• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر2 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 142

سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا ؕ قُلۡ لِّلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۱۴۲﴾

تفسیر سرسید :

( سیقول السفھاء) اس مقام سے تحویل قبلہ کا ذکر شروع ہوا ہے۔ مگر پہلے ہم کو یہ بات بتانی چاہیے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت میں قبلہ یا سمت قبلہ کا کیا حال تھا، اس امر کا بیان اس بات پر موقوف ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں نماز کے کیا ارکان تھے، غالباً اس نماز میں بھی رکوع و سجدہ ہو، مگر ہمارے پاس کوئی ثبوت اس امر کا نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں نماز کے بعینہ یہی ارکان تھے جو اب مذہب اسلام میں ہیں، نہ یہ ثابت ہے کہ اس نماز میں جیسا کہ وہ ہوا اسی طرح پر رکوع و سجدہ تھا جیسا کہ ہماری نماز میں ہے۔ بلکہ اگر زمانہ کے حالات اور اس زمانہ کی وحشی قوموں کی عبادت پر خیال کریں تو بجز اس کے اور کچھ نہیں پایا جاتا کہ وہ لوگ آپس میں حلقہ باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، اور کودتے اور اچھلتے تھے، اور وہ سارا حلقہ کا حلقہ اسی طرح چکر کھاتا جاتا تھا، اور اسی جوش و خروش میں کھڑے ہوجاتے تھے، اور سر ٹیک دیتے تھے، اور اس کا نام پکارتے جاتے تھے، یا اس کی تعریف کے گیت گاتے تھے، جس کی وہ عبادت کرتے تھے، اسی نماز کا نشان اسلام میں طریقہ ابراہیمی پر موجود ہے، جس کا نام مذہب اسلام میں طواف کعبہ قرار پایا ہے، ابن عباس سے مشکوٰۃ میں روایت ہے کہ ” ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال الطواف حول البیت مثل الصلوٰۃ الا انکم تتکلمون فیہ فمن تکلم فیہ فلا یتکلمن الا بخیر “ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کعبہ کے گرد طواف کرنا مثل نماز کے ہے، گویہ طریقہ نماز کا وحشیانہ ہو مگر اس میں کچھ شبہ نہیں کہ حال کی مودب اور باوقار نمازوں سے زیادہ پر جوش ، اور زیادہ تر محبت معبود کا برانگیختہ کرنے والا، اور معبود کے شوق کو زیادہ تر جوش میں لانے والا، اور دل کو خالص اس کی یاد میں مشغول کرنے والا تھا۔ یہ حرکتیں انسان میں بالطبع مجنون کا ۔۔ پیدا کردیتی ہیں، اور جس طرح مجنون کسی بات میں مشغول ہوا اسی طرح خدا کی یا مدین۔۔۔
کو مشغول کردیتی ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو طریقہ نماز کا ہو اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ کوئی سمت قبلہ کی معین نہیں ہوتی، یہ تمام ذوق و شوق اور اچھل کود اس شے کے گرد ہوتا تھا جس کو وہ بطور خدا کی نشانی کے قائم کرتے تھے۔ اسی قسم کی پرستش اب بھی بعضی بعضی وحشی قوموں میں پائی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خدا کی نشانی کے لیے ایک بن گڑھا پتھر کھڑا کرلیتے تھے اور جو عبادت یا نماز ہوتی تھی وہ اسی کے گرد ہوتی تھی، اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں کوئی خاص سمت قبلہ کا ہونا بجز اس نشان کے جس کو وہ قائم کرلیتے تھے اور کچھ نہیں پایا جاتا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کا حال جہاں تک ہم ملا ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ ہو بھی کعبہ کی جانب کو سمت قبلہ نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ہر جگہ پتھر کھڑا کرکے اسی کے گرد اسی وحشیانہ طریقہ پر عبادت کرتے تھے، چنانچہ ارزقی نے کتاب اخبار مکہ میں لکھا ہے (ان بنی اسماعیل وجزھم من سماکنی مکۃ ضاقت علیھم مکۃ فتنفسحوا فی البلاد واقیموالمعاش لیزعمون ابی نادل مکانت عبادتا انحجارۃ فی بنی اسماعیل انہ کان لا یظعن من مکۃ ضاعن منھم الا احتملو لمعھم من حجارۃ الحرم تعظیماً امحر مرو میاتۃ بمکۃ وبالکعبۃ حیث ماحلواوضعوہ قطاقوابہ کالطواف بالکعبۃ حتی سلخ ذلک بھم الی ان کا قواتعبدون ما استحسنوا من الحجارۃ و اعجہم من حجارۃ الحرم خاصۃ حتی خلفت بخلوف ھا الخلوف ونسواسا کا نواعلیہ، واستب کوا بدین ابراھیم واسمٰعیل غیر وعبد والادقان الخ، صفحہ کہ بنی اسماعیل اور جرہم جو مکہ میں رہتے تھے ان کو گنجائش نہ ہوئی تو وہ ملک میں نکلے اور معاش کی تلاش میں پھرے، پس لوگ خیال کرتے ہیں کہ اولاً پتھر کا پوجنا بنی اسماعیل میں اس طرح شروع ہوا کہ جب ان میں سے کوئی مکہ سے جاتا تو حرم کے پتھروں میں سے ایک پتھر اٹھالیتا، حرم کو بزرگ سمجھ کر اور مکہ اور کعبہ کے شوق میں جہاں اترتے، تو اس پتھر کو رکھ لیتے، اور اس کے گرد مثل کعبہ کے طواف کرتے، پھر اس کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ جو پتھر اچھا دیکھتے اور جو حرم کا پتھر عجیب اور اچھا معلوم ہوتا اس کی عبادت کرتے اسی طرح پشتوں پر پشین گزر گئیں اور بھول گئی جو بات پہلی تھی، اور ابراہیم اور اسماعیل کے دین کو بدل دیا اور بتوں کو پوجنے لگے۔
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور جرہم کی اولاد میں پشت درپشت کبھی کعبہ کی جانب سمت قبلہ نہیں قرار پائی تھی، اور ان کا طریقہ عبادت ہی ایسا تھا کہ کوئی سمت قبلہ قرار ہی نہیں پاسکتی تھی۔ قرآن مجید میں بھی کہیں اسبات کا ذکر نہیں ہے۔
کہ خدا نے اسماعیل یا اس کی اولاد کے لیے کعبہ کو سمت قبلہ مقرر کرنے کا حکم دیا تھا زمانہ جاہلیت میں جبکہ عرب کی قوم نے کعبہ میں بت رکھ دیئے تھے، اس زمانہ میں بھی جو کچھ ان کی پوجا ہوتی ہوگی وہ کعبہ میں ہوتی ہوگی، لیکن یہ بات کہ جب وہ کعبہ منہ کرکے پوجا کرتے تھے کسی طرح ثابت نہیں۔
بنی اسرائیل میں جب بیت المقدس کی تعمیر ہوگئی تو وہ بھی بطور ایک مسجد کے بنائی گئی تھی، اور تمام رسومات عبادت کی جو کچھ کہ بنی اسرائیل ادا کرتے تھے اسی معبد یا مسجد میں ادا کرتے تھے۔ مگر اس زمانہ تعمیر بیت المقدس میں ان کے وحشیانہ طریق عبادت یا نماز میں کافی اصلاح ہوگئی، اور ایک باقاعدہ ارکان نماز کے جس میں قیام اور رکوع بھی تھا قرار پائے۔ ہم کو عہد عتیق کی کوئی آیت ایسی نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ خدا نے بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا تھا کہ جب تم بیت المقدس سے دور ہو تو اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔ مگر جبکہ بنی اسرائیل کی نماز ایک باقاعدہ ہوگئی تھی ، اور اس کے ادا کرنے میں میں کسی نہ کسی طرف منہ کا ہونا ایک لازمی امر تھا، اس لیے بالطبع بنی اسرائیل اس بات پر مائل ہوئے ہوں گے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں ، اور اس طرح پر بیت المقدس ان کا سمت قبلہ قرار پا گیا۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد نبوت قریب تیرہ برس کے مکہ میں تشریف رکھی۔ اس بحث کو چھوڑو کہ نماز پنجگانہ فرض ہوچکی تھی یا نہیں، اور جو ارکان نماز کے بالفعل مسلمانوں میں مقرر ہیں وہ مقرر ہوچکے تھے یا نہیں، مگر اس میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس زمانہ دراز میں بھی کوئی طریقہ عبادت کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرور اختیار کیا تھا۔ خواہ یہی ارکان نماز کے اختیار کیے ہوں جو بالفعل موجود ہیں خواہ بعد کو ان میں کچھ اصلاح ہوگئی ہو، لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ایسی حالتوں میں جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ سے بعید ہوں تو انھوں نے نماز یا عبادت ادا کرنے میں کعبہ کی طرف منہ کرکے ادا کرنا بطور ایک امر لازمی کے جس سے ثبوت سمت قبلہ کا ہو اختیار فرمایا ہو، بلکہ ہر طرح قرینہ و قیاس اس بات کا مقتضی ہے کہ جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے م مکہ میں تشریف رکھی کوئی سمت قبلہ اختیار نہیں کی۔
جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ میں تشریف لے گئے جہاں یہودی کثرت سے تھے، اور ان کی نماز بھی قریباً قریباً اسی قسم کی تھی جیسی کہ مسلمانوں کی تھی، تو بالطبع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے کی رغبت ہوئی جس طرف کہ یہودی متوجہ ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ بلاشبہ مشرکین کو یہ امر شاق گزرا ہوگا، لیکن بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے میں ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ مشرکین میں سے جو لوگ منافق تھے وہ اصلی ایمان والوں سے بالکل ممیز ہوجاتے تھے۔ یہی بات خدا تعالیٰ نے بھی فرمائی ہے کہ ” وملجعلنا العبلۃ التی کنت علیھا ما الا ننعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ “ یعنی ہم نے اس قبلہ کو جس پر تو تھا بجز اس مطلب کے اور کسی لیے نہیں مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں اس شخص کو جو پیروی کرتا ہے رسول کی اس شخص سے جو پھرجاتا ہے اپنی ایڑیوں پر۔
مدینہ میں اور اس کے گردنواح میں کثرت سے یہودی رہتے تھے، اور انھوں نے بھی اسلام کی طرف رغبت ظاہر کی، چند نے دل سے اسلام کو برحق جانا، اور بہت سے ایسے تھے جو بطور منافقوں کے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، پس جو ضرورت منافقین مشرکین کو اصلی ایمان والوں سے ممیز کرنے کی پیش آئی تھی۔ وہی ضرورت منافقین یہود کو اصلی ایمان والوں سے ممیز کرنے کی پیش آئی۔ ہر ایک شخص ظاہرداری کے لیے دوسرے مذہب کی جس کو وہ حق نہیں سمجھتا چھوٹی باتوں میں منافقانہ طور پر شریک ہوسکتا ہے، لیکن کسی ایسی بات میں جو ایک امر عظیم ہو، اور خاص عبادت سے علاقہ رکھتا ہو، اور ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہونے کے بطور ایک نشانی کی ہو، اس کو بطور ایک نفاق کے ادا کرنے سے بالطبع نفرت اور پرہیز کرتا ہے ، اور جب تک کہ دل ہی سے اس دوسرے مذہب کو نہ قبول کرلیا ہو اس وقت تک اس کو ادا نہیں کرتا۔ اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فکر ہوئی کہ سمت قبلہ کو تبدیل کیا جائے ، اور اس پر خدا سے وحی آئی کہ کعبہ کی طرف سمت قبلہ بدل دو، اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے جہاں فرمایا ہے ” قدنری تقلب وجھک فی السماء فلنو لینک قبلۃ ترضھا فول وجھک شطرالمسجد الحرام “ یعنی ہم نے دیکھا تیرا منہ کا پھیرنا آسمان کی طرف پھر ضرور ہم تجھ کو ایک ایسے قبلہ کی طرف پھیرینگے جس کو تو پسند کریگا، پس پھیر اپنا منہ مسجد حرام کی طرف۔ بیت المقدس اور بیت الحرام دونوں مسجدیں تھیں، اور دونوں میں سے کسی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا برابر تھا ، مگر ایسا کرنے سے منافقین یہود کی اصلی ایمان والوں سے تمیز ہوگئی، یہ امر ایک ایسا ممیز قرار پایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمادیا کہ ” من استقبل قبلت افھو مسلم “ یعنی جس شخص نے کہ ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی وہ مسلمان ہے، اور درحقیقت یہ امر ایسا ہے کہ جب تک کوئی یہودی دل سے مسلمان نہ ہوگیا ہو بیت المقدس چھوڑ کر کعبہ کی طرف نماز پڑھنے پر بالطبع اس کو جرات نہیں ہوسکتی۔
