وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (انعام 60)
لفظی ترجمہ:
وَهُوَ [ اور وہ ] الَّذِيْ [ وہی ہے جو] يَتَوَفّٰىكُمْ [ پورا پورا لے لیتا ہے تم لوگوں ] بِالَّيْلِ [ رات میں ]وَيَعْلَمُ [ اور وہ جاتنا ہے ] مَا [ اس کو جو ] جَرَحْتُمْ [ تم لوگوں نے کمایا]بِالنَّهَارِ [ دن میں] ثُمَّ [ پھر] يَبْعَثُكُمْ [ وہ اٹھاتا ہے تم لوگوں کو ] فِيْهِ [ اس میں ] لِيُقْضٰٓى [ تاکہ پورا کیا جائے ]اَجَلٌ مُّسَمًّى ۚ [ مقررہ مدت کو ] ثُمَّ [ پھر] اِلَيْهِ [ اس کی ہی طرف] مَرْجِعُكُمْ [ تم لوگوں کے لوٹنے کی جگہ ہے ] ثُمَّ [ پھر ] يُنَبِّئُكُمْ [ وہ جتادے گا تمہیں] بِمَا [ وہ جو] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (60) [ تم لوگ کیا کرتے تھے ]
ترجمہ باعتبار عربی گرائمر:
(6:60) یتوفکم مضارع واحد مذکر غائب، توفی مصدر۔ (باب تفعل) کم ضمیر مفعول ۔ تمہاری جانوں کو لے لیتا ہے۔ یا لے لیگا۔
یہاں توفی کا لفظ نیند کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ نیند بھی موت کی بہن ہے۔
جرحتم۔ تم نے کمایا۔ (باب فتح) جرح سے جس کے معنی زخمی کرنے کمانے اور کسی میں طعن کرنے کے ہیں۔ یہاں کمانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یقال فلان یجرح لعیالہ۔ وہ اپنے کنبے کے لئے کماتا ہے۔
(6:58) ثم یبعثکم فیہ پھر اٹھاتا ہے تم کو (نیند سے) دن کے وقت ہ ضمیر النھار کی طرف راجع ہے۔
لیقضی اجل مسمی۔ تاکہ پوری کر دی جائے (اس نیند اور بیداری کے تسلسل سے تمہاری عمر کی) میعاد مقررہ۔
اس آیت پر قادیانی دجل و فریب ملاحظہ فرمائیں یہ ترجمہ قادیانیوں کی اپنی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے :

ترجمہ پر غور کریں تو قادیانیوں نے بڑی ہشیاری سے قرآن حکیم میں معنوی تحریف کی ہے اور توفی کا مطلب موت کر دیا ہے اور انڈر بریکٹ بصورت ننید لکھ دیا ہے حالانکہ دنیا کی کسی تفسیر میں یہ ترجمہ کلی طور پر نہیں دیا گیا ۔
اس مقام پر بھی توفی باب تفعل سے ہی ہے اور اگر اس کا ترجمہ موت دینا کر دیا جائے تو معاذ اللہ قرآنی مفہوم ہی الٹ ہو جاتا ہے جو کہ کلام الہی میں بعید ہے ۔ بات وہی ہے کہ توفی کا معنی حقیقی "پورا پورا لے لینے کے ہیں " لیکن معنیٰ مجازی موت پر بھی بولے جاتے ہیں ۔
قرآنی چیلنج:
قرآن حکیم میں جہاں بھی موت کے معنیٰ حقیقی لینے مراد ہوتے ہیں تو مادہ "موت" مات یموت کے استعمال ہوئے ہیں اور آج بھی اگر آپ عرب ممالک کا سفر کریں تو کہیں وفات ہو جائے تو وہ لوگ یہ نہیں کہتے کہ فلاں شخص فوت ہو گیا بلکہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کی موت ہو گئی (یموت ھو) ۔قرآن حکیم نے ایک مقام پر موت کے معنیٰ حقیقی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا "کل نفس ذائقۃ الموت" یعنی ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکنا ہے یہاں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ کل نفس ذائقۃ التوفی کیوں کہ لغت عرب میں موت کے لیے توفیٰ کا معنیٰ حقیقی غیر مستعمل ہے ۔ درحقیقت ہمارے ہاں جو پاک و ہند میں مرنے والے کے لیے فوت کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ معنی مجازی کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے ہاں بزرگان دین و اولیائے کرام کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی موت کو اوپر اٹھنے سے تعبیر دینے کے لیے فوت کا لفظ استعمال کیا جانے لگا جس کا مطلب ہے کہ فلاں بزرگ کی روح اوپر اٹھ گئی ۔
آخری تدوین
: