• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

جہاد کی لغوی اورشرعی تعریف

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جہاد کے لغوی معنی
جہاد جہد بالضم یا جہد بالفتح سے مشتق ہے جس کا معنی خوب محنت و مشقت کے ہیں ۔ لغت کی کتابوں میں جہاد ک لغوی معنی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
بذل اقصی ما یستطیعہ الانسان من طاقتہ لنیل محبوب او لدفع مکروہ
انسان کا اپنی کسی مرغوب چیز کو حاصل کرنے یا نا پسندیدہ چیز سے بچنے کے لئے انتہائی درجے کی بھر پور کوشش کرنا ۔

جہاد کے شرعی معنی

تمام فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ جہاد شریعت میں قتال فی سبیل اللہ اور اس کی معاونت کو کہتے ہیں اس کی مکمل وضاحت کے لئے مذاہب اربعہ کی مستند کتابوں کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے ۔
جہادکی تعریف فقہ حنفی میں
(1) الجہاد بذل الوسع والطاقۃ بالقتال فی سبیل اللہ عزوجل بالنفس والمال و اللسان و غیر ذالک
اللہ رب العزت کے راستے میں قتال کرنے میں اپنی جان ، مال اور زبان اور دوسری چیزوں سے بھر پور کوشش کرنے کو جہاد کہتے ہیں ۔ (البدائع والصنائع )
(2) الجہاد دعوۃ الکفار الی الدین الحق وقتالہم ان لم یقبلوا۔
جہاد کے معنی کافروں کو دین حق کی طرف دعوت دینا اور ان سے قتال کرنا اگر وہ دین حق کو قبول نہ کریں ۔ (فتح القدیر)

جہاد کی تعریف فقہ مالکی میں

قتال المسلم کافراً ذی عہد لا علاء لکمۃاللہ
جہادکے معنی مسلمانوں کا ذی عہد کافروں سے اللہ ک دین کی سر بلندی کے لئے قتال کرنا۔ (حاشیہ العدوی ۔ الشرح الصغیر)

جہاد کی تعریف فقہ شافعی میں

وشر عابذل الجہد فی قتال الکفار
اور جہاد کے شرعی معنی اپنی پوری کوشش کافروں سے قتال کرنے میں صرف کرنا (فتح الباری)
جہاد کی تعریف فقہ حنبلی میں
الجہاد قتال الکفار
جہاد کافروں سے لڑنے کو کہتے ہیں ۔ (مطالب اولی النہی)

یہ تو تھی جہاد کی شرعی تعریف اب آئیے جہاد کے حکم کی طرف ۔
جہاد کا حکم
امام سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
''جہاد ایک محکم فریضہ اور اللہ پاک کا قطعی فیصلہ ہے ۔ جہاد کا منکر کافر ہوگا اور جہاد سے ضد رکھنے والا گمراہ ہوگا''۔ (فتح القدیر ص 191،ج5)
صاحب الاختیار فرماتے ہیں
''جہاد ایک محکم اور قطعی فریضہ ہے جس کا منکر کافر ہے اور یہ فریضہ قرآن و حدیث اور امت کے اجماع سے ثابت ہے ۔''(فتح القدیر ص 191 ،ج5 )
جہاد کی اقسام
کافروں سے جہاد کرنے کی دو قسمیں ہیں (1) اقدامی جہاد (2) دفاعی جہاد
اقدامی جہاد:یعنی مسلمانوں کا کافروں کے خلاف خود اقدام جہاد کرنا ، اگر یہ اقدام ان کافروں پر ہے جن تک دین کی دعوت پہنچ چکی ہے تو ایسے کافروں کو حملے سے پہلے دعوت دینا مستحب ہے اور اگردعوت نہیں پہنچی تو پہلے دعوت دی جائے گی اگر نہ مانیں تو جزیہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور یہ بھی نہ مانیں تو ان سے قتال کیا جائےگا۔
اقدامی جہاد: کی بدولت وہ کافر جو مسلمانوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہوں دب جاتے ہیں اور ان کے دشمن خوف زدہ اور مرعوب ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں نہیں کرتے اس لئے کافروں کو مرعوب رکھنے اور انہیں اپنے غلط عزائم کی تکمیل سے روکنے اور دعوت اسلام کو دنیا کے ایک ایک چپے تک پہنچانے اور دعوت کے راستے سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے اقدامی جہاد فرض کفایہ ہے۔ اگر کچھ مسلمان یہ عمل کرتے ہیں تو سب کی طرف سے کافی ہے لیکن اگر کوئی بھی نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔
فتاویٰ شامی میں ہیں مسلمانوں کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ دارالحرب کی طرف ہر سال ایک یا دو مرتبہ لشکر بھیجے اور عوام پر ضروری ہے کہ وہ اس میں اپنے امام کی مدد کریں اگر امام لشکر نہیں بھیجے گا تو گناہ گار ہوگا ۔(فتاویٰ شامی)
نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا اکثر جہاد اقدامی تھا۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو اقدامی جہاد کی تلقین فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اقدامی جہاد ہوتا رہے تو دفاعی کی ضرورت ہی پیش نہ آئے لیکن جب مسلمان اقدامی جہاد کے فریضے غفلت کرتے ہیں تو انہیں دفاعی جہاد پر مجبور ہونا پڑتا ہے جیسا کہ اس دور میں ہو رہاہے۔

