• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر 8 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الانعام : آیت 124

وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕۘؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾

تفسیر سرسید :

(مثل ماوتی رسل اللہ) کافروں کے اس قول پر کہ ” ہم ہرگز ایمان نہیں لانے کے جب تک ہم کو اس کے مثل نہ دیا جائے جیسا کہ اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے “ حسن اور ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے کافروں کی یہ مراد تھی کہ جب تک ہم کو ویسے ہی معجزے نہ دکھلائے جاویں جیسے کہ انبیائے سابقین نے دکھائے تھے اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے مگر امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ یہ قول ضعیف ہے قول قوی وہو ہے جو محققین نے کہا ہے ، یعنی کافر چاہتے تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خدا کی طرف سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جب تک ہمارے پاس بھی خدا کی طرف کوئی پیغام نہ آوے ہم ہرگز ایمان نہیں لانے کے اس کے جواب میں خدا نے فرمایا ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ یعنی خدا کی طرف سے پیغام آنا تو نبوت ہے ہر کسی کو نبوت نہیں مل سکتی بلکہ خدا خوب جانتا ہے کہ کس کو نبوت دے۔
(حیث یجعل رسالتہ) یہ بھی ایک دقیق مسئلہ ہے ہم نے جا بجا بیان کیا ہے کہ نبوت بطور ایک ایسے منصب کے نہیں ہے جیسے کہ کوئی بادشاہ کسی کو کوئی منصب دے دیتا ہے بلکہ نبوت ایک فطری امر ہے اور جس کی فطرت میں خدا نے ملکہ نبوت رکھا ہے وہی نبی ہوتا ہے اور اس بات کو ہم نہیں مانتے کہ سب انسان ایک سے ہوتے ہیں اور ان میں سے جس کو خدا چاہتا ہے نبی اور پیغمبر کردیتا ہے۔ یہ تحقیق کچھ ہماری پیدا کی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس باب میں قدیم سے علما کی دورائیں ہیں بعض علما کی یہ رائے ہے کہواعلم ان الناس اختلفوا فی ھذہ للسئۃ فقال بعضھم النفوس والا روح مقاویۃ فی تمام الماھیۃ فحصول النبوۃ قوالو سالۃ لبعضھا دون البعض تشریف من اللہ ولحان و تفضل ۔ وقال الاخرون بل النفوس البشریۃ مختلفۃ مجراھریا وما ھیا تھا فبعضھا خیرۃ ظاھرۃ من علایق الجسمانیات مشرقۃ بالا نور الحیۃ مستعلیۃ منورۃ و بعضھا خیۃ کدرۃ محبۃ للجسمانیات فالنفس مالم تکن من الیتم الاول لم تصلح لقبولا الوحی والرسالۃ ثم ان القسم الا وزیتع الاختلاف فیہ بالزیاواو متقصان ولمۃ والضعف الی مراتب لا نہایۃ لھا
سب انسان برابر ہیں ان میں سے اللہ جس کو چاہتا ہے درجہ نبوت دے دیتا ہے۔ اور بعض علما کی یہ رائے ہے کہ نبی ازروئے فطرت و خلقت کے نبی ہوتا ہے چنانچہ اسی آیت کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں یہ دونوں قول نقل کئے ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھی اس مقام پر ان دونوں قولوں کی نقل کردیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلہ میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے بعضوں نے کہا کہ نفوس اور اروح تمام ماہیت میں سب برابر ہیں پس نبوت اور رسالت کا ایک کو ملنا فلا جرم کانت مراتب الرسل مختلفۃ فئھم من حصلت لہ المعجزات القریۃ والتبع القلیل ومنھم من حصلت لہ معجزۃ واحدہ اوانثئتان وحصل لمرتبع عظیم ومنھم من کان مالرفق غالبا علیہ ومنھم من کان التشدید غالبا علیہ (تفسیر کبیر)
اور دوسرے کو نہ ملناخدا کی طرف سے شرف دینا اور احسان کرنا اور بزرگی دینا ہے۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ نقوش بشری اپنے جوہر اور اپنی ماہیت میں مختلف ہیں بعضے ان میں سے برگزیدہ اور علائق جسمانیات سے پاک اور انوار الٰہیہ سے روشن اور بلند درجہ پر منور ہوتے ہیں۔ اور بعضے ان میں سے خسیس اور گدلے جسمانیات سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں پس نفس جب تک کہ قسم اول سے نہ ہو وہ وحی، اور رسالت کے قبول کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر قسم اول میں زیادتی اور کمی اور قوت اور ضعف کے ان درجوں تک جن کی کچھ انتہا نہیں ہے اختلاف واقع ہوتا ہے اور اسی وجہ سے رسولوں کے درجے مختلف ہوتے ہیں پھر ان میں سے بعض ہیں جن کو معجزات قویہ حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہوتے ہیں جن کو ایک یا دو معجزے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے پیرو بہت سے ہوجاتے ہیں اور ان میں سے بعضوں پر نرمی غالب ہوتی ہے اور ان میں سے بعضوں پر تشدد غالب ہوتا ہے۔ گو اس تقریر میں ماہیت نفوس بشری میں تفرقہ کرنا شاید غلطی ہو خصوصا ان لوگوں کی رائے میں جو تمام نفوس حیوانی کی ماہیت کو متحد مانتے ہیں اور تفاوت مدارج کا اس کی صورت نوعیہ پر قرار دیتے ہیں جس سے وہ نقش متعلق ہے تاہم حاصل اس تقریر کا جو امام صاحب نے لکھی ہے یہی ہے کہ انبیاء میں ازروئے خلقت و پیدائش و فطرت کے ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس کے سبب سے وہ نبی ہوتے ہیں اس لیے خدا نے فرمایا کہ ” اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ غرضیکہ اس مطلب کو امام صاحب نے کسی تقریر سے بیان کیا ہو اور ہم نے کسی تقریر سے مطلب دونوں کا متحد ہوجاتا ہے اگر فرق رہتا ہے تو اس قدر رہتا ہے کہ ہمارے نزدیک جو ملکہ نبوت فطرت میں رکھا گیا ہے وہ اپنے وقت حسین پر اسی طرح ظہور کرتا ہے جس طرح درخت میں سے پھول پھل اپنے وقت میں اس کے قوی ہوجانے کے بعد پیدا ہوتے ہیں جو بعثت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور امام صاحب کی تقریر کے مطابق باوصف فطرت کے موجود ہونے کے وہ فطرت رسالت دیئے جانے کی محتاج رہتی ہے اسی سبب سے ہم تو کہتے ہیں کہ البنی نبی فی بطن امہ اور امام صاحب یوں کہینگے کہ بعض الانسان قابل للنبوۃ فی بطن امہ اما ان یوتی اولا۔ شاہ ولی اللہ صاحب بھی تفہیمات میں اسی رائے کے موید معلوم ہوتے ہیں انھوں نے صاف لکھ دیا ہے کہ رائے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے قرون اولیٰ کی نہیں ہے چنانچہ شاہ صاحب کا قول یہ ہے کہ : حقیقۃ النبوۃ ان یرید اللہ بعبادہ اصلا حا فیتدلی الیھم بوجودیشبہ الرجود العرضی قائم برجل زکی الفطرۃ تام الاخلاق نبتہ منہ اللطیفۃ الاسانیۃ لا یقال ذھب علماء اھل السنۃ الی ان النبوۃ محض فضل من اللہ تعالیٰ من غیر خصوصیتہ من العبد وانت ننبت لھم خصوصیۃ فی استعداد ھم لانا نقول ھذا قول نشاء بعد القرون المشھود لھا بالخیر فان مدلول الکتاب والسنۃ وما اجمع عطیہ الساف
نبوت کی یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اصلاح کا ارادہ کرے اور ان کی طرف ایک خاص توجہ اور عنایت مائل کرے (تدلی کے لغوی معنی ہیں ڈول کا کنوئیں میں لٹکانا) بسبب وجود کے جو قائم ہو ایک انسان کامل اور پاک طینت عمدہ خصلت میں جس کا لطیفہ انسانی بیدار اور خبردار ہو۔
ھوان الخصوصیۃ التی ترجع الی کثرہ المال وصباحۃ الوجد وغیر ذلک من حسنات التی یفتحز کیا العامۃ لادل لھا فی النوۃ وکان الکفار یقولون اما کان لنہ یجدر جلالی سالمۃ سوی یتیم ابی طالب لولا انزل القرآن علی رجل من القریتین عظیم فکشف اللہ تعالیٰ انشیبہ واشبع فی الردواما الصفات نباطنیۃ التی یتکم فیھا فلا شیہۃ ان الا بنیاء اتم الخلق یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ سب علمائے اسلامیہ کا یہ قول ہے کہ نبوت محض خدا کا فضل ہے بندہ کی خصوصیت کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے اور اس تمہاری تقریر سے ان کے لیے ایک خصوصیت استعداد کی مثبت ہوتی ہے اس لیے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ قول بہت پیچھے بعداتقضائے قرون مشہور لہا بالخیر کے پیدا ہوا ہے فیھا واقواھم اخلاقا وازکاھم نفسا من نکرذلک لا یستحق ان یتکلم، لعبد لاعن سیرا لا نبیاء راسا الا تری ان ھو قل کیف قال وکذلک الانبیاء تبعث فی نسب قومھ وبالجملۃ فللرسالۃ رکنان دکن قابلیۃ عن الرسول ورکن تدل و تدبیر مس نفرسل (تفھمات)
کہ کتاب اللہ اور حدیث اور اجماع سلف سے یہ ثابت ہے کہ خصوصیت کثرۃ مال اور خوبی چہرہ کو (اور ایسی ہی اور صفات جن کو عام لوگ موجب فخر جانتے ہیں) نبوت میں کچھ دخل نہیں ہے کفاریہ کہا کرتے تھے کہ خدا کو اس ابوطالب کے یتیم کے سوا کوئی آدمی رسالت کے لیے نہ ملا کیوں نہ اتارا گیا یہ قرآن ان دونوں شہروں کے کسی بڑے آدمی پر خدا تعالیٰ نے اس شبہ کو کھول دیا اور صاف طرح سے ان کے قول کو رد کردیا اور صفات باطنیہ جن میں ہم کلام کرتے ہیں وہ بلاشبہ انبیاء میں بہت زیادہ تھیں انبیاء سب خوبیوں کے پوری طرح سے جامع تھے ان کے اخلاق بہت اچھے تھے وہ نہایت پاک ذات تھے جو اس کا منکر ہے وہ کسی طرح اس لائق نہیں ہے کہ اس سے کلام کیا جاوے کہ وہ انبیاء کے خصائل اور خوبیوں سے بالکل دور ہے کیا نہیں معلوم ہے کہ ہرقل نے کہا تھا کہ انبیاء ایسے ہی ہوتے ہیں اپنی قوم کے عمدہ خاندان میں سے بھیجے جاتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ رسالت کے دو رکن ہیں ایک رکن استعداد اور قابلیت نبی کا اور دوسرا رکن توجہ اور عنایت اور تدبیر الٰہی کا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الانعام : آیت 130

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ ﴿۱۳۰﴾

تفسیر سرسید :

( یا معشرالجن والارض) اس آیت میں خدا تعالیٰ نے دو گروہوں کو یعنی جن وانس کو مخاطب کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے یعنی تمہاری جنس میں سے رسول نہیں آئے اس پر مفسرین نے بحث کی ہے کہ آیا جنوں کی گروہ میں سے ان کے لیے بھی پیغمبر رسول ہوئے تھے یا نہیں۔ ضحاک کا قول ہے کہ جس طرح انسانوں میں انسان پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں اسی طرح جنوں میں سے جن ان کے لیے پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں۔ اور اکثر علما کا قول ہے کہ پیغمبر صرف انسان ہی ہوئے ہیں جنوں میں کوئی پیغمبر نہیں ہوا جنوں کے لیے بھی وہی انسان پیغمبر پیغمبر ہوتا ہے۔
اس بیان سے ظاہر ہے کہ تمام علمائے اسلام نے جنوں کی جداگانہ ایسی ہی مخلوق قرار دی ہے جیسے کہ انسان کی مگر قرآن مجید سے جنوں کی ایسی مخلوق ہونے کا ثبوت نہیں۔
جن اور جس قدر الفاظ اس ہادہ سے بنے ہیں ان سب کے معنی پوشیدہ مسورعن الاغین چھپی ہوئے غیر مرنی کے ہیں۔ مشرکین عرب تمام ان واقعات کو جن کے وقوع کے اسباب ان کو معلوم نہ ہوتے تھے اور اکثر بیماریوں کو جن کا سبب وہ نہ جانتے تھے غیر معلوم یا غیر مرئی موخر کا اثر خیال کرتے تھے اور ان کو لفظ جن سے تعبیر کرتے تھے اب بھی تمام جاہل آدمی بیمار پر آسیب یعنی جن بھوت کا اثر خیال کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب پیدائش یعنی توراۃ میں جہاں تمام عالم کے پیدا ہونے کا ذکر ہے جنوں کی مخلوقات کے پیدا ہونے کا ذکر نہیں ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو ابتدائے زمانہ میں ایسی مخلوق کا کچھ خیال نہ تھا مگر مجوسیوں اور بت پرستوں میں تھا۔ جب کہ انھوں نے غیر مرئی موثر کو واقعات غیر معلوم السبب اور امراض غیر معلوم العلۃ کا فاعل سمجھا تھا تو یہ بات لازم تھی کہ وہ ان کے لیے کوئی صورت اور کسی قسم کا جسم تصور کریں اور ان کو ذیعقل اور قاعل مالارا وہ بھی سمجھیں اور ان کو انسانوں سے بہت زیادہ قوی اور قوی ہیکل لمبا تڑنگا خیال کریں اور ان سے ڈرتے رہیں اور ان کی رضامندی اور خوشنودی کے لیے ان کی پرستش کریں تاکہ ان کی خفگی کے بدنتیجوں سے محفوظ رہیں اور ان کی مہربانی سے فائدہ اٹھاویں۔
غالباً اس خیال کی ابتدا مجوسیوں سے ہوئی جو ابتدا ہی سے ارمن ویزوان کے قائل تھے انہی سے یہودیوں اور عرب کے بت پرستوں میں پھیلی۔ مشرکین عرب میں یہاں تک اس کا یقین ہوگیا تھا کہ وہ یقین کرتے تھے کہ ہر ایک جنگل میں جن رہتے ہیں اور جب وہ سفر میں جاتے تھے یا شکار کے لیے کسی جنگل میں اترتے تھے تو اس جنگل یا میدان کے جنوں کے سردار سے پناہ مانگتے تھے تمام عرب میں یہ خیال پیدا ہوا تھا، اور مسلمانوں میں بطور ارث کے چلا آتا تھا، اس لیے تمام مفسرین نے جہاں قرآن مجید میں لفظ جن یا جان یا اس کے مثل آیا اس کے معنی ویسی ہی بھوت کے سمجھے اور اسی کے مناسب تفسیریں لکھ دیں مگر اس بات پر غور نہیں کیا کہ قرآن مجید سے بھی ایسی صورت و شمائل مخلوق کے ہونے کا وجود پایا جاتا ہے یا نہیں۔
ہمارے پاس اس بات سے انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ سوائے موجودات مرئی اور محسوس کے کوئی اور ایسی مخلوق موجود نہ ہو جو مرئی نہ ہو مگر کلام اس میں ہے کہ جس طرح جنوں کی مخلوق کو مسلمانوں نے تسلیم کیا ہے ایسی مخلوق کا وجود قرآن مجید سے ثابت نہیں۔
علمائے اسلام جن کی تعریف میں بیان کرتے ہیں کہ ” جسم ناری حساس متحرک بالا دادۃ یتشکل باشکال مختلفۃ “ اسی بنا پر عام مسلمان خیال کرتے ہیں کہ وہ ایک ہوائی آگ کے شعلہ سے پیدا ہوئے ہیں ان میں مرد اور عورت دونوں ہیں وہ لڑکے اور لڑکیاں جنتے جناتے ہیں طرح طرح کی شکلوں میں بن جاتے ہیں انسانوں کے سروں پر آتے ہیں ان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کو اٹھالے جاتے ہیں ان کو مار ڈالتے ہیں انسانوں پر عاشق ہوجاتے ہیں ان کو تازہ بتازہ میوے لاکر دیتے ہیں اور دکھائی نہیں دیتے مگر جب چاہیں اور جب شکل میں چاہیں اپنے تئیں دکھلا دیتے ہیں۔ یعنی اپنے جسم میں دفعۃً ایسا مادہ پیدا کرلیتے ہیں کہ دکھائی دینے لگتے ہے۔ آدمی کی صورت بن کر بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں عامل ان کو آدمی بنا کر اپنے گھوڑے کا سائیں کرلیتے ہیں۔ مگر اس میں سے ایک بات بھی قرآن مجید سے ثابت نہیں۔
مشرکین عرب جو جنوں کا یقین رکھتے تھے وہ ان کو جنگلوں اور پہاڑوں میں انسانوں سے مخفی رہنے والے جانتے تھے اور شریر اور زبردست قوی ہیکل خیال کرتے تھے اور اس قسم کے انسانوں پر بھی جن کا اطلاق کرتے تھے۔ قرآن مجید میں بھی کہیں استعارۃً جن کا اطلاق شیطان مغوی الانسان پر ہوا ہے اور کہیں وحشی اور شریر انسانوں پر اور کہیں بطور الزام و خطابیات کے اسی وجود خیال پر جس کا مسرکین یقین کرتے تھے۔ مگر خطابیات کے طور پر بیان کرنے سے فی الواقع ویسی مخلوق کے ہونے کا ثبوت نہیں ہوتا۔
ویوم نحشرھم جمیعا ثم نقول للملائکۃ مدعی لا۔ ایاکم کانوا یعبدون قالو سبحانک انت ولینا من دونھم بل کانوا یعبدون الجن اکثرھم بہ مومنون (سبا)
اس آیت میں جس کی تفسیر ہم لکھ رہے ہیں اور سورة سبا کی آیت میں خدا تعالیٰ نے مشرکین کو اسی خیال کے مطابق خطابیات کے طور پر جنوں کی پرستش کا الزام دیا ہے۔ اس آیت سے پہلی آیتوں میں خدا تعالیٰ نے انسانوں کا جو اس کی ہدایت سے سیدھی راہ پاتے ہیں اور جو سیدھی راہ سے گمراہ ہوتے ہیں ذکر کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” فمن یرد اللہ ان یھدیہ یشرح صدرہ للاسلام ومن یودان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد فی السماء “ پھر انہی دونوں گروہوں کو قیامت کے دن اکٹھا کرنا کہا ہے ان لفظوں سے کہ ” یوم نحشرھم جمیعا “ ھم کی ضمیر انہی دونوں گرہوں کی طرف راجع ہے اور جنوں کی پرستش کا کچھ ذکر نہیں ہے دفعتہ فرمایا ” یا معشرالجن تدا استکثرتم من الانس “ یہ صاف قرینہ اس بات کا ہے کہ یہ جملہ خطابیات کے طور پر مشرکین کے الزام دینے کو ان کے خیال معبودوں کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ تم نے اپنے بہت سے پیرو کرلیے ہیں۔ اس خطاب کا جواب جنوں کی طرف سے کچھ نہیں دیا بلکہ مشرکین جو عقیدہ جنوں کی پرستش کی نسبت رکھتے تھے اس کو بیان کیا ہے کہ ہم تو ایک دوسرے سے نفع اٹھانے کی غرض سے ان کی پرستش کرتے تھے اور شریک ذات باری نہیں جانتے تھے۔ اس پر خدا نے یہ فیصلہ کیا کہ ” النارمثواکم “ یعنی تمہاری جگہ آگ ہے۔ اور یہ ایک نہایت موثر اور فصیح و بلیغ طرز تقریر ہے اس بات کو سمجھانے کو کہ خدا کے سوا دوسرے کی پرستش گو کہ الٰہ اعتقاد کرکے نہ ہو شرک اور باعث و خول نار ہے کیونکہ وہ بھی شرک فی العبادت اور شرک فی الصفت میں داخل ہے۔ پس اس طرح جنوں کو مخاطب کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فی الواقع جنوں کی ایسی ہی مخلوق ہے جیسے کہ مشرکین عرب یقین کرتے تھے یا جس طرح کہ مسلمان عالموں نے لکھا ہے۔
سورة سبا کی آیت میں دوسرا طرز تجاہل عارفانہ اختیار کیا ہے کیونکہ یہ بات معلوم تھی کہ مشرکین جنوں کی پرستش کرتے تھے باوجود اس علم کے خدا فرشتوں سے جو مشرکین کے نزدیک بھی جنوں سے برتر تھے پوچھا گیا کہ کیا مشرکین تمہاری پرستش کرتے تھے جواب دینگے انہیں۔ جنوں کی پرستش کرتے تھے جن کو ملائکہ سے مشریکن بھی کم درجہ کا سمجھتے تھے اور اس طرز بیان سے جنوں کی پرستش کی زیادہ تحقیر نکلتی ہے۔ مگر کسی طرح جنوں کی ایسی مخلوق ہونے کا جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ثبوت نہیں ہوتا۔۔
وجعلو اللہ شرکاء الجن و خلقھم وخرقولہ بین و بنات بغیر علم سبحانہ و تعالیٰ ھما یصفون۔ (انعام )
سورة انعام میں ایک جگہ خدا نے فرمایا ہے کہ مشرکین نے جنوں کو خدا کا شریک بنایا ہے حالانکہ ان کو یعنی مشرکین کو خدا نے پیدا کیا ہے۔ ھم کی ضمیر جن کی طرف پھیرنی اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ مشرکین جنوں کو غیر مخلوق نہیں سمجھتے تھے اور اس صورت میں وخلقھم کے لفظ سے کچھ معتد بہ فائدہ نہیں ہوتا اور مشرکین کی طرف ضمیر پھیرنے سے اس بات کے انتباہ کا فائدہ ہے کہ خالق ہی مستحق عبادت ہے نہ کوئی مخلوق۔
اس آیت میں صرف مشرکین کے اعتقاد کا ذکر ہے مگر اس سے نہ جنوں کی فی الواقع ایسی مخلوق ہونے کا ثبوت ہے جیسے کہ مشرکین اعتقاد کرتے تھے اور نہ خدا کے بیٹے اور بیٹیوں کے ہونے کا ثبوت ہے۔
قال انا خیر منہ خلقتنی من نارو خلقتہ من ملین (اعراف )
سورة اعراف میں خدا تعالیٰ نے ابلیس کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے آدم کو سجدہ نہ کرنے میں یہ کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں تونے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔
خلق الانسان من صلصال کالفخار وخلق الجان من جاج من نار (الرحمن - )
اور سورة الرحمن میں فرمایا ہے کہ ” پیدا کیا انسان کو سڑی مٹی سے اور جان یعنی جن کو بھڑکتی آگ سے۔
ولقد خلقنا الانسان من صلصال من جاء مسنون والجان خلقناہ من قبل من نار السموم (حجر - )
اور سورة حجر میں فرمایا کہ ” ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے سڑی مٹی سے اور جان یعنی جن کو آگ کی لو سے۔
اذ قلنا الملائکۃ اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن نفسق عن مرربہ (کہف )
اور سورة کہف میں فرمایا ہے کہ ” جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے کہ وہ جنوں میں سے یعنی سرکشوں میں سے تھا۔
ان آیتوں کے بیان کرنے سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ ابلیس کی خلقت بھی نار سے بیان ہوئی ہے اور سورة کہف میں ابلیس پر جن کا اطلاق ہوا ہے اور سورة الرحمن اور سورة حجر میں انسان کے پیدا کرنے کے ساتھ جو جان کے آگ سے پیدا کرنے کا ذکر ہے اس سے وہی ابلیس مراد ہے مغوی الانسان اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ وہ کوئی وجود خارج از انسان نہیں ہے اور اس لیے ان آیتوں سے جنوں کی کیسی ایسی مخلوق پر جس کا یقین مشرکین کرتے تھے استدلال نہیں ہوسکتا انسان کے قوے میں سے اس قوت کا جس پر شیطان کا اطلاق ہوا ہے آگ سے حرارت سے پیدا ہونا ایسا ٹھیک اور بالکل سچ ہے کہ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا باقی جو اموران آیتوں سے متعلق ہیں ان پر بحث اس مقام پر کرینگے جہاں ان کی تفسیر کہے گے۔
حضرت سلیمان کے قصہ میں جن و شیاطین کا جو حضرت سلیمان کے ہاں بہت سے کاموں پر متعین تھے قرآن مجید میں ذکر آیا ہے سورة سبا میں خدا نے فرمایا ہے کہ ومن الجن من یعسل بین یدیہ راؤن ربہ (سبا )
” جنوں میں سے وہ تھا جو حضرت سلیمان کے سامنے اپنے رب (یعنی آقا) کے حکم سے کام کرتا تھا۔
فلما اخر تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المھین (سبا)
اور جگہ فرمایا ہے کہ جب حضرت سلیمان مرگئے (جن کی لاش کو لکڑی کے سہارے سے کھڑا کردیا تھا) تو کسی کو خبر نہ ہوئی مگر جب دیمک نے عصا کو کھالیا اور وہ گرپڑے تب جنوں نے جو بیت المقدس کی عمارت کا کام کررہے تھے ان کا مرجانا اور کہا کہ اگر ہم کو غیب کی بات معلوم ہوتی تو وہم اس سخت عذاب میں نہ ٹھہرے رہتے۔
ان آیتوں میں جو کچھ بیان ہوا ہے یہ حضرت سلیمان کے وقت کا در بیت المقدس کی تعمیر ہونے کا ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ پر رجوع کرنے سے بخوبی معلوم ہوسکے گا کہ حضرت سلیمان کی سرکار میں عورت کا اور جنگلوں میں سے لکڑی کاٹنے کا پتھر تراشنے کا جہاز چلانے کا کون کام کرتے تھے۔ جو وہ ہوں اسی پر جن اور شیاطین کا اطلاق ہوا ہے۔
کتاب اول سلاطین باب پنجم سے پایا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے حیرام صور کے بادشاہ سے صیدونی قوم کے آدمی جنگل میں سے لکڑی کاٹنے کو مانگے تھے مقام لبنان سے لکڑی کافی جاتی تھی اور سلیمان کے لوگ اور حیرام بادشاہ صور کے بھیجے ہوئے لوگ اور ” جبلیم “ یعنی پہاڑی لوگ لکڑیاں کاٹتے تھے اور پتھر تراشتے تھے۔
کتاب دوم تاریخ الایام سے پایا جاتا ہے کہ صور کے بادشاہ نے ایک کاریگر صور کے رہنے والے کو حضرت سلیمان کے ہاں کام کرنے کو بھیجا تھا جو اپنے آقا کی اجازت سے کام کرنے آیا تھا اسی طرف قرآن مجید میں اشارہ ہے کہ ” ومن الجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ “۔
اسی کتاب سے پایا جاتا ہے کہ سوائے بنی اسرائیل کے جو لوگ فلسطین میں غیر قوم کے پہاڑوں و جنگلوں میں رہتے تھے ان میں سے حضرت سلیمان نے ستر ہزار آدمیوں کو حمالی پر اور سای ہزار کو درخت کاٹنے اور پہاڑوں میں سے پتھر تراشنے پر متعین کیا تھا یہ سب بیگار میں پکڑے گئے ہوں گے جنوں نے حضرت سلیمان کا مرنا معلوم کرکے ضرور کہا ہوگا کہ ” لوکانوا یعلمون الغیب مالبثوا فی العذاب المھین “۔
حضرت سلیمان کے قصہ کو مولوی چراغ علی صاحب نے جو عربی اور عبری زبان سے بخوبی واقف ہیں ایک رسالہ میں نہایت عمدگی سے لکھا ہے جس کو ہم حضرت سلیمان کے قصہ میں بہ تفصیل لکھینگے اس مقام پر صرف اس قدر بتانا مقصود تھا کہ ان آیتوں میں جو جن کا لفظ آیا ہے اس سے وہ پہاڑی و جنگلی آدمی مراد ہیں جو حضرت سلیمان کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں اور پہاڑوں میں چھپے رہتے ہیں اور نیز یہ سب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے جن کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں ہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق سع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں مانا ہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔
عبری زبان میں شد اور شدیم بمعنی دیو اور جن کے آیا ہے اور نیز ڈاکوؤں اور شریر آدمیوں پر اس کا اطلاق ہوا ہے۔ عربی زبان میں بھی وحشی اور قوی آدمیوں پر جن کا لفظ بولا گیا ہے۔ ومن امثال العرب “ اجن اللہ جبالہ “ ای الجبال التی یسکنھا ای اکثر اللہ فیھا الجن ای اوحثھا (شرح امثال میدانی)
ناغہ ذبیانی شاعر جاجی کہتا ہے
سہکین من صدماء الحدید کانھم
تحت النور جنۃ البقاد
یعنی ان کے بدن میں بدبو ہوگئی لوہے کے رنگ سے گویا کہ وہ ۔ زرہ کے نیچے بقاء کے جن ہیں۔
زہیرا بن مسلمی جاملی شاعر کہتا ہے
اذافزعواطا روالی مستغیثھم
طوال الرماح لاضعاف لاعزل
یعنی جب وہ لوگ جوش میں آتے ہیں تو دوڑ کر جاتے ہیں اپنی پناہ مانگنے والے کے پاس لینے نیزے لے کر نہ وہ کمزور ہیں اور نہ بےہتھیار۔
بخیل علیھا جنۃ عبقریہ
جدیر وزیوما ان ینالوا فیستعلوا
گھوڑوں پر کہ ان گھوڑوں پر جن عبقری ہے۔ لائق ہیں لڑائی کے دن کو اپنا مقصد پاویں اور غالب ہوں۔
جن اذا فزعوا لئن اھا امنوا
ممردون بھالیل اذا جھدوا
جن ہیں جب کہ جوش میں آتے ہیں اور انس ہیں جب کہ امن میں ہوتے ہیں۔ دراز قد ہیں خندہ رو ہیں جب کہ وہ کوشش کرتے ہیں۔
قال عفریت من الجن انا اتیک بہ قبل ان تقوم من مقامک (نمل)
سورة نمل میں ہے کہ جب حضرت سلیمان نے بلقیس کا تخت منگانا چاہا تو جنوں میں سے ایک عفریت نے کہا کہ میں اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں آپ کے پاس لا دیتا ہوں “ اس آیت میں جو اور بحثیں ہیں ان کو ہم اس مقام پر نہیں چھیڑتے صرف اتنی بات بتلاتے ہیں کہ قاموس میں لکھا ہے کہ عفریت کہتے ہیں رجل کامل ضابطہ قوی۔ یعنی موٹے مسٹنڈے مضبوط آدمی کو اور جن کا اطلاق جیسے کہ ہم نے ابھی بیان کیا صحرائی اور پہاڑی آدمیوں پر جو حضرت سلیمان کے ہاں حمالی کا اور آذر قسم کا کام کرتے تھے ہوا ہے پس آیت کے معنی نہایت صاف ہیں کہ ایک قوی مضبوط پہاڑی آدمی نے کہا کہ میں ابھی اس تخت کو جو حضرت سلیمان کے توشہ خانہ میں موجود تھا نہ ملک سبا میں اٹھا لاتا ہوں۔
سورة جن میں تین جگہ لفظ جن آیا ہے اور اسی مضمون کا ایک آیت سورة احقاف میں ہے
قل اوحی الی انہ استمع نفرمن الجن (سورة جن )
وانا ظنناان لن تقول الانس والحجر علی اللہ کذبا (سورة جن )
وانہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن (سورة جن)
واذ سرفنا الیک نضر من الجن یستمعون القرآن (سورة احقاف )
کے عرب کے مشرکین کی عادت تھی کہ چھپ چھپ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سنا کرتے تھے بھید لینے اور غمازی کرنے کو انھیں لوگوں میں سے جب کہ وہ چھپ کر باتیں سنتے تھے چند آدمیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن پڑھتے سنا ان کے دل پر اثر ہوا اور انھوں نے اس کو سچ اور منزل من اللہ جانا انہی کا ذکر ان آیتوں میں ہے ، اور جو کہ لامعلوم شخص تھے اور چھپ کر سنتے تھے ان کی نسبت لفظ جن استعمال ہوا ہے۔ اس بات کا ثبوت کہ وہ جن بمعنی متعارف نہ تھے بلکہ انسان تھے خود اسی سورت میں موجود ہے جہاں ان کے عقائد کا ذکر ہوا ہے۔ کیونکہ ان میں سے بعض نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے نہ کوئی جورو کی ہے اور نہ اس کے کوئی بیٹا ہے ہمارے پیشواؤں نے خدا پر تہمت لگائی تھی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ یعنی خدا کا بیٹا سمجھنا عیسائیوں کا عقیدہ ہے پس جن لوگوں نے اس عقیدہ کے غلط ہونے کا اقرار کیا بیشک وہ عیسائی تھے۔
اور بعضوں نے کہا کہ انسانوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو جناتوں سے پناہ چاہتے تھے یہ طریقہ عرب کے بت پرست کافروں کا تھا، اور جن لوگوں نے اس عقیدہ کو قرآن سن کر غلط سمجھا بلاشبہ وہ لوگ عرب کے بت پرست کافر تھے۔
اور بعضوں نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ خدا کسی پیغمبر کو نہیں بھیجنے کا یہ عقیدہ یہودیوں کا تھا وہ سمجھتے تھے کہ جو شریعت موسیٰ کو دی گئی ہے وہ ابدی ہے اب کوئی پیغمبر صاحب شریعت مبعوث نہیں ہونے کا جن لوگوں نے قرآن سن کر اس عقیدہ کو غلط جانا اور اس بات پر یقین کیا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور پیغمبر پر نازل ہوا ہے اور ایک پیغمبر آخر الزمان صاحب شریعت مبعوث ہوا ہے وہ لوگ بلاشبہ یہودی تھے۔
اور بعضوں نے کہا کہ ہم جو بیٹھ بیٹھ آسمانوں میں سے غیب کی باتیں سنتے تھے اب سننے والوں پر شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں اس کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بات کے کہنے والے مجوسی آتش پرست تھے اس فرقہ کے پیشوا نجوم پر یقین رکھتے تھے اور ستاروں کے مقامات سے غیب کی خبریں دیتے تھے اور ہر ایک کے لیے بھلائی برائی بتلاتے تھے پس جن لوگوں نے قرآن مجید سن کر اس عقیدہ کو خلط سمجھا اور اس پر ایمان لائے کہ نجومی جھوٹے ہیں اور غیب کی بات کوئی نہیں جان سکتا اور خدا کو نہ کوئی ہرا سکتا ہے اور نہ اس کو جیت سکتا ہے نہ اس سے بھاگ سکتا ہے بلاشبہ وہ لوگ مجوسی تھے یعنی آتش پرست۔
حسن کا قول ہے کہ ” فیھم یھود اونصاریٰ ومجوسا و مشرکین “ ( تفسیر کبیر)
یعنی قرآن سننے والوں میں یہودی اور عیسائی اور آتش پرست اور مشرکین تھے اور اس قول سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ سننے والے انسان تھے نہ جن بمعنی متعارف اور یہ کہنا کہ جنوں میں بھی یہودی اور عیسائی اور آتش پرست اور مشرکین ہوتے ہیں ایک ایسی بات ہے کہ جس کو کوئی ذی عقل تو نہیں کہہ سکتا۔
۔ یا معشرالجن والانس الم یاتکم وسل منکم (سورة انعام )
۔ قل لا ن اجتمعت الجن والانس علی ان یا توابمثل ھذا القرآن یا یا تون بمثلہ (سورة اسری)
۔ وکذلک وجعلنا بنی عدواشیاطین والانس والجن (سورة انعام )
علاوہ ان آیتوں کے چودہ آیتیں قرآن مجید میں اور ہیں جن میں جن وانس کا لفظ ساتھ ساتھ آیا ہے مگر اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ ان سب آیتوں میں جن کا اطلاق وحشی بدوی جنگل و پہاڑ کے رہنے والوں پر ہوا ہے ان دونوں لفظوں کے ساتھ لانے سے ہر قسم اور ہر درجہ کے آدمیوں کا حصہ مقصود ہے خدا پر اور اس کے حکام پر ایمان لانے اور اعمال بد کی سزا پانے میں کیونکہ
۔ قال ادخلوا فی السلم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار (اعراف )
۔ ولقد ذراتا لجھنم کثیر امن الجن والانس (اعراف )
۔ وحشر لسلیمان جو دہ من الجنوالانس و الطیر فھم یوزعون (نمل۔ )
۔ وحق علیھم القول فی ھم قدخلت من قلھم من الجن والا لن اغم کانواخسرین (فصل۔ )
۔ وقال الذین کفروا ربنا ارناالذین حثلنا من الجن والانس (فعلت )
۔ اولئک الذین حق علیھم القول فی امم قد خلت من قبلھم من الجن والانس انھم کا نواخاسرین (احقاف )
۔ یا معشل الجن والانس ان استعتم ان تنفذوا من اقطار السموات والارض (الرحمن۔ )
۔ فیومئذ لا یال عن ذنبہ انس ولاجان (الرحمن)
- ۔ فیھن قاصرات الطرف لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان (الرحمن - )
۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (ذاریات )
شہری و دیہاتی وحشی اور انسی تربیت یافتہ و نا تربیت یافتہ مہذب نا مہذب سویلزدہ اور باربیرین سب کے سب اس پر مکلف ہیں۔
ایک ہمارے دوست نے ہم سے کہا کہ جب تم فی سورة انعام کی ایک سو اٹھائیسویں۔ آیت جہاں لفظ ” یا معشرالجن “ لفظ جن سے وہی متعارف مراد لیے ہیں گو بطور خطابیات کے اس کو قرار دیا ہے تو یہی لفظ اسی سورت کی ایک سو نتیسویں آیت میں اور سوہ الرحمن کی نتیسویں آیت میں آیا ہے اور ان دونوں مقاموں میں وحشی آدمیوں کے معنی لیے ہیں اس تفرقہ کا کیا سبب ہے۔
ہم نے کہا کہ یہ تفرقہ ہم نے کیا بلکہ خود خدا نے کیا ہے کیونکہ سورة انعام کی پہلی آیت میں صرف یا معشرالجن کہا ہے اور اس کے بعد کی اور سورة الرحمن کی آیت میں یا معش الجن والانس کہا ہے پس جو تفرقہ خود خدا نے اپنے کلام میں کیا ہے وہی تفرقہ ہم نے اس کی مراد میں بتایا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الانعام : آیت 142

وَ مِنَ الۡاَنۡعَامِ حَمُوۡلَۃً وَّ فَرۡشًا ؕ کُلُوۡا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۴۲﴾ۙ

تفسیر سرسید :

؎ آٹھ جوڑے اس طرح پر ہوئے۔۔ بھیڑ نر مادہ، ۔ ان کے پیٹ کے بچے نرو مادہ، ۔ بکری نرو مادہ ۔۔ ان کے پیٹ کے بچے نر و مادہ، ۔ اونٹ نرومادہ،۔ ان کے پیٹ کے بچے نر و مادہ، ۔ بیل نر و مادہ، ۔ ان کے پیٹ کے بچے نرومادہ۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 8

وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۸﴾

تفسیر سرسید :

(والوزن یومئذ الحق) عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور اس پر بہت سی بےبنیاد حدیثیں بھی بنالی ہیں کہ قیامت کے دن بندوں کے اعمال تولنے کے لیے ایک ترازو ہوگی جس کا ایک پلڑا بہشت پر اور ایک پلڑا دوزخ پر ہوگا اور اتنی بڑی ہوگی کہ تمام آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب ایک دفعہ ایک پلڑے میں سما سکے گے اور اس کی لسان یعنی ڈنڈی پر کی چوٹی جبرائیل پکڑے ہوئے ہوں گے اچھے اعمال خوبصورت اور برے اعمال بدصور ت بنکر آوینگے اور تولے جاوینگے۔ یا نامہ اعمال جن کو نیکی و بدی کے فرشتے لکھتے رہتے ہیں تولے جاوینگے۔ مگر خود علماء محققین نے ان سب باتوں کو بےاصل اور غیر ثابت سمجھ کر ان سے انکار کیا ہے۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مجاہد اور ضحاک اور اعمش کا قول ہے کہ میزان سے عدل اور انصاف مراد ہے اور اکثر متاخرین کی یہ رائے ہے او کہتے ہیں کہ لفظ وزن کا استعمال ان معنوں میں بہت ہوتا ہے اور اس پر دلیل بھی ہے پھر یہی معنی لینے ضروری ہیں۔ کیونکہ عدل لینے و دینے میں صرف پیمانے یا میزان سے دنیا میں ظاہر ہوتا ہے پھر وزن سے عدل کا کنایہ کرنا کچھ نہیں ہے۔ ایک آدمی جب کہ اس کی قدرومنزلت نہیں ہوتی تو کہا جاتا ہے وہ کچھ ون نہیں رکھتا۔ خدا نے بھی فرمایا ہے ” فلانقیم لھم یوم القیامۃ وزنا “ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے فلاں شخص کو خفیف کردیا۔ اور کلام کی نسبت بھی کہتے ہیں کہ یہ کلام اسی وزن کا ہے یعنی اس کے برابر ہے پس یہی معنی یہاں لینے بھی لازم ہیں۔
غرضیکہ علمائے متقدمین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ میزان اور وزن اعمال سے فی الحقیقت میزان کا موجود ہونا اور فی الحقیقت اعمال کا وزن ہونا مراد نہیں ہے بلکہ صرف عدل کا استعارہ ہے اور مراد یہ ہے کہ خدا عدل کرے گا اور اعمال نیک کی جزا اور بد کی سزانہایت عدل و انصاف سے دے گا۔ اسی لیے ہم نے اس امر کی نسبت زیادہ بحث نہیں کی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 11

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ٭ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۱۱﴾

تفسیر سرسید :

؎ شروع آیت میں خدائے تمام انسانوں کو خطاب کیا ہے اس کے بعد آدم کا جو لفظ آیا ہے اس سے کوئی شخص معین براد نہیں ہوسکتا بلکہ وہ سب مراد ہیں جو مخاطب تھے یعنی انسان۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 20

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ ﴿۲۰﴾

تفسیر سرسید :

( سواتھما) سوئۃ کے معنی شرمگاہ کے بھی ہیں اور اعمال قبیحہ اور اخلاق قبیحہ کے بھی ہیں قاموس میں لکھا ہے السوئۃ الفرج والفاحشۃ والنخلۃ الفنبیحۃ اور فاحشہ کی نسبت بھی لکھا ہے کہ ” الفاحشۃ الزناء وما بشتد تجۃ من الذنوب “ اس مقام پر سواۃ کے معنی شرمگاہ کے لیے ہیں اس سبب سے کہ اگلی آیت میں پتوں سے اس کے چھپانے کا ذکر آیا ہے۔
مگر بیان کرچکے ہیں کہ یہ تمام قصہ آدم کا ایک استعارہ میں بیان ہوا ہے اور اس سے مراد صرف بیان فطرت انسانی ہے اس طرح پر کہ ہر ایک شخص کی سمجھ میں آجاوے خواہ وہ عالم ہو یا جاہل اسی سبب سے یہاں بھی لفظ سورة کا استعمال ہوا ہے کیونکہ شرمگاہ کے کھلنے کو ہر ایک شخص معیوب اور برا سمجھتا ہے اور شیطان کی یعنی قوائے بہیمہ کی پیروی سے جو افعال بدصادر ہوئے ہیں اس کی برائی کو ایک محسوس شے سے استعارۃ ً بیان کیا ہے اور بتلایا ہے کہ انسان کس طرح اپنی برائیوں کے چھپانے کی کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ چھپ گئیں مگر درحقیقت وہ چھپتی نہیں پس ان قصوں اور کہانیوں کی طرف ملتفت نہ ہونا چاہیے جن کو مفسرین نے ان کے لغوی معنوں میں سے ایک خاص معنی لے کر اس پر طرح طرح کے بےسند و بےسروپا لکھ دیئے ہیں۔ اس مطلب کی تشریح قابل تسکین اس وقت ہوجاتی ہے جب انسان اس آیت کو پڑھتا ہے کہ اے آدم کے بیٹو تم پر میں نے ایک لباس اتارا ہے جو تمہاری شرمگاہ کو ڈھانکے گا اور تقویٰ کا لباس سب سے اچھا ہے۔ پس اس آیت نے ثابت کردیا کہ نہ وہاں سواۃ سے شرمگاہ مراد تھی اور نہ پتوں کے ڈھانکنے سے اس کا ڈھانکنا بلکہ صرف افعال اور اخلاق ذمیمہ کو جو انسان کے لیے ایسے ہی بری ہیں جیسے اس کی شرمگاہ کا لوگوں کے سامنے کھل جانا اس استعارے میں بیان فرمایا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشریح اس مطلب کی ایک اور آیت سے ہوتی ہے جو ان آیتوں کے بعد ہے۔ پہلے تو یہ فرما دیا کہ تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے پھر فرمایا کہ اے آدم کے بیٹو ایسا نہ ہو کہ شیطان تم کو بھی بہکا کر تمہارے ماں باپ کی طرح لباس اتروا کر شرمگاہوں کو دکھلوا دے اس نصیحت سے صاف ظاہر ہے کہ لباس سے مراد تقویٰ اور سواۃ سے مراد برائیاں ہیں نہ یہ ظاہری لباس نور کا یا نور ہاف کا بنا ہوا اور نہ وہ مصنق گوشت جس کے کھلنے سے لوگ شرماتے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 38

قَالَ ادۡخُلُوۡا فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ فِی النَّارِ ؕ کُلَّمَا دَخَلَتۡ اُمَّۃٌ لَّعَنَتۡ اُخۡتَہَا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ادَّارَکُوۡا فِیۡہَا جَمِیۡعًا ۙ قَالَتۡ اُخۡرٰىہُمۡ لِاُوۡلٰىہُمۡ رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوۡنَا فَاٰتِہِمۡ عَذَابًا ضِعۡفًا مِّنَ النَّارِ ۬ؕ قَالَ لِکُلٍّ ضِعۡفٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۸﴾

تفسیر سرسید :

(قال ادخلو) اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیتوں میں بہت کچھ ذکر معاد کا ہے اور قرآن مجید میں جا بجا اس کا کچھ نہ کچھ ذکر آجاتا ہے مگر یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب تک پورا سلسلہ اس کا بیان نہ ہو خیال میں نہیں آتا اور نہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں جو کچھ اس کی نسبت بیانہوا ہے اس کا کیا منشا ہے پس مناسب ہے کہ ہم اسی مقام میں اس پر بقدر امکان بحث کریں مگر ان مطالب پر بحث کرنے سے پہلے اس بات کا بیان کرنا ضروری ہے کہ ان مسائل پر بحث کرنے کی نسبت اگلے عالموں نے کیا کہا ہے قاضی ابو الولید ابن رشد نے اپنے رسائل میں لکھا ہے کہ ” شرع کا مقصود علم حق اور عمل حق کی تعلیم ہے اور تعلیم کی دوقسمیں ہیں ایک کسی شے کا خیال کرنا اور دوسرے اس پر یقین کرنا جس کو اہل علم تصور اور تصدیق سے تعبیر کرتے ہیں۔
تصور کے دو طریق ہیں یا تو خود اسی شے کو تصور کرنا ہے یا اس کی مثال کو تصور کرنا ہے اور تصدیق کے طریق جو انسانوں میں ہیں وہ تین ہیں۔ برہانی یعنی دلائل قطعی کے سبب سے یقین کرنا۔ جدلی یعنی مخالفانہ اور مخامسمانہ دلیلوں کے ٹوٹ جانے کے بعد یقین خطبی یعنی ایسی باتوں سے جس سے انسان کے دل اور وجدان قلبی کو تسکین ہوجاوے اس پر یقین لانا۔
اکثر آدمی ایسے ہیں جن کو دلال خصیہ (ایسی دلیلیں جو دل کو تسلی دینے والی ہوں ، امربابا خدوی) یاجدلیہ سے تصدیق حاصل ہوتی ہے اور دلائل برہاینہ خاص چند آدمیوں کے سمجھنے لائق ہوتی ہیں۔ شرع کا مقصود سب سے اول عام لوگوں کو سمجھانا ہے اور خواص سے بھی غافل نہ ہونا پس شرع نے تعلیم کے لیے مشترکہ طریقہ اختیار کیا ہے اور اس کے اقوال چار طرح پر ہیں۔
اول یہ کہ : جن امور کی نسبت وہ کہے گئے ہیں ان کے تصور اور تصدیق دونوں پر یقین کرنا ضروری ہے گو کہ ان کی دلیلیں خطبیہ ہوں یا جدلیہ اور جو نتیجے ان سے نکالے ہیں وہی نتیجے بعینہ مقصود ہیں بطور تمثیل کے نہیں کہے گئے ہیں۔ ابن رشد فرماتے ہیں کہ ایسے اقوال کی تاویل کرنی نہیں چاہیے اور جو شخص ان سے انکار کرے یا ان کی تاویل کرے وہ کافر ہے۔
دوم یہ کہ : جو اقوال بطور مقدمات کے کہے گئے ہیں گو کہ ان کی صرف شہرۃ ہی ہو اور گو کہ وہ مظنون ہی ہوں مگر ان پر یقین کرنا لازمی ٹھہرا ہو اور نتیجے جو ان سے نکالے ہوں وہ بطور مثال ان نتیجوں کے ہوں جو مقصود ہیں۔ ابن رشد فرماتے ہیں کہ صرف ان مثالی نتیجوں کی نسبت البتہ تاویل ہوسکتی ہے
سوم یہ کہ : جو نتیجے ان اقوال سے نکالے گئے ہیں وہی بعینہا مقصود ہیں اور جو ان کے مقدمات بیان ہوئے ہیں وہ مشہور ہوں یا مظنون مگر ان پر یقین کرنا لازمی نہ ٹھہرا ہو تو ان نتائج میں بھی تاویل نہیں ہوسکتی البتہ صرف ان مقدمات میں تاویل ہوسکتی ہے۔
چہارم یہ کہ : جو مقدمات اس میں بیان ہوئے ہیں وہ صرف مشہور ہوں یا مظنون اور ان پر یقین کرنا بھی لازمی نہ ٹھہرا ہو اور جو نتیجے ان سے نکالے گئے ہیں وہ بطور مثال ان نتیجوں کے ہوں جو مقصود ہوں۔ ان میں تاویل کہ ناخاص لوگوں کا کام ہے اور عام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بلا تاویل کے ان کو ویسا ہی مانتے رہیں (انتہیٰ مخلصاً )
ہم کو افسوس ہے کہ اس عالم مصنف نے ان چاروں قسموں میں سے کسی قسم کی مثال نہیں دی جس سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ صرف فرضی اور عقلی تقسیم ہے اور کوئی مثال شرع میں اس کے مناسب موجود نہیں ہے علاوہ اس کے نہایت خامی اس بیان میں یہ ہے کہ قول شارع میں خواہ وہ آیت قرآن مجید کی ہو یا کوئی حدیث رسول کی اس میں اس بات کا قرار دینے والا کون ہے کہ اس کے مقدمات ایسے ہیں جن پر یقین کرنا ضروری ہے یا اس کے برخلاف ہیں یا اس کے نتیجے وہی بعینہا مقصود بالذات ہیں یا وہ تمثیل ہیں نتائج مقصود بالذات کی۔ اگر اس کے قرار دینے والے یہی ہماں شماں ہوں تو یہ تمام تقریر اور تقسیم فضول ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ مثلاً زید نے شارع کے ایک قول کو جس قسم کا ٹھہرایا ہے لازم نہیں ہے کہ عمرو بھی اس کو اسی قسم کا ٹھہراوے۔
اس کے بعد ابن رشد فرماتے ہیں کہ آدمی تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو مطلقاً تاویل کرنے کی لیاقت نہیں رکھتے وہ تو خطبیون ہیں یعنی دل کو تسلی دینے والی باتوں پر یقین لانے والے اور اسی قسم کے لوگ بہت کثرت سے ہیں۔ دوسرے جدلی ہیں جو بالطبع یا بطریق عادت مخالفانہ مخاصمانہ دلیلوں کے ٹوٹ جانے کے بعد یقین لاتے ہیں۔ تیسرے اہل تاویل حقہ یقینہ ہیں اور وہ برہانیون صاحب علم و حکمت ہیں۔ مگر برہانیوں جو تاویل کریں اس کو ان پہلی دو قسموں کے سامنے بیان کرنا نہیں چاہیے اور اگر یہ تاویلیں ان لوگوں کے سامنے بیان کی جاویں جو اس کے اہل نہیں ہیں تو بیان کرنے والے اور سننے والے دونوں کو کفر تک پہنچا دیتی ہیں۔ کیونکہ تاویل کرنے والے کا مقصود ظاہری معنوں کو باطل کرنے اور تاویلی معنوں کے ثابت کرنے کا ہوتا ہے پس جب عام آدمیوں کے نزدیک جو صرف ظاہری بات کو سمجھ سکتے ہیں ظاہری معنی باطل ہوگئے اور تاویلی معنی اس کے نزدیک ثابت نہ ہوئے کیونکہ ان کے سمجھنے کی اس کو عقل نہ تھی پس اگر یہ بات ایسے اقوال کی نسبت تھی جو اصول شرع میں داخل ہیں تو کفر تک نوبت پہنچ گئی۔ پس ابن رشد فرماتے ہیں کہ تاویلات کا عام لوگوں میں ظاہر کرنا یا عام لوگوں کی تعلیم کے لیے جو کتابیں ہیں ان میں لکھنا نہیں چاہیے اور ان کو سمجھا دینا چاہیے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں خدا ہی ان باتوں کی حقیقت خوب جانتا ہے۔ لا یعلم تاویلا الا اللہ۔ (انتہیٰ مخلصاً )
اس کے بعد ابن رشد اسی قسم کی تاویلوں ہی کو عام لوگوں پر ظاہر کرنے کو منع نہیں فرماتے بلکہ ہر چیز کی حقیقت کو جو عام لوگوں کے سوائے راسخین فی العلم کی سمجھ سے باہر ہے ظاہر کرنے کو منع کرتے ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ اسی کی مانند جواب سوالات مورغامضہ کے ہیں جو جمہور کے سمجھنے کے لائق نہیں ہیں جیسے کہ خدا نے فرمایا ہے ویسئلونک عن الروح قل الروح ھن امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ ان باتوں کو بھی غیر اہل پر بیان کرنے والا کافر ہے کیونکہ وہ لوگوں کو کفر کی طرف بلاتا ہے خصوصاً جب کہ تاویلات فاسدہ اصول شریعت میں ہونے لگیں جیسے کہ ہمارے یعنی ابن رشد کے زمانہ میں لوگوں کو یہ بیماری لگ گئی ہے (انتہیٰ ملخصاً )
نتیجہ اس تقریر کا یہ ہے کہ کوئی بات بھی شریعت کی جو بیان حقیقت یا تاویلات کی قسم سے ہو سوائے راسخین فی العلم کے کسی کے سامنے بیان نہ کی جاوے۔ جس قسم کے لوگوں کو ابن رشد نے راسخین فے العلم میں قرار دیا ہے اس زمانہ میں تو ویسا شخص کوئی نہیں ہے بلکہ اگلے زمانہ میں بھی دو ایک کے سوا کوئی نہ تھا پس ضرورۃً لازم آتا ہے کہ تمام مقدم باتیں شریعت کی بطور ایک معماوچیستاں یا مثل راز فریمشن کے غیر معلوم رہنی چاہئیں۔
اگر ہمارا مذہب اسلام ایسا ہو کہ اس کے اصول لوگوں کو نہ سمجھا سکیں جو ان کو سمجھنا چاہتے ہیں یا ان لوگوں کی تشفی نہ کرسکیں جن کے دل میں شبہات پیدا ہوئے ہیں بلکہ ان سب کو اس پر مجبور کریں کہ ان باتوں کو اسی طرح مان لو تو ہم اپنے مذہب کی صداقت فی نفسہ اور بمقابلہ دیگر مذاہب غیر حق کے کیونکر ثابت کرسکتے ہیں۔ ایک عیسائی کہتا ہے کہ تثلیث کا مسئلہ کہ تین تین بھی ہیں اور ایک بھی ہیں ایک الٰہی مسئلہ ہے اس پر بےسمجھے یقین کرنا چاہیے پس اگر ہم مذہب اسلام کے بہت سے مسئلوں کی نسبت ایسا ہی کہنا قرار دیں تو کیا وجہ ہے کہ اس کی تکذیب اور اس کی تصدیق کریں۔
ایک اور بات غور کے لائق ہے کہ جب کسی کے دل میں مذہب اسلام کے کسی مسئلہ کی نسبت شک پیدا ہوا خواہ وہ عالم ہو یا جاہل اور ہم اس کی حقیقت یا تصریح یا تاویل بیان کرکے اس کے دل کے شبہ کو تو رفع نہ کریں اور بعوض اس کے کہیں کہ تم راسخین فی العلم میں نہیں ہو۔ لا تفتیش اس کو تسلیم کرو اور اسی پر یقین رکھو تو اس کا ایمان ایسا رہیگا جس کا اثر حلق سے نیچے نہ اترے گا اس کی زبان کہے گی ہاں اور دل کہے گا تاہ ۔ علاوہ اس کے یقین ایسی چیز نہیں کہ کسی کے کہہ دینے سے آجاوے بلکہ یقین ایک امراضطراری ہے کہ جب تک وہ شبہ جس نے یقین میں خلل ڈالا ہے نہ لٹ جاوے یقین آہی نہیں سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں عالم ہوں یا جاہل دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو دل سے تمام باتوں پر جو اسلام میں ہیں اور گو وہ کیسی ہی خلاف عقل اور خلاف سمجھ اور محال و ناممکن ہوں بلکہ خلاف واقع سب پر یقین رکھتے ہیں اس قسم کے لوگوں کے لیے کسی قسم کی دلیل کی ضرورت نہیں۔ دوسرے وہ جن کو ان باتوں پر شبہ ہے یا ان کا وقوع غیر ممکن سمجھتے ہیں یا ان کے غلط ہونے پر صحیح یا غلط دلیلیں رکھتے ہیں بلالحاظ اس بات کے کہ وہ منجملہ راسخین فی العلم ہیں یا نہیں اور عالم ہیں یا جاہل ان کے سامنے ہر ایک چیز کی جو اسلام میں ہے اس کی حقیقت اور ہر ایک امر قابل تاویل کی تاویل بیان کرنی فرض ہے اور جو اس کے بیان کی قدرت رکھتا ہے اور بیان نہیں کرتا وہ کافر ہے اسی دلیل سے جس دلیل سے کہ ابن رشد نے حقیقت بیان کرنے والوں اور تاویل کی تصریح کرنے والوں کو کافر بتایا ہے۔
ہم فرض کرلیں کہ ان مثککین کو اس قدر لیاقت نہیں ہے کہ وہ ان حقیقتوں اور تاویلوں کو سمجھیں مگر اتنی بات تو ان پر ثابت ہوگی کہ اس کے لیے دلیلیں اور اس کی صداقت کے ثبوت کے لیے وجود میں اور اس کی حقیقت کے لیے بیانات ہیں مگر ہم ان کو سمجھ نہیں سکتے اونیٰ درجہ یہ ہے کہ ان کے سمجھانے کا جو فرض ہم پر تھا اس کو بلاشبہ ہم ادا کردینگے۔ بہت لوگوں نے یہ پیغمبروں کی نصیحتوں کو نہیں سمجھا مگر پیغمبر اس خیال سے کہ وہ ان کے سمجھنے کے لائق نہیں ہیں نصیحتوں کے سمجھانے سے باز نہیں رہے بلکہ طرح طرح سے سمجھایا اور کوشش کی کہ ان کو ان کے سمجھنے کے لائق کریں۔
اس خوف سے کہ ان لوگوں کے نزدیک جب ظاہری معنی باطل ہوجاوینگے اور اصل حقیقت یا تاویل کے سمجھنے کے لائق نہ ہونے کے سبب وہ اس کو نہ سمجھے گے تو اصول شرع سے منکر ہوجاوینگے اور کفر تک نوبت پہنچا دینگے ہم کو حقیقت اور صداقت کے بیان سے باز رہنا نہیں چاہیے اگر یہ الزامصحیح ہو (کما نسب بعض اخلائی لابلع) تو قرآن مجید بھی با ایں ہمہ خوبی اس الزام سے بری نہیں رہ سکتا۔ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے ” یھدی بہ کثیرا ویضل بہ کثیرا “
تاویلات فاسدہ بھی اگر ہوں تو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں اس لیے کہ جو چیز غلط ہے اس کی غلطی بہت دیرپا نہیں ہوسکتی دوسروں کو اس کی غلطی بیان کرنے کا اور غلط کو صحیح کرنے کا موقع ملتا ہے اور اگر وہ بیان ہی نہ کی جاویں تو سچ بات کے ظاہر ہونے کا موقع ہی نہیں ہوتا۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر انسان کو یقین کرنے کے لیے دلیل ہے مگر ان کی حقیقت جاننا انسان کی فطرت سے خارج ہے مگر اس قسم کے حقائق ہمارے استدلال میں کچھ نقص ڈالنے والے نہیں ہیں کیونکہ دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا جاننا یا سمجھنا انسان کی فطرت سے خارج ہے اور یہی عدم علم ان کی معرفت کے لیے کمال معرفت ہے۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں جب کہ علمانے اس قسم کی رائیں لکھیں علم ایک نہایت محدود فرقہ میں تھا جس کو وہ بجز اپنے خاص لوگوں کے اوروں میں شائع کرنا ہی پسند نہیں کرتے تھے اور تمام لوگ اعلیٰ داد نئے علوم کے ادنیٰ ادنیٰ مسائل سے بھی بےبہرہ تھے اور ان کے دل شبہات و تشکیکات سے پاک تھے اور یہی باعث ہوا کہ ان علما نے ایسی رائے قائم کی تھی مگر وہ زمانہ گیا علوم و حکمت اب اس قدر عام ہوگئی کہ ایک بہت بڑا حصہ دنیا کا اس سے واقف ہوگیا طفل دبستان بھی اپنے مکتب میں ارسطو اور افلاطون کی غلطیوں کا جہاں جہاں انھوں نے کی ہیں ذکر کرتا ہے ہزاروں آدمی ہر شہر و قصبہ میں ایسے موجود ہیں جو خود کچھ نہیں جانتے مگر بہت سے مسائل علوم و حکمت کے سن سن کر ان کے کان آشنا ہوگئے ہیں اور اکثر ان میں وہ ہیں جن کے دل شبہات و تشکیکات سے ملم ہیں۔ اس زمانہ میں جو ذی علم ہیں ان کا ایمان بھی حلق کے نیچے تک نہیں ہے منہ سے کہتے ہیں کہ جو کچھ قرآن حدیث میں آیا ہے اس پر یقین کرنا چاہیے مگر دل میں شبہات بھرے پڑے ہیں۔ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یقین کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ ہونے سے ہوتا ہے پس اب یہ زمانہ ہے کہ جو کوئی بقدر اپنی طاقت کے ان تمام حقائق اور تاویلات کو نہ کھولے اور لومۃ لایمہ سے نڈر ہو کر اگلے علما کی ان غلطیوں کو جو بمقتضائے اس زمانہ کے نامکمل علوم اور نامکمل تحقیقات کے حقائق کی بیان حقیقت اور قرآن مجید کی تفسیر میں راہ پاگئی ہیں عام طور سے سب کے سامنے بیان نہ کرے وہ اپنے فرض کے ادا کرنے سے قاصر ہے و من یفعل فھویودی حق اللہ وحق دینہ وحق اھل دینہ، وقومہ واللہ المستعان
المسئلۃ الاولیٰ مالروح ھو جو ھرام عرض اس امر کی تنقیح کو کہ روح کا وجود ہے یا نہیں ہم کو اولاً اجسام موجودنی العلم پر نظر کرنی چاہیے پس جب ہم ان پر غور کرتے ہیں تو ابتدائے نظر میں ان کو دو قسم کے پاتے ہیں۔
ایک بطور تھوے کے کہ وہ جہاں ہیں وہیں ہیں اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتے ممکن ہے کہ وہ بےانتہا بڑے ہوجاویں اگر کوئی ایسا سبب جو ان کے بڑے ہونے کو روکنے والا نہ ہو ۔ اس قسم کے اجسام صرف نہایت چھوٹے چھوٹے مشابہ اجزا سے بنے ہوئے ہیں، اور اس کے ہر ایک جزو میں وہی اوصاف ہیں جو اس کے کل میں ہیں جیسے پتھر اور لوہا۔ اگر ان میں سے کوئی ٹکڑا توڑ لیں تو اس میں بھی وہی اوصاف ہوں گے جو اس کل میں ہیں۔ اور جب کہ وہ بالکل خالص بغیر کسی ملاوٹ کے ہو تو اس میں ایک سی طرح کے پرت ہوں گے ۔
دوسری قسم کے اجسام ایسے ہیں کہ ان کا جسم باختلاف ان کی انواع کے معین حد تک بڑا ہوتا ہے اور اس کے اجزا غیر متشابہ اور مختلف الالوان ہہوتے ہیں۔ اور ان میں باریک باریک رگیں اندر سے خالی مثل نلی کے ہوتی ہیں جن میں پہنے والا مادہ پھرتا رہتا ہے اور اسی طرح الگ الگ پردے بھی ہوتے ہیں جن کے بیچ میں خالی جگہ ہوتی ہے اور پھر کہیں اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اس نما جال کو اس جسم کے اعضا کہتے ہیں۔ اس لیے پہلی قسم کے اجسام کو اجسام غیر عضو یہ اور دوسری قسم کے اجسام کو عضویہ کہتے ہیں۔
اجسام عضو یہ میں پرت نہیں ہوتے اور اس کا نمو اسی قسم کی دوسری چیزوں سے ہوتا ہے اور جب وہ جوان ہوجاتا ہے تو اس میں مختلف طرح کا بیج پیدا ہوتا ہے۔
غیر عضوی جسم دفعتہ پیدا ہوجاتا ہے جس وقت اس کا مادہ جمع ہوجاوے اور عضوی جسم رفتہ رفتہ نمو پاتا ہے اور جب اس کے بیج کو بود تو وہی جسم اس سے پیدا ہوتا ہے جس کا بیج ہے اور بونے والا جب زمین میں ڈالتا ہے تو جانتا ہے کہ وہ کب پھوٹے گا اور کب اس میں مادہ چوسنے کی طاقت آویگی۔ اس کے پتے او ٹہنیاں ہوا میں سے غذا بھی لیتی رہتی ہیں جس کے سبب ان کا قد بڑھتا ہے اور رنگ بدلتا جاتا ہے۔
اور ایک فرق ان دونوں جسموں میں یہ ہے کہ جسم عضو یہ میں غذا ان کے اعضا کے اندر جاتی اور اندرونی غذا سے بیرونی جسم بڑھتا ہے اور جب تک یہ قوت رہتی ہے نمو ہوتا رہتا ہے اور ایک زمانہ کے بعد اس میں ضعف آجاتا ہے اور غذا کم ہوجاتی ہے اور نمو نہیں ہوتا اور آخر کار مرجاتا ہے عضو جسم کی حالتیں علانیہ بدلتی رہتی ہیں۔ وہ پیدا ہوتا ہے پھر بڑھتا ہے پھر اس کا بڑھنا موقوف ہوجاتا ہے پھر بڑھاپے کے سبب گھٹنے لگتا ہے پھر مرجاتا ہے۔
جسم غیر عضوی پیدا ہوتا ہے اجتماع مادہ سے اور وہ اس طرح بھڑتا ہے کہ اسی قسم کے اور اجزا مادی اس کے اوپر کی سطح پر آکر جڑتے جاتے ہیں اور اسجام عضویہ کا نمواندر سے ہوتا ہے اور جسم غیر عضوی کا حجم بےانتہا بڑھ جاسکتا ہی اگر کوئی امر مانع نہ ہو اور جسم عضوی کا حجم ایک مقدار معین سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔
جسم عضوی اور غیرعضوی میں یہ فرق بھی ہے کہ پہلے جسم میں مختلف قسم کا مادہ ہوتا ہے اور دوسری قسم میں صرف ایک قسم کا۔ اگرچہ اس کے سوار اور بھی اختلافات ہیں مگر مختصر طور پر مقدم اختلافات کو ذیل میں لکھتے ہیں :
۔ اجسام عضوی کا وجود و تناسل سے ہوتا ہے اور غیر عضوی کا جذب و اتحاد سے۔
۔ بقا اجسام عضوی کا محدود ہے اور غیر عضوی کا محدود نہیں۔
۔ اجسام عضوی کے اجزا کردی شکل ہوتے ہیں اور غیر عضوی کے زاویہ کے طور پر۔
۔ نخو اجسام عضوی کا منحصر ہے غذا کے اندر جانے پر اور وہ نمو اندر سے باہر کو ہوتا ہے اور غیر عضوی کا اس کے برخلاف ہے ان کا حجم باہر سے اجزا مل جانے سے بڑا ہوجاتا ہے۔
۔ بناوت جسم عضوی کی مختلف اجزا سے ہوتی ہے اور جسم غیر عضوی کے اجزائے متحد الصفت سے۔
۔ جسم عضوی کی ترکیب اجزا متضاعفہ متحرکہ سے ہوتی ہے اور غیر عضوی کی بسیط۔
اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجسام غیر عضوی میں تمام معدنیات مثل نمک اور پتھر وغیرہ کے اور مٹی کے داخل ہیں اور اجسام عضویہ میں نباتات اور حیوانات۔
مگر نباتات و حیوانات میں جو فرق ہے وہ بہت ظاہر ہے۔ حیوانات کی بناوٹ میں نباتات کی بناوٹ سے تفاعقاب بہت زیادہ ہیں اور حیوان متحرک ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتا ہے اور وہ ملک ہے اور ذی اختیار ہے کہ جس کام کو چاہے کرے اور جس کو چاہے نہ کرے اور اس میں حواس مخصوصہ ہیں کہ ان کے سبب آواز کو بوؤں کو مزے کو چھونے کو جانتا ہے اور غذا اس کے پیٹ میں جاتی ہے اور بالتخصیص اس کے پیٹ میں ایک ایسی ہنڈیا ہے جو غذا کو اس طرح پکا دیتی ہے کہ اعضا کے تغذیہ اور نمو کے لائق ہوجاتی ہے۔
نباتات اس کے برخلاف ہیں وہ جہاں بویا ہے وہاں سے دوسری جگہ نہیں چل سکتا۔ اس میں حرکت کرنے کی قوت نہیں ہے اور نہ اس میں اختیار ہے وہ اپنی جڑوں کے ذریعہ سے جو زمین میں ہیں اور ٹہنیوں اور پتوں کے ذریعہ سے جو ہوا میں ہیں غذا کو جذب کرلیتا ہے اس میں کوئی ہنڈیا غذا پکانے کی نہیں ہے بلکہ جو غذا اس میں جاتی ہے اسی وقت غذا کے قابل ہوتی ہے۔
نباتات و حیوانات میں بہت بڑا اختلاف یہ ہے کہ حیوان میں پٹھوں کا بھی ایک سلسلہ ہے اور نباتات میں نہیں ہے اور یہی ، عصاب جب کہ حیوانات میں ایک مرکز سے تعلق رکھتے ہیں اس سبب سے حیوان میں قابلیت احساس ہونی ہے اور یہ بات نباتات میں نہیں پائی جاتی۔ علاوہ اس کے حیوانات میں اور بھی جھلیاں اور پردے اور پے اور عضلے اس قسم کے ہوتے ہیں جو نباتات میں نہیں ہوتے۔
