• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر سر سید احمد خاں پارہ نمبر2 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 187

اُحِلَّ لَکُمۡ لَیۡلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمۡ ؕ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ وَ عَفَا عَنۡکُمۡ ۚ فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡہُنَّ وَ ابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ ۪ وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾

تفسیر سرسید :

( احل لکم) یہودی اور عیسائی دن رات کا روزہ رکھتے تھے یعنی روزہ افطار کرنے کے بعد ہی سے دوسرا روزہ شروع ہوجاتا تھا۔ یہی سبب سے کہ توراۃ اور انجیل میں جہاں روزہ کا ذکر ہے دن رات کا روزہ بیان ہوا ہے۔ ماہ رمضان کے روزوں کا جب حکم ہوا تو کوئی حد روزے کی مقرر نہ تھی۔ مسلمان بھی یہودیوں کی دیکھا دیکھی دن رات کا روزہ رکھتے تھے جو ان پر نہایت شاق گزرتا تھا اور جس منشاء سے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رسم کو قائم رکھا تھا اس کے بھی مخالف تھا۔ اس لیے اس آیت میں خدا کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ صرف دن ہی کا روزہ رکھنا چاہیے۔ رات جو آرام کے لیے ہے وہ روزہ میں داخل نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ سمجھنا کہ پہلے مسلمانوں کو بھی دن رات کے روزہ رکھنے کا حکم تھا اور وہ حکم اس آیت سے منسوخ ہوگیا محض غلطی ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 190

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۱۹۰﴾

تفسیر سرسید :

( وقاتلوا فی سبیل اللہ) اس آیت میں اور جو آیتیں کہ اس کے بعد ہیں ان میں کافروں یا دشمنوں سے لڑنے کا حکم ہے۔ مگر صاف بیان کیا گیا ہے کہ جو تم سے لڑیں ان سے لڑو اور زیادتی مت کرو۔
اکثر لوگ مذہب اسلام پر یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اس میں تحمل اور بردباری اور عاجزی اور مذہب کے سبب سے جو تکلیفیں کافروں کی طرف سے پہنچیں ان کی صبر سے برداشت نہیں ہے۔ اور یہ باتیں مذہب کی سچائی اور نیکی اور اخلاق اور خدا کی راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے برخلاف ہیں۔
مگر یہ ایک بڑی غلطی اور ناسمجھی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن مجید میں جو احکام لڑائی کے نہایت نیکی اور انصاف پر مبنی تھے ان کو مسلمانوں نے جو خلیفوں یا بادشاہوں کے نام سے مشہور ہوئے دینداری کے بہانے سے اپنی خواہش نفسانی کے پورا کرنے اور ملک گیری کے لیے نہایت بداخلاقی اور ناانصافی سے برتا، اور وحشی درندوں سے بھی بدتر کام کیے، اور علمائے اسلام نے ان کی تائید کے لیے ایسے مسئلے بیان کیے جو اسلام کی روحانی نیکی کے برخلاف تھے۔ مگر ان کے ایسا کرنے سے جو برائی یا عیب قرار دیا جاوے وہ انہی پر محدود ہے جنہوں نے ایسا کیا نہ اسلام پر۔ ہر ایک منصف مزاج کا اور ہر ایک معترض اور نکتہ چین کا یہ فرض ہے کہ ان ظالموں کے کردار کو انہی پر محدود رکھے نہ یہ کہ ان کے کردار سے مذہب اسلام پر نکتہ چینی کرے۔
مذہب اسلام میں اگرچہ جا بجا عفو و صبر و تحمل کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور لوگوں کو اس پر رغبت دلائی گئی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ بدلا لینے کی بھی بغیر زیادتی کے اجازت دی ہے۔ کیا یہ قانون دنیا کے پیدا کرنے والے کے قانون قدرت کے مناسب نہیں ہے ؟ اور کیا اس قانون سے زیادہ عمدہ اور سچا کوئی قانون ہوسکتا ہے ؟ انسان جب اخلاق کی باتوں پر گفتگو کرتا ہے تو بہت سی ایسی باتیں اور ایسے اصول بیان کرتا ہے جو کان کو اور دل کو نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں، اور سننے و پڑھنے والے خیال کرتے ہیں کہ یہی اصول اخلاق کے اور یہی اصول اعلیٰ درجہ کی نیکی کے ہیں، مگر درحقیقت وہ ہوا کی آواز سے زیادہ کچھ رتبہ نہیں رکھتے، اور جو کہ وہ اصول فطرت انسانی کے بلکہ قانون قدرت کے برخلاف ہوتے ہیں کبھی ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ ایسا قانون بنانے سے جس پر کبھی عملدرآمد نہ ہوسکے کوئی نتیجہ اور فائدہ مترتب نہیں ہوتا، بلکہ دل میں اس قانون کی حقارت بیٹھتی ہے کہ وہ قانون قدرت کے برخلاف ہے۔
کوئی کتاب دنیا میں انجیل سے زیادہ انسان کو نرم مزاج اور بردبار اور متحمل کرنے والی، اور اخلاق کو ایسی چمک سے دکھلانے والی جس سے آنکھوں میں چکا چوند آجاوے نہیں ہے۔ گو اس کے مقولے ایسے نہیں ہیں کہ سب سے پہلے اسی میں بیان کیے گئے ہوں۔ اور کافر گنے جاتے ہیں بیان کیے ہیں۔ مگر ہم کو دیکھنا چاہیے کہ ان کا لوگوں میں کیا اثر ہوا تھا۔
انجیل میں لکھا ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی اس کے سامنے کردے۔ بلاشبہ یہ مسئلہ اخلاق کے خیال سے تو بڑا عمدہ معلوم ہوتا ہے، مگر کسی زمانہ کے لوگ نے اس پر عمل کیا ہے ؟ اگر دنیا اس پر عمل کرے تو دنیا کا کیا حال ہو ؟ اسی طرح آباد رہے، اور اسی طرح لوگوں کی جان و مال امن میں رہیں نہایت دلچسپ جواب دیا جاتا ہے کہ جب سب کے سب ایسے ہی ہوجاویں تو دنیا سے شر اٹھ جاوے۔ مگر پوچھا جاتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہے ؟ یا کبھی ایسا ہوگا ؟ یہ سب ناشدنی باتیں ہیں جو خیال میں شدنی قرار دے کر انسان خیالی اور جھوٹی خوشی حاصل کرتا ہے۔ انجیل میں لکھا ہے کہ ” تو اپنے کل کے کھانے کی فکر مت کر، خدا کل کی روزی پہنچانے کی فکر کرنے والا ہے “
دل کو یہ مقولہ نہایت ہی پیارا اور اس پیارے خدا پر اعتماد دلانے والا معلوم ہوتا ہے، مگر کبھی کسی نے اس پر عمل کیا ہے ؟ آئندہ کبھی اس پر عمل ہوگا ؟ اگر ہم اس ناشدنی امر کو ایک لمحہ کے لیے شدنی تصور کرکے تمام دنیا کے لوگوں کو اسی مقولہ پر عمل کرتا ہوا سمجھ لیں ، تو دنیا کا کیا حال ہوگا ؟ پس اس قسم کی تمام باتیں انسان کو دھوکا دینے والی ہیں، اور قانون قدرت کے برخلاف ہونے سے خود اپنی سچائی کو مشتبہ کرتی ہیں۔
عیسائی مذہب جس کی جڑ ایسی نیکی اور نرمی اور اخلاق میں لگائی گئی تھی وہ پھولا پھلا، اور سرسبز و شاداب ہوا۔ اس کو چھوڑ دو کہ وہ کس سبب سے بڑھا اور سرسبز ہوا، مگر دیکھو کہ اس نے کیا پھل پیدا کیا۔ ایک بھی نصیحت اس کی کام نہ آئی، اور خودمذہب نے جو خونریزی اور بےرحمی اور ناانصافی، اور درندوں سے بھی زیادہ بدتر خصلت دکھلائی وہ شاید دنیا میں بےمثل ہوگی، اور جس نیکی میں اس کی جڑ لگائی گئی تھی اس نے کچھ پھل نہیں دیا، کیونکہ قانون قدرت کے برخلاف لگائی گئی تھی۔ جو خوبی کیا روحانی اور کیا اخلاقی اور کیا تمدنی ، اب ہم بعض عیسائی ملکوں میں دیکھتے ہیں، کیا یہ پھل اسی درخت کا ہے جس کی جڑ ایسی نیکی میں لگائی گئی تھی جو خلاف قانون قدرت تھی ؟ حاشاوکلا، بلکہ یہ اس کا پھل ہے کہ اس درخت کو وہاں سے اکھاڑ کر دوسری زمین پر لگایا ہے جو قانون قدرت کی زمین ہے، اور جس قدر کہ پہلی زمین کی مٹی اس کی جڑ میں لگی ہوئی ہے اسی قدر اس میں نقصان ہے۔
اس سے بھی زیادہ رحیم مذہب کا حال سنو جس نے ایک چھوٹے سے چھوٹے جانور کی جان کو بھی مارنا سخت گناہ قرار دیا ہے۔ خون کا بہانا، آدمی کا ہو یا درندے یا ایک پشہ کا، خدا کی صنعت کو ضائع کرنا سمجھا ہے، مگر تاریخ اور زمانہ موجود ہے۔ اس اصول نے جو قانون قدرت کے مخالف تھا کیا نتیجہ دیا۔ قتل و خونریزی ویسی ہی رہی اور ویسی ہی ہے جیسی کہ قانون قدرت سے ہونی چاہیے۔ وہی جو ایک پشہ کا مارنا گناہ عظیم سمجھتے تھے ہزاروں آدمیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے تھے اور قتل کرتے ہیں۔ پس کوئی قانون گو وہ ظاہر میں کیسا ہی چمکیلا اور خوش آئند ہو جبکہ قانون قدرت کے برخلاف ہی محض نکما اور بےاثر ہے۔ اسلام میں جو خوبی ہے وہ یہی ہے کہ اس کے تمام قانون قانون قدرت کے مطابق اور عملدرآمد کے لائق ہیں۔ رحم کی جگہ جہاں تک کہ قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے۔ معافی کی جگہ اسی اصول پر معافی ہے۔ بدلے کی جگہ اسی کے مطابق بدلا ہے۔ لڑائی کی جگہ اسی کے اصولوں پر لڑائی ہے۔ ملاپ کی جگہ اسی کی بنا پر ملاپ ہے۔ اور یہی بڑی دلیل اس کی سچائی کی اور قانون قدرت کے بنانے والے کی طرف سے ہونے کی ہے۔
