• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تفسیر کبیر قادیانی خلیفہ زانی مرزا بشیر الدین محمود جلد نمبر1 یونیکوڈ

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ211

نتیجہ نہ تھیں کہ انہیں وبائو کہا جائے بلکہ حادثات تھے جو ایک ہی صورت میں ظاہر ہوتے اور لطیفہ یہ کہ چوٹوں کے مریض آنے شروع ہوئے تو کبھی پے در پے سر کی چوٹوں کے مریض آئے اور کبھی پے در پے لاتوں کی چوٹوں کے مریض آئے اس تجربہ کے بعد انہو ںنے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ امر ایک حیرت انگیز قانون قدرت کے مخفی اسباب پر دلالت کرتا ہے۔
غرض علاوہ اس کے کہ بارشوں خشک سالی کھیتوں کے پکنے یا موسمی تغیرات کا تعلق اجرام فلکی سے ہے حوادث اور بعض غیر متعدی بیماریوں کا تعلق بھی اجرام فلکی سے ہے چنانچہ میں نے یہ تجربہ کیاہے کہ جس علاقہ میں پورا چاند گرہن ہو اس علاقہ میں اس اس موسم میں زچگی کی تکالیف بہت زیادہ نمایاں طور پر پیدا ہو جاتی ہیں میں نے کئی دفعہ دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور بعد میں اسی طرح مشاہدہ کیا ہے پس ان امور سے ایک عام اندازہ اس امر کا کیا جا سکتا ہے کہ زمین و آسمان مل کر سارے عالم پر مختلف اثرات ڈالتے ہیں اور اسی قسم کے بعض مشاہدات سے بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ سورج‘ چاند‘ ستارے بھی خدائی میں شریک ہیں اور ان کے خوش کرنے کے لئے کئی قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں مگر یہ سب وہم ہیں جو انسان کو انسانیت سے گراکمر حیوانیت کے مقام تک پہنچا دیتے ہیں اصل حقیقت تو ان تاثیرات میں صرف اس قدر ہے کہ انسان اس تمام کائنات کو ایک طبعی مؤثر اپنے اعمال اور قویٰ پر سمجھے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی اعانت کا طالب ہو۔ تاکہ اپنے علم سے کام لینے کے بعد جن باتو ںکا اسے علم نہیں ان میں خدا تعالیٰ کی مدد اس کی راہنمائی کرے اور اس کی غیبی حفاظت کے سامان کرے ورنہ اس قسم کے امو رکو دیکھ کر اجرام فلکی کی عبادت کرتی تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی طاعون کے کیڑوں یا ہیضہ کے کیڑوں کی عبادت شروع کر دے۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے بعض جاہل ان چیزوں کی عبادت کر ربھی رہے ہیں چنانچہ چیچک کی دیوی کی عبادت تو ہمارے ملک میں مشہور ہے اسی وہم کی بناء پر ہمارے ملک میں چیچک کا نام نہیں لیتے بلکہ اسے ماتا یعنے ماں کہتے ہیں تاکہ وہ مزعومہ دیوی خوش ہو کر ماتا کہنے والے ماں باپ کی اولاد کو چھوڑ دے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔
غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے آرام کے سامان پیدا کئے ہیں لیکن یہ سب سامان ظاہر نہیں ان میں سے ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی پس انسان کو اس دُنیا کے پیدا کرنے والے رب سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے تاکہ وہ ان سے صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ان کی مخفی مفرتوں سے محفوظ رکھے کیونکہ انسان ساری تدبیریں کر لینے کے بعد بھی ارضی و سماوی تغیرات کے ضرروں سے کامل طور پر نہیں بچ سکتا خدا تعالیٰ ہی پوری طرح اس کی حفاظت کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو دیکھو لوگ ان کے تباہ کرنے کے لئے کیسے جتن کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی سب تدبیرو ںکو باطل کر دیتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے دشمنوں نے طرح طرح کے حملے کئے۔ آپؐ کو زہر دینے کی کوشش کی گئی مگر آپؐ کے ایک ساتھی تو شہید ہو گئے لیکن آپؐ جن کو زہر دینے کی اصل کوشش تھی محفوظ رہے۔ آپؐ پر خفیہ کمینوں میں بیٹھ کر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر دشمن ناکام رہا۔ علیحدگی میں آپؐ پر حملہ کرنے کی تدبیہ کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی دشمن کو نامراد رکھا گھر بلا کر اوپر سے پتھر پھینکنے کا منصوبہ یہود نے کیا مگر اللہ تعالیٰ نے الہام سے خبردار کر دیا اور دشمن کو شرارت کا اقرار کرنا پڑا۔ غارِ ثور میں دشمن سر پر پہنچ کر جس طرح لوٹا آج تک دُنیا اس پر حیران ہے۔ یہ سب کچھ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے فضلوں سے ہؤا۔ آپؐ نے اس سے تعلق جوڑا تو اس نے آپؐ سے جوڑا۔ اور سارے عالم کو آپؐ کی خدمت میں لگا دیا حضرت مسیحؑ ناصری کو جب ان کے دشمنوں نے اپنی طرف سے صلیب پر لٹکا کر مار ہی دیا تھا خدا تعالیٰ نے کس طرح ایک
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ212