ایک عمدہ فرق دونوں میں یہ ہے کہ حیوانات کی غذا اجسام عضوی سے ہوتی ہے اور نباتات کی غذا اجسام غیر عضوی سے جیسے پانی اور ہوائیں اور نمک ۔ نباتات کے بننے کا مادہ دراصل ایک کسیلا مادہ ہوتا ہے اور تحلیل کیمیاوی سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مرکب ہے کاربن اور ہیڈروجن اور آکسیجن سے یہ تینوں ایک ہوانی سیال عنصر ہیں اور نباتات میں تریجن نہیں ہے جس کو ازوٹ بھی کہتے ہیں مگر حیوانات میں ہے اور یہ بھی ایک ہوائی سیال جسم ہے مگر اس کی یہ خاصیت ہے کہ اگر کسی جگہ صرف نائٹروجن بھری ہو اور وہاں آدمی جاوے تو فی الفور مرجاتا ہے جیسا کہ غلہ کی کھیتی میں یا کسی پرانے اندھے کنوئیں میں دفعتہ اترنے سے آدمی مرجاتے ہیں۔
یہ تمام امور ہم نے بیان کئے ہیں امور محققہ میں سے ہیں جو علم زوالوجی یعنی علم الحیوانات اور علم کیمسٹری یعنی کیمیا میں بخوبی ثابت ہیں مگر جو فرق کہ جسم بناتی اور جسم حیوانی میں اوپر بیان ہوا ہے اس پر ہم زیادہ غور کرنی چاہتے ہیں۔ ہم کو بالتخصیص اس بات پر غور کرنی ہے کہ حیوانات میں جو حرکت اور ارادہ اور اختیار اور ادراک اور خیال اور ایک قوت نتیجہ نکالنے کی ہے اس کا کیا سبب ہے۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نباتات کے جسم کے مادہ میں تین عنصر ہیں کاربن ۔ آکسیجن۔ ہیڈروجن۔ اور حیونات کے جسم کے مادہ میں ایک چوتھا عنصر ٹو ٹریجن بھی ہے مگر یہ تمام عنصر ان کے جسم کی بناوٹ کا مادہ ہیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ان افعال کے بھی باعث ہیں جو حیوانات سے بالتخصیص علاقہ رکھتے ہیں اور جن پر ہم غور کرنا چاہتے ہیں کیمسٹری سے ثابت ہوا ہے کہ نائٹروجن میں کچھ کیمیاوی قوت نہیں ہے اور نہ وہ معاون زندگی ہے صرف اتنی بات ہے کہ جانوروں کے گوشت کے ریشوں میں پائی جاتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ حیوانات کے اعضا میں ایک ایسا عضو ہے جو غذا کو اس طرح پکا دیتا ہے کہ اعضا کے تغدیہ اور نمو کے لائق ہوجاوے نباتات میں ایسا کوئی عضو نہیں ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ نباتات اپنی جڑ کے ریشوں سے اور اس کے پتے اور ٹہنیاں ہوا سے وہی مادہ جذب کرتے ہیں جو غذا و نمو کے لائق ہے اور اس لیے ان میں کسی ایسے عضو کے ہونے کی ضرورت نہیں۔ برخلاف حیوانات کے کہ وہ ایسی غذا کھاتے ہیں جن میں علاوہ مادہ تغذی و نمو کے اور فضلو مادہ بھی شامل ہوتا ہے اور اس لیے ایسا ایک عضو بنایا گیا ہے جو مادہ تغذی و نمو کو فضول مادہ سے جدا کردے مگر اس کے جدا ہوجانے کے بعد حیوان کی وہی حالت ہوتی ہے جو نباتات کی شروع تغذیہ میں تھی اور اس لیے یہ تصور نہیں ہوسکتا کہ حیوان میں اس عضو کا ہونا ان افعال کا باعث ہے جو بالتخصیص حیوانات سے علاقہ رکھتے ہیں۔
حیوانات کے جسم کی بناوٹ میں ایک بہت بڑا نسا جال اعصاب کا ہے جس کا مرجع ایک مرکز عام یعنی دماغ کی طرف ہے اور وہ تمام افعال حیوانات کے جن پر ہم غور کرنا چاہتے ہیں اسی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں لیکن یہ افعال ان سے صرف بحیثیت ان کے اعضا ہونے کے تو منسوب نہیں ہوسکتے اور نہ صرف بحیثیت ان کے مادہ کے کیونکہ تمام جسم حیوانات میں وہی عناصر موجود ہیں مگر مختلف ترکیب پانے سے مختلف مادہ اور مختلف صوت پیدا ہوئی ہے پس صرف بحیثیت مادہ جو اختلاط عناصر سے پیدا ہوتا ہے وہ افعال منسوب نہیں ہوسکتے۔
اب ہم کو دیکھنا ہے کہ عناصر یعنی کاربن آکسیجن ۔ ہائیڈروجن۔ نائٹروجن کی ترکیب سے کیا حالت پیدا ہوسکتی ہے۔ عناصر آپس میں مل کر ایک دوسری صورت کا جسم پیدا کرلیتے ہیں مثلاً جب آکسیجن اور ہائیڈروجن مقدار معینہ سے باہم مل جائے تو ایک دوسری صورت کا جسم رقیق سیال پیدا ہوجاتا ہے جس کو پانی کہتے ہیں مگر اس میں کوئی ایسی صفت جو مادہ کی حیثیت سے بڑھ کر ہو پیدا نہیں ہوتی عناصر کی ترکیب سے ایک جسم غیر میں یا اسی جسم میں جو ان عناصر سے بنا ہے حرارت پیدا ہوجاتی ہے اور جب تک وہ ترکیب قائم رہے وہ حرارت بھی قائم رہتی ہے۔ عناصر کی ترکیب سے جسم میں ایک خاص قسم کے مادہ کی یا دوسرے جسم کے جذب کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے جیسے کہ مقناطیس میں لوہے کی کشش اور نباتات کی کشش اور نباتات و حیوانات میں دیگر اقسام کے عناصر اور مادہ کے جذب کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ عناصر کی ترکیب سے ایک ایسا جسم پیدا ہوجاتا ہے جو جوش میں (یعنی متحرک) رہے یعنی خود اسی کے اجزا حرکت میں رہیں جب تک کہ وہ ترکیب اس میں باقی رہے جیسے کہ تیزابوں کے ساتھ دوسری چیزوں کے ملانے سے پیدا ہوتی ہے۔ عناصر کی ترکیب سے ایک قوت مخفیہ جو اجسام میں ہے ظاہر ہوجاتی ہے اور دگیر اجسام سے جذب کرکے ایک جگہ لے آتی ہے جیسے کہ اعمال برقی سے ظہور اور اجتماع برق کا ہوتا ہے۔ ترکیب عناصر سے یا ان اجسام کی ترکیب سے جو عناصر سے بنے ہوئے ہیں ایک جسم ہوائی سیال پیدا ہوتا ہے جو دکھائی بھی دیتا ہے اور کبھی ایسا لطیف ہوتا ہے جو دکھائی بھی نہیں دیتا۔
اکثر اطبا اور حکما کا یہ خیال ہے کہ جسم حیوانی میں جو ترکیب عناصر سے بنا ہے اور جس میں مختلف قسم کے اعضا ہیں اس ترکیب کے سبب ایک جسم ہوائی پیدا ہوا ہے جو باعث تہنج ہے جو سبب ہے حیوانات میں ارادہ پیدا ہونے کا اور ترکیب اعضا سے حرکت کے ظہور میں آنے کا اور یہی جسم سیال ہوائی باعث ہے انسان کی زندگی کا اور اسی کو بعضوں نے روح حیوانی اور بعضوں نے مطلق روح اور بعضوں نے تسمہ سے تعبیر کیا ہے اور نتیجہ اس کا یہ سمجھا ہے کہ جب ترکیب جسم حیوانی کی اس جسم سیال کے قدیم رہنے کے قابل نہیں رہتی تو وہ حالت موت سے تعبیر کی جاتی ہے اور اس کا صریح نتیجہ یہ ہے کہ جسم کے معدوم ہونے یا اس کی حالت قابل قائم رکھنے اس جسم سیال کے معدوم ہونے کے ساتھ وہ جسم سیال بھی معدوم ہوجاتا ہے یعنی وہ روح بھی فنا ہوجاتی ہے۔
مگر ہم کو اس میں یہ کلام ہے کہ تمام آثار جو ترکیب عناصر سے پیدا ہوتے ہیں وہ سب یکساں ہوتے ہیں مثلاً مقناطیس اس میں بسبب عناصر کے لوہے کے جذب کی قوت پیدا ہوئی ہے تو اب یہ نہیں ہوسکتا کہ کبھی وہ اس کو جذب کرے اور کبھی جذب نہ کرے۔ یا جب ہم نے ایسے عناصر کو یا اجسام مرکب عناصر کو آپس میں ترکیب دیا جو برق کے مہیج تو یہ نہیں ہوسکتا کہ کبھی برق مہیج ہو اور کبھی نہ ہو۔ یا اجسام بناتی جب کہ وہ اپنی ٹھیک حالت میں ہیں ان سے یہ نہیں ہوسکتا کہ مادہ غذائی کو اپنی جزوں اور ٹہینوں اور پتوں سے جب چاہیں جذب کریں اور جب چاہیں جذب نہ کریں غرضیکہ جو آثار جس جسم میں بوجہ ترکیب عناصر پیدا ہوتے ہیں وہ آثار اس جسم سے کبھی منفک نہیں ہوتے اور اس جسم کے اختیار میں یہ بات نہیں ہوتی کہ جب چاہے ان آثار کو ظاہر ہونے دے اور جب چاہے ان کو ظاہر نہ ہونے دے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 38
تفسیر سر سید
کا ثبوت زیادہ تر اس قسم کی نباتات پر غور کرنے سے بخوبی حاصل ہوتا ہے جس کو جاندار نبات خیال کیا جاتا ہے۔ ایک درخت جو چھوئی موئی یا لجائی کے نام سے مشہور ہے۔ صرف چھونے سے اس کے پتے سکڑ جاتے ہیں اور ٹہنی گر پڑتی ہے اور تھوڑی دیر کے بعد پھر پتے کشادہ اور ٹہنی اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے۔ امریکا میں ایک اور درخت پایا گیا ہے جس کو مذبنہ کہتے ہیں اس کے پھول کی پنکھڑیوں پر جب مکھی یا بھنگا آکر بیٹھتا ہے تو پنکھڑیاں بند ہوجاتی ہیں اور اس جانور کو پکڑ لیتی ہیں یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہے مگر ان سے یہ کبھی نہیں ہوتا کہ اس کو چھوئیں اور پتے نہ سکڑیں اور ٹہنی نہ گرے یا مکھی اور بھنگا اس پھول کی پنکھڑی پر بیٹھے اور وہ اس کو نہ پکڑلے۔
بعض پانی کی نباتات ایسی معلوم ہوئی جن پر شبہ حرکت ارادی کا پیدا ہوتا ہے چنانچہ ایک قسم کی نبات تاگے کی مانند ہے وہ ایک دوسرے سے ملنے کو حرکت کرتی ہے تاکہ ان کے ملنے سے پیدائش ان کی ہو مگر یہ کیفیت صرف قوت جاذیہ سے بھی پیدا ہوتی ہے اس پر حرکت ارادی کا اطلاق نہایت مشتبہ ہے خصوصاً جب کہ وہ پانی پر تیرتی ہیں۔
پانی میں پیدا ہونے والی ایک اور نبات ہے جب وہ اس نبات سے جس سے پیدا ہوتی ہے علیحدہ ہوتی ہے تو اور نبات کے پیدا کرنے پر مستعدرہتی ہے اور متحرک رہتی ہے اور جب اس میں قوت حرکت و نمو جاتی رہتی ہے تو اس میں سے اسی قسم کی نبات پیدا ہوتی ہے مگر نہایت مشتبہ ہے کہ اس کی حرکت کو حرکت ارادی تصور کیا جاوے ۔ اجتماع اور ترکیب عناص سے تحرک پیدا ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا اور جب کہ وہ جسم پانی پر ہو تو اس کا تحرک اس کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر بھی لے جاسکتا ہے مگر اس پر حرکت ارادی کا اطلاق یقینی طور پر نہیں ہوسکتا۔
حیوان کے بعض افعال ایسے ہیں جو صرف ترکیب عناصر کا نتیجہ نہیں ہوسکتے مثلاً ارادہ اور اختیار کہ جس کام کو چاہے کرے اور جس کام کو چاہے نہ کرے اگر کسی کام کے کرنے کا ارادہ صرف نتیجہ ترکیب عناصر کا ہوتا تو اس کا کرنا امر طبعی ہوتا اور اس لیے اس کا نہ کرنا امر خلاف طبع ہوتا جس کا محال ہونا یدیہی ہے علاوہ اس کے حیوانات میں بہت سے ایسے انکشافات ہیں جن کا صرف ترکیب عناصر سے ہونا ناممکن ہے مثلاً حیوان کی آنکھ کا ترکیب عناصر اور ترتیب طبقات سے بنا اور اس میں ان چیزوں کی صورت کا جو اس کے سامنے ہوں شعاع کے سبب منقش ہونا یقینی امر ہے مگر اس کا ان اشیاء کو پہچاننا اور دوست و دشمن میں تمیز کرنا صرف ترکیب عناصر سے نہیں ہوسکتا۔ علاوہ اس کے خیال ایک ایسا امر ہے کہ کوئی دلیل اور کوئی ترکیب کیمیاوی کا اصول اس بات پر قائم نہیں ہوسکتا کہ صرف عناصر کی ترکیب کیمیاوی کا وہ نتیجہ ہے بلاشبہ و مانع نے ان کاموں کے جدا جدا اعضا بنائے ہیں جو عناصر کی ترکیب کیمیاوی سے بنے ہیں مگر کوئی دلیل نہیں ہے کہ صرف وہی علت تمام ان امور کے ہیں۔ غرضیکہ یہ سب امور جن کو ہم ایک مختصر لفظ تعقل سے تعبیر کرتے ہیں صرف ترکیب کیمیاوی عناصر کا نتیجہ نہیں ہے۔ ہم عناصر میں فرداً فرداً کوئی ایسے آثار نہیں پاتے جس سے یہ امر ثابت ہو کر عناصر میں تعقل اور اختیار ہے اور جب ان میں یہ صفت حالت انفراد میں نہیں ہے تو حالت ترکیب میں بھی وہ صفت ان سے پیدا نہیں ہوسکتی کیونکہ اختیار اور عدم اختیار دو مخالف صفتیں ہیں اور صفت کہ اجزا میں نہیں ہے تو ان سے جو چیز کہ مرکب ہو اس میں بھی نہیں ہوسکتی یعنی کوئی جنس جو غیر جنس طبیعت اجزا ہو اس شے میں جو ان اجزا سے مرکت ہے حاصل نہیں ہوتی۔
جب کہ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت افعال حیوانات کے ایسے ہیں جو صرف عناصر معلوم کی ترکیب کا نتیجہ نہیں ہیں تو ہم کو ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حیوان میں کوئی ایسی شے ہے جو تعقل کا باعث ہے اور اس نتیجہ پر ہم لازمی طور پر پہنچتے ہیں اور اس لیے حیوانات میں اس شے کے ہونے کا لازمی طور پر یقین کرتے ہیں اور اسی شے کو جو وہ ہو ہم روح کہتے ہیں۔
اب یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے مگر اس سوال کا جواب انسان کی فطرت سے باہر سے انسان کی فطرت صرف اس قدر ہے کہ وہ اشیا کے وجود کو ثابت کرسکتا ہے خواہ وہ اشیا محسوس ہوں یا غیر محسوس مگر ان کی حقیقت کا جاننا اس کی فطرت سے خارج ہے کسی شے کی بھی حقیقت انسان نہیں جانتا ان اشیاء کی بھی حقیقت نہیں جانتا جو ہر دم اس کے سامنے یا اس کے استعمال میں ہیں مثلاً پانی انسان یہ ثابت کرسکتا ہے کہ پانی موجود ہے مگر اس کی حقیقت نہیں بتاسکتا زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس کے اجزا کی اگر اس میں ہوں تشریح کرسکتا ہے اور پھر ان اجزا کی حقیقت نہیں بیان کرسکتا وہ کہہ سکتا ہے کہ پانی میں آکسیجن اور ہائیڈروجن ہے جب پوچھو کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن کیا چیز ہے تو اس کی حقیقت نہیں بتاسکتا پس جب کہ انسان ان چیزوں کی حقیقت نہیں جان سکتا جو اس قدر عام ہیں اگر وہ روح کی ماہیت بھی بعد اس کے کہ اس کے وجود کو ثابت کرچکا ہے نہیں بیان کرسکتا تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
جو چیز کہ ہمارے تجربہ سے خارج ہے جیسے کہ روح اس کی نسبت بجز اس کے کہ دلیل یا قیاس ہے کوئی امر کہیں حسب متقضائے فطرت انسانی اور کچھ کر نہیں سکتے مگر جب ہم کو اس کا وجود حیوانات میں ثابت ہوا ہے اور وہ ایسا وجود ہے کہ جس سے تمام افعال جو حیوانی افعال میں اعلیٰ ترین افعال بلکہ مخصوص بالحیوانات میں و ہی کے سبب سے ہیں تو ہم کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ضروری ہے کہ وہ ایک شی الطف اور جوہر قائم بالذات ہو اور اسی لیے ہم روح کو ایک جسم لطیف جوہر قدیم بالذات تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم کو یہ بات ثابت نہیں ہوئی ہے کہ کوئی اور جسم بطور جوہر کے موجود ہے اور روح اس کے ساتھ قائم ہے بلکہ ہم کو صرف روح کا وجود ثابت ہوا ہے بغیر وجود کسی دوسرے وجود کے اور اس لیے لازم ہے کہ اس کو جوہر تسلیم کیا جاوے نہ عرض۔
مذہب اسلام نے روح کا موجود ہونا بیان کیا مگر اس کی حقیقت بیان نہیں کی خدا تعالیٰ کے اس قول کی نسبت کہ ” قل الروح من امر ربی “ علما نے دو قسم کی گفتگو کی ہے بعضوں کی رائے ہے کہ حقیقت روح سے بحث کرنا جائز نہیں رکھا گیا ہے اور بعضوں کی یہ رائے ہے کہ روح کے قدیم یا حادث یعنی مخلوق ہونے کی نسبت جو مباحثہ تھا اس کا جواب ہے۔ بہرحال اس سے کوئی مطلب سمجھا جاوے مگر جو تفصیل کہ ہم نے اوپر بیان کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت روح کا جاننا بلکہ ہر ایک شے کی حقیقت کا جاننا فطرت انسانی سے خارج ہے۔ قرآن مجید تمام ان چیزوں کی حقیقت کے بیان سے جن کا جاننا فطرت استعمال و مشاہدہ کے باعث لوگوں کا خیال کمتر رجوع ہوتا ہے حالانکہ وہ ان عام چیزوں کی حقیقت بھی کچھ نہیں جانتے اگر وہ لوگ جنہوں نے روح کی نسبت سوال کیا تھا پانی اور مٹی کی نسبت سوال کرتے تو خدا تعالیٰ یہی فرماتا کہ یسئلونک عن الماء والطین قبل الماء والطین من بامرربی غرضیکہ ماہیت اشیا کا جاننا انسانی فطرت سے خارج ہے۔
جب کہ ہم روح کو جوہر تسلیم کرتے ہیں تو اس کے مادی یا غیر مادی ہونے پر بحث پیش آتی ہے۔ مگر جب کہ ہم کو اس کی ماہیت کا جاننا ناممکن ہے تو درحقیقت یہ قرار دینا بھی کہ وہ مادی ہے یا غیر مادی ناممکن ہے دنیا میں بہت سی چیزیں موجود ہیں جو باوجود اس کے کہ وہ محسوس بھی ہوتی ہیں اور ان کے مادی یا غیر مادی ہونے کی نسبت فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ مثلاً ہم ایک شیشہ کے پے کے ذریعہ سے الکٹرسٹی یعنی بجلی نکالتے ہیں اور وہ نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ٹھوس اجسام میں سرایت کر جاتی ہے۔ انسان کے بدن سے گزر جاتی ہے۔ بعض ترکیبوں سے ایک بوتل میں یا انسان کے بدن میں محبوس ہوجاتی ہے۔ بعض ٹھوس اجسام ایسے ہیں جن میں نفوذ نہیں کرسکتی۔ مگر اس کی ماہیت کا اور یہ کہ وہ شے مادی ہے یا غیر مادی تصفیہ نہیں ہوسکتا طرفین کی دلیلیں شبہ سے خالی نہیں۔ یہی حال روح کے مادی یا غیر مادی قرار دینے کا ہے لیکن اگر وہ کسی قسم کے مادہ کی ہو یا ہم اس کو کسی قسم کی مادی تسلیم کرلیں تو کوئی نقصان یا شکل پیش نہیں آئی۔ البتہ اس قدر ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ جن اقسام مادوں سے ہم واقف ہیں اس کا مادہ ان اقسام کے مادوں سے نہیں ہے کیونکہ ان سے منفرداً یا مجموعاً ان افعال کا صادر ہونا ثابت نہیں ہوتا جو افعال کی روح سے صادر ہوتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ تمام حیوانات میں بسبب اختلاط اخلاط کے قلب میں بخار لطیف پیدا ہوتا ہے جس کو حرارت عزیزی کہتے ہیں اسی سے حیوان کی زندگی ہے جب تک وہ پیدا ہوتا رہتا ہے حیوان زندہ رہتا ہے جب اس کا پیدا ہونا بند ہوجاتا ہے حیوان مرجاتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے گلاب کے پھول میں نمی یا کوئلے میں آگ (اس زمانہ کے موافق ٹھیک مثال یہ ہے کہ جیسے اجسام میں الکٹرسٹی) مگر یہ بخار متولدہ من الاخلاط روح نہیں ہے۔ بلکہ یہ بخار جس کو وہ نسمہ قرار دیتے ہیں روح کا مرکب ہے اور روح کو اس سے متعلق ہونے کے لیے مادہ ہے۔ پس روح اس نسمہ سے متعلق ہوتی ہے اور بذریعہ اس نسمہ کے جسم سے۔
اس دعویٰ کی دلیل وہ یہ لاتے ہیں کہ ہم ایک بچہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ جوان ہوتا ہے اور بڈھا ہوتا ہے اور اس کے بدن کے اخلاط اور وہ روح یعنی نسمہ جوان اخلاط سے پیدا ہوتی ہے ہزاروں دفعہ بدلتے رہتے ہیں۔ وہ بچہ چھوٹا ہوتا ہے پھر بڑا ہوجاتا ہے کبھی گورا رنگ نکلتا ہے کبھی کالا پڑجاتا ہے۔ جاہل ہوتا ہے پھر عالم ہوجاتا ہے اسی طرح بہت سے اوصاف بدلتے رہتے ہیں مگر وہ وہی رہتا ہے جو تھا۔ اگر کسی شخص میں ہم ان اوصاف کے بقا کا یقین نہ کریں تو بھی اس شخص کے بقا کا یقین کرتے ہیں پس وہ شخص اس کے سوا ہے۔ اور جو چیز کہ اس کے سبب سے یہ ہے وہ نہ وہ روح ہے یعنی نسمہ اور نہ یہ بدن ہے اور نہ یہ تشخصات ہیں جو ابتداً خیال میں آتے ہیں بلکہ وہ حقیقی روح ہے۔ وہ چھوٹے کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جیسے کہ بڑے کے ساتھ ہے۔ کالے کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جس طرح کہ گورے کے ساتھ ہے (انتہیٰ المخصا) غرضیکہ جس قدر غور کی جائے حیوان میں علاوہ عناصر مرکبہ کے اور جو نتیجہ اس ترکیب سے ہوتا ہے ایک اور شے بھی پائی جاتی ہے جس سے ارادہ اور تعقل اور ایجاد اور ترقی مراتب تعقل میں صادر ہوتی ہے اور اسی شے کو ہم روح کہتے ہیں۔
المسئلۃ الثانیۃ
روح الانسان وسایں الحیوانات من جنس واحد
بیشک میں اس بات کا قائل ہوں کہ انسان میں اور تمام حیوانات میں ایک ہی سی روح ہے۔ انسان میں بسبب ترکیب اخلاط کے ایک قسم کی روح حیوانی پیدا ہوتی ہے جس کو نسمہ سے تعبیر کیا ہے اور روح حقیقی جو مانحن فیہ ہے اس سے متعلق ہوتی ہے۔ اسی طرح تمام حیوانات میں بھی ترکیب اخلا ہ
سے روح حیوانی پیدا ہوتی ہے۔ ہم حیوانات میں بھی تعقل اور ارادہ پاتے ہیں پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ان میں بھی روح کا ہونا تسلیم نہ کریں۔ اور کوئی دلیل ہمارے پاس ایسی نہیں ہے جس سے ہم احسان کی روح کو اور جنس سے اور حیوانات کی روح کو اور جنس سے قرار دے سکیں۔ اور اس لیے ہم انسان میں اور حیوانات میں ایک ہی جنس کی روح کے ہونے کو تسلیم کرتے ہیں۔
المسئلۃ الثالثۃ
لم لا یصدر من سایرا الحیوانات مایصدر من الانسان
ولم احدھما مکلف والاخر غیر مکلف
