عہد نامہ عتیق old testament تاریخ کی روشنی میں. حصہ اول.
عہد نامہ عتیق کو عام طور پر تورات کہہ دیا جاتا ہے. تورات حضرت موسیٰ کی طرف منسوب ہے لیکن درحقیقت اس کتاب میں بنی اسرائیل کے مختلف انبیاء کرام علیہم کی طرف منسوب کردہ کتابیں شامل ہیں اس مجموعہ میں انتالیس (39)کتابیں جنہیں علما یہود کے تین سلسلوں میں تقسیم کرتے ہیں :-
- سلسلہ اول تورات (یا قانون )اس میں پانچ کتابیں (اسفار ) شامل ہیں. جنہیں کتب موسئ کہا جاتا ہے. پیدائش، خروج، احبار،گنتی، استشناء.
2 ) سلسلہ دوم. نیبیم.اس میں چهوٹی بڑی بایس(22)کتابیں شامل ہیں.
3 ) سلسلہ سوم.کبتیم. اس میں بارہ کتابیں شامل ہیں. (زبور اسی سلسلے کی کتاب ہے ).
یہ کتابیں (جیسی کچه بهی ہیں )اج موجود ہیں لیکن ان میں ایسی کتابوں کا حوالہ آتا ہے جن کا وجود اس مجموعہ میں کہیں نہیں ملتا. اس قسم کی کم ازکم گیارہ کتابیں گنائی جا سکتی ہیں اس سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ عتیق کا جو مجموعہ کتب اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کی اپنئ شہادت کی بنا پر بهی یہ مکمل نہیں ہے..
سلسلہ اول کی پانچ کتابوں کو حضرت موسیٰ ء کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن ان میں حضرت موسیٰ کی وفات اور وفات کے بعد کے بهی حالات موجود ہیں. اس سے ظاہر ہے کہ ان پانچ کتابوں کا کم ازکم کچه حصہ یقینی طور پر بعد کا اضافہ ہے عہد نامہ عتیق کی کتابوں کے متعلق اس وقت بہ تحقیق ثابت نہیں ہو سکا کہ ابتدا یہ کس عہد میں مدون ہوئیں اور ان کے مولف کون تهے البتہ اتنا ضرور متحقق ہے کہ ایک ایسا زمانہ ایا جس میں ان کا وجود ناپید ہو چکا تھا اور اس کے بعد ازسرِنو ان کی تدوین عمل میں آئی تھی.
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سیلمان ء کے بعد بنی اسرائیل باہمی تشتت و فراق ٹوٹ پھوٹ کے عذاب میں گرفتار ہوے اور ان کی دو مختلف سلطنتیں، ایک دوسرے کے مقابل رقیبانہ حیثیت سے قائم ہو گئیں. یعنی دس اسباط بنی اسرائیل پر مشتمل ایک سلطنت (جسکا دارالحکومت سماریہ تها) او دو اسباط (یہود اور بن یا مین) پر مشتمل دوسری سلطنت (جس کا مرکز یروشلم تها).آٹهویں صدی قبل مسیح میں، سیریا والوں نے سماریہ کی سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا اور بنی اسرائیل کو گرفتار کرکے نینوا لے گئے. قومیں اپنی مرکزیت کهو کر کس طرح ریت کے زروں کی طرح اڑتی پھرتی ہیں. اور پهر رفتہ رفتہ ان کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے، اس کی عبرت انگیز شہادت ان دس اسباط پر مشتمل قوم بنی اسرائیل کا انجام ہے اج محققین کی بڑی سے بڑی خوردبین بهی یہ نہیں بتا سکتی کہ دس اسباط بالآخر کہاں گم ہو گئے. ادهر اودهر سے قیاسی سراغ نکالے جاتے ہیں. کچه حصہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اج کال افغانستان اور پختون خواہ کے پٹھانوں کی صورت میں متشکل ہے اور ایک حصہ کے متعلق قیاس ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں کے پیکر میں متحرک ہے. بہرحال یہ محض قیاسات ہیں یقینی طور پر کچه نہیں بکہا جا سکتا کہ اپنئ مرکزیت کهو کر یہ عظیم الشان قوم کن کن صحراوں میں جذب اور کون سے بیابانوں میں گم ہو گی. ہر قوم جو اپنی ملی مرکزیت کی حفاظت نہیں کرتی، اس کا یہی انجام ہوتا ہے وہ دوسروں میں مدغم ہو جاتی ہے کہ بعد میں ان کی جداگانہ ہستی کا سراغ نہیں ملتا بہرحال، یہ تها انجام بنی اسرائیل کے ایک حصے کا.اب دوسرے حصہ دوسرے حصے کو لیجیے. چهٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے شہنشاہ بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کر دیا اور اسے تاخت و تاراج کرنے کے بعد یہودیوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ بابل لے گیا..
