فاطمہ صراط
رکن ختم نبوت فورم
"ثبوت حاضر ہیں"
قادیانی کفریہ عقائد اور عزائم کا مستند دستاویزی ثبوت
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا وہ بنیادی اور مرکزی عقیدہ ہے جس میں معمولی سا شبہ بھی کفر ہے امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ:
"جو کسی جھوٹے مدعی نبوت (نبوت کا دعویٰ کرنے والا) سے دلیل طلب کرے وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے"۔
کیونکہ دلیل طلب کر کے اس نے اجرائےنبوت کے امکان کا عقیدہ رکھا اور یہی کفر ہے،عقیدہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد اور اساس ہے جس پر مکمل ایمان رکھے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا قرآن مجید کی 100 کے قریب آیات مبارکہ اور 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور کریم ٖٖٖصلی اللہ علیہ و الہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں ،تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ،تابعین عظام رحمۃاللہ ،تبع تابعین رحمۃاللہ ،آئمہ مجتہدین رحمۃاللہ اور چودہ صدیوں کے محدثین اور مفسرین، متکلمین ،علماء اور صوفیا رحمۃاللہ سمیت پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہی لہذٰا اب اگر کوئی بھی شخص کسی بھی معنوں میں دعویٰ نبوت کرتا ہے تو وہ بالاتفاق امت کافر اور مرتد،کذاب اور دجّال اور دائرہ اسلام سےخارج قرار پاتا ہے۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ و الہ وسلم سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
قرآن مجید میں ہے:
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبین (الاحزاب 40)
ترجمہ:
"محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں‘ بلکہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں"۔
تمام آئمہ اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں " خاتم النبین" کے معنیٰ ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم آخری نبی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد کسی کو "منصب نبوت" پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے عقیدہ ختم نبوت واضح ہے با لکل اسی طرح یہ عقیدہ حضورصلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی حدیث متواترہ سے بھی ثابت ہے آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فرماتے ہیں کہ"
" میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں"
(ابوداود جلد 2ص228)
"مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے"۔(مشکوۃ 512)
"رسالت اور نبوت ختم ہو چکی پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔"(ترمذی‘ جلد 2 ص)51
"میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو"۔(ابن ماجہ‘297)
ان ارشادات نبوی میں اس امر کی تصریح فرما دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی امت آخری امت ‘ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ ‘آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے یہ سب آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات مبارکہ کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں ‘جو اللہ تعالیٰ نے پورے کر دیے ہیں" چنانچہ قرآن مجید کو "ذکرللعالمین"اور بیت اللہ کو "ھدی للعالمین" کا خطاب بھی آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے ملا ، ترجمان القرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ "تفسیر ابن عباس" میں فرماتے ہیں :
" ختم اللہ بہ النبین قبلہ فلا یکون نبی بعدہ"
"خاتم " کے معٰنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ انبیاءحضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات پر ختم کر دیا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔"
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃاللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب
"خصائص کبریٰ "
