• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

تورات کی تاریخ

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
عہد نامہ عتیق old testament تاریخ کی روشنی میں. حصہ اول.
عہد نامہ عتیق کو عام طور پر تورات کہہ دیا جاتا ہے. تورات حضرت موسیٰ کی طرف منسوب ہے لیکن درحقیقت اس کتاب میں بنی اسرائیل کے مختلف انبیاء کرام علیہم کی طرف منسوب کردہ کتابیں شامل ہیں اس مجموعہ میں انتالیس (39)کتابیں جنہیں علما یہود کے تین سلسلوں میں تقسیم کرتے ہیں :-
- سلسلہ اول تورات (یا قانون )اس میں پانچ کتابیں (اسفار ) شامل ہیں. جنہیں کتب موسئ کہا جاتا ہے. پیدائش، خروج، احبار،گنتی، استشناء.
2 ) سلسلہ دوم. نیبیم.اس میں چهوٹی بڑی بایس(22)کتابیں شامل ہیں.
3 ) سلسلہ سوم.کبتیم. اس میں بارہ کتابیں شامل ہیں. (زبور اسی سلسلے کی کتاب ہے ).
یہ کتابیں (جیسی کچه بهی ہیں )اج موجود ہیں لیکن ان میں ایسی کتابوں کا حوالہ آتا ہے جن کا وجود اس مجموعہ میں کہیں نہیں ملتا. اس قسم کی کم ازکم گیارہ کتابیں گنائی جا سکتی ہیں اس سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ عتیق کا جو مجموعہ کتب اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کی اپنئ شہادت کی بنا پر بهی یہ مکمل نہیں ہے..
سلسلہ اول کی پانچ کتابوں کو حضرت موسیٰ ء کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن ان میں حضرت موسیٰ کی وفات اور وفات کے بعد کے بهی حالات موجود ہیں. اس سے ظاہر ہے کہ ان پانچ کتابوں کا کم ازکم کچه حصہ یقینی طور پر بعد کا اضافہ ہے عہد نامہ عتیق کی کتابوں کے متعلق اس وقت بہ تحقیق ثابت نہیں ہو سکا کہ ابتدا یہ کس عہد میں مدون ہوئیں اور ان کے مولف کون تهے البتہ اتنا ضرور متحقق ہے کہ ایک ایسا زمانہ ایا جس میں ان کا وجود ناپید ہو چکا تھا اور اس کے بعد ازسرِنو ان کی تدوین عمل میں آئی تھی.
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت سیلمان ء کے بعد بنی اسرائیل باہمی تشتت و فراق ٹوٹ پھوٹ کے عذاب میں گرفتار ہوے اور ان کی دو مختلف سلطنتیں، ایک دوسرے کے مقابل رقیبانہ حیثیت سے قائم ہو گئیں. یعنی دس اسباط بنی اسرائیل پر مشتمل ایک سلطنت (جسکا دارالحکومت سماریہ تها) او دو اسباط (یہود اور بن یا مین) پر مشتمل دوسری سلطنت (جس کا مرکز یروشلم تها).آٹهویں صدی قبل مسیح میں، سیریا والوں نے سماریہ کی سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا اور بنی اسرائیل کو گرفتار کرکے نینوا لے گئے. قومیں اپنی مرکزیت کهو کر کس طرح ریت کے زروں کی طرح اڑتی پھرتی ہیں. اور پهر رفتہ رفتہ ان کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے، اس کی عبرت انگیز شہادت ان دس اسباط پر مشتمل قوم بنی اسرائیل کا انجام ہے اج محققین کی بڑی سے بڑی خوردبین بهی یہ نہیں بتا سکتی کہ دس اسباط بالآخر کہاں گم ہو گئے. ادهر اودهر سے قیاسی سراغ نکالے جاتے ہیں. کچه حصہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اج کال افغانستان اور پختون خواہ کے پٹھانوں کی صورت میں متشکل ہے اور ایک حصہ کے متعلق قیاس ہے کہ وہ ہندوستان کے ہندوؤں کے پیکر میں متحرک ہے. بہرحال یہ محض قیاسات ہیں یقینی طور پر کچه نہیں بکہا جا سکتا کہ اپنئ مرکزیت کهو کر یہ عظیم الشان قوم کن کن صحراوں میں جذب اور کون سے بیابانوں میں گم ہو گی. ہر قوم جو اپنی ملی مرکزیت کی حفاظت نہیں کرتی، اس کا یہی انجام ہوتا ہے وہ دوسروں میں مدغم ہو جاتی ہے کہ بعد میں ان کی جداگانہ ہستی کا سراغ نہیں ملتا بہرحال، یہ تها انجام بنی اسرائیل کے ایک حصے کا.اب دوسرے حصہ دوسرے حصے کو لیجیے. چهٹی صدی قبل مسیح میں بابل کے شہنشاہ بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کر دیا اور اسے تاخت و تاراج کرنے کے بعد یہودیوں کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ بابل لے گیا..
حضرت سلیمان نے الواح تورات اور دیگر تبرکات کو بیت المقدس کے ہیکل میں محفوظ کر رکها تها. بخت نصر نے ان سب کو جلا کر راکه کا ڈھیر کر دیا اور باقی سب کچه اپنے ساتھ لے گیا. (تورات سے تو بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ الواح تورات حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے پہلے ضائع ہو چکی تهیں کیونکہ ہیکل کی تکمیل کے بعد جب اس صندوق کو وہاں منتقل کیا گیا ہے، جس میں تورات کی تختیاں رکهی تهیں، تو اس میں صرف دو تختیاں برامد ہویئں. اب صاف ظاہر ہے کہ ان دو تختیوں پر موجودہ تورات کی پانچ کتابیں ((((((جنہیں کتب موسئ کہا جاتا ہے) کسی طرح نہیں لکهی جا سکتی تهیں، چہ جائیکہ حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام تک کے انبیاء بنی اسرائیل کے تمام صحیفے ان دو تختیوں پر لکهے جاتے. تورات میں تو ہے کہ ہیکل کی تعمیر ہو چکی تو:-
کاہنوں نے خداوند کے عہد کے صندوق کو اس کی جگہ پر گهر کی الہام گاہ میں یعنی پاک ترین مکان میں لا کر اسے کروبیوں کے پروں کے نیچے رکها . یعنی کروبی اپنے دو بازو صندوق کی جگہ کے اوپر پھیلاے ہوے ہوتے تهے اور کروبیوں نے صندوق کو اور اس کی چوبوں کو چهپا رکها.سو چوبیں بڑه آئیں .ایسی کہ چوبوں کو سرے پاک مکان سے الہام گاہ کے سامنے دکهائی دیتے تهے.اور وہ وہاں اج تک ہیں اور صندوق میں کچه نہیں تها سوائے پتهر اور دو لوحوں کے جنہیں موسے علیہ السلام نے حورب پر رکها جب کہ خداوند نے بنی اسرائیل سے ان کے زمین مصر سے نکلتے وقت عہد باندها تها. (سلاطین (1)6،8/9))))))))..
تورات میں ہے:-
یسعیاہ نے فرقیاہ سے کہا خداوند کا کلام سن .دیکه وہ دن آتے ہیں کہ سب کچه جو تیرے گهر میں ہے اور جو کچه کہ تیرے باپ دادوں کے نے اج کے دن تک جمع کر رکها ہے، سب بابل کو لے جائیں گے کچھ باقی نہ رہے گا. (سلاطین 2، 20/16،17).