حضرت سلیمان نے الواح تورات اور دیگر تبرکات کو بیت المقدس کے ہیکل میں محفوظ کر رکها تها. بخت نصر نے ان سب کو جلا کر راکه کا ڈھیر کر دیا اور باقی سب کچه اپنے ساتھ لے گیا. (تورات سے تو بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الواح تورات حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے پہلے ضائع ہو چکی تهیں کیونکہ ہیکل کی تکمیل کے بعد جب اس صندوق کو وہاں منتقل کیا گیا ہے، جس میں تورات کی تختیاں رکهی تهیں، تو اس میں صرف دو تختیاں برامد ہویئں. اب صاف ظاہر ہے کہ ان دو تختیوں پر موجودہ تورات کی پانچ کتابیں ((((((جنہیں کتب موسئ کہا جاتا ہے) کسی طرح نہیں لکهی جا سکتی تهیں، چہ جائیکہ حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام تک کے انبیاء بنی اسرائیل کے تمام صحیفے ان دو تختیوں پر لکهے جاتے. تورات میں تو ہے کہ ہیکل کی تعمیر ہو چکی تو:-
کاہنوں نے خداوند کے عہد کے صندوق کو اس کی جگہ پر گهر کی الہام گاہ میں یعنی پاک ترین مکان میں لا کر اسے کروبیوں کے پروں کے نیچے رکها . یعنی کروبی اپنے دو بازو صندوق کی جگہ کے اوپر پھیلاے ہوے ہوتے تهے اور کروبیوں نے صندوق کو اور اس کی چوبوں کو چهپا رکها.سو چوبیں بڑه آئیں .ایسی کہ چوبوں کو سرے پاک مکان سے الہام گاہ کے سامنے دکهائی دیتے تهے.اور وہ وہاں اج تک ہیں اور صندوق میں کچه نہیں تها سوائے پتهر اور دو لوحوں کے جنہیں موسے علیہ السلام نے حورب پر رکها جب کہ خداوند نے بنی اسرائیل سے ان کے زمین مصر سے نکلتے وقت عہد باندها تها. (سلاطین (1)6،8/9))))))))..
تورات میں ہے:-
یسعیاہ نے فرقیاہ سے کہا خداوند کا کلام سن .دیکه وہ دن آتے ہیں کہ سب کچه جو تیرے گهر میں ہے اور جو کچه کہ تیرے باپ دادوں کے نے اج کے دن تک جمع کر رکها ہے، سب بابل کو لے جائیں گے کچھ باقی نہ رہے گا. (سلاطین 2، 20/16،17).
یہ تها وہ زمانہ جب ان کتب مقدسہ کا وجود دنیا سے ناپید ہو گیا . اس لئے کہ یہ کتابیں یروشلم کے ہیکل میں تهیں اور ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گی تهی. پچاس برس کی قید وبند کے مصائب اور غلامی و محکومی کے جانگسل نوائب کے بعد عزرا اور لخمیاہ نبی کی کوششوں سے بیت المقدس کی دوبارہ تعمیر کی اجازت ملی..... (نوٹ. یہودی لٹریچر میں نبی کا لفظ قرآنی اصطلاح کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوا. اس سے مراد ہیکل کا ایک اعلیٰ منصب دار مراد تها تورات میں عزرا کو فقیہہ کہہ کر پکارا گیا. دیکهئے کتاب لخمیاہ 8/1.........)
خدا خدا کر کے نبی اسرائیل کے بقیتہ السیف پهر اس ارض مقدس کی طرف لوٹے،جسے ان کی اعمال کی بد بختیوں نے ان سے چھین لیا تها .. سپنگلر کی تحقیق کے مطابق ان واپس آنے والوں کی مجموعی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہ تهی جو یہود کی کل آبادی کا بیسواں حصہ بهی نہ تهاDeline of the west part 2 p.208........