اسلام فساد اور دغا اور غدر و بغاوت کی اجازت نہیں دیتا۔ جس نے ان کو امن دیا ہو، مسلمان ہو یا کافر ، اس کی اطاعت اور احسان مندی کی ہدایت کرتا ہے کافروں کے ساتھ جو عہد و اقرار ہوئے ہوں ان کو نہایت ایمانداری سے پورا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ خود کسی پر ملک گیری اور فتوحات حاصل کرنے کو فوج کشی اور خونریزی کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی قوم یا ملک کو اس غرض سے کہ اس میں بالجبر اسلام پھیلایا جاوے حملہ کرکے مغلوب و مجبور کرنا پسند نہیں کرتا، یہاں تک کہ کسی ایک شخص کو بھی اسلا مقبول کرنے پر مجبور کرنا نہیں چاہتا۔ صرف دو صورتوں میں اس نے تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے۔ ایک اس حالت میں جبکہ کافر اسلام کی عداوت سے، اور اسلام کے معدوم کرنے کی غرض سے، نہ کسی ملکی اغراض سے، مسلمانوں پر حملہ آور ہوں، کیونکہ ملکی اغراض سے جو لڑائیاں واقع ہوں، خواہ مسلمان مسلمانوں میں خواہ مسلمان و کافروں میں، وہ دنیاوی بات ہی مذہب سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ دوسرے جبکہ اس ملک یا قوم میں مسلمانوں کو اس وجہ سے کہ وہ مسلمان ہیں ان کی جان ومال کو امن نہ ملے، اور فرائض مذہبی کے ادا کرنے کی اجازت نہ ہو۔ مگر اس حالت میں بھی اسلام نے کیا عمدہ طریقہ ایمانداری کا بتایا ہے کہ جو لوگ اس ملک میں جہاں بطور رعیت کے رہتے ہوں، یا امن کا علانیہ یا ضمناً انکار کیا ہو، اور گو صرف بوجہ اسلام ان پر ظلم ہوتا ہو تو بھی ان کو تلوار پکڑنے کی اجازت نہیں دی۔ یا اس ظلم کو سہیں یا ہجرت کریں، یعنی اس ملک کو چھوڑ کر چلے جاویں۔ ہاں جو لوگ خود مختار ہیں اور اس ملک میں امن لیے ہوئے یابطور رعیت کے نہیں ہیں، بلکہ دوسرے ملک کے باشندے ہیں، ان کو مظلوم مسلمانوں کے بچانے کو جن پر صرف اسلام کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے، یا ان کے لیے امن اور ان کے لیے والے فرائض مذہبی کی آزادی حاصل کرنے کو تلوار پکڑنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن جس وقت کوئی ملکی یا دنیوی غرض اس لڑائی کا باعث ہو اس کو مذہب اسلام کی طرف نسبت کرنے کی کسی طرح اسلام اجازت نہیں دیتا۔
یہی بات ہے جس پر اسلام نے تلوار پ کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کا نام جہاد رکھا ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے مقتولوں کو روحانی ثواب کا وعدہ دیا ہے۔ یہی لڑائی ہے جس کے لڑنے والوں کی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کی لڑائی ناانصافی اور زیادتی ہے ؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لڑائی اخلاق کے برخلاف ہے ؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لڑائی قانون قدرت، انسان کی فطرت کے مخالف ہے ؟ کون کہہ سکتا ہے کہ اس لڑائی کا حکم خدا کی مرضی کے برخلاف ہے ؟ کون کہہ سکتا ہے کہ اس حالت میں بھی لڑائی کا حکم نہ ہونا بلکہ دوسرا گال پھیر دینا خدا کی مرضی کے مطابق ہوگا ؟
لڑائی شروع ہونے کے بعد تلوار ہر ایک کی دوست ہوتی ہے۔ اس میں بجز اس کے دشمنوں کو قتل کرو، لڑائی میں بہادری کرو، دل کو مضبوط رکھو، میدان میں ثابت قدم رہو ، فتح کرو یا مارے جاؤ اور کچھ نہیں کہا جاتا۔ وہی قرآن نے بھی کہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اس موقع اور محل کو جس کی نسبت قرآن میں لڑنے والوں کے دلوں کو مضبوط کرنے کی آیتیں نازل ہوئی ہیں چھوڑ کر ان آیتوں کو عموماً خونخواری اور خونریزی پر منسوب کرے ، جیسا کہ اکثر نادان عیسائیوں نے کیا ہے ، تو یہ خود اس کا قصور ہوگا نہ اسلام کا۔
لڑائی میں بھی جو رحم قانون قدرت کے موافق ضرور ہے اسلام نے اس میں بھی فروگزاشت نہیں کیا۔ عورتوں کو ، بچوں کو، بوڑھوں کو ، جو لڑائی میں شریک نہ ہوئے ہوں ان کو قتل کرنے کی ممانعت کی۔ عین لڑائی میں اور صف جنگ میں جو مغلوب ہوجاوے اس کے قتل کی اجازت نہیں دی۔ صلح کو، معاہدہ، امن کو قبول کرنے کی رغبت دلائی۔ باغ کو، کھیتوں کو جلانے کی ممانعت کی۔ قیدیوں کو احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ نہایت ظالمانہ طریقہ جو لڑائی کے قیدیوں کو عورت ہوں یا مرد غلام اور لونڈی بنا لینے کا تھا اس کو معدوم کیا ۔ اس سے زیادہ لڑائی کی حالت میں انصاف اور رحم کیا ہوسکتا ہے ؟ ہاں یہ سچ ہے کہ مسلمانوں نے اس میں سے کسی کی بھی پوری تعمیل نہیں کی، بلکہ برخلاف اس کے بےانتہا ظلم و ستم کیے۔ مگر جبکہ وہ اسلام کے حکم کے برخلاف تھے تو اسلام کو اس سے داغ نہیں لگ سکتا۔ وہ بھی تو مسلمانوں ہی میں سے تھے جنہوں نے عمر (رض) کو، عثمان (رض) کو، علی (رض) کو ، حسین (رض) کو ذبح کر ڈالا تھا، کعبہ کو جلایا تھا۔ پس ان کے کردار سے اسلام کو کیا تعلق ہے۔
مشرکین مکہ نے ان لوگوں پر جو مسلمان ہوگئے تھے صرف اسلام کی عداوت سے ، اور خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت سے ظلم کیے تھے اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ قتل کے درپے تھے ، یہاں تک کہ ایک دفعہ مسلمانوں نے حبشہ میں جاکر پناہ لی، اور آخر کار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سب مسلمان مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ۔ پھر انھوں نے وہاں بھی تعاقب کرنا چاہا، اور مکہ میں حج کے آنے سے روکا۔ لڑائی پر آمادہ ہوئے تب اسلام نے بھی ان سے لڑنے کا حکم دیا۔ پس جس قدر احکام قتل مشرکین کے ہیں وہ سب انہی لڑنے والوں سے متعلق ہیں۔ وہ بھی اسی وقت تک کہ فتنہ و فساد رفع ہوجاو ہے جیسے کہ خود خدا نے فرمایا ہے کہ ” وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ “ امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ مشرکین کا فتنہ یہ تھا کہ وہ مکہ میں مسلمانوں کو مارتے تھے اور ایذا دیتے تھے، تنگ ہو کر مسلمان حبشہ کو چلے گئے۔ پھر بھی وہ برابر ایذا اور تکلیف دیتے رہے، یہاں تک کہ مسلمان مدینہ میں ہجرت گئے، اور مشرکین کی غرض ایذاؤں اور تکلیفوں سے یہ تھی کہ مسلمان اپنا اسلام چھوڑ کر پھر کافر ہوجاویں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ کافروں سے لڑو جب تک کہ ان پر غالب ہوجاؤ، تاکہ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیرنے کے لیے ایذا نہ دے سکیں، اور تم شرک میں نہ پڑو۔
” یکون الدین للہ “ کا فقرہ بھی انہی آیتوں کے ساتھ ہے جو مشرکین عرب کے حملہ کے دفعہ کرنے کو لڑنے کی بابت نازل ہوئی ہیں۔ اس کے یہ معنی سمجھنے کہ اتنا لڑنا چاہیے کہ اسلام کے سوا کوئی دین نر ہے یہ تو محض نادانی کی بات ہے جو سلف سے آج تک نہ کبھی ہوئی اور نہ ہونے کی توقع ہوسکتی ہے۔ اس کے معنی صاف صاف یہ ہیں کہ اس قدر لڑنا چاہیے کہ اللہ کے دین کے بجا لانے میں جو کافر طرح ڈالتے ہیں وہ نہ رہے، اور اللہ کے لیے دین ہوجاوے کہ مسلمان خدا کے لیے اس کو بےایذا کے بجا لاسکیں۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 196

وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ ٝ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۱۹۶﴾٪

تفسیر سرسید :

