• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

"ثبوت حاضر ہیں" چیلنج

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
"ثبوت حاضر ہیں" چیلنج
یہ کتاب اپنے اندر قادیانی مذہب کے بانی آنجہانی ،مرزا غلام احمد قادیانی اس کے بیٹوں ،اس کے نام نہاد خلیفوں اور دیگر قادیانیوں کی مستند تصانیف اور اخبارات و رسائل کی قابل اعتراض اور دل آزار کفریا عبارتوں کی عکسی نقول لیے ہوئے ہے قادیانی جرائم کے یہ ثبوت اتنے واضع ہیں کہ دنیا کی کسی نھی عدالت میں ان عکسی دستاویزات کی صداقت کو چیلنج کرنا کسی بھی قادیانی کے لیے ممکن نہیں ۔
میں اس کتاب میں درج تمام حوالوںاور عکسی نقول کے مصدقہ ہونے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اور قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ سمیت دنیا کے تمام قادیانیوں (بشمول لاہوری گروپ) کو چیلنج کرتا ہوں کہ
اگر اس کتاب میں موجود ،کوئی بھی عکس غیر حقیقی ہو،یا میری طرف سے کسی بھی نوع کی ترمیم ہوئی ہو ،کسی قسم کا اضافہ کیا گیا ہو ،یا ایک بھی خانہ ساز حوالہ پایا جائے تو میں اس کے لیے ہر قسم کی سزا پانے کے لیے تیار ہوں !
بصورت دیگر انہیں ضد اور ہٹ دھڑمی چھوڑ کر آخرت کی فکر کرتے ہوئے اسلام کی آغوش میں آجانا چاہئیے۔
ہے کسی قادیانی میں 1.jpg 2.jpg اخلاقی جرات جو میرے اس چیلنج کو قبول کرے؟
محمد متین خالد







 

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
توجہ فرمائیں !
اس کتاب کے 5ابواب ہیں۔
ہر باب ایک مختلف موضوع کا ملکل احاطہ کرتا ہے۔
ان ابواب کے شروع میں قادیانی مذہب کے عقائد و عزائم،ہرزہ سرائیوں ،مضحکہ خیزیوں،تضاد بیانیوں اور کذب و ریا پر مبنی تحریروں کو شمار لگا کر ایک خاص ترتیب سے درج کیا گیا ہے۔
پھر کتاب کے آخر میں اسی ترتیب کے ساتھ اصل قادیانی کتب کے عکس دے دیئے گئے ہیں مثلا “قادیانیت ،انگریز کا خود کاشتہ پودا‘‘ کے باب میں حوالہ نمبر 11کا عکسی ثبوت ،کتاب کے آخر میں حوالہ نمبر 11کے تحت فراہم کردیا گیا ہے۔
قادیانی کتب سے پورے صفحے کا عکس دینے سے قادیانیوں کا یہ اعتراض بھی ختم ہو جاتا ہے کہ انکی کستاخانہ اور متنازع فیہ عبارات سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کی جاتی ہیں۔
قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اس کتاب میں موجود قابل اعتراض ،دل آزار اور توہیں آمیز قادیانی عبارات پڑھتے وقت کثرت سے استغفار کریں۔شکریہ
 