میں آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا خاتم النبین ہونا آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خصوصیت قرار دیا ہے ، امام اہلسنت الشاہ احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق" حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نور خاتم النبین سید المرسلین صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء او مرسلین بلا تاویل و بلا تخصیص ہونا ضروریات دین سے ہے، جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ شک و شبہ کو بھی راہ دے کافر ،مرتد ملعون ہے"( فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص57)
چنانچہ ان تصریحات ، تشریحات دلائل اور اقوال سے یہ بات ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد قیامت تک کے لیے نبوت اور رسالت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کےبعد جو شخص بھی نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے اور پھر اس دعویٰ کے بارے کتنی بھی تاویلیں کیوں نہ کرے ،اپنی نبوت کو ظلی ،بروزی،تشریعی،غیرتشریعی یا لغوی ثابت کرنے کے لاکھ جتن کرے لیکن اسے کافر ،مرتد اور زندیق ہی قرار دیا جائے گا چنانچہ اب آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے بعد کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان میں سے تمام نے اپنے بعد میں آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء علیم السلام کی تصدیق فرمائی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی تصدیق تو فرمائی لیکن کسی نئے نبی کی بشارت نہیں دی بلکہ فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک 30 کے قریب دجال اور کذاب پیدا نہ ہو ں جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے"
ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ
" قریب ہے کہ میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں ،ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں،حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں "۔
ان ارشادات میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے ایسے "جھوٹے مدعیان نبوت" کے لیے دجال اور کذاب کا لفظ استعمال فرمایا جس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ہوں گے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے مسلمانون کو اپنے دامن فریب میں پھنسائیں گے۔"
لہذٰا امت کو خبردار کر دیا گیا کہ وہ ایسے عیار و مکار جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی اس پیشگوئی کے مطابق عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے لے کر آج تک سینکڑوں دجال اور کذاب مدعیان نبوت پیدا ہوئے جن کا حشر تاریخ اسلام سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔
لیکن بیسویں صدی میں فرنگی سر پرستی میں قادیان کے ایک ضمیر فروش مرزائے قادیانی نے جس نبوت کاذبہ کا دعوی کیا اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ جو بھی شخص مرزا کی نبوت پر ایمان نہ لائے کافر قرار دیا جائے، چنانچہ قادیانیوں نے بھی یہی کیا ،انہوں نے مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں اعلانیہ کافر قرار دیا، جنھوں نے مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانا، قادیانیوں کا مسلمانوں سے اختلاف صرف مرزا کی نبوت کے معاملے میں ہی نہیں تھا بلکہ خود قادیانیوں نے اپنا خدا ،اپنا اسلام،اپنا قرآن ،اپنی نماز،اپنا روزہ غرض یہ کہ اپنی ہر چیز مسلمانوں سے الگ قرار دی جس کا منطقی نتیجہ ظاہر ہے کہ ان کی غیر مسلم اقلیت ہونے کی شکل میں نکلا ، مرزا قادیانی نے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بر صغیر میں مرزا کی عجمی نبوت کا مقصد انگریزی اقتدار کی مظبوطی کے لیے مسلمانوں کے فکری اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور جذبہ جہاد کا خاتمہ تھا ، مرزا کی ساری زندگی انگریز کی حاشیہ برداری میں گزری ،اس نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ انگریز کی مدح سرائی اور جاسوسی میںصرف کیا ،
