• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

توسّل ، استغاثہ اور استمداد مستند دلائل کی روشنی میں

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
توسّل ، استغاثہ اور استمداد مستند دلائل کی روشنی میں


اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔
سورہ المائدہ ۳۵

وسیلہ کی حقیقت

سوال : استعانت، استمداد ،استغاثہ اور وسیلہ کسے کہتے ہیں؟ان کے مابین کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ اور استمداد وغیرہ کرنا جائز ہے یا شرک ہے ؟ اگر جائز ہے تو اس کا ثبوت قرآن احادیث صحیحہ سے ہے یا نہیں ۔۔۔؟اورجب اللہ تعالی حقیقی مدد فرمانے والا ہے اور یہ اولیا ء انبیاء صرف ہمارے لئے دعا فرمانے والے ہیں۔۔ یا اللہ تعالی کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو پھر ان کے وسیلے سے کیوں دعا مانگیں ۔یا ان کو مدد کے لئے کیوں پکاریں۔۔۔؟
انشاء اللہ عزوجل ان تمام سوالات کے جوابات اس مضمون میں شامل ہیں

تمہیدی کلمات
وسیلہ خواہ تقرب کیلئے ہو یا حاجت روائی کیلئے ہوخواہ کسی نیک اعمال کا ہو یا کسی نیک بندے کا ہو ۔خواہ وہ نیک ہستی حیات ہو۔ یا ظاہری وفات پاچُکی ہو۔۔۔خواہ وَسیلہ کلام حقیقی ذاتی کی صورت میں ہو ۔یا کلام مجازی کی صورت میں ہو۔ یہ قرآن واحادیث کی روشنی میں ایک ثابت شدہ امر ہے۔ اور جائز ہے۔۔۔اِسے شرک کہنا عام مسلمانوں بلکہ بڑے بڑے محدثین تابعین اور صحابہ کرام علیھم الرضوان پر الزام کے مترادف ہے۔ بلکہ اِن نفوسِ قُدسیہ کو شرکیہ افعال میں مبتلا ہونے والا۔ کہنے کے مترادف ہے ۔۔۔
حالانکہ قرآن کی کسی آیت اور کسی حدیث میں وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔اُور جو حضرات ہٹ دھرمی دِکھاتے ہوئے قرآن کی وہ آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔۔ کہ،، جس میں بتوں کو پوجنے اور ان سے مدد مانگنے سے منع کیا گیا ہے۔ جُو کہ ،،صریح گُستاخی تُو ہے ہی۔۔۔ لیکن علمی خیانت بھی ہے۔۔۔ کہ جانتے بُوجھتے آیات کا محل بدل دِیا جائے۔ یہ قُرانی آیات کی تفسیر بالرائے کے مترادف ہے۔ جسکی اِسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ اپنی جانب سے قران کی تفسیر کرنا بلااجماع علما و محدثین حرام عمل ہے۔
مثلاً

قُلْ اَنَدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰینَا اللہُ ﴿ۙ۷۱﴾
تم فرماؤ کیا ہم اللّٰہ کے سوا اس کو پوجیں جو ہمارا نہ بھلاکرے۔ نہ بُرا۔ اُور الٹے پاؤں پلٹا دیئے جائیں بعد اس کے کہ اللّٰہ نے ہمیں راہ دکھائی ۔
اور ان آیات میں لفظ’’ دعا‘‘ پکار کے معنی میں نہیں بلکہ عبادت کے معنی میں ہے مگر ہٹ دھرمی دیکھئے کہ قرآن میں اپنی رائے سے تفسیر کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ دعا سے مُراد’’ پکارنا‘‘ ہے لہذا کسی نبی ولی کو پکارنا جائز نہیں ہے یہ شرک ہے العیاذ باللہ تعالی حالانکہ تمام مفسرین نے ان مقامات پر لفظ دعا کا معنی عبادت کرنا بیان کیا ہے مگر جس کا کام ہی مسلمانوں پر شرک کا فتوی صادر کرنا ہو تو اُسے اپنے ایمان کی بھی کیا فِکر ہُوگی۔۔۔؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ‘‘
یعنی : جس نے قرآن میں بغیر علم کے کچھ کہا پس اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے ۔ (سنن الترمذی باب تفسیر القران حدیث نمبر۲۱۰۱)