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
قادیانی طلسم ہو شربا کی چند جھلکیاں
28مئی 2010کو جب پاکستان بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یوم تکبیر منا رہا تھا عین اس روز لاہور میں دو قادیانی عبادت گاہوں پر دہشت گردوں کا اچانک حملہ بے حد افسوسناک اور وطن عزیز کے امیج کو قوموں کی برادری میں داغدار کرنے کی ایک ایسی کوشش تھی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہےکیونکہ اسلامی تعلیمات ،بابائے قوم محمد علی جناحؒ کے ارشادات اور آئین ملکی کے مطابق تفادات مذہب و ملت اور رنگ و نسل کے ہر امتیاز کت بغیر تمام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اسے یہ فریضہ پوری قوت سے ادا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرناچاہیئےکہ اس بارے میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں۔لیکن اس سانحہ کی آڑ میں قادیانیوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اخبارات و جرائد میں قومی اسمبلی میں گیارہ روز کی طویل آزادانہ بحث کے بعد کی جانے والی آئینی ترامیم کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کرکے انہیں دستور پاکستان ہی سے نکال باہر کرنے کی جو سعی مذموم شروعکردی اور اس کام کو آگے بڑھانے کے لیئے نام نہاد لبرل ترقی پسند دانشوروں اور امریکی اشیر واد سے چلنے والی اباحیت پسند این جی اووز کو اپنے ساتھ ملا کر نہ صرف اپنے حق میں مظاہرے کرانے کا اہتمام کیا بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے خاندان غلاماں کے مرجھائے ہوئے ایک فرد کو خضاب وخندہ سے معصع کر کےٹی وی چینلوں سے جس انداز میں پاکستانی عوام سے خطاب کرنے کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے جس طرح اپنے آبائی عقائد کو چھپاتےہوئے اپنی امت کو ’’مسلمان‘‘ثابت کرنے کے لیئےتلبیس سے کام لیا۔اس سے گوئبلز تو کیا اس کے آباواجداد کی روحیں بھی شرمسار ہوکر رہ گیئں اور ہر پاکستانی مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کہیں یہ سارا ڈرامہ بھی قادیانی مفادات کو تقویت دینے کے لیئے ہی تو سٹیج نہیں کیاگیا کیونکہ اسے جس طریقے سے قادیانیت کی تبلیغ کے لیئے استعمال کیاگیا اس سے تو یوں لگتا تھا جیسے قادیانیوں کو اس بات کا کھلا لائسنس دے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ارتدی سرگرمیوں کو از سر نو تیز کرکے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اس زار سے حق میں استعمال کریں کہ اس سیلاب بلا خیز میں سب کچھ بہہکر رہ جائے۔زرداری حکومت کی دینی حسیات سے محرومی کی وجہ سے اگر کسی قادیانی ذہن میں یہ خناسیت موجود ہے کہ وہ اس بادر موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اسے فی الفور اس سے نجات حاصل کر لینی چاہیئے کیونکہ پاکستان میں بسنے والے مٹھی بھر سیکولر عناصر ہی کیا امریکہ ،برطانیہ ،اسرائیل اور بھارت سب ملکر بھی آئین پاکستان سے یہ ترمیم ختم نہیں کراسکتے کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اگر اس نے ایسی ناپاک جسارت کی تو پھر چناب نگر کے دوزخی مقبرے میں قادیانیت کی گلی سڑی ہڈیاں نھی محفوظ نہیں رہیں گی۔لیکن اگر فرض محال کے طور پر مان بھی لیا جائے کہ وہ ایسا کرنے میں کبھی کامیاب ہوسکتے ہیں تو پھر بھی ان کے امت مسلمہ میں شامل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کیونکہ قرآن حکیم دو ٹوک الفاظ میں حضور تاجدار مدینہﷺ کو آخری نبی ،دین اسلام کو آخری دین اور فرقان حمید کو آخری کتاب قرار دے چکا ہے۔