انگریز کا دور حکومت مرزا کے نزدیک " سایہ رحمت اور ایسے امن و استحکام کا باعث تھا، جو اسے مکہ، مدینہ میں بھی نہیں مل سکتا تھا۔"
ایسی صورت میں مرزا کے متبعین یہ کب گوارا کرتے کہ انگریز اس سرزمیں سے چلے جائیں چنانچہ مرزا کی جماعت نے برصغیر میں قیام کو طول دینے کے لیے اسے ہر ممکن مدد اور معا ونت فراہم کی، حقیقت یہ ہے کہ قصر نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کرنے والے مرزا کی ذریت نے"اکھنڈ بھارت " کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تحریک پاکستان کی ہی مخالفت نہیں کی بلکہ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ سے عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف سازشیں کر کے وگود پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
یہاں یہ تاریخی حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ قادیانیت کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت کی رہبری اور قیادت علماء اور مشائخ اہل سنت ہمیشہ پیش پیش رہے ،علمائے اہلسنت اور جماعت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے سب سے پہلے مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے مرزا کے کفرو نفاق اور اس کے مزموم وعقائد کا پردہ چاک کر کے اس وقت زبردست ردّ کیا، جس وقت کچھ لوگ مرزائے قادیانی کو "مرد صالح"اور اس کی کتاب "براہین احمدیہ " کو صدی کا شاہکار قرار دے رہے تھے عین اسی وقت علمائے حق اہلسنت والجماعت کے نمائندے عارف کامل "علامہ غلام دستگیر قصوری رحمۃاللہ" مرزا قادیانی کی کتاب "براہین احمدیہ " میں کیے گئے مرزا کے دعواں کا بطلان اپنی کتاب"رجم الشیاطین براغلوطات ا لبراہین"میں پیش کر کے اس کے کفر کا پردہ، علامہ غلام دستگیر قصوری رحمۃاللہ علیہ برصغیر کے سب سے پہلے عالم ہیں جنھوں نے مرزا کی کتاب "براہین احمدیہ" کے ابتدائی حصے پڑھ کر اس کی کفراور گمراہی کو بھانپ لیا تھا اور انہوں نے بروقت اس فتنے کا ردّ کر کے برصغیر کے مسلمانوں کو مرزا کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا ، حقیقت یہ ہے کہ تعاقب فتنہ قادیانیت کے سب سے پہلے سرخیل " علامہ غلام دستگیر ہاشمی قصوری"سے لے کر "پیر سیدنا مہر علی شاہ" صاحب ،"اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی" حجۃ الاسلام" علامہ حامد رضا خان"،امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب،مبلغ الاسلام علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی،پروفیسر محمد الیاس برنی، قاضی فضل احمد لدھیانوی ،تاج العلماء مفتی عمر نعیمی ، مفتی مظفر احمد دہلوی، قائد تحریک ختم نبوت 1953 علامہ ابوالحسنات علامہ محمد احمد قادری ،مجاہد ملت حضرت علامہ عبدالستار خان نیازی ، غازی تحریک ختم نبوت 1953 سید خلیل احمد قادری ،حضرت شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی ،مفتی ظفر علی نعمانی ،صوفی محمد ایاز خان نیازی اور علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین تک ہزاروں علماء و مشائخ اہل سنت شامل ہیں ، لیکن عصر حاضر میں جس کے نام پر قادر متعلق نے تحریک ارتداد قادیانیت کا سہرا مقدر فرمایا، وہ شخصیت حضرت علامہ شاہ احمد صدیقی رحمۃاللہ علیہ کی ہے،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت کو کفر و ارتداد قرار دینے اور اس کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کرنے کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوحاصل ہوا اور ان کے بعد یہ اعزاز ان کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔
علامہ شاہ احمد نورانی نے 30 جون 1974 میں قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف قرارداد پیش کرنے سے لے کر اس کی منظوری تک نہایت ہی محنت و جانفشانی سے کام کیا
