• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ثبوت حیات مسیح علیہ السلام از احادیث نبویہ

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
پہلی حدیث:
عَنْ جَابِرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ عُرِضَ عَلَیَّ الْاَنْبِیَائِ فَاِذَا مُوْسٰٓی ضَرْبٌ مِّنَ الرِّجَالِ کَانَّہٗ مِنْ رِّجَالِ شَنُوْئَ ۃَ وَرَاَیْتُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ فَاِذَا اَقْرَبُ مَنْ رَأَیْتُ بِہٖ شَبَھَا عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ۔ (اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۹۵ ج۱ کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللہ ﷺ و مشکوٰۃ ص ۵۰۸)
''حضرت جابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ معراج کی رات انبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ موسیٰ علیہ السلام تو دبلے پتلے تھے گویا قبیلہ شنوہ کے مردوں سے ملتے ہیں۔ اور عیسیٰ مشابہ تھے ساتھ عروہ بن مسعود کے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم رسول اللہ جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا ہوا ہے۔ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مشابہ ہیں اسے ملحوظ رکھ کر دوسری حدیث ملاحظہ ہو:
دوسری حدیث:
اسی مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکلے گا دجال پس رہے گا (زمین پر) چالیس (راوی حدیث کہتا ہے) نہیں جانتا ہوں میں کہ چالیس کے لفظ سے سال مراد ہیں یا مہینے یا دن۔ فرمایا آنحضرت نے فَیَبْعَثُ اللّٰہُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ کَاَنَّہٗ عُرْوۃُ بْنُ مَسعود فیطبلہ فیھلکہ ۔ پس بھیجے گا اللہ تعالیٰ عیسیٰ ابن مریم کو گویا وہ عروہ بن مسعود ہے پس وہ ڈھونڈیں گے دجال کو پس ہلاک کریں گے اس کو۔( ایضاً ج ۲ کتاب الفتن باب ذکر الدجال واحمد فی مسندہ ص۱۶۶ ج۲ و مشکوٰۃ ص۴۸۱ باب الا تقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس) (مشکوٰۃ باب لاتقوم الساعۃ)
پہلی حدیث میں جس مسیح ابن مریم کو آسمان پر دیکھا دوسری میں اسی کا نزول بتایا پس ثابت ہوا کہ وہی حضرت مسیح ابن مریم رسول اللہ تشریف لائیں گے نہ کہ کوئی دیہاتی مولود۔
تیسری حدیث:
'' حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا انبیاء کی چار سنتیں مشترکہ ہیں (۱) حیا (۲) ختنہ کرنا (۳) خوشبو لگانی اور مسواک کرنی (۴) والنکاح۔'' (اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۴۲۱ ج۵ والترمذی مع تحفہ ص۱۶۶، ج۲ کتاب النکاح باب ماجاء فی فضل التزویج والحث علیہ وقال حدیث حسن غریب، و مشکوٰۃ ص۴۴ باب السواک)
چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت ضروریہ کا یوں اثبات فرمایا کہ:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ وَیَمْکُتُ خَمْسًا وَاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیَ فِی قَبْرِیْ۔ (کتاب الوفاء ومشکوٰۃ ص ۴۸۰ وعسل مصفٰی ص۴۴۱ ج۲)
'' عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ زمانہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم زمین پر اتریں گے اور نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور پینتالیس سال دنیا میں رہیں گے اور پھر فوت ہوں گے پس میرے پاس میرے مقبرے میں دفن ہوں گے۔''
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملحق ہوگی اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہوں گے۔ اس کی مثال مرزا صاحب کی تحریر میں بھی ہے۔ حضرت ابوبکر و عمرw کی قبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ ان کے متعلق مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' ان کو یہ مرتبہ ملا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ملحق ہو کر دفن کئے گئے کہ گویا ایک ہی قبر ہے۔'' (نزول المسیح ص۴۷ و روحانی ص۴۲۵، ج۱۸)
جو مطلب و مراد اس تحریر کی ہے وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے فقرہ یدفن معی فی قبری کے اصلی معنی یہ ہیں کہ وہ میرے ساتھ ایک ہی روضہ میں دفن ہوگا۔ جو حضرات عربی ادب سے ذوق رکھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ '' فی '' سے مراد کبھی قرب بھی ہوتا ہے جیسے ب ورک من فی النار (پ ۱۹ النمل ) یعنی موسیٰ علیہ السلام پر برکت نازل کی گئی جو آگ کے قریب تھے نہ کہ اندر۔
مرزا صاحب بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں اور لکھتے ہیں'' اس حدیث کے معنی ظاہر پر ہی عمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔(ازالہ اوہام ص۴۷۰ و روحانی ص۳۵۲ ج۳)
ایسا ہی مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین فصل ثانی میں حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا۔ تورات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت میں یہ مرقوم ہے ک ہ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ یُدْفَنَ مَعَہٗ قَالَ اَبُوْ مَوْدُوْدٍ قَدْ بَقِیَ فِی الْبَیْتِ مَوضِعُ قَبْرٍ (اخرجہ الترمذی مع تحفہ ص۲۹۵، ج۴ کتاب المناقب باب ماجاء فی فضل النبی ﷺ و مشکوٰۃ ص ۵۱۵)۔ عیسیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہوگا ابو مودود راوی حدیث جو صلحاء و فضلاے مدینہ شریف میں سے تھے فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں ابھی ایک قبر کی جگہ باقی ہے، یونہی تفسیر ابن کثیر میں ص۲۴۵، ج۳ زیر آیت ان من اھل الکتب بروایت طبرانی ابن عساکر تاریخ بخاری حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کی ہے کہ حضرت مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں دفن ہوں گے اور ان کی قبر چوتھی ہوگی۔ فیکون قبرہ رابعا ۔ (اخرجہ البخاری فی التاریخ الکبیر ص۲۶۳، ج۱ فی ۱ فی ترجمۃ محمد یوسف بن عبداللّٰہ بن سلام و الطبرانی فی معجمہٖ کزافی مجمع الزوائد ص۲۰۹، ج۸ کتاب الانبیاء باب زکر المسیح عیٰسی بن مریم وقد اوردہ السیوطی فی الدر المنثور ص ۲۴۵ ج۲ وابن عبداللہ فی التمھید ص۲۰۲ ج۱۴۔)
ان احادیث صحیحہ سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی زندہ ہیں جو زمین پر اُتریں گے چالیس سال گزار کر پھر وفات پائیں گے اور حجرہ نبویہ میں مدفون ہوں گے۔ یہ روایت بالکل صحیح ہے چنانچہ مرزا صاحب نے بھی اسے مانا ہے بلکہ نکاح محمدی بیگم کے لیے اور لڑکے بشیر کے حق میں اسے دلیل قرار دیا ہے۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ و روحانی ص ۳۳۷، ج۱۱ حاشیہ ؍)
اس حدیث پر مصنف مرزائی پاکٹ نے بہت ہی پیچ و تاب کھایا ہے۔ مگر چونکہ اس کا سارا زور صرف اسی بات پر صرف ہوا کہ قبر سے مراد روحانی قبر ہے۔ اس لیے ہم اگر جواب نہ بھی دیں تو ہمارے موجودہ استدلال کو مضر نہیں۔ ہمارا استدلال یہ ہے کہ مسیح ابھی زندہ ہے جو زمین پر اُترے گا۔
اب سنیے قبر کی تاویل کا جواب۔ قبر سے مراد اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقبرہ ہے روحانی قبر نہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ کا وہاں دفن ہونے کی اجازت مانگنا اور حضور کا یہ کہہ کر انکار کرنا کہ سوائے چار قبروں کے پانچویں کی گنجائش ہی نہیں۔ صاف اس امر پر دلیل ہے کہ قبر سے مراد مقبرہ اور حقیقی مقبرہ ہے۔ روحانی مقبرہ نہیں۔ خود مرزا صاحب بھی مانتے ہیں کہ قبر سے مراد مقبرہ ہے اور لطف یہ کہ ان معنوں کو تاویلی نہیں بلکہ ظاہری معنے لکھتے ہیں:
'' اس (حدیث) کے معنی ظاہر پر ہی حمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔'' (ازالہ اوہام ص۴۷۰ و روحانی ص۳۵۲، ج۳)
اس پر بھی مصنف پاکٹ بک کی رگ الحاد پھڑکنے سے نہ رُکے تو اسے اپنی پاکٹ بک کا ص۴۸۲ ملاحظہ کرنا چاہیے جہاں ''حدیث'' لکھی ہے کہ مسیح حجرہ نبویہ میں دفن ہوگا۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۸۲ طبعہ ۱۹۳۲ و ۱۰۷۹ طبعہ ۱۹۴۵)
اعتراض:
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ میں دفن ہونا صحیح ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تین چاند کیوں دکھائے گئے؟ پھر تو چار چاند دکھائے جانے چاہیے تھے۔
الجواب:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خواب میں تین چاند اس لیے دکھائے کہ ان کی زندگی میں صرف تین چاند ہی ان کے حجرے میں دفن ہونے والے تھے اور وہ صرف تینوں ہی کو دیکھنے والی تھیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باقی رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دفن ہونے والے نہ تھے اس لیے وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہ دکھائے گئے۔ مزید برآں حدیث نبوی اگر کسی امتی کے خواب کے خلاف یا قول کے خلاف ہونے سے غلط ہو جائے تو آج حدیث کا سارا دفتر مردود ہو جائے گا اور اسلام دنیا سے رخصت۔
چوتھی حدیث:
ہم ثبوت حیات مسیح از قرآن کے ضمن میں ساتویں دلیل کے اندر مسند احمد و ابن ماجہ کی حدیث درج کر آئے ہیں کہ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جناب مسیح نے آخری زمانہ میں نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ذکر کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں وہی زمین پر اُتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ (دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ ۹۳)
پانچویں حدیث:
مشکوٰۃ باب قصہ ابن صیاد میں مذکور ہے حضور علیہ السلام بمعہ صحابہ ابن صیاد کو دیکھنے گئے۔ ابن صیاد کے بارے میں صحابہ کو شبہ تھا کہ یہ ہی دجال نہ ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ائذن لی یا رسول اللّٰہ فاقتلہ فَقَال رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اِنْ یَکُنْ ھُوَ فَلَسْتَ صَاحِبَہٗ اِنَّمَا صَاحِبُہٗ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ (اخرجہ احمد فی مسندہِ ص ۳۶۸ ج۳ و مشکوٰۃ ص۴۷۹ باب قصۃ ابن صیاد وعزاہ الٰی شرح السنہ)۔ اجازت دو مجھ کو یا رسول اللہ کہ میں ابھی اسے قتل کردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ ابن صیاد دجال ہے تو پھر تو اُسے قتل نہ کرسکے گا۔ کیونکہ اس کا قتل عیسیٰ علیہ السلام بن مریم کے ہاتھوں ہوگا۔ مرزا جی بھی یہی لکھتے ہیں:
'' آنحضرت نے عمر کو قتل کرنے سے منع (کیا اور فرمایا) اگر یہی دجال ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ بن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا۔ ہم اسے قتل نہیں کرسکے۔'' (ازالہ اوہام ص۲۲۵ و روحانی ص ۲۱۳ ج۳)
ثابت ہوا کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر موجود ہیں جو زمین پر اتر کر دجال کو قتل کریں گے جیسا کہ حدیث معراج میں اس کی مزید تائید ہے۔
نیز اس حدیث سے بھی یہ بھی ثابت ہوا کہ قتل دجال سے مراد جیسا مرزائی کہتے ہیں دلائل سے قتل مطلوب نہیں بلکہ ظاہری و جسمانی قتل ہے چنانچہ جناب عمر رضی اللہ عنہ کا آمادہ قتل ہونا اور حضور کا بھی اس خیال کی تردید نہ کرنا بلکہ دجال کا قتل مسیح کے ہاتھوں مقدر فرمانا۔ اس پر صاف و صریح دلیل ہے۔
چھٹی حدیث:
مسلم شریف کی ایک طویل حدیث مشکوٰۃ باب علامات بین یدے الساعۃ فصل اول میں ہے کہ دجال اپنا فتنہ و فساد برپا کر رہا ہوگا کہ اِذْ بَعَثَ اللّٰہُ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِیَّ دِمْشِقَ بَیْنَ مھْزُوْدَتَیْنِ وَاضِعًا کَفَّیْہِ عَلَی اَجْنِحٰۃِ مَلَکَیْنَ الْحَدِیْثِ فَیَطُلبُہٗ حَتّٰی یُدْرِکَہٗ بِبَابٍ لُدٍّ فَیَقْتُلُہٗ (اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۱، ج۲ کتاب الفتن باب ذکر الدجال و ابوداؤد ص۲۳۷، ج۲ کتاب الملاحم باب ذکر الدجال والترمذی مع تحفہ ص۲۳۶ ج۳ کتاب الفتن باب ماجاء فی فتنۃ الدجال وابن ماجہ ص۳۰۶ ابواب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عینی واحمد فی مسندہ ص۱۸۱، ج۴ والحاکم فی المستدرک ص۴۹۲، ج۴ واللفظ لہ)۔ پس نازل کرے گا اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو منارہ سفید دمشق کے شرقی طرف:
'' پھر فرمایا جس وقت وہ اترے گا اس کی زرد پوشاک ہوگی۔ دونون ہتھیلی اس کی دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہوں گی۔ پھر حضرت مسیح ابن مریم دجال کی تلاش میں نکلیں گے اور لدکے دروازہ پر جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے اس کو جا پکڑیں گے اور قتل کر ڈالیں گے۔'' (ازالہ اوہام ص۲۰۰ و روحانی ص ۳۰۹، ج۳)
حدیث معراج سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم قاتل دجال ہیں لہٰذا اس جگہ نزول مسیح سے سوائے نزول از آسمان کے اور کوئی معنی لینا خلاف منشاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ مرزا صاحب بھی یہی مانتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
'' صحیح مسلم کی حدیث میں یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو اُن کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔'' (ایضاً ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲ ج۳)
الغرض اس حدیث سے حیات مسیح کا ثبوت ہے۔
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ساتویں حدیث:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّہٗ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذْ نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ فِیْکُمْ وَاِمَا مُکُمْ مِنْکُمْ ۔(اخرجہ البیہقی فی کتاب الاسماء والصفات ص۱۶۶ ج۲) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا۔ اس وقت جب کہ تم میں عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہونگے اور تمہارا ایک امام بھی اس وقت موجود ہوگا۔
اعتراض مرزائی:
امام بیہقی نے اس حدیث کو روایت کرکے بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے حالانکہ بخاری میں مِنَ السَّمَآئِ کا لفظ نہیں۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۰ طبعہ ۱۹۴۵)
الجواب:
حدیث کی کتاب بیہقی مخرج نہیں ہے بلکہ مسند ہے یعنی ایسی کتاب نہیں ہے کہ دوسروں سے نقل کرکے ذخیرہ اکٹھا کرے جیسا کہ کنز العمال وغیرہ ہے بلکہ امام بیہقی اپنی سند سے راویوں کے ذریعہ روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری کا حوالہ صرف اس لحاظ سے دیا گیا ہے کہ بخاری میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ اگرچہ لفظ مِنَ السَّمَآئِ نہیں۔ مگر مراد نزول سے مِنَ السَّمَآئِ ہی ہے۔ چنانچہ امام بیہقی خود لکھتے ہیں:
'' اِنَّمَا اَرَادَ نَزُوْلَہٗ مِنَ السَّمَائِ بَعْدَ الرَّفْعِ۔ ''(احمدیہ پاکٹ بک ص۴۰۶ وکتاب الاسماء والصفات ص۱۶۶، ج۲)
یعنی سوائے اس کے نہیں کہ اس کو روایت کرنے والے کا ارادہ نزول من السماء ہی ہے۔ کیونکہ وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں۔
پس معاملہ صاف ہے کہ بخاری میں من السماء نہ ہونا اس حدیث کے جو صحیح سے امام بیہقی نے روایت کی ہے خلاف نہیں۔ دیکھو مرزا صاحب نے بھی تو ازالہ اوہام ص۸۱، ۳۴ کی عبارت جو ہم حدیث نمبر۶ میں نقل کر آئے ہیں مسلم شریف کی طرف من السماء کا لفظ منسوب کیا ہے۔(ازالہ اوہام ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳؍) حالانکہ مسلم میں نہیں ہے تو سوائے اس کے کیا کہا جائے گا کہ امام مسلم کا ارادہ آسمان سے نزول کا ہی ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیات متعددہ اور احادیث نبویہ سے ان کا رفع آسمانی عیاں ہے۔ فافہم
اعتراض دوم:
امام جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کو امام بیہقی کی کتاب سے نقل کیا ہے مگر اس میں لفظ من السماء نہیں لکھا۔ پس معلوم ہوا کہ بیہقی میں موجود ہی نہیں یا امام بیہقی کی ذاتی تشریح ہے۔(۱۷۶ احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۱)
الجواب:
یہ اعتراض احمقانہ ہے بھلے مانسو! جب کہ حدیث کی کتاب میں جو اصل ہے یہ لفظ موجود ہے اور تم اسے آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو اگر کسی ناقل نے غلطی سے اسے نقل نہ کیا ہو تو اس سے اصل کتاب کیسے مشکوک ہو جائے گی۔
دیکھئے تمہارے '' حضرت نبی اللہ'' مرزا صاحب نے اپنی کتب میں قرآن مجید کی سو کے قریب آیات غلط الفاظ میں نقل کی ہیں۔ کہیں لفظ کم کردیا۔ کہیں زیادہ کیا۔ اس سے کوئی تمہارے جیسا احمق یہ نتیجہ نکال لے کہ قرآن مشکوک ہے صحیح آیات وہی ہیں جو مرزا صاحب نے لکھی ہے۔ تو وہ صحیح الدماغ انسان کہلانے کا حق دار ہے؟ بطور مثال ایک آیت درج کرتا ہوں۔ قرآن پاک کی آیت ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ۔() پ۱۴ النمل ۱۲۵)
اس آیت کو مرزا جی نے نور الحق حصہ اول ص۴۶ تبلیغ رسالت جلد ۳ ص ۱۹۴، ۱۹۵ و جلد ۷ ص۳۹ کتاب فریاد دو البلاغ ص۸ و ص۱۰ و ص۱۷ و ص۲۳ پر بایں الفاظ نقل کیا ہے:
جَادِلْھُمْ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمُوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ۔(نور الحق ص۴۶، ج۱ و روحانی ص ۶۳ج۸ و تبلیغ رسالت ۱۹۴، ج۳ و ص ۳۹، ج۷)
مرزائیو! اب خواہ تم اس منہ کالک کو کاتب کے سر ہی تھوپو۔ مگر آیت تو بہرحال غلط ہے۔ حالانکہ قرآن میں اس طرح نہیں، نتیجہ ظاہر ہے کہ کسی ناقل کی غلطی اصل کتاب پر کوئی اثر نہیں کرسکتی۔
محدثین کا طرزِ عمل:
جن لوگوں کو فن حدیث میں ادنیٰ ملکہ بھی ہے ان سے پوشیدہ نہیں کہ محدثین کی حالتیں اور غرضیں بیان حدیث کے وقت مختلف ہوتی ہیں۔ حالتوں کی بابت امام مسلم مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کَ انَتْ لَھُمْ تَارَاتٌ یُرْسِلَوْنَ فِیْھَا الْحَدِیْثَ اِرْسَالاً وَّلَا یَذْکُرُوْنَ مَنْ سَمِعُوْہُ مِنْہُ وَتَارَاتٌ یُنْشِطُوْنَ فِیْھَا۔ (مقدمہ صحیح مسلم ص۲۳؍ ۱۸۰)
یعنی رواۃ حدیث کبھی حالت غیر نشاط میں ہوتے ہیں تو حدیث سے کچھ چھوڑ دیتے ہیں کبھی نشاط میں ہوتے ہیں تو سب کچھ بیان کردیتے ہیں۔ نیز فرماتے ہیں:
مَذْھَبُھُمْ فِیْ قَبُوْلِ مَا یتَّفَرَّدُ بِہِ الْمُحَدِّثُ مِنَ الْحَدِیْثِ اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ شَاَرَکَ الثِّقَاتَ مِنْ اَھْلِ الحِفْظِ فِیْ بَعْضِ مَا رَوَوْا وَاَمْعَنَ فِیْ ذَالِکَ عَلَی الْمَوَافِقَۃِ لَھُمْ فَاِذَا وُجِدَ کَذَالِکَ ثُمَّ زَادَ بَعْدَ ذَالِکَ شَیْئًا لَیْسَ عِنْدَ اَصْحَابِہٖ قُبِلَتْ زِیَادَتُہٗ (ایضاً ص ۵ ؍ ۱۸۱ ایضاً ص۳) (ص۴) لِاَنَّ الْمَعْنَی الزَّائِدَ فِی الْحَدِیْثِ الْمُحْتَاجِ اِلَیْہِ یَقُوْمُ مَقَامَ حَدِیْثٍ تَامٍ۔(یضاً ص۳)
یعنی کوئی محدث حدیث کے کسی لفظ (مثلاً من السماء) کے بیان کرنے میں منفرد ہے تو اس کی قبولیت کے بارے میں محدثین کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس محدث کی مشارکت ثقہ حافظین کی بعض روایت (متن) میں ثابت ہو اور وہ دیگر رواۃِ حدیث کی موافقت میں کوشش بھی کرتا ہو۔ پھر اگر اس کے بیان کردہ متن میں لفظ زیادہ مذکور ہو (جیسے بیہقی میں من السماء کی زیادتی) تو اس کی یہ زیادتی مقبول ہوگی اس لیے کہ حدیث میں کوئی زائد معنی جس کی ضرورت بھی ہے وہ پوری حدیث کے قائم مقام ہوتا ہے۔
اس اصل کو یاد رکھو اور امثلہ ذیل ملاحظہ کرو:
رَفْعُ نَظْرٍ اِلَی السَّمَآء فِی الصَّلٰوۃِ۔
(۱) صحیح بخاری میں حدیث ممانعت رَفْعُ نَظْرٍ فِی السَّمَآئِ کی مطلق ہے(صحیح بخاری ص۱۰۴ کتاب الاذان باب رفع البصر الی السماء فی الصلوٰۃ)۔ صحیح مسلم میں ''عند الدعاء'' زیادہ ہے۔(صحیح مسلم ص۲۸۱، ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب النھی عن رفع البصر الٰی السماء فی الصلوٰۃ) (مصری ص۱۷۱ جلد اول) یعنی نماز میں دعا کرنے کے وقت آسمان کی طرف نظر نہ اٹھاؤ۔
(۲) بخاری میں ہے لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیِحْ الْمِسْکِ (صحیح بخاری ص۲۵۴، ج۱ کتاب الصوم باب فضل صوم)۔ صحیح مسلم میں یوم القیامہ زیادہ ہے۔(صحیح مسلم ص۳۶۳ ج۱ کتاب الصوم) یعنی روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے روز اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ ہوگی (شاید بقول مرزائی حضرت امام مسلم نے یا کسی کاتب نے یا ہندوستانی مولوی نے عند الدعاء والیوم القیامۃ بڑھایا ہوگا)۔
(۳) صحیح مسلم میں ہے ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری (ایضاً ص۱۷۳ ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیر الاحرام تحت صدرہ)۔ صحیح ابن خزیمہ میں عَلِی صَدْرِہٖ زیادہ ہے(
صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ ج۱ کتاب الصلوٰۃ باب وضع الیمنٰی علی الشمال فی الصلوٰۃ قبل افتتاح القراۃ ، نوٹ :اولاً مولانا معمار رحمہ اللہ کا کہنا کہ صحیح مسلم اور صحیح ابن خزیمہ کی سند کے راوی ایک ہی ہیں درست نہیں جبکہ دونوں کی اسناد اس طرح ہیں کہ
(۱) '' صحیح مسلم کی سند'' حدثنا زھیر بن حرب قال حدثنا عفان قال ناھمام قال نا محمد بن حجادۃ قال حدثنی عبدالجبار بن وائل عن علقمۃ بن وائل و مولی لھم انھما حدثاہ عن ابیہ وائل بن حجر رضی اللّٰہ عنہ ، صحیح مسلم ص۱۷۳، ج۱)
(۲) '' صحیح ابن خزیمہ کی سند اخبرنا ابو طاھرنا ابوبکر نا ابو موسٰی نا مؤمل نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہٖ عن وائل بن حجر رضی اللّٰہ عنہ صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳، ج۱''
دونوں اسناد کو مکرر دیکھ لیجیے۔ ان میںہر ایک علیحدہ اور مستقل سند ہے، غالباً مولانا معمار مرحوم کو حافظ ابن حجر کی تالیف، بلوغ المرام، سے وہم ہوا ہے جبکہ معمار صاحب کی زندگی میں ابن خزیمہ ثانیاً ایک ہی سند میں الفاظ کے زیادت کی بہترین مثال حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی حسب ذیل ہے:
قال صلی رسول اللّٰہ ﷺ ثم اقبل بوجھہ فقال اتقرؤن والامام یقرأ فسکتو فسألھم ثلٰثا فقالوا انا لنفعل قال فلا تفعلوا شرح معانی الاثار للطحاوی ص۱۵۰، ج۱۔ جبکہ اسی سندسے مروی اسی حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں کہ ولیقرأ احدکم بفاتحۃ الکتاب فی نفسہٖ صحیح ابن حبان ص ۱۶۰ ج ۴ رقم الحدیث ۱۸۴۱ والسنن الکبرٰی للبیھقی ص۱۶۶ ج۲ وطبرانی اوسط بحوالہ مجمع الزوائد ص۱۱۳ ج ۲ وسنن دارقطنی ص ۳۴۰ ج۱