یہ تها وہ زمانہ جب ان کتب مقدسہ کا وجود دنیا سے ناپید ہو گیا . اس لئے کہ یہ کتابیں یروشلم کے ہیکل میں تهیں اور ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گی تهی. پچاس برس کی قید وبند کے مصائب اور غلامی و محکومی کے جانگسل نوائب کے بعد عزرا اور لخمیاہ نبی کی کوششوں سے بیت المقدس کی دوبارہ تعمیر کی اجازت ملی..... (نوٹ. یہودی لٹریچر میں نبی کا لفظ قرآنی اصطلاح کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوا. اس سے مراد ہیکل کا ایک اعلیٰ منصب دار مراد تها تورات میں عزرا کو فقیہہ کہہ کر پکارا گیا. دیکهئے کتاب لخمیاہ 8/1.........)
خدا خدا کر کے نبی اسرائیل کے بقیتہ السیف پهر اس ارض مقدس کی طرف لوٹے،جسے ان کی اعمال کی بد بختیوں نے ان سے چھین لیا تها .. سپنگلر کی تحقیق کے مطابق ان واپس آنے والوں کی مجموعی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہ تهی جو یہود کی کل آبادی کا بیسواں حصہ بهی نہ تهاDeline of the west part 2 p.208........
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تورات کی ارسرنو ترتیب. .
اب جو زرا سکون نصیب ہوا تو سب سے پہلے اپنے گم گشتہ صحف مقدسہ کی ترتیب نو کی فکر ہوئی .عزرا نبی نے تورات (یعنی سلسلہ اول کی پانچ کتابوں )کو ازسر نو مرتب کر کے واقعات کو مورخانہ حیثیت سے قلمبند کیا،اس کی تفصیل تورات ، کتاب لخمیاہ باب 8 میں موجود ہے، عزرا نے ان کتابوں کو کس مواد (material ) سے ازسرِنو مرتب کیا تها ،تاریخ اس پر کچه روشنی نہیں ڈالتی. جو کچه زیادہ سے زیادہ کہا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے علماء نے یہ طریقہ اختیار کر رکها تها کہ سبت کے دن لوگوں کو جمع کرکے انہیں روایات بالمعنى کے طریق پر، تورات کا وعظ سناتے. (یعنی تورات کے الفاظ نہیں بلکہ اس کا مفہوم. اسی کو روایات بالمعنى کہتے ہیں ) جنہیں تورات کی کچه آیات یاد ہوتیں، وہ پہلے ان آیات کو پڑهتے (جو قدیم عبرانی زبان میں تهی)اور پهر اس کی تفسير آرامی زبان میں بیان کرتے، جو بابل کے اثر سے یہود کی زبان ہوگی تهی. .............................((غور کیجئے کہ محکومی کا اثر کس قدر برق رفتار اور جز رس ہوتا ہے اتنے سے عرصہ میں یہود اپنی آبائی زبان کهو بیٹهے.یروشلم کی تباہی کے سلسلہ میں یہودیوں کی سلطنت چهنی.دولت لٹی.ثروت گی. یہ سب کچه ہوا لیکن ان سب سے کہیں بڑھ کر جو نقصان ہوا ،وہ یہ تها کہ اس محکومی سے وہ اپنی تہذیب وتمدن اور اپنی آبائی زبان تک سے محروم ہوگئے .بیت المقدس دوبارہ تعمیر ہو گیا.بنئ اسرائیل اس میں آکرپهر آکر بس گیے . یہ سب کچه واپس مل گیا لیکن اپنی زبان چهن جانے سے جو نقصان پہنچا، اس کی تلافی اج تک نہ ہو سکی. قوموں کے ملی وجود کے تحفظ کے لیے ان کی زبان کا تحفظ نہایت ضروری ہے.زبان مٹ جانے سے قومی تشخص مٹ جاتا ہے،یہی وجہ ہے یہودیوں کی اسیری کا زمانہ میں (اور اس کے بعد بهی )ان کے ارباب بصیرت اپنا سر پیٹتے تهے کہ یہ خارجی اثرات ،جنہیں یہودی یوں قبول کیے جارہے ہیں، ان کی ابدی تباہی کا موجب بن جائیں گئے.
لخمیاہ نبی کی کتاب میں ہے:- انہی دنوں میں ، میں نے چند یہودیوں کو بهی دیکها جو اشدوری،عمونی عورتوں کو بیاہ لاے تهے اور ان کے لڑکے آدھی اشدودی زبان بولتے تهے اور یہودی زبان نہ بول سکتے تهے بلک ملی جلی بولتے تهے. تب میں نے جهگڑا کیا اور انہیں ملامت کی اور ان میں سے کتنوں کو مارا اور ان کے بال اکهیڑے اور ان سے یوں خدا کی قسم لی کہ ہم اپنی بیٹیاں ان کے بیٹوں کو نہ دیں گے (13/24 )).........................................
یہ سلسلہ بیت المقدس کی واپسی پر بهی جاری رہا. غالباً یہی وہ روایات تهیں (یعنی تورات کا جو مفہوم علماے یہود بتاتے تهے) جو عزرا نبی کی پانچ کتابوں کا ماخذ تها.
لیکن مشکل یہ ہے کہ خود عزرا کے متعلق بهی یقینی طور پر نہیں کہ وہ کب یروشلم میں آے . عام یہود کے خیال کے مطابق، وہ بابل کی اسیری کے زمانہ میں بهی ان کے ساتھ تهےاور پهر یروشلم واپس لوٹے. یہودیوں کی اسیری کا زمانہ 515 ق م میں ختم ہو چکا تها لیکن تاریخ کی شہادت ہے کہ عزرا (فقیہہ ) کو شاہ ارتختشاتش (Artaxeaxex ) نے 445 ق م یا زیادہ سے زیادہ 457 ق م میں بابل سے یروشلم بهیجا تها یعنی یہودیوں کے زمانہ اسیری کے اختتام کے بہت عرصہ بعد.
تورات کیسے مرتب ہوئی...
لیکن وہ یروشلم 445 ق م میں آے ہوں یا 457 ق م میں یہ متحقق ہے کہ انهوں نے اسفار موسیٰ کی تدوین 444 ، 445 ق م میں کی تهی.chronological index to the holy bible.
یہ تدوین کس طرح عمل میں آئی تهی؟؟؟ اس کے متعلق مختلف بیانات ہیں .ایک بیان یہ ہے :-
معلوم ہوتا ہے کہ عزرا نے اسیری میں مصحف مقدسہ کا خصوصیت سے مطالعہ کیا اور لخمیاہ نبی اور کیسہ عظمیٰ کے دیگر اراکین کی مدد ان غلطیوں کو درست کیا جو کاتبوں کے سہو یا تغافل سے ان مقدس نوشتوں میں داخل ہو چکی تهیں. اس نے تمام کتابوں کو اکٹها کیا، جو اس زمانہ میں مقدس مانی جاتئ تهی انہیں ترتیب دیا اور اپنے عہد کے لیے بایبل کا قانون مدون کیا.اس مقدس روح کی مدد سے ان میں چیزوں کا اضافہ بهی کیا جو توضیح مطالب یا ترتیب وتکملہ کے لیے ضروری سمجهی گئیں.اگرچہ وہ خود نبی نہ تها، لیکن اس نے یہ سب کچه روح القدس کے تحت لکها اور اس کی کتاب کی شرعی حیثیت کبهی محل نظر نہ ٹھہری.introduction to polyglot bible.
لیکن کیٹو kitto اپنے ساییکلوپیڈیا آف ببلیکلل لٹریچر میں لکھتا ہے :- یہاں تک کہا جاتا ہے عزرا نے تمام عہد عتیق کو محض حافظ کی مدد سے اسرنو تحریر کیا کیونکہ ان کتابوں کےتمام نسخے تغافل شعاری کی وجہ سے معدوم ہو چکے تهے. ......