( واتموا الحج والعمرۃ للہ) اس آیت سے حج کے احکام شروع ہوئے ہیں، مگر قبل اس کے کہ ہم اس کی ماہیت اور اس کے اسرار پر بحث کریں پہلے سیدھی سادی طرح سے بتا دینا چاہیے کہ مسلمان عمرہ اور حج کیونکر کرتے ہیں، اور یہ بتانا چاہیے کہ جو کچھ حج میں کیا جاتا ہے اس میں سے قرآن مجید میں کس کس چیز کا ذکر ہے۔
حج میں اتنی چیزیں ہیں۔ احرام و نیت ، طواف قدوم، سعی ہیں الصفاو المروہ، خروج منیٰ ، وقوف مزدلفہ، منی اور رمی جمار، طواف الزیارت ، طواف الصدر، چنانچہ ہم ان میں سے ہر ایک چیز کو علیحدہ بیان کرتے ہیں۔ احرام اور نیت حج احرام باندھنے کے لیے مقامات معین ہیں جو میقات کہلاتے ہیں۔ مکہ کے رہنے والوں کے لیے خاص حرم کعبہ میقات ہے، اور مدینہ کی طرف سے آنے والوں کو ذوالحلیفہ، اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق، اور شام کی طرف سے آنے والوں کے لیے حجفہ، اور نجد کی طرف سے آنے والوں کے لیے قرن، اور یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے جس میں ہندوستان کے جانے والے بھی داخل ہیں یلملم۔
میقات پر پہنچ کر صرف حج کی یا صرف عمرہ کی یا حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھا جاتا ہے۔ احرام کے معنی ایسے بزرگ اور مقدس کام کے شروع کرنے کے ہیں جس کا ادب نہ توڑا جاسکے۔ احرام میں صرف ایک چادر بطور تہ بند کے باندھتے ہیں، اور ایک چادر اوڑھنے کے لیے ہوتی ہے۔ مگر سر پر چادر نہیں اوڑھی جاتی، سر کھلا رہتا ہے۔ چادر ایک پاٹ کی ہو خواہ دو پاٹ کی سی ہوئی کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ قطع کیا ہوا کپڑا جو قینچی سے قطع کرکے سیتے ہیں پہننا منع ہے۔
میقات پر پہنچ کر غسل کیا جاتا ہے یا وضو، اور اس کے بعد نیت کرکے احرام باندھتی ہیں اور یہ کہتے ہیں ” لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لک لا شریک لک لبیک “ اور ہر نماز کے بعد یا جب اونچی جگہ پر چڑھے یا نیچی جگہ اترے تو وہی جملہ کہنا چاہیے۔
زمانہ احرام میں سر کو ڈھانکنا ، یا ایسا کپڑا جو قطع ہو کر سیا گیا ہو پہننا، موزہ یا جراب سے پانوں کو ڈھانکنا، شکار کھیلنا، یا دوسرے کو شکار بتانا، سر منڈانا، ناخن ترشوانا، عورت کے پاس جانا منع ہے۔
طواف قدوم
جب مکہ میں پہنچے اور حرم کعبہ دکھائی دے تو کہے ” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر واللہ اکبر وللہ الحمد “
جب حرم کے اندر جائے حجرا سود کے سامنے کھڑا ہو، اگر ممکن ہو تو اس کو بوسہ دے ورنہ ہاتھ سے بوسہ لینے کا اشارہ ہی کرلے، اور کعبہ کے گرد گھومنا شروع کرے، اور جب حجرا سود کے سامنے آوے یا اس کا بوسہ لے یا اسی طرح سے اشارہ کرے۔ سات مرتہ گھومے اور کوئی دعا جو اس کا جی چاہے پڑھتا رہے، اور اس گھومنے میں تیز مونڈھے ہلاکر چلے۔
سات دفعہ گھومنے کے بعد جس کو طواف کہتے ہیں مقام ابراہیم میں دو رکعت نماز کی پڑھے۔
سعی بین الصفا والمروہ
اسی دن طواف کے بعد صفا و مروہ میں جو نہایت چھوٹے چھوٹے پہاڑ ہیں سات دفعہ پھرے۔ صفا کی پہاڑی پر چڑھے اور کعبہ کی طرف منہ کرکے کہے ” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد الھم صلی علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ ال ابراھیم انک حمید مجید “۔ اس کے بعد جو دعا چاہے مانگے، اور صفا پر سے اتر کر مردہ کو جاوے۔ اس رستے میں دو نشان بنے ہوئے ہیں ان نشانوں کے بیچ میں دوڑ کر چلے۔ جب مروہ پر چڑھے تو کعبہ کی طرف منہ کرکے وہی تمام جملہ جو صفا پر پڑھا تھا پڑھے۔ یہ ایک دوڑ ہوئی ، جس کو ایک شوط کہتے ہیں۔ اسی طرح سات دفعہ کرے۔ ساتویں دوڑ مروہ پر ختم ہوگی۔
اگر احرام باندھتے وقت صرف عمرہ کی نیت کی ہے، تو عمرہ ختم ہولیا۔ احرام کھول دے، اور پھر آٹھویں ذی الحج کو حرم کے اندر جاکر حج کا احرام باندھے۔ اور اگر حج اور عمرہ دونوں کی اکٹھی نیت کی ہو، یا صرف حج کی نیت کی ہو تو بدستور احرام باندھی رکھے۔
خروج منیٰ
جو لوگ عمرہ ادا کرکے احرام سے خارج ہوگئے ہیں ان کو چاہیے کہ حرم میں جاکر صبح کی نماز پڑھیں اور حج کا احرام باندھیں۔ اور منیٰ کو روانہ ہوں، اور جن لوگوں نے احرام نہیں کھولا وہ صبح کی نماز کے بعد منیٰ کو روانہ ہوں ۔ رات کو منیٰ میں رہیں نویں تاریخ صبح کی نماز کے بعد علی الصباح عرفان کے میدان میں جاویں، اور غروب آفتاب تک اسی میں رہیں، اور جو دعائیں چاہیں مانگتے رہیں، وہاں امام اونٹنی پر چڑھ کر خطبہ پڑھتا ہے، اور لوگوں کو نیکی اور خدا پرستی کی نصیحت کرتا ہے، اور ہزاروں لوگ اس کے گرد کھڑے ہو کر سنتے ہیں اور جو نہیں سن سکتے وہ اپنی ہی جگہ دعا وغیرہ پڑھتے ہیں۔
وقوف مزدلفہ
مغرب کی نماز کے بعد اس میدان سے لوگ روانہ ہوتے ہیں، اور مزدلفہ کے میدان میں آکر رات بسر کرتے ہیں۔
منیٰ اور رمی جمار
دسویں ذی الحج کو مزدلفہ سے چل کر منیٰ میں پہنچتے ہیں، منیٰ کے میدان میں تین ستون بطور نشان کے بنے ہوئے ہیں۔ ہر ایک ستون پر سات سات کنکریاں ایک ایک کرکے مارتے ہیں، اور ہر کنکری کے مارنے کے وقت یہ پڑھتے ہیں ” اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد “۔
جب تینوں ستونوں پر کنکریاں مارلیں تو ہر بلندی و پستی پر اور نماز کے بعد جو لبیک کہتا تھا وہ کہنا موقوف کردے، اور جمرۃ العقبہ کے پاس ایک چھوٹی سی پہاڑی ہی وہاں قربانی کرے، اور سر منڈوائے یا بال کتروا ڈالے اور احرام کھول دے اور کپڑے پہن لے، مگر عورت کے پاس جانے کی اب تک اجازت نہیں۔
گیارھویں اور بارھویں کو بدستور منیٰ میں رہے، اور دونوں دن بھی ان تینوں ستونوں کو سات سات کنکریاں اسی طرح مارے جس طرح کہ دسویں تاریخ کو ماری تھیں۔
طواف الزیارت
انہی تاریخوں میں یعنی دسویں یا گیارھویں یا بارھویں کو قربانی کے بعد منیٰ سے حرم میں آوے اور خانہ کعبہ کا طواف اسی طرح کرے جس طرح اوپر بیان ہوا، اور پھر منیٰ میں چلا جاوے۔ بعد اس کے اپنے کام میں لگے اور جو چاہے سو کرے۔
اگر کسی نے طواف قدوم کے بعد سعی بین الصفا والمروہ نہ کی ہو تو اس کو اس طواف کے بعد کرلینی چاہیے۔
طواف الصدر
جو لوگ اور ملکوں سے حج کرنے کو آتے ہیں، اور حج کے بعد واپس جانا چاہتے ہیں تو ان کو صرف طواف کرکے روانہ ہونا چاہیے۔
اقسام حج
حج تین قسم ہے۔ افراد، قران، تمتع۔ اگر صرف حج کی نیت سے احرام باندھا ہے اس کا نام تو حج افراد ہے۔ اور اگر حج اور عمرہ دونوں کی نیت سے احرام باندھا ہے اس کا نام قران ہے۔ اور اگر صرف عمرہ کی نیت سے ، اور عمرہ کے بعد پھر حج کی نیت سے احرام باندھا ہے تو حج تمتع ہے۔
حج افراد اور تمتع کی تو بالکل وہی صورت ہے جو بیان ہوئی ، الاحج قران میں اس قدر فرق ہے کہ طواف قدوم اور سعی بین الصفاو المروہ دو دفعہ کرنی لازم ہے۔
ارکان حج جو قرآن مجید میں مذکور ہیں
میقات کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ غالباً جو لوگ باہر سے کعبہ کی زیارت کو یا حج کو آتے تھے، اور جب قریب پہنچتے تھے تو حج کی نیت سے یعنی باتوں کے کرنے سے جن کو تقدس اور ادب کے برخلاف سمجھتے تھے اجتناب کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ مقامات بطور میقات قرار پاگئے، اور زمانہ کے گزرنے پر انہی مقامات سے مسافروں کا احرام میں داخل ہونا ایک امر لازمی اور ضروری قرار دیا گیا۔ اگر کوئی شخص بلا ارادہ حج اور بغیر باندھے احرام کے میقات پر مکہ میں چلا جاوے، اور مکہ میں پہنچنے کے بعد حج کا ارادہ کرے اور احرام باندھے، تو اس کے حج میں بھی کوئی نقص نہیں ہونے کا۔
احرام کے وقت تہ بند باندھنے اور بغیر قطع کیا ہوا کپڑا پہننے کا بھی قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کا رواج زمانہ جاہلیت سے برابر چلا آتا تھا، اور اسلام میں بھی قائم رہا۔ یہ پوشاک جو حج کے دنوں میں پہنی جاتی ہے ابراہیمی زمانہ کی پوشاک ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں دنیا نے سویلزیشن میں جو تمدنی امور سے علاقہ رکھتی ہے کچھ ترقی نہیں کی تھی۔ وہ قطع کیا ہوا کپڑا بنانا نہیں جانتے تھے۔ اس زمانہ کی پوشاک یہی تھی کہ ایک تہ بند باندھ لیا۔ کسی کو اگر کچھ زیادہ میسر ہوا تو ایک ٹکڑا کپڑا کا بطور چادر کے اوڑھ لیا۔ سر کو ڈھانکنا، اور قطع کیا ہوا کپڑا پہننا کسی کو نہیں معلوم تھا۔ حج جو اس بڈھے خدا پرست کی عبادت کی یادگاری میں قائم ہوا تھا جس نے بہت سوچ بچار کر کہا تھا ” انی وجھت وجھی الذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین “ تو اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا جس طرح اور جس لباس میں اس نے کی تھی۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شروع سویلزیشن کے زمانہ میں بھی اسی وحشیانہ صورت اور وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا کی عبادت کی یادگاری میں قائم رکھا۔
احرام میں داخل ہونے اور حج کی نیت یعنی حج کے قصد کرنے کا قرآن مجید کے ان لفظوں سے کہ ” فمن قرض فھن الحج “ پایا جاتا ہے۔
احرام کے دنوں میں جنگل کے جانوروں کے شکار کی ممانعت بھی قرآن سے پائی جاتی ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے ” یایھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرم ساحل لکم صید البحر وطعامہ متاعہ لکم السیارۃ وحرم علیکم صیدالبرمادمتم حرماء ۔
احرام کے دنوں میں لڑائی اور فساد اور عورت کے پاس جانے کی ممانعت بھی قرآن کی اس آیت سے پائی جاتی ہے ” فمن فرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج “۔
احرام اور ارکان کے ختم ہونے تک سر منڈانے کی ممانعت کا بھی اشارہ اس آیت سے نکلتا ہے ” ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الھدی محلہ “
طواف کا اور اس میں ذکر اللہ کرنے کا اشارہ بھی قرآن سے پایا جاتا ہے، جیسا کہ ان آیتوں میں ہے ” ولیضوفوا بالبیت العتیق “
” ناذکروا اللہ عندالمشعر الحرام “ مگر سات دفعہ پھرنے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ غالباً ایام جاہلیت سے برابر چلا آتا ہے۔
سعی بین الصفاوالمروہ جس طرح ایام جاہلیت میں لوگ کرتے تھے، اسی طرح اب بھی کرتے ہیں۔ اس کا بھی اشارہ قرآن میں موجود ہے، جہاں فرمایا ہے ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بیما “
عرفات میں جانے کا بھی قرآن کی اس آیت سے اشارہ پایا جاتا ہے ” فاذا افضتم من عرفان فاذکروا اللہ عند المشعرالحرام “
مزدلفہ میں رہنے اور منیٰ میں ایام تشریق میں ٹھہرنے کا بھی اشارہ ان آیتوں سے پایا جاتا ہے
” ثم ا فیضوا من حیث افاض الناس “ واذکروا اللہ فی ایام معدودات فمن تعجر فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثم علیہ “۔
قربانی جو حج میں کی جاتی ہے اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے، وہ قربانی تین طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو جانور کو ساتھ لے کر جاتے ہیں اس ارادہ سے کہ مکہ میں جاکر ذبح کرینگے، اس کا ذکر تو اس آیت میں ہے ” والبدون جعلنھا لکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر فاذکرما اسم اللہ علیھا صواف فاذا وجبت جنوبھا فکلوا منھا واطعموا القانع والمعتن “