تاریک آندھی بھیج کر حاکم اور یہود دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کو وقت سے پہلے صلیب پر سے اُتار لیں اور اس طرح حضرت مسیح اس ذلت کی موت سے محفوظ ہو گئے جو دشمنوں نے ان کے لئے تجویز کی تھی۔ اس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدٓ کے ذریعہ سے ایسے بیسیوں واقعات ظاہر ہوئے آپؐ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ طاعون سے آپ کا گھر محفوظ رہے گا سو باوجود اس کے کہ سالہا سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی اور آپؐ کے گھر کے دائیں بائیں بھی اس سے کئی موتیں ہوئیں مگر آپؐ کے گھر میں کوئی حادثہ نہ ہوا۔ آپ کی جوانی کا ایک واقعہ ہے جس کے بعض ہندو صاحبان بھی گواہ ہیں چنانچہ مسٹر جسٹس کنور سین جو جموں کی ریاست کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ ان کیو الد لالہ بھیم سین بھی اس کے گواہ تھے او رانہو ںنے اپنے صاحبزادے کے سامنے اس کے متعلق شہادت بھی دی ہوئی ہے جن سے اب بھی پوچھا جا سکتا ہے وہ واقعہ یوں ہے کہ آپؐ سیالکوٹ میں ایک مکان پر تھے کہ ایک معمولی سی آواز چھت میں پیدا ہوئی آپؐ نے سب ساتھیوں کو جگایا جن میں لالہ بھیم سین صاحب وکیل بھی تھے او رکہا کہ فوراً نیچے اُترو مگر انہوں نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ آپؐ کو وہم ہو گیا ہے مگر پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے سب کو اُٹھا کر دوستانہ جبر سے اُترنے پر مجبور کر دیا۔ پھر ان سب سے کہا کہ پہلے تم اُترو کیونکہ یہ چھت تب تک قائم ہے جب تک میں اس پر ہوں اس لئے میں سب سے آخر میں اُتروں گا جب سب دوست سیڑھیاں اُتر چکے تو پھر آپ اُترے اور جونہی آپؐ سیڑھی پر آئے چھت یکدم زمین پر آ رہی۔ یہ سب امور جو دنیا کی پیدائش سے اس وقت تک ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور ظاہر ہوتے رہیں گے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک وجود ہے اور اس سے تعلق پیدا کرنے والا ایک وجود ہے اور اس سے تعلق پیدا کرنے سے ہی انسان کامل طو رپر ہلاکت سے بچ سکتا ہے۔ اور یہی اس آیت کا مطلب ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان کو خدا تعالیٰ نے ہی تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس اس سے کامل فائدہ تم اسی سے تعلق پیدا کر کے حاصل کر سکتے ہو اور نقصانات سے بھی تم اسی سے تعلق پیدا کر کے محفوظ ہو سکتے ہو۔
یاد رہے کہ اس فائدہ سے وہ ظالمانہ فائدہ مُراد نہیں جو ظالم بادشاہ اور جابر رئوسا اُٹھاتے ہیں کیونکہ وہ فائدہ اُٹھانا نہیں بلکہ *** مول لینا ہے۔ پس خدا رسیدہ لوگوں کی زندگی کے مقابلہ پر ظالم بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کے حالات رکھ کر مقابلہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے عزت نہیں بلکہ ذلت حاصل کی تھی۔
یاد رہے کہ اس آیت میں سماء سے مُراد بلندی ہے نہ کہ کوئی ٹھوس دائرہ جیسا کہ عوام الناس کا خیال ہے اور اس بلندی سے مراد وہ تمام فضاء ہے جس میں ستارے اور سیارے پائے جاتے ہیں اور چھت بنانے سے یہ مُراد ہے کہ بلندی کو حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے حفاظت کے لئے چھت کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ چھت بھی بہت سی تکالیف سے حفاظت کا ذریعہ ہوتی ہے اور یہ ایک محاورہ ہے۔
بلندی کو حفاظت کا ذریعہ بنایا سے یہ مطلب ہے کہ انسان کی زندگی کے قیام کے لئے جن اشیاء کی ضرورت ہے وہ بلندی سے تعلق رکھتی ہیں پانی بھی بلندی سے برستا ہے۔ ہوا بھی اوپر ہے۔ اسی طرح سورج چاند وغیرہ ہیں اور انہی اشیاء سے وہ سب چیزیں تیار ہوتی ہیں جن سے انسان زندہ رہتا ہے روحانیات میں بھی انسان اوپر کا محتاج ہے۔ مِنَ السَّمَآئِ مَائً سے مراد یہ ہے کہ بادلوں سے پانی اُتارا ہے۔ اس جگہ سَمَاء سے مراد فضاء کی بلندی نہیں بلکہ بادل ہے اور بادل کے معنے استعارۃً نہیں کئے گئے بلکہ لغت سے ثابت ہیں اور قرآن شریف میں دوسری جگہوں پر بھی اس معنے میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَاَرْ سَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْہِمْ مِدْرَارًا (سورہ انعام ع ۱)کہ ہم نے ان پر بالوں سے موسلادھار مینہہ برسایا۔ اسی طرح پھر فرماتا ہے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ213

یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا (سورۂ نوح ع ۱ و ہود ع ۵) کہ اللہ تعالیٰ تم پر موسلا دھار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ آیت زیر تفسیر میں سَمَاء بمعنے بادل استعمال ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں دو دفعہ سَمَاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اگر دوسری جگہ پر فضء ہی کے معنے ہوتے تو صرف ضمیر لانی کافی تھی دوبارہ سَمَاء کے لفظ کو لانا بتاتا ہے کہ دوسری جگہ پر اس کے دوسرے معنے ہیں۔
اس امر کو بیان کر دینے کے بعد کہ زمین و آسمان او ران کے پیدا کردہ تغیرات جیسے بادل وغیرہ کا آنا سب اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے ہیں فرماتا ہے کہ جب دُنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی ہے تو تم کو سمجھ لینا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ند نہیں ہے یعنی ایسا کوئی وجود نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کا ذات اور صفات میں شریک ہو اور اس کے برابر ہو (ند کے لئے دیکھو حل لغات) اور جب تمام نظامِ عالم ایک قانون کے ماتحت نظر آتا ہے اور کوئی بات بھی اس پر دلالت نہیں کرتی کہ اس کا کوئی حصہ کسی نے پیدا کیا ہے اور کوئی کسی اور نے تو پھر خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کے معنے ہی کیا ہوئے۔ پس تم کو چاہیئے کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور اس کے فضلوں سے فائدہ اُٹھائو اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت کر کے اپنے مستقبل اور حاضر کو خراب نہ کرو۔
وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نظامِ عالم میں یکسوئی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے کوئی عقلمند شخص بھی ناواقف نہیں ہو سکتا اور سب کو اس کا علم اور اقرار ہے کہ کل کائنات ایک قانون کے مطابق چلی رہی ہے پس اس امر کو جانتے بوجھتے ہوئے شرک میں مبتلا نہ ہو بلکہ اس علم سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے توحید پر قائم ہو جائو ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جُرم کامل اسی صورت میں ہوتا ہے کہ علم کے ماتحت ہو۔ اس سے اسلام کی کیسی برتری ثابت ہوئی ہے کہ وہ صرف عمل پر ہی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس امر کا بھی لحاظ کرتا ہے کہ وہ عمل کن حالات میں کیا گیا ہے اور کس قسم کے علم کے نتیجہ میں صادر ہوا ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مادی دُنیا کی تکمیل بھی زمینی اور آسمانی قوتوں کے ملنے سے ہوتی ہے زمین پر پانی کو لوگ خراب کر دیتے ہیں تو آسمان سے نیا پانی آ کر مصفی پانی مہیا کر دیتا ہے۔ ہوا جیسی مصفی چیز کو جب انسان سانس سے گندہ کر دیتا ہے تو وہ اوپر جا کر پھر پاک ہو جاتی ہے آنکھ مفید ہے مگر آسمان یعنی سورج کی روشنی کے بغیر وہ کس کام کی۔ غرض اگر زمین انسان کے لئے بچھونا ہے تو آسمان چھت کا کام دیتا ہے اسی طرح روحانی دُنیا کا حال ہے انسان کے اندر بیشک عقل موجود ہے مگر عقل کا وجود آنکھ کی طرح ہے جب تک روحانی سورج کی روشنی یعنی الہام اس کے ساتھ نہ ملے وہ صحیح طو رپر کام نہیں کر سکتی فطرتی تقاضے بیشک نہایت پاک ہیں لیکن دنیوی لالچوں سے مل کر وہ گندے ہو جاتے ہیں اور الہام کے آسمانی پانی کے ذریعہ سے ہی پاک ہوتے ہیں پس اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر انسان کامیاب زندگی کسی صورت میں بسر نہیں کر سکتا۔ او راللہ تعالیٰ نے مادی زندگی کو زمین اور آسمان دو حصوں کے ساتھ متعلق کر کے رُوحانی امور میں بھی صرف زمینی سامانو ںپر کفایت نہ کر لینا اور اپنی عقل اور اپنی فطرت کو ہی اپنے لئے کافی نہ سمجھ لینا کہ جس طرح مادی دنیا آسمانی امداد کی محتاج ہے روحانی دنیا بھی آسمانی امداد کی ہر وقت محتاج ہے جس طرح مادی دنیا میں زمین کے اوپر آسمان ہے اسی طرح روحانی دُنیا میں انسانی دل اور دماغ زمین ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیوض و ہدایات آسمان ہیں یہ دونوں مل کر ہی روحانی دنیا کو کامل کرتے ہیں ان کے ملے بغیر وہ دنیا نامکمل اور بے فائدہ ہو جاتی ہے۔
وَاَخْرَج بِہٖ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقًا میں اسی مضمون کی مزید تشریح کی ہے اور بتایا ہے کہ زمین میں قوتِ نمو موجود ہے مگر کیا آسمانی پانی کے بغیر وہ پھل پیدا کر سکتی
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ214

ہے پھر تم کس طرح خیال کرتے ہو کہ تمہارے دماغ خواہ کیسے ہی زرخیز کیوں نہ ہوں اور کیسی ہی نمو کی قابلیت کیوں نہ رکھتے ہوں وہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اچھے پھل دینے لگیں گے جس طرح بارش بند ہو جائے تو زمین کے پانی بھی خراب ہو جاتے ہیں اور زمین اچھے پھل دینے سے قاصر ہو جاتی ہے اسی طرح الہام الٰہی نہ آئے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کا نتیجہ ہے تو انسانی دماغ بھی پاکیزہ خیالات پیدا کرنے سے جو روحانی ثمرہ ہوتے ہیں قاصر رہ جاتے ہیں پس یہ دعوے نہ کرو کہ ہم اپنی عقلوں سے اپنے لئے ہدایت نامے تجویز کر سکتے ہیں۔ اور کریں گے۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تم کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ تک پہنچایا اور تم اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے مقام سے نیچے گراتے ہو اور اس کے انداد تجویز کرتے ہو۔ جن کو انداد بناتے ہو وہ نہایت معمولی ہستیاں ہیں پس تم دوسرے لفظوں میں یہ کہتے ہو کہ اللہ بھی ایسا ہی ہے ہم نے تو تم کو مخلوقات میں لاشریک بنا دیا زمین آسمان کو تمہاری خدمت میں لگا دیا مگر تم نے ہم کو جو فی الحقیقت لاشریک تھے باشریک بنا دیا۔ کیسے جاہل اور اندھے اور قابلِ افسوس ہیں وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ان احساسنات کے ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے انسان کو نہیں بنایا بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا وجود کوئی نہیں انسان نے اپنی عقل سے ایک ایسا وجود گھڑ لیا ہے یہ لوگ فلسفی کہلاتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ جاہل اس دنیا کے پردہ پر کوئی نہیں مل سکتا۔
توحید کی وہ تعلیم جو اس آیت میں دی گئی ہے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کیسا عمل تھا۔ اس کی ایک مثال لکھتا ہوں ایک دفعہ ایک صحابی نے آپؐ کے سامنے کہا کہ مَاشَائَ اللّٰہُ وَشِئْٔتَ یعنی فلاں معاملہ میں اسی طرح ہو گا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یا آپؐ چاہیں گے آپؐ نے فرمایا اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا کیا تو مجھے خدا کا نِدّ بناتا ہے یوں کہو کہ مَاشَائَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ یعنی وہی ہو گا جو خدائے واحد چاہے گا (ابن کثیر جلد اوّل صفحہ ۹۹)
اس آیت اور پہلی آیت کے تعلق سے ایک سوال کے متعلق جو اس زمانہ میں یورپین مصنفین نے اُٹھایا ہے کچھ تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ سوال مسٹر ہر برٹ اسنپنر مشہور فلسفی اور مسٹر فریزر نے نمایاں طور پر پیش کیا اور ان کے بعد ڈاکٹر رابرٹسن سمتھ مسٹر لارنس گوم مسٹر گرانٹ ایلن وغیر ہم نے اسے پھیلایا۔ ان لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک گروہ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نسبت عقیدہ روحو ںجنوں اور پریوں کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے اور دوسرے گروہ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ابتدائی انسان نے درندوں اور زہریلے کیڑوں سے متاثر ہو کر ان کی پُوجا فریق کا خیال ہے کہ ابتداء میں کئی خدائوں کا خیال پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ اس کی جگہ ایک خدا نے لے لی۔ اِن لوگوں کے دعویٰ کی بنیاد اس پر ہے کہ ابتداء آفرینش میں انسان ی تاریخ کئی خدائوں کے اعتقاد پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک واحدنیت سے پہلے کا ہے اور چونکہ شرک وحدانیت سے پہلے کام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک خدا کا خیال شرک کی ترقی پذیر صورت ہے۔
ان میں سے بعض نے مذاہب کے پیروئوں سے ڈر کر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ہمارے عقیدہ کی زد مذہب پر نہیں پڑتی۔ کیونکہ ایک معقولیت پسند خدا سے یہ بعید نہیں کہ جس طرح اس نے دُنیا پر قوانین نیچر کو بتدریج ظاہر کیا اسی طرح اس نے اپنی نسبت عقیدہ کو بھی دنیا پر بتدریج ظاہر کیا۔
میں اس امر کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ ان لوگوں نے اِس خیال کو پورے غور کے بعد پیش کیا ہو بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یا تو یہ خیال انہوں نے مذہبی دُنیا کی مخالفت کے ڈر سے پیش کیا ہے یا پھر انہو ںنے اس سوال پر غور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ215

کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور مذہبی لوگوں کی دلجوئی کے لئے بغیر کافی غور کرنے کے یہ بات پیش کر دی ہے۔
میرے اس خیال بنیاد اِس پر ہے کہ تمام اہم مذاہب مذہب کی بنیاد الہام پر رکھتے ہیں اور اگ رمذہب کی بنیاد الہامپر رکھی جائے تو یہ فلسفہ کہ خدا تعالیٰ نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ظاہر کیا اور پہلے اپنے سوا دوسرے وجودوں کی طرف دنیا کی راہنمائی کی ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ٹھیر سکتا۔ کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مردہ ارواح کی طرف لوگوں کی راہنمائی کی یا پتھروں دریائوں‘ سانپوں‘ شیروں کی طرف دُنیا کی راہنمائی کی اور بعد میں اپنے آپ کو ظاہر کیا کیونکہ ایک خدا کے وجود کی طرف راہنمائی اگر شروع زمانہ سے بھی کی جاتی تو اس میں عقلاً کوئی امر مستبعد نہیں۔ علاوہ ازیں مختلف مذاہب جو اس وقت دُنیا میں پائے جاتے ہیں اور اس امر کا کوئی بھی قائل نہیں کہ الہام بعد کے کسی زمانہ سے شروع ہوا ہے ہندو مذہب بھی اِسی کا قائل ہے کہ ابتداء آفرینش سے الہام ہونا شروع ہوا اور یہودی مذہب بھی اِسی امر کا قائل ہے اور مسیحیت چونکہ یہودی مذہب کی آخری کڑی ہے وہ بھی اسی امر کی قائل ہے اور زردشتی مذہب بھی اِسی امر کا قائل ہے اور اسلام بھی اسی کا قائل ہے پس اگر یہ خیال درست ہے ت وماننا پڑے گا کہ دید اور تورات اور انجیل اور زند اوستا اور قرآن کریم سب کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔
بائبل صاف طور پر اِس امر کی مدعی ہے کہ جب انسان دنیا پر نمودار ہوا اسے الہام ہوا اور اسے خداء واحد کا پتہ دیا گیا اور انجیل اس کے بیان کو صحیح تسلیم کرتی ہے پس اگر دُنیا میں ابتداء خدا تعالیٰ کا علم نہ تھا تو بائبل کا یہ دعویٰ یقینا جھوٹا ہے کہ خدا نے آدم سے کہا کہ ’’پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پر جو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو‘‘ (پیدائش باب ۱ آیت ۲۸)اس آیت سے ثابت ہے کہ آدم کے زمانہ سے جو پہلا انسان تھا۔ اس کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ پیدا کیا گیا ہے انسان کا محکوم اور اس کے فائدہ کے لئے ہے۔ اس تعلیم کے بعد آدم کے دل میں یہ خیال کس طرح پیدا ہو سکتا تھا کہ پہلیس تاروں اور سورج اور چاند کو خدا سمجھے یا زمین کے جانوروں کو خدا سمجھے یا آدم سے پہلے کونسے آباء تھے جن کو وہ خدا سمجھ سکتا تھا پس یقینا یا تو بائبل کو جھوٹا کہنا ہو گا یا اس خیال کو کہ خدا کا خیال آہستہ آہستہ پیدا ہوا غلط کہنا پڑے گا۔
اسلام نے بھی اسی عقیدہ کو پیش کیا ہے جیسا کہ اگلے رکوع میں آدم کے ذکر میں آئے گا کہ انسان کے نمودار ہوتے ہی خدا تعالیٰ نے پہلے انسان کواپنے کلام سے مشرف کیا اور اپنے وجود کی اسے خبر دی۔
ان تعلیمات کی موجودگی میں مذہب کے دعویٰ اور ان خیالات کا اجتماع کسی صورت میں نہیں ہو سکتا اور یقینا دونوں میں سے ایک کو باطل کہنا پڑے گا پس میں ان دونوں اصول کے درمیان موازنہ کر کے بتاتا ہوں کہ کونسا درست اور کونسا غلط۔
اس خیال کی جو خدا تعالیٰ کے متعلق فلاسفروں نے پیش کیا ہے بنیاد ان دو باتو ںپر ہے۔ اوّل وحی الٰہی کے وجود سے انکار۔ دوم مسئلہ ارتقاء کا غلط مفہوم۔
وحی الٰہی کا انکار محض اس لئے پیدا ہوا ہے کہ ان فلاسفروں کو اس کا تجربہ نہیں اور وہ مسیحی ممالک میں پیدا ہوئے ہیں جن میں ایک لمبا عرصہ سے الہام کا وجود ناپید ہے۔ چونکہ اُنہوں نے نہ خود الہام پایا اور نہ الہام پانے والوں کو دیکھا وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ وحی کا وجود ہی کوئی نہیں۔ اور جب وحی الٰہی کے منکر ہوئے تو خدا تعالیٰ کے خیال کے لئے کوئی عقلی وجہ تلاش کرنے لگے اور چونکہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ216