غور کیجیے کہ ان ہر دو تاریخی بیانات میں کس قدر فرق ہے پہلے بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ عزرا نے ان پراگندہ نوشتوں کو صرف ازسر نو ترتیب دیا. اگرچہ اس میں اپنی طرف سے بهی اضافے کیے لیکن کیٹو کی تحقیق کے مطابق عزرا (فقیہیہ) نے تمام کتابوں کو حافظ کی مدد سے ازسرِنو نو لکها کیونکہ ان کے تمام نسخے ضائع ہو چکے تهے. دوسرا بیان زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ تورات کے بیان کے مطابق ہے. جس میں (جیسا کہ پہلے لکها جا چکا ہے)بصراحت مذکور ہے کہ بخت نصر کے حملہ کے وقت یروشلم میں جو کچه تها، سن تباہ و برباد ہو چکا تها...
عزرا کا بیان .
لیکن دیکهئے کہ عزرا(فقیہہ ) اس جمع و تدوین کے متعلق کیا لکهتے ہیں. انهوں نے اسفار موسیٰ وغیرہ کے علاوہ اور کتابیں بهی لکهی ہیں. جن میں دو کتابیں (عزرا اول و دوم)خود اپنے متعلق ہیں کتاب دوم (بابل کے لاطینی نسخہ میں عزرا کی کتاب دوم موجود ہے جسے انگریزی اور اردو ترجموں میں منتقل نہیں کیا گیا) باب 14 آیات 20،22 میں مزکور ہے:- اے خداوند؛ دنیا میں اندهیرا چها رہا ہے اور جو لوگ اس میں بستے ہیں، سب بفیر روشنی کے ہیں کیونکہ تیری ہدایت(قانون )جل چکا ہے اس لیےکوئی شخص نہ ان معاملات کا علم رکهتا ہے جو گزر چکے ہیں اور نہ ان کا جو شروع ہونے والے ہیں. لیکن میں نے تیرے حضور عزت پائی ہے،(اس لیے اے خداوند خدا)روح القدس کو مجھ میں داخل کر دے اور میں پهرسب کچه لکهوں جو دنیا میں ہو چکا ہے.اور جو تیرے قانون کی کتابوں میں لکها ہوا تها تاکہ لوگ تیرا راستہ پالیں اور تاکہ انےوالے بهی صحيح زندگی بسر کر سکیں. (یاد رہے کہ اسفار موسیٰ میں سب سےپہلی کتاب، پیدائش، میں دنیا کی ابتدا سے واقعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے).
یہ تهی عزرا فقیہہ کہ دعا. اس کے بعد وہ لکهتے ہیں :-
" دوسرے روذ ایک آواز نے مجهے بلایا اور کہا- عزرا اپنا منہ کهولو؛ اوروہ کچه پیو، جسے میں تمہیں پینے کے لیے دیتا ہوں. سو میں نے اپنا منہ کهول دیام تب دیکهو اس نے مجھ تک ایک پیالہ بهیجا. وہ پانی سے بهرا ہوا معلوم ہوتا تها لیکن اس کا رنگ آتشیں تها. میں نے اسے اور پی گیا. جب میں نے اسے پی لیا، تو میرےدل میں فہم و فراست اور سینے میں بصیرت پیدا ہو گی اور میری روح نے میرے حافظہ کو قوی بنا دیا اور پهر جو میری زبان کهلی ہے تو بند نہیں ہوئی اور لکهنے والے چالیس دن تک بیٹھے لکهتے رہے. وہ دن بهر لکهتے تهے اور صرف رات کے وقت کچه کهاتے. میں دن بهر لکهاتا رہتا تها اور رات کو بهی میری زبان بند نہ ہوتی. چالی دنوں میں انہوں نے 204 کتابیں لکه ڈالیں. (کتاب عزرا 44. 14/38 ).
یہ بیان کسی وضاحت کا محتاج نہیں. اس سے ظاہر ہے کہ ان کتابوں کو عزرا (فقیہہ ) نے اپنے حافظے کی مدد سے لکوایا اور اس وقت تمام اصلی کتابیں ناپید تهیں. یہاں اس حقیقت کو ایک مرتبہ پهر سامنے لے آئیے کہ یروشلم کی تباہی 587ق م کے قریب ہوئی. اور عزرا(فقیہہ ) نے ان کتابوں کو 444 ق م میں لکها یعنی ڈیڑھ سو سال بعد. اس سے یہ واضح ہے کہ خود عزرا (فقیہہ )نے بهی ان کتابوں کو نہیں دیکها تها، جہاں سے انہیں حفظ اور یاد کر لیا ہوتا اور پهر اپنے حافظہ کی مدد سے دوبارہ لکهوایا ہوتا. لہذا ان کتابوں کے مصنف خود عزرا فقیہہ ہیں تاریخ کی تحقیق جدید یہ بهی ہے کہ عزرا فقیہہ زرتشتی تعلیم سے متاثر تهے اس لیے انہوں نے اسی انداز سے ، جس میں زرتشی کتابوں کی بازیافت کا قصہ مشہور تها عہد عتیق کی کتابیں یہودیوں کو تصنیف کر کے دے دیں. پهر یہ بهی دیکهیے کہ خود عزرا کے بیان کے مطابق. انہوں نے 204 کتابیں لکهوایی تهیں لیکن اب کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صرف اسفار موسیٰ (یعنی تورات کی پہلی پانچ کتابیں )مرتب کی تهیں. ان کتابوں کے متعلق زرا آگےچل کر ذکر اتا ہے .
(یہاں یہ بیان کر دینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بخت نصر کو فارس کے زرتشتی بادشاہ سائرس نے شکست دی تهی اورط اس کے بعد بنی اسرائیل کو بابلیوں کے مظالم سے چهڑا کر یروشلم میں بسنے اورہیکل کی تعمیر کرنے کی اجازت دی تهی .سائرس کے بعد دارا اس کا جانشین ہوا پهر ارتختشاتش جس نے عزرا کو یروشلم بیجها تها . یہ سب زرتشتی کے پیرو کار تهے اس سے ظاہر ہے کہ عزرا فقیہہ پر زرتشتی تعلیم اور معتقدات کا کس قدر اثر ہو گا ہو سکتا ہے وہ خود زرتشتی مزہب کے پیرو ہوں.قرآئن خود اس کی تائید کرتے ہیں.
مسڑ کپاڈیا کی کتاب the teaching of zoroaster اس میں اس تفصیل موجود ہے. اور دوسرے مورخین کا بهی خیال ہے عزرا مزہب زرتشت ہی کا پیرو کار تها اس انے مزہب کی تعلیم کو تورات کے لباس میں رائج کردیا.
جب ہم زرتشتی مزہب میں ثنویت کا عقیدہ دیکهتے ہیں. یہی ہے عقیدہ اس مزہب ماسکہ مابہ امتیاز ہے یعنئ ان کے نزدیک اہرمزو، خیر کا سرچشمہ ہے اس کے مقابلے میں اہرمن شر کا پیکر اورتاریکی کا مالک ہے .یہ دو مستقل ہستیاں ہیں، جن میں باہمی کشمکش جاری ہے. خیر وشر کے متعلق دو مستقل سرچشموں کا تصور درحقیقت اس تخیل کی بنیاد ہے، جس پر عیسائیت کی روح اور مادہ کے باہمی تخالف کی عمارت قائم ہے )..