اسی نشان کے قائم اور مستحکم رہنے کو خدا نے یہ حکم دیا کہ جہاں کہیں تم ہو اور جہاں کہیں جاؤ تو کعبہ ہی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو، مگر سمت قبلہ قرار دینے میں ایک بڑا نقص یہ لازم آتا ہے کہ لوگوں کے خیال میں یہ بات جمتی ہے کہ اس سمت کو یا اس مکان کو جو سمت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے خدا کی ذات سے کوئی خاص خصوصیت ہے، اور اس سمت میں یا اس مکان میں بالتخصیص خدا ہے۔ اس خیال کے باطل کرنے کو صاف صاف ہدایتیں خدا نے تحویل قبلہ کے ساتھ ہی ساتھ بتلاویں، جہاں فرمایا کہ ” وللہ المشرق والمغرب فاینما تولو افثتم وجہ اللہ “ یعنی خدا کے لیے ہی مشرق اور مغرب، پس جدھر منہ کرو پھر ادھرہی خدا کا منہ یعنی اس کی ذات ہے۔ اس ہدایت نے صاف صاف لوگوں کو شرک سے نجات دی، اور جس طرح کہ مشرکین اپنے بتوں یا معبدوں کو سمت قبلہ بناتے ہیں، اور جس طرح کہ مسلمانوں نے سمت قبلہ ٹھہرایا ہے، ان دونوں کے فرق کو بخوبی سمجھا دیا ہے، اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مشرکین کی سمت قبلہ اور مسلمانوں کی سمت قبلہ میں کیا فرق ہے۔ مسلمانوں کے مذہب کے مطابق کوئی خصوصیت یا وقعت بیت المقدس یا بیت الحرام کو قبلہ ہونے کے لیے نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ صرف ابتداء واسطے تفریق درمیان منافقین اور مومنین کے ٹھہرایا گیا، اور انتہاء ابطور مسلمانوں کی ایک نشانی کے قرار پایا۔
کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے، جو احکام اسلام میں ہیں لوگ ان کو بخوبی نہیں سمجھتے۔ اس بات میں تو بہت لوگوں نے کوشش کی ہے کہ کون سا حکم فرض ہے، اور کونسا واجب اور کون سا سنت ، اور کون سا مستحب، جو صرف ایک فرضی یا خیالی یا اصطلاحی امور ہیں، اور اس تفریق کو اصل مذہب اسلام سے کچھ چنداں تعلق نہیں ہے اسلام کی حقیقت اور اس کے اسرار جاننے والے کو صرف اسی تفریق کا جاننا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کو اس امر کا جاننا اور اس امر کا تحقیق کرنا ضرور ہے کہ درحقیقت اصلی احکام اسلام کے جن پر اسلام قائم ہے کون سے ہیں اور ان کے سوا کون سے۔ بالفعل مذہب اسلام جو ایک مجموعہ حقیقی اور فرضی یا واقعی اور قیاسی یا اجتہادی اور استنباطی احکام کا گنا جاتا ہے وہ دو قسم کے احکام پر منقسم ہوسکتا ہے۔ اول حقیقی اور واقعی۔ دوم فرضی اور قیاسی اور اجتہادی اور استنباطی۔ پچھلی قسم کو مذہب اسلام کے احکام قرار دینا صرف ایک فرضی یا اصطلاحی بات ہے اور صرف اس وجہ سے کہ ائمہ اسلام اور علماء اعلام نے ان کو استخراج کیا ہے احکام اسلام کا بطور ایک اصطلاح کے ان پر طلاق ہوتا ہے، ورنہ درحقیقت وہ اصل احکام مذہب اسلام کے نہیں ہیں۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ ان احکام کو تسلیم کرے خواہ نہ کرے، دونوں حالتوں میں اس کے اسلام میں کچھ فرق نہیں آتا۔ اگر درحقیقت وہ واقعی اصلی احکام اسلام کے ہوتے تو ان کے نہ ماننے سے اسلام سے خارج ہونا ایک امر لازمی ہوتا۔ جہاں تک کہ خرابیاں مذہب اسلام میں مخالفین بیان کرتے ہیں وہ اسی غلطی پر مبنی ہیں کہ انھوں نے ان احکام اور مسائل کو جن کو علما اور ائمہ نے استنباط اور استخراج کیا ہے جزو اسلام سمجھا ہے، حالانکہ اسلام کو ان سے کچھ علاقہ نہیں۔ اگر وہ صحیح اور ٹھیک ہیں فہوالمراد، اور اگر ان میں کوئی غلطی اور خطا ہے تو وہ ان کی ہے جنہوں نے ان کو استخراج کیا ہے، نہ مذہب اسلام کی۔ ہمارا مقصد اس بیان سے کسی عالم یا امام کی حقارت کرنے کا، یا کسی شخص کی جو ان کی پیروی کرتا ہے تحقیر کرنے کا، یا اس کو بڑا جاننے کا نہیں ہے، بلکہ صرف احکام اصلی اور استخراجی میں فرق بتانا، اور ان لوگوں کو جو حقائق یا اسرار اسلام پر غور کرنا، یا مخالفین اسلام کو جو اس پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں، حقیقت احکام اور تفرقہ ان دونوں قسم کے احکام میں بتانا مقصود ہے، تاکہ پہلے تحقیق حقائق یا اسرار اسلام میں اور پچھلی غلط بنا پر اعتراض کرنے میں غلطی نہ کریں۔
پہلی قسم البتہ بیان کے لائق ہے۔ مذہب اسلام میں جو اصلی اور واقعی احکام ہیں وہ دو قسم ہیں، ایک اصلی اور دوسری محافظ احکام اصلی ، جس کو ہم اس زمانہ میں قانون اور ضابطہ کارروائی سے اصطلاح قانونی میں تعبیر کرتے ہیں۔ مذہب اسلام کے احکام اصلی جس قدر ہیں انہی پر اسلام کی بنیاد قائم ہے اور ان میں سے کوئی حکم بھی ایسا نہیں ہے جو قانون قدرت اور انسان لے یچرے برخلاف ہو، بلکہ ان پر غور کرنے سے اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ مذہب انسان کے لیے بنایا گیا ہے نہ انسان مذہب کے لئے۔ احکام محافظ سے صرف ان احکام اصلی کی حفاظت مقصود ہے، اور وہ خود مقصود بالذات نہیں ہیں۔ یہ احکام ایک ایسی عام قاعدہ پر صادر ہوئے ہیں جو قریباً کل افراد کے مناسب حال ہیں، اور ممکن ہے کہ کسی شاذونادر فرد کے مناسب حال نہ ہوں، مگر ایسا ہونا ان احکام کے نقصان کا باعث نہیں ہے، کیونکہ تمام احکام عام کا یہ خاصہ ہے کہ قریباً کل افراد کے مناسب حال ہوتے ہیں، گو کہ کوئی شاذونادر فردای سے بھی نکلتے ہیں کہ اس کے مناسب حال نہ ہوں، مگر اس مطلب سے کہ قاعدہ کلیہ ٹوٹنے نہ پائے تمام افراد کے ساتھ یکساں عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔
احکام محافظ کی نسبت کسی نادان کا کوئی اعتراض کرنا، اور ان کی نسبت اس بحث کا پیش کرنا کہ ان میں نیچر کی کیا مطابقت ہے، اور ان احکام کو قانوکن قدرت سے کچھ تعلق نہیں معلوم ہوتا، ایک محض بیوقوفی کا اعتراض ہوگا۔ کیونکہ وہ احکام بالذات اس اعتراض اور بحث کے کہ وہ نیچر کے مطابق ہیں یا نہیں سورد نہیں ہوسکتے، بلکہ ان پر یہ بحث ہوسکتی ہے کہ آیا وہ احکام ان اصلی احکام کے جو بالکل قانون قدرت کے مطابق ہیں محافظ ہیں یا نہیں، اگر ان کا محافظ ہونا ثابت ہو تو وہ بھی ضمناً داخل احکام اصلی اور مطابق قوانین قدرت اور صحیح تصور ہوں گے ، اور اگر ان سے ان اصلی احکام کی محافظت ثابت نہ ہو تو بلاشبہ وہ غلط ہوں گے ۔
ہاں ایک بحث ان پر اور ہوسکتی ہے کہ جو طریقہ ان احکام اصلی کی حفاظت کا احکام محافظ میں قرار دیا ہے مثل اس کے دوسرا طریقہ بھی حفاظت کا موجود تھا، حالانکہ اس کے ترک اور اس کے اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یا یہ کہ ان احکام اصلی کی حفاظت کا دوسرا طریقہ اس سے بھی اچھا موجود تھا۔ پہلا شبہ اگر وہ تسلیم بھی کرلیا جاوے تو بھی لغو اور مہمل ہوگا، کیونکہ یہ شبہ بطور ایک شبہ عامۃ الورود کے ہوگا جس کو تمام عقلاً لغو اور بیہودہ سمجھتے ہیں، کیونکہ اگر بالفرض دو مساوی چیزوں میں سے ایک کے ترک اور ایک کے اختیار کی کوئی وجہ نہ تو جو شبہ اس پر وارد ہوتا ہے وہی شبہ اس وقت بھی واردہوگا جبکہ مختار کو ترک اور متروک کو اختیار کیا جاوے۔ دوسرا شبہ اگر وارد ہو تو البتہ تسلیم کے قابل ہوگا، لیکن ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ مذہب اسلام میں جو طریقہ حفاظت احکام اصلی کا قرار دیا گیا ہے اس کے مساوی بھی کوئی اور طریقہ ان کی حفاظت اصلی کا نہیں ہے، چہ جای اس کے کہ اس سے افضل کوئی طریقہ دوسرا ہو۔
ہم اس مطلب کو دو ایک مثالوں سے سمجھاتے ہیں مثلاً نماز۔ قرآن مجید میں صرف نماز کا مقرر ہونا آیا ہے۔ اصلی حکم خدا کا اس سے صرف اس کے بندہ کا خدا کی طرف خلوص اور خضوع اور خشوع سے متوجہ ہونا، اور عجز عبدیت کا ظاہر کرنا، اور شان خالقیت کا تسلیم کرنا، اور اس کے سامنے اپنے تئیں عاجز اور ذلیل اور مسکین بنانا ہے، ارکان نماز کے جو قرار دیئے گئے ہیں وہ اس تمام خضوع و خشوع ظاہری اور باطنی کے محافظ ہیں ان احکام محافظ پر یہ اعتراض کرنا کہ نماز میں اٹھنا اور بیٹھنا اور سر ٹیکنا نیچر کے برخلاف ہے ایک بیوقوفی کا اعتراض ہے، کیونکہ ان احکام میں ایک یہ بات دیکھنی ہے کہ درحقیقت وہ اس اصلی حکم کے محافظ ہیں یا نہیں۔
ان احکام اصلی اور احکام محافظ کا تفرقہ ایسے مقام پر بخوبی واضح ہوجاتا ہے جبکہ کوئی حکم احکام محافظ میں سے ساقط ہوجاتا ہے، اور اس کا سقوط ثابت کرتا ہے کہ وہ اصلی حکم نہیں تھا، جیسے نماز میں قیام اور تعود اور رکوع اور سجود اور قراءت ، یہ سب احکام محافظ ہیں، جب انسان ان پر قادر نہیں ہوتا تو کسی کا ادا کرنا بھی اس پر لازم نہیں ہوتا برخلاف اس اصلی حکم نماز کے کہ وہ کسی حالت میں انسان سے جب تک کہ اس پر مکلف ہونے کا اطلاق کیا جاتا ہے ساقط نہیں ہوتا۔ اس سے جو تمیز کہ ان دونوں قسم کے احکام میں ہے وہ بخوبی واضح ہوتی ہے، یا مثلاً اسلام نے ایک اخلاقی امر کی نسبت یہ حکم دیا ہے کہ جو عورت کا اس کا خاوند مرجاوے یا اس کو طلاق دے تو اس کو دوسرا شوہر کرنے میں اس قدر توقف کرنا چاہیے جس سے معلوم ہوجاوے کہ وہ اس شوہر سے حاملہ ہے یا نہیں، اور اس امر کے دریافت کرنے کو ایک میعاد مقرر کی ہے جو عورتوں کے نیچر سے مناسبت رکھتی ہے۔ یہ حکم احکام محافظ میں سے ایک حکم ہوگا، اور بلاشبہ ایسی عورت کے جس نے اس مدت سے بھی زیادہ عرصہ سے اپنے شوہر سے مقاربت نہ کی ہو مناسب حال نہ ہوگا یہ حکم تمام افراد سے ازروے عمل کے اس لیے متعلق ہوگا کہ عام قاعدہ جو اکثر افراد سے متعلق ہے ٹوٹنے نہ پائے۔ پس اس حکم محافظ پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ قانون قدرت کے مطابق نہیں ہے، کیونکہ یہ حکم اس قانون قدرت کا محافظ ہے جس سے اولاد کو اپنی باپ پر اور باپ کو اپنی اولاد پر قانون قدرت کے موافق حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
مگر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ احکام اصلی اور احکام محافظ اپنی اصلیت میں مختلف درجہ اور حقیقت رکھتے ہیں، لیکن عملاً دونوں کا درجہ برابر ہے، اور اس لیے جس طرح احکام اصلی کی تعمیل لازم ہے اسی طرح احکام محافظ کی بھی تعمیل لازم ہے، کیونکہ وہ دونوں لازم و ملزوم یا موقوف و موقوف علیہ ہیں، اور اس لیے عملاً دونوں میں کچھ فرق نہیں۔
نماز میں سمت قبلہ کوئی حکم اصلی مذہب اسلام کا نہیں ہے، اور اس لیے ایک ادنیٰ سی عذر پر ساقط ہوجاتا ہے، مثلاً سمت مشبہ ہونے پر اسہوا کسی دوسری سمت نماز پڑھ لینے پر، بعض صورتوں میں گھوڑے کی سواری پر، دریا کے سفر میں، اور اس چودھویں صدی نبوی میں ریل کے سفر میں اور علیٰ ہذا القیاس۔ مگر چونکہ یہ حکم بطور ایک نشان اور تمیز ان لوگوں کے قرار دیا گیا ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا ہے، اس لیے اس کا بھی بجا لانا مثل احکام اصلی کے ضرور ہوگا، اور قصداً ترک نہ کیا جائے گا، ہاں ان لوگوں پر تعجب ہوگا جو غلبہ اوہام سے سمت قبلہ کے لیے دوپہر میں باہر نکل کر سورج کو دیکھتے پھرتے ہیں کہ کس طرف سے نکلا تھا اور کسی طرف ڈوبے گا، اور اپنی جیبوں اور تسبیحوں میں قطب نما یا قبلہ نما رکھے یا لٹکائے پھرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ٹھیک ہماری ناک کعبہ کے سامنے ہوجائے، اور اسی میں ایک بڑا ثواب اور ٹھیک ٹھیک نماز کا ادا کرنا سمجھتے ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 146