جب کہ ہم نے روح کو سبب تعقل و ارادہ تسلیم کیا ہے تو اس سے ضرور لازم آتا ہے کہ روح فی نفسہ مدرک و ذی ارادہ اور مصدر افعال ہے مگر یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ جب کہ وہ مجرد نسمہ سے اور نسمہ مجرد جسم سے ہو تب بھی اس سے افعال صادر ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم کسی درخت کے تخم کو خیال کریں کہ اس میں بلاشبہ مادہ ٹہنیوں اور پتوں اور پھلوں کا موجود ہے مگر حالت موجود میں اس سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوسکتی اسی طرح روح میں تعقل اور مادہ موجود ہے الا جب تک کہ اس کا تعلق نسمہ سے اور نسمہ کا تعلق بدن سے نہ ہو اس سے وہ افعال صادر نہیں ہوسکتے۔ صدور افعال کے لیے جسم کی ضرورت ہے پس اس جسم کی جس قسم کی بناوٹ ہوگی اسی قسم کے افعال اس سے صادر ہوں گے ۔ اس کی مثال بعینہ ایسی ہے جیسے دخان اور دخانی کل۔ دخانی کل کے تمام پرزوں کو حرکت دینے والی صرف ایک چیز ہے یعنی دخان (دخان کے لفظ کا استعمال اس جگہ صحیح نہیں ہے بلکہ بھاپ کا استعمال زیادہ مناسب تھا مگر جو کہ عموماً دخانی
کل عام لوگوں میں مشہور ہے اس لیے اسی لفظ کا استعمال کیا ہے) مگر جس قسم کے پرزے بنائے گئے ہیں اسی قسم کے افعال ان سے صادر ہوتے ہیں۔ اسی طرح گو انسان اور حیوان میں ایک جنس کی روح ہے مگر ہر ایک سے بمقتضائے اس کی صورت نوعیہ کے افعال صادر ہوتے ہیں۔ انسان کے اعضا کی بناوٹ میں بھی ایک دوسرے سے کچھ فرق ہے اور یہی سبب ہے کہ بعض انسانوں سے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو دوسرے سے صادر ہونے ممکن نہیں ہیں۔ ایک کی آواز نہایت دلکش ہے دوسرے کی نہایت مہیب نہ وہ اپنی آواز کو مہیب کرسکتا ہے اور نہ یہ اپنی آواز کو دلکش بناسکتا ہے ایک کے دماغ کی بناوٹ علوم دقیقہ کے ایجاد کرنے کے لائق ہے دوسرے کے دماغ کی بناوٹ عام بات کے سمجھنے کے بھی لائق نہیں۔ پس روح سے افعال مطابق بناوٹ اس جسم کے صادر ہوتے ہیں جن سے وہ متعلق ہے اور یہی سبب ہے کہ جو کچھ انسان کرسکتا ہے وہ حیوان نہیں کرسکتے بلکہ بہت سے ایسے امر ہیں کہ ایک انسان کرسکتا ہے دوسرا انسان نہیں کرسکتا اور جو حیوان کرسکتا ہے وہ انسان نہیں کرسکتا پس یہ تفاوت ان آلات کا ہے جن کے وسیلہ سے افعال روح کے صادر ہوتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانات کی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ اس سے نہایت محدود افعال صادر ہوسکتے ہیں اور وہ بھی اکثر ایسے ہیں جو ان کی زندگی کے لیے ضروری ہیں اور اس تمام نوع کے ایک ہی قسم کے افعال ہوتے ہیں اور قریباً وہ سب افعال ایسے ہوتے ہیں کہ بلا تعلیم واکتساب ان کو حاصل ہوجاتے ہیں۔ ان سے کوئی افعال ایسے صادر نہیں ہوسکتے جن سے روح کی ترقی تا تنزل کو کچھ تعلق ہو اور ان سے روح کو اکتساب سعادت یا شقاوت حاصل ہو اور اس سبب سے وہ مکلف نہیں ہیں برخلاف انسان کے کہ اس کی بناوٹ ایسی ہے جس سے افعال غیر محدود صادر ہوسکتے ہیں ان میں ترقی ہوسکتی ہے ان میں تنزل آجاتا ہے ایک انسان سے کسی قسم کے ایک سی قسم کے افعال صادر ہوتے ہیں وہ علوم عقلیہ اور الٰہیہ کا انکشاف کرسکتا ہے اس کے اور اکات اور انکشافات کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس سے ایسے افعال صادر ہوتے ہیں جو روح کے لیے باعث اکتساب سعادت یا شقاوت ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ مکلف ہے۔
المسئلۃ الرابعۃ
ان للروح اکتساب سعادۃ وشقاوۃ
یہ مسئلہ بلاشبہ نہایت دقیق مسئلہ ہے اس کے ثبوت کے لیے یعنی دلیل کا ہونا قانون قدرت کے برخلاف ہے مگر اس کے لیے ایسی قیاسی دلیلیں موجود ہیں جو اس بات پر یقین دلا سکتی ہیں کہ روح سعادت یا شقاوت کا اکتساب کرتی ہے۔
یہ امر تسلیم ہوچکا ہے کہ تعقل اور ارادہ روح کا خاصہ ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ان چیزوں کو اکتساب کرتا ہے جو اس میں پہلے نہ تھیں۔ وہ جاہل ہوتا ہے پھر علوم کا اکتساب کرکے عالم ہوجاتا ہے وہ حقائق اشیاء کو جہاں تک کہ ان کا جاننا قانون قدرت کی رو سے ممکن ہے نہیں جانتا پھر تجربہ اور تحقیقات سے ان کا اکتساب کرلیتا ہے۔ جب کہ وہ پیدا ہوا تھا اس کے خیالات بالکل سادے حیوان کی مانند تھے رفتہ رفتہ وہ مختلف باتوں کو اکتساب کرتا جاتا ہے جس سوئٹی میں وہ پرورش پاتا ہے اس کی تمام مادی و غیر مادی عادتیں اور خیالات کو اکتساب کرلیتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بعض دفعہ نہایت نجس اور ناپاک میلا کچیلا سور کی مانند زندگی اختیار کرتا ہے اور کبھی نہایت صفائی اور ستھرائی اور اجلے پنے سے زندگی بسر کرتا ہے۔
یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کبھی اس میں نہایت شفاک اور بےرحم عادتیں ہوتی ہیں وہ خونخوار ہوتا ہے مردم آزاری کرتا ہے تمام قوائے بہیمہ اس پر ایسا غلبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک حیوان درندہ بصورت انسان ہوجاتا ہے۔ کبھی اس میں ایسی صلاحیت اور نیکی رحم اور تواضع ، بردباری اور سب کے ساتھ محبت و ہمدردی پیدا ہوتی ہے کہ ایک فرشتہ بصورت انسان دکھائی دیتا ہے۔ ان تمام فضائل و رزائل کو وہی شے اکتساب کرتی ہے جس کا خاصہ تعقل و ارادہ ہے یعنی روح کیونکہ انسان کا جسم اور تمام اعضائے اندرونی تو برابر تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تعقل ارادہ ان اعضا کا خاصہ تھا۔ یہ ایسی واضح دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ روح سعادت و شقاوت کا اکتساب کرتی ہے اور اس کی حالت بنسبت اس کے جس کا اس نے اکتساب کیا ہے تبدیل ہوجاتی ہے۔ فعیدان اکتسب سعادۃ وشقی ان اکتسب شقاوۃ۔
المسئلۃ الخامسۃ
ان للانسان موت فما حقیقۃ الموت وللروح بقاء بعد مفارقۃ الابدان
امید ہے کہ ہم اور ہمارے اس کتاب کے پڑھنے والے ضرور ایک دن اس کی واقعی حقیقت سے واقف ہونے والے ہیں مگر اس زندگی میں جس قدر کہ موت کا حال معلوم ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ فلاط کے تغیر یا کسی ایسے عضو میں نقصان پہنچنے کے سبب جس سے ان بخارات کی تولید یا بقا کو زیادہ تعلق ہے جو ترکیب اخلاط سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کو نسمہ سے تعبیر کیا ہے ان کی تولید موقوف ہوجاتی ہے اور موجودہ مضحمل ہوجاتے ہیں اس وقت انسان یا حیوان مرجاتا ہے اور روح جس کو بدن سے تعلق اسی نسمہ کے سبب سے تھا جسم سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔
مگر غور طلب یہ بات ہے کہ جس قدر زمانہ تک روح کو نسمہ سے مصاحبت رہی ہے اس سے کچھ تاثر روح میں ہوتا ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو بعد مفارقت ابدان وہ تاثر اس میں باقی رہتا ہے یا نہیں۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تمام اجسام لطیف جب آپس میں ملتے ہیں تو ایک اور قسم کا جسم حاصل کرلیتے ہیں۔ اگر کیمیاوی ترکیب پر خیال کا جاوے تو تمام اجسام سخت ہے سخت و ثقیل سے ثعیل کی ترکیب صرف اجسام لطیف ہوائی سے ہے جن کو علم کیمیاوی میں گیس یا بخارات سے تعبیر کیا ہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں پائی جاتی کہ روح کو نسمہ کے ساتھ ملنے سے تاثر نہ ہوا ہو اور اس نے کوئی جسم جو اس کے پہلے جسم سے کسی امر میں مختلف ہو حاصل نہ کیا ہو۔ اس کی تسلیم کے بعد کوئی وجہ نہیں پائی جاتی کہ بدن سے مفارقت کرنے کے بعد پھرنی الفور روح کا وہ جسم بھی جو اس نے نسمہ کی مصاحبت سے حاصل کیا ہے تحلیل ہوجاوے۔ نتیجہ اس تقریر کا یہ ہے کہ روح نسمہ کی مصاحبت سے ایک اور جسم لطیف حاصل کرتی ہے اور وہ جسم روح اور نسمہ سے ترکیب پایا ہوا ہوتا ہے اور بدن سے مفارقت کرنے کے بعد بھی وہ جسم علے حالہ باقی رہتا ہے گو بعدکو روح کا کسی وقت نسمہ سے علیحدہ ہوجانا بھی ممکن ہو کیونکہ جن اسباب سے دو جسم لطیف آپس میں مل کر ایک نیا جسم پیدا کرتے ہیں وہ دیگر اسباب سے تحلیل بھی ہوجاتے ہیں یعنی ایک دوسرے سے علیحدہ بھی ہوجاتے ہیں پس یہی حال روح و نسمہ کا ہوتا ہے۔ ہوا میں پھولوں کے اجزائے لطیف ملنے سے تمام ہوا خوشبودار اور غلیظ چیزوں کے اجزائے رقیق ملنے سے بدبودار ہوجاتی ہے اور پھر وہ اجزا تحلیل ہوجاتے ہیں اور ہوا علیٰ حالہ صاف رہ جاتی ہے۔ اسی طرح وہ اسجام جو ترکیب کیمیاوی سے مرکب ہیں دیگر اسباب وت اثرات سے تحلیل ہوجاتے ہیں پس روح و نسمہ میں ترکیب کیمیاوی ہوئی ہو یا غیر کیمیاوی اس کا تحلیل ہونا ممکن ہے۔
جب روح کو ایک جسم لطیف جو ہر مستقل بالذات تسلیم کیا جاوے جیسا کہ ہم نے تسلیم کیا ہے تو اس کا فنا ہونا محالات سے ہے تمام چیزیں جو دنیا میں موجود ہیں کوئی بھی ان میں سے معدوم نہیں ہوتی صرف تبدیل صورت ہوتی ہے پانی آگ سے یا دھوپ کی تیزی سے خشک ہوجاتا ہے مگر معدوم نہیں ہوتا صرف صورت کی تبدیل ہوتی ہے آکسیجن اور ہائیڈروجن علیحدہ علیحدہ ہوجاتے ہیں آکسیجن آکسیجن میں ہائیڈروجن ہائیڈروجن میں مل جاتی ہے اور ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز معدوم نہیں ہوتی پس روح کے معدوم ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے غایت مافی الباب یہ ہے کہ جب تمام اشیائے موجودہ میں تبدیل صورت ہوتی رہتی ہے تو روح میں بھی تبدیل صورت ہوتی ہوگی اس کی امتناع پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر اس کے تسلیم کرلینے سے کوئی شکل مذہب اسلام میں پیش نہیں آتی بلکہ بعض خیالات کی جو اہل اسلام میں مروج ہیں اور میری تحقیق میں ان کی بنا کسی معتبر سند پر نہیں ہے تائید ہوتی ہے۔ غرضیکہ روح کے وجود کو تسلیم کرنے کے ساتھ ہی اس کے بقا کا تسلیم کرنا بھی لازم آتا ہے۔
المسئلۃ السادسۃ
ان سلمنا البقاء للروح فما حقیقۃ البعث والحشر والنشر
بعث وحشر و نشر کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا چاہیے کہ قیامت کے دن کائنات کا کیا حال ہوگا اور قرآن مجید میں اس کی نسبت کیا بیان ہوا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے اس لیے اولاً ہم قیامت کا ذکر کرتے ہیں۔
قیامت
قیامت کے دن کائنات کا جو حال ہوگا وہ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیتوں میں مذکور ہے :
۔ یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات وبرز اللہ الواحد القھار (سورة ابراھیم )
۔ اس دن بدل دی جاویگی زمین سوائے اس زمین کے اور بدل دیئے جاوینگے آسمان اور حاضر ہوں گے سامنے خدا سے واحد قہار کے۔
۔ یوم تکون السماء کالمھل وتکون الجبال کالعھن، (سورة المعارف -)
۔ جس دن کہ ہوگا آسمان تیل کی تلچھت کی مانند اور ہو وینگے پہاڑ رنگ برنگ کے اون کی مانند۔
۔ یوم یکون الناس کالفراش لمبثوث وتکون الجبال کالعھن المنقوش (سورة القارعہ - )
۔ جس دن ہوجاوینگے آدمی پر گندہ ٹڈیوں کی مانندہ اور ہو جاوینگے پہاڑ رنگ برنگ کی دھنی ہوئی اون کی مانند۔
۔ کلا اذا اوکت الارض دکا دکا وجاء ربک والملک صفا صفا (سورة الفجر - )
۔ جس وقت توڑی جاویگی زمین ریزہ ریزہ اور آے گا تیرا پروردگار اور فرشتے صف کے صف۔
۔ فاذا نفخ فی الصور نفخسۃ واحدۃ وحملت الارض والجبال فدکتنا وکۃ واحدۃ فیومئذ وقعت الواقعۃ وانشقت السماء فھی یومئذ واھیہ والملک علیٰ ارجائھا ویحمل عرش ربک یومئذ ثمانیہ (سورة الحاقہ - )
۔ پھر جب پھونکا جاویگا صور میں ایک دفعہ کا پھونکنا اور اٹھائی جاویگی زمین اور پہاڑ پھر توڑے جاوینگے ایک دفعہ کے توڑنے سے پھر اس دن ہو پڑے گی ہونے والی (یعنی قیامت) اور پھٹ جائے گا آسمان پھر وہ اس دن ہوجائے گا ڈھیلا اور فرشتے ہوں گے اس کے کناروں پر اور اٹھا وینگے تیرے پروردگار کے عرش کو ان کے اوپر اس دن آٹھ۔
۔ یوم ترجف الارض والجبال وکانت الجبال کثیبا ھیلا (سورة المزمل )
۔ اس دن کہ کانپے گی زمین اور پہاڑ اور ہوجاوینگے پہاڑ ٹیلے بھربھر سے ریت کے۔
۔ یوما یجعل الولدان شیبا السماء منفطربہ (سرہ مزمل - )
۔ وہ دن کہ کردیگا لڑکوں کو بڈھا آسمان پھٹ گیا ہوگا اس دن میں۔
۔ ان یوم الفصل کان میقاتا یوم ینفخ فی الصور فتاتون افواجا وفتحت السماء فکانت ابوابا و سیرت الجبال فکانت سرابا (سورة النباء - )
۔ بیشک فیصلہ کے دن کا وقت مقرر ہے جس دن پھونکا جاویگا صور میں تو تم آؤ گے گروہ گروہ اور رکھولا جاویگا آسمان اور وہ ہوجاویگا دروازے دروازے اور چلائے جاوینگے پہاڑ پھر ہوجاوینگے چمکتی ریت کی مانند۔
۔ اذا السماء انشقت واذنت لربھا وحقت واذا الارض مدت والقت ما فیھا وتخلت واذنت لربھا وحقت (سورة انشقاق - )
۔ جس وقت کہ آسمان پھٹ جاویگا اور کان لگائے رہیگا اپنے پروردگار کے (حکم پر ) اور وہ اسی لائق ہے اور جب کہ زمین پھیلائی جاویگی اور ڈال دیگی جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہوجاویگی اور کان لائے دیگی اپنے پروردگار (کے حکم) پر اور وہ اسی لائق ہے۔
۔ فاذا انشقت السماء فکانت وردۃ کالدھان (سورة الرحمن)
۔ پھر جب پھٹ جاویگا آسمان تو ہوگا سرخ لال رنگے ہوئے چمڑے کی مانند۔
۔ اذا السماء انفطرت واذا الکواکب انتثرت واذا البحار فجرت واذا القبور بعثرت علمت نفس ما قدمت واخرت (سورة انفطار - )
۔ جب کہ آسمان پھٹ جاویگا اور جب کہ تارے جھڑ پڑینگے اور جب کہ سمندر پھوٹ بہینگے اور جب کہ قبریں پھاڑی جاوینگی جان لے گی ہر جان جو کچھ آگے بھیجا ہے اور پیچھے چھوڑا ہے۔
۔ اذا الشمس کو ریت واذا النجوم انکدرت واذا الجبال سیرت واذا العشار عظلت واذا الوحوش حشرت واذا البحارسجرت واذا النفوس زوجت واذا الموودۃ سئلت بای ذنب قتلت واذا الصحف نشرت واذا السماء کشطت واذ الجحیم سعرت واذا الجنۃ ازلفت علمت نفس ما احضرت۔ (سورة التکویر - )
۔ جبک سورج لپٹا جاویگا اور جب کہ تارے دھند لے ہوجاوینگے اور جب کہ پہاڑ چلائے جاوینگے اور جب کہ دس مہینے کی گابھن اونٹنی بیکار چھٹی رہیگی اور جب کہ وحشی جانور (آدمیوں کے ساتھ) اکٹھے کئے جاوینگے اور جب کہ سمندر آگ کی مانند بھڑکائے جاوینگے اور جب کہ جانیں جوڑا جوڑا کی جاوینگی اور جب کہ زندہ گاڑی ہوئی لڑکی پوچھی جاویگی کہ کس گناہ کے بدلے وہ ماری گئی اور جب کہ اعمال نامے کھولے جاوینگے اور جب کہ آسمان کی کھال کھینچی جاویگی اور جس وقت دوزخ دھکائے جاوینگی اور بہشت پاس لائے جاوینگے جان لے گی ہر جان کہ کیا حاضر لائی ہے۔
۔ اذارجت الارض رجا وبست الجبال بافکانت ھباء مبشا (سورة الواقعہ -)
۔ جب کہ بلائی جاویگی زمین زور کے ہلانے سے اور ذرہ ذرہ کئے جاوینگے پہاڑ بہت چھوٹے چھوٹے ذرہ پھر ہوجاوینگے پھیلے ہوئے غبار کی مانند۔
۔ وما قدروا اللہ حق تدرہ والارض جمیعا تبضتہ یوم القیامۃ والسموات مطویات بیمینہ سبحانہ وتعالیٰ عما یشرکون۔ و نسفخ فی الصور فصعق من فی السموات ومن فی الارض الا من شاء اللہ ثم نفخ فیہ اخری فاذاھم قیاما ینظرون واشرقت الارض بنور ربھا ووضیع الکتاب وجی بالنبیین والشھداء وقضی بینھم بالحق وھم لا یظلمون (سورة زمر -)
۔ اور نہیں قدر کی انھوں نے اللہ کی حق اس کی قدر کرنے کا اور ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان لپٹے ہوں گے اس کے دائیں ہاتھ پر پاک ہے وہ اور برتر ہے اس سے کہ اس کا شریک کرتے ہیں۔ اور پھونکا جاویگا صور میں پھر بیہوش ہوجاویگا جو آسمانوں میں سے مگر جس کو چاہے خدا۔ پھر پھونکا جاویگا جو آسمانوں میں سے مگر جس کو چاہے خدا۔ پھر پھونکا جاویگا صور میں دوسری دفعہ یکایک وہ کھڑے ہوئے ہونگی دیکھتے۔ اور روشن ہوجاویگی زمین اپنے پروردگار کے نور سے اور رکھی جاویگا پیغمبروں کو اور گواہوں کو اور فیصلہ کیا جاویگا ان میں (یعنی لوگوں میں) ساتھ حق کے اور وہ نہ ظلم کئے جاوینگے۔
۔ یوم تاتی السماء بدخان مبین یغشی الناس ھذا عذاب الیم۔ (سورة دخان۔ )
۔ جس دن آویگا آسمان دھواں ہو کر ڈھانک لے گا لوگوں کو یہ ہے عذاب دکھ دینے والا۔
۔ ویوم ینفخ فی الصور ففزع من فی السموات ومن فی الارض الامن شاء اللہ وکل ان وہ داخرین وتری الجبال تحیھا جامدۃ وھی قرمرا السحاب (سورة نمل۔ )
۔ اور جس دن پھونکا جاویگا صور میں تو گھبرا جاویگا جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں مگر جس کو چاہے اللہ اور ہر ایک اس کے سامنے آوینگے ذلیل ہو کر۔ اور تو دیکھے گا پہاڑوں کو (جن کو) تو سمجھتا ہے جمے ہوئے کہ وہ چلے جاتے ہیں بادل کے چلنے کی مانند۔
۔ یوم تمورالسماء من را وتسیر الجبال سیرا (سورة الطور)
۔ جس دن کہ پھٹ جاویگا آسمان اچھی طرح کے پھٹنے سے اور چلنے لگے گے پہاڑ ایک قسم کے چلنے سے۔
۔ فاذالنجوم ظلمت واذا السماء فرجت واذا الجبال نسفت (سورة مرسلات - )
۔ جب کہ تارے بےنور کئے جاوینگے اور جب کہ آسمان پھاڑے جاوینگے اور جب کہ پہاڑ ریزہ ریزہ کئے جاوینگے۔
۔ اذا زلزلت الارض زلزالھا واخرجت الارض اثقالھا (سورة الزلزلہ - )
۔ جب کہ زمین ہلائی جاویگی اپنے ہلنے سے اور نکالے گی زمین اپنے بوچھ۔
۔ کل من علیھا فان ویبقے وجہ ربک ذوالجلال والاکرام (سورة الرحمن - )
۔ جو کوئی زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے اور باقی رہیے گی ذات تیرے پروردگار بزرگی والے اور اکرام والے کی۔
اب دیکھنا چاہیے کہ ان آیتوں میں نسبت کائنات موجودہ کے کیا بیان ہوا ہے۔
زمین۔ کی نسبت بیان ہوا کہ ۔ بدل دی جاویگی زمین سوائے اس زمین کے۔ اور یہ بیان ہے کہ زمین ریزہ ریزہ کردی جائے گی صور پھونکنے کے ساتھ زمین اٹھائی جائے گی اور ایک دفعہ میں توڑ دیجائیگی۔ قیامت کے دن زمین کپکپائی اور ہلائی جاویگی۔ قیامت میں زمین خدا کی مٹھی میں ہوگی۔ زمین کھینچی جاویگی یا پھیلائی جاویگی اور جو کچھ اس میں ہے وہ ڈال دے گی اور خالی ہوجاویگی۔
پہاڑوں ۔ کی نسبت بیان ہوا ہے کہ وہ رنگ برنگ کی دھنی ہوئی اون کی مانند ہوجاوینگی۔ صور پھوکنے پر پہاڑ اٹھائے جاوینگے اور توڑ دیئے جاوینگے۔ وہ ہلائے جاوینگے اور بھر بھری ریت کے ٹیلے کی مانند ہوجاوینگے۔ وہ ذرہ ذرہ کئے جاوینگے اور غبار کی مانند ہوجاوینگے۔ وہ جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ بادلوں کی چلی جاتے ہوں گے یا ایک طرح کے چلنے سے چلتے ہوں گے ۔ وہ سراب یعنی چمکتے ہوئے ریت کی مانند ہوجاوینگے۔
سمندر۔ کس نسبت بیان ہوا ہے کہ آگ کی مانند بھڑکائے جاوینگے۔ اپنی جگہ سے پھوٹ پڑینگے۔
آسمانوں۔ کی نسبت بیان ہوا ہے کہ آسمان بدل دیئے جائینگے سو ائے ان آسمانوں کے۔ وہ تیل کی تلچھٹ کی مانند ہوجاوینگے۔ وہ پھٹ جاوینگے سرخ رنگے ہوئے چمڑے کی مانند ہوں گے اور ڈھیلے و سست پڑجائینگے اور دروازے دروازے کی مانند ہوجائینگے وہ خدا کے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لیے جائینگے۔ وہ دھوئیں کی مانند ظاہر ہوں گے ۔ وہ پھٹ جائینگے اور ایک طرح کے چلنے سے چلینگے۔ ان کی کھال کھینچی جائے گی ۔
سورج اور تاروں۔ کی نسبت بیان ہوا ہے کہ۔ سورج لپیٹ لیا جائے گا تارے جھڑ جائینگے اور ایک جگہ آیا ہے کہ تارے دھندلے ہوجائینگے بےنور ہوجائینگے۔
انسان اور نفوس۔ کی نسبت بیان ہوا ہے کہ ۔ آدمی ٹڈیوں کی مانند پراگندہ ہوجائینگے۔ لڑکے بڈھے ہوجائینگے آدمی یا روحیں فوج فوج آوینگے۔ وحشی جانور آدمیوں کے ساتھ اکٹھے ہوجائینگے۔
سورة الرحمن میں کہا ہے کہ جو کوئی زمین پر سے فنا ہونے والا ہے اور پروردگار کی ذات باقی رہیگی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 39

وَ قَالَتۡ اُوۡلٰىہُمۡ لِاُخۡرٰىہُمۡ فَمَا کَانَ لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ ﴿٪۳۹﴾

تفسیر سرسید :

اب غور کرنا چاہیے کہ اگلے علما نے ان آیتوں کی نسبت کیا کہا ہے اور کیا نتیجہ نکالا ہے۔ سورة ابراہیم میں جو یہ آیا ہے کہ قیامت میں زمین اور آسمان بدل جائینگے اس کی نسبت تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بدن دو طرح پر ہوسکتا ہے ایک اس طرح کہ اس شے کی ذات باقی رہے اور اس کی صفتیں بدل جاویں۔ دوسرے اس طرح کہ اس شے کی ذات فنا ہوجاوے اور اس کی جگہ دوسری موجود ہوجاوے۔ اس کے بعد تفسیر کبیر میں بموجب محاورہو عرب کے اس کی مثالیں لکھی ہیں کہ تبدل کے لفظ کا استعمال دونوں طرح پر ہوتا ہے۔ اسی بنا پر ایک گروہ عالموں کی یہ رائے کہ
نفی الآیتہ قولان۔ الاول ان المراد تبدیل الصفۃ لا تبدیل الذات قال ابن عباس (رض) ھی تلک الارض الا انھا تغیرت فے صفا تہا فتسیر عن الارض جبالھا و تفجر بحارھا وتسوی فلا یری فیھا عوج ولاامت۔ وروی ابوھیرۃ (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ قال یبدل اللہ الارض غیر الارض فیبطھا ویمد مامدا لا دیم العافلی فلا تری فیھاعوجا ولاامتا۔ وقو والسموات ای تبدل السموات غیر السموات وھو کفولہ (علیہ السلام) لا یقتل مومن کافر ولاو و عہد نے عہدہ والمعنی ولا ذوعدفے عہدہ کافرو تبدیل السموات بانستا رکوالبھا وانفطارھا ونکویر شمسہا وخوف قمر ھاوکونھا ابوا باوانھا تارۃ تکون کالمھل وتارۃ تکون کالدھان۔ والقول الثانی ان المراد تبدیل الذات قال ابن مسعود تبدل بارض کا لفضۃ البیضاء النقیۃ لم یسفک علیھا دم ولم تعمل علیہا خطیئۃ ھذا شرح القولین ومن الناس من رجح القول الا ول قال لان تولہ یوم تبدل الارض المراد ھذہ الارض و تبدل صفۃ مضافۃ الیھا وعند حصول الصفۃ
اس آیت میں تبدیل سے آسمان و زمین کی صفات کا تبدیل ہوجانا مراد ہے نہ ان کی ذات کا۔ ابن عباس نے فرمایا کہ زمین سے یہی زمین مراد ہے مگر اس کی صفتیں تبدیل ہوجاویگی۔ پہاڑ زمین پر سے اڑ جاوینگے دریا پھوٹ نکلے گے زمین ایسی برابر ہوجائیں گی کہ کہیں اونچا نیچا نہ دکھائی دے گا۔ حضرت ابوہریرہ نے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ خدا زمین کو بدل دے گا اور عکاظی چمڑے کی طرح اس کو پھیلا کر بچھائے گا کہیں اس میں اونچا نیچا نظر نہ آئے گا۔ خدا کا یہ قول ” السموات “ اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ آسمان بدل کر اور طرح کا کردیاجاویگا جیسا کہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے نہیں مارا جاویگا اور نہ وہ کافر جس سے عہد و پیمان ہے عہدو پیمان کے زمانہ تک ” یعنی وہ شخص بھی کافر کے بدلے نہ مارا جاویگا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے معاہدہ کے زمانہ تک آسمانوں کا بدلنا یوں ہوگا کہ ستارے متفرق ہو کر ٹوٹ پھوٹ جائینگے آفتاب لپیٹ دیا جائے گا چاند دھندلا ہوجائے گا آسمان میں دروازے ہوجائینگے اور وہ کبھی تو تیل کی تلچھٹ کا سا ہوگا اور کبھی سرخ چمڑے کی مانند۔ دوسرا فرقہ کہتا ہے کہ تبدیل سے آسمان و زمین کی لابدوان یکونالموصوف موجودانلما کان الموصوف بالتبدل ھوھذہ الارض وجب کون ھذہ الارض باقیۃ عند حصول ذلک التبدل و لا یمکن ان تکون ھذہ الارض باقیۃ مع صفا تھا عند حصول ذلک التبدل والا لا متنع حصو ل التبدل فوجب ان یکون الباقی ھوالذات فثبت ان ھذہ الایۃ تقتضی کون الذات باقیۃ والقائلون بحذا القول ھم اللذین یقولون عند قیام القیامۃ لا یعدم اللہ الدوات والا جسام وانما یعدم ھنما تھا واحوالہا۔ واعلم انہ لا یبعدان یقال المراد من تبدیل الارض والسموات ھوانہ تعالیٰ یجعل الارض جھنم ویجعل السموات الجنۃ والدلیل علیہ قولہ تعالیٰ کلا ان کتاب الابوار لفی علیین وقولہ کلا ان کتاب الفجار لفی سجین۔ (تفسیر کبیر جلد صفحہ)
ذات کا بدل جانا مراد ہے۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ یہ زمین بدل کر چمکتی ہوئی چاندی بن جائے گی جس پر نہ کبھی خونریزی ہوئی ہے اور نہ کبھی اس پر گناہ کیا گیا ہے۔ بعضوں نے قول اول کو ترجیح دی ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ آیت میں اسی زمین کی نسبت تبدیلی کا لفظ ہے اور چونکہ تبدل ایک صفت ہے تو ضرور ہے کہ اس کے تحقق کے وقت یہی موصوف یعنی یہی زمین موجود ہو یہ بھی ظاہر ہے کہ تبدل کے وقت زمین کی صفتیں تو موجود ہونے کی میں تو اب ذات ہی کا باقی رہنا آیت سے لازم آیا ہے۔ جن لوگوں کا یہ مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ قیامت قائم ہونے کے وقت اللہ پاک جسموں اور ذاتوں کو سرے سے معدوم نہ کردے گا بلکہ صرف ان کی صفتیں معدوم ہوجائیگی۔ ممکن ہے کہ زمین اور آسمان کے بدلنے سے یہ مراد لی جائے کہ زمین کو خدا دوزخ بنادے گا اور آسمانوں کو بہشت۔ اور خدا کا یہ قول ” کلا ان کتاب الابرار لفی علیین کلا ان کتاب الفجار لفی سجین “ اس مطلب کی دلیل ہے۔
ان تمام حالات سے جو اوپر مذکور ہوئے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اس دنیا کے تمام حالات بدل جاوینگے جو چیزیں کہ اب موجود ہیں دو معدوم نہیں ہونے کیں ان کے خواص و اوصاف تبدیل ہوجاوینگے۔
شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی تفہیمات میں واقعات قیامت کو وقائع جو سے تعبیر کیا ہے یعنی ان واقعات کا جو آسمان و زمین کے درمیان میں ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ” تعود تلک الرقائع الی الا نوارا المحیطۃ نیقع ظلھا فیستعد العالم لواقعۃ عظیمۃ من و تابع الجو فتھلک البشر والموالید ویعود کل عنصر لمحلۃ “ انتہیٰ ۔
یعنی واقعات قبل قیامت مثل عالم میں فسادات ہونے اور دجال کے آنے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے تشریف فرمانے کے بعد انوار محیطہ الٰہیہ واقعہ عظیمہ کے ہونے پر متوجہ ہوں گے اور واقعات جو یعنی جو آسمان و زمین کے بیچ میں واقع ہوتے ہیں واقع ہوں گے بشروموالید سب مرجاوینگے اور ہر ایک عنصر اپنی جگہ پر چلاجاویگا۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ یہ نظام الٹ پلٹ ہوجائے گا ۔
تحقیقات جدید کی رو سے جہاں تک معلوم ہوسکا ہے چاند کی نسبت معلوم ہوا ہے کہ کسی زمانہ میں اس میں آبادی تھی اور ہوا مثل کرہ ارض کے اس کے محیط تھی پانی بھی اس میں تھا۔ مگر اب محض ویران اور سوکھ کر کنھگر ہوگیا ہے کوئی ذی نفس اس میں نہیں ہے ہوا بھی اس کی محیط نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض کواکب جو حقیقت میں بہت بڑے بڑے کر ہ زمین سے بھی سینکڑوں حصہ بڑے تھے منتشہ ہوگئے اور ورکروں میں جاملے ۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کا مدار جو گرد آفتا کے ہے چھوٹا ہوتا جاتا ہے پس یہ خیال کرنے کی بات ہے کہ زمانہ ممتد کے بعد جس کا اندازہ نہیں ہوسکتا اور گو وہ لاکھوں کروڑوں برس کے بعد ہو جب زمین کا مدار بہت چھوٹا ہوجائے گا تو دنیا کا کیا حال ہوگا۔ کیا سمندر نہ ابل جائینگے۔ کیا پہاڑ ریت کی مانند نہ ہوجائینگے۔ کیا یہ زمین نہ مل جاویگی۔ یہ آسمان جو اسم کو ایسا نیلا نیلا خوبصورت دکھائی دیتا ہے کیا وہ تیل کی تلچھٹ کی ماننا اور کبھی سرخ چمڑے کی مانند نظر نہ آئے گا۔ کیا یہ ستارے بےنور نہ دکھائی دینے۔ پس واقعہ قیامت ایک ایسا واقعہ ہے جو امور طبعی کے مطابق اس دنیا پر واقع ہوگا اور ضرور واقع ہوگا مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب واقع ہوگا خدا تعالیٰ نے اس طبعی واقعہ کو جا بجا اور مختلف تشبیہوں سے اس لیے بیان کیا ہے کہ بندوں کو خدا کی قدرت کاملہ پر وثوق ہوا اور اس وحدہ لاشریک کے سوا کسی دوسری چیز کو اپنا معبود نہ بنائیں۔ دنیا میں پہاڑوں کی پرستش ہوتی تھی سمندر پوجے جاتے تھے آگ کی پرستش کی جاتی تھی چاند سورج کی پرستش ہوتی تھی۔ ستاروں کی پرستش ہوتی تھی سمندر پوجے جاتے تھے آگ کی پرستش کی جاتی تھی چاند سورج کی پرستش ہوتی تھی۔ ستاروں کی پرستش کے لیے ہیاکل بنائی گئی تھیں اور ان کی پرستش ہوتی تھی اس لیے دخا نے اس طبعی واقعہ کو جتلایا کہ یہ سب چیزیں ایک دن فنا یعنی متغیر ہونے والی ہیں اور ان میں کوئی بھی معبود ہونے کے لائق نہیں ہے پس قیامت کا ذکر جا بجا اسی پر فرض ہے
آیا ہے کہ عجائب مخلوقات خدا کی جن میں مخلوقات زمین اور آسمان اور کواکب زیادہ تر عجیب دکھائی دیتے ہیں اور جن کی پرستش انواع اقسام سے لوگوں نے اختیار کی تھی اس کو چھوڑیں اور صرف خدا واحد کی جو ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا اور پھر فنا کرنے والا ہے پرستش اختیار کریں۔
یہ قیامت جس کا اوپر ذکر ہوا یہ تو کائنات پر گزرے گی مگر اصلی قیامت جو انسان پر گزرے گی وہ وہ ہے جس کا ذکر سورة قیامہ میں آیا ہے اور اس کا خلاصہ ان دو لفظوں میں ہے کہ ” من مات فقد قامت قیامتہ “ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
یسئل یان یوم القیامۃ ۔ فاذا برق البصر ومحسف القمر وجمع الشمس والقمر یقول الانسان یومئذ این المفر کلا لا وزدالی ربک یومئذ المستقرینبوالانسان یومئذ بما قدم واخر بل الانسان ھلی نفسہ بصیرۃ والوالقی معاذیرہ (سورة قیامہ ) وجوہ یومئذ ناضرۃ الی بھاناظرہ ووجوہ یومئذ باسرۃ تظن ان یفعل بھا فاترہ کلا اذابلغت التراتی ویامن راق وظن انہ الفراق والتفت الساق بالساق الی ربک یومئذ المساق (سورة قیامہ )
کہ انسان پوچھتا ہے کہ کب ہوگا قیامت کا دن پھر (وہ دن اس وقت ہوگا) جب کہ آنکھیں پتھرا جائینگی چاند کالا پڑجائے گا یعنی آنکھوں کی روشنی جاتی رہیگی اور آنکھیں اندر بیٹھ جاوینگی چاند سورج یعنی رات دن اکٹھے ہوجائینگے کہ اس کو کچھ تمیز نہ رہیگی کہ دن ہے یا رات سب چیز دھندلی دکھائی دے گی اور اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ انسان دن میں کسی وقت مرے اس کو شام کا وقت دکھائی دیگا۔ انسان کہے گا کہ اس دن بھاگ جانے کی کہاں جگہ ہے ہرگز کوئی جگہ پناہ کی نہیں۔ تیرے پروردگار ہی کے پاس اس دن ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اس دن جان لے گا انسان کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔ بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب پہچانتا ہے گو کہ درمیان میں بہت سے عذر لاڈالے۔
اس کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اس دن کتنے منہ تروتازہ ہوں گے اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے اور اس دن کتنے منہ تھوتائے ہوئے ہوں گے گمان کرینگے کہ ان پر مصیبت پڑنے والی ہے۔ جس وقت کہ جان نرخرے میں پہنچتی ہے اور کہا جاتا ہے کون۔ پھر آواز نہیں نکلتی اتنا ہی کہہ کر چپ ہوجاتا
ہے ۔ پھر کہا جاتا ہے۔ جھاڑنے پھونکنے والا۔ پھر چپ ہوجاتا ہے۔ اور جان لیا کہ بیشک اب جدائی ہے اور لپیٹ لیا ایک پنڈلی کو دوسری پنڈلی سے۔ اس دن تیرے پروردگار کے پاس چلنا ہے۔
یہ تمام حالت جو خدا نے بتائی انسان پر مرنے کے وقت گزرتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ قیامت کا دن کب ہوگا بتائی گئی ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر انسان کی اصلی قیامت اس کا مرنا ہے اور ” من مات فقد قامت قیامتہ “ بہت صحیح و سچا قول ہے۔ اگرچہ اگلے علما نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ انسان کی ایسی حالت کب ہوگی بعضوں نے کہا کہ موت کے وقت بعضوں نے کہا کہ بشت کے وقت بعضوں نے کہا کہ دوزخ کو دیکھنے کے وقت مگر قرآن مجید کی عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بیان موت کے وقت کی حالت کا ہے جس میں ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا ۔ جن عالموں نے اس حالت کو وقت موت کے حالت قرار دیا ہے انھوں نے خسف قمر کے لفظ سے آنکھ کی روشنی کا جاتا رہنا مراد لیا ہے تفسیر کبیر میں ہے
فاما من یجعل برق البصر من علامت الموت قال معنی و خسف القمر اے ذھب فؤلبصر عند الموت یقال عین خاسفۃ اذا فقئت حتی غابت حد قتھا فی الراس واھلہا من خسف الارض اذاساخت بما علیھا وقولہ جمع الشمس والقمر کنایۃ عن ذھاب الروح الی عالم الاخرۃ کان الاخرۃ کا لشمس فانہ یظھر فیھا المغیبات وتنفتح فیھا المبہمات و الروح کالقمر یکما ان القمر یقبل النور من اخر فکذالروح تقبل نور المعارف من عالم الاخرۃ ولا تک ان تفسیر ھذہ الایۃ بعلامات القیہ مذاولی من تفسیر ھا بلا مات الموت شند فا معابقۃ لھا۔ (تفسیر کبیر جلدصفحہ -)
” جو لوگ آنکھ کے چوندھیانے کو موت کی علامت قرار دیتے ہیں وہ ” خسف القمر “ کے معنی یہ کہتے ہیں کہ نگاہ کی روشنی جاتی رہے گی ۔ عرب میں جب آنکھ پھوٹ جائے یہاں تک کہ ڈھیلا سر میں بیٹھ جائے تو کہتے ہیں ” عین خاسفہ “ یہ محاورہ خسف الارض سے نکلا ہے جس کا استعمال زمین کے دھنس جانے کے وقت ہوتا ہے۔ اور خدا کا یہ قول ” جمع الشمس والقمر “ روح کے عالم آخرت کی طرف پہلے جانے سے کنایہ ہے گویا وہ دوسری دنیا ایک آفتاب ہے کیونکہ اس میں چھپی اور مبہم باتیں کھل پڑینگی اور روح گویا چاند ہے جس طرح چاند آفتاب سے روشنی پاتا ہے۔
اسی طرح روح بھی عالم آخرت سے معرفت کے انوار حاصل کرتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس آیت کی تفسیر قیامت کی علامتوں سے کرنی اس سے کہیں بہتر ہے کہ اس کی تفسیر موت کی علامتوں سے کی جاوے۔
صاحب تفسیر کبیر کا یہ کہنا کہ اس آیت کی تفسیر علامات قیامت سے کرنی بنسبت علامات موت کے بہتر ہے کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا الفاظ کلا اذا بلغت التراقی وقیل من راق وظن انہ الفراق والتفت الساق بالساق الی ربک یومئذ المساق بالکل شاہد اس بات پر ہیں کہ اس تمام سورة میں جو حالات مذکور ہیں وہ حالات عنہ الموت کے ہیں۔ جمع الشمس والقمر کی جو توضیح تفسیر کبیر میں بیان ہوئی ہے وہ بھیدوراز کار ہے۔ خسف قمر یعنی آنکھوں کی روشنی جانے اور آنکھوں کے بیٹھ جانے کے بیان کے بعد جمع الشمس والقمر کا لفظ صاف دلالت کرتا ہے ان دونوں میں تمیز نہ رہنے کا چاند کا تعلق رات سے ہے اور سورج کا دن سے اس لیے ان دونوں سے رات دن کا کنایہ کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت اس بات کی تمیز کہ دن ہے یا رات کچھ نہ ہوگی۔
ہمارے اس بیان سے یہ مطلب نہیں ہے کہ جو واقعات کائنات پر ایک دن گزرنے والے ہیں اور جن کا بیان پہلے ہوچکا وہ نہ ہوں گے بلکہ وہ اپنے وقت پر ہوں گے اور جو کچھ ان میں ہونا ہے وہ ہوگا اور اس زمانہ کے انسان اور وحوش وطیور پر جو کچھ گزرنا ہے گزریگا اور اس وقت جو حال روحونکا اور ملائکہ کا ہونا ہے وہ ہوگا۔ مگر جو لوگ اس سے پہلے مرچکے ہیں ان کے لیے قیامت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جب کہ وہ مرے۔
حشراجساد
حشر اجساد کی نسبت جیسا کہ شرح مواقف میں لکھا ہے پانچ مذہب ہیں
اعلم ان الاقوال الممکنۃ فی مسئلۃ المعاد لا تزید عن خمسۃ (الاول) ثبوت المعاد الجسمانی فقط وھو قول اکثر المتکلفین النافین للنفس الناقطۃ (والشافی) ثبوت المعاد الروحانی فقط وھو قول الملا سفۃ الالھین (والثالث) ثبوتھما معا وھو قول کثیر من المحققین کالحلیمی والغزالی والراغب وابوزید الدبوسی ومعمر من تدماء المعتزلہ وجمہورمتاخری الا مامیۃ و کثیر من المصوفیۃ فاتھم قالوا الانسان بالحقیقۃ ھوالنفس النا طقۃ وھی للکلف والمطیع والعاصی
معاد کے مسئلہ میں جو اقوال کہے جاسکتے ہیں وہ صرف پانچ ہیں۔ ( ) صرف معاد جسمانی کا ثبوت اور یہ اکثر ان متکلمین کا مذہب ہے جو نفس ناطقہ کا انحار کرتے ہیں صرف معاد روحانی کا ثبوت یہ مذہب فلاسفہ الہیین کا ہے ، دونوں کا ثبوت، اور یہی اکثر محققوں کا مذہب ہے مثلاً عیمی۔ غزالی۔ راغب ابوزیدالدیوسی۔ معمر ( جو کہ قدیم معتزلیوں میں سے ہے) اور عموماً متاخرین شیعہ اور اکثر صوفیوں کا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان حقیقت میں صرف نفس تاملقہ کا نام ہے وہی مکلف ہے وہی طاصی ، نور مطیع ہے اسی پر ثواب عذاب ہوتا ہے اور بدن تو بجائے ایک آلہ کے کام دیتا ہے جسم خراب ہوجاتا ہے پھر یہی نفس باقی رہتا ہے پس جب خدا قیامت کے دن مخلوقات کو اٹھانا چاہے گا تو ہر ایک روح کے لیے ایک مخصبین جسم بنادیگا جس سے روح کا تعلق ویسا ہی ہوگا جیسا کہ دنیا میں تھا ان دونوں میں سے کسی کا ثبوت نہیں فزاسفہ بلیعیین میں سے قدما کا یہی مذہب ہے بالکل سکوت اختیار کرنا یہ مذہب جالینوس سے منقول ہے اس کا قول ہے کہ مجھ کو یہ نہیں ثابت ہوتا کہ نفس آیا مزاج ہے تو موت کے وقت معدوم ہوجاویگا تو اس کا اعادہ ناممکن ہوگا یا وہ ایک جوہر سے جو بدن کے خراب ہونے پر باقی رہتا ہے اس حالت میں معاد بھی ممکن ہوگی۔
میرے نزدیک قول ثالث جو مذہب اکثر محققین کا ہے صحیح ہے صرف اس قدر اختلاف ہے کہ میں ان بزرگوں کی اس رائے کو کہ جب خدا تعالیٰ حشر کرنا چاہیے گا تو ہر ایک روح کے لیے ایک جسم پیدا کردے گا جس سے وہ روح متعلق ہوجاویگی تسلیم نہیں کرتا میرے نزدیک یہ بات ہے کہ روح نسمہ سے جب مل جاتی ہے تو خود ایک جسم پیدا کرلیتی ہے اور جب انسان مرتا ہے اور روح اس سے علیحدہ ہوتی ہے تو خود ایک جسم رکھتی ہے۔ جیسے کہ مسئلہ خامسہ میں ہم نے بیان کیا ہے پس حشر میں کوئی نئی زندگی نہیں ہے بلکہ پہلی ہی زندگی کا تتمہ ہے شاہ ولی اللہ صاحب کا بھی یہی قول ہے جیسا کہ انھوں نے حجۃ اللہ البالغہ میں کہا ہے۔
ان حش الاجساد واعادۃ الاروح الیھا لیست حیواۃ مستانفۃ انماھی تتمۃ الفشاۃ المتقدمۃ بمنزلۃ التخمۃ لکثرۃ الا کل کیف ولولا ذلک لکانوا غین الا ولین ولما اخذوا بما فعلوا (حجۃ اللہ البالغہ صفحہ )
جسموں کا اٹھنا اور روحوں کا ان میں پھر آنا یہ کوئی نئی زندگی نہیں ہے بلکہ اسی پہلی زندگی کا تتمہ ہے جس طرح زیادہ کھا جانے سے بدہضمی ہوجاتی ہے اگر ایسا نہ ہ تو لازم آوے کہ یہ کوئی دوسری خلقت ہو اور ان لوگوں کے کئے کا (یعنی جو دنیا میں تھے) کچھ بدلا ہی نہ ہو۔
قرآن مجید سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ تمام آیات ما سبق وما لحق پر بامعان نظر ایک مجموعی حالت سے غور کیا جاوے نہ فرداً فرداً اور ایک مضمون کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے۔ اول یہ بات قابل غور ہے کہ کون سے عقیدہ کے رد کرنے کے لیے قرآن مجید میں آیات حشر ونشر وارد ہوئی ہیں۔ خود قرآن مجید سے پایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ روح کوئی چیز نہیں ہے انسان پیدا ہوتا ہے اور پھر مرکر نسیا منسیا ہوجاتا ہے ہوا ہوا میں مٹی مٹی میں مل جاتی ہے اور کچھ نہیں رہتا اس عقیدہ کی تردید کے لیے آیات حشر ونشر نازل ہوئی ہیں۔
وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا غوت دفحی وما یحلک الا الدھرو سالھم بذلک من علم ان ھم الا یظنون واذا تتلے علیھم ایاتنا بینات ماکان حجتھم الا ان قالوا الکتوابابائنا انکنتم صدقین (سورة جاثیہ - )
چنانچہ خدا تعالیٰ نے سورة جاثیہ میں ان لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری دنیا کی یہ زندگی کیا ہے ہم مرتے ہیں اور ہم جیتے ہیں اور ہم کو زمانہ ہی مارتا ہے نہ اور کوئی۔ خدا نے کہا کہ ان کو اس کا علم نہیں ہے وہ صرف ایسا گمان کرتے ہیں اور جب ان پر ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کی حجت بجز اس کے اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔
اسی کی مانند سورة انعام میں بھی خدا تعالیٰ نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری یہ وقالوا انھی حیتنا وما نحن بمبعوثین۔ ولوتری اذونفوا الی ربھم قال الیس ھذا بالحق قالوا بلی وربنا (سورة انعام - )
کیا ہے صرف دنیا کی زندگی ہے اور ہم پھر اٹھنے والے نہیں خدا نے فرمایا کہ جب تو دیکھے گا ان کو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوا تو خدا ان سے کہے گا کہ کیا یہ سچ نہیں ہے اس وقت وہ کہینگے کہ ہاں قسم ہمارے پروردگار کی یہ سچ ہے۔
سورة صافات میں ہے کہ وہ لوگ کہینگے کہ کیا ہم مرجاوینگے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجاوینگے کیا بدلاوئے جاوینگے یعنی اعمال کی سزا وجزا ہم کو دی جائے گی ۔
انذا متنا وک اترابا وعظاما ائنا لمدینون۔ (سورة صاقات )
پس اس سے صاف ثابت ہے کہ ان لوگوں کو موت کے بعد جزا و سزا ہونے سے استبعاد تھا اور اس استبعاد کا سبب بجز روح کے اور کچھ نہیں ہوسکتا اور اس سے بخوبی روشن ہوتا ہے کہ اس مباحثہ کا مضوع درحقیقت اس جسم کا جو ہم دنیا میں رکھتے ہیں دوبارہ پتلا بن کر اٹھنے کا تھا ہی نہیں بلکہ جزا وسزا کا بعد موت ہونا موضوع تھا۔ اور یہی سبب ہے کہ ہم ان تمام آیتوں کا معدوم جسم کے دوبارہ موجود ہونے سے کچھ تعلق ہی نہیں سمجھتے۔
اب اس بات کو ذہن میں رکھ کر آیات حشر واسطے تردید عقیدہ عدم یقین روح کے نازل ہوئی ہیں قرآن مجید پر غور کیا جاوے تو ظاہر ہوتا ہے کہ موضوع اس بحث کا اس جسم کے جو ہم اس دنیا میں رکھتے ہیں دوبارہ اٹھنے کا ہے ہی نہیں اور قرآن مجید میں اس جسم کے دوبارہ اٹھنے کا ذکر ہے۔ جب کہ وہ لوگ روح کے قابل نہ تھے تو ثواب و عقاب کا حال سن کر ان کو تعجب ہوتا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب آدمی مرگیا تو کل سڑ کر معدوم ہوگیا ثواب و عذاب کیسا اور کس پر اور متعجب ہو کر کہتے تھے کہ کیا ہم پھر زندہ ہونگی کیا ہماری گلی ہوئی ہڈیاں پھر جی اٹھینگی کیونکہ وہ لوگ بغیر اس دنیا کی زندگی اور بدون اس جسم کے جو دنیا میں تھا انسان کا موجود ہونا جس پر عذاب ہو یا ثواب ملے نہیں سمجھتے تھے۔ خدا نے متعدد طرح سے اس کو سمجھایا اور حشر کے ہونے پر یقین دلایا اور اس پر اپنے قادر ہونے کو متعدد مثالوں سے بتایا مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ یہی جسم جو دنیا میں ہے پھر اٹھے گا اور اسی جسم میں پھر جان ڈالی جاویگی۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ولواننا : سورۃ الاعراف : آیت 39

