دلیل نمبر4
مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کمثل صاحب المسک وکیر الحداد لایعد مک من صاحب المسک اما ان تشتریہ اوتجد ریحہ وکیر الحداد یحرق بیتک او ثوبک اوتجد منہ ریحاخبیثۃ وفی حدیث ان لم یصبک من سوادہ اصابک من دخانہ، رواہ البخاری
بخاری شریف ، حدیث: 5214دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت
یعنی :اچھے مصاحب اور برے ہمنشین کی کہاوت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تو تو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا۔ اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دھواں تو ضرور پہنچے گا۔
(۲)توسل فی الدعاء
یعنی کسی حاجت یا پریشانی کے حل کے لئے کسی نیک عمل یا نیک ہستی کا وسیلہ دینا تاکہ اللہ تعالی اس وسیلہ کی برکت سے مراد پوری فرمائے ۔
پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں
(۱)مقبول اعمال کووسیلہ بنانا(۲) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا
(۱)مقبول اعمال کووسیلہ بنانا
دلیل نمبر5
اس کی دلیل وہ مشہور و معروف قصہ ہے۔ جو صحیح بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں آیا ہے کہ: " جب تین آدمی غار میں پھنس گئے- باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا- غار کے منہ پر پتھر رکھا ہوا تھا- اس وقت انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور اپنے اپنے نیک عمل کے واسطے اللہ تعالی سے دعا کرنے لگے- (۱)ان میں سے ایک کہنے لگا کہ میرے والدین نے مجھ سے دودھ مانگا- رات کا وقت تھا جب میں دودھ لے کر ان کے پاس پہنچا تو وہ سوچکے تھے- میں نے انہیں بے آرام نہ کیا اور ساری رات ان کے سرہانے رہا کہ جب وہ بیدار ہوں تو میں انہیں دودھ پیش کروں- اے اللہ میری اس نیکی بدلے غار کے منہ سے پتھر ہٹادے- چنانچہ پتھر کچھ ہٹ گیا- (۲)دوسرے نے اپنے پاکیزہ کردار کی بات کی- اس کی ایک عزیزہ کسی ضرورت کے تحت پریشان ہوکر اس کے پاس آئی- قریب تھا کہ وہ اپنی نفسانی ضرورت پوری کر لیتا لیکن محض اللہ کے خوف سے وہ برائی کے ارتکاب سے باز رہا- اس شخص نے اپنا یہ نیکی کا کام اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیا- چنانچہ پتھر مزید ہٹ گیا- (۳)تیسرے شخص نے اپنی امانت و دیانت کا ایک واقعہ پیش کیا اور اس کے وسیلے سے رحمت خداوندی کا امیدوار ہوا ۔۔۔ لہذا پتھر پوری طرح غار کے دھانے سے ہٹ گیا"- اس طرح ان لوگوں کو اپنے نیک اعمال بارگاہ رب العالمین میں بطور وسیلہ پیش کرنے کے بعد مصیبت سے نجات ملی-
بخاری شریف، کتاب احادیث انبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت
اس مسئلہ پر کثیر احادیث طیبہ شاہد ہیں مگر چونکہ کسی کو اس مسئلہ میں اختلاف نہیں اس لئے اختصار کے پیش نظر فقط ایک جامع روایت ذکرکردی۔
(۲) اللہ کےکسی مقبول بندے کو وسیلہ بنانا
مقبول بندہ زندہ ہو یا وفات پا چکا ہو اس کو وسیلہ بنانا درست ہے۔
حیاتی میں وسیلہ بنانے کی دلیل
دلیل نمبر6
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنھم) نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔
بخاری، کتاب الاستسقاء، حدیث نمبر : 963، دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت
ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر: 1272، دار الفكر - بيروت
تشریح:
سبحان اللہ عزوجل جس ہستی کے رخ زیبا کےوسیلے کا یہ کمال کہ ،،جیسے ہی اس رخ انور کے توسل سے دعا مانگتے رب خالی جھولیوں کو اسی وقت مرادوں سےبھرنا شروع فرمادیتا ۔
دلیل نمبر7
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔
بخاری شریف، کتاب الاستسقاء،حدیث نمبر964 دار ابن كثير اليمامة بيروت
تشریح: اللہ اکبر جس کی رب کائنات جل جلالہ نے یہ عظمت و شان رکھی ہو کہ جس کسی کو فقط اس سے نسبت ہو جائے اس کے بھی وسیلے سے کوئی دعا کی جاتی تو رب اپنی رحمتوں کی بارش ان پر چھما چھم برسانا شروع فرمادیتا تو وہ ہستی کسی کے لئے رب کی بارگا ہ میں دعا کے واسطے اپنے دست مبارک کو بلند فرمائیں تو رب کی کیسی رحمتیں اس شخص پر برستی ہونگی ۔
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ وبحمدہ تعالی
اے گناہگاروں! اے شفاعت کے طلب گاروں! اے غم کے ماروں!