دوسری قسم قربانی کی وہ ہے جو حج تمتع میں کی جاتی ہے، اور اس کا ذکر اس آیت میں ہے ” فاذا امنتم فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج نما استیسرمن الھدی فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام فی الحج وسبعۃ اذارجعتم “
تیسری قربانی عام طور حج کے بعد ہے، اور اس کا ذکر اس آیت میں ہے ” ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومت علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام فلوا منھا واطموالبائس الفصر “۔
حجرا سود اور رمی جمار کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ حجرا سود کعبہ کے ایک کونے میں لگایا گیا تھا، اس سے مقصد صرف یہ تھا کہ طواف کی تعداد معلوم رہے۔ اسی کونے سے طواف شروع ہوتا ہے اور اسی مقام پر ختم ہوتا ہے، اور حجرا سود کو چھو لیا جاتا ہے، یا بوسہ دیا جاتا ہے، یا اس کی طرف اشارہ کرلیا جاتا ہے ، جس سے معلوم ہو کہ ایک طواف ختم ہوا۔ رمی جمار کی کوئی ٹھیک وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ تمام ارکان حج اسلام میں وہی بحال رہے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں تھے ، اور اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہی رسم رمی جمار کی جو زمانہ جاہلیت میں تھی اسلام میں بھی مثل دیگر ارکان حج کے عملدرآمد رہے۔
حج کی حقیقت
جبکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) مکہ میں آباد ہوئے ، اور ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے کعبہ کو بنایا، تو دو قومیں جو گردو نواح میں خانہ بدوش پھرتی تھیں وہاں آکر آباد ہوئیں، اور جیسا کہ دستور ہے اس مقدس مسجد کی زیارت کو لوگ آنے لگے۔ وہاں کوئی زیارت کی چیز بجز بےچھت کی مسجد کی دیواروں کے اور کچھ نہ تھی۔ جو کچھ زیارت تھی وہ یہی تھی کہ لوگ جمع ہو کر اس زمانہ قدیم کے وحشیانہ طریقہ پر خدا کی عبادت کرتے تھے، ننگے سر تہبند بندھا ہوا ننگ دھڑنک ان دیواروں کے گرد جو خدا کے گھر کے نام سے بنائی گئی تھیں اچھلتے اور کودتے اور حلقہ باندھ کر چوگرد پھرتے تھے، جس کا اب ہم نے طواف نام رکھا ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بغرض آبادی مکہ اور ترقی تجارت یہ بات چاہی کہ لوگوں کے آنے اور زیارت کرنے اور اس مقام پر عبادت معبود کے بجا لانے کے لیے ایام خاص مقرر کیے جاویں، تاکہ لوگوں کے متفرق آنے کے بدلے موسم خاص میں مجمع کثیر ہواکرے، اور سب مل کر خدا کی عبادت بجالاویں اور مکہ کی آبادی اور تجارت کو ترقی ہو۔ اس امر کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کہا ہے کہ ” حج کو لوگوں میں مشہور کردے، تیرے پاس پیدل اور (اذبوانا لا براھیم مکان البیت ان لا تشرک بی مشیتا وطھر جیتی للطائفین والعفین والرکع السجود واذن فی الناس یا توک رجالا وعلی کل صنام یاتین من کل فج عمیق لیشھد وا منافع لھمسورہ حج) دبلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر ہر ایک دور دراز رستے سے لوگ آوینگے ، تاکہ اپنے فائدوں کے لیے موجود ہوں “ تفسیر ابن عباس میں ” لیشھد وامنا فعلھم “ کی تفسیر میں لکھا ہے ” ھنا نع الدنیا والاخرۃ و منافع الامدۃ بالدعاء والعبادۃ و منافع الدنیا بالریح والتجارۃ “ یعنی منافع سے دنیا و آخرت دونوں کے منافع مراد ہیں۔ آخرت کا منافع دعا مانگنے اور عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے، اور دنیا کا منافع فائدہ اٹھانے اور تجارت سے ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس رسم کو انہی اغراض کے لیے جاری رکھا جس غرض سے کہ حضرت ابراہیم نے مقرر کی تھی، جس کا اشارہ اس آیت میں ہے ” لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا ممن ربکم “ یعنی حج کے دنوں میں اگر تم تجارت سے روزی کمانے کی تلاش کرو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہے۔ پس یہ سمجھنا کہ بانی اسلام نے کعبہ شریف کو مثل پارس پتھر کے قرار دیا تھا کہ جس نے اس کو چھوا اور سونا ہوگیا یہ ایک غلط خیال ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی بنائی ہوئی مسجد میں لوگ نماز پڑھنے کو آتے تھے اور ابراہیمی طریقہ پر نماز پڑھتے تھے۔ جو سختی اور اضطراب کہ اسماعیل (علیہ السلام) اور اس کی ماں ہاجرہ پر صفا و مروہ کے مقام پر پانی کی تلاش میں گزرا تھا، اور اس بےقراری کی حالت میں جس طرح اس نے اپنے خدا کو یاد کیا تھا اور دعا مانگی تھی، اس کی یادگاری میں وہی حالت اپنے پر طاری کرتے ہیں، اور خدا کی عبادت کا اپنے دل میں جوش پیدا کرتے ہیں۔ موسم حج کا صرف تجارت کی نظر سے مقرر کیا گیا تھا تاکہ قوم اس سے فائدہ اٹھاوے ، اور ان ایام میں عرب کی قومیں قافلوں کے لوٹنے اور آپس میں لڑائی جھگڑوں سے باز رہیں۔
وہی تمام طریقے جو حج کی نسبت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے چلے آتے تھے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی قائم رکھے۔ اس میں دنیاوی منفعت کے سوائے روحانی بھی بہت بڑی تربیت ہے۔ اول اس بزرگ کی سالانہ یادگاری ہے جو دنیا کی قوموں کے لئے، اور خدائے واحد کا نام دنیا میں پھیلانے اور فطرت اللہ یا دین اللہ کو تمام دنیا میں شائع کرنے کا باعث ہوا۔ ایسے بزرگوں کی یادگاری قائم رکھنا، اور ان کے پرانے تاریخی واقعات کو زندہ کرنا ان کے دائمی احسانوں کا اعتراف کرنا ہے، اور اس بات کا ہمیشہ یاد رکھنا ہے کہ خدا نے کس طرح انسان تک اپنی برکت اور اپنا فضل پہنچایا تھا۔ یہ یادگاری آئندہ انہی نیکیوں اور فوائد کے جاری رکھنے میں بہت بڑی مددگار ہوتی ہے۔ اور انسان کے دل کو نرم اور نیکیوں کی طرف راغب رکھتی ہے۔ ہمت بندھتی ہے، دل اور روحانی قوت نیکیاں کرنے پر تازہ ہوجاتی ہے۔ دوسرے تمام ارکان حج میں بجز ابراہیمی طریقہ کی نماز اور دعا اور خدا کی عبادت کے اور کچھ نہیں ہے، اور جبکہ وہ ایسے مقام پر کی جاتی ہے جس کے تاریخی واقعات صرف خیال ہی سے دل پر بہت بڑا اثر پیدا کرتے ہیں، اور جبکہ وہ ایک بہت بڑے جم غفیر کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جو دور دراز رستوں اور مختلف ملکوں سے آکر خدا کی عبادت کے لیے جمع ہوئے ہیں، تو صرف اس ہیئت مجموعی ہی سے جو اثر دل پر اور انسان کی روح پر پڑتا ہے وہ کسی اور طرح ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک عملی طریقہ روحانی تربیت کا ہے جس کی مثل کوئی دوسرا طریقہ دنیا میں نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ چند روز کے لیے اس وحشیانہ حالت میں زندگی بسر کرنی جو اس بڈھے دادا کے زمانہ میں تھی بہت قوی اثر خدا کی محبت کا دل میں پیدا کرتی ہے۔ سویلیزیشن کے زمانہ میں جبکہ نیک دلی اور سچائی اور خدا پرستی اور خدا کے احسانات کی یادگاری میں وہی وحشیانہ سوانگ بھرا جاوے تو اس کا نہایت قوی اثر دل پر ہوتا ہے، خصوصاً جبکہ وہ ایک گروہ کثیر کے مجمع کے ساتھ ہو، اور مجمع کا مجمع ایک شخص یا ایک ذات پاک کی یادگاری میں دیوانہ اور مستغرق ہو۔ انسویلیزڈ زندگی بھی ایک طرح پر نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ اور دل کی سادگی اور بےگناہ زندگی کے سبب سے تقدس کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہے، اور خیالات کو بن سمجھے خدا کی طرف زیادہ رجوع کرتی ہے۔ بےسمجھا یقین دل پر بہت بڑا اثر رکھتا ہے اس کے بعدشک کا دور دورہ آتا ہے۔ جب تک کہ وہ مٹ نہ جاوے، اور سمجھنے کے بعد دل پر یقین کا تسلط نہ ہو۔ پس اس پاک خدا کی چند روزہ عبادت کے لیے اسی مقدس زندگی کو اختیار کرنا روحانی تربیت کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔
حقیقت حج کی ہماری سمجھ میں یہ ہے جو ہم نے بیان کی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایک ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے، یہ ان کی خام خیالی ہے۔ کوئی چیز سوائے خدا کے مقدس نہیں ہے۔ اسی کا نام مقدس ہے، اور اسی کا نام مقدس رہے گا۔ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے اس کے گرو تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں۔ وہ تو کبھی حاجی نہیں ہوئے۔ پھر وہ پاؤں کے جانور کو اس کے گرد پھر لینے سے ہم کیونکر حاجی جانیں ہاں جو حقیقتاً حج کرے وہ حاجی ہے۔
اس بیان سے حج کے ارکان کی بھی حقیقت بخوبی واضح ہوئی ہوگی۔ احرام باندھنا ابراہیمی زمانہ کی صورت کا بنانا ہے۔ طواف کرنا کعبہ کی دیواروں کے گرد صدقے ہونا نہیں ہے، بلکہ درحقیقت وہ اس طریقہ پر نماز ہے جو ابراہیمی زمانہ میں اس چوکھونٹے، گھر کے گرد پڑھی جاتی تھی۔ صفاومروہ میں سعی کرنا اسمعٰعیل (علیہ السلام) اور ہاجرہ کے استقلال اور خدا پر کامل یقین کو یاد کرنا ہے، کہ اس اضطرار اور اضطراب کی حالت میں بھی جو پانی کی تلاش میں وہاں ان پر گزری تھی انھوں نے نہیں چھوڑا تھا، اور ایسی حالت میں بھی خدا ہی پر انھوں نے بھروسہ کیا۔ پس اس یقین کو یاد کرکے اپنی دل کو خدا کی محبت میں زیادہ تر ترقی کرنا ہے۔
حج میں قربانی کی کوئی مذہبی اصل قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی ۔ مکہ ایک بیابان غیر ذی ذرع تھا۔ اس قدر لوگوں کے جمع ہونے سے خوراک کا میسر آنا مشکل تھا۔ اس لیے اکثر لوگ خوراک کے لیے جانور اپنے ساتھ لے جاتے تھے جو بدن اور قلائد کے نام سے مشہور تھے اور جو نہ لے جاتے تھے وہ مکہ میں خریدتے تھے، ان کو ذبح کرکے خود بھی کھاتے تھے اور لوگوں کو بھی کھلاتے تھے حج میں صرف یہی اصل قربانی کی قرآن مجید سے پائی جاتی ہے، جہاں خدا نے فرمایا ہے ” فکلوا منھا واطعموا البائس الفقین۔ لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ثم محلھا الی البیت العتیق۔ “ والبدن جعلنا ھالکم من شعائر اللہ لکم فیھا خیر فاذکر اسم اللہ علیھا صواف فاذا جبت جنوبھا فکلوا منھا واطعموا القانع والمعتر “ وہاں پر نہ کوئی دیوتا ہے نہ دیبی ہے، نہ پہاڑ پر کوئی چیز ہے، جس پر بکرایا منیڈھا یا اونٹ چڑھا یا جاوے۔ نہ خدا کو اس کی بو خوش آتی ہے، نہ ان کا خون پیتا ہے، نہ ان کی جان لینے سے خوش ہوتا ہے۔ بلکہ وہ تو صرف نیکی اور بھلائی چاہتا ہے، جیسا کہ خود اس نے کہا ہے لن ینال اللہ لحومھا ولادماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم “ پس اس زمانہ میں جو حج کے دنوں میں حاجت سے زیادہ قربانی کی رسم ہے اور لاکھوں جانور ذبح کرکے جنگل میں ڈالتے ہیں، جن کو گیڈر اور کوے بھی نہیں کھاتے اس کا کچھ بھی نسان مذہب اسلام میں نہیں ہے۔ خدا نے حج ادا کرنے کی زیادہ سختی انسان پر نہیں کی، اور ہر شخص کی استطاعت پر اس کو منحصر کیا ہے، جو نہایت وسیع معنی رکھتا ہے، وہ بھی تمام عمر میں ایک دفعہ اگر ہوسکے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 227

