجید نے اور نیز حضرت موسیٰ نے مجبوری کی حالت میں اس سزا سے بدنی کو جائز رکھا ہے مگر جب کہ ملک میں تسلط ہو اور قید خانوں کا انتظام موجود ہو تو قرآن مجید کی رو سے اس سزائے بدنی کا دنیا کسی طرح جائز نہیں ہے بلکہ صرف وہی سزا دی جاویگی جو سب سے اخیر بیان ہوئی ہے اور جس کو بلفظ ” اوینفوا من الارض “ بیان کیا ہے اور اس کے بعد کسی اور سزا کا بیان نہیں ہے۔ صرف ایک جرم میں یعنی زنا میں سزا سے بدنی کا دیا جانافطرت انسانی کے مطابق ہے کیونکہ جیسا وہ جرم لذت نفسانی سے علاقہ رکھتا ہے ویسی ہی اس کی سزا بھی تکلیف نفسانی سے ہونی چاہیے پس اسلام نے بھی سوائے حالت مجبوری کے بجز زنا کے اور کسی جرم میں سزائے بدنی کو جائز نہیں رکھا ہے۔ اب باقی رہا معاف کرنا اس کی نسبت نہایت عمدہ لفظ قبل، ان تقدروعلیھم “ قرآن مجید میں آیا ہے ایک ڈاکو درحقیقت ڈاکہ زنی کرتا ہے یا ایک چور جو درحقیقت چوری کا پیشہرکھتا ہے اور اس کے ڈاکو یا چور ہونے میں کسی کو شبہ نہیں مگر بسبب نہ دستیاب ہونے ثبوت کے ہم اس کے سزا دینے پر قادر نہیں ہیں پس اگر قبل ہماری قدرت سزا دینے کے وہ ڈاکو اور چور اپنے پیشہ کو چھوڑدے اور صلاحیت قبول کرے اور نیک چلن ہوجاوئے تو اس کے گزشتہ افعال سے درگزر کرنا ایسا امر ہے جس کی مخالفت نہ انصاف کرسکتا ہے اور نہ کوئی قانون، یہی عمدہ احکام ہیں جو قرآن مجید میں اس کی نسبت بیان ہوئے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 38

وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۳۸﴾

تفسیر سرسید :

(والسارق والسارقۃ) سیبویہ کا قول ہے کہ ” والسارق والسارقۃ “ بتدا ہے اور اس کی خیر محذوف ” حکمھما فیما یتلی “ ہے اور ” فاتطعوا ایدیھما “ جداگانہ جملہ ہے۔
سارق کے احکام کو جدا بیان کرنے کی یہی وجہ تھی کہ اس سے پہلی آیت میں جو الفاظ ” یسعون فی الارض فسادا “ آئے تھے اس سارق بھی شامل تھے مگر جو احکام سزائے بدنی کے وہاں بیان ہوئے تھے وہ سرقہ محض سے متعلق نہ تھے اس لیے اس کی نسبت علیحدہ حکم بیان کرنے کی ضرورت ہوئی پس جب ان دونوں آیتوں پر یک شامل غور کی جاوے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ سرقہ محض میں یا سارق کا ہاتھ کاٹا جاویگا جب کہ ملک و قوم کی حالت ایسی ہو کہ قید خانوں کا انتظام نہ ہو یا قید خانہ میں قید کیا جو یگا جب کہ وہ موجود ہوں۔ ایک یہ بحث پیش آئی ہے کہ مکرر سرقہ کرنے کی حالت میں دوسرے ہاتھ کا بھی کاٹا جانا جائز ہے یا نہیں اس پر متقدمین کو بھی شبہ رہا ہے اور بعض دفعہ اس پر عمل ہوا مگر میں نہایت طمانیت سے کہہ سکتا ہوں کہ مکرر سرقہ کرنے کی حالت میں قرآن مجید میں دوسرے ہاتھ یا پاؤں کے کاٹے جانے کا ہرگز حکم نہیں ہے جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے ان سے اجتہاد میں خطا ہوئی ہے کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ اگر یہ جائز ہو تو تیسرے یا پانچویں جرم سرقہ میں کیا کیا جاویگا۔
ڈاکوؤں اور رہزنوں کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں اور چور کا ایک ہاتھ کاٹ ڈالنا ان کو ان جرائم کے ارتکاب سے ایک مناسب حد تک معذور کردینا ہے۔ اور اس سے زیادہ خدا کی حکمت کو باطل کرنا اور ان کو انسان سے ایک مضغہ بنادینا ہے جو فطرت اللہ کے برخلاف (فان جاؤ ک) عرب میں جس قدر لوگ بستے تھے وہ اپنے اپنے گروہ کے سردار کے بطور رعیت محکوم تھے وہی سردار ان پر حاکم ہوتا تھا اور تمام خصومات اور جنایات کا وہی فیصلہ کرتا تھا اور وہی سزا کا حکم دیتا تھا یہودی توراۃ کے سخت احکام سے بچنے کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس فیصلہ کو آتے تھے۔ خدا نے فرمایا کہ تجھ کو اختیار ہے چاہے ان کا فیصلہ کر چاہے نہ کر کیونکہ وہ اس گروہ میں نہ تھے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع تھے اور فرمایا کہ اگر فیصلہ کرے تو جو انصاف ہو وہ کردے۔ اور پھر یہودیوں کی بدنیتی پر متنبہ کیا کہ باوجود اس کے کہ توراۃ میں سب حکم موجود ہیں، پھر تجھ کو کیوں حکم بدتے ہیں اس سے ان کی بدنیتی اور توراۃ کے احکام سے بچنے کی تدبیر پائی جاتی ہے۔
” بالقسط “ کے لفظ پر جس کے معنی انصاف کے ہیں بحث ہوسکتی ہے کہ انصاف سے کیا مراد ہے اس لفظ سے شریعت اسلام مراد لینا صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر یہ ہوتا تو جس طرح اگلی آیتوں میں صاف بتایا گیا ہے کہ جو کچھ خدا نے تجھ پر اتارا ہے اس کے مطابق حکم کر اسی طرح یہاں بھی بیان کیا جاتا اس سے صاف ظاہر ہے کہ قسط کے لفظ سے شریعت اسلامی مخصوص نہیں ہے۔
ایک شخص جو اپنے تئیں کسی خاص گروہ کا بیان کرتا ہے، اور ہمیشہ ان فائدوں سے جو اس گروہ میں ہونے کے سبب اس کو حاصل ہوسکتے تھے مستفید ہوتا رہا ہے اور کسی خاص معاملہ میں جس میں اس کا نقصان ہے دوسرے گروہ کے حاکم سے فیصلہ چاہے جن کی شریعت یا دستور کے مطابق وہ اس نقصان سے بچ سکتا ہے تو اس کے حق میں بھی انصاف ہوگا کہ دوسرے گروہ کا حاکم اس کو وہی حکم دے جو اس گروہ میں مروج ہیں جس گروہ سے وہ شخص علاقہ رکھتا ہے۔
بعض احادیث سے پایا جاتا ہے کہ یہودیوں نے زنا کے جرم میں رجم سے بچنے کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ چاہا تھا کیونکہ قرآن مجید میں رجم کی سزا زنا کے جرم میں نہ تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو سزا توراۃ میں تھی اسی کے جاری کرنے کا حکم دیا اور بلاشبہ وہی اس کے حق میں انصاف تھا۔
اس آیت سے استنباط ہوسکتا ہے کہ حکومت اسلام میں جو غیر مذہب والے بطور رعایا کے رہتے ہوں، ان کی خصومات کا انھیں کے دستور و رواج یا قواعد مذہب کے مطابق جو عام امن و راحت ملک میں مخل نہ ہوں فیصلہ کرنا اسلام کی رو سے ناجائز نہیں ہے۔ بعض علمائے اسلام نے خیال کیا ہے کہ یہ آیت اگلی آیتوں سے جن میں یہ الفاظ ہیں کہ ” فاحکم بینھم بما انزل اللہ “ اور ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “ منسوخ ہوگئی ہے اور اس لیے سلطان کو تمام رعایا پر خواہ مسلمان ہو یا نہ ہو شرع اسلام کے موافق حکم کرنا چاہیے مگر یہ خیال ان کا میری تحقیق میں غلط ہے کیونکہ قرآن مجید کی نہ کوئی آیت منسوخ ہے اور نہ ان آیتوں سے اس سے کچھ تعلق ہے جیسا کہ ان کی تفسیر میں بیان ہوگا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 45

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ وَ الۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَ الۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ فَمَنۡ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۵﴾

تفسیر سرسید :

١ ؎ ۔ دیکھو کتاب خروج باب درس - کتاب توراۃ مثنی باب درس ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 48

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ عَمَّا جَآءَکَ مِنَ الۡحَقِّ ؕ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰىکُمۡ فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿ۙ۴۸﴾

تفسیر سرسید :

(وانزلنا الیک الکتاب) اس آیت سے پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ اول ان لوگوں کا جو منہ سے اپنے تئیں مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہ تھے اور ان کی نسبت فرمایا تھا ” من الذین قالوا امنا بانواھھم ولم تن من تلولا “ دوسرے یہودیوں کو علانیہ اپنے تئیں یہودی کہتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس بھی احکام پوچھنے کے بہانہ سے جاسوسی کرنے کو آتے تھے اور ان کی نسبت فرمایا تھا ” من الذین ھادواسماعون للکذب سماعون لقوم اخرین “ تیسرے عیسائیوں کا جہاں فرمایا ہے ” وقفینا علیٰ اثارھم بعیسی ابن مریم “ اور پھر فرمایا ہے ” ولیحکم اھل الا خیل بما انزل لیہ فیہ “۔
اب بحث اس پر ہے کہ اس آیت ” وانزلنا الیک الکتاب “ میں جو یہ الفاظ ہیں کہ ” فاحکم بینھم “ اور اس کے بعد کی آیت میں ہے ” وان احکم بینھم “ تو ” ھم “ کی ضمیر کن لوگوں کی طرف راحج ہے یعنی ” ھم “ سے کون لوگ مراد ہیں۔ اگر اس سے منافق مراد لیے جاویں جن کا بیان سب سے اول ہے تو کیا وجہ ہے کہ سچے ایمان والے اس حکم میں کہ قرآن کے بموجب ان پر حکم کیا جاوے شامل نہ ہوں اور اگر یہودی مراد لیے جاویں تو کیا وجہ ہے کہ عیسائی اس میں داخل نہ ہوں اور اگر عیسائی مراد لے جاویں جن کا ذکر ” اھل الا بخیل “ کے لفظ سے اس آیت کے بہت قریب آیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہودی اس میں شامل نہ ہوں۔ اگر یہ تصور کیا جاوے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے بیان سے جو اس آیت کے اوپر ہو اور توراۃ و انجیل کے ذکر کرنے سے ایک مفہوم اہل کتاب کا مستنبط ہوتا ہے اور یہ ضمیر ” ھم “ کی اہل کتاب کی طرف راجع ہوتی ہے تو اس میں بھی کئی وقتیں ہیں۔ اول یہ کہ یہ آیت مخالف ہوتی ہے اس آیت کی جس میں یہودیوں کی مخاصمت کے فیصلہ کرنے یا نہ کرنے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ یہودی و عیسائی بعد نزول قرآن مجید مکلف بالایمان تھے نہ مکلف جزئیات احکام کے تیسرے یہ کہ ان آیتوں کے اخیر میں خدا نے فرمایا ہے ” افحکم الجاھلیۃ یبغون “ اور یہودی اور عیسائی شریعت پر جو ماقبل نزل قرآن تھے حکم الجاھلیہ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
سیاق کلام اس طرح پر ہے کہ خدا نے فرمایا کہ جن لوگوں کو توراۃ دی گئی تھی ان کو کہا گیا تھا کہ اس کے مطابق حکم کریں اور رہن کو انجیل دی گئی تھی ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس کے مطابق چلیں اب تجھ کو اے پیغمبر یہ کتاب یعنی قرآن دیا گیا ہے اور جن کو یہ کتاب دی گئی ان میں اس کے مطابق حکم کرنا لازم ہے پس سیاق وسباق عبادت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں ” ھم “ کی ضمیر اھل ھذا الکتاب یعنی مسلمانوں کی طرف راجع ہے خواہ انھوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ہو خواہ ظاہر میں مسلمان کہتے ہوں اور دل سے مسلمان نہ ہوں۔
جو لوگ کہ سچے دل سے مسلمان تھے ان کی نسبت تو کچھ زیادہ کہنے کی حاجت نہ تھی مگر جو لوگ صرف ظاہر میں اسلام لائے تھے اور مسلمانوں میں داخل تھے مگر ان کا دل اسلام پر مضبوط نہ تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی خواہشوں کو ظاہر کرتے تھے اور اسی مطابق حکم ہوجانے کی تدبیریں سوچتے تھے ان کی نسبت کچھ زیادہ کہنا مناسب تھا اور وہ دو فرقے تھے ایک نو مسلم اہل کتاب اور دوسرے نو مسلم کفار عرب۔ اہل کتاب کو بڑا خیال تھا کہ توراۃ و انجیل میں خدا کے احکام آچکے اب یہ کیسے احکام آتے ہیں جن میں سے کچھ ان احکام کے مطابق اور کچھ غیر مطابق ہیں۔ ان کی نسبت خدا نے پیغمبر سے فرمایا کہ تو ان کی خواہشوں پر خیال مت کر اور قرآن کے مطابق ان میں حکم کر ہم نے ہر نبی کے لیے (گو کہ سب کا دین واحد ہے) ایک شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے کفار عرب جو اسلام ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت فرمایا کہ ان میں بھی قرآن کے مطابق حکم دے اور ان کی خواہشوں کی پروا مت کر بلکہ ان سے ڈر کر تجھ کو وقت میں نہ ڈال دیں کیا وہ پھر جاہلیت کے زمانہ کے سے حکم چاہتے ہیں۔ ان آیتوں پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہی لوگوں کی نسبت قرآن کے احکام کے مطابق حکم کرنے کا حکم دیا ہے جو اسلام میں داخل ہوئے ہوں نہ غیر اہل اسلام کی نسبت۔ یہ ایک محقق مسئلہ ہے کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے وہ جب تک کہ مسلمان نہ ہوں جزئیات احکام شرع کے مکلف نہیں ہیں بلکہ صرف اسلام لانے پر مکلف ہیں اور اسلام لانے کے بعد جزئیات احکام شرع کے مکلف ہوتے ہیں اور اس لیے قبل اسلام ان پر احکام شرع جاری نہیں ہوسکتے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
لایحب اللہ : سورۃ المآئدہ : آیت 82

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنۡہُمۡ قِسِّیۡسِیۡنَ وَ رُہۡبَانًا وَّ اَنَّہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۸۲﴾

تفسیر سرسید :

١ ؎ نصرنصروعلیٰ عدوہ نصر ا اعانہ الیہ والا سم النصرۃ والمنعمیر المعیر، مثل الناصر وجمعہ انصار و کشریف واشراف والنصاری جمع نصران ونصراننہ کالندمی جمع ندمان وئد مالتد (جواھر القرآن) ۔
 
Top