اٹھو ابھی حضور کے دربار میں حاضر ہو کر حضور علیہ السلام سے اپنی حاجات و پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے عرض کرو خدا کی قسم گر یہ دست پاک تمہارے واسطے اٹھ گئے ۔۔۔تو تمہارا بیڑہ پار ہے اور کیوں نہ اٹھے سرکار ﷺ کے دست اقدس کے آپ ﷺ کو رب تعالی نے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا آپ ﷺ کو نرم دل بنا کر بھیجا ہے۔
رب تعالی فرماتا ہے
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنۡتَ لَہُمْ ۚ وَلَوْ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الْقَلْبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنْ حَوْلِکَ ۪ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الۡاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾
تو کیسی کچھ اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہاری گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللّٰہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللّٰہ کو پیارے ہیں
العمرآن آیت 159
تشریح:
شفاعت کرنا یہ بھی از قسم وسیلہ اور دعا ہی ہے کہ نبی علیہ السلام حق تبارک وتعالی کے حضور اپنے گناہگار امتی کے گناہوں کی معافی کی دعا کریں گے اور رب تعالی اپنے بندوں کواپنے حبیب علیہ السلام کے طفیل(وسیلہ سے) معاف فرمائے گا۔ سبحان اللہ
معاف رب نے ہی فرمانا ہے مگر اپنے حبیب کی شان بھی دِکھانا ہے ۔
دلیل نمبر8 حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا :
(اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ)
یعنی :اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔: غیر مقلدین کے مشہور و مستند عالم اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں
قال الشيخ الألباني : صحيح
ترمذی شریف، کتاب الدعوات حدیث نمبر: 3578، دار إحياء التراث العربي - بيروت
ابن ماجه شریف، کتاب الإقامة الصلاة والسنة فيها، حدیث نمبر : 1385، دار الفكر - بيروت
تشریح:
سبحان اللہ نبی پاک ﷺ خود اپنے وسیلے سے دعا کرنے کا طریقہ بیان فرما رہے ہیں اور چاہتے تو صحابی کواس نماز کا حکم نہ دیتے بلکہ فورا ان کے واسطے دعا فرماتے مگر چونکہ اپنے گناہگار امتیوں کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کرنا مقصود تھا ۔۔۔کہ،، اے میرے امتیوں میرے وسیلے سے دعا کرنا چاہتے ہو تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی پابندی کرنا ۔۔۔کسی حال میں بھی نماز قضا نہ کرنا۔۔۔ کہیں ایسا نہ کرنا کہ میرے نام کے وسیلے سے دعا مانگتے رہو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز سے غفلت برتو۔۔۔ بلکہ اس عمل کو غو ر سے دیکھ لو کہ میرا صحابی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک(بینائی) کے لئے آیا تو میں نے اس کواپنی آنکھوں کی ٹھنڈک (نماز) کا حکم دیا اور پھر اپنے وسیلے سے دعا کرنے کو کہا۔
تو آج وہ حضرات اپنے اعمال پر غو ر کریں کہ جو نبی علیہ السلام کے سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں مگر اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کوحاضر نہیں ہوتے شریعت پر عمل نہیں کرتےاور حالانکہ نبی علیہ السلام نماز سے کس قدر محبت فرمایا کرتے تھے روایتوں میں آتا ہےکہ آپ علیہ السلام جب کبھی کسی اہم کام کی طرف متوجہ ہوتے تو سب سے پہلے اپنے رب عزوجل کے حضور نماز کے لئے حاضر ہوتے تو نبی کے علیہ السلام کے و سیلہ سے دعا مانگنے کے ساتھ نبی علیہ السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کو بھی اپناؤ یہی حقیقی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
گزشتہ مضمون سےہم نے جب اس بات کو قرآن و احادیث مبارکہ سے جان لیا۔ کہ،، حضرات انبیاء کرام و اولیائے کاملین کے وسیلہ کا انکار قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔۔۔ بلکہ قرآن حدیث سے وسیلے کے جائز ہو نے کا اثبات ہے ۔توا ب اگر دِل میں یہ وہم پیدا ہو۔ کہ۔۔ ان آیا ت واحادیث سے ظاہری زندگی میں وسیلہ بنانے کا بیان ہے۔۔۔۔ اگرچہ بعد از وفات وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔مگر کیا دنیا میں تشریف آوری سے قبل اور دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی وسیلہ بنانے پر کوئی واضح دلیل ہے۔۔۔ ؟
تو آئیے اس وہم کا ازالہ فرمایئے
بعثت سے قبل اور بعد از وفات ظاہری وسیلہ بنانے کی دلیل
بعثت سے قبل
نبی پاک علیہ السلا م کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل پچھلی امتیں آپ ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے تو رب تعالی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے انکی خالی جھولیوں کو مراد سے بھر دیتا۔
دلیل نمبر9
وَلَمَّا جَآءَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ۙ وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾
اور جب ان کے پاس اللّٰہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے تو اللّٰہ کی لعنت منکروں پر۔
(سورہ البقرۃ آیت 89)
دلیل نمبر10
سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے:
فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں روایت مذکور ہے :