ارتقار کے مسئلہ کی طرف ان کی توجہ اِن دنوں ہو رہی تھی اسے بھی اِس مسئلہ کے ماتحت حل کرنا چاہا اور اس غلط عقیدہ میں مبتلا ہو گئے۔
جیسا کہ میں نوٹ ۵؎ سورۃ ہذا (زیر آیت وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ) میں بتا آیا ہوں قرآن کریم نہ صرف وحی الٰہی کا قائل ہے بلکہ اس کے وجود کو ہر زمانہ میں تسلیم کرتا ہے اور اگراِس کا یہ دعویٰ صحیح ثابت ہو تو اِس فلسفہ کی جڑ آپ ہی آپ اُکھڑ جاتی ہے۔ قرآن کریم اپنی نسبت دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا ہر ہر لفظ لفظی وحی کی قسم سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلعم پر نازل کی اور وہ اس امر کا بھی مدعی ہے کہ اس سے پہلے ابتداء آفرینش سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں اور ان کے اتباع پر وحی نازل کرتا چلا آیا ہے اور اپنے وجود کو ان پر ظاہر کرتا چلا آیا ہے اور وہ اس امر کا بھی مدعی ہے کہ قرآن کریم کے ماننے والوں پر بھی وحی نازل ہوتی رہے گی۔ چنانچہ اِس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مہدی مسعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدؐیہ بھی وحی الٰہی پانے کے مدعی تھے خدمت کے لئے ان پر بھی وحی نازل ہوتی ہے او رہزار ہا الہام انہیں ہوئے جو کتاب تذکرہ کی صورت میں یکجائی طور پر ان کی جماعت نے شائع کر دیئے ہوئے ہیں ان میں ہزاروں پیشگوئیاں اور معجزات پر مشتمل کلام ہے جو پورا ہو چکا ہے او رپورا ہو رہا ہے۔ اس تازہ مشاہدہ کے بعد ہم کس طرح ان فلسفیوں کی باتوں کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ بلکہ اِن نشانات کو دیکھنے کے بعد ہماری نگہ میں تو یہ لوگ اِس روایتی لال بجھ کڑ کے مثیل ہیں کہ جو ہر سادہ سے بات کا کوئی غیر معقول سبب نکالنے کا عادی تھا۔
آپؐ کے بعد آپ کی برکت سے ہم لوگوں نے بھی وحی الٰہی کا مزہ چکھا ہے اور راقم حروف بھی سینکڑوں باء اس کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکا ہے اس مشاہدہ کے بعد مجھ پر ان فلسفیوں کی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ میں ان کی حالت کو قابلِ رحم سمجھ کر ان کی روحانی دنیا سے ناواقفی پرحیرت کروں۔ اگر یہ لوگ ہماری طرف رجوع کریں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ رُوحانی دُنیا کے بادشاہ جو گذشتہ زمانوں میں گذرے ہیں ان کی صداقت مشاہدات اور قوی دلائل سے ہم اب بھی بفضلہ تعالیٰ ثابت کرنے کو تیار ہیں۔
غرض جب وحی الٰہی ایک مجرب اور مشاہدہ سے ثابت شدہ امر ہے تو ان عقلی وجوہ کی جو محض ظنیات اور قیاسات پر مبنی ہیں کوئی وقعت بھی بقی نہیں رہتی۔
ان لوگوں کے خیال کی دوسری بنیاد مسئلہ ارتقاء کے غلط مفہوم پر ہے ان کا یہ خیال کہ دنیا کی ابتداء میں محض آباء یا طبعی مظاہروں یا جانوروں وغیرہ کی پرستش ہوتی تھی بالکل باطل ہے اور تاریخ اور عقل سے غلط ثابت ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ ارتقاء کا تعلق جہاں تک عقل انسانی سے ہے صرف اس حد تک محدود ہے کہ باریک مسائل آہستہ آہستہ دنیا پر کھولے گئے ہیں اور انسانی عقل کی نشوونما کے مطابق انہیں ظاہر کیا گیا ہے۔ اس قدر ارتقاء کا یہودی مذہب بھی قائل ہے اور مسیحیت بھی اور اسلام بھی۔ لیکن یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود کا بسیط علم بھی انسان کو ابتداء میں نہیں دیا گیا بالکل غیر معقول ہے۔ بھلا وہ کونسی روک تھی جو ابتدائی انسان کو ایک پیدا کرنے والے کے وجود کو ماننے میں مانع تھی؟ کوئی بھی عقلی وجہ اس کی معلوم نہیں ہوتی۔ پھر ایسے غیر معقول عقیدہ کو کوئی کس طرح تسلیم کر سکتا ہے۔
اِن فلسفیوں کا یہ خیال کہ چونکہ غیر مذہب اقوام میں خدا تعالیٰ کے متعلق جو علم بھی ہے مشرکانہ عقیدوں کے ذریعہ سے ہے اس لئے یہی عقیدہ خدا تعالیٰ کے وجود کی بنیاد ہے اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے کہ غیر مہذب ہونا ابتدائی ہونے کی علامت نہیں۔ اگر وہ تاریخ کو دیکھتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ مختلف اقوام پر تہذیب کے مختلف دور آئے ہیں۔ اور کسی وقت ایک قوم مہذب اور علوم سے آراستہ تھی تو دوسرے
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ217