ظاہر ہے کہ طحاوی کی روایت کے جو الفاظ ہیں ان سے یہ فاتحہ خلف الامام کے ترک کی دلیل ہے مگر پوری روایت میں قراۃ فاتحہ کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے (مزید تفصیل کے لیے راقم کی کتاب دین الحق کی فی تنقید جاء الحق ص۳۰۰ جلد اوّل کا مطالعہ کریں) مگر آج تک کسی اناڑی نے بھی یہ نہیں کہا کہ آخری الفاظ من گھڑت اور اہل حدیث کی ایجاد ہیں۔ ابو صہیب
) (بلوغ المرام)
راوی ایک سند ایک لیکن آج تک کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہوا کہ یہ '' آنحضرت پر افتراء ہے۔''
امام سیوطی کا تساہل:
سیوطی کا تساہل اور زلت فہم مشہور ہے تفسیر جلالین میں بحوالہ صحیح مسلم حدیث اِبْدَئُ وْا بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بصیغۂ امر نقل کرکے سعی کی فرضیت ثابت کرتے ہیں (تفسیر جلالین ص زیر آیت البقرہ ۱۵۸)حالانکہ صحیح مسلم میں اس طرح (بصیغۂ امر) نہیں ہے۔(صحیح مسلم ص ۳۹۵، ج۱ کتاب باب حجۃ النبی ﷺ و ابوداؤد ص۲۶۲ ج۱ کتاب المناسک باب صفۃ حجۃ النبی ﷺ وابن ماجہ ص ۲۲۸ ابواب الحج باب حجۃ رسول اللّٰہ ﷺ وسنن دارمی ص۶۸، ج۲ کتاب الحج باب سنۃ الحاج) اسی طرح آیت کلالہ کے بارے میں سیوطی صاحب تحریر فرماتے ہیں نَ زَلَتْ فِیْ جَابِرٍ وَقَدْ مَاتَ عَنْ اَخَوَاتٍ (تفیسر جلالین)۔ یہ اُن کی بھول ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ عہد نبوی میں آیت کلالہ کے نزول کے وقت نہیں فوت ہوئے تھے۔ بلکہ مدینہ طیبہ کے تمام صحابیوں کے بعد حجاج کے زمانہ میں فوت ہوئے (
اصابہ ترجمہ جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ ، حافظ ابن حجر، تقریب التھذیب ص۴۰ میں فرماتے ہیں کہ آپؓ نے ص۹۴ سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں ۷۰ھ کے بعد وفات پائی (انتھی)
امام سخاوی سیوطی نے ہمارے بہت سے اساتذہ کی کتابیں چپکے سے چرا لیں پھر انہیں مسخ و محرف کرکے اپنے نام سے شائع کردیں افسوس کہ اگر سیوطی اہل علم کی کتابوں کو چرا کر مسخ و محرف کیے بغیر اپنے نام سے شائع کردیتے تو کم از کم ان سے لوگ دھوکہ میں نہ پڑتے بغیر مستفید ہوسکتے مگر اس کی تحریف کاری کے سبب یہ کتابیں بے فائدہ ہوگئیں سیوطی بکثرت جھوٹ بولتے تھے ایک مرتبہ میرے پاس آکر کہنے لگے کہ میں نے امام قصمی سے مسند شافعی پڑھی ہے اتنے میں قصمی آگئے اور انہوں نے بتایا کہ سیوطی جھوٹا ہے اسی طرح سیوطی کے ایک اور استاذ جلال الدین محلی نے بھی جھوٹا بتایا ہے اور قاضی بدر حنبلی نے بھی ، امام سخاوی فرماتے ہیںکہ سیوطی نے بغیر کسی علم و فن میں پختگی حاصل کیے دعویٰ ہمہ دانی کردیا، تفصیل کے لیے دیکھیے الضوء اللامع ص ۶۵ تا ۷۱ ج۴ طبعہ قاہرہ ۱۳۰۴ھ ابو صہیب
)۔ اسی طرح سیوطی سے بہت سی غلطیاں ہر فن میں واقع ہوئی ہیں تفصیل کے لیے حافظ سخاوی کی کتاب اَلضَّوْئُ الاَّوح دیکھنی چاہیے۔ اسی طرح ان سے حدیث بیہقی کے نقل کرنے میں تساہل ہوگیا ہوگا اور من السماء کا لفظ ان کو یاد نہ رہا ہوگا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی نظر بخاری و مسلم کے متن پر ہو اور بیہقی کا نام انہوں نے بِوَجْہِ تَوَافُقِ لِاَکْثَرِ الْمَتْنِ کے لکھ دیا ہو۔ جس طرح کہ خود امام بیہقی نے حدیث مذکور نقل کرکے رواہ البخاری واخرجہ مسلم کہہ دیا ہے، لانہ ربما یعز یعزوا لبعض المحدثین اذا اخرجھا باکثر کلماتہ ولا یشترط استیعاب الفاظ الروایۃ یعنی امام بیہقی نسبت کردیتے ہیں حدیث کو بعض محدثوں کی طرف۔ جبکہ اس محدث نے اس حدیث کو اس کے اکثر کلمات سے نقل کیا ہو۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس حدیث کے پورے الفاظ اُس محدث نے نقل کئے ہیں۔ فَاِذَا قَالَ الْمُحَدّث رَوَاہُ الْبُخَارِی کَانَ مُرَادُہٗ اَنَّ اَصْلَ الْحَدِیْثِ اَخْرَجَہُ البخاری (التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ص ۹۹)۔ پس جب کوئی محدث کہتا ہے کہ اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس حدیث کی اصل جامع بخاری میں ہے (نہ پورے الفاظ)۔
ایک نکتہ:
سلف میں ایک بڑا فتنہ ''فرقہ جہمیہ'' کے نام سے اسی طرح سے پیدا ہوا جس طرح آج کل فتنہ مرزائیہ ہے۔ '' فرقہ جہمیہ'' اسماء وصفات باری میں طرح طرح کی تاویلیں بلکہ تحریفیں کرتا تھا۔ اس لیے علمائے اسلام نے عموماً اور محدثین کرام نے خصوصاً اس فرقہ کی تردید میں بڑی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جہمیہ کے عقاید باطلہ میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ ان اللّٰہ لیس فی السماء(کتاب العلو ص۳۷۷ وبیھقی فی الاسماء والصفات ص۱۷۰ ج۲)۔ امام بیہقی نے اپنی کتاب مذکور میں اس کی تردید میں کئی باب منعقد کئے ہیں اور اللّٰہ فی السماء کو بہت سی حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (کتاب الاسماء والصفات ص۱۶۲، ج۲ باب قول عزوجل، وھو القاھر فوق عبادہٖ وقولہ یخافون ربھم من فوفھم و یفعلون ما یومرون۔)میں باب ئَ اَمِنْتُمْ من فِی السَّمَآئِ کا منعقد فرماتے ہیں اور مختلف احادیث نبویہ سے مسئلہ مذکورہ ثابت کرتے ہیں اس کے (ص۱۶۶) میں باب رَافِعُکَ اِلَیَّ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکلِمُ الطَّیِّبُ کا لائے ہیں اور مختلف حدیثوں سے فرشتوں، کلموں اور عملوں کا آسمان پر خدا کی طرف جانا ثابت کرتے ہیں مثلاً عروج الملئکۃ الی السماء ()۔ اسی باب میں پہلی حدیث حضرت عیسیٰ کی بابت بھی لائے ہیں کیف انتم اذا انزل ابن مریم من السماء فیکم() پس انصاف کرنا چاہیے کہ جب مصنف کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس باب میں خصوصیت سے الی السماء فی السماء من السماء، ثابت کیا جائے تو یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اصل بیہقی میں من السماء کا لفظ نہیں ہے حالانکہ امام موصوف اسی چیز کے ثابت کرنے کے درپے ہیں۔
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
آٹھویں حدیث:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ حَدِیْثٍ طَوِیْلٍ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَعِنْدَ ذٰلِکَ یَنْزِلُ اَخِیْ عَیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ عَلٰی جَبَلٍ اَفِیْقٍ اِمَامًا ھَادِیًا وَّحَکَمًا عَادِلاً۔ (کنز العمال ص۲۶۸، ج۷، طبع قدیم ومنتخب کنز العمال علی ہامش مسند احمد ص۵۶ ج۶) (کنز العمال جلد۷ ص۲۶۷ و منتخب کنز جلد ۶ص۶۵)
نوٹ: اس حدیث کو مرزا صاحب نے بھی حمامۃ البشریٰ ص۸۷،۲۷ پر نقل کیا ہے مگر لفظ سماء نہیں لکھا اور خیانت کی ہے اور نبی خائن نہیں ہوتا۔ (حمامۃ البشرٰی ص۸۷ و روحانی ص ۳۱۲، ج۷)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت یہ یہ باتیں ہونگی مسیح ابن مریم آسمان سے جبل افیق پر نازل ہوگا۔ مطلب ظاہر ہے کہ مسیح زندہ ہے۔
نوٹ: اس حدیث کی رُو سے وہ دوبارہ آنے کے وقت آسمان سے اتریں گے تو معلوم ہوا کہ وہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ لیجئے اس پر مرزا صاحب کے دستخط بھی کروا دوں۔ آپ براہین میں فرماتے ہیں:
'' حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔'' (براھین احمدیہ ص۳۶۱، ج۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۱)
دیگر یہ مرزا صاحب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں '' صحیح مسلم میں ہے کہ مسیح جب آسمان سے اُترے گا تو اس کا لباس زرد چادریں ہوں گی۔ (ازالہ اوہام ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳)
اسی طرح رسالہ تشحیذ الاذہان میں مرزا صاحب کا قول ہے:
'' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی کہ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہونگی۔ سو اس طرح مجھے دو بیماریاں ہیں۔'' (بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مؤرخہ ۷؍ جون ۱۹۰۶ء و تشحیذ الاذہان جلد ۱نمبر۲ بابت جون ۱۹۰۶و ملفوظات مرزا ص ۳۳، ج۵)
زرد لباس سے مراد اصل لباس ہو یا مرزا صاحب والی بیماریاں ہوں مقصد سے باہر ہے۔ استدلال الفاظ '' آسمان پر سے اترے گا'' سے یہ ہے کہ مرزا صاحب حضرت عیسیٰ کے آسمان سے اترنے کو مانتے رہے اور یہ آپ کے اس وقت کے مسلمات ہیں جب آپ نے مثیل مسیح کا دعویٰ بھی کردیا تھا۔
نویں حدیث:
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا اَنْزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمَ۔ (اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۹۰، ج۱ کتاب الانبیاء باب نزول عیٰسی بن مریم و مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم) تم کیسے ہوگے جب مسیح تم میں نازل ہوگا اس حال میں کہ تم سے ایک امام موجود ہوگا۔
اس حدیث سے بھی حضرت عیسیٰ کا آنا ثابت ہے اگرچہ لفظ سماء نہیں مگر بقرنیہ نصوص قرآن و حدیث جن میں مسیح کا رفع سماوی و نزول من السماء وارد ہے۔ مطلب اس کا یہی ہے۔
اعتراض مرزائی:
اس حدیث میں اما مکم منکم سے مراد وہ عیسیٰ ہے جو مسلمانوں میں سے ایک ہوگا۔(احمدیہ پاکٹ بک ص ۴۰۷)
الجواب:
قرآن و حدیث بلکہ کل دنیا بھر کے اہل اسلام کی کتابوں میں حضرت عیسیٰ ابن مریم جس کا نزول مذکور ہے سوائے مسیح رسول اللہ کے اور کوئی شخص نہیں یہ افترا ہے۔ اور ازسر تا پا یہودیانہ تحریف ہے جو بیسیوں آیات و صدہا احادیث کے خلاف ہے۔ حدیث میں مسیح کے نزول کے وقت ایک دوسرے امام کا ذکر ہے جو باتفاق جملہ مفسرین و محدثین و مجددین غیر از مسیح ہے۔ جو یقینا امام مہدی ہیں جن کے متعلق آنحضرت کی صحیح حدیث ہے کہ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ بَیْتِیْ یُؤَاطِیٔ اِسْمُہٗ اِسْمِیْ وَاِسْمُ اَبِیْہِ اِسْمَ اَبِیْ ۔(اخرجہ احمد فی مسندہٖ ص۳۷۶، ج۱ وہ ۳۳ و ۴۴۸ و ابوداؤد فی السنن ص۲۳۲، ج۲ کتاب الفتن باب المھدی والترمذی مع تحفہ ص۲۳۲، ج۳ کتاب الفتن باب ماجاء فی المھدی والحاکم فی المستدرک ص۲۴۲، ج۴ کتاب الفتن باب لا یزاد الامر الا شدۃ و مشکوٰۃ ص۴۷۰)''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی میں فرماتے ہیں۔ مہدی خلق اور خلق میں میری مانند ہوگا میرے نام جیسا اس کا نام ہوگا، میرے باپ کے نام کی طرح اس کے باپ کا نام۔''(ازالہ اوہام ص ۱۴۷ و روحانی ص۱۷۵، ج۳)
اس کے علاوہ خود مرزا صاحب بھی مانتے ہیں کہ امامکم منکم میں مسلمانوں کے امام الصلوٰۃ غیر از مسیح کا ذکر ہے۔
چنانچہ ایک شخص نے مرزا جی سے سوال کیا کہ آپ خود امام بن کر نماز کیوں نہیں پڑھایا کرتے کہا:
'' حدیث میں آیا ہے کہ مسیح جو آنے والا ہے وہ دوسروں کے پیچھے نماز پڑھے گا۔'' (البدر جلد ۲ نمبر۴۱، ۴۲ مورخہ ۲۹؍ اکتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳، ص۳۲۲ و ملفوظات مرزا ص ۴۴۴، ج۳ بیان فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء و فتاوٰی احمدیہ ص ۸۲، ج۱)
الغرض یہ غلط ہے کہ مسیح امامکم منکم کا مشار'' الیہ ہے اس کی مزید تشریح جو مرزائیوں کے تمام شبہات کو زائل کرتی ہے وہ حدیث ذیل ہے:
دسویں حدیث:
مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: فَیَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَیَقُوْلُ اَمِیْرُھُمْ تعالَ صَلِّ لَنَا فَیَقُوْلُ لَا اِنَّ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ اُمَرَائُ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ ۔ (اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم واحمد فی مسندہٖ ص۳۴۵، ج۳ و ۳۸۴ و مشکوٰۃ ص ۴۸۰)(نزول عیسیٰ علیہ السلام )پس نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم۔ مسلمانوں کا امیر انہیں کہے گا۔ آئیے! ہمیں نماز پڑھائیے۔ وہ فرمائیں گے نہیں۔ یہ شرف اُمت محمدی کو ہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے امیر و امام ہوں۔
اللہ اکبر! حضرت مسیح ابن مریم بھی محمدی امت کا شرف تسلیم کرتے ہیں وہ بھی اس قدر بلند کہ ایک نبی اللہ بھی ان کا حقیقی رنگ میں بالاستقلال امام و امیر نہیں ہوسکتا اس حدیث مقدسہ نے مرزائیوں کی جملہ تاویلاتِ واہیہ اور خیالاتِ باطلہ کا بخوبی قلع قمع کردیا ہے اور روز روشن کی مانند واضح کردیا ہے کہ مسیح آنے والا وہی اسرائیلی بھی ہے نہ کہ اس امت کا کوئی شخص۔
گیارہویں حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مجھے اس ذات واحد کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق اتریں گے تم میں ابن مریم حاکم و عادل ہو کر پس صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کرائیں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے ان کے زمانہ میں مال اس قدر ہوگا کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ عبادت الٰہی دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ (یہ حدیث بیان کرکے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں) اگر تم چاہتے ہو کہ (اس حدیث کی تائید قرآن سے ہو) تو پڑھو آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُوْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ الایہ ۔ یعنی خدا فرماتا ہے آخری زمانہ میں کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہ ہوگا جو مسیح پر (جسے وہ بزعم خود مصلوب سمجھتے ہیں) اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ (اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۹۰ ، ج۱ کتاب الانبیاء باب نزول عیٰسی بن مریم و مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم و مشکوٰۃ ص۴۷۹ باب نزول عیٰسی مریم وعسل مصفّٰی ص۲۰۲، ج۱)
یہ حدیث بھی حیات مسیح و نزول من السماء پر قطعی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھا کر مسیح ابن مریم کا نزول بیان فرماتے ہیں۔ صحابہ کرام مسیح ابن مریم سے کوئی اور شخص مراد نہیں سمجھتے بلکہ وہی عیسیٰ ابن مریم صاحب انجیل رسولاً بنی اسرائیل سمجھتے ہیں جس کا ذکر اِنْ مِنْ اَہل الکتاب والی آیت میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ جماعت صحابہ کو مخاطب کرکے علی الاعلان کہتے ہیں فَاْقَرأُوْا اِنْ شِئْتُمْ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ۔ اگر تم چاہتے ہو تو پڑھو آیت جس میں مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ کوئی صحابی اس سے انکار نہیں کرتا۔ اس حدیث میں کسی قسم کی تاویل کرنا مرزا صاحب کے رد سے قطعاً ناجائز ہے۔
آنحضرت قسم کھا کر بیان کرتے ہیں اور مرزا صاحب راقم ہیں کہ:
'' نبی کا کسی بات کو قسم کھا کر بیان کرنا اس بات پر گواہ ہے کہ اس میں کوئی تاویل نہ کی جاوے نہ استثنا، بلکہ اس کو ظاہر پر محمول کیا جاوے، ورنہ قسم سے فائدہ ہی کیا۔'' (حمامۃ البشرٰی ص۱۴ و روحانی ص۱۹۲ج ۷)
اعتراض:
ان ینزل فیکم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کیا ہے کہ ابن مریم تم میں نازل ہوگا۔
الجواب:
خطاب صحابہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عامہ امت محمدیہ تاقیامت مخاطب ہے۔ ابن خزیمہ و حاکم نے روایت نقل کی ہے عن انس قال النبی ﷺ سیدرک رجال من امتی ابن مریم (اخرجہ الطبرانی فی الاوسط کما ذکرہ الھیثمی فی مجمع الزوائد ص۳۵۲ ج۷ کتاب الفتن باب ماجاء فی الرجال، والدیلمی فی کتاب فردوس الاخبار ص۴۵۷، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۴۴ ج۴ ابو یعلی ص۱۹۸، ج۳ رقم الحدیث ۲۸۱۲ واوردہ السیوطی فی الدر المنثور ص۲۴۵، ج۲)۔ یعنی میری امت کے لوگ عیسیٰ کا زمانہ پائیں گے نہ صحابہ لوگ۔ اور دیگر احادیث صحیحہ کثیرہ میں حضرت عیسیٰ کا قرب قیامت تشریف لانا مصرح ہے۔ ملاحظہ ہوں:
قال لا تقوم الساعۃ حتی ینزل عیسی ابن مریم (
اخرجہ ابن ماجۃ فی السنن ص۳۰۸ کتاب الفتن باب نزول عیٰسی بن مریم واحمد فی سندہٖ ص۴۹۴، ج۲
)
لن تقوم الساعۃ حتی ترون قبلھا عشر اٰیات ونزول عیسی ابن مریم (اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۳۹۳، ج۲ کتاب الفتن باب ظھور عشر اٰیات) ظاھرین الٰی یوم القیامۃ فینزل عیسی ابن مریم (ایضاً ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم) کیف تھلک امۃ انا اولھا والمھدی وسطھا والمسیح اخرھا۔ (اخرجہ رزین اوردہ الخطیب فی المشکوٰۃ ص۵۸۳ باب ثواب ھذاہ الامۃ)
ان تمام حدیثوں میں حضرت عیسیٰ کا نزول قرب قیامت مذکور ہے۔ اور پچھلی روایت میں امتِ محمدیہ کے آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ کا ہونا مصرح ہے نہ عہد صحابہ میں نہ چودہ سو سال کے بعد۔
 

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
بارہویں حدیث:
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ الْاَنْبِیَائَ اِخوَۃٌ مِّنْ عَلاَّتٍ وَاُمَّھٰتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنھم وَاحِدٌ وَلَیْسَ بَیْنَنَا نَبِیٌّ (اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۹۰، ج۱ کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم و مسلم فی الصحیح ص۲۶۵، ج۲ کتاب الفضائل باب فضائل عیٰسی بن مریم و مشکوٰۃ ص۵۰۹ باب یدالخق وعسل مصفّٰی ص۱۵۹، ج۲)میں بہ نسبت لوگوں کے مسیح سے بہت نزدیک ہوں دنیا و آخرت میں۔ انبیاء سب سوتیلے بھائی ہیں۔ اور مائیں ان کی مختلف اور دین سب کا ایک ے میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔
مرزا صاحب بھی مقر ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں:
۱۔ حضرت مسیح کے زمانہ کو چھ سو برس گزر گئے تھے اور اس عرصہ میں کوئی الہام یافتہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ص۱۱۵ وروحانی ص۴۲۹ ج ۱۰ و تفسیر مرزا ص۳۴۴ ج۸)
۲۔ کچھ شک نہیں کہ محدث نبی کا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور تمام انبیاء علاقی بھائی کہلاتے ہیں۔(ازالہ اوہام ص۲۵۲ و روحانی ص ۳۴۱، ج۳)
۳۔ (میرا) نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدا کے حکم سے کیا گیا ہے۔ (ایضاً ص۴۲۲ و روحانی ص۳۲۰ ج ۳)
حدیث بالا میں حضرت مسیح ابن مریم رسولاً الیٰ بنی اسرائیل کا ذکر ہے کسی آئندہ پیدا ہونے والے مسیح نبی کا ذکر نہیں۔ مرزا صاحب اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ناظرین اسے ملحوظ رکھیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ حسب مناسبت باب جیسا کہ ان کی عادت شریفہ ہے۔ تھوڑا حصہ اس حدیث کا لائے ہیں۔ حدیث طویل ہے تفصیل ملاحظہ ہو میاں محمود احمد خلیفہ قادیان نقل کرتے ہیں:
عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال الانبیاء اخوۃ لعلات امھاتھم شتی ودینھم واحد لَاِنِّیْ اولی الناس بعیسی ابن مریم لانہ لم یکن بینی وبینہ یعنی عیسٰی علیہ السلام نبی وانہ نازل فاذا رأیتموہ واعرفوہ رجل مربوع الی الحمر والبیاض علیہ ثوبان ممصرات راسہ یقطر وان لم یصبہ بلل فیدک الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الی الاسلام فتھلک فی زمانھا الملل کلھا الا الاسلام الی الحدیث۔
انبیاء علاقی بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں ان کی مائیں تو مختلف ہوتی ہیں اور دین ایک ہوتا ہے اور میں عیسیٰ ابن مریم سے سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں کیونکہ اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ نازل ہونے والا ہے پس جب اسے دیکھو تو اسے پہچان لو کہ وہ درمیانہ قامت سرخی سفید ملا ہوا رنگ زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے اس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہوگا۔ گو سر پر پانی نہ ہی ڈالا ہو۔ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ ترک کرے گا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے گا یقاتل الناس الی الاسلام کے لفظ کیوں چھوڑ دئیے؟ شاید اس لیے کہ ان الفاظ میں مسیح کی شان سیاست کا ذکر ہے اور مرزا صاحب خود یاجوج ماجوج کی رعایا اور فرمانبردار تھے۔ ناقل) اس کے زمانہ میں سب مذاہب ہلاک ہوجائیں گے اور صرف اسلام باقی رہ جائے گا اور شیر اونٹوں کے ساتھ اور چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہ دیں گے۔ عیسیٰ بن مریم چالیس سال (زمین پر) رہیں گے پھر فوت ہونگے اور مسلمان اُن کے جنازہ کی نماز پڑھائیں گے۔(حقیقت النبوۃ ص۱۹۲ و عسل مصفّٰی ص۵۹، ج۲ واللفظ لہ)
یہ حدیث ابوداؤد جلد ۲ ص۲۳۸ پر موجود ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ اور مقبول ہیں۔ نیز یہ حدیث مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی ابن جریر، ابی ابی شیبہ، ابن حبان میں ہے۔(اخرجہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہٖ ص۱۵۹، ج۱۵ کتاب الفتن واحمد فی مسندہٖ ص۴۳۷، ج۲ وابوداؤد فی السنن ص۲۳۸، ج۲ کتاب الملاحم باب خروج الدجال وابن حبان فی صحیحہٖ ص۲۸۷،ج۹ رقم الحدیث نمبر ۶۷۷۵۔) اعجاز المسیح ص۳۸ مصنفہ مرزا صاحب و ازالہ اوہام ص۵۹۴،۲۴۵ط وغیرہ بھی اس حدیث کے بعض حصے نقل کرکے ان کی تصحیح و تصدیق بلکہ ان سے تمسک کیا ہے۔ (اعجاز المسیح ''لم اجدہ'' ازالہ اوہام ص۵۹۴ و روحانی ص۴۲۰، ج۳)
اس حدیث سے صاف عیاں ہے کہ آنے والا مسیح موعود حضرت عیسیٰ ہی ہے جس کے اور آنحضرت کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا تھا۔ جو آنحضرت کا علاقی بھائی اور بموجب حدیث معراج قاتل دجال ہے۔ فلہ الحمد
تیرہویں حدیث:
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِلْیَھُوْدِ اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتُ وَاِنَّہٗ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔(اخرجہ ابن جریر فی تفسیرہٖ ص۲۰۲، ج۳ وابن ابی حاتم کما ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور ص۳۶، ج۲ وابن کثیر فی تفسیرہٖ ص۳۶۶، ج۱)
''حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت نے یہود کو مخاطب کرکے فرمایا: تحقیق عیسیٰ فوت نہیں ہوا۔ لاریب وہ تمہاری طرف اترے گا قیامت سے قبل۔''
اعتراض:
یہ حدیث مرسل ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۲؍)
جواب:
حضرت حسن بصری کی مرسل حدیث میں تو وہی شخص کلام کرے گا جس کو ان کے اقوال کا پورا علم نہیں وہ خود فرماتے ہی ں کل شی سمعنی اقول فیہ قال رسول اللّٰہ ﷺ فھو عن علی ابن ابی طالب غیر انی فی زمان لا استطیع ان اذکر علیا ۔(حاشیہ خلاصہ تذھیب ص۲۱۱، ج۱) آہ (تہذیب الکمال للمزی) میں جتنی احادیث میں قال رسول اللہ کہوں اور صحابی کا نام نہ لوں سمجھ لو کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب کی روایت ہے۔ میں ایسے (سفاک دشمن آل رسول حجاج کے) زمانہ میں ہوں کہ حضرت علی کا نام نہیں لے سکتا۔ احمدیو! حدیث پر اعتراض کرنے سے پیشتر علم حدیث کسی اُستاد سے پڑھو۔