دفاعی جہاد: یعنی اپنے ملک پر حملہ کرنے والے کفار سے دفاعی جنگ لڑنا یہ اہم ترین فریضہ ہے ۔ حضرات فقہاء کرام کی عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ۔
(1) جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر یا بستی پر حملہ آور ہو جائیں یا قابض ہو جائیں ۔
(2) جب کفار مسلمانوں کے کچھ افراد کو گرفتار کرلیں ۔
(3) ایک مسلمان عورت گرفتار ہو جائے تو اسے کافروں سے نجات دلانا تمام مسلمانان عالم پر فرض ہو جاتا ہے۔
(4) جب امام پوری قوم یا کچھ افراد کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دے۔
(5) جب مسلمانوں اور کافروں کی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائٰیں اور جنگ شروع ہو جائے۔
فائدہ : فرض عین کا معنی یہ ہے کہ اس جہاد میں سب نکلیں گے یہاں تک کہ بیٹا والدین کی اجازت کے بغیر ، بیوی اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر ، مقروض اپنے قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلیں گے۔
ابتدائی طور پر یہ جہاد اس علاقے کے مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے جن پر حملہ ہوا ہو لیکن اگر وہ کافروں کے مقابلے میں کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے ساتھ والوں پر فرض ہوجاتا ہے ۔ اگر وہ بھی کافی نہ ہوں یا سستی کریں تو ان کے ساتھ والوں پر ۔ اس طرح سے مشرق سے لے کر مغرب تک تمام مسلمانو ں پر فرض ہوجاتا ہے ۔
دفاعی جہاد کے متعلق حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"دفاعی جہاد یعنی اپنے دین اور حرمت کے دفاع کے لئےلڑنا یہ اجتماعی طور پر اہم ترین فریضہ ہے ۔ وہ دشمن جو مسلمانوں کے دین اور دنیا کو تباہ کرنے کے لئے حملہ آور ہواہے ایمان کے بعد اس کے ساتھ لڑنے سے بڑا فریضہ اور کوئی نہیں ۔ اس دفاعی جہاد کے لئے کوئی چیز شرط نہیں یعنی توشہ اور سواری تک شرط نہیں بلکہ ہر ایک حتی الامکان دشمن کا مقابلہ کرے۔"
فقہاء کرام کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دفاعی جہاد صرف اسی وقت فرض نہیں ہوتا جس وقت کافر حملہ کردیں بلکہ جب کافر مسلمانوں سے "مسافت سفر "کی دوری پر ہو ں تو اسی وقت اس شہر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے ۔ (نہایۃ المحتاج ص58 ،ج8)