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنۡہُمۡ لَیَکۡتُمُوۡنَ الۡحَقَّ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۴۶﴾ؔ

تفسیر سرسید :

سمت قبلہ کی تحویل پر یہودی جو طعنہ دیتے تھے اس کا ذکر بھی خدا نے اس مقام پر کیا ہے، اور ان کی نادانی کو بتلایا ہے کہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ تحویل قبلہ ٹھیک ہے، پھر اس پر طعنہ کرتے ہیں، جہاں فرمایا ہے کہ ” یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم “ یعنی یہودی تحویل قبلہ کا حق ہونا ایسا ہی جانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں (یعرفونہ) میں جو ضمیر ہے اس کی نسبت مفسروں میں اختلاف ہے اکثر تو اس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہودی توراۃ کی بشارت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبی برحق ہونا ایسا ہی یقینی جانتے تھے جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کو جانتے تھے، اور ابن عباس اور قتادہ اور ربیع اور ابن زید کا یہ قول ہے کہ (یعرفونہ) کی ضمیر امر قبلہ کی طرف راجع ہے، اور یہی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ یہاں اول سے آخر تک امور متعلق قبلہ کا ذکر ہے، نہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے کی بشارات کا۔
توریت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا اور ان کے فاران میں یعنی حجازمین آباد ہونے کا ذکر موجود ہے، جس پر یہودی مذہبی اعتقاد سے بھی یقین رکھتے تھے، یہودی توراۃ کی رو سے اس بات کو بھی یقینی جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ عبادت کے لیے مذبح قائم کرنے اور بیت ایل یعنی بیت اللہ بنانے کا تھا، ان کو اپنی قومی اور پشینی روایتوں سے یقین کامل تھا کہ کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بنایا ہوا بیت اللہ ہے، اور من وجہ بیت المقدس سے ترجیح رکھتا ہے، اور اس کی طرف سمت قبلہ ہونا عین حق اور درست ہے، انہی وجوہ پر خدا نے فرمایا کہ ” یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم “ اور یہی وجہ ان کے الزام کی ہے کہ باوجود ان سب باتوں کے جاننے کے حق بات کو چھپاتے ہیں، اور پھر تحویل قبلہ پر طعنہ دیتے ہیں۔
یہ سب باتیں جو ہم نے بیان کیں ایسی صاف و صریح ہیں کہ ہر شخص جو قرآن مجید کی سیاق و سباق عبادت پر غور کرے گا بلاشبہ ان کو تسلیم کریگا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 154

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾

تفسیر سرسید :

( ولا تقولوا) اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد بھی خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے تھے شدائد پر صبر کرنے کی ہدایت کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں نے مسلمانوں کے قتل و قتال پر کمر باندھی تھی، اور یہ آیت بعد وقع قتل و قتال نازل ہوئی ہے جس میں کچھ مسلمان کام آئے تھے ۔ مفسرین کا قول ہے کہ وہ جنگ بدر تھی جس میں چھ مسلمان مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے کام آئے تھے۔ بہرحال کسی واقعہ کے بعد آیت نازل ہوئی ہو ہم کو جو بحث ہے وہ اس بات سے ہے کہ اس قول کے کہ ” ان کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں “ کیا معنی ہیں۔
اس کی نسبت مفسرین کے تین قول ہیں، ایک یہ کہ وہ شہید ہوتے ہی اسی وقت درحقیقت زندہ ہوجاتے ہیں لیکن ہم کو انکازندہ ہونا نہیں معلوم ہوتا۔ دوسرے یہ کہ احیاء سے مراد سیحیون ہے، یعنی زندہ ہوں گے ، یعنی قیامت کے دن۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ خدا نے کہا ہے کہ ” ان الا برار لفی لعلیم وان الفجار لفی حجیم “ ۔۔۔ ان المنافقین فی الدرک الا سفل من النار “۔۔۔ ان الذین امنوا وعملوا الصلحت فی جنات نعیم “ ان سب کے معنی یہ ہیں کہ سیعیرون کذلک یعنی عنقریب ایسے ہوجاوینگے ۔ تیسرے یہ کہ ان کو مردہ مت کہو وہ تو زندہ ہیں، یہ کہنا ایسا ہے جیسا کہ کوئی کہے کہ ” مامات رجل خلف مثلک “ یعنی وہ شخص نہیں مرا جسے تیرے مانند خلف چھوڑا ہے۔ جو لوگ دین کی استقامت کے سبب مارے گئے ہیں درحقیقت انھوں نے دین حق کے پھیلانے اور اپنے بعد اس نیکی کو قائم رہنے اور جاری رہنے کے لیے جان دی ہے ، پس انھوں نے اپنے بعد ایسی نیکی چھڑی ہے جو اس سے بہتر نہیں ہوسکتی، اور اسی اعتبار سے ان کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ زندہ ہیں جس نے ایسی نیکی قائم و جاری ہے، پس حیات سے ان کی حیات فی الدین مراد ہے، جیسا کہ ایک جگہ خدا نے ایمان والوں کی نسبت فرمایا ہے ” اومن کان میتا فاحیینا “ اور سورة آل عمران میں جو خدا نے ان کی حیات کے ساتھ یہ قید بھی لگائی ہے کہ ” بل احیاء عندربھم “ اس سے اور زیادہ اس مطلب کو تقویت ہوتی ہے کہ ان کی حیات سے حیات فی الدین مراد ہے نہ اور قسم کی حیات میرے نزدیک تیسرے معنی صحیح ہیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 168

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۶۸﴾

تفسیر سرسید :

( کلوا من طیبت) اس آیت سے پہلے خدا تعالیٰ نے ان پاکیزہ چیزوں کے کھانے کی اجازت دی تھی جو زمین میں ہیں یعنی جو زمین سے پیدا ہوئی ہیں، اور اس آیت میں عموماً پاکیزہ چیزوں کے کھانے کی اجازت ہے جس لفظ کا ترجمہ ہم نے پاکیزہ کیا ہے وہ لفظ طیبات ہے، اس کے معنی مزے دار اور خوشبودار غیر مضر کے ہیں۔ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” ان الطیب فی اصل اللغۃ عبارۃ عن المستلذا المستطاب “ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ تمام چیزیں جو انسان کے لیے مضر نہیں ہیں وہ حلال ہیں، اور وجہ حلت اور حرمت اشیاے، جو خدا نے بتائی ہے وہ ان کے مضر اور غیر مضر یا مضر اور مفید ہونے پر مبنی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 173

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَیۡرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۷۳﴾

تفسیر سرسید :

( انما حرم) اس آیت میں ان تین مضر چیزوں کا بالتخصیص ذکر کیا ہے جن کے کھانے کا رواج عرب کی قوموں میں تھا۔ عرب کے لوگ مرے ہوئے جانور کو اور سور کو کھاتے تھے، اور جانوروں کے گلا کاٹنے میں جو خون نکلتا ہے اس کو ایک برتن میں جمع کرتے تھے، اور جب وہ جم کر لوتھڑا ہوجاتا تھا تو بھون کر کھاتے تھے اور یہ تینوں چیزیں انسان کے لیے مضر ہیں، گو کہ مثل زہر کے فی الفور ان کی مضرت نہ ظاہرہو۔
مرے ہوئے جانور کے مضر ہونے میں جو اپنی موت سے مرجاتا ہے کسی کو کلام نہیں، اور دم مسفوح کا مضر ہونا بھی تسلیم کیا گیا ہے، سور کے گوشت کے مضر ہونے پر (علی الخصوص گرم ملکوں میں) بہت سے مباحثے ہوئے ہیں اور انجام کار اس کا مضر ہونا تسلیم کیا گیا ہے، پس ان تینوں چیزوں کے حرام ہونے کی وجہ ان کے مضر ہونے پر مبنی ہے۔ علاوہ اس کے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ غذا کی تاثیر انسان کے اخلاق پر ضرور ہوتی ہے۔ سورة میں بعض خصائل ذمیمہ ایسے پائے تجاتے ہیں جو علم اخلاق انسانی کے برخلاف ہیں، اور اس لیے اس کا کھانا بلحاظ حفظ اخلاق انسانی ممنوع کرنا بلاشبہ انسان کو اخلاق ذمیمہ سے محفوظ رکھنا ہے۔
البتہ چوتھی چیز یعنی ” وما اھل بہ لغیر اللہ “ کی حرمت قابل بحث ہے۔ پس اس کی حرمت نفس مذبوح کے مضر ہونے یا نجس ہوجانے کے سبب سے نہیں ہے، بلکہ اس کی حرمت واسطے مٹانے رسم شرک کے ہے۔ مشرکین عرب کا دستور تھا جیسا کہ ہندوستان میں ہندؤں کا دستور ہے کہ جانوروں کا گلا بتوں اور دیبیوں کا نام لے کر کاٹتے تھے، جس کا یہ مقصود تھا کہ اس کی نذر اور اس کے تقرب کے لیے جانور کو مارا ہے، یہاں تک کہ جو جانور اپنے کھانے کے لیے بھی مارتے تھے اس کو بھی کسی بت یا دیبی کی نذر مقرر کرکے اور اسی کا نام لے کر مارتے تھے ۔ ہندوستان میں اب تک یہ رسم ہندؤں میں ہے، اور کوئی ہندو کسی بکری کا بغیر دیبی کے نام کے جھٹکا نہیں کرتا۔ بہت گوشت خور ہندو ایسے ہیں کہ اگر کوئی جانور دیبی کے نام پر جھٹکا نا کیا جاوے تو اس کا گوشت نہیں کھاتے۔ اسلام میں تقرب الی غیر اللہ شرک اور کفر قرار پایا ہے۔ پس رسم شرک ہر طرح پر مٹانے کے لیے یہ حکم ہوا ہے کہ جو جانور اس رسم شرک پر مارا جاوے وہ بھی نہ کھایا جاوے پس حرمت مذبوح لغیر اللہ کی احکام محافظ حکم اصلی میں سے ہے جس کی تفصیل ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔
قال العلماء لران مسلما ذبح ذبیحہ وقصد بذبحھا التقرب الی غیر اللہ صار مرتد اوذبیحتہ ذبیحۃ مرتد وھذ الحکم فی غیر ذبایح اھل الکتاب اما ذبایح اھل الکتاب مخل لنا لقولہ تعالیٰ وطعام الدین اوترلا لکتب (تفسیر کبیر جلد صفحہ )
تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ علما کا یہ قول ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی جانور کو بقصد تقرب الیٰ غیر اللہ کے ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجاتا ہے، اور ذبیحہ اس کا مرتد کا ذبیحہ ہے، اور یہ حکم اہل کتام کے ذبایح کے سوا اوروں کے ذبیحہ سے متعلق ہے، اور اہل کتاب کے ذبایح ہمارے لیے حلال ہیں، جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ ملعام ان لوگوں کا جن کو کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے۔
پس اس آیت سے جس کی ہم تفسیر لکھتی ہیں اس میں تو کچھ شبہ نہیں کہ جو مسلمان کسی جانور کو تقریباً غیر خدا کے نام ذبح کرے اس کا کھانا اس وجہ سے کہ وہ ایک فعل شرک پر ذبح کیا گیا ہے حفظاً الحکم التقرب الی اللہ وصوممنوع و حرام ہے مگر یہ بات باقی ہی کہ اگر غیر مسلم اس طرح پر کرے تو اس کا کھانا بھی ممنوع و حرام ہے یا نہیں۔ امام فخر الدین برازی نے جو قول علماء اسلام نقل کیا ہے اس میں ذبیحہ اہل کتاب کو مستثنیٰ کیا ہے جس کا یہ مقصد ہے کہ گو اہل کتاب نے تقربا الی غیر اللہ ہی ذبح کیا ہو مگر وہ حلال ہے، اور یہی قول بعض فقہا کا بھی رہی، اور انھوں نے تصریح کردی ہے کہ ” ولزدبح بلسم المسیح۔ ومن الناس من ۔۔۔ اجازوا ذبیحۃ النصرانی ازاسعی علیھا باسم المسیح وھو مذہب عطاء و مکحول والحسن والمشبی و سعید بن المسیب (تفسیر کرے جلد صفحہ )
مگر یہاں یہ سوال باقی رہے جاتا ہے کہ تو پھر دیگر اہل مذاہب کا لغیر اللہ ذبح کیا ہوا کیوں نہ حلال ہو۔ اس کا جواب بقاعدہ اہل نقل یہ ہوسکتا ہے کہ آیت طعام اہل کتاب سے ان کا ذبیحہ مستثنیٰ ہوگیا ہے اور دیگر اہل مذاہب کا ذبیحہ مستثنیٰ نہیں ہوا ، مگر پھر اس پر یہ سوال ہوگا کہ کیوں دیگر اہل مذاہب کا ذبیحہ مستثنیٰ نہیں ہوا۔
ہاں اگر اس استثنا کی یہ وجہ بیان کی جاوے کہ اہل کتاب میں کبھی لغیر اللہ جانور کے ذبح کرنے کی رسم و عادت نہ تھی، یا وہ خدا کے نام پر قربانی کرتے تھے، یا خدا کا نام لے کر ذبح کرتے تھے، جیسا کہ یہود کی عادت ہے، یا کسی کا نام لیے بغیر ذبح کرتے تھے، جیسا کہ عیسائیوں کی عادت ہے، تو صرف ذبایح اہل کتاب کے مستثنیٰ کرنے کی اور دیگر اہل مذاہب کے ذبایح کے مستثنیٰ نہ کرنے کی وجہ کافی ہوگی، اور اس لیے دیگر اہل مذاہب کا ذبیحہ یا جھٹکا حفظا للحکم التقرب الی اللہ وحدہ حرام اور ممنوع الاکل رہیگا۔
البتہ ایک سوال اور باقی رہتا ہے کہ اگر کسی غیر اہل کتاب نے کسی جانور کو لالغیر اللہ ذبح کیا ہو تو وہ بھی حرام اور ممنوع الاکل ہے، یا نہیں۔ یہ ایک اجتھادی مسئلہ ہوگا۔ کیونکہ آیت ” کلوا مماذکر اسم اللہ علیہ ولا تاکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ “ کا حکم عام نہیں ہے۔ پس نص صریح قرآن مجید سے اس کی حرمت ثابت نہ ہوگی الا اجتہاد سے جس کی تسلیم خود مجتہد یا اس کے متبعوں پر لازم ہوگی نہ ہر شخص پر۔
(اھل بہ لغیر اللہ) اس کے معنی میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ خدا کے سوا اور کسی کا نام پکارے جانے سے کیا مطلب ہے۔ اصمعی کا قول ہے کہ اہلال کے معنی پکارنے کے ہیں۔ احرام باندھنے والے پر مہل کا لفظ اس لیے بولا جاتا ہے کہ وہ احرام باندھتے وقت لبیک کہہ کر پکارتا ہے، اور ذبایح پر بھی مہل کا لفظ بولتے ہیں کیونکہ عرب جانوروں کو ذبح کرتے وقت بتوں کا نام لے کر پکارتے تھے اور ” استھل الصبی “ کا لفظ بھی اسی سے نکلا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد چلاتا ہے اس لیے مااحل بہ لغیر اللہ کے معنی یہ ہوئے کہ جو بتوں کے لیے ذبح کیے جاویں۔ یہ مذہب تو مجاہد ضحاک اور قتادہ کا ہے۔ اور دوسرا قول ربیع بن انس اور ابن زید کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ” اھل بہ لغیر اللہ “ سے یہ مطلب ہے کہ جو خدا کے نام کے سوا اور کسی کے نام سے پکارا جاوے ۔ یعنی وہ رنج کے وقت پکارے جانے کی قید نہیں لگاتے، بلکہ صرف غیر خدا کے نام موسوم کردینے ہی کو ” اھل لغیر اللہ “ میں داخل کرتے ہیں جیسا کہ ہندوستان میں مسلمان بکرے کو شیخ سدو اور گائے کو میرا ں اور مرغ کو مدار کے نام سے موسوم کردیتے ہیں۔ ان مفسروں کی رائے کے مطابق جو جانور کو غیر خدا کے نام تقریباً سو سوم ہوگیا ہو اور گوبر وقت ذبح خدا ہی کا نام لیا جاوے تب بھی وہ حرام ہوجائے گا ، اور پہلی راے کے موافق حرام نہ ہوگا بشرطیکہ خدا کا نام لے کر ذبح کیا جاوے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب نے اپنی تفسیر میں پچھلی رائے اختیار کی ہے۔ مگر درحقیقت وہ صحیح نہیں ہی، کیونکہ صرف نام رکھ دینا کہ شیخ سدو کا بکرا ہی اور میرا ں کی گائے یا مدار کا مرغا، یہ اقدام بالشرک ہے نہ وقوع شرک، اور جب تک کہ شرک کا وقوع مذبوح کے اوپر نہ ہو اس وقت تک وہ مذبوح ممنوع الاکل نہیں ہوسکتا۔ پس اگر ذبح کے وقت خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہے تو اس کا کھانا حرام نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 174

