صفحہ181
معنے ہیں اِنْفَرَدَبِہٖ وَلَمْ یَخْلُطْ بِہٖ غَیْرَہُ۔ کسی چیز کو الگ رکھا اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کو نہ ملایا خَلَابِفُلَانٍ وَمَعَہٗ وَاِلَیْہِ: سَاَلَہٗ اَنْ یَجْتَمِعَ بِہٖ فِیْ خِلْوَۃٍ فَفَعَلَ کسی سے علیٰحدہ ملنے کی خواہش کی اور دوسرے نے یہ بات مان لی۔ وَقِیْلَ اِنَّ اِلیٰ ھٰمُنَا بِمَعْنی مَعَ کَمَا فِیْ قَوْلِہٖ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وَ اِذَا خَلَوْا اِلیٰ شَیٰطِیْہِمْ میں اِلیٰ کے معنے مَعَ کے ہیں۔ یعنی جب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ علیٰحدہ ہوتے ہیں۔ جیسے کہ آیت مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ میں اِلیٰ کے معنے مَعَ کے ہیں اور خَلَاکَ ذَمٌّ کے معنے ہیں تجھ سے مذمت دور ہو جائے۔ (اقرب)شَیٰطِیْنِھِمْ:۔ شَیْطَانٌ کی جمع ہے۔ اور یہ لفظ دو مختلف مادوں سے بن سکتا ہے (۱) شَطَنَ (۲) شَاطَ۔ اگر اسے شَطَنَ کے مادہ سے بنا ہوا قرار دیا جائے تو یہ فَیْعَالٌ کے وزن پر ہے۔ اور شَطَنَ عَنْہُ کے معنے ہیں اَبْعَدَ دور ہو گیا۔ شَطَنَ الدَّارُ کے معنے ہیں گھر دور ہو گیا (اقرب) اور اَلشَّطَنُ کے معنے ہیں اَلْحَبْلُ الطَّوِْیِّل لمبارسہ۔ اور شَطَنَ صَاحِبَہٗ کے معنے ہیں خَالَفَہٗ عَنْ نِیَّتِہٖ وَ وَجْھِہٖ اپنے ساتھی کی مخالفت کی۔ اس کو اس نے ارادہ اور مقصد سے پھرا دیا (اقرب) پس اس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے ہونگے کہ وہ ہستی جو حق سے خود بھی دور ہے اور دوسروں کو بھی دور کرنے والی ہے۔ اور وہ ہستی جسے ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتی ہیں اور اس نے حق کی مخالفت کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ اور اگر شَاطَ اس کا مادہ مانا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حد اور تعصب کی وجہ سے جل جائے یا ہلاک ہو جائے۔ کیونکہ شَاطَ الشَّیْ ئُ کے معنے ہیں اِخْتَرَقَ کوئی چیز جل گئی۔ اور اِسْتَشَاطَ غَضبًا کے معنے ہیں اِذَا احْتَدَّ فِیْ غَضْبِہٖ وَالْتَھَبَ کہ غصہ سے آگ بگولا ہو گیا۔ شَاطَ فُلَانٌ کے معنے ہیں ھَلَکَ ہلاک ہو گیا۔ شَیْطَان اس سے فَعْلَان کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اگر تو فَیْعَال کے وزن پر ہو تو یہ منصرف ہو گا وگرنہ غیر منصرف۔ ان معنوں کے علاوہ شیطان کے معنے لغت میں مندرجہ ذیل لکھے ہیں:۔
رُوْحٌ شَرِیْرٌ۔ بدروح۔ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ۔ ہر سرکش اور حد سے بڑہنے والا۔ اَلْحَیَّۃُ سانپ (سانپ کو اس لئے شیطان کہتے ہیں کہ یہ بھی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ مگر شیطان اسی سانپ کو کہتے ہیں جو چھوٹا ہو)۔ جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا یا دو سفر کرنے والے شیطان ہیں۔ ہاں تین اشخاص جا سکتے ہیں۔ یعنی چونکہ اس وقت ڈاکے پڑتے تھے اور ہلاک ہونے کا خطرہ تھا۔ اس لئے فرمایا کہ دو شخصوں کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہیں۔ ہاں تین ہوں تو سلامت آ جانے کی امید ہو سکتی ہے۔ قاموس میں لکھا ہے:۔ وَ الشَّیْطَانُ مَعْرُوْفٌ وَ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ مِنْ اِنْسٍ اَوْجِنٍّ اَوْ دَآبَّۃٍ۔ یعنی ایک شیطان تو مشہور ہے ہی نیز ہر ایک حد سے بڑہنے والے سرکش کو بھی شیطان کہتے ہیں خواہ انسان ہو یا جن یا چارپایہ۔
مُسْتَھْرِئُ وْنَ: اِسْتَھْزَأَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتَھْزَأَ کے وہی معنے ہیں جو مجرد ھَزَأَ کے ہیں۔ کہتے ہیں ھَزَئَ بِہٖ وَمِنْہُ اَیْ سَخِرَینْہُ اس سے ہنسی ٹھٹھا کیا (اقرب) اور اَھْزَاَہُ الَْبَرَدُ کے معنے ہیں قَتَلَہٗ سردی نے اسے ہلاک کر دیا (لسان) پس مُسْتَھْزِیٌٔ کے معنے ہوں گے ہنسی کرنے والا اور مُسْتَھْزِئُ وْنَ کے معنے ہونگے ہنسی کرنے والے۔