اس لیئے مرزا غلام احمد کی امت اس کے اضغاث واحلام کو جمع کر کے اور انہیں مجموعہ الہامات شمار کرکے ’’تذکرہ‘‘ کے نام سے خواہ کتنی بھی کتابیں شائع کر ڈالے۔اہ ایسی ہزار کوششوں کے باوجود اسے زمرہ انبیامیں شامل نہیں کرسکتی کیونکہ جب قرآن مجید نہایت واضح الفاظ میں حضورﷺ کو خاتم النبین قرار دے چکا ہے اور آپ ﷺ اپنی زبان فیض ترجمان سے بنفس نفیس لا نبی بعدی کہہ کر اس کی تشریح کر چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں تو پھر کسی ظلی بروزی ،غیر تشریعی یا ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی ہونے کے کسی دعویدارکی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں اور جو کوئی بھی اپنی مسخ شدہ ذہنیت کے تحت ان اصطلاحات سے مسلمانوں کو فریب دے کر انہیں مدینے کی روح پرور فضاوں سے نکال کر چناب نگر کی بنجر ،ویران اور شورزدہ زمین کے سپرد کرنا چاہتا ہے،اسے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر مسلمانوں نے اپنی تمام تر کمزویوں کے باوجود اسودعنسی اور مسلیمہ کذاب کی ’’نبوت‘‘ کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی تو مسلیمہ قادیان سے بھی اس سے مختلف سلوک نہیں کرے گی اور قادیانی خود یہ سوچ لیں کہ اگر امریکہ و برطانیہ کی تمام ترحمایت کے باوجود وہ پاکستان اور جنوبی افریقہ میں ریاستی و عدالتی سطح پر غیر مسلم قرار پا جانے کے بعد انڈونیشیا،ملائشیا اور بنگلہ دیش میں بھی اسی حشر سے دو چار ہونے والے ہیں تو پھر انہیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئےکہ پودا اپنی جنم بھومی سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے،کسی دوسری زمین پر اس کا پھولنا پھلنا تو درکنار ،پھوٹنے کا مرحلہ بھی مہیں آتا۔اس لیئے کہ جعلسازی بہر حال جعلسازی ہوتی ہے اور اس کی حقیقت ایک نہ ایک روز ضرور کھل کر رہتی ہے۔
قادیانیت کے لیئے اپنے ذہنوں میں نرم گوشہ رکھنے والوں یہ بھی غور کرنا چاہیئے کہ اگر فوج اور پولیس کی جعلی وردی پہن کر اپنے آپ کو ان اداروں سے منسوب کرنے والا ریاستی عتاب سے نہیں بچ سکتا تو ظلی بروزی اور غیر تشریعی نبوت کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو صف انبیا میں کھڑا کرنے والا غضب الہٰی سے کیسے بچ سکتا ہے؟
مجھے اس بات سے آگاہی ہے کہ بعض متصوفین نے مبشرات پر مشتمل خوابوں اور رویاوکشوف کو نبوت غیر تشریعی سے تعبیر کیا ہےلیکن وہ اس اصطلاح کو ولایت کے معنوں میں ہی استعمال کرتے رہے ہیں اور کبھی اسے نبوت کے مقام تک لائے لیکن مرزا غلام احمد اور اس کے پیروکاروں نے اسے جس طرح نبوت کی ایک قسم بنا کر پیش کیا ہے اس کی کوئی مثال اہل تصوف تو کیا ،ان کی طرف منسوب کی جانے والی شخصیات تک میں موجود نہیں اور خود بانئ قادیانیت نے اپنی کتاب ’’نورالحق‘‘میں اسے انہی معنوں میں استعمال کیا ہےلیکن جب ذیابطیس اور مراق ایسے عوارض نے گھیرکر اس پر خبط عظمت کی ایک ایسی کیفیت طاری کردی کہ وہ اپنے آپ کو لک خطاب العزۃ کے تحت اعزازئ طور پر نبی کے لقب سے سرفراز کئے جانے سے آگے بڑھ کر میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں کے نعرے لگانے لگا اور اس کے مریدوں نے نعوذباللہ اس کی آمد محمد رسول اللہﷺکی آمد ثانی سے تشبیہ دینے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہ کی اور وہ اسلام کے دو بنیادی عقائد ختم نبوت اور جہاد دونوں کا انکار کر کے الہامی بنیادوں پر اہل فرنگ کی غلامی کو آزادی پر ترجیح دینے پر فخر کرنے لگا تو اس پر حریت پسند مسلمان اس سے صرف یہی کہہ سکتے تھے