وقت میں وہی قوم غیر مہذب اور علوم سے تہی ہو گئی۔ کیا انہوں نے یونان اور ایران اور عراق اور مصر کی تاریخوں کو نہیں پڑھا۔ کیا ہندوستان اور چین کی تاریخ ان سے پوشیدہ ہے کیا قدیم آثار سے جن کو خود انہی کے بھائی بندوں نے دریافت کیا ہے انہیں یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ گذشتہ زمانو ںمیں ان ملکوں میں ایک نہایت اعلیٰ دجرہ کی تہذیب پائی جاتی تھی لیکن اب وہ مفقود ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ ممالک علوم کے گہوارہ تھے مگر بعد میں جہالت کا مرکز ہو گئے۔ کیا موجودہ یونان باوجود یورپ کا حصہ ہونے کے انہی علوم کا سرچشمہ ہے جو ارسطو اور افلاطون کے وقت میں وہاں سے پھوٹ رہا تھا۔ کیا ہندوستان میں اب ان ترقیات کے زندہ آثار موجود ہیں جو سابق زمانوں میں یہاں پائے جاتے تھے۔ مصر نے اپنے وقت میں کس قدر ترقی کی اس کا ایک ادنیٰ کرشمہ اس کی ممیوں (مصالحوں سے محفوظ کردہ لاشوں) میں نظر آتا ہے جس کے نسخے کو اب تک بھی یورپ معلوم نہیں کر سکا۔ لیکن اب ان علوم کا نشان کہاں ہے پس جب تہذیب اور تمدن کے دوروں کے بعد جہالت اور کم علمی کے دور اتے رہے ہیں تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ توحید کے بعد شرک کے دور آتے رہے ہوں او رکس بناء پر ان شرک کے دوروں کو توحید کے دوروں پر مقدم سمجھا جائے اور اگر شرک کے دور کا توحید کے دو رپر تقدیم ثابت نہ ہو تو ان فلسفیوں کے خیال کی بنیاد کس بناء پر ہے؟اس اِمکان کے پیدا ہونے کی صورت میں تو وہ خود بخود باطل ہو جاتا ہے۔
میں اس سوال پر روشنی ڈالنے کے لئے موجودہ مذاہب ہی کی مثال پیش کرتا ہوں ہندو قوم کے ایک بزرگ جو دو ہزار سال پہلے گذر چکے ہیں ان کا کلام اب تک موجود ہے اور وہ حضرت کرشن ہیں ان کی کتاب گیتا ایک معروف کتاب ہے اس کتاب کی تعلیم کو آج سے پانچ سو سال پہلے کے ہندوئوں کے عقائد سے مقابلہ کر کے دیکھو کہ کوئی لگائو بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ آج سے پانچ چھ سو سال پہلے جب مسلمان اس ملک میں آئے ہیں گھر گھر میں بت خانہ تھا تو ہم پرستی تھی مذہب کا حقیقی وجود کہیں بھی پایا نہ جاتا تھا مگر کیا گیتا میں بھی اِن بتوں کا کہیں ذکر ہے جن کی حکومت آج سے چند سو سال پہلے ہندستان میں تھی کیا گیتا میں بھی ان توہمات کی کوئی سند ہے جو اس وقت ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ اگر یہ درست ہے کہ شرک کا دور پہلے تھا اور اس سے آہستہ آہستہ توحید کا خیال پیدا ہوا تو چاہیئے تو یہ تھا کہ پہلے توہمات کا راج ہوتا بتوں کا زور ہوتا او ربعد میں توحید آتی لیکن یہاں توہمیں یہ نظر آتا ہے کہ پہلے توحید کا دور تھا اور کرشن جی جیسا موحد انسان ہندوستان کا رہنما تھا مگر بعد میں شرک اور توہم پرستی نے جگہ لے لی۔ اگر کہو کہ بعد میں لوگ بگڑ کر مشرک ہو گئے تو میں کہتا ہوں کہ یہی خیال ان دوسرے شرک کے دوروں کی نسبت کیوں درست نہیں جو ان لوگو ںکو دھوکا دینے کا موجب ہوئے ہیں۔ اصل سوال تو یہ تھا کہ ارتقاء چاہتا ہے کہ پہلے ادنیٰ حالت ہو بعد میں اچھی ہو جائے مگر جب یہ بات غلط ثابت ہو گئی تو اس عقیدہ کی بنیاد گر گئی۔
دوسری مثال یہودی مذہب کی ہے تورات کو پڑھ کر دیکھ لو اس سے صاف ثابت ہے کہ توحید کے دوروں کے بعد یہود پر شرک کے دور آتے رہے بلکہ دور کیو ںجائیں تورات میں جس توحید کا ذکر ہے اس کے خلاف یہود میں موجودہ زمانہ میں بھی مشرکا نہ خیالات پیدا ہو گئے ہیں۔ پھر مسیحیت کو لو اس عقیدہ کے پیش کرنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح نے ایک سادہ خدا کی تعلیم دی تھی مگر وہ عقیدہ بگڑ کر اب کیا شکل اختیار کر چکا ہے کیا یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دو رپہلے تھا اس امر کا شرک کا دو رپہلے تھا۔
سب سے آخر میں اسلام ظاہر ہوا اسی کی تاریخ دیکھ لو وہ مذہب جو ابتداء سے انتہاء تک ایک خالص توحید کا پیش کرنے والا مذہب تھا جس میں ارواج پرستی کا کبھی نام نہ تھا جس کے نبی نے اس کو بھی برداشت نہ کیا کہ
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ218

اس کا کوئی صحابی اسے یہ کہے کہ جو تم چاہو وہ ہو گا جیسا کہ اس (نوٹ صفحہ ۲۳ سورۂ ہذا زیر آیت لَاتجعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَاداً دیکھو) سے پہلے بتایا جا چکا ہے۔ جس کے نبی نے مرتے وقت اپنی قوم کو ان الفاظ سے ہوشیار کیا کہ خدا *** کرے یہود اور نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ کی جگہ بنا لیا (بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوٰۃ فی البِیَعَۃ) ان کی امت بگڑی تو ان کا کیا حال ہوا۔ قبروں پر سجدے انہو ںنے کئے۔ اولیاء کو خدا کی صفات انہوں نے دیں۔ مُردوں سے مرادیں انہوں نے مانگیں غرض وہ کونسی مشرکانہ بات تھی جو انہوں نے نہ کی کیا ان کی حالت کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا جائز ہو گا کہ اسلام کی ابتداء شرک سے ہوئی اور بعد میں ایک خدا کا خیال پیدا ہوا کیونکہ ارتقاء کے مسئلہ کے ماتحت بسیط عقیدہ اپنی تمام شاخو ںمیں کامل ہو جانے والے عقیدہ سے پہلے ہونا چاہیئے۔
اگر ان سب تاریخی حوالوں کا جواب یہ ہو کہ ان اقوام میں توحید پہلے تھی اور شرک بعد میں آیا تو ایسے زبردست تاریحی شواہد کے باوجود اس ڈھکونسلے کے پیش کرنے کے کیا معنے جو اِن نام نہاد فلسفیو ںنے پیش کیا ہے؟ کیا یہ شواہد اس امر کا ثبوت نہیں کہ جس طرح ان اقوام میں توحید کے بعد شرک آیا ان سے پہلی اقوام میں بھی توحید کے بعد شرک آیا۔
اصل بات یہ ہے کہ انسانی ترقی دوروں کی صورت میں ہوتی ہے اور ترقی کے بعد زوال اور زوال کے بعد ترقی کا دور آتا ہے پس انسانی خیالات کے متعلق کسی دور سے یہ قیاس کرنا کہ صرف زوال کا دور پہلے تھا جس سے پہلے کوئی اور ترقی کا دور نہ تھا ایک ایسا بودا قیاس ہے جو کسی صورت میں بھی درست نہیں۔
دوسرا جواب اس خیال کے غلط ہونے کے بارہ میں یہ ہے کہ اگر ارتقاء سے خدا تعالیٰ کا خیال پیدا ہوا ہے تو چاہیئے تھا کہ سورج چاند ستاروں کا پرستش پہلے شروع ہوتی۔ لیکن مشرکانہ قبائل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سانپ کی پرستش اور دوسرے حیوانات کی پرستش پہلے کی ہے اور چاند سورج کی پرستش نسبتاً مہذب اقوام میں پائی جاتی ہے حالانکہ اگر انسان نے ابتداء میں اپنے گرد و پیش کے حالات سے مرعوب ہو کر خدا کا خیال اخذ کیا تھا تو چاند سورج ستاروں کی پرستش پہلے چاہیئے تھی کیونکہ وہ ہر جگہ میں نظر آتے ہیں اور ہر روز نظر آتے ہیں اور دُنیا پر ایک خاص اثر ہر روز پیدا کرتے ہیں جو علم ہیئت سے ناواقف انسان کے دل کو خاص طورپر مرعوب کرنے والا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف شیر چیتے سانپ کبھی کبھی نظر آتے ہیں اور ان کا اثر اس قدر وسیع نہیں۔ علاوہ ازیں اگر انسان ارتقاء کے قواعد کے ماتحت ترقی کر کے بنا ہے ت وانہی شیر چیتوں سانپوں سے اس کا واسطہ ہزار ہا سال سے پڑ رہا تھا مگر اس نے ان کو کوئی خاص عظمت نہ دی تھی۔ پھر کیا وجہ کہ یکدم اس نے ان کو خدائی کا مرتبہ دے دیا حالانکہ ان کے وجود میں ستاروں سورج اور چاند کی طرح کوئی پر اسرار کیفیت نہ تھی جو خدا بنانے کے خیال کے لئے ضروری ہے۔ غرض ان حیوانات اور کیڑوں کی پرستش کا خیال پہلے پیدا ہونا جو انسانی ارتقاء کی ترقی کے مسئلہ کے مطابق تو اس کے ہم صحبت بھی رہے تھے اور بندر کی شکل میں یا لنگور کی شکل میں انسان ان سے لڑتا بھڑتا بھی رہا تھا اور بعض کو مارتا بھی رہا تھا اور ستاروں کا خیال بعد میں پیدا ہونا ان فلسفیو ںکے خیالات کی ایک کھلی تغلیط ہے۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ انسان سانپ بچھو اور سورج چاند کو ہزاروں سال اپنے ارتقائی دو رمیں خدا نہ سمجھا اس کے بعد انہی اشیاء کو جن کو وہ پہلے معمولی وجود سمجھتا تھا خدا سمجھنے لگا تو اس ی وجہ خوف یا ہر اس نہیں ہو سکتی خوف و ہراس تو پہلے دن سے ہی اثر کرتے ہیں مگر ہزاروں سال کے معاملہ کے بعد اس خیال کا پیدا ہونا بتاتا ہے کہ اس کا سبب کچھ اور ہے اور وہ سبب در حقیقت اتفاقی حادثات سے تعلق
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ219