قرآن مجید اور جہاد
قرآن مجید میں جہاد کا مسئلہ بہت ہی اہمیت اور تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ محققین کی رائے یہ ہے کہ اعمال میں جس قدر تفصیل قرآن مجید نے جہاد کی بیان کی ہے اور کسی عمل کی اس قدر تفصیل بیان نہیں کی ۔ اللہ رب العزت نے اس عمل پر اہل ایمان کو کھڑا کرنے کے لئے قرآن مجید کی سورتوں کی سورتیں نازل فرمائیں۔ سینکڑوں ایات میں مختلف انداز اور پیراؤں میں مسائل جہاد کو سمجھایا جہاد کے منافع اور مقاصد کا تفصیل سے بیان ہوا۔ مجاہد کے مقام کو مکمل وضاحت سے کھول کھول کر بیان کیا۔ جہاد نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدوں کو پوری طرح تفصیل سے بیان کیا گیا۔ قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنے اور سمجھنے والے بعض بڑے مفسرین حضرات کی رائے یہ ہے قرآن مجید کا موضوع ہی جہاد ہے ۔
قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کو جا بجا استعمال فرمایا ہے ۔ جس کے معنی قتال فی سبیل اللہ کے آتے ہیں اور خود قتال کا صیغہ بھی بار بار استعمال ہوا ہے ۔ کتاب اللہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے26 صیغے ہیں اور قتال کے 79 صیغے استعمال ہوئے ہیں ۔
قرآن مجید کی بعض پوری کی پوری سورتیں جہاد کے احکام و فضائل اور جہاد ترک کرنے والوں پر وعیدوں کے متعلق نازل ہوئٰیں جیسے دس رکوع پر مشتمل سورۃ انفال جس کا دوسرا نام سورۃ بدر ہے اور سولہ رکوع پر مشتمل سورۃ براۃ جس کے اور بھی کئی نام ہیں ۔ قرآن مجید کی سورۃ حدید میں آلات جہاد کی طرف اشارہ ہے ، سورۃ بقرہ، سورۃ نساء اور سورۃ مائدہ میں بھی تفصیل سے جہاد کا بیان ہے۔ سورۃ احزاب ، سورۃ محمد (قتال)، سورۃ فتح ، سورۃ الصف کے جنگی ناموں ہی سے ان سورتوں کے جہادی مضامین کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، سورۃ عادیات میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں اور سورۃ نصر میں جہاد کے ذریعے دین کے عالمگیر انقلاب اور مقبولیت کا بیان ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مسلمان ایک مرتبہ قرآن مجید کا صحیح مطالعہ کرے تو اس کی روح میدان جہاد میں جانے کے لئے بے چین ہو جاتی ہے اور اسے جہاد کی حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے ۔ اس لئے دشمنان جہاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھیں کیونکہ قرآن مجید کے سمجھنے والے کسی بھی مسلمان کو جہاد سے دور کرنا بہت ہی مشکل ہے۔

حدیث شریف اور جہاد

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال کرنے اور قتال پر ابھارنے کا حکم دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں احکام پر کما حقہ عمل فرمایا۔ چنانچہ ترغیب جہاد کے سلسلے میں آپ صلی علیہ وسلم کے ہزاروں فرامین کتب حدیث میں موجود ہیں ۔
حضرات محدثین کرام نے آنحضرت صلی علیہ وسلم کے جہاد کے متعلق اقوال و افعال کو جمع فرمایا ہے۔ ان اقوال و افعال کی کثرت کا اندازہ تو ان کتب کے مطالعہ ہی سے ہو سکتاہے جو جہاد کی اہمیت کاواضح ثبوت ہیں۔ ذیل میں ہم کتب حدیث میں کتاب الجہاد کے مقامات لکھ رہے ہیں تاکہ ذوق تحقیق رکھنے والے قارئین سہولت کے ساتھ احدیث جہاد تلاش کرسکیں۔

1۔ صحیح بخاری شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 241 ابواب ہیں۔ (صفحہ 390 تا 452 جلد اول)
2۔ صحیح مسلم شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 100 ابواب ہیں ۔(صفحہ 81 تا 144 جلد دوم)
3 ۔ ترمذی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 155 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول )
4۔ ابو داؤد شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 176 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 342 تا 362 جلد اول / 2 تا 9 جلد دوم)
5۔ نسائی شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 48 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 53 تا 66 جلد دوم )
6۔ ابن ماجہ شریف میں کتاب الجہاد کے عنوان سے 46 ابواب ہیں ۔ (صفحہ 197 تا 207 )
7۔ مشکوٰۃشریف میں کتاب الجہاد جلد اول صفحہ 329 تا 355 ( کل صفحات 26 )
8۔ الترغیب والترہیب میں کتاب الجہاد صفحہ 365 تا 455 جلد ثانی ( کل صفحات 90 )
9۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں کتاب الجہاد صفحہ 212 تا 546 ( کل صفحات 334 )
10۔ سنن کبرٰی بیہقی میں کتاب الجہاد جلد 9 صفحہ 1 تا 183 ( کل صفحات 183 )
11۔ کنزالعمال میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 278 تا 637 (کل صفحات 359 )
12۔ اعلاء السنن میں کتاب الجہاد جلد 12 صفحہ 1 تا 674 )
کتب فقہ میں کتاب الجہاد کے مراجع
1۔ فتح القدیر میں کتاب الجہاد جلد 5 صفحہ 187 تا 333 ( کل صفحات 146 )
2۔ البحرالرائق میں کتاب الجہاد جلد 5 صفحہ 70تا 142 (کل صفحات 72 )
3۔ فتاوٰی شامی میں کتاب الجہاد جلد 4 صفحہ 119 تا 268 ( کل صفحات 149 )