تفسیر سرسید
نتقوم (اے بعد دقوع الواقعات) النفس ماتت وھی شد ضما بالجسد ویقیت عجب ذنبہا اے لاثرالذی بہ تعرف انہ بدن فلان فیلصق بالجسد۔ ویجی جنس اخرھا یمۃ ولا کن لمیق عجب فسنما نینفخ فی جسد الارض باعتدال
شاہ ولی اللہ صاحب اس جسم کے جو دنیا میں ہے دوبارہ اٹھنے کے قائل نہیں ہیں چنانچہ انھوں نے تفہیمات الٰہیہ میں بعد بیان واقعات قیامت کے لکھا ہے کہ اس کے بعد نفوس جو مرگئے ہیں یعنی جو صاحب نفوس کہ مرگئے ہیں ان کے نفوس کھڑے ہوجاوینگے اور ان کا تعلق جسم سے قوی نہ ہوگا اور ریڑھ کی ہڈی باقی رہ جاویگی یعنی ھناک۔ وجنس اخربستوجب عند ہیجان الارواح واتقا خھا بن یتجسد بجد مثالی کا الملائکۃ والشیاطین۔ فلایکون تلک الحیاۃ مبتداء ۃ بل تکمیل ما فیھا مجازاۃ یتبصعدتلک الاجساد الی ھیئۃ نسمیۃ وتدخل فی حوادث الحشر (تفہیمات الحصیہ صفحہ )
ایک ایسا نشان جس سے پہچانا جاوے کہ یہ فلاں شخص کا بدن ہے پھر وہ بدن سے ملجاویگی۔ ایک اور قسم کی روحیں آوینگی جو حیران ہونگی کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی کا نشان ہی باقی نہ رہا ہوگا تو وہ ایک ایسی زمین میں پھونکی جاوینگی جس سے ان کو کچھ مناسبت ہوگی۔ ایک اس قسم کی روحیں آوینگی جن کو روحوں کے برانگیختہ ہونے اور صور کے پھوکنے کے وقت ایک مثالی جسم اختیار کرنا ہوگا فرشتوں اور شیاطین کے جسم مثالی کی مانند۔ تو یہ زندگی کوئی ابتدائی زندگی نہ ہوگی بلکہ اسی کی تکمیل کے لیے ہوگی جو ان میں بطور بدلا دینے کے۔ پھر یہ جسم ایک ہیئت نسمیہ میں اوپر کو چڑھینگے اور حشر کے واقعات میں داخل ہوں گے ۔
اس مقام پر شاہ ولی اللہ صاحب نے تین قسم کی روحیں ٹھہرائی ہیں اور ان کے لیے متعدد قسم کے جسدقرار دیئے ہیں مگر اس جسد کا جو دنیا میں قبل موت تھا اس کا دوبارہ اٹھنا اور اس میں روح کا آنا بیان نہیں کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شاہ صاحب بھی اس جسد کے جو دنیا میں ہے اٹھنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ انھوں نے بھی اسی قول ثالث کو اختیار کیا ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
قولہ۔ ایحسب الانسان لن نجمع عظامہ۔ و تقریرہ ان الانسان ھیھذ ا البدن فاذامات تفرقت اجزاء البدن واختلفت تلک ولا جزاء بسائر اجزاء التراب وتقرقت فی مشرق الارض و مفابھا فکان تھیزھا بعد ذلک ومن غیرھا محالا فکان البعت محالا حاعلم ان ھذہ الشبہۃ ساقطۃ من وجھین۔ الاول۔ لا نسلم ان الانسان ھوھذا البدان فلم لا عبوران یقال ناشیء مدیر ھذا نبدن فاخاقد ھف البدن بقی ھو حیا کما کان وجینئد یکون اللہ تعالیٰ قادر اعلیٰ ان یردہ الی اے یدن شاء واراد وعلی ھذا لقول فسقط السال رنی الایۃ اشاح الی ھذا لانہ اقسم بالنفس اللودمہ ثم قال ایحب الانسان ان لن نجمع عظاھرھو تصریح باخرق بین النفس والبدون۔ (تفسیر کبیر جلدصیحہ )
شاہ ولی اللہ صاحب کے سوا اور مفسرین نے بھی اس قول کی تائید کی ہے چنانچہ تفسیر کبیر میں سور قیامہ کی تفسیر میں یہ تقریر لکھی ہے کہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ انسان تو یہی موجودہ بدن ہے پھر جب انسان مرگیا تو بدن کے اجزا متفرق ہوگئے اور مٹی میں مل کر مشرق سے مغرب تک اور مغرب سے مشرق تک پھیل گئی اب ان اجزا کا دوسری مٹی کے اجزا سے ممتاز ہونا ناممکن ہے تو قیامت بھی ناممکن ہوگی تو یہ اعضرات دو طور سے مندفع ہوتا ہے ( ) ہم کو یہ تسلیم نہیں کہ انسان اس بدن کا ناھت ممکن ہے کہ وہ ایک ایسی چیز ہو جو اس بدن کی مدیر ہو اور جب بدن خراب ہوجاوے تو وہ اپنی حالت پر زندہ رہے اب خدا کہ اس بات پر قدرت ہے کہ اس کو کوئی اور بدن دیدے چنانچہ اس آیت میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ خدا نے پہلے نفس لوامہ کی قسم کھائی پھر فرمایا کہ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں نہ اکٹھی کرینگے
اس سے صاف پیدا ہوتا ہے کہ نفس اور بدن دو چیزیں ہیں۔
نحن خلقنا کم فلولا تصدقون انر یکتم ما تمنون انتم تخلقونہ ام نحن الخالقون۔ نحن تلم نابینکم الموت وما نحن بمسبوقین علی اک نبدل امثالکم وننشبئکم فی مالا تعلمون۔ (سورة واقعہ -)
اب ہم یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ قرآن مجید سے بھی اس موجودہ جسم کا دوبارہ اٹھنا نہیں پایا جاتا بلکہ ایک اور قسم کے جسم کا ہونا ثابت ہوتا ہے خدا نے سورة واقعہ میں فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو پیدا کیا پھر کیوں نہیں تم مانتے۔ پھر کیا تم سمجھتے ہو جو کچھ تم عورتوں کے رحم میں ڈالتے ہو کیا تم اس کو پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ ہم نے مقدر کی ہے تم میں موت اور ہم اس بات سے پیچھے نہیں رہے یعنی عاجز نہیں ہیں کہ ہم بدل دیویں اوصاف تمہارے اور ہم تم کو پیدا کریں اس صفت میں جس کو تم نہیں جانتے۔
اس آیت میں لفظ امثال کا جمع ہے لفظ مثل نفتح المیم والثاء کی اور تمام آیات ما سبق ومالحق سے جو اس سورة میں ہیں صاف ظاہر ہے کہ حالات حشر میں مذکور ہیں۔ خدا فرماتا ہے کہ ہم نے موت کو تم میں مقدر کیا ہے اور ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ جو اس زندگی میں تمہارے اوصاف ہیں ان کو بدل دیں اور پیدا کریں ایسے اوصاف میں جن کو تم نہیں جانتے ۔ لفظ پیدا کرنے سے صاف پایا جاتا ہے کہ موجودہ اوصاف کے معدوم ہونے کے بعد پیدا کرنا مراد ہے۔ جو لوگ روح کے قاتل نہیں تھے اور وہی لوگ حیات بعدالموت کے قائل نہ تھے اور وہی لوگ ان آیتوں میں مخاطب ہیں اسی بدن کو جو انسان دنیا میں رکھتا ہے انسان کے اوصاف سمجھتے تھے۔ طویل القامت بادی البشر و عریض ولا ظفار یاش علیٰ قدمیہ وغیرہ ذلک۔ اب خدا نے فرمایا کہ ان اوصاف یعنی اس جسم کے فنا ہونے کے بعد ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ ان اوصاف کو بدل کر تم کو آذر اوصاف میں یعنی دوسری قسم کے جسم میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کریں۔ پس یہ آیت صاف دلیل اس بات کی ہے کہ حیات بعد الموت میں روح کے لیے یہ جسم جو دنیا میں ہے نہ ہوگا بلکہ ایک اور قسم کا جسم ہوگا۔
یہ وہ حقائق ہیں جو نہ حکمت یونان میں پائے جاتے ہیں اور نہ فلسفہ و علم کلام میں بلکہ یہ انوار ہیں شکوٰۃ نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو بلاواسطہ سفینہ سینہ منور محمدی سے سینہ احمدی میں پہنچے ہیں۔ گو کہ نابلدان کوچہ حقیقت ان انوار محمدی کو نفوذ باللہ کفر وزندقہ سے تعبیر کریں۔
وملا تلک الا شقشقۃ ھدرت فجاشت النفس بما ھجس لھا ثم لرت مع ان لکل جواد کبوہ ولکل سیف نبوہ۔
لمولفہ
فلاطوں طقل کے باشدیہ یونانے کہ من دام
مسیحار شک سیدادوبہ درمانے کہ مندارم
زکفرمن چہ میخوا ہی زایمانم چہ مے پرسی
ہماں یک جلوہ عشق است ایمانے کہ من دارم
خدادارم دلے بریاں زعشق مصطفیٰ دارم
ندارہ ہیچ کافر سازو سامانے کہ من دارم
ز جبرائیل ا میں قرآن یہ پیغامے نمیخو اہم
ہمہ گفتار معشوق است قر آنے کہ من دارم
فلک یک مطمع خورشیدوارد باہر شوکت
ہزاراں اینچیں دارو گریبانے کہ من دارم
زبرہہاں تایہ ایماں سنگ ہادرار درہ واعظ
ندا رو ہیچ واعظ ہمچوبر ہانے کہ من دارم
اب ہم قرآن مجید کی اور آیتوں کو جو اس مضمون سے زیادہ تعلق رکھتی ہیں اس مقام پر لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب بامعان نظر ان کو دیکھا جاوے اور منکرین روح کے عقائد کو بھی مدنظر رکھا جاوے تو ان سے اس جسم کا جو دنیا میں ہے دوبارہ اٹھنا ثابت نہیں ہوتا اور وہ آیتیں یہ ہیں۔
خدا نے سورة نوح میں فرمایا کہ خدا نے اگایا تم کو زمین میں سے ایک قسم کا اگانا پھر تم کو پھر کر لیجاویگا
۔ واللہ انبتکم من الارض نباۃ اثم یعید کم فیھا ویخرجکم اخلی جاوے (سورة نوح - )
اس میں اور نکالے گا تم کو ایک طرح کا نکالنا ۔ انسان زمین سے مثل نباتات کے نہیں اگا اسی طرح دمثل نباتات کے دوبارہ زمین سے نکالے گا پس یہ صرف تشبیہ معدوم ہونے کے بعد پھر پیدا ہونے کی ہے نہ اس بات کی کہ انسان بعد مرنے کے مثل نباتات سے پھر زمین سے نکلے گے ویخرحکم اخراجا میں لفظ منھا کے ترک ہونے سے یعنی ویخرجکم منھا اخراجا نہ کہنے سے اس مطلب کو جو ہم نے بیان کیا اور زیادہ تقویت ہوتی ہے۔
۔ ھوالذی یرسل الریاح بشرایین یدی رحمۃ حتی اذا اقلت سحابا ثقالا سنتثاہ بلد میت فائزلنا بہ الماء فاجرحیایہ من کل الثمرات کذالک نخرج الموتی لعلکم تذکرون۔ (سورة اعراف )
خدا تعالیٰ نے سورة اعراف میں اس طرح پر بیان فرمایا ہے کہ وہ وہ ہے جو بھیجتا ہے ہواؤں کو خوشخبری دینے والیاں اپنی رحمت کے آنے کی یہاں تک کہ جب اٹھاتی ہیں بوجھل بادل تو ہم ان کو ہانک لیجاتے ہیں مرے ہوئے شہر کو پھر اس سے برساتے ہیں پانی پھر ہم اس سے نکالتے ہیں ہر طرح کے میوے اسی طرح ہم نکالے گے مردوں کو۔ اونے تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں بھی صرف بعد معدوم ہونے کے پھر موجود ہونے کا بیان ہے اس سے زیادہ اور کسی چیز کا بیان نہیں اور اس مطلب کو سورة ملائکہ کی آیت جو ابھی ہم لکھتے ہیں زیادہ صاف کردیتی ہے۔۔ واللہ الذی ارسل الریاح نسیر سجھا یا فقناہ الی بذمیت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا کذلک النثور۔ (سورة ملائکہ )
خدا تعالیٰ نے سورة ملائکہ میں فرمایا ہے اور وہ اللہ ہے جس نے بھیجا ہے ہواؤں کو پھر اٹھاتی ہیں بادلوں کو پھر ہم اس کو ہانک لے جاتے ہیں مرے ہوئے شہر کی طرف پھر اس سے زندہ کرتے ہیں زمین کو اس کے مرجانے کے بعد اسی طرح مردوں کا زندہ ہونا ہے۔ فی القاموس۔ النخر۔ احیاء کالنشور ولانشار۔ اس آیت میں نخرج کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ نشر کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مردوں ک یپھر موجود ہونے کی تشبیہ ہے نہ اس جسم کی جو دنیا میں موجود تھا قبر میں سے نکلنے کی۔
۔ مما خلقنا کم وفیھا نعید کم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری (طہ )
ظاہر میں سورة طہ کی آیت اس امر کی جو ہم نے بیان کیا مخالف معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں لفظ منھا کا بھی موجود ہے جو سورة اعراف کی آیت نہ تھا مگر ہرگز وہ آیت مخالف نہیں ہے۔ سورة طہ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور اسی میں پھر کرلے جاوینگے اور اسی سے تم کو دوسری دفعہ نکالینگے۔ انسانوں کو خدا نے زمین میں سے پیدا کیا ماں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے پس اس کا زمین سے پیدا کرنا مجاز بادنے ملابست بولا گیا ہے، اسی طرح اس کے مقابلہ میں زمین سے دوسری دفعہ نکلنا بھی مجازاً بادنے ملا بست بولا ہے، پس اس سے یہ مطلب کہ یہی جسم جو دنیا میں موجود تھا پھر دوبارہ زمین سے نکلے گا ثابت نہیں ہوتا۔
واستمع یوم ینادی المناد من مکان قریب یوم یسمعون الصیحۃ بالحق ذلک یوم الخروج۔ انا نحن نحی و نمیت والینا المصیر یوم تشقق الارض عنھم سراعا ذلک حشر علینا یسیر۔ (سورة ق -)
ایک اور آیت بھی ہے جس کی تحقیق اسی مقام سے مناسب ہے اور وہ سورة ق کی آیت ہے خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے کہ ، سن ایک دن پکارے گا پکارنے والا پاس کے مقام سے۔ ایک دن سنے گے زور کی آواز یہ ہے دن نکلنے کا یعنی اپنی اپنی جگہ سے روحوں کے معہ ان اجسام کے جو مفارقت بدن کے وقت ان کو حاصل ہوئی تھی نکلنے کا اور ایک جگہ جمع ہونے کا نہ یہ کہ ان اجسام کا جو دنیا میں موجود تھے دوبارہ پتلا بن کر نکلنے کا۔ اس کے بعد خدا نے فرمایا کہ بیشک ہم زندہ کرتے ہیں اور ہم مار ڈالتے ہیں اور ہماری طرف پھر آنا ہے جلدی کرتے ہوئے اس دن کہ پھٹ جاویگی ان سے زمین یہ اکٹھا کرنا ہم پر آسان ہے۔ اس جملہ سے یہ سمجھنا کہ زمین کا پھٹنا مردوں کے جسم کے نکلنے کا باعث ہوگا محض غلط خیال ہے بلکہ یوم تشقق الارض سے یوم قیامت مراد ہے۔ اور متعدد آیتوں میں یہ مضمون اسی مراد سے آیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن سب روحیں اکٹھی ہونگی اس آیت کو ان جسموں کے جو دنیا میں تھے دوبارہ اٹھنے سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔
یقولون ائتالمردودون فی الحافرہ لک الکنا اعظاما نخرہ قالوا تلک اذاکرۃ خاسرہ فاغاھی نجرۃ واحدۃ فاذا ھم باک اھرہ۔ (سورة النازعت - )
خدا تعالیٰ نے سورة نازعات میں فرمایا ہے کہ کہتے ہیں کہ کیا ہم لوٹائے جائینگے الٹے قدموں۔ کیا جب ہوں گے ہم ہڈیاں گلی ہوئی ۔ کہتے ہیں کہ یہ (لوٹانا) اس وقت پھر آنا ہے نقصان کا۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ ایک سخت آواز ہے پھر یکایک وہ ایک میدان میں ہوں گے جس میں نیند نہ آتی ہو۔ منکرین حشر کے جو یہ الفاظ ائذاک اعظا مائخرہ۔ اس آیت میں اور مثل اس کے اور آیتوں میں آئے ہیں جیسے کہ ۔
انذا کنا سرابا عظاما۔ اور من یحییٰ العظام وھوریم۔ اور ائذاک عظام اورفاتا ائنالمبعوثون۔ یہ ان کے اقبال اسی خیال پر مبنی ہیں کہ وہ انسان کو بجز اس جسم موجود کے اور کچھ نہیں جانتے تھے یعنی روح کے وجود کے قائل نہ تھے اور سای سبب سے وہ تعجب کرتے تھے کہ اس جسم کے گل جانے اور معدوم ہوجانے کے بعد پھر کیونکر وہ اٹھے گا اور اسی استبعاد کے سبب وہ اس قسم کے شبہات کرتے تھے۔ روح کی حقیقت وہ نہیں سمجھ سکتے تھے بلکہ اس کی ماہیت مثل دیگر اشیا کی ماہیت کے انسان کی سمجھ سے خارج تھی اور خدا تعالیٰ طرح طرح سے ان کے استبعاد کو دور کرتا تھا اور حشر کے ہونے پر یقین دلاتا تھا کبھی تمثیل میں اور کبھی اپنے قادر مطلق ہونے میں پس ان الفاظ سے جو منکرین روح استبعاد رکھتے تھے اور ان کے جواب تمثیلی یا اس کے مقابلہ میں اظہار قدرت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسی جسم کا جو وہ دنیا میں رکھتے تھے اور جس کا گل جانا اور معدوم ہوجانا کہتے تھے اسی جسم کو خدا پھر اٹھاویگا۔
قالوائذا امتنا وکنا سراباوعظاما ائنا لمبعوثون۔ (انتہیٰ )
واکانوا یقولون ائذا متنا وکنا ترابا میقاما ائنا لمبعوثون واباء نا لاولون قل ان الاولین والاخرین لمجمومون مالی میقات یوم معلوم۔ (سورة واقعہ - )
سورة مومن۔ سورة صافات۔ سورة واقعہ میں بالفظ متحدہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مرجائینگے اور ہم ہوجاوئینگے مٹی اور ہڈیاں کیا ہم اٹھائے جائینگے۔ اور سورة واقعہ میں خدا نے فرمایا اور وہ کہتے تھے کہ کیا جب ہم مرجائینگے اور ہوجائینگے مٹی اور ہڈیاں کیا ہم پھر اٹھائے جائینگے کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی (اٹھائے جائینگے) کہہ دے کہ بیشک اگلے اور پچھلے ضرور اکٹھے لیے جائینگے وقت دن معین میں ۔ اس آیت میں سوال تھا کہ کیا ہم اور ہمارے باپ دادا اٹھائے جائینگے اس کا جواب یہ ملا کہ بیشک اکٹھے کئے جائینگے اس سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں جہاں قرآن مجید میں بعث کا لفظ آیا ہے اس سے
جمع کرنا مراد ہے نہ اس جسم کو جو ہم دنیا میں رکھتے ہیں بعد معدوم ہوجانے کے پھر پتلا بنا کر اٹھانا۔ بعث کا اطلاق لشکر پر ان معنوں میں آتا ہے جب کہ ان کو ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا جاتا ہے پس اس آیت میں خود خدا نے بعث کے معنوں کی تشریح کردی ہے اور اس لیے اس کے کوئی دوسرے معنی نہیں لیے جاسکتے۔
وتری الارض من ھامدۃ فاذا انزلنا علیھا الماء اھترت وربت وانبنت من کل زوج بھیج ذلک بان اللہ ھوالحق وانہ یحییٰ الموتی وانہ علے کل شیء تدیروان الساعۃ انیۃ لاریب فیھا و اللہ یبعث من فی القبور۔ (سورة الحج ،,)
سورة حج میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اور تو دیکھتا ہے کہ زمین خشک ہوگئی پھر جب ہم برساتے ہیں اس پر پانی تو پھولتی ہے اور بڑھتی ہے اور اگاتی ہے ہر قسم کی خوش آئند چیزیں۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ وہی برق ہے اور یہ کو وہی زندہ کرتا ہے مردوں کو اور یہ کہ وہ ہر شے پر قادر ہے اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں اور یہ کہ اللہ اٹھائے گا ان کو جو قبروں میں ہیں۔
ونفخ فی الصور فاذاھم من الاجداث الی بھم ینسلون۔ قالو یا دینا من بعثنا من مرقدنا ھذا ماوعد الرحمن و صدق المرسلون ان کانت الا صحیۃ واحدہ فاذھم جمیع لدینا محضرون۔ (یسین - )
اور سورة یسینٰ میں فرمایا ہے۔ پھونکا جاویگا صور میں پس یکایک وہ قبروں میں سے اپنے پروردگار کے پاس دوڑینگے کہینگے اے والے ہم پر کس نے اٹھایا ہم کو ہمارے مرقد سے یہ وہ ہے جس کا وعدہ کیا تھا خدا نے اور سچ کہا تھا پیغمبروں نے یہ نہیں تھا مگر ایک تند آواز میں پھر دفعتہ وہ سب ہمارے پاس حاضر ہونے والے ہیں۔
اگرچہ ان آیتوں میں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو قبروں میں سے اٹھنا ان کو جو بعث کے بسبب نہ یقین کرنے روح کے منکر محض تھے زیادہ تر یقین دلانے کو بالفاظ ” من فی القبور “ اور ” من الاجداث “ کے بیان فرمایا ہے۔ یعنی جن کو تم قبروں میں گڑا ہوا اور گلا سڑا خاک میں ملا ہوا سمجھتے ہو وہی قبروں میں سے اٹھیں گے۔ مگر درحقیقت مقصود اور موضوع کلام کا یہ نہیں ہے کہ وہ کہاں سے اٹھیں گے کیونکہ بہت سے ایسے ہیں جو قبروں میں نہیں ہیں آگ میں جلا دیئے گئے ہیں جانور کھا گئے ہیں بلکہ مقصود مردوں کا یعنی جن کو ہم مرا ہوا سمجھتے ہیں اور جن پر مردے کا اطلاق ہوتا ہے قیامت میں ان کا موجود ہونا ہوئے لیکن اگر ہم کچھ غور نہ کریں اور یہی سمجھیں کہ جو لوگ قبروں میں دفن ہیں وہی اٹھیں گے تو بھی ان آیتوں سے یہ بات کہ ان کا یہی جسم ہوگا جو دنیا میں رکھتے تھے کسی طرح سے پایا نہیں جاتا۔
قرآن مجید میں دو اور عجیب آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن نہ کسی معدوم جسم کا دوبارہ پتلا بنا کر اٹھایا جائے گا نہ کوئی جدید جسم ان کو ملے گا بلکہ وہی جسم ہوگا جو روح و نسمہ کے اختلاط سے روح نے حاصل کیا تھا اور بعد مفارقت بدن روح نے معہ اس جسم کے مفارقت کی تھی پس جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے فرمایا کہ نشا آخرت جسد اسی حیات کا ہوگا نہ خلق جدید بالکل ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔
وقالوا ائذاک عظاما ورفاتا ائنا مبعوثون خلقا جدید اقل کو نواحجارۃ وحدیدا اوخلقہ مما یکبر فی صدورکم فسیقولون من یعیدنا قل الذی فصر کمنل مرۃ نسینخضون الیک رؤسھم ویقولون متی ھو قل عسی ان یکون قریبا۔ (سورة الاسری - )
خدا تعالیٰ نے سورة الاسریٰ میں فرمایا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور گلے ہوئے ہوجاوینگے تو کیا ہم پھر اٹھائے جاوینگے نئے پیدا ہو کر۔ کہہ دے کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا یا اس قسم کی پیدائش جو تمہارے دل کو بڑی مستحکم لگتی ہو تب بھی تم کہو گے کہ کون ہم کو لوٹا لاویگا ۔ کہہ دے کہ وہ جس نے پیدا کیا تم کو پہلی دفعہ پھر جھکا دینگے اپنے سروں کو تیری طرف اور کہنے لگے گے وہ کب ہوتا۔ کہہ دے کہ شاید یہ ہوئے قریب۔
وقالوا ائنا ضللنا فی الارض ائتا لفی خلق جدید بل ھم بلقاء ربھم کافرون قل یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون۔ (سورة سجدہ - )
اور سورة سجدہ میں خدا نے فرمایا ہے۔ اور انھوں نے کہا کہ جب ہم زمین میں مگر ہوجاوینگے (یعنی گل کلاکر مٹی ہو کر اس میں مل جاوینگے) تو کیا ہم ایک نئی پیدائش آوینگے ۔ بلکہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے کے منکر ہیں۔ کہہ دے کہ تم کو ملک الموت مارے گا جو تم پر متعین ہے پھر اپنے پروردگار کے پاس پھر جاؤ گے۔ ان دونوں آیتوں میں باوجودیکہ سوال خلق جدید سے تھا مگر خدا نے اس کو قابل جواب نہیں سمجھا کیونکہ خود سوال ہی باطل تھا کہ خلق جدید خلق سابق کے اعمال کی جزا و سزا کی مستحق نہیں ہوسکتی ایک جگہ تو یہ فرمایا کہ تم کو پھر وہی حشر لاویگا جس نے تم کو اول مرتبہ پیدا کیا تھا اور لانے کی کچھ تفصیل نہیں بتلائی اور دوسری آیت میں فرمایا کہ ان کی یہ باتیں اس بنا پر ہیں کہ اپنے پروردگار سے ملنے کے منکر ہیں اور یہ جواب دیا کہ جب مرو گے تو اپنے پروردگار کے پاس جاؤ گے۔ غرضیکہ ان آیتوں سے بھی اس جسم کا جو دنیا میں ہے دوبارہ پتلا بن کر اٹھنا ثابت نہیں ہوتا۔
وضرب لنا مثلا ونسی خلقہ قال من یجعی العظامھی رمیم قل یحیھا الذی انشاء ھا اول مرہ وھو بکل خلق علیم (سورة یسینٰ -)
دو آیتیں اور ہیں جن کا ہم اس مقام پر ذکر کرینگے ایک آیت سورة یسین کی ہے۔ خدا نے فرمایا کہ ہمارے لیے یہ مثال تو لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کون زندہ کو ہڈیوں کو اور وہ تو گل گئی ہونگی اور اپنے پیدا ہونے کو بھول جاتے ہیں کہہ دے کہ ان کو زندہ کرے گا وہ جس نے تم کو پیدا کیا پہلی دفعہ اور وہ ہر قسم کی آفریشن کو جانتا ہے۔
ایحسب الانسان لن من نجمع عظامہ۔ بلیٰ قارین علیٰ ان نسکوی بنانہ (سورة قیامہ - )
اور سورة قیامہ میں فرمایا ہے کہ ، کیا گمان کرتا ہے کہ ہم ہڈیوں کو اکٹھا نہ کرینگے یہ بات نہیں ہے بلکہ ہم اس پر قادر ہیں کہ انگلیوں کی پوریوں کو بھی درست کردیں۔
قل اللہ یحییکم ثم عنتم ثم یجمعکم الی یوم القیامۃ (جاثیہ )
اور سورة جاثیہ میں خدا نے فرمایا ہے کہ۔ کہہ دے کہ اللہ تم کو جلاتا ہے پھر تم کو مار ڈالے گا پھر تم کو قیامت کے دن اکٹھا کریگا۔
ان تین آیتوں میں سے پہلی دو آیتیں ایسی ہیں جن پر متکلمین نافین نفس ناطقہ استدلال کرسکتے ہیں جیسا کہ شرع مواقف میں مذہب اول بیان کیا گیا ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ جب انہی گلی ہوئی ہڈیوں کے زندہ کرنے کا بیان ہوا ہے اور انگلیوں کے پوروں تک کا بنادینا بتایا ہے تو اس سے اسی جسم کا جو دنیا میں ہے دوبارہ پتلا بن کر اٹھنا پایا جاتا ہے۔
مگر یہ خیال دو طرح پر غلط ہے ایک اس لیے کہ ہم پہلے بیان کرنے ہیں کہ کسی سوال کے جواب میں صرف اظہار قدرت سے اس بات کا ثبوت کہ یہی جسم جو دنیا میں ہے دوبارہ پتلا بنا کر اٹھایا جائے گا لازم نہیں آتا۔ دوسرے یہ کہ اسی کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ھو بکل خلق علیم یعنی وہ ہر قسم کے پیدا کرنے کو جانتا ہے کہ گلی ہوئی ہڈیوں کی زنادگی کیا چیز یہ اور ہ کیونکر ہوتی ہے۔ پھر اس سے یہ سمجھنا کہ وہ گلی ہوئی ہڈیاں دوبارہ ایسی ہی ہوجائینگی جیسے کہ اب اس زندگی میں ہیں ایک صریح غلطی ہے۔ ایک آیت کے معنی دوسری آیت سے حل ہوتے ہیں۔ وہ جاثیہ میں صاف لفظوں میں خدا نے فرما دیا یہ کہ اللہ تم کو جلاتا ہے پھر تم کو مارتا ہے پھر تم کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا پس یہ آیت نہایت صاف ہے اور اسی آیت کے سیاق سے تمام آیتوں کے معنی حل ہوتے ہیں۔
یہ مسئلے جو ہم نے اس مقام پر بیان کئے معاد کے مسئلہ مسائل میں سے تھے اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے ان تمام آیتوں کو جو ان سے علاقہ رکھتی تھیں ایک جگہ جمع کردیا اور بقدر اپنی طاقت کے ان کو مل بھی گیا اور اس کی تائید میں علماء محققین کے اقوال میں نقل کئے اب معاد کے متعلق کیفیت حساب و کتاب عذاب و ثواب کا بیان باقی ہے جس کو اگلے علما نے اور خصوصاً امام غزالی اور شاہ ولی اللہ نے نہایت خوبی سے بیان کیا ہے اور ہم بھی اس کو آئندہ موقع بموقع بیان کرینگے
 
Top