رکھتا ہے جو انسان کے تو ہم اور اس کے ادھورے علم سے ملکر اسے صداقت سے پھرا کر غلط تعلیم کی طرف لے جاتا ہے افسوس کہ ان فلسفیوں نے علم النفس کو مطالعہ کر کے شرک کے مسئلہ پر غور نہ کیا ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ شرک کا مقام طبعاً توحید کے بعد ہی ہے پہلے نہیں۔ بھلا کونسا عقلمند مان سکتا ہے کہ انسان روزانہ سب جانوروں کو مرتے ہوئے دیکھ کر ایک دن اپنے مرنے پر خدا کے خیال کو ایجاد کر بیٹھا حالانکہ وہ پہلے بھی مرتا تھا اور اگر وہ ارتقائیوں کے خیال کے مطابق بندر کی قسم کی کسی جانور سے بنا ہے تو اس وقت بھی تو وہ مرتا تھا اور اس کے گردو پیش کے سب جانو رہی مرتے تھے موت تو اگر کوئی خیال پیدا کر سکتی تھی تو صرف یہ کہ دُنیا کی ہر چیز ایک عرصہ کے بعد اپنی قوت کھو کر بیکار ہو جاتی ہے نہ یہ کہ مرنے کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے۔ اگر ایسی زندگی کا خیال پیدا ہو سکتا ہے تو خوابوں سے ہو سکتا ہے اور جب دماغی خوابوں پر غلط خیالات کی بنیاد تسلیم کر لی جائے تو سچی خوابوں پر غلط خیالات کی بنیاد تسلیم کر لی جائے تو سچی خوابوں پر صحیح عقائد کی بنیاد تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا اور یہ سب جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے۔
ایک اور ثبوت بھی اس کے رد میں میں پیش کرتا ہوں جو خود ان فلسفیوں کی تحقیقاتوں سے ہی ملتا ہے اور وہ ثبوت یہ ہے کہ تہذیبکے ادنیٰ ترین مقام پر جو قبائل اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں اور مشرکانہ خیالات میں شدت سے مبتلا ہیں ان میں بھی ایک خدا کا خیال پایا جاتا ہے اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دور پہلا تھا کیونکہ ان کے حالات سے ثابت ہے کہ وہ باوجود ایک بڑے خدا کو ماننے کے اس کو پوجا نہیں کرتے۔ پوجا وہ اپنے قومی دیوتائوں کی ہی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا مکسیکو افریقہ کے قبائل کی تحقیق جو کمپیریٹو ریلیجنز (Comparative Religions)والوں نے کی ہے اس میں تسلیم کیا ہے کہ ان اقوام میں ایک بڑے خدا کا خیال موجود ہے جو ان کے نزدیک نظر نہیں آتا اور آسمانو ںپر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عقلی طور پر ایسے انسان اس خیال کی طرف زیادہ راغب ہونگے جو پہلے پیدا ہوا یا بعد میں پیدا ہونے والے خیال کی طرف زیادہ راغب ہونگے ظاہر ہے کہ انسان پر وہی خیال زیادہ غالب ہوتا ہے جو آخر میں پیدا ہوا ہو۔ اب اگر ایک خدا کا خیال بعد میں پیدا ہوا تھا تو چاہیئے تھا کہ ان وحشی قبائل میں جو قدیم زمانہ کی یادگارہیں اس غیر مرئی خدا کی پرستش زیادہ کی جاتی اور ان خدائوں کی پرستش کم کی جاتی جو پہلے خیالات کا نتیجہ تھے کیونکہ ترقی یافتہ خیال غالب ہوا کرتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ اس کے برخلاف ہے مکسیکو آسٹریلیا اور افریقہ کے ان وحشی قبائل میں جن میں ایک غیر مرئی اور سبس ے بڑے خدا کا خیال پایا جاتا ہے اس کی عبادت بالکل مفقود ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے اور چھوٹے خدائوں اور قومی دیوتائوں کی پرستش وہ لوگ خوب کرتے ہیں جس سے صاف ثابت ہے کہ مشرکانہ خیالات توحید کے خیالات کے بعد پیدا ہوئے اسی لئے ان کی زندگی پر وہی غالب نظر آتے ہیں۔
اس امر کے ثبوت میں کہ غیر مہذب قدیم وحشی قبائل میں ایک غیر مرئی خالقِ کل خدا کا یقین پایا جاتا ہے میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کرتا ہوں مکسیکو کے قدیم باشندے قدیم ترین اقوام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں کمپیریٹو ریلیجنز کے محققین نے ان کی نسبت لکھا ہے کہ ان میں بھی یہ خیال موجود ہے کہ ایک خدا ایوونا ویلونا ہے جو سب کا خالق ہے اور سب پر محیط ہے اور سب باپوں کا باپ ہے۔ ابتداء میں جب کچھ نہ تھا ریلونا نے خیال کیا اور اس کے خیال کرنے کے بعد اس خیال سے نمو کی طاقت پیدا ہوئی اور وہ طاقت بڑھتے بڑھتے وسیع فضا کی صورت میں تبدیل ہو گئی اور اس سے خدا کی روشنی جلوہ گر ہوئی اور وہ فضاء سکڑنے لگی جس سے یہ چاند اور سورج اور ستارے بنے۔ اس خیال کو موجودہ مذاہب کے خیالات سے ملا کر دیکھو تو عجیب مشابہت معلوم ہوتی ہے بلکہ پیدائش عالم کے متعلق جو خیالات ہیں وہ تو موجودہ علم ہیئت کی تحقیق سے اور
 