عزرا (فقیہیہ ) کے بعد لخمیاہ نبی نے نبیم یعنی سلسلہ دوم کی کتابوں کو جمع کیا(مقابان نمر 2: 2/13) لیکن اس کے بعد فلسطین کی طرف یونانیوں کا سیلاب امنڈا، اور 168 ق م میں انٹونیس (انطانطاکیہ کے یونانئ بادشاہ ) نے پهر بیت المقدس کو برباد کیا. مقدس صحیفوں کو جلوایا اور تورات کی تلاوت پر پابندی لگا دی اس کے بعد یہودا مقابی کی ہمت بیت المقدس کی بازیابی ہوئی. مقدس صحیفوں کو ازسر نو جمع کیا گیا اور اس مرتبہ ، پہلے دو سلسلوں کے ساتھ، سلسلہ سوئم کی کتابوں کا بهی اضافہ ہو گیا. پهر رومیوں کا طوفان امڈا اور ٹاٹس نے 70 عیسوی میں بیت المقدس کو اس طرح برباد کیا کہ یہودی اس میں آکر آباد نہ ہو سکے. ان کی مرکزیت فنا ہو گی. ان کا شیرازہ بکھر گیا ٹائٹس مقدس صحیفوں کو ہیکل سے نکال ، فتح کے یادگار کے طور پر ، روما کے محلات میں لے گیا. یہ بنی اسرائیل کی آخری تباہی تهی. اس کے بعد یہودیوں کی آبادیوں میں ان کے علماء نے انفرادی طور تورات کے وعظوں کا سلسلہ جاری کیا ( جس طرح بابل کی اسیری کے زمانہ میں کرتے تهے) اور اپنے اپنے طور پر (جو کچه جسے یاد تها یا جیسا مفہوم زہنوں میں مستضر تها) ان صحیفوں کو ترتیب دیا یہ صحیفے صندوقوں میں رکهے جاتے تهے اور جب لوگ کنیسوں میں جمع ہوتے، تو انہیں ان میں کچه سنا دیا جاتا تها .
اس مقام تک ہم دیکه چکے ہیں کہ یروشلم کی آخری بربادی (70 عیسوی ) کے زمانہ تک یہودیوں کے ہاں تینوں کتابیں مدون یو چکی تهیں. جن کی تعداد اج 39 ہے لیکن یہودیوں کا سب سے بڑا مورخ (Anti quities of jews ) کا مصنف (جوزلفیس)ان کتابوں کئ تعداد کے متعلق کچه اورہی لکھتا ہے.
وہ اپنی خود نوشت سوانخ حیات میں رقمطراز ہے:-
جب میرے ملک میں تباہی ہوئی......... تو میں نے ٹائٹس سے درخواست کی کہ میرے خاندان کو آذاد کر دیا جاے. اس کی عنایت سے مجهے کتب مقدسہ بهی مل گیئں .
اب ان کی تعداد کا زکر اتا ہے=
"ہمارے ہاں کتابوں کا سلسلہ لا تعداد نہیں جو ایک دوسرے سے متخالف و متبائن ہوں (جیسا کہ یونانیوں کے ہاں ہیں )ہمارے ہاں کل بایس کتابیں ہیں، جن میں ازمنہ سابقہ کے واقعات محفوظ ہیں اور جو تمام الہامی ہیں. ان میں پانچ کتابیں موسی کی ہیں. جن میں شریعت کے قوانین اور نوع انسانی کی ابتدا سے لے کر (حضرت موسیٰ کی وفات کے کی تاریخی روایات ہیں. (حضرت )موسیٰ کے بعد کے انبیاء نے تیرہ کتابوں میں اپنے عہد کے حالات لکهے ہیں. باقی چار کتابوں میں حمد و ستائش کے نغمے، اور انسانی زندگی کے عام اخلاقی ضوابط درج ہیں " (reply to apion .book l sec s )
یعنی جولفیس کے بیان کے مطابق .70 عیسوی کے لگ بهگ یہودیوں کے ہاں صرف بائیس کتابیں تهیں. نہ کہ 204 جیسا عزرا فقیہہ نے لکها اور نہ انتالیس جنہیں اج مجموعہ عتیق کہہ کر پیش کیا جاتا ہے..پهر یہی نہیں کہ ان کتابوں کو حوادث ارضی وسماوی ہی تباہ کر دیتے تهے. بلکہ ان میں دانستہ تحریف و الحاق کا سلسلہ بهی جاری تها چنانچہ مشہور میسحی مورخ رینان لکهتا ہے:-
"اسی زمانہ (یعنی زمانہ قریب حضرت مسیح ع)میں تورات میں بہت سی اہم تبدیلیاں کی گئیں . (بالکل )نئی کتابیں .مثل کتاب استشناء مرتب کی گیئں اور کہا گیا کہ یہ کتابیں (حضرت ) موسیٰ کی اصل شریعت کی حامل ہیں حالانکہ درحقیقت ان کی روح پرانی کتابوں سے بالکل مختلف تهی ".
جب یہودا مقابی نے نے انٹونیس کیبززنجیروں کو ٹور کر دوبارہ آزادی حاصل کی اور صحف مقدسہ کی ترتیب کے ساته سلسلہ سوم بهی ملایا تو یہودیوں کے دو فرقے ہو گئے. ایک صدوقی جنہوں نے سماریہ والوں کی طرح، صرف سلسلہ اول (یعنی موسیٰ کی پانچ کتابوں ) پر ہی اکتفا کیا اور باقی صحف کو مذہب سے خارج کر دیا. دوسرے فریسی ، جنہوں نے سلسلہ دوم اور سوم کی کتابوں کو بهی جزو دین قرار دیا. ان کے ہاں یہ عقیدہ رائج ہو گیا کہ دراصل دراصل حضرت موسیٰ کی وحی کی دو قسمیں تهیں . ایک تورہ شبکتب، یعنی وحی مکتوب اور دوسری تورہ شبعلفہ یعنئ وحی غیر مکتوب. ....
یہ وحی غیر مکتوب حضرت ہارون اور ان کی اولاد کی وساطت سے، بسلسلہ روایات آگے بڑها تا آنکہ یہ عزرا تک پہنچا اور ان سے آگے، اس جماعت کا آخری رکن (شمعون)300 ق م میں فوت ہو گیا. اس سے یہ سلسلہ سفریم (یعنی کاتبان وحی ) تک پہنچا .وہاں سے تنائم (یعنی عام علماء تک) پهر ان سے احبارورمبیین نے سیکها . اپ نے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طرح اس وحی "غیر مکتوب " کے سلسلہ روایات کا کتنا بڑا طومار جمع ہو گیا ہو گا. ان تمام روایات کو بهی وحی سمجها جاتا تها دوسری صدی عیسوی کے آخیر میں ، ربی یہودا نے ان ان اقوال کو جمع کیا. اس مجموعہ کا نام مشنا (mishnah )ہے پهر اس مجموعہ کی تشریحات و تفسیرات جمع ہو گیں اس کا نام جمارا (gemara )ہے..
ان دونوں کے مجموعہ کو" تالمود" کہتے ہیں. یہ تالمود بهی یہودیوں کے ہاں تورات کی سی اہمیت رکهتا ہے بلکہ تورات سے بهی زیادہ کیونکہ ان کے نزدیک یہ مجموعہ تورات کی تفسير ہے اور وحی کا ہم پلہ.
تالمود بهی دو ہیں ایک شامی (یا فلسطینی ) اور دوسرا بابلی.
یہ دونوں پانچویں صدی پانچویں صدی عیسوی کے مرتب شدہ ہیں. پہلے فلسطینی اور پهر بابلی. ... جیسا کہ روایات میں اکثر ہوتا ہے تالمود میں عجیب وغریب افسانے ،عجائبات، بے سروپا قصص و حکایات. جادو اور طلسمات کے کرشمے، تعویذ، جهاڑپهونک، غرضیکہ دنیا بهر کے اوہام جمع ہیں. ........................