بالفرض محال آپ اس کا معنی ’’پکارنا‘‘ ہی لو تو جناب یہ بتایئے کہ دنیا میں کون مسلمان پھر شِرک سے باہررہا۔۔۔ ہر شخص کسی نہ کسی شخص کو دنیا میں اپنی مدد وغیرہ کے لئے ضرور پکارتا ہے۔۔۔ تو جن حضرات نے مطلق پکارنے کو ہی شرک کہا تو اس صورت میں دنیا میں سب کے سب ہی معاذ اللہ کافر و مشرک ہوگئے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے اس آیت میں جس کو آپ نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مطلقاً بَندوں کو پکارنے سے منع کیا ہے۔ تو اب آپ کسی کو بھی نہیں پکار سکتے۔۔۔ اُور اگر آپ یہ کہیں کے زِندوں کو پکار سکتے ہیں۔ مگر مُردہ کو نہیں پکار سکتے۔
تو حضرت موسی علیہ السلام نے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وصال مبارک کے کئی سو سال بعد مدد فرمائی۔ پچاس نمازوں کو پانچ نمازوں میں تبدیل کرواکر۔۔۔۔ تو اعتراض کرنے والوں کو چاہیئے کہ،، وُہ پُوری پچاس نماز ہی پڑھا کریں۔ کہ،، آپ تو مرنے کے بعد مدد کے قائل نہیں ہیں۔۔۔ نیز آپ نے یہ مُردہ اور زندہ کی تفسیرکہاں سے کی ہے ۔۔۔؟ ذرااس کا حوالہ دیجیے وگرنہ آپکا یہ عمل تفسیر بالرائے کرنا ہے۔۔۔ جو کہ حرام ہے۔ اور اگر زندہ کو پکار سکتے ہیں تو کیا فرعون کے ساتھی جو اسے خدا سمجھ کر پکارتے تھے ۔۔تو کیا وہ جائز تھا۔۔۔؟ یا آج اگر کوئی کسی کو خدا سمجھ کر پکارے تو کیا یہ جائز ہوگا۔۔۔؟ تو معلوم یہ ہُوا۔ کہ،، زندہ یا مرد ہ کا فرق نہیں بلکہ خدا سمجھ کر پکارنا ممنوع ہے۔ اُور یہی شرک ہے ۔
الحمد للہ کوئی بھی ذی شعور مسلمان کسی نبی علیہ السلام یا وَلیُ اللہ کو خدا سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا۔ اور جو پکارے وہ یقیناًمشرک ٹھہرے گا۔ اب بھی اگر کوئی ان آیات کوجو کہ کفار کے حق میں نازل ہوئیں انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرتا دَکھائی دے ۔ تو درحقیقت وہ اسلام کے لِبادے میں اہل خوارج بے دین لوگوں میں سے ہیں ۔کیونکہ بخاری شریف میں یہ خوارجیوں کی نشانی بیان کی گئی ہے
حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالی عنہ خارجیوں کے بارے میں فرماتے ہیں

’’وقال إنہم انطلقوا إلی آیات نزلت فی الکفار فجعلوہا علی المؤمنین‘‘
یعنی : فرمایا کہ( خارجیوں کی نشانی یہ ہے کہ) وہ آیات جو کفار کے حق میں نازل ہوئی ہیں مسلمانوں پر تھوپتے ہیں۔(صحیح بخاری باب قتل الخوارج قبل حدیث نمبر۶۵۳۱ )
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ہم مسلمان الحمدللہ رب العلمین ہرطرح کے شرک سے محفوظ ہیں۔ کیونکہ اس بات کی ضمانت خود اللہ کے سچے رسول ﷺ نے دی ہے صحیح بخاری میں ہے
’’وانی واللہ ما اخاف علیکم ان تشرکو بعدی ‘‘۔
یعنی’’اور بے شک میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے اپنے بعد تمہارے شرک میں مبتلا ہونے کا کوئی خوف نہیں ‘‘۔ [صحیح بخاری ،باب الصلوٰۃ علی الشہید،کتاب الجنائز،ج:ا،جزء:۲،ص۹۴،مکتبہ دارالفکر بیروت]
ان شاء اللہ اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن وحدیث میں وسیلہ کی ممانعت نہیں ہے