ایک شبہ اور اُس کا ازالہ:
مرزائی بعض وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ حدیث بلا سند ہے۔
الجواب:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اَنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ الخ کو باب مدینۃ العلم مولیٰ علی مرتضیٰ نے سنا۔ ان سے حسن بصری (سید التابعین وشیخ الصوفیہ) نے اخذ کیا، ان سے ربیع نے ان سے ابو جعفر نے ان سے اُن کے بیٹے عبداللہ نے ان سے اسحق نے اُن سے مثنیٰ نے ان سے ابن جریر طبری نے(تفسیر ابن جریر ص۱۸۳، ج۲) تفسیر ابن جریر کتب متداولہ میں سے ہے اور اس میں حدیث کی سند بھی موجود ہے۔
محمد بن جریر بڑے پایہ کا محدث ہے کہ ابن خلکان وغیرہ نے ان کو ائمہ مجتہدین میں سے لکھا ہے۔ خود آپ کے مرزا صاحب نے چشمہ معرفت میں لکھا ہے کہ '' جریر نہایت معتبر اور ائمہ میں سے ہے۔'' (حاشیہ چشمہ معرفت ص۲۵۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۲۳)
اعتراض :
اگر یہ معتبر حدیث ہے تو اس کو صحاح ستہ میں ہونا چاہیے تھا۔
الجواب:
(۱) مرزا صاحب نے ضمیمہ انجام آتھم میں جو حدیث یتزوج ویولدلہ لکھی ہے وہ صحاح ستہ میں کہاں ہے؟ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ و روحانی ص۳۳۷، ج۱۱)
(۲) حقیقۃ الوحی اور حاشیہ چشمہ معرفت میں جو روایت کسوف وخسوف و رمضان تحریر کی ہے وہ صحاح ستہ میں کس جگہ ہے؟ (حقیقت الوحی ص۱۹۴ و روحانی ص۲۰۲ ج۲۲ و چشمہ معرفت ص۳۱۴ و روحانی ص۳۲۹، ج۲۳)
(۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۴۱، حاشیہ کتاب البریہ ص۲۲۶ میں جو اثر خروج مہدی از کدعہ درج کیا ہے وہ صحاح ستہ کی کس کتاب میں ہے؟ (ضمیمہ انجام آتھم ص۴۱ و روحانی ص۳۲۵، ج۱۱ و کتاب البریہ ص۲۳۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۱۳)
(۴) کتاب مسیح ہندوستان میں ص۵۳، ص۵۴ میں جو تین حدیثیں حضرت عیسیٰ کی سیاحت سے متعلق تحریر ہیں ان کا پتہ صحاح ستہ سے بتاؤ۔ (و روحانی ص۵۶، ج۱۵ ؍)
حدیث نمبر ۱۴:
تفسیر ابن جریر جو '' رئیس المفسرین و معتبر آئمہ حدیث میں سے ہے۔''(آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۸ و روحانی ص۱۶۸ ج۵ و چشمہ معرفت ص۲۵۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۲۳) تفسیر در منثور جلد ۲ ص۳ پر ہے کہ جب نجران کے عیسائی آنحضرت کے پاس آئے اور ان سے توحید و تثلیث پر گفتگو ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَبَّنَا حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ وَاَنَّ عِیْسٰی یَاتِیْ عَلَیْہِ الْفَنَا ۔(اخرجہ ابن جریر نی تفسیرہٖ ص۱۰۸، ج۳ وابن ابی حاتم کذافی الدر المنثور ص۳، ج۲)
'' او انسان کے پرستارو! کیا تم جانتے نہیں کہ خدا حی لا یموت ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام پر تو موت آئے گی۔''
برادران غور فرمائیے! اگر حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ اِنَّ عِیْسٰی قَدْ مَاتَ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یَاْتِیْ صیغہ مضارع زمانہ آئندہ کا استعمال فرمایا کہ اس کو موت آئے گی۔ پس ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ والْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
پندرہویں حدیث:
یُحَدِّثُ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَائِ حَاجًّا اَوْ مُعْتَمِرًا اَوْ لَیُثنینھما۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یقینا احرام باندھیں گے ابنِ مریم فج الروحاء سے ، حج کا یا عمرہ کا ، یا قران کریں گے (یعنی عمرہ ادا کرکے اسی احرام سے حج کریں گے)۔(اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۸، ج۱ کتاب الحج باب جواز التمتع فی الحج واحمد فی مسندہ ص۳۹۰، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۹۵،ج۲ والدر المنثور ص۲۴۵، ج۲ وعسل مصفی ص۱۵۲ ج۲)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ مسیح موعود دنیا میں آکر اپنے متعلق ایسی فضا قائم کریں گے کہ تمام دنیا میں ان کے لیے امن ہوگا۔ اور کوئی چیز ان کے حج میں مانع نہیں ہوگی (یعنی وہ بلا خوف حج کرے گا)۔
۲۔ وہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوگا جو حج بیت اللہ سے مانع ہو۔
۳۔ کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے حج نہیں کرے گا بلکہ وہ بنفس نفیس خود حج کرے گا۔
نتیجہ:
جو شخص مندرجہ بالا اوصاف سے متصف نہیں ہے وہ یقینا مسیح موعود نہیں۔ مرزائی امت تاویلوں کی بہت عادی ہے۔ جہاں کوئی جواب نہ بنے وہاں تاویلوں کا سہارا ڈھونڈتی ہے کہ اس کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ اس میں ایک استعارہ ہے۔ مگر مرزا صاحب نے ایک قاعدہ کلیہ بنا دیا ہے جس کے آگے ان کی کوئی پیش نہیں جاتی۔ یہ حدیث قسم سے شروع ہوتی ہے اور قسم والی حدیث کے متعلق مرزا صاحب فرماتے ہیں '' اور قسم صاف بتاتی ہے کہ یہ خبر ظاہری معنوں پر محمول ہے نہ اس میں کوئی تاویل ہے اور نہ استثنا ہے ورنہ قسم میں کونسا فائدہ ہے۔''
اس حدیث نبوی میں الفاظ والذی نفسی بیدہ آئے ہیں لہٰذا اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثنا ہے۔
نیز مرزا صاحب اپنی کتاب '' ایام الصلح اردو'' کے ص۱۶۹ پر لکھتے ہیں:
'' ہمارا حج تو اس وقت ہوگا جب دجال بھی کفر اور دجل سے باز آکر طواف بیت اللہ کرے گا کیونکہ بموجب حدیث صحیح کے وہی وقت مسیح موعود کے حج کا ہوگا۔'' (ایام الصلح ص۱۶۹ و روحانی ص۴۱۶، ج۱۴)
اس عبارت سے کم از کم اتنا ثابت ہوگیا کہ مرزا صاحب نے تاویلوں کا سہارا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ مسیح موعود حج ضرور کرے گا۔
مرزائی اعتراض نمبر ۱:
آپ کو فارغ البالی اور مرفہ الحالی حاصل نہ تھی۔ (احمدیہ پاکٹبک ص۱۰۵۱ طبعہ ۱۹۴۵)
الجواب:
اور مالی فتوحات اب تک دو لاکھ روپیہ سے بھی زیادہ ہے۔ ( نزول المسیح ص۳۲ و روحانی ص۴۱۰ ج۱۸)
'' مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ بھی ماہوار آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے، اس نے میری دستگیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔'' (حقیقت الوحی ص۲۱۱ و روحانی ص۲۲۱، ج۲۲)
مرزائی اعتراض نمبر ۲:
مرزا صاحب کے لیے مکہ میں امن نہ تھا۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۱)
الجواب:
حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود دنیا میں آکر اپنے متعلق ایسی فضا قائم کریں گے کہ حجاز اور تمام دنیا میں ان کے لیے امن ہوگا اور وہ بلا خوف و خطر حج کریں گے۔ اگر مرزا صاحب کے لیے امن نہ تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے وہ مسیح موعود نہ تھے۔ نیز مرزا صاحب کو الہام ہوا تھا:
واللّٰہُ یعصمک عن الناس ۔(تذکرۃ الشھادتین ص۴ و براھین احمدیہ ص۵۱۰، ج۴ وآئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱ و تحفہ بغداد ص۲۴ و انجام آتھم ص۵۶ و اربعین ص۲۳نمبر۳ و مواھب الرحمن ص۱۷ و الوصیت ص۱۶ و حقیقت الوحی ص۹۰ و تذکرہ ص۳۷۰ و مجموعہ اشتہارات ص۲۷۶، ج۲)
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب محافظ اٹھا دئیے۔ اور کہہ دیا کہ اب اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔
نوٹ: یہ آیت مدنی ہے اور آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح جب مرزا صاحب کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ اٹھایا تو مرزا صاحب نے حج کیوں نہ کیا؟
مرزائی اعتراض نمبر ۳:
مرزا صاحب بیمار رہتے تھے لہٰذا آپ پر حج فرض نہ تھا۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۱)
الجواب:
یہی دلیل مرزا کے کاذب مسیح ہونے کا ثبوت ہے۔ حدیث مذکورہ سے عیاں ہے کہ مسیح موعود کو کوئی ایسی جسمانی بیماری نہ ہوگی جو حج بیت اللہ سے مانع ہو۔ ثابت ہوا کہ آپ مسیح موعود نہیں۔ ورنہ آپ ایسی امراض میں مبتلا نہ ہوتے (دردِ سر، دورانِ سر، ذیابیطس وغیرہ)
اعتراض:
الفاظ حاجا او معتمرا لیثنینھما۔ میں '' یا۔ یا'' کے تکرار سے اس کی محفوظیت ظاہر ہے۔(ایضاً ص۱۰۵۳ طبعہ ۱۹۴۵)
الجواب:
ذرا اپنے گھر کی بھی خبر لیجئے۔ کتاب ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۹۷ میں ہے:
'' اور تیس برس کی مدت گزر گئی کہ خدا نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسی سال ہوگی اور یا یہ کہ پانچ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم۔'' (ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۷، ج۵ و روحانی ص۲۵۸، ج۲۱)
اعتراض:
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کشف ہے جس طرح آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کو لبیک کہتے ہوئے دیکھا ہے۔ ویسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آپ نے احرام باندھے ہوئے دیکھا۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۵)
الجواب:
صحیح مسلم میں ایک روایت آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی ازرق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور وادی ہر شے میں حضرت یونس علیہ السلام کو لبیک کہتے ہوئے دیکھا ہے مگر یہ آپ نے کشفی حالت میں دیکھا جیسا کہ الفاظ قَالَ کانی اَنْظُرُ اِلٰی مُوْسٰی (گویا میں دیکھتا ہوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف) الفاظ قَالَ کَانِیْ اَنْظُرُ اِلٰی یُونس (فرمایا گویا میں دیکھتا ہوں حضرت یونس علیہ السلام کی طرف)(اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۹۴، ج۱ کتاب ان یمان باب الاسراء ومشکوٰۃ ص۵۰۸ باب بدا الخلق وذکر الانبیاء) اس پردال ہیں۔ مگر یہاں کسی جگہ یہ الفاظ نہیں ہیں قَالَ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی عِیْسٰی پس حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت یونس علیہ السلام نبی اللہ کا واقعہ پیش کرنا صحیح جواب نہیں بلکہ یہاں تو لیھلن مضارع مؤکد بہ نون ثقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے۔() احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۲ زیر عنوان امکان نبوت پر تیسری دلیل) اس واسطے اس کو ماضی کا واقع بیان کرنا حماقت ہے۔ نیز مرزا صاحب کا کلیہ قاعدہ جو حدیث قسم سے شروع ہو۔ اس کی خبر ظاہری معنوں پر محمول ہوتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاویل یا استثنا نہیں ہوا کرتا۔() حمامۃ البشرٰی ص۱۴ و روحانی ص۱۹۲ج۷ ؍) اس کی تصدیق نہیں کرتا۔
اعتراض:
ایک حدیث میں دجال کا بھی بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا جانا مذکور ہے۔ کیا وہ حاجی ہوگا؟ (احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۲)
الجواب:
یہ خواب کا واقعہ ہے تو اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حج کا قیاس کرنا جب کہ ان کے لیے زمانہ آئندہ کی خبر صراحت سے دی گئی ہے قیاس مع الفارق ہے۔
اعتراض:
فج الروحاء میقات نہیں۔ مسیح اس جگہ سے احرام کس طرح باندھے گا۔ اس لیے یہ ایک کشف ہے۔ (ایضاً ص۱۰۵۴)
الجواب:
میقات جتنے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان سے باہر کے لوگ ہیں اور جو اندر ہوں وہ جہاں ہوں وہیں سے احرام باندھ لیں مثلاً اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ میقات ہے تو کیا جو ذوالحلیفہ سے اندر مکہ کی جانب رہتے ہیں وہ بھی ذوالحلیفہ جا کر احرام باندھ کر آئیں؟ نہیں بلکہ وہ جہاں ہوں وہیں احرام باندھ لیں۔ حدیث شریف کے الفاظ کا مقتضایہ ہے کہ ایام حج میں حضرت مسیح موعود دورہ کرتے ہوئے فج الروحاء کے قریب ہوں گے۔ اس لیے وہیں سے احرام باندھ لیں گے۔ یہی شرعی حکم ہے۔ (تعلیمات مرزا ص۵۶)
حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحِلَیْفَۃِ وَلَاھْلِ الشَّامَ الُحجفۃ وَلِاَھْلِ نَجْدِ قَرْنَ الْمَنَازِلَ وَلِاَھْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ فَھُنَّ لَھُنَّ وَلِمَنْ اَتٰی عَلَیْھِنَّ مِنْ غَیْرِ اَھْلِھِنْ لِمَنْ کَانَ یُرِیْد الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ فَمَنْ کَانَ دُوْنَھُنَّ فَمُھِّلَہٗ مِنْ اَھْلِہٖ وَکَذَاکَ وَکَذَاکَ حَتّٰی اَھْلُ مَکَّۃَ یُھِلُّوْنَ مِنْھَا ۔(اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۳۷۴، ج۱ کتاب الحج باب مواقیت الحج و البخاری فی الصحیح ص۲۰۶، ج۱ کتاب المناسک باب مھل اہل مکۃ للحج ومشکوٰۃ ص۲۲۰ کتاب المناسک واللفظ لہ)
'' ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے معین کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جگہ احرام کی مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے حجفہ اور نجد والوں کے لیے قرن منازل یمن والوں کے لیے یلملم۔ پس یہ میقات ان شہروں کے ہیں جو مذکور ہوئے۔ اور وہ گزریں ان جگہوں سے اور جو شخص کہ ارادہ کرے حج اور عمرے کا، رہنے والا اندران مواضع کے وہ اپنے گھر سے احرام باندھے۔ یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھیں۔ انتہیٰ ''
افسوس مرزا صاحب اس دنیا سے کوچ کر گئے اور فریضہ حج ادا نہ کیا۔ جو بوجہ دعویٰ مسیحیت ہونا ضروری تھا۔ اور اسلام کے ایک ادنیٰ خادم اور عالم رحمانی قاضی محمد سلیمان صاحب مرحوم نے پیشگوئی کی تھی:
'' میں نہایت جزم کے ساتھ بآواز بلند کہتا ہوں کہ حج بیت اللہ مرزا صاحب کے نصیب میں نہیں۔ میری اس پیشگوئی کو سب یاد رکھیں۔'' (تائید اسلام ص۱۲۴ طبعہ ۱۳۱۱ھ و ص۱۱۶ طبعہ ۱۳۴۲ھ)
آہ! آج ہم قاضی صاحب مرحوم کی پیشگوئی کو حرف بحرف درست پاتے ہیں۔ حالانکہ مرزا صاحب بعد پیشگوئی کے بہت عرصہ تک زندہ رہے اور حج نصیب نہ ہوا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
جس مسیح نے آنا تھا انہوں نے پینتالیس سال ذندہ رہنا تھا
حضرت مسیح ؑ جن کے آنے کی پیشن گوئی آپ ﷺ نے فرمائی تھی انہوں نے پینتالیس سال اس دنیا میں رہنا تھا اس کے بعد ان کی وفات ہونی تھی ۔ تو مرزائیوں سے گزارش ہے کہ وہ بتادیں کہ ان کے مسیح صاحب کتنا عرصہ ذندہ رہے ؟ اور پھر کتنے عرصے کے بعد ان کی وفات ہوئی؟

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ وَیَمْکُتُ خَمْسًا وَاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیَ فِی قَبْرِیْ۔
کتاب الوفاء ومشکوٰۃ ص ۴۸۰ وعسل مصفٰی ص۴۴۱ ج۲))
'' عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ زمانہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم زمین پر اتریں گے اور نکاح کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی اور پینتالیس سال دنیا میں رہیں گے اور پھر فوت ہوں گے پس میرے پاس میرے مقبرے میں دفن ہوں گے۔''

Untitled.png
 
Top