یہ تو تها سلسلہ روایات. اس کے علاوہ ایک اور ذخیرہ بھی تها جو اس سے زیادہ پرپیچ اور مخفی راستوں سے جمع کیا گیا. عزرا (فقیہہ )کے متعلق مشہور تها کہ انہوں نے تورات کی پانچ کتابوں کو مرتب کیا ہے تو اس کے ساتھ ہی ستر (70) مخفی ملفوظات بهی مدون کئے تهے. جن کی تعلیم پوشیدہ طور پر صرف خواص تک محدود تهی. اس مجموعہ کو "سفریم جنوزیم" یعنی (مخفی خزانہ کی کتابیں )کہا جاتا ہے. یہ سلسلہ سینہ بسینہ جاری رہا . ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں بهی اختلافات کی کس قدر گنجائش اور وضع وتلبيس کی کتنی وسعت تهی. چنانچہ اس سلسلہ کے حاملین کی ایک دوسرے سے رد وکد ہوتی رہتی تهی.
_____ باطنی علم_
یہ اسے جعلی قرار دیتے. وہ اسے وضعی کہتے، نتیجہ یہ کہ آہستہ آہستہ اس مجموعہ کا نام ہی اپو کریفہ (Apocrypha ) یعنی جعلی پڑ گیا. اپ حیران ہو نگے کہ یہودیوں اورعیسایئوں کے ہاں ( Apocryphic literatures ) ایک مستقل حیثیت رکهتا ہے عہد نامہ عتیق کے سلسلہ میں 35 کتابیں ایسی موجود ہیں جو اس سلسلہ میں شامل ہیں جیسا کہ اوپر لکها جا چکا ہے . ان مخفی نوشتوں کو خودا عزرا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے عزرا کا اپنا بیان ہے کہ ان 204 کتابوں کے متعلق (جو انہوں نے مرتب کی تهی )اس "بلند و بالا ہستی " کا ارشاد ہوا کہ ان کے پہلے حصے کو عام طور پر شائع کر دو.
" تاکہ اہل اور نااہل سب انہیں پڑھ سکیں لیکن دوسرے حصہ کی ستر کتابوں کو مخفی رکهو اور صرف انہی کو دو جو لوگوں میں سمجه بوجھ کے مالک ہوں کیونکہ یہی لوگ ہیں، جن میں فہم و فراست کا چشمہ، عقل کامنبع اورعلم کا دریا ہے ..عزرا کتاب دوم 14/44.. ( اپنے غور فرمایا کہ "علم لدنی" کے عقیدہ اور "شریعت و طریقت" کے امتیاز کا سر چشمہ کہاں ہے؟؟ سپنگلر کے بیان کے مطابق اس نظریہ کی ابتا مجوسیوں کے ہاں سے ہوئی اور اس کے بعد یہودیت، عیسائیت اور اسلام سب میں پهیل گیا Spengler-"decline of the west. Vol II P.247. )
اپوکریفہ. ___
اس سے واضح ہے کہ جن کتابوں کو بعد میں اپو کریفہ کہا گیا ،وہی دین کا مغز ہیں. باقی "استخوان" ہیں,جنہیں اہل و نااہل سب کےلیے چهوڑ دیا گیا لیکن اپو کریفہ کتابوں کے متعلق یہ نہیں سمجهنا چاہیے کہ انہیں جعلی قرار دے کر مسترد قرار کر دیا ہے. عیسائیوں کے فرقہ پراٹسٹنٹ کے بانی (لوتھر) نے انہیں مسترد قرار دے دیا تها لیکن ٹرنٹ TRENT ) کی کونسل منعقدہ 1545 نے فیصلہ دیا کہ یہ کتابیں بهی دیگر مقدسہ کے ہم پایہ ہیں. اس لئے رومن کیتھولک کے نزدیک، ان میں اور دیگر کتب مقدسہ میں کچه فرق نہیں. ..
).......(حالانکہ Council of laodicea منعقدہ 360ء میں فیصلہ کیا گیا تها کہ اپو کریفہ شریعت کا قانون نہ سمجها جائے. )..........
ان کئ شائع کردہ بایئبل میں اپو کریفہ برابر شامل ہوتا ہے اور خود پراٹسٹنٹ کے ہاں بهی ان سے مستفید ہونے میں چنداں قباحت نہیں.
ان کتب کی عام آشاعت کی ممانعت کے متعلق library of universal knowledge میں یہ الفاظ ملتے ہیں :-
اپوکریفہ بعض اوقات ان تحریروں کو بھی کہا جاتا تها ، جن کی عام آشاعت مناسب نہیں سمجهی جاتی تهی. یوں سمجھئے کہ خدا نے انبیاء کو بذریعہ وحی دیا لیکن بعد میں علماء نے سوچا کہ خدا کا یہ فیصلہ (معاذاللہ ) درست نہیں. لہذا اس وحی کو دبا لینا ہی بہترہے".
لیکن اپوکریفہ کے متعلق رینان کی راے بهی قابل غور یے وہ لکهتا ہے :-
" دیانتداری اور جعل سازی ، دو ایسے الفاظ ہیں جو ہمارے ضمیر کے مطابق یکسر متضاد ہیں اور ان میں کسی صورت میں توافق پیدا نہیں کیا جاسکتا لیکن مشرق میں ان بے شمار لطیف روابط کے زریعے تطابق پیدا کر لیا جاتا ہے .کتب اپو کریفہ (مثل کتاب دانیال اور انوخ)کے مصنف بڑی عزت وتکریم کے حامل تصور کیے جاتے ہیں جنہوں نےاپنے مشن کی سرفرازی کے لیے، بلا تامل وتردد ایسے کام کیے، جنہیں ہم آج سراسر فریب کہہ سکتے ہیں. (حقیقت یہ ہے کہ) ایک مشرقی کے نزدیک خالص صداقت کی قیمت کچه نہیں. وہ ہر شے کو اپنے خیالات ، اپنے مفاد اور اپنے جزبات کے آیئنہ میں دیکهتا ہے........................
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تورات کی زبان______^
پہلے لکها جا چکا ہے یہودیوں کی اپنی زبان قدیم عبرانی تهی لیکن بابل سے مراجعت کے بعد زبان آرامی ہو گی. عزرا نے عہد نامہ عتیق کی کتابوں کو کس زبان میں لکهاتها ، یہ بالتحقيق معلوم نہیں. اس لئے کہ ان کی کتابوں کا بهی دنیا میں کہیں موجود نہیں لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ انہوں نے ان کتابوں کو یا تو یہودیوں کی اصل زبان (عبرانی قدیم) میں لکهابہو گا، یا پهر بعد کی زبان ارامی میں لیکن دنیا جن کتابوں سے روشناس ہوئی وہ سب کی یونانی زبان میں تهیں.جس طرح یہودیوں نے بابل کی اسیری کے زمانہ میں اصلی زبان بهلا دی تهی. اسئ طرح یونانیوں کے زیراثر اسکندریہ میں بهی انہوں نے اپنی مادری زبان بهلا دی اور ان کی زبان یونانی ہی ہو گی. اس لیے تاریخ کا بیان ہے کہ قریب 285 ق م میں اسفار موسی کا یونانی زبان میں ترجمہ ہوا. اس کا نام ' septuagint edition' ہے. بعد میں اس یونانی نسخہ کا عبرانی میں ہوا یہ یونانی نسخہ اسکندریہ کی لائبریری میں تها.... (نوٹ.. نسخہ سبعینہ جس کے متعلق جوزلفیس کا بیان ہے کہ بادشاہ مصر بطليموس فلاڈلفس اپنے کتب خانہ اسکندریہ کے لیے یہودی کتب مقدسہ کی نقل چاہتا تها. اس نے بہت سے یہودی غلاموں کو آزاد کرکے یروشلم کےکاہنوں کے پاس بهیجا. وہاں سے ستر علماء کو منتخب کرکے ایک جزیرہ میں بهیجا گیا اور ایک نسخہ تیار کرایا گیا ستر علماء کی وجہ سے اسے سبعینہ کہا جاتا ہے.....)