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَشۡتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۚۖ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۷۴﴾

تفسیر سرسید :

( ان الذین یکتمون) ہمارے مفسرین کی عادت ہے کہ جہاں قرآن میں اہل کتاب کی نسبت ایسا مضمون آیا کہ وہ توراۃ کی باتیں چھپاتے ہیں، اور انھوں نے تفسیر میں لکھا کہ اس سے بشارات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چھپانا مراد ہے۔ چنانچہ اس مقام پر بھی ایسا ہی کچھ لکھا ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ وہ مضامین جن پر بشارات کا اطلاق ہوتا ہے وہ خود توراۃ و انجیل میں بطور کنایہ اور اشارہ کے قرار پاسکتی ہیں ان پر اطلاق اخفا کچھ ٹھیک نہیں ہے، اور نہ خدا کو اور نہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی ضرورت تھی کہ جا بجا اپنی نبوت کے اثبات کے لیے توراۃ اور انجیل کے بشارات پر حوالہ کریں نبی کے لیے بشارت کی ضرورت نہیں، نبی خود نبوت کی دلیل ہے، آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ بلکہ اس اخفا سے صرف احکام توراۃ کا اخفا مقصود ہے جو یہودیوں میں کثرت سے رائج ہوگیا تھا، اور دنیوی لالچ اور ہوا سے نفس سے برخلاف احکام توراۃ کے فتوے لکھ دیتے تھے، اور اصلی احکام کو چھپاتے تھے۔ حسن کا بھی یہی قول ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ ” قال الحسن کتموا الا حکام وھو کقولہ تعالیٰ “ وان کثیرا من الاحبارو الرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ویصدون عن سبیل اللہ “
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 177

لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾

تفسیر سرسید :

( لیس البر) اختیار کرنا سمت قبلہ کا گو وہ کیسی ہی خدا پرستی پر مبنی ہو خوف اور اندیشہ سے خالی نہیں ہوتا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی تردد تھا کہ کہیں کعبہ بت پرستوں کی مانند نہ پوجنے لگے۔ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے متعدد طرح سے اس کو رفع کیا ہے، ایک جگہ فرمایا کہ ” للہ المشرق و المغرب فاینما تولوا فتم وجہ اللہ “ اور اس آیت میں فرمایا کہ ” الیس البران تولواوجوھکم قبل المشرق و المغرب “ اور پھر بتایا کہ خدا کو، قیامت کو، فرستوں کو، نبیوں کو کتاب کو، نبیوں کو ماننا، خدا کی محبت سے غریب قرابت مندوں، یتیموں ، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور قیدیوں کو کچھ دینا، غلاموں کو آزاد کرنا، نماز پڑھنی، زکوٰۃ دینی، اقرار پورا کرنا، سختی اور مصیبت میں لڑائی میں صبر کرنا دراصل نیکی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 178

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۷۸﴾

تفسیر سرسید :

( کتب علیکم القصاص) اس آیت میں تین حکم ہیں۔ پہلا حکم اسلام میں قصاص کا قائم کرنا ہے۔ دوسرا حکم جو معاوضہ خون کا زمانہ جاہلیت میں یعنی قبل اسلام کے تھا بعد اسلام اس کا باطل کرنا ہے۔ تیسرا حکم ان معاہدوں کو قائم رکھنا ہے جو باہم قبل اسلام کے خونوں کی بابت ہوئے تھے۔
عرب کے مختلف قبیلے جب مسلمان ہوگئے تو ان میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے ایک دوسرے کو مار ڈالا تھا، اور اس وقت تک مقتول کے لوگوں نے قاتل سے بدلا نہیں لیا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بدلالینے کا یہ دستور تھا کہ جو قومیں زبردست اور شریف تھیں وہ اپنے تئیں دوسری قوموں سے اس طرح بدلا لینے کا مستحق سمجھتی تھیں کہ اپنے غلام کے بدلے ان میں کے ایک حرکو، اور اپنی عورت کے بدلے ان کے مرد کو اور اپنے مرد کے بدلے ان کے دو مردوں کو ماریں، اور نیز زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ مقتول کے وارث خون کو معاف کردیتے تھے، اور کبھی قتل کے بدلے میں کچھ روپیہ یا مال قاتل سے یا قاتل کے قبیلہ سے لے کر راضی ہوتے اور دعویٰ قتل سے دست بردار ہوجاتے۔ پچھلے دو حکم اسی رسم جاہلیت سے علاقہ رکھتے ہیں (تفسیر کبیر جلد ، صفحہ و معالم التنزیل صفحہ)
پہلا حکم جو اسلام میں قصاص قائم کرنے کا ہے وہ اس آیت کے پہلے جملہ موجود ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” یایھا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ “ یہ جملہ ایک مستقل جملہ ہے اور تفسیر کبیر میں بھی بعض مفسرین کا یہ قول لکھا ہے کہ ” کتب علیکم القصاص فی الفتلی جملۃ تامۃ مستقلۃ بنفسھا “ اور اس جملہ سے مطلقاً یعنی بغیر کسی قید کے قصاص کا حکم پایا جاتا ہے یعنی قاتل بعوض مقتول کے مارا جائے گا کوئی شخص قاتل ہو اور کوئی شخص مقتول ہو، مرد ہو عورت ہو، آزاد ہو، کافر ہو مسلمان ہو، یہ لازمی قصاص غالباً ان لوگوں کو جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور جن کے ہاں
معانی اور خون کے بدلے مال لینا بھی جائز تھا سخت گراں گزرا ہوگا، اور اسی لیے اس کے بعد خدا تعالیٰ نے قصاص میں جو حکمت ہے وہ بتلائی اور فرمایا کہ ” ولکم فی القصاص حیات یا اولی الالباب لعلکم تتقون “ اور اس اخیر آیت سے زیادہ تر اس رائے کو تقویت ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں صرف خون کے بدلے خون کا حکم ہے۔ اگرچہ مسلمانوں میں دیت اور معافی کا رواج جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا موقوف نہیں ہوا اور اس کی بنا حدیثوں پر قلم کی ہے ، مگر مجھ کو اس مقام پر ان سے بحث نہیں ہے، صرف یہ بیان کرنا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت سے کیا حکم نکلتا ہے، سو وہ حکم بھی ہے کہ بلا کسی قید اور تفرقہ کے مقتول کے بدلے قاتل مارا جائے۔
قصاص کے لفظ سے بعض علماء نے جو یہ مطلب سمجھا ہے کہ جس طرح قاتل نے مقتول کو مارا ہے اسی طرح قاتل بھی مارا جاوے یہ بھی اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف مقتول کے بدلے قاتل کا بےجان کردینا ثابت ہوتا ہے۔ قصاص کے معنی دو آدمیوں کا ایک سا کام کرنے کے ہیں جیسا کہ عرب کہتے ہیں کہ ” اقض فلان اثر فلان “ جبکہ کوئی شخص ویسا ہی کام کرے جیسا کہ دوسرے نے کیا ہو۔ اہل شرع نے اس کے معنی یہ قرار دیئے ہیں کہ کسی انسان کے ساتھ ایسا ہی کیا جاوے جیسا کہ اس نے دوسرے انسان کے ساتھ کیا ہو۔ مگر ایسی تعمیم قصاص کے معنی کی اس آیت کے لفظوں سے نہیں پائی جاتی کیونکہ اس آیت میں قصاص کے لفظ کے ساتھ ” فی القتلیٰ “ کی بھی قید لگی ہوئی ہے، اور اس قید سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کے مقتول ہوجانے میں مساوات چاہیے نہ کیفیت مقتول ہونے میں، کیونکہ مقتول ہوجانا یعنی جان کا بدن سے مفارقت کرنا ایک چیز ہے اور جس طرح اور جس ذریعہ ہی اس نے مفارقت کی رہی وہ دوسری چیز ہے، اور اس آیت میں لفظ قصاص سے مقتول ہونے میں یعنی جان کے بدن سے مفارقت کرنے میں مساوات چاہی گئی ہے نہ کیفیت قتل میں۔ پس آیت کا حکم صرف اتنا ہی کہ اگر کسی شخص نے کسی کو بےجان کردیا ہو تو وہ بھی ویسا ہی یعنی بےجان کردیا جاوے۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ بعض علما کا لفظ قصاص سے یہ سمجھنا کہ اگر کسی نے پتھر سے سر پھوڑ کر کسی کو مارا ہو تو اس کو بھی پتھر سے سر پھوڑ کر مارا جاوے، اور اگر کسی نے آگ سے جلا کر مارا ہو تو اس کو بھی آگ سے جلا کر مارا جاوے ، اور اگر کسی نے پانی میں ڈبو کر مارا ہو تو اس کو بھی پانی میں ڈبو کر مارا جاوے، صحیح نہیں ہے۔ معہندا ان علما کا یہ خیال بھی کہ ایسا کرنے میں ٹھیک ٹھیک مساوات ہوجاویگی غلط ہے، کیونکہ ان افعال کو اس طرح پر عمل میں لا تاکہ بالکل ان افعال کے فعل میں اور اثر میں مساوی ہوں جو قاتل نے مقتول کے ساتھ کیے ہیں محض ناممکن ہے۔ منطوق آیت کا صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مقتول کے بدلے قاتل بھی مار ڈالا جاوے۔
دوسرا حکم جس طرح زمانہ جاہلیت میں معاوضہ خون کا لیا جاتا تھا اس کا باطل کرنا ہے، اور وہ ان الفاظ سے باطل ہوتا ہے ” الحر بالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالا نثیٰ “ اگرچہ علماء نے ان لفظوں کی نسبت بہت بحث کی ہے جو ایک تطویل لا طائل ہے، مگر صاف و صریح مطلب یہ ہے کہ اسلام میں قصاص تو لیا جائے گا۔ لیکن یہ طریقہ جو جاہلیت میں تھا کہ قاتل کو چھوڑ کر دوسرے شخص کو مارتے تھے، اور غلام کے بدلے حر کو مارتے تھے، اور عورت کے بدلے مرد کو مارتے تھے، اور ایک مرد کے بدلے دو مردوں کو مارتے تھے، یہ طریقہ اسلام میں نہیں رہا۔ بلکہ اگر کسی حر ناے حر کو مارا ہے تو وہ حر ہی مارا جائے گا ۔ اور اگر کسی غلام نے غلام کو مارا ہے تو غلام ہی مارا جائے گا۔ اور اگر کسی عورت نے عورت کو مارا ہے تو عورت ہی ماری جائے گی، اور حر اور عبد اور انثی پر الف لام ہے، اس سے قتال میں قاتل و مقتول کی تخصیص لازم آتی ہے۔ اس بیان سے اوپر کے جملہ کی جس میں قصاص کا حکم ہے تفصیل مقصود نہیں ہے، بلکہ جاہلیت میں جو رواج تھا کہ عورت کے بدلے مرد کو، اور غلام کے بدلے حر کو مارتے تھے ، اس کا موقوف کرنا مقصود ہے۔
جن علماء نے غلطی سے ان الفاظ کو حکم قصاص کی تفصیل سمجھا ہے انھوں نے ایک فائدہ بحث کی ہے، اور نتیجہ اپنی بحث کا یہ نکالا ہے کہ اگر ایک حر نے کسی عبد کو مار ڈالا ہو یا ایک عبد نے کسی حر کو مار ڈالا ہو، یا ایک مرد نے کسی عورت کو، یا ایک عورت نے کسی مرد کو مار ڈالا ہو، تو ان سے قصاص لینے کا حکم اس آیت میں پایا نہیں جاتا۔ اور اس لیے ان کے قصاص میں مختلف رائیں ہوگئی ہیں۔ بعض نے کہا کہ اگر کسی عبد نے حر کو یا عورت نے مرد کو مار ڈالا ہو تو ان سے قصاص لینا قیاس پر مبنی ہے، کیونکہ ادنیٰ ناے اعلیٰ کو مارا ہے۔ اور اگر ایک حر نے عبد کو، یا مرد نے عورت کو مار ڈالا ہو تو ان سے قصاص لینا اجماع پر مبنی ہے۔ مگر کچھ شبہ نہیں ہے کہ یہ سب رائیں غلط ہیں اور جملہ اول سے عموماً قصاص لینے کا حکم ثابت ہے۔
تیسرا حکم ایام جاہلیت کے خونوں کی بابت معاہدوں کا قائم رکھنا ہے وہ ان الفاظ سے پایا جاتا ہے کہ ” فمن عفی لہ من اخیہ شیء ف اتباع بالمعروف ویاد امالیہ باحسان ذیری تخفیف من ربکم ورحمۃ فن اعتدیٰ بعد ذلک فلہ عذاب الیم “ یہ جملہ بھی اسی پہلے جملہ کی تابع ہے جو جاہلیت کے خونوں سے علاقہ رکھتا ہے۔ اس جملہ کا یہ مطلب ہے کہ ایام جاہلیت کے خونوں کی بابت اگر کسی نے کچھ معاف کردیا ہو، یا اس کی عوض میں کچھ دینے کا اقرار کیا ہو تو وہ اسی اقرار کے موافق ادا کردیا جاوے۔ قتل ایک ایسی چیز نہیں ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی اس کے مواخذہ سے کوئی شخص بری ہوسکے۔ مگر زمانہ جاہلیت میں جو بےانتہا خون ہوتے تھے، اور بدلا لینے کے لیے قتل و قتال قائم تھے، اس لیے ابتداء اسلام میں ان تمام جھگڑوں کے مٹا نے کے لیے وہ معاہدے جو زمانہ جاہلیت میں قصاص سے بری ہونے کی بابت قرار پائی تھی اسی طرح جائز رکھے گئے۔ اس خاص آیت کے استدلال سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اسلام میں بھی قتل عمد کا معاف کردینایا دیت کا لینا جائز کردیا گیا۔ قتل خطا قتل عمد سے مناسبت نہیں رکھتا اور اس میں دیت کا قرار پانا اور کسی معاوضہ کا ٹھہرانا انصاف کے بر خلاف نہیں ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 180

کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۸۰﴾ؕ

تفسیر سرسید :

( کتب علیکم اذا حضر)” کتب “ کے لفظ سے علماء اسلام فرض کے معنی لیتے ہیں جس سے یہ لازم آتا ہے کہ والدین اور اقربا کے لینے وصیت فرض تھی۔ مگر کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تھا جبکہ آیت توراۃ نازل نہیں ہوئی تھی۔ اتنی بات بلاشبہ تسلیم کے لائق ہے کہ آیت توراۃ کے نازل ہونے کے بعد جو شدید ضرورت وصیت کی تھی وہ باقی نہیں رہی، کیونکہ ایک عام قاعدہ مقرر ہوگیا اور ہر شخص نے جان لیا کہ میرے بعد میرے اقربا میں اس طرح مال تقسیم ہوجاویگا۔
لیکن فقہائے اسلام نے دو اور مسئلے وصیت کے متعلق قرار دیئے ہیں۔ ایک یہ کہ آیت توراۃ میں جو لوگ وارث قرار پائے ہیں ان کے حق میں وصیت جائز نہیں، ” لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلا “ ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلاوصیت لوارث “ دوسرے یہ کہ ثلث مال سے زیادہ میں وصیت جائز نہیں۔ جو کچھ کہ فقہا نے اپنے اجتہاد سے یا کسی حدیث کی بنا پر مسئلہ ٹھہرایا ہے اس میں بحث ضروری نہیں ہے کیونکہ وہ بحث حدیث کی صحت وغیرہ صحت پر جاپڑتی ہے۔ بحث اس میں ہے کہ قرآن مجید سے وصیت کا کسی قید سے مقید ہونا پایا جاتا ہے یا نہیں، سو نہیں پایا جاتا۔
قرآن مجید سے وصیت کرنا ایک فعل جائز ثابت ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد اس طرح پر کیا جاوے جس طرح کہ خود اس نے اپنی زندگی میں مقرر کردیا ہے۔ جبکہ کسی شخص کو کسی سبب سے ہلاک ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جو مطلب ” اذاحضرا احدکم الموت “ کا ہی تو اس کو ضروری ہے کہ وصیت کردے کہ اس کا مال اس کے والدین اور قرابت مندوں کو کیونکر دیا جاوے۔ آیت توراۃ سے اس حکم کا منسوخ ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ آیت وصیت کے نازل ہونے کے بعد یہ ضروری نہ تھا کہ کوئی شخص بلاوصیت مرے ہی نہیں۔ پس جو لوگ کہ باوجود حکم وصیت کے بلاوصیت مرجاویں ان کے مال کی تقسیم کے لیے کوئی قاعدہ مقرر ہونا چاہیے تھا، وہ قاعدہ آیت توراۃ میں قرار پایا۔ پس قرآن مجید کی دونوں آیتوں کے ملانے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرنے والے نے اگر کوئی وصیت کی ہے تو اس کا مال اس کی وصیت کے مطابق تقسیم کیا جاوے گا۔ اور اگر اس نے کچھ وصیت نہیں کی یا جس قدر کہ وصیت کی ہے اس سے زیادہ مال چھوڑا ہے تو اس کے مال کی یا اس قدر کی جو وصیت سے زیادہ ہے آیت توراۃ کے مطابق تقسیم ہوجاویگی۔ پس دونوں آیتوں کا حکم بحال اور قائم ہے۔ ثلث سے زیادہ میں اور وارث کے حق میں وصیت کا جائز نہ ہونا ایک ایسا امر ہے جو قرآن مجید کی کسی آیت سے پایا نہیں جاتا، اور جن حدیثوں سے اس پر استدلال کیا ہے اگر وہ تسلیم بھی کرلی جاویں تو بھی نہایت شبہ ہے کہ ان سے اس امر پر استدلال ہوسکتا ہے یا نہیں۔
بلاشبہ وصیت کو غیر مقید رکھنے میں بداخلاقی یا حق تلفی کا احتمال ہوسکتا ہے اس کا انسداد جہاں تک کہ بمقصہ اسے فطرت انسانی ممکن تھا وہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ ” بالمعروف “ یعنی نیکی اور نیک دلی سے وصیت کرے نہ کہ بدنیتی سے، کسی کا حق تلف کرنے اور ذی حق کے محروم کرنے کے لئے۔ پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی دیکھئے کہ وصیت کرنے والا کسی کے حق میں ظلم اور زیادتی کرتا ہے تو اس کو سمجھادے اور اس کی وصیت کو یا ارادہ کو بدلوادے تاکہ حق تلفی نہ ہو، اور کسی بد اخلافی یا حق تلفی کے روکنے کا طریقہ بجز اس کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سعد بن مالک کی بیماری میں خبر پرسی کو تشریف لے گئے۔ سعد بن مالک نے عرض کیا کہ میں اپنے کل مال کی وصیت کردوں (یعنی سوائے اپنے پر ابت مندوں کے اوروں کے لیے جیسا کہ حدیث کے مضمون سے پایا جاتا ہے) ۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ نصی مال کی وصیت کردوں آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک ثلث مال کی وصیت کردوں۔ آپ نے فرمایا کہ تہائی کی اور تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو دولتمند چھوڑے تو اس سے بہتر ہے کہ ان کو مفلس چھوڑے اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر خیرات لیتے پھریں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے ایک شخص نے پوچھا کہ میں اپنے مال کی وصیت کردینا چاہتا ہوں (یعنی سوائے اولاد کے) حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ تیرے پاس کتنا مال ہے اور کتنی اولاد ہے اس نے کہا کہ تین ہزار درہم ہیں اور چار اولاد ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ یہ تو بہت مال نہیں ہے، بہتر ہے کہ اپنی اولاد کے لیے رہنے دے۔ اور روایتوں میں ہے کہ حضرت علی (رض) فرماتے تھے کہ کہ میں پانچویں حصہ مال کی وصیت کرنے والے کو چوتھائی مال کی وصیت کرنے والے سے، اور چوتھا فی مال کی وصیت کرنے والے کو تہائی مال کی وصیت کرنے والے سے زیادہ پسند کرتا ہوں، اور جس نے کہ تہائی مال کی وصیت کردی اس نے تو کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ حسن بصری نے چھٹے حصہ یا پانچویں یا چوتھے تک کی وصیت کو پسند کیا، اور اس زمانہ کے لوگ اکثر پانچواں حصہ یا چوتھا حصہ وصیت کرتے تھے۔ یہ سب روایتیں اگر صحیح تسلیم ہوں اتو بھی ان سے ناجوازی وصیت کی ثلث کی نسبت ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ ان روایتوں سے صرف صلاح اور فہمائش پائی جاتی ہے جس کی نسبت خود خدا نے قرآن مجید میں فرمایا کہ اگر کوئی دیکھے کہ وصیت کرنے والا کسی کے حق میں ظلم اور زیادتی کرتا ہے تو اس کو سمجھا دے۔ وصیت کو کسی قید سے مقید کرنے سے بد اخلاقی و ظلم کی بندش نہیں ہوسکتی جبکہ ہبہ کرنے میں کچھ قید اور بندش نہیں ہے۔ وصیت وہبہ درحقیقت ایک شے ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ہبہ عطا بالفعل سے اور وصیت عطا بعد الموت۔ حدیث ” فلاوصیۃ لوارث “ کو تسلیم کرنے کے بعد بھی وارث کے حق میں وصیت کا بطلان تسلیم نہیں ہوسکتا، کیونکہ نفی ضرورت کی طرف منسوب ہوگئی نہ نفس وصیت کے بطلان کی طرف ۔ علاوہ اس کے حدیث سے نسخ حکم قرآن کسی طرح تسلیم نہیں ہوسکتا۔
آیت وصیت کو آیت توریث سے یا حدیث سے منسوخ قرار دینا ایک ایسا امر ہے جس کو علمائے متقدمین میں سے بھی اکابر علما نے تسلیم نہیں کیا۔ تفسیر کبیر (جلد صفحہ ) میں لکھا ہے کہ ابو مسلم اصفہانی کا یہ مذہب تھا کہ آیت وصیت آیت توریث سے منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ جو لوگ کہ اس کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ان کی بڑی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ اس حدیث کے رو سے ” الا لا وصیۃ لوارث “ آیت وصیت منسوخ و مسترد ہوگئی ہے، اور پھر لکھا ہے کہ اس میں بڑی دقتیں ہیں، کیونکہ یہ حدیث خبر احاد ہے اور خبر احاد سے نسخ قرآن جائز نہیں۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگرچہ خبر احاد ہے
لیکن ائمہ نے اس کو تلقی بالقبول کیا ہے، اور اس لیے یہ حدیث حدیث متواثر سے ملے گئی ہے۔ مگر اس جواب پر کوئی یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ یہ دعویٰ کہ ائمہ نے اس کو تلقی باقبول کیا ہے بطور ظن کے یا بطور یقین کے۔ پہلی بات مسلم ہے۔ لیکن انکار یہ اجماغ خبر احاد کی بنا پر ہو اس سے نسخ قرآن جائز نہیں، اور دوسری بات ممکن نہیں کیونکہ اگر انھوں نے اس حدیث کو قطعی سمجھ کر اجماع کیا ہے باوجودیکہ وہ خبر احاد ہے تو ان کا اجماع خطا پر مبنی ہوگا جو ناجائز ہے۔ اور اگر یہ کہا جاوے کہ یہ آیت اجماع سے منسوخ ہوگئی ہے تو بھی اجماع سے قرآن کا منسوخ ہونا جائز نہیں ہے، کیونکہ اجماع اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی دلیل آیت کے منسوخ ہونے کی موجود ہی مگر انھوں نے اس دلیل کو تو بیان نہیں کیا اور اجماع ہی پر اکتفا کیا اور اجماع ہی پر اکتفا کیا، تو وہ کیونکر ناسخ قرآن ہوسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب ایسے لوگ بھی امت میں موجود ہیں جو اس نسخ کے منکر ہیں تو اجماع کا نسخ پر کیونکر دعویٰ ہوسکتا ہے۔ غرضیکہ قرآن کی رو سے پایا جاتا ہے کہ وصیت کا ہر شخص کو بلا کسی قید کے اختیا رہے اگر اسے ظلم اور حق تلفی کے ارادہ سے وصیت کی ہوگی تو اس کا وبال اس کی گردن پر ہوگا۔ مگر وصیت کے نافذ ہونے میں کچھ کلام نہیں ہوسکتا۔ ہاں جن لوگوں نے وصیت نہیں کی یا وصیت سے زیادہ مال چھوڑا تو ان کا مال مطابق حکم آیت توریث کے وارثوں پر تقسیم ہوگا۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 183