وَ اِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۲۷﴾

تفسیر سرسید :

( وان عزموا الطلاق) اسلام کے مخالفین نے ضد سے یا کج بحثی و ناسمجھی سے جو الزام اسلام پر لگائے ہیں ان میں سے طلاق کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہودی تو یہ الزام لگا نہیں سکتے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے تو یہ حکم دیا ہے کہ جب کوئی طلاق دینے چاہے تو طلاق نامہ لکھ دے۔ بعض بت پرست قومیں جن کے ہاں طلاق نہیں ہے اور کسی قدر عیسائی جن کے ہاں بجز زنا کے اور کسی حالت میں طلاق جائز نہیں اس مسئلہ پر الزام دے سکتے ہیں، الزام کی بنا یہ ہے کہ یہ مسئلہ رحم و محبت و ہمدردی کے برخلاف ہے، جان ملٹن نے اس سے اختلاف کیا ہے اور نہایت عمدہ دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ جب شوہر و زوجہ میں ایسی ناموافقت ہوجاوے جو تمدن و حسن معاشرت کے منافی ہو تو انجیل کے احکام کے رو سے طلاق ناجائز نہیں ہے۔
بہرحال اس وقت تین شریعتیں طلاق کے معاملہ میں ہمارے سامنے موجود ہیں اول یہودیوں کی جس میں بغیر کسی سبب قوی کے مرد کو طلاق دینا جائز قرار دیا گیا ہے اور ایسا کرنے میں کوئی گناہ یا الزام مرد پر عائد نہیں کیا گیا۔ بلاشبہ یہ شریعت ایک ناپسندیدہ شریعت ہے اور رحم و محبت اور حسن معاشرت و تمدن کے برخلاف ہے، ایسی شریعت سے نکاح کی وقعت گھٹ جاتی ہے اور مرد کی محبت کا عورت کے ساتھ اور عورت کی وفاداری کا مرد کے ساتھ اعتبار نہیں رہتا۔ دوم بت پرستوں اور حال کے زمانہ کے عیسائیوں کی جن میں طلاق جائز نہیں یا بجززنا کے اور کسی حالت میں جائز نہیں۔ اس شریعت میں اس مقدس رسم کا بلاشبہ نہایت ادب کیا گیا ہے۔ (من توابحذرکم الموت ! رموتوا یجمنکم وحذرکم من الحرب کما قال اللہ تعالیٰ فی سورة ال عمران قل موتوا بغیظکم۔ ) سید احمد
مگر جس طرح کہ یہودی شریعت میں افراط تھی اسی طرح اس شریعت میں تفریط ہے اور دونوں فطرت انسانی کے برخلاف ہیں، اگر کسی سبب و حالت سے ایسی خرابیاں مرد و عورت میں پیدا ہوجاویں جو کسی طرح اصلاح کے قابل نہ ہوں تو ان کا بھی کچھ علاج ہونا چاہیے ، اور وہ علاج طلاق ہے، پس کچھ شک نہیں کہ ایسی حالت میں بھی طلاق کا جائز نہ ہونا حسن معاشرت اور انسانی فطرت کے برخلاف ہے۔ تیسری شریعت محمدیہ ہے جس کا ذکر اس آیت اور اس کے بعد کی آیتوں میں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحتوں اور ہدایتوں میں ہے۔ اس شریعت حصہ نے اس خوبی اور اس اعتدال سے اس مسئلہ کو قرار دیا ہے جس سے زیادہ عمدہ نہیں ہوسکتا، اور نہ اس سے زیادہ تمدن اور حسن معاشرت کی حفاظت انسانی فطرت کے مطابق ہوسکتی ہے۔ شریعت محمدیہ نے طلاق کو ایسی حالت میں جائز قرار دیا ہے جبکہ زن و شوہر میں مرض ناموافقت وعدم محبت کا ایسے درجہ پر پہنچ جاوے جو علاج کے قابل نہ ہو، یا یوں کہو کہ بجز طلاق کے دوسرا کوئی علاج اس کا نہ ہو۔ مگر زن و شوہر کا معاملہ ایک ایسا نازک اور ایک عجیب قسم کے ارتباط و اختلاط کا ہے کہ اس میں جو خرابی پیدا ہو سوائے انہی دونوں کے اور کوئی تیسرا شخص اس بات کا اندازہ نہیں کرسکتا کہ آیا وہ اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کا علاج بجز طلاق کے اور کچھ نہیں یا نہیں، اس لیے اس شریعت حصہ کے بانی نے اس حد کی تعین انہی کی رائے اور انہی کی طبیعت پر منحصر کی ہے، اور اسی کے اخلاق کو اس کا قاضی بنایا ہے جس کی تسلی و موانست کے لیے ابتدا میں عورت بطور انیس دلنواز اور مونس و غمگسار کے پیدا ہوئی تھی، اور اس بات کا کہ وہ علاج بےمحل و بےموقع بداخلاقی اور بد خواہش نفسانی سے نہ کیا جاوے جہاں تک کہ انسانی فطرت کے مناسب حال تھا انسداد کیا ہے۔ مردوں کو فہمائش کی ہے کہ ہمیشہ عورتوں کے ساتھ محبت رکھیں اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں، ان کی سختی و بدمزاجی کو تحمل سے برداشت کریں۔ عورتوں کو فہمائش کی کہ اپنے مردوں کی تابعداری کریں، ان کے ساتھ محبت رکھیں ان کی وفادار ہوں۔ پھر طلاق کی نسبت فرمایا کہ گو طلاق جائز کی گئی ہے مگر کوئی چیز دنیا کے پر وہ پر طلاق سے زیادہ خدا کو غصہ دلانے والی پیدا نہیں ہوئی۔ عورت کی بندی فرمایا کہ جو عورت بغیر لاعلاج ضرورت کے اور بغیر سخت حالت کے اپنے شوہر سے ، طلاق کی خواہاں ہو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ ہمارے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طلاق سے ایسے ناراض ہوتے تھے کہ بعض دفعہ صحابہ کو شبہ ہوا کہ طلاق دینے والے نے ایسا جرم کیا ہے کہ قتل کرنے کے قابل ہو۔ پھر ان ہدایتوں اور تہدیدوں ہی پر طلاق کے روکنے میں بس نہیں کیا، بلکہ نکاح اور ملاپ کے قائم رکھنے کی اور بھی تدبیریں فرمائیں، یعنی پوری تفریق واقع ہونے کو تین دفعہ طلاق دینا معتبر رکھا ہے، اور یہ اجازت دی کہ پہلی طلاق کے بعد اگر آپس میں صلح ہوجاوے اور نجش مٹ جاوے اور دونوں کی محبت تازہ ہوجاوے تو پھر بدستور جو رو خصم ہوسکتے ہیں، لیکن اگر پھر تیسری دفعہ طلاق دی جاوے تو ثابت ہوگیا کہ یہ بیل منڈھے چھڑنے والی نہیں بہتر ہے کہ پوری تفریق ہوجاوے۔ ایسی حالت میں کہ عورت کو مرد سے کنارہ کش رہنا پڑتا ہے طلاق دینے کو منع فرمایا اس امید پر کہ شاید زمانہ مقاربت میں محبت والفت کی ایسی تحریک ہو کہ خیال طلاق کا دل سے جاتا رہے، پس یہ تمام احکام نہایت خوبی و عمدگی و اعتدال سے فطرت انسانی کے مطابق ہیں، خدا نے ان احکام کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی بنائی ہوئی حدیں ہیں ان کو توڑنا نہیں چاہیے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ حدیں کچھ دیواریں یا خندقیں نہیں ہیں بلکہ یہ حدیں فطرت انسانی کی حدیں ہیں جن کو توڑنا انسانیت کی حد سے خارج ہونا ہے، پس جو لوگ مسئلہ طلاق پر معترض ہیں جب وہ اس کو بخوبی سمجھے گے اور فطرت انسانی پر غور کرینگے تو بالیقین جانینگے کہ بلاشبہ یہ حکم اسی کا ہے جس نے فطرت انسانی کو بنایا ہے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 243

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ ہُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۲۴۳﴾

تفسیر سرسید :

( الم ترالی الذین خرجوا) اس آیت سے نہیں معلوم ہوتا کہ اس میں کن لوگوں کا ذکر ہے مفسرین نے لفظ ” موتوا “ اور لفظ ” حیا “ سے یہ قیاس کیا کہ یہ لوگ خرقیل نبی کے وقت میں تھے ، خرقیل نبی کا ایک قصہ مردوں کی ہڈیوں کے دیکھنے اور پھر ان کے زندہ ہونے کا خرقیل نبی کی کتاب میں مندرج ہے، ہمارے ہاں کے مفسروں نے صرف ان دو لفظوں سے ایک قصہ مثل قصہ خرقیل بنالیا ہے جو محض غلط ہے اور حذر الموت کے لفظ سے انھوں نے وبا سے ان لوگوں کا اپنا ملک چھوڑ کر چلا جانا قرار دیا ہے مگر اس تفسیر کی کوئی سند نہیں ہے صرف اسی غلط خیال پر یہ تفسیر بیان کی ہے۔
حذر الموت کے لفظ سے بسبب وبا کے ان لوگوں کا ملک سے چلا جانا ایک نہایت غلط قیاس ہے کیونکہ اسی مقام پر خدا نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں سے لڑنے کی ترغیب دی ہے اور اس لیے لڑائی میں مارے جانے کے خوف سے ان لوگوں کا ملک کو چھوڑ کر چلا جانا مراد ہوسکتا ہے نہ کہ وبا کے ڈر سے۔
موت اور احیا کے حقیقی معنی بھی یہاں مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ آیت میں کوئی اشارہ اس بات کا کہ یہ امر معجزہ سے ہوا تھا اور کیا محل معجزہ دکھانے کا تھا اور کسی پیغمبر نے دکھایا تھا اور کس کو دکھایا تھا مذکور نہیں ہے، اور جو کہ یہ الفاظ موقع جنگ میں واقع ہیں اس لیے موت سے ان لوگوں کی نامردی اور بزدلا پن مراد ہے جو لڑائی میں موت کے ڈر سے ملک چھوڑ گئے تھے، جیسا کہ عام محاورہ میں کہتی ہیں کہ اگر یہ بات نہیں کرتے تو اچھا مرد یعنی مصیبت میں پڑے رہو ، خدا نے اور جگہ بھی موت کے لفظ کو انہی معنوں میں استعمال کیا ہے جہاں فرمایا ہے کہ قل موتوا بغیظکم ، یعنی اپنے غصہ میں مرو یعنی تباہ و خستہ دل رہو ، اور احیا کے لفظ سے ان کے دل میں قوت آنا اور لڑنے پر آمادہ ہونا اور دشمن کو شکست دینے پر قادر ہونا مراد ہے، اور اسی تمثیل پر مسلمانوں کو دوسری آیت میں دشمنوں سے لڑنے اور دل کو مضبوط رکھنے کی ترغیب دی ہے، پس موت واحیا سے حقیقی موت و زندگی سمجھنا اور تمام قصہ کو خرقیل نبی کے فرضی قصہ پر جو خرقیل کی کتاب میں ہے محمول کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔
بلاشبہ جبکہ قرآن مجید میں ان لوگوں کا زیادہ حال بیان نہیں ہوا ہے تو مفسر کا صرف یہ کام ہے کہ تاریخی گزشتہ واقعات پر خیال کرے اور دیکھے کہ کون سے تاریخی واقعہ سے زیادہ مناسبت معلوم ہوتی ہے اور کوئی قرینہ اس واقعہ سے آیت کے متعلق کرنے کا ہے یا نہیں اور اس طرح آیت کا تعلق اس واقعہ سے قرار دے۔ اس مقام پر قرآن مجید میں ان واقعات کا ذکر ہے جو بنی اسرائیل اور مدیانیوں اور فلسطینیوں میں واقع ہوئے تھے اور اس لیے قیاس کرنے کو صریح موقع ہے کہ اس آیت میں بھی انہی واقعات میں سے کسی واقعہ کا ذکر ہے۔
مدیانیوں کے ہاتھ سے بنی اسرائیل نے سخت شکست پائی تھی اور اپنا گھر چھوڑ چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں بھاگ گئے تھے اور سات برس تک ان پر یہ مصیبت رہی، پھر جدعون نبی ان میں مبعوث ہوئے اور انھوں نے ان کو لڑائی پر ترغیب دی اور ان کا دل مضبوط کیا اور مدیانیوں پر انھوں نے فتح پائی۔ پس خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا کہ جو لوگ لڑائی میں موت کے ڈر سے بھاگے وہ ایسی بدتر حالت کو جو مرنے کے برابر ہے پہنچ گئے تھے، پھر اللہ نے ان کو ہمت و جرات سے زندہ کیا اور فتح مند و خوشحال ہوئے، اسی طرح مسلمانوں کو بھی موت کے ڈر سے بزدلی و نامردی جو موت کے برابر ہے اختیار کرنی نہیں چاہیے بلکہ اپنے دشمنوں سے لڑنا اور بہادری و دلیری و استقلال کو کام میں لانا چاہیے۔
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
سیقول : سورۃ البقرة : آیت 246

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ قَالَ ہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوۡا ؕ قَالُوۡا وَ مَا لَنَاۤ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَدۡ اُخۡرِجۡنَا مِنۡ دِیَارِنَا وَ اَبۡنَآئِنَا ؕ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ تَوَلَّوۡا اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۲۴۶﴾

تفسیر سرسید :