استعانت، استمداد ،استغاثہ اور وسیلہ کسے کہتے ہیں؟
استعانت یہ عون سے بنا ہے جس کا معنی ہے مدد طلب کرنا۔ استمداد یہ مدد سے بنا ہے اس کا معنی ہے مدد طلب کرنا۔ استغاثہ یہ غوث سے نکلا ہے اس کا معنی ہے کسی کو مشکل میں مدد کے لئے پکارنا۔ توسل یا وسیلہ اس کا معنی ہے ذریعہ یعنی جس کے ذریعے بندہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرے اسے وسیلہ کہتے ہیں۔
کیا اِن کے مابین کوئی فرق ہے یا نہیں ؟ یہ چاروں حقیقت میں ایک ہی شئی ہیں ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ یو ں سمجھ لیجئے۔ کہ،، ایک ہی شئے کے چارنام ہیں مگر ان میں ایک باریک سا فرق ہے۔
وہ یہ کہ استمدا د،استعانت اورا ستغاثہ میں بندہ فاعل حقیقی یعنی اللہ تعالی کے بجائے سبب (وسیلہ) کی طرف اپنے کلام کی نسبت کرتا ہے مگر اس کی مراد فاعل حقیقی سے ہی ہوتی ہے ۔(یعنی اصل مدد اللہ تعالی ہی فرمائے گااس کے اذن کے بغیر مدد ممکن نہیں)اور یوں(مجاز عقلی والا )کلام لاتا ہے۔ استعانت ۔استمداد اور استغاثہ جیسے اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدد فرمایئے۔ اب اس جملے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی گئی ہے ۔جو کہ وسیلہ ہیں۔ تو اس جملے میں بندے نے وسیلے کی طرف نسبت کی۔ مگر مدد مانگنے والے کی مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں اِس کے لئے دعا فرمائیں گے ۔اور اللہ تعالی کے اذن سے اس کی مدد فرمائیں گے۔۔۔یہ گمان ہرگز نہیں ہوتا کہ اللہ کی مرضی اوراجازت کے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مدد کر سکتے ہیں ۔ یا معاذ اللہ عزوجل یہ نیک ہستی مالک کائنات جل جلالہ کو دعا قبول کرنے پر مجبور کر دے گی اگر یہ عقیدہ رکھا جائے تو یہ کفروشرک ہے الامان والحفیظ۔ جبکہ وسیلہ میں بندہ حقیقی معنی کی ہی طرف اپنے کلام کی نسبت کرتا ہے اور یوں دعا کرتا ہے اے اللہ عزوجل تو نبی علیہ السلام کے وسیلے(صدقے یا طفیل ) سے میری مدد فرما ۔ یا اس طرح اے اللہ کے نبی علیہ السلام آپ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی میری مدد فرمائے۔
اب اگرذہن میں یہ سوال ابھرے ۔کہ،، جب وسیلے کو کلام میں ذکر کر کے نسبت مسبب الاسباب فاعل حقیقی جل جلالہ کی طرف کی جائے ۔تو یہ کلام حقیقت ہوگا ۔اور جب استعانت یا استغاثہ کی صورت میں کلام لائے۔ اُور سبب(وسیلہ) کی طرف کلام کی نسبت کردی جائے ۔تو یہ کلام مجاز عقلی ہوگا ۔ یہ قاعدہ اور اصول کس نے بنایا اور کہاں سے یہ اصول سمجھا گیا۔۔۔؟
تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں رب تعالی نے اس اصول کو بیان فرمایا ہے۔ مگر اس کو سمجھاعقل والوں نے ہے۔
قرآن مجید میں اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مگر میں طوالت کے بجائے تفہیم کی غرض سے فقط ۲ ہی مثالوں پر اکتفا ء کرتا ہوں۔
اللہ رب العالمین قرآن مجید میں ایک مقام پر موت دینے کی نسبت اپنی طرف فرماتا ہے۔ جبکہ دوسری آیت میں موت دینے کی نسبت موت کے فرشتے(حضرت عزرائیل علیہ السلام) کی طرف فرما رہا ہے ۔

ملاحظہ فرمائیں

اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنۡفُسَ
ترجمہ کنز الایمان: اللّٰہ جانوں کو وفات دیتا ہے ( سورۃ الزمر آیت ۴۲)۔
قُلْ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمْ
ترجمہ کنزالایمان :تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے۔(سورہ السجدہ آیت ۱۱)۔

اللہ رب العالمین قرآن مجید میں ایک مقام پر اولاد دینے کی نسبت اپنی طرف فرماتا ہے ۔جبکہ دوسری آیت میں اولاددینے کی نسبت (حضرت جبرائیل علیہ السلام) اپنی طرف فرما رہے ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں

لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ؕیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنٰثًا وَّ یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ ﴿ۙ۴۹﴾
ترجمہ کنزالایمان :اللّٰہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے(سورہ الشوری آیت ۴۹)
لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا ﴿۱۹﴾
ترجمہ کنزالایمان :میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔(سورہ المریم آیت ۱۹)
اب ان دونوں مثالوں کو یہاں پر پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں شرک وحرام ہونے یا نہ ہونے کا قاعدہ و اصول بیان فرمادیا کہ حقیقی فاعل اللہ تعالی ہی ہے ۔باقی حضرت عزرائیل علیہ السلام اللہ کے حکم اور اللہ کی دی ہوئی طاقت سے موت دیتے ہیں۔ اور اس کے حکم اور اذن کے بغیر کسی کو موت نہیں دے سکتے۔ اسی طرح حضرت جبرائیل علیہ السلام کا معاملہ تھا کہ حقیقی خالق اور اولاد دینے والا اللہ ہی ہے۔ باقی حضرت جبرائیل علیہ السلام نےاللہ کے اذن سے اولاد دی۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
تو معلوم ہوا قرآن پاک میں جس مقام پر یہ فرمایا کہ اللہ ہی موت دیتا ۔اولاد دیتا ہے وغیرہ (یعنی اللہ کی طرف نسبت ہو) تو یہ کلام حقیقت ہوگا کیونکہ حقیقی فاعل اللہ ہی ہے ۔
اور جس مقام پر موحد(توحید کا اقرار کرنے والا) نے اس طرح کا کلام کیا کہ میں موت دیتا ہوں۔ یا اُولاد دیتا ہوں۔ یا مدد کرتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔تو یہ کلام مجاز ی ہوگا۔ کیونکہ اس میں بندے نے سبب کی طرف صرف اپنےکلام کی نسبت کی ہے۔ مگر اس کا اعتقاد یہی ہے۔ کہ،، حقیقی فاعل اللہ ہی ہے۔اللہ ہی مد د فرمائے گا۔ اللہ ہی موت دیگا ۔اللہ ہی اولاد دیگا۔ اس کی مرضی اور اذن کے بغیر پتہ ہل بھی نہیں سکتا ہے۔ تو یہ جائز ہے اور شرک و حرام نہیں ہے۔ وگرنہ حضرت جبرائیل و عزرائیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں یوں ذکر نہ آتا۔
اسی قاعدے واصول کوعلامہ سعد الدین تفتازانی علیہ رحمۃ الباری (سن وصال 791ہجری ) کتاب ’’المطول ‘‘ جو کہ درس نظامی عالم کورس میں پڑھائی جاتی ہے۔ میں وضاحت فرماتے ہیں ’’ جب موحد (مسلمان) یہ کہے ’’ انبت الربیع البقل ‘‘ یعنی موسم بہار نے سبزہ اگایا ‘‘ تو یہ اسنادمجاز ی ہے۔ کیونکہ موحد کا یہ عقیدہ نہیں ہے ۔کہ،، اُگانا بہار کی صفت ہے۔(یعنی مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ اُگانا اللہ تعالی کا کام ہے اور موسم بہار یہ سبزہ اگنے کا سبب ہے ) جبکہ یہی جملہ اللہ تعالی کے وجود کا منکر کہے گا ۔تو اسے حقیقت کہا جائے گا (کیونکہ وہ اللہ تعالی کے وجود کا ہی منکر ہے تو پھر تاثیر کا کیونکر قائل ہوگا)۔
(المطول صفحہ ۱۰۶)
علامہ عبد الحکیم شرف قادری مزید اسی اصول کی وضاحت فرماتے ہیں۔ اگر دہریہ نے کہا کہ طبیب نے مریض کو شفاء دی تو یہ حقیقت ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کی تاثیر کا قائل ہی نہیں ہے ۔ مگریہی بات اگرمومن نے کہی تو اسے مجاز عقلی کہاجائے گا۔ اور اس کا ایماندار ہو نا اس بات کی علامت ہوگا کہ وہ شفاء کی نسبت طبیب کی طرف اس لئے کر رہا ہے۔ کہ،، وہ شفاء کا سبب ہے ۔اس لئے نسبت نہیں کررہا ہے۔ کہ،، فی الواقع طبیب نے شفاء دی ہے شفاء دینا اللہ تعالی کا کام ہے ۔
مزید فرماتے ہیں اس گفتگو پر غور کرنے سے مسئلہ استعانت( مدد طلب کرنا ) کی حیثیت بالکل واضح ہوجاتی ہے کیونکہ انبیاء علیھم السلام و اولیاء علیہم الرحمۃ سے مدد چاہنے والا اگر مومن ہے۔ تو اس کا ایماندار ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے نزدیک کاساز حقیقی مقاصد کو پورا کرنے والا اللہ تعا لی ہی ہے ۔ان امور کی نسبت اولیاء و انبیاء کی طرف مجاز عقلی کے طور پر کی گئی ہے ۔کہ،، وہ مقاصدکوپورا کرنے کے لئے سبب اور وسیلہ ہیں۔
(عقائد ونظریات صفحہ ۱۸۴ مکتبہ قادریہ )
شاہ عبد العزیز علیہ رحمۃ اللہ القوی اسی اصول کواپنے انداز میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ۔کہ،،یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ غیر اللہ سے اس طرح مدد مانگنا ۔کہ،، اسی پراعتماد ہو۔ اور اس کو اللہ کی مدد کامظہر نہ جانا جائے حرام ہے۔ اور اگر توجہ حضرت حق ہی کی طرف ہے۔ اور اس کو اللہ کی مدد کا مظہر جانتا ہے۔ اور اللہ کی حکمت اور کارخانہ اسباب پر نظر کرتے ہوئے ظاہری طور پر غیر سے مدد چاہتاہے ۔تو یہ عرفان سے دورنہیں۔ اورشریعت میں بھی جائز اور روا ہے۔ اور انبیاء اور اولیاء نے ایسی استعانت کی ہے۔ اور درحقیقت یہ استعانت غیر سے نہیں ہے ۔بلکہ یہ حضرت حق سے ہی استعانت ہے۔
(فتح العزیز ،تفسیر عزیزی،تفسیر سورہ فاتحہ افغانی دارالکتب دہلی ص۸ )۔
فقیہ محدث علامہ محقق عارف باللہ امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں:

’’ولا فرق بین ذکر التوسل و الاستغاثہ‘‘
یعنی :توسل اور استغاثہ ذکر کرنےمیں کوئی فرق نہیں
مزید فرماتے ہیں

فالتوجہ والاستغاثہ بہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بغیرہ لیس لہما معنی فی قلوب المسلمین غیر ذٰلک ولایقصد بہما احد منہم سواہ فمن لم یشرح صدرہ لذٰلک فلیبک علی نفسہ نسأل اﷲ العافیۃ والمستغاث بہ فی الحقیقۃ ہو اﷲ و النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واسطۃ بینہ وبین المستغیث۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا حضور اقدس کے سوا اور انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء کی طرف توجہ اور ان سے استغاثہ (فریاد) کے یہی معنی مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنی نہیں سمجھتا ہے نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے وہ آپ اپنے حال پر روئے، ہم اللہ تبارک وتعالٰی سے عافیت مانگتے ہیں حقیقتا استغاثہ (فریاد) اللہ عزوجل کے حضور ہے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے اور اس فریادی کے بیچ میں وسیلہ و واسطہ ہیں۔
( الجوہر المنظم الفصل السابع فیما ینبغی للزائر الخ مکتبہ مدبولی قاہرہ صفحہ ۱۱۰)۔
اما م علامہ خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رضی اللہ تعالٰی عنہ کتاب شفاء السقام میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں۔