، اس دوران آپ نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کے ساتھ، اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے ، انہیں مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت و حثیت سے روشناس کروانے ،رات گئے تک اٹارنی جنرل یحیٰ خان بختیار کے ساتھ قادیانیوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی تیاری کے ساتھ،مرزا ناصر اور صدر الدین لاہوری کے محضر نامے کے جواب میں 75 سوالات پر مشتمل سوالات کی تیاری میں بھی بھرپور حصہ لیا،آپ نے قومی اسمبلی کے خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن ہونے کے باوجود عوامی رائے ہموار کرنے کے لیئے ملک بھر کےطوفانی دوروں میں چالیس ہزار میل کا سفر طے کیا اور ڈیڑھ سو سے زائد شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں عوامی جلسوں سے خطاب کرکے مسلمانوں کو قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد،فتنہ پردازیوں اور شر انگیزیوں سے آگاہ کیا ،پاکستان کی تاریخ میں اسمبلی فلور پر عقیدہ ختم نبوت تحفظ کے لیے سب سے پہلے مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنانے والے
علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی پیش کردہ قرار داد کے نتیجے میں 7 ستمبر 1974 کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بنا پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور یوں نوّے سالہ فتنہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
علماء اسلام کی گرفت اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے بعد قادیانی جماعت نے اپنے لٹریچر کو چھپانے کی منظم کوشش کی اور اپنے اسلام دشمن عقائد پر تقیّہ کا پردہ ڈال کر اہل اسلام میں نقب زنی کا عمل جاری رکھا ، ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ قادیانیت کے کفر و ارتداد کو مستند شہادتوں کے ساتھ عوام کے سامنے لایا جائے اور شہادتیں بھی ایسی کہ ناقابل تردید ہوں لیکن مجبوری یہ تھی کہ عوام تو کجا خواص کی بھی رسائی آسان نہیں تھی اور اگر خوش قسمتی سے قادیانی کتب و رسائل دستیاب ہو بھی جائیں تو قادیانی اپنے لٹریچر میں تحریف کا فریضہ باقاعدگی سے سر انجام دیتے رہتے ہیں، پھر دور جدید میں عوام کے پاس وقت کی بڑی قلت ہے کہ مرزائی لٹریچر کی ورق گردانی کر کے اس میں سے حقائق تلاش کریں ، جہاں تک قادیانی لٹریچر کے مطالعے کا اتفاق ہوا ، ہمیں ان میں اجراء نبوت اور وفات مسیح کی کج بحثیوں َ جھوٹے الہاماتَ نہ پوری ہونے والی پیشگوئیوں ، علماء و مشائخ کے خلا ف دشنام طرازیوں ، سیدنا عیسیٰ علیہ سلام پر توہین آمیز تبصرے ، پادری عبداللہ آتھم سے ہونے والے مناظرے اور محمدی بیگم کی منا کحت کی جھوٹی تاویلات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، علم و حکمت ہو بھی تو کیونکر کہ خدا جب ایمان لیتا ہے تو علم وحکمت چھین لیتا ہے مرزا کے ساتھ بھی یہی ہوا، آج مرزا اور اس کے متبعین دین اور دنیا دونوں میں ذلیل و خوار اور راندہ درگاہ ہیں ، مرزا کے رنگ برنگے ماضی ، اس کے جھوٹے دعوں، تحریروں، جھوٹے وحی و الہامات، اور پیشن گوئیوں کا تجزیہ ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ ایک باخبّر کذاب ،اور وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی دھوکہ دے رہا تھا ، اس نے خدا کے نام اور جعلی نبوت کو سامراجی مقاصد کی تکمیل میں استعمال کیا اور اس کے اور اس کے نام پر دولت اور شہرت اکٹھا کرنا قادیانوں کی انجیل "تذکرہ" وہ لغویات اور احمقانہ پن ہے جو کسی ہم شخص کی تاریخ اور سوانح عمری میں ہرگز نہیں ملتا، مرزا قادیانی کی جھوٹی وحی عربی،اردو،فارسی،ہندی،انگریزی،عبرانی اور پنجابی زبان میں ہے ،زبان گھٹیا،مبہم ،عامیانہ گندی اور غلط ہے، حقیقت میں اس کا بڑا حصہ لغو اور بے معنی فقرات پر مشتمل ہے جس کے کوئی واضح معنی نہیں ہیں، پھر بھی قادیانی ذریت اس کے بیانات کی مختلف تاویلات پیش کر کے مرزا کی جھوٹی نبوت ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔
چنانچہ وقت کی اس اہم ترین ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے معروف سکالر
" محمد متین خالد زید مجدہ"
نے علماء کرام اور نامور اہل علم و دانش کی سرپرستی میں برسوں کی انتھک محنت کے بعد زیر نظر شاندار ضخیم کتاب"ثبوت حاضر ہیں!"