(الم ترالی الملاوہ) اس آیت سے لغایت آیت طالوت و جالوت کی لڑائیوں کا ذکر ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جبکہ بنی اسرائیل میں شموئیل نبی تھے اور ان آیتوں میں پانچ واقعوں کا بیان ہے (دیکھو توراۃ میں کتاب قضات باب ششم)
بنی اسرائیل کا اپنے نبی سے درخواست کرنا کہ ان پر کوئی بادشاہ مقرر کرے۔
شموئیل نبی کا بنی اسرائیل پر طالوت کو بادشاہ مقرر کرنا۔
، تابوت، سکینہ کا طالوت کے عہد میں بنی اسرائیل کے پاس آجانا۔
طالوت کے لشکر کو دریا کے پانی سے منع ہونا۔
فلسطینیوں کا شکت پانا اور جالوت کا داؤد کے ہاتھ سے مارا جانا۔
یہ تمام واقعات توراۃ کی کتاب شموئیل میں مندرج ہیں مگر تیسرے اور چوتھے واقعہ میں کسی قدر اختلاف ہے یعنی کتاب شموئیل میں تابوت سکینہ کا طالوت کے عہد سے پہلے آجانا لکھا ہے اور قرآن مجید میں طالوت کے عہد میں اور اس پر عیسائی مورخوں نے اعتراض کیا ہے کہ غلطی سے ماقبل کے واقعی کو مابعد کے واقعہ میں شامل کردیا ہے۔
کتاب شموئیل سے پایا جاتا ہے کہ تابوت سکینہ بمقام شیلوہ تھا جہاں عیلی بنی اسرائیل پر حاکم تھا اس کے عہد میں بنی اسرائیل اور فلسطینیوں میں بمقام ابن عیذر لڑائی ہوئی اور بنی اسرائیل کی شکست ہوئی (دیکھو کتاب شموئیل باب درس ) تب بنی اسرائیل نے تابوت سکینہ کو شیلوہ سے لشکر گاہ میں منگایا اور دوبارہ لڑے اور شکست عظیم ہوئی اور عیلی کے دونوں بیٹے مارے گئے اور تابوت سکینہ کو فلسطینی چھین لے گئے (دیکھو کتاب شموئیل باب درس و ) عیلی بھی یہ خبر سن کر کرسی پر سے گرپڑا اور مرگیا اس زمانہ میں شموئیل نبی ہوچکے تھے مگر ان کی عمر چھوٹی تھی۔
فلسطینی تابوت سکینہ کو مقام ابن عیزر سے جہاں سے انھوں نے فتح کیا تھا بمقام اشدود لے گئے اور داگون بت کے مندر میں رکھا (دیکھو کتاب شموئیل باب درس الغایت ) پھر وہاں سے بمقام گٹ لے گئے (دیکھو کتاب مذکور درس ) پھر وہاں سے بمقام عقرون لے گئے (دیکھو کتاب مذکورہ درس ) اس کے بعد فلسطینیوں نے ایک گاڑی میں دو گایوں کو جوت کر اور تابوت سکینہ کو اس پر رکھ کر جنگل میں چھوڑ دیا اور وہ گائیں اس کو لے کر بمقام بیت الشمس چلی آئیں اور یوشع کے کھیت میں جاکھڑی ہوئیں اس نے تابوت اتار لیا اور اپنے ہاں رکھا (دیکھو کتاب شموئیل باب ششم) کتاب شموئیل میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرئیل کی شکست ہونے اور تابوت چھین لے جانے کے سات مہینہ بعد ہوا۔
اس کے بعد تابوت سکینہ قریات یعاریم میں آیا اور ابیناداب کے گھر میں بمقام گبعاہ رکھا گیا (دیکھو کتاب شموئیل بابدرس ) مگر کتاب شموئیل میں نہیں لکھا کہ بیت الشمس میں کس قدر مدت رہا۔ عیسائی مورخوں کے نزدیک قبل مسیح کے تابوت سکینہ فلسطینیوں نے چھین لیا تھا اورء میں قریات یعاریم میں آگیا وہاں آنے کے بیس برس بعد یہودیوں نے بتوں کی عبادت شموئیل نبی کی فہمائش سے موقوف کی اور خدا کی پرستش اختیار کی (دیکھو کتاب شموئیل بابدرس و ) اور بنی اسرائیل سے شموئیل کی سرداری میں ایک لڑائی فسلطینیوں سے ہوئی اور فلسطینیوں نے شکست کھائی۔ جب شموئیل ضعیف ہوئے تب بنی اسرائیل نے کسی بادشاہ کے مقرر کرنے کو کہا اور طالوت کو قبل مسیح میں بادشاہ کیا۔
کتاب شموئیل میں طالوت یعنی شاؤل اور جالوت کی لڑائی اور اس کے مارے جانے کا ذکر ہے مگر طالوت کے لشکر کو دریا کے پانی پینے سے منع کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ توراۃ کی کتاب قضاۃ باب ہفتم میں جدعون کے لشکر کو ایک چشمہ کے پانی پینے سے منع کیا گیا تھا اور یہ واقعہ قبل مسیح کے ہوا تھا اس لیے عیسائی مورخ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں غلطی سے جدعون کے لشکر کے واقعہ کو طالوت کے لشکر کے واقعہ سے ملا دیا ہے۔
ان دونوں اعتراضوں کے تسیم کرنے کے لیے جو مخالفت کتاب شموئیل پر مبنی ہیں ضرور ہے کہ کتاب شموئیل میں جو واقعات اور جو ترتیب ان واقعات کی ہے ان کو صحیح تسلیم کرلیا جاوے اور یہ بات بھی مان لی جاوے کہ کوئی واقعہ طالوت کے لشکر کا ایسا نہیں ہے جو کتاب شموئیل میں لکھنے سے رہ گیا ہو حالانکہ خود عیسائی مورخ ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتے، شموئیل کی کتابوں کے مضامین میں باہم اختلاف ہے۔ کتاب اول شموئیل باب درس و سے ظاہر ہے کہ طالوت داؤد سے اور اس کے باپ یشی سے بخوبی واقف تھا، داؤد کو اس کے باپ کے پاس سے بلایا تھا اور اپنا سلحدار کیا تھا، اسی کتاب کے باب ہفتدہم درس سے ظاہر ہے کہ داؤد طالوت سے رخصت ہو کر اپنے گھر چلا گیا تھا۔ لڑائی کے ہنگامہ میں جب داؤد اپنے بھائیوں کی خبر لینے آیا تو داؤد نے کہا کہ جالوت سے میں لڑونگا، یہ خبر سن کر طالوت نے داؤد کو بلایا اور گفتگو کے بعد لڑنے کی اجازت دی اور اپنی فدہ و خود تلوار بھی دی جس کو داؤد نے لے کر پھر دی دیا (دیکھو کتاب اول شموئیل باب درس لغایت) مگر اس باب کے درس میں لکھا ہے کہ جب داؤد لڑنے کو بڑھا تو طالوت نے اپنے لشکر کے سردار سے پوچھا کہ یہ جوان کس کا بیٹا ہے اور درس میں لکھا ہے کہ جب داؤد نے جالوت کا سر کاٹ لیا اور طالوت کے پاس لے آیا تو طالوت نے پوچھا کہ تو کس کا بیٹا ہے۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک طالوت داؤد سے مطلق واقف نہ تھا۔
اس اختلاف کے سبب خود عیسائی مورخوں کی یہ رائے ہے کہ کتاب شموئیل میں
کیا تونے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو نہیں دیکھا جو موسیٰ کے بعد ہوئے (یعنی امت شموئیل پیغمبر) جبکہ انھوں نے اپنے نبی کو کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کرتا کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں (یعنی جالوت سے) نبی نے کہا کہ کیا تم ایسے نہیں معلوم ہوتے کہ اگر تم پر لڑائی لکھی جاوے تو تم نہ لڑو گے انھوں نے کہا کہ کیوں نہ ہم لڑینگے اللہ کی راہ میں حالانکہ بیشک ہم خارج کیے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے بیٹوں سے پھر جب ان پر لڑائی لکھی گئی تو پھرگئے بجز تھوڑوں کے ان میں اور اللہ جانتا ہے ظالموں کو
کے اور کچھ نہیں یا نہیں، اس لیے اس شریعت حقہ کے بانی نے اس حد کی تعین انہی کی رائے اور انہی کی طبیعت پر منحصر کی ہے، اور اسی کے اختاق کو اس کا قاضی بنایا ہے جس کی تسلی و موانت کے لیے ابتدا میں عورت بطور ان سے دلنواز اور مونس و غمگسار کے پیدا ہوئی تھی، اور اس بات کا کہ وہ علاج بےمحل و بےموقع بداخلاقی اور بد خواہش نفسانی سے نہ کیا جاوے جہاں تک کہ انسانی فطرت کے مناسب حال تھا انسداد کیا ہے۔ مردوں کو فہمائش کی ہے کہ ہمیشہ عورتوں کے ساتھ محبت رکھیں، اور ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں ، ان کی سختی و بدمزاجی کو تحمل سے برداشت کریں۔ عورتوں کو فہمائش کی کہ اپنے مردوں کی تابعداری کریں، ان کے ساتھ محبت رکھیں ان کی وفادار ہوں۔ پھر طلاق کی نسبت فرمایا کہ گو طلاق جائز کی گئی ہے مگر کوئی چیز دنیا کے پردہ پر طلاق سے زیادہ خدا کو غصہ دلانے والی پیدا نہیں ہوئی۔ عورت کی فرمایا کہ جو عورت بغیر لا علاج ضرورت کے اور بغیر سخت حالت کے اپنے شوہر گید نبی کے لکھے ہوئے ہیں۔ ابربانیل اور کروشیس خیال کرتے ہیں کہ یہ سب کتابیں پر میاہ نبی نے لکھی ہیں، جان کی رائے ہے کہ یہ کتابیں شموئیل کے بہت زمانہ بعد یعنی قید بابل کے تیسویں سال میں لکھی گئی ہیں۔ اگر درحقیقت ایسا ہی ہو کہ تین ہاتھوں نے ان کتابوں کو لکھا ہو تو واقعات کا الٹ، پلٹ ہوجانا یا بعض واقعات کا تحریر سے رہے جانا ایک ایسا امر ہے جو آسانی سے خیال میں آسکتا ہے۔