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد-
ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس حدیث کی سندصحیح ہے۔
مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194- معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-
دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 –
مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت
كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -
تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد
تشریح
جب نبی کریم ﷺ کی بعثت(دنیا میں تشریف آوری) سے قبل آپ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز تھا تو آپ علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد ممانعت کیونکر بغیر کسی دلیل کے مانی جائے۔
سبحان اللہ ذرا غور فرمائیے کہ انسان کوجب زمین پر بھیجا گیا تو رب تعالی نے انسان کی سب سے پہلی دعا جو قبول فرمائی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تھی اور وہ دعا بھی ہمارے نبی علیہ السلام کےوسیلہ سے قبول فرمائی گئی ۔
اور کل بروز قیامت میدان حشر میں بھی سب سے پہلی دعا جو قبول کی جائے گی وہ بھی نبی علیہ السلام کے وسیلے سے کی جائے گی تمام لوگ انبیاء کرام علیھم السلام کی خدمت میں حاضر ہونگے مگر لوگوں کی مراد پوری ہمارے نبی علیہ السلام فر مائیں گے آپ ﷺ رب تعالی سے جلد حساب شروع فرمانے کی دعا فرمائیں گے اور رب تعالی دعا قبول فرمائے گا اور یہ نعمت بھی اپنے محبوب علیہ السلام کے وسیلہ سے عطا فرمائے گا ۔
درحقیقت بات یہ ہے کہ رب تعالی اپنے حبیب ﷺ کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو وجہ تخلیق کائنات بتلایا اور جب انسان کو زمین پر اتارا تو نبی علیہ السلام کی شان دیکھائی جب انسان کوقبر میں اتارا جاتا ہے تو وہاں بھی اپنے نبی کی شان دیکھاتا ہے اور جب حشر کا میدان ہوگا وہاں بھی اپنے نبی علیہ السلام کی دعا سےحسا ب شروع فرماکر ان کی شان دیکھائے گا کوثر عطا و مقام محمود عطافرماکر اپنے حبیب علیہ السلام کی شان دیکھائے گایہ نبی علیہ السلام کو رب نے ایسے اوصاف عطا فرمائے ہیں کہ ایسی شان کسی اور نبی علیہ السلام کو رب کائنات جل جلالہ نے عطا نہ فرمائی ۔
بعد از وفات ظاہری
دلیل نمبر11
امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ،،
حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی ۔
حوالہ۔۔
المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311
شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371، دار الکتب العلمیۃ
احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی میں اور
امام جلال الدین سیوطی نے الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے
حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں
اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے
بلکہ ابن تیمیہ نےکہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کوفتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح فرمایا ہے
تشریح
اس سے معلو م ہوا کہ صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف نے نبی کریم ﷺ سے توسل کو فقط آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہ کیا بلکہ صحابی رسول ﷺ نے اس توسل کے طریقہ کو نبی علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی جاری رکھا تو جب صحابی رسول ﷺ کا خود کا عمل یہ واضح کررہا ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا وسیلہ بعد آپ ﷺ کی و فات ظاہری کے بعد بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیاتی میں جائز امر تھااگر بعد وفات ناجائز ہوتا تو نبی پاک علیہ السلام کے صحابی ہرگز اس طرح کےعمل کی تعلیم کسی دوسرے کو نہ دیتے اور و ہ صاحب قرون ثلاثہ بھی اس عمل کو نہ اپناتے بلکہ ناجائز ہی بتلاتے لہذا صحابہ کا بعد وفات ظاہری بھی اس عمل کو جاری رکھنا اس کے جائز ہونے پرواضح دلیل ہے۔
نیز اگر بعد از وفات یہ ناجائز ہوتا تونبی پاک علیہ السلام بھی جب اپنے صحابہ کو اپنے وسیلہ سے دعا کی تعلیم ارشاد فرمارہے تھے ضرور اس بات پر بھی متنبہ فرماتے کہ اے میر ے صحابی میرے وسیلہ سے دعا تم میری حیاتی تک کرنا اس کے بعد نہ کرنا کیو نکہ یہ ایک لازمی امر ہے جب نبی پاک ﷺ نے اپنے وسیلہ سے دعا کی مطلق تعلیم دی تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرنا آپ ﷺ کی حیاتی میں ا ورظاہری وفات کے بعد بھی جائز ہے اسی لئے حضرت عثمان بن حنیف نے نبی پاک علیہ السلام کے پردہ فرماجانے کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھاکیونکہ کوئی ایسا قرینہ تھا ہی نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ یہ حکم فقط نبی پاک علیہ السلام کی حیات مبارکہ تک ہے۔
دلیل نمبر12
امام بخاری علیہ رحمۃ الباری کے استاد امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتا ب مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت بیان فرماتے ہیں
حَ
دَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ.
مالک بن دینار جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے . اور پھر آقا علیہ السلام کے وسیلہ سے خوب بارش ھوئی۔