سنو اے ساکنان ارض پستی
ندا کیا آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
لیکن وہ اپنی خوئے غلامی میں اس قدر پختہ تھاکہ 1857کی جنگ آزادی کو غدر ،مفسدہ اور انگریز سے برسرپیکار مجاہدین کو حرام زادہ تک لکھتے ہوئے بھی عار اس کے قلب و ذہن کے قریب تک پھٹکنے کی جرآت نہیں کرتی تھی۔اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ جوشخص
تاج س تخت ہند قیصر کو مبارک ہو مدام
ان کی شاہی میں،میں پاتا ہوں رفاہ روزگار
کا ورد کرتے ہوئے تحفہ قیصر یہ اور ستارہ قیصرہ ایسے ’’قصیدے‘‘لکھ کر اہل فرنگ کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے اور ان کے لیئے رحمدل اور مہربان حکومت کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی باک محسوس نہ کرتا ہو اور ان کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیئے جہاد کو منسوخ اور حرام قرار دے کر اپنے آپ غیر تشریعی نہیں بلکہ باقاعدہ صاحب شریعت انبیا کی صف میں شامل کرنے کی ناپاک جدوجہد کرنے میں مصروف ہو،اس کے بارے میں یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ انگریز کی غلامی سے سرتابی کی جرآت کرکے عوام کو آزادی کا درس دے گا؟قرآن کریم کے فرمان کے مطابق تو نبی کا بنیادی کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے ذہنوں کوجکڑ کر رکھنے والے تمام طوق و سلاسل کو توڑ کر انہیں آزادی کی راہ پر گامزن کرتا ہے ۔لیکن قادیان کا یہ نام نہاد نبی بڑا عجیب ہے کہ وہ لوگوں کو آزادی کی جانب دعوت دینے کی بجائے ان کو غلامی کی تلقین کرنے میں عافیت محسوس کررہا ہے۔اس نوع کے غلام ابن غلام قومی آزادی کی تحریکوں کے لیئے جتنا بڑا خطرہ ہیں ،ان کے بارے مین کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سب ظاہر وباہر ہے۔
 

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
ہمارے بعض سیکولر کالم نگار کہتے ہیں کہ 1965کی جنگ میں تو قادیانی جرنیلوں نے بڑی قربانی دی تھیں اور اختر ملک نے اکھنور تک پہنچ کر بہت بڑا معرکہ سرکر لیا تھا۔تاریخ سے نا واقف ان لکھاریوں کو اس بات کا علم نہیں کہ ایوب خان اور ذولفقار علی بھٹو دونوں کواپنے دام ہمزنگ زمیں پھنسا کر کشمیر میں مداخلت کار بھجوانے پر آمادہ کرنے والے بھی قادیانی ہی تھے اور اپنے ’’متنبی کی تعلیمات سے بھی ان کے انحراف کرنے کا سبب یہی تھا کہ وہ سب مرزا غلام احمد کے’’کشف‘‘ کو پورا کرنے کے لیئے کشمیر کی گلی سے ہو کر قادیان جانے کی تمنا اپنے دل میں بسائے بیٹھے تھے اور اس جنگ کا ہی یہ ثمر تھا کہ پاکستان اپنی ترقی کی منزل سے 50برس پیچھے چلا گیااور آج قادیانی نہ صرف اسرائیل میں اپنا مشن چلا رہے ہیں بلکہ بھارت میں بھی نئی دہلی کے حکمرانوں سے نت نئی مراعات لے رہے ہیں۔لیکن افغانستان،کشمیر اور فلسطین تینوں جگہوں پر چلنے والی قومی آزادی کی تحریکوں کے وہ مخالف ہیں اور مسلئہ کشمیر اور فلسطین دونوں کو الجھانے میں انہوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔میاں افتخارالدین نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے تاریخی خطاب میں کہا تھا کہ ظفراللہ خان نے اپنی بے معنی اور طویل تر تقریروں سے مسلئہ فلسطین کو الجھا کر رکھ دیا اور یہی بات برنگ دگر کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ظفراللہ خان نے مسلئہ فلسطین کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کمی نہیں کی،اسے کرنا بھی یہی کچھ تھا کیونکہ جو شخص قومی آزادی کی لذت سے ہی آشنا نہیں،وہ آزادی اور جہاد کی قدروقیمت کیا جانے،اسی پس منظر میں یاد آیا کہ ایک دفعہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں ایک فلسطینی نوجوان سے میری اس موضوع پر بات ہورہی تھی۔میں نے اس سے پوچھا کہ تم اپنے ملک میں قادیانیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہوتو اس نے کہا کہ ہم قومی آزادی کے ان دشمنوں کو یہودیوں سے بدتر سمجھتے ہیں کہ وہ کھلے دشمن ہیں اور یہ چپھے منافق،جو مشرق اوسط میں آتے ہی اس لیئے ہیں کہ جاسوسی کرکے اپنے آقایان والی نعمت کا حق ادا کرسکیں اور وہ یہ فریضہ اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرتے ہیں،اس لیئے ان پر اعتبار کرنا ممکن نہیں۔جنرل ضیاالحق مرحوم ایک مرتبی جب امریکہ کے دورے پر گئےتوامریکی حکام سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کے دوران سی آئی اےکے ذمہ داراں نے ان کے سامنے ایسے ایسے انکشافات کئے کہ جنرل مرحوم انگشت بدنداں ہوکر رہ گئے۔واپس آکر انہوں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ سب کچھ ڈاکٹر عبدالسلام کا کیا دھرا تھا جنہوں نے ڈایا گرام تک امریکہ کے حوالے کر دیئے تھے۔جس پر اسے فوری طور پر چلتا کردیا گیا تو اس نے اٹلی میں ایک جدید سائنسی ادارہ بنا کر اس میں دھڑادھڑ قادیانیوں کو بھرتی کرلیا تاکہ وہ دآشتہ آید بکار کے طور پر آئندہ کی ضروریات کے کام آیئں۔
سیاسی ،سفارتی اور مذہبی محاذ پر قادیانیوں کی یہ قلابازیاں مسلسل جاری ہیں اور مرزا غلام احمد کی تدریجی نبوت سے لے کر اب تک اس کی مثالیں جگہ جگہ بکھری نظر آتی ہیں۔بہت کم قادیانیوں کو اس بات کا علم ہے کہ مرزاناصراحمد نے ایک بار ترنگ میں آکر منڈی بھاوالدین کی قادیانی عبادت گاہ میں یہ ویاکھیاں بھی دے دیا تھا کہ آخری زما نے میں جس نے آناتھا،وہ مرزاغلام احمد کی صورت میں آچکا ہے اور اب اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس زمانے میں منڈی بھاوالدین میں مقیم قادیانی مربی مجھ سے خاصی کھلی ڈلی گفتگو کر لیتے تھے۔کہنے لگے کہ اس موقع پر میرے دل میں فوراََ یہ خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود پر ہی ختم کرنا تھا تو پھر اجرائے نبوت کا پنگا لینے کی ضرورت تھی نہ خاتم النبین کے معنی آؒخری نبی کی بجائے نبیوں کہ مہر کر کے نبوت کی ٹکسال کھولنے کا کوئی فائدہ۔لیکن میں اپنی الاونس والی ملازمت کے چلے جانے کے