اس اسکندریہ کی لائبریری کو نے نزر آتش کر دیا گیا تها. عیسائی علماء نے انجیل کے نسخوں میں اور اس کے علاوہ دوسرے لٹریچر میں جو کچه عہد نامہ عتیق سے نقل کیا ہے وہ اسی یونانی ترجمہ سے نقل کیا ہے وہ اسی یونانی ترجمہ سے تها اور حال کی تحقیق یہ ہے کہ یونانئ ترجمہ عزرا کی کتابوں کا نہیں بلکہ سمارا والوں کتابوں کا ہے، جس کی یروشلم کے یہودیوں سے سخت عدوات تهی. جوزلفیس کا اپنا خود کا بیان ہے:-
یہ کتاب (یعنی اس کی تاریخ ) پانچ ہزار سال کی تاریخ پر مشتمل ہے، جسے میں نے مقدس کتابوں سے مدون کیا ہے لیکن میں نے ان کا ترجمہ یونانی زبان میں کر دیا ہے.... against aplon.ist book sec. 1....
یعنی عزرا کی اصلی کتابیں نہ کہیں الگ موجود ہیں نہ جوزلفیس کی تاریخ میں. الگ بهی ان کے یونانئ ترجمے ہیں اور جوزلفیس کئ تاریخ بهی یونانی زبان میں ہی ہے. عبرانی نسخہ کے متعلق اوپر لکها جا چکا ہے کہ وہ یونانی زبان سے ترجمہ کیا گیا تها لیکن مشکل یہ ہے کہ مروجہ عبرانی نسخہ اور یونانی کے مستند ترجمہ (سبعینہ ) میں اختلاف پایا جاتا ہے اور اختلاف بهی اسی قسم کے مثلاً تخلیق آدم سے طوفان بوح تک کا زمانہ، عبرانی نسخہ کے مطابق (1656)سال کا ہے لیکن یونانی ترجمہ میں 2262 سال لکهئ ہے.394 عیسوی میں سینٹ جیروم نے عہد عتیق کا مشہور رومی ترجمہ شائع کیا جو Vulgate کے نام سے مشہور ہے یہ ترجمہ بہت مستند سمجها جاتا ہے..یہ تو تهے تراجم.
عبرانی نسخوں کے متعلق پادری ہارن اپنی کتاب"دیباچہ علوم بائبل" میں لکهتا ہے:-
عہد نامہ عتیق کی کتابیں دراصل عبرانی زبان میں تهیں اور وہ دو ناموں سے پکارئ جاتی ہیں. ایک آٹوگرافس، یعنی وہ کتابیں جنہیں خود الہامی لکهنے والوں نے لکها تها اور ان کے سب کےسب نسخے ناپید ہوگئے. کوئی بهی موجود نہیں ہے. دوسرے ایپلوگرافس، یعنی وہ نسخے جو اصل نسخوں سے نقل ہوے تهے اور جو نقل در نقل ہوتے ہوے بہت کثرت سے پهیل گیے تهے . یہ موخرالذکر نسخے بهی دو قسم کے تهے.
-1 ) پرانے ،جو یہودیوں میں معتبر اور مستند مانے جاتے تهے مگر یہ نسخے بهی مدت سے معدوم ہو چکے ہیں
-2 ) نئے جو سرکاری کتب خانوں میں یا دوسرے لوگوں کے پاس موجود ہیں. یہ پهر دو قسم کے ہیں. i ایک جو معابد میں کام آتے تهے. ii جو عام لوگوں کے پاس تهے.....
اس سے اپ اندازہ لگا لیا ہو گا کہ عبرانی نسخے جو آجکل مروج ہیں، ان کا اصلی نسخوں سے کس قدر تعلق ہے؟ ؟؟ پهر ان نسخوں میں بهی اختلافات ہیں. اس قسم کے اٹهارہ اختلافی مقامات تو ایسے ہیں جو اب تک عبرانی نسخوں میں نقل ہوتے چلے آرہے ہیں اور ان کے متعلق لکها ہوتا ہے کہ یہ احبار یہود کی تصحیحات ہیں. ان کے علاوہ اور متعدد مقامات پر مذکور ہوتا ہے کہ فلاں بات زیادہ صحیح ہے اور فلاں محض روایت ہے. عبرانی نسخے دوسری صدی عیسوی سے مختلف ادوار و منازل طے کرتے رہے تاکہ گیارہویں صدی میں ان سب کے تقابل سے ایک متفقہ علیہ نسخہ مدون کیا گیا جو اب تک مروج ہے اس نسخہ میں مزکور صدر اختلاف کو حاشیہ پر لکه دیا گیا ہے. سب سے پہلا نسخہ 1488ء میں چهپا لیکن جب 1705ء میں دوسرے ایڈیشن کا انتظام کیا گیا، تو پہلے ایڈیشن کے نسخہ سے بارہ ہزار جگہ اختلاف کرنا پڑا .طبع دوم کا نسخہ اب عام رائج ہے . یہ ہے عہد عتیق کی کتابوں کی سر گزشت، جن کے متعلق انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا مضمون نگار بائبل کے عنوان میں لکهتا ہے:-
"عرصہ فراز تک کتب مقدسہ کا مطالعہ، جرح و تعدیل کے مسلمہ اصول سے محروم رہا. یہود محض اس عبرانی نسخہ کی پیروی کرتے تهے، جس کی نسبت مشہور تها کہ غالباً دوسری عیسوی میں مرتب کیا گیا تها اور بعدازاں احتیاط سے محفوظ رکها گیا لیکن اس نسخہ میں چند تحریفات تو ایسی ہیں جو اب صاف صاف نظر آ جاتی ہیں اور غالباً ایک کافی تعداد ایسی تحریفات کی بهی موجود ہے، جم کئ شاید پورے طور پر قلعی نہ کهل سکے. عیسائی (اور اسکندریہ کے یہود )علماء کی حالت بہت ابتر تهی کیونکہ پانچویں صدی عیسوی تک،باتشنائے شاذ اور پانچویں صدی سے پندرھویں صدی تک بلاستشناء، ان سب بزرگوں نے ترجموں ہی پر اکتفا کیا.."
جرح و تعدیل کے آیئنہ میں ان صحف مقدسہ کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگا یے کہ یورپ کے مورخین نے ان کتابوں کے باہمی تضاد و تناقص سے تنگ آکر یہاں تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان میں جو کچه لکها ہے سب افسانہ ہی افسانہ ہے.
کتاب دانیال کے متعلق ، جس کی پیش گوئیوں پر عیسائیت کئ تمام عمارت قائم ہے. کیٹو اپنے ساییکلوپیڈیا میں لکهتا ہے کہ علاوہ ان عجائبات اور پیش گوئیوں کے، جو ایک مبصر کی راہ میں سنگ گراں بن کر حائل ہو جاتی ہیں.اس کتاب کا وہ حصہ جو تاریخی کہلا سکتا ہے، یکسر افسانہ ہے اور نا ممکنات کا مجموعہ ".
ان کتابوں پر اس قسم کی تنقید دورحاضرہ کی "روشن خیالی " کی پیداوار نہیں بلکہ قرونِ اولی کے مبصرین نے بهی ان کے متعلق اسئ قسم کی تنقیدات کیں تهیں لیکن مزہب پرست طبقہ نے انہیں باقی نہ رہنے دیا. تیسری صدی عیسوی میں prophyry نامی ایک بڑا فلاسفر گزرا ہے. اس نے قریب پندرہ جلدوں پر ان مزعومہ"کتب مقدسہ" پر تنقید لکهی اور بتایا کہ ان کی اصلیت کیا ہےلیکن عیسائی شہنشاہ قسطنطین کے حکم سےطاس کی تمام کتابیں جلا دی گئیں اور حکم دے دیا گیا کہ جس کے پاس ان کا کوئی نسخہ ہو گا ، اسے سزائے موت دی جائے گی. اس بهی پہلے قریب 200ء عیسوی Celsose نے اس قسم کی تنقیدی کتابیں لکهیں. ان کا بهی ویسا ہی حشر ہوا. ازمنہ سابقہ کی تنقیدی کتابیں تو ہم تک بہ پہنچ سکیں لیکن عصر حاضر میں ان آسمانی کتابوں کے متعلق جو تحقیق ہوئی ہے، وہ ہمارے سامنے ہے. قرآن کریم نے تحریف و الحاق کے علاوہ یہودیوں کے متعلق کہا تها کہ : فویل للذین یکتبون الکتب. .....2/79.... بدبختی ہے ان لوگوں کےلیے جو کتاب کو ہاتھوں سے لکهتے ہیں اور پھر اس کے متعلق یہ مشہور کر دیتے ہیں کہ یہ من جانب اللہ ہے"..