والمستغاث بہ فی الحقیقۃ ھو اللہ تعالی والنبی ﷺ واسطۃ بینہ و بین المستغیث
یعنی :مستغاث بہ(جس سے مدد طلب کی جارہی ہے) حقیقت میں اللہ تعالی ہے اور نبی ﷺ مستغیث (مدد طلب کرنے والا) اور مستغاث بہ (اللہ تعالی ) کے درمیان واسطہ (وسیلہ ) ہیں۔
( شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل الخ دار الکتب العلمیۃ ص۳۷۹)
ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ استعانت ،استمداد ،استغاثہ اور وسیلہ ایک ہی شئی ہیں بس فرق یہ ہے کہ استعانت ،استمداد ،استغاثہ میں وسیلہ کے طرف نسبت کر کے کلام مجازی کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وسیلہ میں کلام حقیقی ذاتی کو لایا جاتا ہے اور اس کلام میں فاعل حقیقی کی طرف نسبت کردی جاتی ہے
اور اس طرح اللہ تعالی سے دعا کرنا ایک جائز امر ہے اسے ناجائز و شرک کہنا شریعت پر بہتان باندھناہے ۔ اُور سخت گناہ کا کام ہے۔
اب اگر یہ سوال ذہن میں آئے کہ مذکورہ دلائل میں کبار علمائے کرام کے اقوال ہیں اور قرآن پاک سے وسیلہ اور استغاثہ پر جو دلیل دی ہے وہ صراحت کے ساتھ اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتی ہے تواس شبہ کا ازالہ قرآن واحادیث صحیحہ کی روشنی میں اگلی سلسلہ میں بیان کیا جائے گا ان شاء اللہ
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
گزشتہ مضمون سے جب اس بات کااثبات ہوگیا کہ مسلمان جب اللہ تعالی کے علاوہ کسی بندے کی طرف کسی کام کی نسبت کرے تو وہ کلام مجازی ہوتاہے۔ حقیقت نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک مسلمان کا یہی عقیدہ ہوتاہے۔ کہ،، حقیقی تاثیر اللہ ہی پیدا فرماتا ہے ۔یہ بندہ تو فقط سبب (وسیلہ) بن رہا ہے ۔اور اس طرح کلام کرنا جائز ہے۔ اور قرآن کریم سے ثابت ہے ۔
لیکن ذہن میں ابھرتا ایک سوال کہ ،،کیا قرآن مجید میں اور احادیث طیبہ میں وسیلہ اور استغاثہ پر صراحت کے ساتھ کوئی دلیل موجو دہے۔۔۔ ؟
تو آئیے رب تعالی کے فرمان مبارک کو پڑھیں اور شیطانی وَسوسُوں اُور شبہات کو زائل کیجئے۔
تو سل کی

دلیل نمبر1

پروردگار عزوجل ارشاد فرماتا ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلہ وَجٰہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ﴿۳۵﴾
اے ایمان والو اللّٰہ سے ڈرو اور اسکی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔
سورہ المائدہ آیت نمبر35
تشریح:
قرآن عظیم کی اس آیت مبارکہ میں رب تعالی نے ’’مطلق وسیلہ تلاش کرنے ‘‘ کا حکم ارشاد فرمایا ہے کسی قید کے ساتھ نہ فرمایا کہ صرف اعمال کا وسیلہ تلاش کرو ۔۔۔بندوں کا نہ کرو ۔۔۔یا۔۔۔زندہ کا وسیلہ تلاش کرو مردہ کا نہ کرو۔۔۔بلکہ مطلق حکم دیا کہ جو اعمال اللہ کے ہاں مقبول ہو ں یا جو بندے اللہ کے ہاں مقبول ہوں ۔۔۔کسی کا بھی و سیلہ اختیار کرلو رب تم کو اس وسیلے کے ذریعے فلاح پانے والوں میں داخل فرمادےگا۔
اس آیت کریمہ میں وسیلہ کی تمام اقسام کی طرف اشارہ ہے اور اس آیت قرآنی کا یہ اعجاز ہے کہ یہ وسیلہ کی تمام اقسام کو خُود میں سَموئے ہُوئےہے ۔
توسل کی ابتداء دو اقسام ہیں
(۱)توسل لقرب اللہ تعالی (۲)توسل فی الدعاء
(۱)توسل لقرب اللہ تعالی :اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلہ کو اختیار کرنا۔
(۲)توسل فی الدعاء: حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا ۔تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی بدولت مُراد پوری فرمائے ۔
(۱)توسل لقرب اللہ تعالی
اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کسی وسیلہ کو اختیار کرنا۔
پھر اس کی دو قسمیں ہیں(۱)توسل بالعبادۃ (۲)توسل بالذات
(۱)توسل بالعبادۃ
یعنی عبادات ونیک اعمال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا اور اللہ کے نیک بندں میں شامل ہونا۔