ترتیب دی ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد اور شاہکار کتاب ہے ۔جس میں قادیانیوں کی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں، مضحکہ خیزیوں اور کفریہ عقائد و عزائم کو مستند عکسی و دستاویزی شہادتوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ،یہاں یہ بات واضح رہے کہ عکسی ثبوت پیش کرنے کے حوالے سے سب سے پہلا کام "علامہ محمد منشاء تابش قصوری"
( مدرس جامعہ نظامیہ لاہور) نے "دعوت فکر " میں کیا تھا،"دعوت فکر" اس حولے سے پہلی کتاب ہے جس میں متنازعہ تحریروں کے عکسی ثبوت کو بطور حوالہ استعمال کیا گیا تھا، اس کتاب کی اشاعت سے قبل صرف حوالے شائع کیے جاتے تھے عکسی ثبوت نہیں، اصل کتاب سامنے نہ ہونے کی وجہ سے مخالفین باآسانی جھٹلا دیتے تھے ، لیکن اب متنازعی تحریروں کے عکسی ثبوت بمعہ اصل حوالوں کی موجودگی میں راہ فرار ممکن نہیں رہا، نوجون سکالر : "محمد متین خالد " نے اصل عکسی ثبوت کے ساتھ"ثبوت حاضر ہیں !" ترتیب دے کر قادیانیوں کے متعلق نادر و نایاب معلامات،حیرت انگیز سنسنی خیز انکشافات،اور اسلام دشمن مذموم سرگرمیوں کے تمام خفیہ گوشے بے نقاب کر دیے ہیں ،انہوں نے قادیانیوں کے مذموم عقائد و عزائم کے عکسی ثبوت یکجا کرنے کے لیے قادیانی کتب و رسائل اور اخبارات کے 50ہزار سے ذائد صفحات کھنگالنے کے بعد بڑی محنت اور خوبی سے یہ کتاب ترتیب دی ہے ، جس کی موجودگی میں قادیانیوں کے لیے کسی بھی قسم کا انکار تاویل اور فرار کی گنجائش آسان نہیں رہی ہے۔اپنے موضع کے اعتبار سے یہ ایک ایسی بلند پایہ تحقیقی کتاب ہے ،جو قادیانی کفریہ عقائد و عزائم کا مستند دستاویزی ثبوت فراہم کرتی ہے ،ہماری نظر میں دور حاضر میں قادیانیت کے مذموم عقائد و عزائم اور اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے
پروفیسر الیاس برنی کی کتاب " قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ"
کے بعد جدید کتب میں اس سے بہتر کتاب کوئی نہیں ہے، یہ کتاب اپنی تحقیق کے لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جس کا مطالعہ قادیانیوں کی راہ ہدایت کا سبب بن سکتا ہے، اس کتاب کا مطالعہ، علماء ،وکلاء ،اساتذہ اور طلباء کو فتنہ قادیانیت کے خلاف مظبوط دلائل اور ٹھوس معلومات کا ذخیرہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قادیانیت کے خلاف بحث ومناظرہ میں مستند حوالوں کے علاوہ عدالتی کاروائی میں بھی بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے ، درحقیقت ایسی کتاب وقت کی ایک اہم ضرورت تھی ،جسے جناب محمد متین خالد صاحب نے بروقت پورا کیا،فاضل مئولف کی اس کوشش و کاوشش نے قادیا نیت کی حقیقی گھناوَنی تصویر اور اسلام دشمن شرمناک کردار ہر قاری کے سامنے رکھ دیا ہے ، موصوف کی یہ کوشش جہاں حقیقت اور اعتدال پسندی کی مظہر ہے وہاں غیر جانب دار رویہ کی بھی عکاس ہے، ہم اس کوشش پر موَلف زید مجدھم اور ان کے معاونین اور محبین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتےہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ موَلف کی اس کوشش و کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما کرتوشہ آخرت بنائے ، ان کے علم و عمل مرتبہ و مقام میں خیر و برکت عطا فرمائے اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی اور بیخ کنی کیلئے ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح سر فروشانہ کردار ادا کر نے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
(آمین بحرمۃ خاتم النبین سید المرسلین و علی الہ و اصحابہ اجمعین)
خاک پائے مجاہدین ختم نبوت
احقر جمیل احمد نعیمی ضیائی
( ناظم تعلیمات دارلعلوم نعیمیہ ،کراچی)
یکم رمضان المبارک 1431ھ | 12 اگست 2010