عہد نامہ عتیق کو عام طور پر تورات کہہ دیا جاتا ہے. تورات حضرت موسیٰ کی طرف منسوب ہے لیکن درحقیقت اس کتاب میں بنی اسرائیل کے مختلف انبیاء کرام علیہم کی طرف منسوب کردہ کتابیں شامل ہیں اس مجموعہ میں انتالیس (39)کتابیں جنہیں علما یہود کے تین سلسلوں میں تقسیم کرتے ہیں :-
- سلسلہ اول تورات (یا قانون )اس میں پانچ کتابیں (اسفار ) شامل ہیں. جنہیں کتب موسئ کہا جاتا ہے. پیدائش، خروج، احبار،گنتی، استشناء.
2 ) سلسلہ دوم. نیبیم.اس میں چهوٹی بڑی بایس(22)کتابیں شامل ہیں.
3 ) سلسلہ سوم.کبتیم. اس میں بارہ کتابیں شامل ہیں. (زبور اسی سلسلے کی کتاب ہے ).
یہ کتابیں (جیسی کچه بهی ہیں )اج موجود ہیں لیکن ان میں ایسی کتابوں کا حوالہ آتا ہے جن کا وجود اس مجموعہ میں کہیں نہیں ملتا. اس قسم کی کم ازکم گیارہ کتابیں گنائی جا سکتی ہیں اس سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ عتیق کا جو مجموعہ کتب اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کی اپنئ شہادت کی بنا پر بهی یہ مکمل نہیں ہے..
سلسلہ اول کی پانچ کتابوں کو حضرت موسیٰ ء کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن ان میں حضرت موسیٰ کی وفات اور وفات کے بعد کے بهی حالات موجود ہیں. اس سے ظاہر ہے کہ ان پانچ کتابوں کا کم ازکم کچه حصہ یقینی طور پر بعد کا اضافہ ہے عہد نامہ عتیق کی کتابوں کے متعلق اس وقت بہ تحقیق ثابت نہیں ہو سکا کہ ابتدا یہ کس عہد میں مدون ہوئیں اور ان کے مولف کون تهے البتہ اتنا ضرور متحقق ہے کہ ایک ایسا زمانہ ایا جس میں ان کا وجود ناپید ہو چکا تھا اور اس کے بعد ازسرِنو ان کی تدوین عمل میں آئی تھی.
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سیلمان ء کے بعد بنی اسرائیل باہمی تشتت و فراق ٹوٹ پھوٹ کے عذاب میں گرفتار ہوے اور ان کی دو مختلف سلطنتیں، ایک دوسرے کے مقابل رقیبانہ حیثیت سے قائم ہو گئیں. یعنی دس اسباط بنی اسرائیل پر مشتمل ایک سلطنت (جسکا دارالحکومت سماریہ تها) او دو اسباط (یہود اور بن یا مین) پر مشتمل دوسری سلطنت (جس کا مرکز یروشلم تها).آٹهویں صدی قبل مسیح میں، سیریا والوں نے سماریہ کی سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا اور بنی اسرائیل کو گرفتار کرکے نینوا لے گئے. قومیں اپنی مرکزیت کهو کر کس طرح ریت کے زروں کی طرح اڑتی پھرتی ہیں. اور پهر رفتہ رفتہ ان کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے، اس کی عبرت انگیز شہادت ان دس اسباط پر مشتمل قوم بنی اسرائیل کا انجام ہے اج محققین کی بڑی سے بڑی خوردبین بهی یہ نہیں بتا سکتی کہ دس اسباط بالآخر کہاں گم ہو گئے. ادهر اودهر سے قیاسی سراغ نکالے جاتے ہیں. کچه حصہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اج کال افغانستان اور پختون خواہ کے پٹھانوں کی صورت میں متشکل ہے اور ایک حصہ کے متعلق قیاس ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں کے پیکر میں متحرک ہے. بہرحال یہ محض قیاسات ہیں یقینی طور پر کچه نہیں بکہا جا سکتا کہ اپنئ مرکزیت کهو کر یہ عظیم الشان قوم کن کن صحراوں میں جذب اور کون سے بیابانوں میں گم ہو گی. ہر قوم جو اپنی ملی مرکزیت کی حفاظت نہیں کرتی، اس کا یہی انجام ہوتا ہے وہ دوسروں میں مدغم ہو جاتی ہے کہ بعد میں ان کی جداگانہ ہستی کا سراغ نہیں ملتا بہرحال، یہ تها انجام بنی اسرائیل کے ایک حصے کا.اب دوسرے حصہ دوسرے حصے کو لیجیے. چهٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے شہنشاہ بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کر دیا اور اسے تاخت و تاراج کرنے کے بعد یہودیوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ بابل لے گیا..