دلیل نمبر2:


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے۔
سورہ البقرۃ آیت 153
تشریح:
اس آیت کریمہ میں رب تعالی نے توسل لقرب اللہ تعالی ا ور توسل فی الدعا د ونوں کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرو اور پنی دفع حاجات کے واسطے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا مانگو رب تمہاری دعاوں کو کو جلد قبول فرمائے گا۔
(۲)توسل بالذات
یعنی اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اختیار کرنا ۔۔۔تاکہ وہ اس کو شریعت کے احکام ظاہریہ (نماز ۔روزہ وغیرہ)واحکام باطنیہ(عبادات میں خشوع و خضوع لانے کے طریقے اورآداب) سیکھائیں۔ اور یو ں اس بندے کی صحبت اختیار کرنے سے دین کا علم اور دین پر عمل نصیب ہواور اس طرح یہ مرشد و رَہنما اس کو اللہ کے قریب کرے ۔
قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی صحبت اختیا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا چنانچہ حکم ربانی عزوجل ہے

دلیل نمبر3:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیۡنَاکَ عَنْہُمْ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنۡ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾
اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔۔۔ اس کی رضا چاہتے اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار چاہو گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔
سورہ الکہف آیت28
اسی بنا پر اچھی صحبت اختیار کرنے کا حکم حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دیا فرمایا
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
دلیل نمبر4

مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کمثل صاحب المسک وکیر الحداد لایعد مک من صاحب المسک اما ان تشتریہ اوتجد ریحہ وکیر الحداد یحرق بیتک او ثوبک اوتجد منہ ریحاخبیثۃ وفی حدیث ان لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ، رواہ البخاری
بخاری شریف ، حدیث: 5214دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت

یعنی :اچھے مصاحب اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تو تو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا۔ اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دھواں تو ضرور پہنچے گا۔

(۲)توسل فی الدعاء
یعنی کسی حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی برکت سے مراد پوری فرمائے ۔
پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں
(۱)مقبول اعمال کووسیلہ بنانا(۲) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا
(۱)مقبول اعمال کووسیلہ بنانا

دلیل نمبر5

اس کی دلیل وہ مشہور و معروف قصہ ہے۔ جو صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ: " جب تین آدمی غار میں پھنس گئے- باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا- غار کے منہ پر پتھر رکھا ہوا تھا- اس وقت انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے اپنے نیک عمل کے واسطے اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے- (۱)ان میں سے ایک کہنے لگا کہ میرے والدین نے مجھ سے دودھ مانگا- رات کا وقت تھا جب میں دودھ لے کر ان کے پاس پہنچا تو وہ سوچکے تھے- میں نے انہیں بے آرام نہ کیا اور ساری رات ان کے سرہانے رہا کہ جب وہ بیدار ہوں تو میں انہیں دودھ پیش کروں- اے اللہ میری اس نیکی بدلے غار کے منہ سے پتھر ہٹادے- چنانچہ پتھر کچھ ہٹ گیا- (۲)دوسرے نے اپنے پاکیزہ کردار کی بات کی- اس کی ایک عزیزہ کسی ضرورت کے تحت پریشان ہوکر اس کے پاس آئی- قریب تھا کہ وہ اپنی نفسانی ضرورت پوری کر لیتا لیکن محض اللہ کے خوف سے وہ برائی کے ارتکاب سے باز رہا- اس شخص نے اپنا یہ نیکی کا کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیا- چنانچہ پتھر مزید ہٹ گیا- (۳)تیسرے شخص نے اپنی امانت و دیانت کا ایک واقعہ پیش کیا اور اس کے وسیلے سے رحمت خداوندی کا امیدوار ہوا ۔۔۔ لہذا پتھر پوری طرح غار کے دھانے سے ہٹ گیا"- اس طرح ان لوگوں کو اپنے نیک اعمال بارگاہ رب العالمین میں بطور وسیلہ پیش کرنے کے بعد مصیبت سے نجات ملی-

بخاری شریف، کتاب احادیث انبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت

اس مسئلہ پر کثیر احادیث طیبہ شاہد ہیں مگر چونکہ کسی کو اس مسئلہ میں اختلاف نہیں اس لئے اختصار کے پیش نظر فقط ایک جامع روایت ذکرکردی۔
(۲) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا
مقبول بندہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو اس کو وسیلہ بنانا درست ہے۔

حیاتی میں وسیلہ بنانے کی دلیل

دلیل نمبر6

حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔
بخاری، کتاب الاستسقاء، حدیث نمبر : 963، دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت

ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر: 1272، دار الفكر - بيروت
تشریح:
سبحان اللہ عزوجل جس ہستی کے رخ زیبا کےوسیلے کا یہ کمال کہ ،،جیسے ہی اس رخ انور کے توسل سے دعا مانگتے رب خالی جھولیوں کو اسی وقت مرادوں سےبھرنا شروع فرمادیتا ۔