یعنی ان کی حالت یہ تهی کہ خود باتیں وضع کرتے اور پهر خدا کی طرف منسوب کرکے آسمانی کتابوں کو جزو بنا دیتے تهے ....... جیوئش انسائیکلوپیڈیا میں ہے:-
"یہودیوں کے لٹریچر میں اس قسم کی تلبیس، یعنی خود لکه کر اسے دوسروں کی جانب منسوب کر دینے کی عادت، بہت پرانی ہے. اعلیٰ ناقدین کی رائے کے مطابق کتب تورات کا بیشتر حصہ ایسا ہی ہے ".
اس قسم کی فریب دہی اور جعل سازی کو نہ صرف گذشتہ زمانہ میں ہی جائز سمجها جاتا تها بلکہ آج بهی یہود و نصاریٰ کیب" دنیائے مزہب " میں اس "آرٹ"کو مستحسن قرار دیا جاتا ہے.
مسڑ چیڈوک J.w.chadwk اپنی کتاب "بایبل اوف ٹوڈے" میں لکهتا ہے :-
جو لوگ اپنی تحریروں کو ان نامور ہستیوں کی طرف منسوب کر دیتے تهے جو ان سے بہت پہلے ہو گزرے تهے، ان کے متعلق اتنا تو ضرور مانا جائے گا کہ وہ اپنی ان (تصنیفی ) کوششوں کا سہرا اپنے سر نہیں باندھنا چاہتے تهے بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تها کہ ان کا مشن ترقی کرے. اگر ان کا مشن کامیاب ہوتا جائے تو وہ اپنے اپ کو گوشہ گمنامی میں رکهنے کی بهی پروا نہ کرتے تهے. چنانچہ یہ لوگ اج تک گمنامی کے پردے میں مستور ہیں ".
غور فرمائیے؛ کس طرح عیب کو ہنر بنا کر چمکایا جا رہا ہے ؛ یعنی ان کے اس فریب اور تلبیس کو معیوب تصور کرنے کی بجاے، ان کے "ایثار وقربانی" کی داد دی جارہی ہے کہ انہوں نے اپنے مشن کی کامیابی کی خاطر، اپنی شہرت دوام تک کو قربان کردیا. خود گمنامی کی زندگی جئے اور گمنامی کی موت مرے لیکن اپنی جگر کاری اور سینہ سوزی کے نتائج و ثمرات کو اپنی طرف منسوب نہ کیا. (اس باب میں رینان کا بیان پہلے گزر چکا ہے)..
یہ ہیں وہ تحریفات جن کے متعلق انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مضمون نے لکها ہے کہ:-
"اگرچہ اس نسخہ کی بہت سی تحریفات صاف صاف نظر آ رہی ہے لیکن غالباً ایک کافی تعداد ایسی تحریفات کی موجود ہے ، جن کی شاید کبهی بهی قلعی نہ کهل سکے"...
انتخاب کیسے ہوا؟؟؟؟؟؟
تحریفات و تلبیسات کے اس انبار عظیم میں سے کتابوں کا انتخاب کس طرح ہوا، اس کے متعلق جوزف اپنی کتاب Judaism as creed and life میں لکهتا ہے:-
" جس فیصلہ کی رو سے بعض کتابیں عہد نامہ عتیق میں شامل کر لی گئیں اور دوسری مسترد کر دی گئیں. وہ فیصلہ انسانی تها ، خدائی نہ تها بڑے بڑے استاد ان کتابوں کو لے کر بیٹھ گئے اور محض اپنی فراست کی بنا پر فیصلہ کر دیا کہ ان میں سے فلاں فلاں کتاب مستند ہے. بعض حالات میں یہ فیصلہ بہت مشکل ہو جاتا تها. چنانچہ بعض کتابوں کے متعلق تیسری صدی عیسوی تک فیصلہ نہ ہو سکا کہ انہیں کس زمرہ میں رکها جائے "..
پهر یہی مصنف آگے چل کر لکهتا ہے:-
" بایبل چونکہ خدا پرست انسانوں کا کارنامہ ہے، اس لئے اس میں لازمی طور پر خدائی اور انسانی دونوں عناصر شامل ہیں لیکن ہر شے جو انسانی ہو گی غیر مکمل ہو گی. اس لیے ہمیں یہ توقع نہیں رکهنئ چاہیے کہ ان آسمانی کتابوں میں خدا کی صداقت، صحیح صحیح طورچپر پیش کر دی گئ ہے. جب روشنی کی شعاعیں کسی رنگین شیشہ سے گزریں گیبتو یہ نہ صرف اپنی درخشندگی ہی کهو بیٹهیں گی بلکہ اس شیشہ سے بهی مختلف رنگ بهی مستعار لیں گی یہی کیفیت بایئبل کی ہے . (اسے) اس کے علاوہ کچه اور سمجهنا اس امر کے مرادف ہو گا کہ ان انسانوں کو انسانی حدود سے بلند لے جا کر خدائی دائرہ میں شامل کر دیا جاے ".....
کس قدرصاف اور واضح ہے یہ تبصرہ ؛ پهر لکهتا ہے:-
" بائبل کی بعض کہانیاں بالکل افسانے ہیں، اگرچہ نہایت حسین اور عبرت آموز. باقی رہے علوم و فنون ، سو وہ اس زمانہ کی سطح کے مطابق ہیں، جس میں ان کتابوں کے مصنف پیدا ہوئے "...
اور دیکهئے :-
یہی روایات اگرچہ اس امر پر زور دیتی ہیں کہ عہد نامہ عتیق کی بعض کتابیں ان ہی لکهی ہوئی ہیں، جن کے حالات پر وہ مشتمل ہیں (اور اس کا باور کرنا غیر معقول نہیں )لیکن انہیں اس حقیقت کے اعتراف میں زرا تامل نہیں کہ بعض کتابوں میں ردو بدل اور کمی و اضافة بهی ہوا ہے"valentine's jewish encyclopedia. ...
اگے چل کر لکها ہے :-تاریخ اور وقائع کے مستند حیثیت سے بایئبل کی حالت عام طور پر مایوس کن ہے . اس لیے بیانات اور معلومات یا تو مبہم اور متضاد ہیں اور یا اس زمانہ کی تاریخ سے بالکل مطابقت نہیں رکهتے .صفحہ95 ........
خود جیوئش انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ:-
"اگرچہ اسفار موس5 خود حضرت موسیٰ کی تصنیف نتائی جاتی ہیں لیکن تحقیق جدید کی رو سے ان کے قریب اٹهایئس (28) مختلف ماخذ تسلیم کیے گئے ہیں.( جلد نمر 9.)....
پادری ڈملو نے بائبل کی مکمل تفسیر لکهی ہے، جس میں وہ اس حقیقت کا اعتراف کرکے جو کتابیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کی طرف منسوب ہیں، درحقیقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لکهی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ بعد کی تالیف ہیں، اس کی تائید میں بہت سے نظائر و شواہد پیش کرتا ہے اور اس کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ:-
" موسیٰ کی پانچ کتابیں اصل ایک شخص کی لکهی ہوئی نہیں ہیں بلکہ پہلی تحریروں کی بنیاد پر بعد میں تالیف کی گی ہیں".