جہاد کے موضوع پر مستقل تصانیف

ویسے تو جہاد کی ضرورت اور اہمیت اور اس کے عظیم الشان فضائل اور اعلی مقام کے پیش نظر حدیث و فقہ کی ہر کتاب میں جہاد پر طویل ابواب باندھے گئے ہیں اور سینکڑوں صفحات پر جہاد کے فضائل و احکام کو لکھا گیا ہے مگر امت می٘ں سے بعض اکابر نے اس موضوع پر مستقل تصانیف فرمائیں ، ان اسلاف میں سے چند کے اسماء گرامی ذکر کئے جاتے ہیں ۔
(1) ابو سلیمان داؤد بن علی داؤد الاصفہانی الظاہری المتوفی 270ھ(کتاب الجہاد )
(2) احمد بن عمروبن الضحاک الشیبانی ، ابو بکر، المعروف بابن ابی عاصم المتوفی 278 ھ (الجہاد )
(3) ثابت بن نذیر القطبی المالکی المتوفی 318 ھ (الجہاد )
(4) ابراہیم بن حماد بن اسحاق الازدی المالکی المتوفی 323 ھ (کتاب الجہاد )
(5) ابو سلیمان حمد بن محمد الخطابی المتوفی 388 ھ (الجہاد)
(6) ابو بکر محمد بن الطیب الباقلانی المتوفی403 ھ (فضل الجہاد)
(7) تقی الدین عبد الغنی بن عبد الواحد بن ولی الجماعیلی المقدسی المتوفی 600 ھ ان کی کتاب کا نام "تحفۃ الطالبین فی الجہاد و المجاہدین " ہے۔
(8) ابو قاسم بن علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف با بن عساکر 600 ھ(الجہاد )
(9) عزالدین علی بن محمد الجزری المعروف با بن اثیر المتوفی 630 ھ (الجہاد )
(10) بہاءالدین ابو المحاسن یوسف بن رافع المعروف با بن شداد الموصلی الجلی المتوفی 632 ھ ھ (احکام الجہاد)
(11) ابو محمد عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام السلمی المتوفی 660 ھ ان کی کتاب کا نام "احکام الجہاد و فضائلہ" ہے ۔
(12) عماد الدین اسماعیل بن عمر المعروف با بن کثیر الحافظ الد مشقی المتوفی 774 ھ ۔ان کی کتاب کانام "الاجتہادفی طلب الجہاد "ہے ۔
(13) علی بن مصطفٰی علاء الدین البوسنوی الرومی الحنفی الشہیر علی ددہ المتوفی 1007 ھ(الجہاد و فضائلہ)
(14) حسام الدین خلیل البر سوی الرومی المتوفی 1042 ھ (فضائل جہاد )(ماخوذ از مقدمہ کتاب الجہاد لا بن المبارک از۔ ڈاکٹر نزہہ حماد )

جہاد کے موضوع پر اہم ترین تصنیف حضرت امام ابو عبد الرحمان عبد اللہ بن المبارک المروزی الحنظلی کی "کتاب الجہاد "ہے۔ عظیم مجاہد اور بلند پایہ امام و فقیہ کے قلم سے نکلنے والی یہ تصنیف اپنے موضوع پر ایک منفرد مقام کی حامل ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک کے یہ جواہر پارے بار بار چھپ چکے ہیں اور عوام و خواص میں مقبول ہیں۔

زمانہ قریب میں جن مصنفین حضرات نے جہاد کے موضوع پر مستقل تصانیف فرمائی ہیں ۔ ان میں ڈاکٹر کامل سلامہ الدقس کی کتاب (آیا ت الجہاد فی القرآن الکریم )اور ڈاکٹر زحیلی کی کتاب آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی کا ایک خاص مقام ہے ۔