دلیل نمبر7

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔

بخاری شریف، کتاب الاستسقاء،حدیث نمبر964 دار ابن كثير اليمامة بيروت

تشریح: اللہ اکبر جس کی رب کائنات جل جلالہ نے یہ عظمت و شان رکھی ہو کہ جس کسی کو فقط اس سے نسبت ہو جائے اس کے بھی وسیلے سے کوئی دعا کی جاتی تو رب اپنی رحمتوں کی بارش ان پر چھما چھم برسانا شروع فرمادیتا تو وہ ہستی کسی کے لئے رب کی بارگا ہ میں دعا کے واسطے اپنے دست مبارک کو بلند فرمائیں تو رب کی کیسی رحمتیں اس شخص پر برستی ہونگی ۔
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ وبحمدہ تعالی
اے گناہگاروں! اے شفاعت کے طلب گاروں! اے غم کے ماروں!
اٹھو ابھی حضور کے دربار میں حاضر ہو کر حضور علیہ السلام سے اپنی حاجات و پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے عرض کرو خدا کی قسم گر یہ دست پاک تمہارے واسطے اٹھ گئے ۔۔۔تو تمہارا بیڑہ پار ہے اور کیوں نہ اٹھے سرکار ﷺ کے دست اقدس کے آپ ﷺ کو رب تعالی نے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا آپ ﷺ کو نرم دل بنا کر بھیجا ہے۔
رب تعالی فرماتا ہے

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الۡاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾
تو کیسی کچھ اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہاری گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللّٰہ کو پیارے ہیں
العمرآن آیت 159
تشریح:
شفاعت کرنا یہ بھی از قسم وسیلہ اور دعا ہی ہے کہ نبی علیہ السلام حق تبارک وتعالی کے حضور اپنے گناہگار امتی کے گناہوں کی معافی کی دعا کریں گے اور رب تعالی اپنے بندوں کواپنے حبیب علیہ السلام کے طفیل(وسیلہ سے) معاف فرمائے گا۔ سبحان اللہ
معاف رب نے ہی فرمانا ہے مگر اپنے حبیب کی شان بھی دِکھانا ہے ۔
دلیل نمبر8 حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا :

(اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ)
یعنی :اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔: غیر مقلدین کے مشہور و مستند عالم اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں
قال الشيخ الألباني : صحيح
ترمذی شریف، کتاب الدعوات حدیث نمبر: 3578، دار إحياء التراث العربي - بيروت
ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر : 1385، دار الفكر - بيروت


تشریح:
سبحان اللہ نبی پاک ﷺ خود اپنے وسیلے سے دعا کرنے کا طریقہ بیان فرما رہے ہیں اور چاہتے تو صحابی کواس نماز کا حکم نہ دیتے بلکہ فورا ان کے واسطے دعا فرماتے مگر چونکہ اپنے گناہگار امتیوں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کرنا مقصود تھا ۔۔۔کہ،، اے میرے امتیوں میرے وسیلے سے دعا کرنا چاہتے ہو تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی پابندی کرنا ۔۔۔کسی حال میں بھی نماز قضا نہ کرنا۔۔۔ کہیں ایسا نہ کرنا کہ میرے نام کے وسیلے سے دعا مانگتے رہو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز سے غفلت برتو۔۔۔ بلکہ اس عمل کو غو ر سے دیکھ لو کہ میرا صحابی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک(بینائی) کے لئے آیا تو میں نے اس کواپنی آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا حکم دیا اور پھر اپنے وسیلے سے دعا کرنے کو کہا۔
تو آج وہ حضرات اپنے اعمال پر غو ر کریں کہ جو نبی علیہ السلام کے سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں مگر اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کوحاضر نہیں ہوتے شریعت پر عمل نہیں کرتےاور حالانکہ نبی علیہ السلام نماز سے کس قدر محبت فرمایا کرتے تھے روایتوں میں آتا ہےکہ آپ علیہ السلام جب کبھی کسی اہم کام کی طرف متوجہ ہوتے تو سب سے پہلے اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کے لئے حاضر ہوتے تو نبی کے علیہ السلام کے و سیلہ سے دعا مانگنے کے ساتھ نبی علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو بھی اپناؤ یہی حقیقی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
گزشتہ مضمون سےہم نے جب اس بات کو قرآن و احادیث مبارکہ سے جان لیا۔ کہ،، حضرات انبیاء کرام و اولیائے کاملین کے وسیلہ کا انکار قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔۔۔ بلکہ قرآن حدیث سے وسیلے کے جائز ہو نے کا اثبات ہے ۔توا ب اگر دِل میں یہ وہم پیدا ہو۔ کہ۔۔ ان آیا ت واحادیث سے ظاہری زندگی میں وسیلہ بنانے کا بیان ہے۔۔۔۔ اگرچہ بعد از وفات وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔مگر کیا دنیا میں تشریف آوری سے قبل اور دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی وسیلہ بنانے پر کوئی واضح دلیل ہے۔۔۔ ؟
تو آئیے اس وہم کا ازالہ فرمایئے
بعثت سے قبل اور بعد از وفات ظاہری وسیلہ بنانے کی دلیل
بعثت سے قبل
نبی پاک علیہ السلا م کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل پچھلی امتیں آپ ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے تو رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے انکی خالی جھولیوں کو مراد سے بھر دیتا۔