حضرت سلیمان نے الواح تورات اور دیگر تبرکات کو بیت المقدس کے ہیکل میں محفوظ کر رکها تها. بخت نصر نے ان سب کو جلا کر راکه کا ڈھیر کر دیا اور باقی سب کچه اپنے ساتھ لے گیا. (تورات سے تو بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الواح تورات حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے پہلے ضائع ہو چکی تهیں کیونکہ ہیکل کی تکمیل کے بعد جب اس صندوق کو وہاں منتقل کیا گیا ہے، جس میں تورات کی تختیاں رکهی تهیں، تو اس میں صرف دو تختیاں برامد ہویئں. اب صاف ظاہر ہے کہ ان دو تختیوں پر موجودہ تورات کی پانچ کتابیں ((((((جنہیں کتب موسئ کہا جاتا ہے) کسی طرح نہیں لکهی جا سکتی تهیں، چہ جائیکہ حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام تک کے انبیاء بنی اسرائیل کے تمام صحیفے ان دو تختیوں پر لکهے جاتے. تورات میں تو ہے کہ ہیکل کی تعمیر ہو چکی تو:-
کاہنوں نے خداوند کے عہد کے صندوق کو اس کی جگہ پر گهر کی الہام گاہ میں یعنی پاک ترین مکان میں لا کر اسے کروبیوں کے پروں کے نیچے رکها . یعنی کروبی اپنے دو بازو صندوق کی جگہ کے اوپر پھیلاے ہوے ہوتے تهے اور کروبیوں نے صندوق کو اور اس کی چوبوں کو چهپا رکها.سو چوبیں بڑه آئیں .ایسی کہ چوبوں کو سرے پاک مکان سے الہام گاہ کے سامنے دکهائی دیتے تهے.اور وہ وہاں اج تک ہیں اور صندوق میں کچه نہیں تها سوائے پتهر اور دو لوحوں کے جنہیں موسے علیہ السلام نے حورب پر رکها جب کہ خداوند نے بنی اسرائیل سے ان کے زمین مصر سے نکلتے وقت عہد باندها تها. (سلاطین (1)6،8/9))))))))..
تورات میں ہے:-
یسعیاہ نے فرقیاہ سے کہا خداوند کا کلام سن .دیکه وہ دن آتے ہیں کہ سب کچه جو تیرے گهر میں ہے اور جو کچه کہ تیرے باپ دادوں کے نے اج کے دن تک جمع کر رکها ہے، سب بابل کو لے جائیں گے کچھ باقی نہ رہے گا. (سلاطین 2، 20/16،17).
یہ تها وہ زمانہ جب ان کتب مقدسہ کا وجود دنیا سے ناپید ہو گیا . اس لئے کہ یہ کتابیں یروشلم کے ہیکل میں تهیں اور ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گی تهی. پچاس برس کی قید وبند کے مصائب اور غلامی و محکومی کے جانگسل نوائب کے بعد عزرا اور لخمیاہ نبی کی کوششوں سے بیت المقدس کی دوبارہ تعمیر کی اجازت ملی..... (نوٹ. یہودی لٹریچر میں نبی کا لفظ قرآنی اصطلاح کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوا. اس سے مراد ہیکل کا ایک اعلیٰ منصب دار مراد تها تورات میں عزرا کو فقیہہ کہہ کر پکارا گیا. دیکهئے کتاب لخمیاہ 8/1.........)
خدا خدا کر کے نبی اسرائیل کے بقیتہ السیف پهر اس ارض مقدس کی طرف لوٹے،جسے ان کی اعمال کی بد بختیوں نے ان سے چھین لیا تها .. سپنگلر کی تحقیق کے مطابق ان واپس آنے والوں کی مجموعی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہ تهی جو یہود کی کل آبادی کا بیسواں حصہ بهی نہ تهاDeline of the west part 2 p.208........