(جو مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ کافر؟)
جناب یحییٰ بختیار: ’’کفر کی دو قسمیں ہیں۔ اوّل ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی اِنکار کرتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
آپ ذرا سن لیجئے، میں ’’حقیقۃالوحی‘‘ سے پڑھ رہا ہوں، پھر آپ کو حوالہ دے دیتا ہوں:
1656’’۔۔۔۔۔۔اوّل، ایک یہ کفر کہ ایک شخص اِسلام سے ہی اِنکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا سول نہیں مانتا۔ دوم، دُوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیحِ موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اِتمامِ حجت کے جھوٹا جانتا ہے، جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے، اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، غور سے دیکھا جائے تو دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم کے کفر میں داخل ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
جناب عبدالمنان عمر: آگے بھی ذرا اگر آپ کے پاس ہے تو پڑھ دیجئے۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور۔۔۔۔۔۔‘‘
اور آگے تو نہیں ہے، مگر یہ بڑا Clear (صاف) ہے۔
جناب عبدالمنان عمر: آگے میں پڑھ دُوں گا تو آپ کو واضح ہوجائے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: یعنی اس کے بعد، اس سے آگے کیا ضرورت ہے؟ صفحہ۱۸۵۔
جناب عبدالمنان عمر: یہ نکالتے ہیں حوالہ۔ میں عرض کرتا ہوں، اُسی جگہ، اُس کے آگے مرزا صاحب فرماتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’میں اب بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہتا ہوں۔‘‘
دیکھ لیا، اب واضح ہوگیا۔ شروع میں بھی کہتے ہیں کہ ’’کفر کی دو قسمیں ہیں‘‘ اَخیر میں بھی کہتے ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ ’’دونوں میں فرق بھی نہیں ہے۔‘‘
جناب عبدالمنان عمر: جی؟
1657جناب یحییٰ بختیار: ابھی آپ دیکھ لیجئے۔ میں ذرا عرض کرتا ہوں۔ میں ذرا موٹے دماغ کا آدمی ہوں، اور میں نے یہ کتابیں پڑھی نہیں ہیں، اور مجھے سمجھ نہیں آتی اور میں آپ سے…
جناب عبدالمنان عمر: میں کوشش کروں گا کہ میں خدمت کرسکوں۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ میں Clarifications چاہتا ہوں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکا، کہ:
’’کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جو آنحضرتﷺ کو نہیں مانتا۔‘‘ ایک وہ کافر ہوا جو آنحضرتﷺ کو نہیں مانتا، وہ تو کافر ہوگیا۔ ’’دُوسرا وہ جو مسیحِ موعود کو نہیں مانتا۔‘‘
وہ بھی کافر ہے۔ کیوں کافر ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس کو مانو، خدا اور رسول نے کہا کہ اس کو مانو اور خدا اور رسول کے حکم سے اِنکار کر رہا ہے، وہ بھی کافر ہے۔ تو دراصل دونوں کفر ایک قسم کے ہوگئے۔
اور اس کے بعد پھر کہتے ہیں کہ نہیں، اس کو کچھ تھوڑا سا Concession دے دو، اب یہ کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی نہیں، یہ نہیں ہم کہہ رہے، ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب کی اپنی عبارت کہہ رہی ہے کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بنیادی طور پر وہ کفر کی دو قسمیں بتارہے ہیں۔ اُس سے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ شاید دُوسری قسم کا جو کفر ہے اُس کے نتیجے میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں نہیں، یہ دیکھیں ناں، یہ جو ہے، پھر آگے فرماتے ہیں:
’’جو خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے۔‘‘ غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔
1658جناب عبدالمنان عمر: معلوم ہوا، ہیں تو دو ہیں، دونوں کو بھی قائم رکھنا پڑے گا۔
جناب یحییٰ بختیار: نتیجہ اُن کا ایک ہی ہوجائے گا۔
جناب عبدالمنان عمر: نتیجہ حصوں میں ایک ہوجائے گا۔ اب میں اُس کے متعلق عرض کرتا ہوں…
جناب یحییٰ بختیار: ’’چونکہ جو شخص باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا اور بموجب قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا، اس میں شک نہیں کہ جس پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اوّل قسم کفر یا دُوسری قسم کفر کی نسبت اِتمامِ حجت ہوچکا ہے، وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہوگا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۰، خزائن ج۲۲ ص۱۸۶)
جناب عبدالمنان عمر: اب دیکھئے کہ وہاں شروع میں ہی آپ فرماتے ہیں کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ یہ Stand جو میں پہلے آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا کہ کفر کی دو قسمیں ہیں، مرزا صاحب اس کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دُوسری قسم کے کفر کے نتیجے میں مؤاخذہ کوئی نہیں ہوگا؟ تو وہ ایک فضول سا کام ہے؟ بے شک کرتا رہے کوئی شخص؟ اُس کے لئے فرمایا کہ نہیں، اُس کے لئے مؤاخذہ ضرور ہوگا، اور مؤاخذہ کے لحاظ سے دونوں کفر جو ہیں وہ ایک کیٹگری میں آجائیں گے۔ یہ ہے نتیجہ جو اس سے نکالا ہے۔ چنانچہ عبارت میں عرض کردیتا ہوں: ’’ایک کفر یہ ہے کہ ایک شخص اسلام سے ہی اِنکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔‘‘
یہ ایک اصلی کفر ہے جس کے متعلق میں پہلے عرض کرچکا ہوں۔ دُوسرا یہ کفر جس کی پھر مثالیں دے رہے ہیں، مثلاً یعنی دُوسرا کفر ایک اُس سے Low (کم) درجہ کا ہے، اس کی ایک مثال دیتے ہیں:
1659’’دُوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیحِ موعود کو نہیں مانتا، اور اُس کو باوجود اِتمامِ حجت کے، باوجود یہ سمجھ جائے کہ یہ شخص سچی بات کر رہا ہے، وہ پھر اُس کو جھوٹا جانتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