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ

تفسیر سرسید :

( یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام) اس آیت میں جو یہ حکم ہے کہ ” تم پر روزہ لکھا گیا جس طرح کہ تم سے پہلوں پر لکھا گیا تھا “ اس کا مطلب قرار دینے کو چار باتوں کی تنقیح چاہیے۔ اول یہ کہ ان روزوں سے کون سے روزے مراد ہیں۔ یہ کہ ” تم سے پہلوں “ سے کون لوگ مراد ہیں۔ تیسرے یہ کہ ان پہلوں پر کون سے روزے لکھے گئے تھے۔ چوتھے یہ کہ ” جس طرح “ کے لفظ سے کس بات میں تشبیہ مراد ہے۔
پہلی بات کی نسبت مفسرین میں اختلاف ہے۔ معاذ و قتادہ وعطا، اور بموجب ایک روایت کے ابن عباس کے نزدیک یہ روزے ایام بیض کے اور روزہ وعاشورہ کا تھا، یعنی وہ تین روزے تھے جو ہر مہینے کی تیرہویں چودھویں بندرھویں کو رکھے جاتے تھے، اور ایک روزہ وہ تھا جو دسویں محرم کو رکھا جاتا تھا۔ اور اکثر محققین کے نزدیک جن میں ابن عباس اور حسن اور ابی مسلم بھی شامل ہیں ان روزوں سے رمضان ہی کے روزے مراد ہیں، اور اس صورت میں لفظ ” شھر رمضان “ جو اگلے آیت میں ہی وہ بدل واقع ہوگا لفظ ” صیام “ سے جو اس آیت میں ہی یعنی ” کتب علیکم الصیام صیام شھر رمضان “۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ان روزوں سے رمضان کے روزے مراد نہیں ہیں وہ یہ دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ اول یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ رمضان کے روزوں سے اور باقی روزوں کے رکھنے کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے سوا اور بھی روزے تھے، اور اس مقام پر ” صیام “ سے وہی روزے مراد ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان روزوں کے ذکر کے بعد بھی مریض اور مسافر کی نسبت حکم بتایا ہے اور اگلی آیت میں یہاں خاص رمضان کے روزوں کا نام لیا ہے اس کے بعد بھی مریض اور مسافر کی نسبت حکم بتایا ہے۔ پس اگر یہ دونوں روزے ایک ہی ہوتے تو دوبارہ حکم بتانے کی کیا حاجت تھی۔ تیسرے یہ کہ ان روزوں کی نسبت ان لوگوں کو بھی جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں خدا نے اختیار دیا تھا کہ چاہیں روزہ رکھیں اور چاہیں فدیہ دیں، مگر رمضان کے روزوں کی نسبت یہ اختیار نہیں دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روزے رمضان کے سوا تھے۔
اس رائے کی تائید ان روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو معالم التنزیل میں لکھی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے ہر مہینے میں تین روزے اور عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا، اور سترہ مہینے تک قبل فرض ہونے روزہ رمضان کے اسی طرح رکھے گئے۔ اور حضرت عائشہ (رض) سے ایک روایت لکھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں پہنچنے کے بعد عاشورہ کا روزہ رکھا، اور لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا، اور زمانہ جاہلیت میں قریش اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کا روزہ چھوڑ دیا گیا۔ اور ابن عباس سے ایک روایت لکھی ہے کہ ہجرت کے بعد جو حکم اول منسوخ ہوگئے وہ بیت المقدس کی طرف قبلہ ہونے اور روزہ رکھنے کے تھے۔ مگر یہ روایتیں ایسی ہیں جن کی صحت نہایت مشتبہ ہے۔
جو لوگ اس رائے کے برخلاف ہیں، اور لفظ ” صیام “ سے جو اس مقام پر ہے رمضان ہی کے روزے مراد لیتے ہیں، وہ ان دلیلوں کا اس طرح پر جواب دیتے ہیں کہ اول خدا نے فرمایا کہ ” تم پر روزے لکھے گئے “۔ یہ ایک مجمل حکم تھا جس سے نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ایک روزہ یا دو روزے یا کئی روزے۔ پھر اس کے بعد فرمایا کہ ” گنے ہوئے دنوں کے ، اس قول سے کچھ اجمال رفع ہوا۔ پھر فرمایا کہ ” ماہ رمضان کے “ جس سے ہر ایک بات متعین ہوگئی ۔ پس اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ ” صیام “ اور ” ایام معدودات “ اور ” شہر رمضان “ تینوں کی ایک ہی مراد ہے تو ” لفظ “ صیام “ سے سوائے رمضان کے اور روزوں کے مراد یعنی کی کچھ ضرورت نہیں ہے، اور یہ جو دلیل ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ” ان صوم رمضان نسخ کل صوم “ اس سے یہ متحقق نہیں ہو تاکہ جو روزے منسوخ ہوئے وہ اسلام میں فرض تھے، بلکہ ممکن ہے کہ وہ روزے ہوں جو اور شریعتوں میں فرض تھی۔ اور اگر فرض کیا جاوے کہ وہ وہی روزے تھے جو اسلام میں فرض تھی تو یہ کیونکر متحقق ہوگا کہ وہ وہی روزے تھے جو اس آیت کے روسی فرض کی گئی ہیں۔ اور یہ جو دلیل ہے کہ اگر یہ دونوں روزے ایک ہوتے تو بیمار اور مسافر کا حکم مکرر نہ بیان کیا جاتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں رمضان کے روزوں کے رکھنے یا فدیہ دینے کا اختیار تھا۔ مگر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور مسافر اور مریض کے لیے جو حکم تھا وہ بدستور باقی رہا۔ اس شبہ کے رفع ہونے کے لیے کہ آیا بیمار و مسافر کے حق میں بھی وہ حکم منسوخ ہوگیا ہے یا نہیں اس حکم کو مکرر بیان کیا گیا۔ اور جبکہ فدیہ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا تو یہ حجت کہ ان روزوں میں فدیہ دینے کا اختیار تھا اور رمضان کے روزوں میں فدیہ دینے کا اختیار نہیں ہے اس لیے وہ روزے رمضان کے علاوہ تھے پیش نہیں ہوسکتی۔
ان دونوں رایوں میں سے کوئی رائے تسلیم کی جائے اس کا نتیجہ کشتی کسی آیت کا منسوخ ماننا پڑے گا کیونکہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ لفظ ” رمضان “ سے رمضان کے سوا اور روزے مراد تھے تو ان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس آیت میں خاص رمضان کے روزوں کا ذکر ہے اس سے پہلے آیت منسوخ ہوگئی، اور جو لوگ کہتے ہیں کہ لفظ ” صیام “ سے رمضان ہی کے روزے مراد ہیں تو وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جس آیت میں روزے رکھنے یا فدیہ دینے کا حکم تھا وہ رمضان کے روزوں کی آیت سے جس میں یہ اختیار نہیں رہا منسوخ ہوگئی ہے۔
اس طرح پر ناسخ و منسوخ ماننے میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ایسی آیتوں کو جو بالکل متصل اور سلسلہ وار ہیں کسی طرح ایک کو دوسری کا ناسخ تسلیم کریں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ تلاوت میں آیتوں کا متصل ہونا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ وہ اسی طرح متصل نازل بھی ہوئی ہوں۔ بلکہ ایسا بھی ہے کہ منسوخ آیت نزول میں اول ہی اور ناسخ بعد، مگر تلاوت میں ناسخ مقدم ہوگئی ہے اور منسوخ بعد، وانا اقول فیہ نظر۔
دوسری بات کی نسبت مفسرین نے ایک مہم بات لکھ دی ہے۔ تفسیر معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ ” من قبلکم “ سے مراد ” من الانبیاء والا ھم “ ہے س اور تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ” من قبلکم یعنی ” الانبیاء والامم من لدن اٰدم “ مگر یہ بیان محض ناکافی ہے، کیونکہ صاف بتانا چاہیے کہ ” من قبلکم “ سے کون سے نبی یا کون سی امت مراد ہے۔ اس واسطے کہ اس بات کا کچھ ثبوت نہیں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کوئی نبی اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس پر روزہ فرض نہ ہو۔ اس لیے اس امت کا تعین کرنا ضرور ہے۔ مشرک قومیں جو روزے رکھتی تھیں ان کی نسبت تو کہا ہی نہیں جاسکتا کہ خدا نے ان پر روزے فرض کیے تھے۔ کیونکہ ان کے اکثر روزے غیر خدا کے لیے ہوتے تھے۔ قرآن مجید میں اکثر جگہ ” من قبلکم “ کا اشارہ اہل کتاب کی طرف ہوا ہے، یعنی یہود اور نصاریٰ کی طرف، اور اس لیے ” من قبلکم “ سے اہل کتاب مراد لیے جاتے ہیں اور ان کی نسبت خدا کی طرف سے کسی حکم کا مقرر ہونا صادق بھی آسکتا ہے۔
تیسری بات کی نسبت مفسرین نے یہود اور نصاریٰ کے روزوں کا ذکر کیا ہے، اور لکھا ہے کہ یہود اور نصاریٰ پر بھی خدا تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے تھے۔ نصاریٰ نے اس مہینے کو بدل کر معین موسم میں روزوں کا رکھنا مقرر کیا، اور اس تبدیل کے معاوضہ میں دس روزے بڑھا دیئے اس کے بعد ان کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا اور اس کے اچھے ہونے کے لیے سات روزوں کی نذر مانی، جب وہ اچھا ہوا تو سات روزے اور بڑھا دیئے، سینتالیس ہوگئے۔ پھر ان میں ایک بادشاہ ہوا اس نے کہا کہ تین روزوں کے چھوڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ اس لیے انھوں نے پورے پچاس کرلیے۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ نصاری احتیاطً رمضان کے اول اور رمضان کے بعد بھی ایک ایک روزہ رکھتے تھے تاکہ رمضان کے مہینے میں کچھ نقصان نہ پڑے۔ ان کے بعد کے لوگ اسی طرح ایک ایک بڑھاتے گئے، یہاں تک کہ پچاس تک نوبت پہنچ گئی۔ اور بعضوں کا یہ قول ہے کہ دو بادشاہ نصاریٰ کے مرگئے تھے اس لیے انھوں نے رمضان سے پہلے دس روزے اور رمضان کے بعد دس روزے اور بڑھا لیے۔ ایک اور روایت بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ نے رمضان کے روزے یہود اور نصاریٰ پر فرض کیے تھے۔ یہودیوں نے اس کو چھوڑ دیا، اور بجائے ان کے برس بھر میں صرف ایک روزہ اس دن رکھنا اختیار کیا جس دن میں فرعون کا غرق ہونا وہ خیال کرتے تھے، اور اس دن کے اختیار کرنے میں بھی انھوں نے غلطی کی کیونکہ فرعون دسویں محرم کو غرق ہوا تھا۔ یہ تمام اقوال مفسرین کے ایسے لغو و بیہودہ ہیں جیسا کہ ان کی اور باتیں متعلق قصص اور حکایات کے لغو اور بےبنیاد ہوتی ہیں، جن کی نہ کوئی سند ہوتی ہے اور نہ کوئی ثبوت ہوتا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے ۔۔۔ روزوں کے حالات جو ان کی کتابوں سے معلوم ہوتے ہیں وہ حسب تفصیل ذیل ہیں۔
کتاب خروج کے (جو توراۃ کی دوسری کتاب ہے) باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ سینا پر تھے تو چالیس دن اور چالیس رات وہاں رہے ، اور نہ روٹی کھائی نہ پانی پیا۔ توراۃ کی کتاب استثنا باب درس و و کی تفسیر (ہنری اسکاٹ) میں نہ روٹی کھانے اور نہ پانی پینے کی نسبت لکھا ہے کہ لوگوں کی معصیت کی وجہ سے موسیٰ نے دوسری دفعہ چالیس دن کا روزہ رکھا تھا۔ اور بعضوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تین مرتبہ چالیس چالیس دن کا روزہ رکھا ہے۔
کتاب لوبان کے (جو توراۃ کی تیسری کتاب ہے) باب ، درس ، اور باب درس و سے پایا جاتا ہے کہ یہودیوں پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کے روزے رکھنے کا حکم تھا، اور اس میں لکھا ہے، کہ جو کوئی اس دن روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے منقطع ہوجائے گا ۔ اور اعمال حواریان باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے رکھا کرتے تھے۔
انجیل لوقا باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ فروسی ، ہفتہ میں دو دن روزہ رکھا کرتے تھے، ایک پانچویں دن جبکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ سینا پر چڑھے تھے اور ایک دوسرے دن جبکہ اترے تھے۔