دلیل نمبر9

وَلَمَّا جَآءَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ۙ وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾
اور جب ان کے پاس اللّٰہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللّٰہ کی لعنت منکروں پر۔
(سورہ البقرۃ آیت 89)

دلیل نمبر10

سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے:

فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-

ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں روایت مذکور ہے :

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد-

ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس حدیث کی سندصحیح ہے۔

مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194- معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-
دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 –
مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت
كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -
تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد


تشریح
جب نبی کریم ﷺ کی بعثت(دنیا میں تشریف آوری) سے قبل آپ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز تھا تو آپ علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد ممانعت کیونکر بغیر کسی دلیل کے مانی جائے۔
سبحان اللہ ذرا غور فرمائیے کہ انسان کوجب زمین پر بھیجا گیا تو رب تعالی نے انسان کی سب سے پہلی دعا جو قبول فرمائی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تھی اور وہ دعا بھی ہمارے نبی علیہ السلام کےوسیلہ سے قبول فرمائی گئی ۔
اور کل بروز قیامت میدان حشر میں بھی سب سے پہلی دعا جو قبول کی جائے گی وہ بھی نبی علیہ السلام کے وسیلے سے کی جائے گی تمام لوگ انبیاء کرام علیھم السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے مگر لوگوں کی مراد پوری ہمارے نبی علیہ السلام فر مائیں گے آپ ﷺ رب تعالی سے جلد حساب شروع فرمانے کی دعا فرمائیں گے اور رب تعالی دعا قبول فرمائے گا اور یہ نعمت بھی اپنے محبوب علیہ السلام کے وسیلہ سے عطا فرمائے گا ۔
درحقیقت بات یہ ہے کہ رب تعالی اپنے حبیب ﷺ کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو وجہ تخلیق کائنات بتلایا اور جب انسان کو زمین پر اتارا تو نبی علیہ السلام کی شان دیکھائی جب انسان کوقبر میں اتارا جاتا ہے تو وہاں بھی اپنے نبی کی شان دیکھاتا ہے اور جب حشر کا میدان ہوگا وہاں بھی اپنے نبی علیہ السلام کی دعا سےحسا ب شروع فرماکر ان کی شان دیکھائے گا کوثر عطا و مقام محمود عطافرماکر اپنے حبیب علیہ السلام کی شان دیکھائے گایہ نبی علیہ السلام کو رب نے ایسے اوصاف عطا فرمائے ہیں کہ ایسی شان کسی اور نبی علیہ السلام کو رب کائنات جل جلالہ نے عطا نہ فرمائی ۔
بعد از وفات ظاہری

دلیل نمبر11

امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ،،
حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی ۔

حوالہ۔۔

المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311
شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371، دار الکتب العلمیۃ
احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی میں اور
امام جلال الدین سیوطی نے الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے
حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں
اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے
بلکہ ابن تیمیہ نےکہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کوفتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح فرمایا ہے


تشریح
اس سے معلو م ہوا کہ صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف نے نبی کریم ﷺ سے توسل کو فقط آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہ کیا بلکہ صحابی رسول ﷺ نے اس توسل کے طریقہ کو نبی علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی جاری رکھا تو جب صحابی رسول ﷺ کا خود کا عمل یہ واضح کررہا ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا وسیلہ بعد آپ ﷺ کی و فات ظاہری کے بعد بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیاتی میں جائز امر تھااگر بعد وفات ناجائز ہوتا تو نبی پاک علیہ السلام کے صحابی ہرگز اس طرح کےعمل کی تعلیم کسی دوسرے کو نہ دیتے اور و ہ صاحب قرون ثلاثہ بھی اس عمل کو نہ اپناتے بلکہ ناجائز ہی بتلاتے لہذا صحابہ کا بعد وفات ظاہری بھی اس عمل کو جاری رکھنا اس کے جائز ہونے پرواضح دلیل ہے۔
نیز اگر بعد از وفات یہ ناجائز ہوتا تونبی پاک علیہ السلام بھی جب اپنے صحابہ کو اپنے وسیلہ سے دعا کی تعلیم ارشاد فرمارہے تھے ضرور اس بات پر بھی متنبہ فرماتے کہ اے میر ے صحابی میرے وسیلہ سے دعا تم میری حیاتی تک کرنا اس کے بعد نہ کرنا کیو نکہ یہ ایک لازمی امر ہے جب نبی پاک ﷺ نے اپنے وسیلہ سے دعا کی مطلق تعلیم دی تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنا آپ ﷺ کی حیاتی میں ا ورظاہری وفات کے بعد بھی جائز ہے اسی لئے حضرت عثمان بن حنیف نے نبی پاک علیہ السلام کے پردہ فرماجانے کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھاکیونکہ کوئی ایسا قرینہ تھا ہی نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ یہ حکم فقط نبی پاک علیہ السلام کی حیات مبارکہ تک ہے۔

دلیل نمبر12

امام بخاری علیہ رحمۃ الباری کے استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتا ب مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان فرماتے ہیں

حَ دَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ.

مالک بن دینار جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے . اور پھر آقا علیہ السلام کے وسیلہ سے خوب بارش ھوئی۔
 
Top