ہماری غرض اس بحث سے شموئیل کی کتابوں پر جرح وقدح کی نہیں ہے بلکہ صرف یہ بات ثابت کرنی ہے کہ قرآن مجید پر اس وجہ سے کہ شموئیل کی کتابوں سے بیان میں مختلف ہے اعتراض نہیں ہوسکتا جب تک کہ اور طرح پر اس کی غلطی ثابت نہ کی جاوے۔
میں یہ نہیں چاہتا کہ قرآن مجید میں جو کچھ لکھا ہے اس کی صحت پر کسی کو اس وجہ پر مجبور کروں کہ قرآن میں لکھا ہے، بلکہ میں دونوں واقعوں پر جو قرآن و کتاب شموئیل میں مندرج ہیں بطور ایک نکتہ چین مورخ کے غور کرنا اور اس نکتہ چینی سے دونوں قولوں میں سے ایک کو ترجیح دینا چاہتا ہوں۔
تابوت سکینہ کو فلسطینی فتح کرکے چھین لے گئے تھے ، کتاب شموئیل میں اس کا واپس بھیج دینا ایسی عجیب اور کراماتی واقعوں پر مبنی کیا ہے جس کو کوئی آزاد رائے کا مورخ جو واقعات کو انسانوں کے حالات اور افعال کا نتیجہ سمجھتا ہے تسلیم نہیں کرسکتا۔ لڑائی کے شکست ہونے کے بعد بنی اسرائیل نہایت ضعیف ہوگئے تھے اور رفتہ رفتہ انھوں نے پھر قوت حاصل کی تھی، تابوت سکینہ کا دشمنوں کے ہاتھ میں چلا جانا بلاشبہ ان کو نہایت رنج دیتا ہوگا اور ان کی نہایت آرزو یہ ہوگی کہ وہ اس کو پھر اپنے دشمنوں سے واپس لیں۔
اس شکست کے بیس برس بعد وہ فلسطینیوں سے پھر لڑے اور فلسطینیوں نے شکست پائی جس سے معلوم ہوتا ہے فلسطینی کمزور ہوگئے تھے۔ فلسطینی خوب جانتے ہوں گے کہ بنی اسرائیل جب تک کہ تابوت سکینہ ان کے نہ ہاتھ لگے لڑائی سے باز نہیں آنے کے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل کو زیادہ قوت ہوگئی اور شموئیل نبی نے تمام فرقوں کو جو عیلی کے مرنے کے بعد متفرق ہوگئے تھے اکٹھا کرلیا اور طالوت کو بادشاہ مقرر کیا اور یہ امر بنی اسرائیل کی زیادہ قوت کا اور فلسطینیوں کو جو کمزور ہوتے جاتے تھے زیادہ خوف کا باعث ہوا ہوگا انھوں نے سمجھا ہوگا کہ اگر تابوت سکینہ واپس کردیا جاوے تو شاید مصیبت جنگ سے حفاظت ہوجاوے انھوں نے جا بجا اس کو منتقل کیا اور آخر کار ایک گاڑی میں لاد کر معہ زر و تحائف کے ہیئت الشمس کی سرحد میں جو بنی اسرائیل کا ایک شہر فلسطینیوں کی سرحد سے ملا ہوا تھا چھوڑ آئے، اور اس تمام اصلی واقعہ۔۔ پر خیال کرنے سے اس بات کو کہ تابوت سکینہ طالوت کے عہد میں آیا ہوگا جیسا کہ قرآن میں مندرج ہے زیادہ ترجیح ہوتی ہے۔
دریا کے پانی پینے سے منع کرنے کی نسبت اول ہم کو خیال کرنا چاہیے کہ جہاں طالوت و جالوت میں لڑائی ہوئی تھی وہ کیا مقام تھا، فلسطینی مقام سوکوہ وغریقا و آفس و میم میں جمع ہوئے تھے، اور بنی اسرائیل وادی ایلاہ میں، دونوں لشکروں کے درمیان دریائے شورق واقع تھا فلسطینی اس کے بائیں کنارہ پر یعنی جانب جنوب تھے اور بنی اسرائیل اس کے واھیں کنارہ پر یعنی جانب شمال تھے اور بنی اسرائیل نے دریا کو عبور کرکے فلسطینیوں پر حملہ کیا تھا پس قرآن مجید کے ان لفظوں کی کہ ” ان اللہ مبتلیکم ینھر “ جغرافیہ اور تاریخ سے بخوبی تصدیق ہوتی ہے۔
باقی رہا اس کے پانی پینے سے منع کرنا۔ ہر شخص جو لڑائیوں کے حالات سے واقف ہے اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک قوم دوسری قوم پر فوج کشی کرتی ہے تو ہر ایک شخص اس کی قوم کا بہادر اور غیر بہادر اور دل چلا اور دل کا بودا قومی لحاظ سے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ لیکن جب وقت حملہ کرنے کا آتا ہے تو سپہ سالار ایک طریقہ ایسے لوگوں کے انتخاب کرنے کا مقرر کرتا ہے جس کے سبب حملہ میں وہی لوگ شریک رہیں جو نہایت بہادر اور دل چلے ہوں اور درحقیقت اپنے دلی جوش سے لڑائی میں شریک ہوتے ہوں۔
جب جدعون نے مدیانیوں پر فوج کشی کی تھی تو اس نے حملہ کے وقت یہ قرار دیا تھا کہ جو شخص اس چشمہ سے جو اس کے لشکر کے پاس تھا پانی پی لے وہ حملہ میں شریک نہ ہو اور جو نہ پیئے بلکہ صرف ہاتھ بھیگو کے زبان کو تر کرلے وہ حملہ میں شریک رہے۔ اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ جن لوگوں کو لڑنے اور جان دینے میں تذبذب ہو وہ جھٹ جائیں اور جو بالکل لڑنے اور مرنے پر آمادہ ہوں وہ حملہ میں شریک رہیں۔
اگرچہ شبہ ہے کہ جہاں جدعون کی مدیانیوں سے لڑائی ہوئی تھی وہاں کوئی چشمہ نہیں تھا اور اس لیے کتاب قضات میں طالوت کا واقعہ جدعون کے قصہ سے ملا دیا ہے لیکن اگر اس کو جدعون ہی کے وقت کا واقعہ تسلیم کرلیا جاوے تو طالوت کو یہ واقعہ ضرور معلوم ہوگا اور اتفاق سے طالوت کا لشکر بھی دریا کے کنارہ پر پڑا تھا اور دریا کے پار اتر کر حملہ کرنا قرار پایا تھا ہر طرح پر یقین کرنے کا موقع ہے کہ طالوت نے بھی اسی طریقہ پر ان لوگوں کا جو حملہ میں دل سے شریک ہونے کو تھے انتخاب کرنا چاہا ہوگا اور وہی طریقہ انتخاب کا اختیار کیا ہوگا جو جدعون نے اختیار کیا تھا۔ ہاں کتاب شموئیل میں اس انتخاب کا ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کتاب شموئیل میں اس کا ذکر نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ واقعہ نہ ہوا ہو۔ عیسائی مورخوں نے کج بحثی سے یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن مجید میں جدعون کے قصہ کو طالوت کے قصہ میں ملا دیا ہے۔ پس یہ اعتراض کرنے والوں کی غلطی ہے کیونکہ تمام واقعات کو خیال کرنے سے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ جدعون کے عہد میں جو واقعہ ہوا ہو وہ علیحدہ ہے اور طالوت کے عہد میں جو واقعہ ہوا اور جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے وہ علیحدہ ہے۔ اور کم سے کم اس میں تو کچھ شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس زمانہ کے یہود جب قرآن مجید نازل ہوا اس واقعہ کا طالوت کے عہد میں بھی واقع ہونے کا یقین رکھتے تھے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو انہی کے مقابلہ میں قرآن مجید میں علانیہ ایسا بیان نہیں ہوسکتا تھا۔
آیتیں جن میں یہ قصہ مذکور ہے نہایت صاف ہیں صرف ایک مقام تفسیر کے قابل ہے جہاں خدا نے فرمایا ہے کہ ” طالوت کے عہد سلطنت میں تابوت سکینہ کو فرشتے اٹھا لاوینگے ” تحملہ الملائکۃ “ جالوت نے جب لڑائی میں مغلوب ہونے کے ڈر سے تابوت سکینہ کو بنی اسرائیل کے ملک میں بھیجنا چاہا تو اس کو بیلوں کی گاڑی پر لاد کر بنی اسرائیل کے ملک کی سرحد میں چھوڑوادیا تھا یہ قصہ شموئیل کی کتاب میں ہے۔ ہمارے علماء مفسرین نے کہہ دیا کہ ان بیلوں کو جن پر کوئی ہانکنے والا نہ تھا فرشتے جن کو لائے تھے اور یہی معنی ” تحملہ الملائکۃ “ کے قرار دیدئیے بعض عالموں نے سمجھا کہ یہ معنی تو ٹھیک تحملہ کے لفظ کے چسپاں نہیں ہوتے انھوں نے یہ قیاس لگایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تابوت سکینہ کو دنیا سے اوپر فرشتے ادھر اٹھائے ہوئے تھے پھر طالوت کو لاکر دے دیا، یہ سب غلط قیاسات ہیں آیت کا مطلب صاف ہے کہ بنی اسرائیل کو تابوت سکینہ کے ہاتھ آنے کی بڑی خواہش تھی شموئیل پیغمبر نے جب طالوت کو بادشاہ مقرر کیا تو فرمایا کہ اس کی بادشاہت میں تابوت سکینہ آجاویگا، اور جو کہ اس کا ہاتھ آنا نہایت مشکل معلوم ہوتا تھا اس لیے انھوں نے کہا کہ اس کو فرشتے اٹھاوینگے جیسا کہ ایسے موقع پر بطور تقویت قلب کے بولا جاتا ہے۔
 
Top