سفر ایوب کے متعلق تو سپنگلر یہاں تک لکه گیا ہے کہ اس کا انداز قطعاً یہودی نہیں بلکہ اسلامی ہے. (زوالِ مغرب جلد دوئم صفحہ 208).
ا LESLIE PAUL, اپنی کتاب The Annihilation of Man, میں اس باب میں رقمطراز ہے:-
"عہد نامہ عتیق یا جدید، سانیٹفک اصلاح میں، خدا کے الفاظ نہیں. یہ تو صرف اس انسانی کوشش کا ریکارڈ ہیں جو خدا تک پہنچنے کے لیے کی گئی. اس لئے یہ خدا کے متعلق انکشافات ہیں. خدا کی وحی نہیں ہیں ".صفحہ175."...
واضح رہے کہ اس کتاب کا مصنف عیسائیت کا بہت بڑا معتقد ہے.
ستمبر 1962 میں ،لندن کے اخبار، ڈیلی ٹیلی گراف، میں یہ خبر شائع ہوئی تهی کہ عہد نامہ عتیق کا ایک جدید انگریزی ترجمہ نیویارک سے شائع ہوا ہے اس میں سردست، تورات کی پہلی پانچ کتابیں (اسفار موسیٰ ) شامل ہیں باقی کتابوں کا ترجمہ بعد میں بتدریج شائع ہو گا. یہ ترجمہ جیوئش پبلیکیشنز سوسائٹی اف امریکہ کی طرف سے شائع ہوا ہے. اس میں، علاوہ دیگر امور، یہ بهی کہا گیا کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں، بحر قلزم کو عبور نہیں کیا تها.حضرت موسیٰ انہیں ایک اور راستے سے جو موجود نہر سویز کے قریب تها، وادئ سینا کی طرف لے کر گئے تهے. یہ راستہ تها جہاں سے sea of reeds کا پانی ہٹ چکا تها اس وقت وہاں پانی کے بجاے دلدل تها......
یہ تو ہیں مجوعہ تورات کے متعلق خارجی شہادات .یعنئ ان کتابوں تاریخی حیثیت. باقی رہیں داخلی شہادات ، یعنئ یہ کچھ ان کتابوں کے اندر موجود ہے . اس کی کیا کیفیت ہے، سو اس کے متعلق اپ کبهی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے. جب تک خود پڑه لیں. (میں اس چیز پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ مجھے متعدد مقامات پر اس کا تجربہ ہو چکا ہے. وضعی تصنیفات جو مزہب کا مقدس نقاب اوڑھ لیں، ان کی عظمت و عقیدت کچه اس طرح گهر لیتی ہے کہ اگر ان کے متعلق کہا جائے کہ ان میں اس قسم کی لغویات موجود ہیں تو کسی کو ماننے کا جی نہیں چاہتا بلکہ وہ تصور میں بهی نہیں لانا چاہتے کہ ان میں فی الواقع اس قسم کی چیزوں کا امکان ہے لیکن جب ان کے سامنے کتاب کهول کر رکه دی جائے تو دانتوں میں انگلی دبا کر رہ جاتے ہیں. اور شرم و ندامت سے کتاب بند کر دیتے ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ انہیں خود پڑها جائے. حضرت نوح، ابراہیم، لوط،ہارون،داؤد، سیلمان علیہم السلام سب یہود کے نزدیک خدا کے مقدس رسول ہیں لیکن ان کے متعلق جو کچه تورات کے مجموعہ کتب میں موجود ہے، اس کے پیش نظر اپ ایک ثانیہ کے لیے بهی اسے تسلیم نہیں کر سکتے کہ یہ تعلیم خدا کی ہو سکتی ہے؟ ؟؟؟؟ کسی کو بیٹیوں کے ساته زنا ہوتا ، کہیں سوتیلی بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات، کسی کو عورت کو ننگا دیکه کر اس .......جنکو یہاں لکهنا تو محال ہے مگر عہد نامہ عتیق میں موجود ہیں اور "آسمانی " کہہ کر پیش کی جاتی ہیں.
یہ تو رہا حضرات انبیاء کرام کے متعلق. مزہب کی بنیاد خدا کے تصور پر ہوتی ہے.تورات میں خدا کا تصور کس قسم کا پیش کیا گیا ہے اس کے متعلق Joseph Whebss اپنئ کتاب ?Is it the God's word میں لکهتا ہے:-
" تورات کا خدا بے شمار قاتلوں کے بہاے ہوے خون سے حولی کهیلتا نظر اتا ہے وہ خود بهی قاتل ہے اور مفسد ہے.چور، غدار،انتقام کے جزبہ میں ایک خونخوار عفریت. گناہگار اور بے گناہ دونوں کو بے رحمی سے سزا دینے والا. نہایت مہیب اور خوفناک، ظلم ،ظالم اور تعصب کا مجسمہ، متکبر، شیخی باز،وعدہ خلاف، غلط بیان اور ڈھٹائی سے جهوٹ بولنے والا "..........
معاذاللہ، استغفراللہ، جس کتاب میں خداے بزرگ وبرتر کا یہ تصور پیش کیا گیا ہو اس کے متعلق خود ہی اندازہ لگا لیجے کہ اسے خدا کی کتاب کہنا کا کس قدر زیادتی ہے.......،................. ................

نگہ بازگشت. ....
گزشتہ صفحات کا خلاصہ. ..
1- عہد نامہ عتیق میں (جسے مجموعہ تورات کہا جاتا ہے)کل 39 کتابیں ہیں جن میں پانچ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکهی ہوئی ہیں لیکن ان میں حضرت موسیٰ ع کی وفات اور اس کے بعد کے حالات بهی مذکور ہیں.
2- ان میں کتابوں میں بعض ایسی کتابوں کے حوالے ملتے ہیں جو اج موجود نہیں. اس سے ظاہر ہے کہ کسی زمانہ میں ان 39 کتب کے علاوہ اور بهی کتابیں بهی اس مجموعہ میں شامل تهیں.
3 ) بخت نصر کے حملہ یروشلم کے بعد ان کتابوں کا وجود صفحہ ہستی سے ناپید ہو چکا تها.
4- ان کتابوں کو عزرا (فقیہیہ ) نے 444/445 ق م کے قریب ازسر نو اپنے حافظہ کی مدد سے مرتب کیا.یعنی یروشلم کی تباہی کے قریب 150 سال کے بعد. عزرا کے مطابق ان مرتب کردہ کتابوں کی تعداد 204 تهی.
5- خب دوسری صدی قبل مسیح میں یونانیوں نے یروشلم پر حملہ کیا تو ان مصحف مقدسہ کو پهر جلا دیا گیا. اس کے بعد انہیں پهر مرتب کیا گیا.
6- پهر جب رومیوں نے 70 عیسوی کو یروشلم کو تباہ و برباد کیا تو ان کتابوں کو اپنے ساته روما لے گیا. مورخ جوزلفیس کہتا ہے کہ یہ کتابیں وہاں سے واپس ملیں لیکن اس نے ان کا یونانی ترجمہ اپنی کتابوں میں شامل کیا وہ ان کتابوں کی تعداد 22 لکهتا ہے.
7- یہودیوں کی زبان پہلے عبرانی تهی اور بابل سے مراجعت کے بعد کے بعد آرامی، لیکن تورات کا جو نسخہ دنیا کے سامنے آیا، وہ یونانی زبان میں تها، جیسے بادشاہ بطلیموس نے اسکندریہ کے کتب خانہ کے لیے تیار کرا�

 
Top