  • جاری ہے
 

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
لیکن میں اپنی گزارہ الاونس والی ملازمت کے چلے جانے کےخوف سے دبک کر بیھٹا رہا کہ اس عمر میں کوئی دوسری ملازمت مل سکتی ہے نہ نئے تعلقات ہی بنائے جا سکتے ہیں لیکن یہی بات دوسرے کئی حاضرین کے لیئے بھی تعجب کا باعث بنی اور انہوں نے وہاں پر موجود ’’مورکھ احمدیت‘‘مولوی دوست محمد شاہد کو آڑے ہاتھوں لیا جو اس ناگہانی صوتحال سے بڑی مشکل سے جان چھڑا کر بھاگے ۔اس قسم کے مضحکہ خیز تماشوں سے قادیانی امت کی پوری تاریخ بھر پڑی ہے لیکن اس کے باوجود وہ سوچنے سمجنے کے لیئے تیار نہیں اور نحن علی ملتہ آباأنا کی پرانی روش پر پوری ھٹ دھرمی سے قائم رہ کر اپنے ’’پیدائشی احمدی‘‘ ہونے پر فخر کرتے رہتے ہیں حالانکہ کوئی شخص خواہ پیدائشی طور پر ذہنی توزان سے محروم ہو یا اس کے بعد اس حات کو جا پہنچے تو دونوں کیفیتیں کس طرح موجب افتخار نہیں ہوسکتی۔ان تاویلات نے قادیانیوں کی ذہنوں کی برین واشنگ کر کے انہیں کس طرح کو نواقردۃ خاسین کی صف میں لا کھڑا کیا ہے،اس کا اندازہ اس امر ہوسکتا ہے کہ حضورﷺ کے معراج جسمانی کو تو خلاف عقل قرار دیتے ہوئے اسے ایک خواب ۔رویا اور کشف سمجھتے ہیں لیکن مرزا غلام احمد کے سرخی کے چھینٹوں والے’’کشف‘‘کو حقیقی خیال کرتے ہیں اور اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ مرزا غلام احمد نے خوابیدگی کی حالت میں یہ منظر دیکھا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور کوئی فائل دستخوں کے لئے پیش کررہا ہے جس پر ذات باری نے اپنے دستخط کرنے کے لئےقلم اٹھا کر اسے سرخ روشنائی سے بھری ہوئی دوات میں ڈبویا تو اس کی نب پر بہت زیادہ مواد لگ گیا جو چھڑکا گیا تو اس کے چھینٹے عالم بیداری میں بھی مرزا غلام احمد کی چادر پر پڑے ہوئے تھے۔بعد میں یہ چادر اس کے ایک صحابی عبداللہ سنوری نے لے لی جو آج بھی قادیانی امت کے لئے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اور کوئی قادیانی یہ سوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا کی حضورﷺکا معراج مبارک اگر بقول ان کے ایک خواب تھا تو خواب پر تو کوئی احمق بھی اعتراض نہیں کرسکتا،زبان و بیان کےماہر اکابریں قریش جن میں سے ہر فردانسان ہونے کے ناطےخواب دیکھتا تھا،وہ اس پر کیسے معترض ہوسکتے تھے؟اعتراض تو کسی غیر معمولی اورخارق عادت واقعہ پر ہی کر سکتے تھے۔محمدﷺ کے اس معجزاتی سفر کو قادیانی ماننے کے لئے تیار نہیں مگر مرزاغلام احمد کے سرخی کے چھینٹوں والے خواب کو حقیقت پر محمول کرنے کو وہ نہ صرف ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں اس میں کوئی بات خلاف عقل بھی نظر نہیں آتی۔مرزا غلام احمد بے اپنی پہلی بیگم حرمت بی بی کی بے حرمتی کرنے کے بعد اسے ایک معلقہ کی طرح چھوڑ دینے کے بعد اپنے ہی خاندان کی ایک رشتہ دار لڑکی محمدی بیگم سے نکاح کے لئے جتنی جدوجہد کی،جس قدر آہیں بھریں،جس قدر پیشنگوئیاں کیں اور اس آسمانی نکاح کو زمین پر وقوع پذیر کرنے کے لئے جو کچھ کیا،وہ اس شخص کی اخلاقی حالت،نفسیات اور سماجی شعورپر ایک افسوسناک تبصرہ ہے لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود وہ مرزا غلام احمد کے ہاتھ نہ آسکی اور قادیانی امت کے ناظر اصلاح وارشاد قاضی نذیر آنجہانی کو مجبوراََاسکی یہ تاویل کرنا پڑی کہ یہ حضرت صاحب کی اجتہادی غلطی تھی۔حضرت عیسٰیؑ کےرفع الی اہلسمأکے بارے میں مرزا غلام احمد وہی عقیدہ رکھتاتھا جو جمہور مسلمانوں کا ہے اور اس کا اظہار اس نےاپنی متعدد کتب میں اتنے زور اور تواتر سے کیا ہے کہ اس نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔لیکن پھر جب مرزاغلام احمد کے دل میں خود ’’منصب نبوت‘‘پر براجمان ہونے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی اور حقیقتہ الوحی میں ایک سو سے زائددس روپے کی آمدکے بارے میں ہونے والے’’الہامات‘‘نے ان کی معاش کو بھی خاصامظبوط کردیا تو پھر انہوں نے فوراََ اپنا پینترا بدل کر وفات مسیح کا اعلان کرنا شروع کردیا اور کہا کہ میں کیا کروں خدا کی طرف سے بارش کی طرح نازل ہونے والی وحی نے مجھے اپنےپرانے موقف پر قائم نہیں رہنے دیا اور اب قادیانی اجرائے نبوت سے بھی کہیں زیادہ،وفات مسیح کا راگ الاپ رہے ہیں کہ اگر اصل مسیح یعنی عیسٰیؑ کی آمد ثانی امت مسلمہ کے معتقدات میں ایک مرکزی حیثیت کی حامل رہے گی تو پھر مرزاغلام احمد قادیانی کو مثیل مسیح بنانے کے لئے نہ قادیان کا جعلی منارۃالکسیح کام دے گااور نہ ہی قادیان دمشق بن سکے گا۔آخر قادیانی کب تک یہ اجتہادی غلطیاں کرتے جایئں گے۔میں نے تو چند سطور میں قادیانی طلسم ہوشرباکی چند جھلکیاں آپ کو دکھائی ہیں۔تا ہم اگر آپ ان بھول بھیلوں کی ذرا تفصیل سے سیر کرنا چاہتے ہیں تو برادر محمد متین خالد کی کتاب ’’ثبوت حاضر ہیں‘‘کا مطالعہ کریں اور مرزا غلام کی کتابوں کے متعلقہ حولہ جات کی عکسی تصاویر کے ساتھ دیکھیں کی ’’نابغہ روزگار‘‘کو تاریخ اسلام اور حضورکی سوانح سے اتنی گہری واقفیت ہے کہ اسے نہ یہ علم ہئ کہ آپﷺکے والد گرامی اور والدہ ماجدہ کی وفات کب ہوئی اور نہ یہ شناسائی کہ آپ کے کتنے بیٹے تھے۔مان لیا کہ ان کا حافظہ کسی قدر کمزور تھا لیکن اگر اس نے حضور کت بیٹوں کی تعداد گیارہ تک پہنچا ہی دی تھی تو کسی مرید کو ہی اس کی اصطلاح کردینی چاہیئے تھی یا کم ازکم اس کی مدد کے لئے مامور فرشتے ٹیچی ٹیچی کو ہی ٹچ کر کے عین وقت پر پہنچ کر اسے اس سنگین غلطی سے متنبہ کر دینا چاہئے تھا۔گو جھوٹ کے پاؤں تلاش کرنے کے لئے بہر طور کچھ وقت چاہئے لیکن کوئی عذر لنگ ترشنے کے لئے 105برس کی مدت کچھ کم نہیں۔محمدمتیں خالد نے اپنی تحقیقی کتاب میں اس حوالے سے اتنا کچھ اکٹھا کردیا ہےکہ میں بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے تن تنہا وہ کام کر دکھایا ہے جو مالی وسائل پر اجارہ داری رکھنے والے اداروں اور جماعتوں کو کرنا چاہئے تھا لیکن شائد تقدیر کا چلن یہی ہے کہ افراد ہی سے کام لیےی اور پھر اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔

نسیم شاہ​
 
مدیر کی آخری تدوین :

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
قادیانیت انگریز کا خودساختہ پودا
اللہ تعالیٰ کی رضا اوردین اسلام کی بقا کےلئے اپنی جسمانی طاقت و توانائی کو راہ خدا میں بے دریغ صرف کرنا شریعت کی اصطلاح میں جہاد کہلاتا ہے۔اس کے برعکس اگر لڑائی میں مال وزرکا حصول،قوت وشوکت کی نمود،سامان حرب کی نمائش ،شجاعت ومردانگی کا اظہار،سلطنت و حکومت کی توسیع ،شہرت و ناموری کا شوق،لشکر کشی کا غلغلہ یا دوسروں کوزیر کرنے کا جنون پیش نظر ہو،توپھر یہ جہاد نہیں ہوگا بلکہ جنگ ہوگی جو دینی نقطہ نگاہ سےبےمقصد ہے۔اسلام میں وہ لڑائی معرکہ حق وباطل اور جنگ و قتال،جہادہےجواللہ اور اس کے رسولﷺکی خوشنودی کےلئے لڑی جائے۔مدعااورمقصد فقط دین اسلام کی سربلندی ہو۔ایسی لڑائی دنیاوی،نفسانی اور شیطانی خواہشات واغراض سے یکسرپاک ہو۔اس راہ میں لڑنے والے کا صرف ایک ہی نصب العین،ایک ہی جذبہ،ایک ہی شوق اور ایک ہی ولولہ ہو کہ اس کا مالک حقیقی اس سے راضی ہوجائے۔بقول علامہ اقبالؒ
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
ایمان کے بعد اہم ترین فرض،دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد ہے۔جہاد،بنیادی قانونِ خداوندی،دین اسلام کا اہم ستون اور عبادت ہے۔عقیدہ جہاد کو اسلام میں بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ جہاد کی انفرایت یہ ہے کہ وپ کفر اور اسلام میں تمیز کرتا ہے۔جہاد ہی ایسا عمل ہے جو دین کی ترویح وترقی اور بلندی کا باعث بنتا ہے۔حضورسرورِدو عالمﷺکے نزدیک جہاد تمام عبادتوں سے افضل عبادت ہے۔قرآن مجید میں کئی مقامات پر جہاد کی یہ عظیم عبادت مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔​
 

نسیم شاه

رکن ختم نبوت فورم
  • مسلمانوں تم پر قتال فرض کردیا گیا-وه تمهیں (طبعا)ناگوار تو هوگامگر عجب نهیں که ایک چیز تمھیں بری لگے اور وه تمھارے حق میں بھلی هو۔اور عجب نهیں که ایک چیزتم کو بھلی لگے اور وه تمھارے لیۓ مضر هواور(ان باتوں کو)الله تعالی هی بهتر جانتے هیں اور تم نهیں جانتے(ابقرة 216)
 
Top