کتاب زکریا بابدرس سے پایا جاتا ہے کہ یہودی چوتھے مہینے اور پانچویں مہینے اور دسویں مہینے میں بھی روزہ رکھتے تھے۔ چوتھے مہینے یعنی تموز میں سترھویں تازریخ کو بیت المقدس کی تباہی کے غم میں جو بخت نصر کے ہاتھ سے ہوئی تھی۔ پانچویں مہینے یعنی آب میں نویں تاریخ کو بیت المقدس کے شہر کے جلنے کے غم میں جس کو نبوزردان شاہ بابل کے افسر نے جلایا تھا۔ ساتویں مہینے یعنی تشری کی دسویں تاریخ کو جدلیا کے قتل ہونے کے غم میں جو بمقام مصیاہ مارا گیا تھا۔ دسویں مہینے یعنی تبث کی دسویں تاریخ کو بیت المقدس کے غم میں جس روز کہ بخت نصر نے بیت المقدس کا محاصرہ شروع کیا تھا۔
کتاب ول ملوک باب درسو کتاب دوم تواریخ ایلم باب باب درس میں ایک دن کا روزہ ہے جس کو ملکہ ایزبل نے اپنے شوہر احاب کی خاطر سے منادی کرا کے مقرر کرایا تھا۔
کتاب قضاۃ باب درس سے ایک اور روزہ کا مقرر ہونا پایا جاتا ہے جبکہ بنی اسرائیل کے قوم بنیامین سے شکست پائی تھی اور بیت المقدس میں آکر فتح کے لیے دعا مانگی تھی۔
کتاب اول شموئیل باب درس سے پایا جاتا ہے کہ شاؤل یعنی طالوت کے مرنے کے غم میں سات روزے مقرر ہوئے تھے، جو اس کی ہڈیوں کے دفن کرنے کے بعد رکھے گئے تھے کتاب یوناہ باب درس میں ایک اور روزہ کا مقرر ہونا پایا جاتا ہے جب کہ نیتویہ کے لوگ ایمان لائے تھے۔ کتاب دانیال باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دانیال نے تین ہفتہ تک روزے رکھے تھے۔
کتاب اول ملوک باب درس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت الیاس کوہ حوریپ کو گئے تھے تو انھوں نے چالیس دن اور رات روزے رکھے تھے۔
علاوہ ان کے اور روزے بھی مثلاً خدا تعالیٰ کی خفگی دور کرنے کے لئے، یا اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے، یا کسی بلا یا مصیبت کو ٹالنے کے لئے، یا کسی ذاتی یا خاندانی امور کے متعلق جس طرح کہ منت وغیرہ کے ایفا میں ہوتا ہے یہودی روزے رکھا کرتے تھے۔
انجیل متیٰ باب درس - و انجیل لو قاباب درس - سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی جبکہ وہ بیابان میں تھے چالیس دن اور رات روزے رکھے تھے۔
علاوہ اس کے انجیل متی کے باب درس سے جس میں یہ لکھا ہے کہ ” بہرنہج اس قسم کا شیطان بجز نماز اور روزہ کے نہیں جاتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں روزہ بعض امور خاص میں اثر بد کے وفع کرنے کا ایک ذریعہ خیال کیا جاتا تھا۔
انجیل متیٰ باب درس کے مضمون سے عیسائی خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے روزوں کا رکھنا موقوف کردیا، مگر اس کے ساتھ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رکھنے ہوں گے ۔
ان تمام حالات پر جو اوپر بیان ہوئے غور کرنے سے اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ یہودیوں پر ایک روزہ جو ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو رکھا جاتا تھا، اور جو کفار کا روزہ کہلاتا تھا بلاشبہ فرض تھا، اور جو کہ عیسائی بھی یہودی شریعت کے تابع ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہ روزہ ان پر بھی فرض تھا۔ چالیس دن کے روزے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ سینا پر اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بیابان میں رکھے ممکن ہے کہ فرض ہوں مگر توراۃ یا انجیل میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے فرضیت ان روزوں کی ثابت کی جاسکے۔ علاوہ اس کے جس قدر روزوں کا بیان ہے وہ سب روزے کیا یہودی مذہب میں اور کیا عیسائی مذہب میں فرض روزے نہیں معلوم ہوتے بلکہ بطور نفل روح کے تزکیہ اور عبادت کے ثواب حاصل کرنے کے لیے معلوم ہوتے ہیں۔
چوتھی بات کی نسبت بھی مفسروں میں اختلاف ہے جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ لفظ ” کما “ کی تشبیہ سے روزوں کے عدد میں مشابہت مراد تھی ان کی رائے کی غلطی تو صریح ظاہر ہے، کیونکہ یہود اور نصاریٰ پر نہ ایام بیض کے روزوں کا فرض ہونا پایا جاتا ہے، نہ رمضان کے تیس یا اونتیس روزوں کا۔ اور جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس تشبیہ سے روزے کی مدت میں مشابہت مراد ہے یعنی جس وقت سے جس وقت تک یہودی روزہ رکھتے تھے اسی وقت سے اسی وقت تک مسلمانوں پر بھی روزہ فرض ہوا ہے، یہ رائے بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہودی دن کے ختم ہونے کے بعد روزہ کھول کر کچھ کھا پی لیتے تھے، اور پھر اسی وقت سے ان کا روزہ شروع ہوجاتا تھا، اور اس وجہ سے توراۃ اور انجیل میں دن رات کا روزہ رکھنا بیان ہوتا ہے، کیونکہ رات بھی روزہ میں داخل تھی۔ مسلمان بھی ان باتوں میں جن کی نسبت کوئی خاص حکم نہیں ہوتا تھا اکثر یہودیوں کی پیروی کرتے تھے، اور اس لیے وہ بھی یہودیوں کی طرح روزہ رکھتے تھے۔ لیکن کوئی خاص حکم اس طرح پر روزہ رکھنے کا مسلمانوں کے لیے نہ تھا۔ ” کما “ کے لفظ کے ساتھ جو اس آیت میں ہے کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ مشابہت روزہ کی ملت میں تھی۔ اس آیت میں صرف اس قدر بیان ہوا ہے کہ جس طرح تم سے اگلوں پر روزے مقرر کیے گئے تھے اسی طرح تم پر بھی مقرر کیے گئے ہیں، اور اس تشبیہ سے مدت میں مشابہت قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اکثر مفسرین کی یہ رائے ہے کہ صرف نفس فرضیت میں تشبیہ مراد ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں زجاج کا قول لکھا ہے کہ ” موضع کما نصب علی المصدولان المعنی فرض علیکم فرضاً کالذی فرض علی الذین من قبلکم اور ابو علی کا قول لکھا ہے کہ ” ھوصغۃ لمصدر محذوف تقدیرہ کنابۃ کما کتب علیھم فحذف لصدر راتیم نعتہ مقامہ “ مگر جب کہ یہ بات اب تک ثابت نہیں ہوئی کہ درحقیقت خدا کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں پر روزے فرض تھے تو ” کما “ کے لفظ سے نفس فرضیت میں بھی تشبیہ کیونکر تسلیم کی جاوے۔
ان چاروں مباحثوں کی نسبت جو میری سمجھ ہے وہ یہ ہے کہ ان روزوں سے جو کتب علیکم الصیام کی آیت میں ہیں رمضان ہی کے روزے مراد ہیں۔ ( من قبلکم) سے اہل کتاب مراد ہیں۔ ، اس آیت میں اس بات کی کہ اہل کتاب پر کوئی روزے فرض تھے یا نہ تھے کچھ علاقہ نہیں ہے۔ ” کما “ کے لفظ سے نہ عدو میں تشبیہ مراد ہے نہ مدت میں اور نہ نفس فرضیت میں، بلکہ صرف سبب صیام میں تشبیہ مراد ہے۔ زمانہ نزول وحی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن پہاڑ میں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن بیابان میں بسر کیے۔ توراۃ اور انجیل دونوں سے پایا جاتا ہے کہ ان دونوں میں وہ روزہ دار تھے۔ بعد کو ان کی امت نے ان کی متابعت کے خیال سے ان دنوں میں ہر سال روزے رکھنے اختیار کیے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان کو جو نزول وحی کا مہینہ تھا کوہ حرا میں بسر کیا، اور آپ بھی اس زمانہ میں روزہ دار تھے۔ پس خدا نے فرمایا کہ جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں نے بحنابعت اپنے نبی کے اس زمانہ میں روزے اختیار کیے تھے اسی طرح تم بھی اختیار کرو۔ پس جو سبب کہا ہل کتاب کے روزے اختیار کرنے کا تھا وہی سبب مسلمانوں پر روزوں کے مقرر ہونے کا ہے، اور ” کما “ کے لفظ سے اسی سبب صیام میں تشبیہ دی گئی ہے۔
مگر میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان آیتوں میں سے کوئی آیت منسوخ ہے یہ کہنا کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ روزے رمضان کے سوا تھے اور پھر یہ تسلیم کرنا کہ اس کے بعد کی آیت نے جس میں رمضان کے روزوں کا ذکر ہے پہلی آیت کے حکم کو منسوخ کردیا ہے ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ اس رائے کو تسلیم کرکے کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ رمضان ہے کہ روزے ہیں مگر پچھلی آیت سے جو اختیار کہ روزہ رکھنے یا فدیہ دینے میں تھا منسوخ ہوگیا ہے تسلیم کرنا مشکل ہے۔ پچھلی آیت میں جس کو ناسخ قرار دیا جاتا ہے کوئی اشارہ کسی قسم کا پہلی آیت کے حکم کے منسوخ ہونے کا نہیں ہے، صرف قیاساً یہ بات قرار دی جاتی ہے کہ پہلی آیت کے روزے رمضان کے روزوں سے علیحدہ تھے نہ جن کی نسبت قرآن میں بیان ہے کہ وہ کئے تھے اور کون سے تھے، اور اس قیاس کے قرار دینے کے بعد کہا جاتا ہے کہ رمضان کے روزوں کی آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا جس میں کچھ بھی اشارہ منسوخ کرنے کا نہیں ہے۔ حدیث پر جو استدلال کیا گیا ہے اول تو اس کی صحت میں کلام ہے، پھر اس بات میں کلام ہے کہ حدیث اور خصوصاً خبراحاد سے قرآن کا حکم منسوخ ہوسکتا ہے یا نہیں۔ یا قیاساً یہ بات قرار دی جاتی ہے کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ وہی رمضان کے روزے ہیں جن کا پچھلی آیت میں ذکر ہے اور پھر بغیر کسی اشارہ کے کہا جاتا ہے کہ جو اختیار کہ روزہ رکھنے یا فدیہ دینے میں ما وہ پچھلی آیت سے منسوخ ہوگیا۔ اگر قرآن میں اس طرح پر ناسخ و منسوخ کو تسلیم کیا جاوے تو اس کے احکام کا منسوخ ہونا اور قائم رہنا صرف لوگوں کے قیاس پر منحصر رہے جاتا ہے جو کسی طرح تسلیم کے لائق نہیں۔
فدیہ دینے کی آیت میں جو حکم ہے وہ منسوخ نہیں ہوا ، اور وہ آیت یہ ہے ” وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیرانھو خیرلہ وان تصوموا خیر لکم کنتم تعلمون “ اس آیت میں جو لفظ ” یطیقون “ کا ہے اس کی اور بھی قراتیں ہیں مثلا ” یطوقونہ “ یہ کے پیش اور واؤ کے تشدید سے، یا یے کے زبر اور ط اور واؤ دونوں کی تشدید سے، جس کے معنی کسی کام کے تکلیف اٹھا کر ہونے کے ہیں، مگر جو مشہور قراءت ہے ہم اس کو اختیار کرتے ہیں۔ بعض علمائے مفسرین کی یہ رائے ہے کہ فدیہ کا حکم بھی مسافر اور مریض سے علاقہ رکھتا ہے کیونکہ بعض مریض اور مسافر ایسے ہوتے ہیں جو مطلق روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پہلے قسم کے مسافر اور بیمار کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں، اور دوسرے قسم کے مسافر اور بیمار کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ چاہیں روزہ رکھیں اور چاہیں فدیہ دے دیں مگر یہ معنی صحیح نہیں ہوسکتے، کیونکہ ” علی الذین “ سے بالتخصیص بیمار اور مسافر مرلولینے کی وجہ نہیں ہے۔
لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اور جو رعایت اول قسم کے بیمار اور مسافر کی ہونی چاہیے تھی وہ دوسری قسم کے بیمار اور مسافر کی ہوتی ہے۔
بعض علما کا یہ قول ہے (تفسیر کبیر جلد صفحہ ) کہ ” یطیقون “ کے معنی بھی مشکل اور تکلیف سے کسی کام کے انجام ہونے کے ہیں۔ دو لفظ ہیں ایک ” وسع “ اور ایک ” طاقت “۔ ” وسع “ اس شخص کی نسبت بولا جاتا ہے جو کسی کام کرنے پر آسانی سے اور بغیر تکلیف کے قادر ہو۔ اور ” طاقت “ اس شخص کی نسبت بولا جاتا ہے جو کسی کام کرنے پر مشکل سے اور تکلیف اٹھا کر قادر ہو۔ اور وہ شاذ قراتیں جن کا اوپر ذکر کیا ہے اسی مطلب کی تائید کرتی ہیں پس ” یطیقونہ “ کے معنی ” یستصعبونہ “ کے ہوں گے ۔ جو لوگ کہ روزہ رکھنے کی نہایت تکلیف اور سختی اٹھا کر طاقت رکھتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزہ رکھنے کے بدلے فدیہ دے دیں۔ پس یہ آیت منسوخ نہیں ہے اور اپنے حکم پر بحال ہے۔
بعض علمائے مفسرین نے بھی جیسا کہ تفسیر کبیر میں مندرج ہے اس بات کو تسلیم کیا ہے، مگر یہ بحث پیش کی ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو نہایت تکلیف اور سختی اٹھا کر روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ وہ لوگ وہ ہیں جو بہت بڈھے ہوگئے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت انس (رض) اپنے مرنے سے پہلے روزہ نہیں رکھتے تھے ان کو روزہ رکھنے میں سختی اور دشواری معلوم ہوتی تھی، اور ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتے تھے ۔ مگر میں نہیں سمجھتا کہ بڈھے آدمی کی کیوں قید لگائی ہے۔ قرآن مجید میں کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس سے ” الذین “ سے صرف بڈھا ہی آدمی مخصوص کیا جائے تمام انسان بدھے ہوں یا جوان ان کی حالت باعتبار خلقت اور موسم اور ملک کے مختلف ہوتی ہے۔ بہت سے جوان آدمی بلحاظ اپنی خلقت کے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو روزہ میں بےانتہا تکلیف اور مشقت ہوتی ہے۔ اور بعض بڈھے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو روزہ معلوم بھی نہیں ہوتا، پھر موسم کے اختلاف کے سبب سے بہت اختلاف پڑجاتا ہے۔ وہی لوگ جو ایک موسم میں نہایت آسانی سے روزہ رکھ سکتے ہیں دوسرے موسم میں روزہ رکھنے میں نہایت سختی اور تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ایک ملک کے لوگ جبکہ دن ایک معتدل مقدار کا ہوتا ہے آسانی سے روزہ رکھینگے اور وہی لوگ جبکہ دن بڑا ہوتا ہے نہایت تکلیف اور سختی روزہ رکھنے میں اٹھاوینگے۔ بلکہ بعض ملکوں میں کبھی دن اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ انسان کی طاقت سے روزہ رکھنا خارج ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارض تسعین میں جہاں چھ مہینے کا دن ہوتا ہے، اور ارض ستین میں جہاں بعض موسموں میں غروب اور طلوع میں اس قدر فاصلہ ہوتا ہے جس کی نسبت یہ کہا جاسکتا ہے کہ رات ہوتی ہی نہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے ان تمام حالات کے لحاظ سے جو اس کے علم میں تھے نہایت عمدہ ترتیب سے جو فطرت انسانی کے بالکل مطابق ہے یہ حکم دیا ہے کہ ” وعلی الذین یشیفونہ فدیۃ طعام مسکین “ پھر اس کو شخص دوں شخص سے مقید کرنا ایک غلطی مادر زیادتی علی الکتاب ہے۔
پہلی آیتوں میں جہاں بیمار اور مسافر کا اور ان لوگوں کا جو بدشواری روزہ برداشت کرسکتے ہیں حکم ہے ان آیتوں کا علانیہ یہ منشا تھا کہ مریض اور مسافر کو روزے کا رکھنا بہتر ہے۔ مگر ان لوگوں کی نسبت جو بدشواری روزہ رکھ سکتے تھے یہ منشا تھا کہ ان کو روزہ رکھنا بہتر ہے، جیسا کہ ان لفظوں سے کہ ” وان تصومواخیرلکم “ پایا جاتا ہے۔ اسی منشا سے پچھلی آیتوں میں جن میں روزوں کو رمضان کے ساتھ مخصوص کیا ہے مریض اور مسافر کا مکرر ذکر کیا، اور ان لوگوں کا جو بدشواری روزہ برداشت کرسکتے تھے ذکر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر تھا۔
ان تمام بحثوں کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ پہلی آیت میں جن روزوں کا ذکر ہے وہ رمضان ہی کے روزے ہیں، اور کوئی حکم اور کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔ اور تمام آیتوں پر لحاظ کرنے کے بعد روزوں کی نسبت مفصلہ ذیل حکم پائے جاتے ہیں۔
۔ روزے رمضان کے ہر مسلمان پر لکھے گئے ہیں جس کو شرعی اصطلاح میں فرض کہتے ہیں۔
۔ روزوں کے رکھنے سے یہ فرض ادا ہوتا ہے۔
۔ اگر رمضان کے مہینے میں کوئی شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس کو روزہ رکھنا نہیں چاہیے اور دنوں میں جبکہ وہ تندرست ہو اور سفر ختم ہوجاوے تو اس کے بدلے روزے رکھ دے۔
۔ جن لوگوں کو روزہ رکھنے میں زیادہ سختی اور تکلیف ہوتی ہے اور بمشکل روزہ رکھ سکتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزوں کے بدلے فدیہ دیں۔ مگر ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر ہے۔
جو لوگ کہ روزہ پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ وہ انسان کی تکلیف کا باعث ہے اور صحت جسمانی کا نہایت مضر ہے، اور بعض ملکوں میں اس کا ادا کرنا غیر ممکن ہے، ان تو معلوم ہوگیا ہوگا کہ جس ترتیب اور خوبی سے خدا نے روزوں کا ذکر کیا ہے وہ نہ تکلیف کا باعث ہے، اور نہ صحت جسمانی کو مضر ہے، اور نہ خلاف فطرت انسانی ہے، اور نہ کسی ملک کے رہنے والوں کے خلاف طاقت ہے۔ مگر ایک بحث البتہ باقی ہے کہ آیا وہ فی نفسہ عبادت بھی ہے یا نہیں، اور اگر عبادت ہے تو کیوں ۔ چنانچہ اس بحث کو ہم شروع کرتے ہیں۔
جس قدر کثرت سے یہود اور متقدمین عیسائی روزے رکھتے تھے اس سے ظاہر ہے کہ ان کا خیال روزہ رکھنے سے تزکیہ نفس اور خدا کی رضامندی اور خدا کی عبادت کا تھا۔ ابتدائے زمانہ میں جبکہ انسان نے شایستگی کی طرف میلان شروع کیا تھا تمام لوگوں کو یہ خیال تھا کہ خدا اپنی مخلوق سے نہایت راضی ہوتا ہے اگر مخلوق قصداً اپنے بدن کو اپنی روح کو خدا کی خوشنودی کی نیت سے تکلیف و مصیبت میں ڈالے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض قوموں نے تکالیف شاقہ اپنے پر گوارا کی ہیں۔ کسی نے ایک غار میں اپنی تمام زندگی بسر کردی۔ جب ہم ہندو جوگیوں اور قدیم عیسائی فقیروں کے رہنے کے غار اور پہاڑوں کی تنگ و تاریک کھوئیں دیکھتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے، اور مذہبی خیالات کا جو غلبہ انسان پر ہوتا ہے اس کا اندازہ کیا جاتا ہے، اور دیکھا جاتا ہے کہ انہی خیالات کے سبب سے انسان نے کس قدر تکلیفیں اپنے اوپر گوارا کی ہیں۔ کوئی اپنا ہاتھ اونچا کرکے سکھا دیتا ہے، کوئی بیٹھنا اور لیٹنا چھوڑ دیتا ہے اور تمام عمر کھڑے رہ کر گزار دیتا ہے۔ کوئی لذیذ غذا کو چھوڑ دیتا ہے، اور تمام عمر صرف نہایت حقیر اور کثیف غذا پر زندگی بسر کرتا ہے۔ کوئی پلنگ پر سونا اور شادی کرنا چھوڑ دیتا ہے ، جس کی بہت سی مثالیں اب بھی ہم کو ہزاروں عیسائی مانک اور نن میں دکھائی دیتی ہیں۔ غرضیکہ تمام جسمانی ریاضتوں کا اسی غلط خیال پر رواج ہوا ہے۔ اسی خیال سے جان کی قربانی مروج ہوئی، اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ انسان نے اپنی جان کی اور اپنی اولاد کی جان کی گناہ سے روح کو پاک کرنے کے خیال سے قربانی کی۔ یہ ایک عجیب خیال تھا کہ خدا یا دیوتا انسان کی زندگی کو آسائش سے بسر کرنا پسند نہیں کرتا۔ تمام یونانی اور رومی مذہبی افسانوں سے یہ خیال مترشح ہوتا ہے کہ دیوتا یا خدا انسان کے عیش کو روا نہیں رکھتا۔
ابتدا میں جبکہ انسان کی غذا صرف زمین کی قدرتی پیداوار اور جنگل کے جانوروں کے شکار پر منحصر تھی کبھی کبھی فاقہ گزر جانا لازمی امر ہوگا۔ نیم وحشی انسانوں کو غذا سے زیادہ کوئی چیز حظ دینے والی نہ ہوگی۔ جب انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دیوتا یا خدا انسان کی جسمانی تکلیف سے راضی ہوتا ہے تو اس وقت روزہ نے مذہبی امر ہونے کا درجہ پایا ہوگا۔ توراۃ میں جہاں روزہ رکھنے کا حکم ہے وہاں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا ہے کہ ” اپنی روحوں کو مبتلا کرو “۔ عبری زبان کے قدیمی محاورہو کے موافق روح کے مبتلا کرنے سے روزہ رکھنا مراد ہوتا ہے پس کچھ شبہ نہیں ہے کہ روزہ رکھنا اسی خیال سے کہ خدا ریاضت بدنی سے راضی ہوتا ہے مذہبی امر قرار پایا ہے۔
محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خیال کو کہ خدا انسان کی ریاضت بدنی یعنی جسم اور روح کو تکلیف میں ڈالنے سے راضی ہوتا ہے متعدد طرح سے باطل کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ رہبانیت اسلام میں نہیں ہے۔ اس لیے یہ خیال نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خیال پر رمضان کے روزوں کا حکم دیا ہو۔ مگر انبیاء کا کام صرف سمجھدار ہی لوگوں پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان کو تمام لوگوں سے کام پڑتا ہے اور عام لوگوں کو ایسے امور کی نسبت جس سے ان کو خدا کے رضامند کرنے کا خیال پیدا ہو زیادہ خیال ہوتا ہے۔ عرب کے لوگ یہودیوں اور عیسائیوں کو دیکھتے تھے کہ خدا کے خوش کرنے کے خیال سے اور اپنے پیغمبر کی پیروی کی نظر سے روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس رسم کے جاری رکھنے کی ایک عمدہ اور آسان اور غیر مخالف فطرت انسانی کے طریقہ میں اجازت دی ۔ چنانچہ الفاظ ” کما کتب علی الذین میں قبلکم “ صاف اسبات پر دلالت کرتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس رسم کے موجد نہ تھے، بلکہ اس رسم کو صرف بدستور قائم رہنے دیا تھا۔ بااینیمہ اس رسم کی سختی کو نہایت عمدگی سے نرم اور قابل برداشت کردیا، کہ بیماروں اور مسافروں کو اور دنوں میں اور جو لوگ روزہ سے زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں مجاز کردیا۔
باوجود ان سب باتوں کے جبکہ روزہ ضد اعتدال سے نہ گزر جاوے اور وبال جان نہ ہوجاوے، اور انسان پر صعوبت نہ ڈالے ، جس کا اشارہ ” یطیقونہ “ کے لفظ میں ہے، تو بلاشبہ تزکیہ نفس اور روح میں نیکی اور صلاحیت پیدا ہونے کا ذریعہ ہے۔ کم کھانا بلاشبہ انسان کے دل اور دماغ کو زیادہ صحیح اور درست رکھتا ہے، اور انسان کے دل کو خدا کی طرف زیادہ تر متوجہ کرتا ہے، اور جو عبادت خدا کی غیر روزہ کی حالت میں کی جاتی ہے روزہ کی حالت میں زیادہ تر دلی توجہ سے ہوتی ہے۔ اس کا یہ سبب نہیں ہے کہ انسان کو اپنے تئیں تکلیف میں ڈالنا خدا کو پسند آتا ہے۔ بلکہ یہ سبب ہے کہ انسان میں یہ ایک فطرتی امر ہے کہ جب کسی خاص امر کی طرف زیادہ تر متوجہ ہوتا ہے تو اس کو غذا کی طرف کم رغبت یا کم توجہ ہوتی ہے۔ اسی طرح قلیل غذا انسان کو اس طرف جس پر وہ توجہ کرنی چاہتا ہے زیادہ تر متوجہ کردیتی ہے۔ یہی باعث ہے کہ روزہ کی حالت میں خدا کی عبادت غیر روزہ کی حالت کی بہ نسبت زیادہ تر توجہ اور خلوص سے ہوتی ہے۔ اسی سبب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ رکھنے کی رسم کو ایک نہایت اعتدال سے جاری رہنے دیا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ سینا پر، یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بیابان میں، یا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ حرا میں ، جبکہ زمانہ نزول وحی قریب تر تھا روزے رکھنے اختیار کیے، یا غذا سے پرہیز کیا، یا معمولی غذا میں کمی کی، اس کا یہی سبب تھا۔ پس جبکہ روزہ ایسی حالت میں کہ اس رکھنا شاق نہ گزرے تزکیہ نفس اور روحانی نیکی کا ذریعہ ہے، تو اس رسم کا نایت اعتدال کے ساتھ قائم رکھنا جس طرح کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قائم رکھی فطرت انسانی کے بالکل مطابق و موافق ہے۔
 
Top