آفرین ملک

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

صفحہ220

نیبولائی تھیوری سے ملتے جلتے ہیں۔
اس امریکن قدیم قبیلہ کے علاوہ افریقہ میں بعض نہایت وحشی قدیم غیر مہذب قبائل پائے جاتے ہیں یہ لوگ ایسے ابتدائی ہیں کہ ان کے دماغوں کی بناوٹ جانوروں سے بہت ملتی ہے اور بعض تو جوانی کا یاد کیا ہوا بڑھاپے میں بالکل بھول جاتے ہیں۔ ان قبائل میں بھی ایک سب کے خالق خدا کا خیال پایا جاتا ہے جسے ان کی زبان میں نینکمو کہتے ہیں۔
بابل کا زمانہ کیسا قدیم ہے ان میں بھی ایک خدا کا پتہ چلتا ہے چنانچہ بابل کے آثار قدیمہ میں سے ایک کتبہ ملا ہے جس پر لکھا ہے ’’اے دائمی بادشاہ تمام مخلوق کے مالک تو میرا خالق ہے اے بادشاہ تیرے رحم کے مطابق اے آقا جو تو سب پر رحم کرنے والا ہے تیری وسیع بادشاہت رحم کرنے والی رحم والی ہو۔ اپنی الوہیت کی عبادت کی محبت میرے دل میں گاڑ دے اور جو کچھ تجھے اچھا معلوم دیتا ہے وہ مجھے دے کیونکہ تو ہی ہے جس نے میری زندگی کو اس رنگ میں ڈھالا ہے‘‘ یہ کیسا اعلیٰ اور موجودہ مذاہب سے ملتا جلتا خیال ہے حالانکہ اس زمانہ کے بعد بابل مرکز شرک بن گیا تھا۔
اسی طرح کینیڈا کے قدیم باشندوں میں بھی ایک خدا کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے۔
پھر آسٹریلیا کا علاقہ جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے اور جہاں کے لوگ باقی دنیا سے بالکل منقطع ہو رہے تھے اور اس قدر وحشی اور خونخوار تھے کہ ان کا قریباً خاتمہ ہی کر دیا گیا ہے ان کے ایک قبیلہ کا نام آرنٹا ہے وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جسے آلٹجیرا کہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ چونکہ وہ حلیم ہے اس لئے سزا نہیں دیتا پس اس کی عبادت کی ضرورت نہیں۔
افریقہ کا ایک وحشی قبیلہ جسے زولو کہتے ہیں ان میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ایک غیر مرئی خدا ہے جو سب دنیا کا باپ ہے۔ اس کا نام ان کے نزدیک ان کو لنکز لو ہے۔
اسی طرح آسٹریلیا کے بعض اور قدیم باشندے نورینڈیئر کو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں۔ ووممبو ایک پرانا وحشی قبیلہ ہے وہ نوریلی کے نام سے ایک زبردست حدا کی پرستش کرتا ہے۔ افریقہ کا مشہور بنٹو قبیلہ نزا مبی نام خدا کو تمام دنیا کا پیدا کرنے والا اور بنی نوع انسان کا باپ قرار دیتا ہے۔
ان مثالوں سے یقینی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ پرانے اور غیر مہذب قبائل میں مشرکانہ خیالات کے علاوہ اور قبائلی خدائوں کے علاوہ ایک خالق کل اور غیر مرئی غیر مادی خدا کا وجود بھی تسلیم کیا جاتا ہے او رپھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ اس غیر مادی۔ سب پر حاکم خدا کی پرستش یا تو کرتے ہی نہیں یا سب سے کم کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کسی وقت ان میں توحید کا خیال رائج تھا اس کے بعد مشرکانہ خیالات پیدا ہو گئے اور جھوٹے خدائوں نے ان کے دل میں سچے خدا کی جگہ لے لی اور توحید کے بعد شرک کا دور دورہ ہوا۔
خلاصہ یہ کہ اگر الہام کا وجود تسلیم کیا جائے اور بوجھ ہر زمانہ میں اس کا ثبوت ملنے کے اس کا انکار ایسا ہی ہے جیسے کہ سورج کا انکار کر دیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ توحید کا خیال ابتداء سے تھا اور شرک کا خیال قومی زوال تاریخی زمانہ کی اقوام میں توحید کا خیال شرک کے خیالات سے پہلے کا ہے جس سے ماننا پڑتا ہے کہ جن اقوام کی تاریخ معلوم نہیں ان میں بھی توحیدشرک سے پہلے تھی۔ تیسرے یہ کہ قدیم اقوام کے جو نمونے اس وقت دنیا میں ملتے ہیں ان میں بھی ایک بڑے اور غیر مرئی خدا کا وجود پایا جاتا ہے مگر اس کی عبادت ان میں مفقود ہے جس سے معلوم ہوا کہ توحید کا خیال پہلا ہے اور شرک کے خیالات بعد کے ہیں تبھی پہلا خیال بعد کے خیالات سے دب گیا۔
 
Top