بشکریہ واجد حسین http://www.urduweb.org/mehfil/threads-
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اس ضمن میں ایک ضروری اور اساسی بات سمجھنے کی ہے ،وہ یہ جیسا کہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ ’’جہاد‘‘ کے لغوی معنی تو ’’بھرپور کوشش اور جدوجہد ‘‘ہی کے ہیں لیکن شریعت کی اصطلاح میں ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘سے مراد ’’بذل الجھد فی قتال الکفار‘‘یعنی کفارکے خلاف جنگ میں اپنی پوری قوت کھپادینا ہے۔لفظ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے الفاظ قرآن و حدیث میں جہاں مطلقاًاستعمال ہوئے ہیں، اس کے یہی معنی ہے۔لفظ ِجہاد جب بھی ہمارے سامنے آئے گا ہم اس سے یہی مراد لیں گے۔اگرچہ قرآن و حدیث میں بعض جگہ یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی آیا ہے۔ لیکن چند جگہوں پر لفظِ جہاد کا لغوی استعمال اس کے اصلی اصطلاحی معنی کو نہیں بدلتا اور نہ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کی مشروعیت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔کیونکہ اگر ہم اس کے لغوی معنی پر احکاما ت کا استنباط اور اس کو اخذ کریں گے تو پھر کوئی بھی شخص ’’صلوٰۃ ‘‘کو کبھی اپنی مرضی سے دُعاء مراد لے گا اور کبھی نماز لے گا،لفظ ’’زکوٰۃ ‘‘ کو کبھی اپنی مرضی سے تزکیہ مرادلے گااور کبھی اگر دل چاہے گا تو شریعت کی طرف سے مقرر کردہ زکوۃ مراد لے لے گااور اسی طرح ’’حج‘‘کو کبھی اپنے گھر کے قصد کے لیے قیاس کرلے گا اور کبھی اس کو ’’حج بیت اللہ ‘‘مراد لے لے گا۔لہذا جوکوئی بھی دین میں ایسی تعریفات کرے توجا ن لیجئے کہ اس سے بڑھ کر دین میں فساد ڈالنے والا کوئی نہیں اور ایسے لوگوں سے بچنا ہر مسلمان کے لئے واجب ہے۔
اسی طرح ایک ضروری بات یہ بھی سمجھ لیں کہ جہاد کی تعریف میں بعض علماء نے جہاد کی بعض انواع کا ذکر بھی کیا ہے یعنی ایک نوع جہاد بالمال ہے، دوسری نوع جہاد باللسان ہے اور تیسری نوع جان سے جہاد کرنا ہے۔عرض یہ ہے کہ’’جہاد باللسان‘‘ وہ ہے کہ جس سے جہاد کا فائدہ ہو یعنی جہاد کی ترغیب ہو،تقریر ہو،فضائل جہاد کا تذکرہ ہو،جہاد سے متعلق جوشیلے اشعار ہوںاور جان دار نظمیں ہوں،کفار کو دھمکی ہو،للکارہو۔
یہ جہاد باللسان ہے ،نہ یہ کہ دو گھنٹے کی تقریروبیان کھانے پینے اور پہننے کے آداب پر ہو اور پھر کہا جائے کہ میں نے جہاد باللسان کیا ۔یہ نیک کام تو ہوسکتا ہے لیکن جہاد باللسان نہیں ۔اسی طرح ’’جہاد بالمال‘‘یہ ہے کہ آپ کے مال سے میدانِ جہاد اور مجاہدین کو فائدہ پہنچے، نہ یہ کہ آپ نے کسی فقیر کو پیسہ زکوٰۃ اداکیا اور پھر کہا کہ میں نے جہاد بالمال کیا ،یہ نیک کام تو ہے لیکن جہاد بالمال نہیں۔امام کاسانی ﷫فرماتے ہیں:
’’بذل الواسع والطاقة بالقتال فی سبیل اللّٰہ عزوجل بانفس والمال وغیر ذلک‘‘[امام کاسانی ﷫،بداع ج:۹ص:۴۲۹۹۔]
’’اللہ کے راستے میں جنگ کے لئے نفس ،مال اور زبان وغیرہ کی پوری طاقت لگادینا‘‘۔
غرضیکہ ہر وہ کوشش جو کہ جہاد فی سبیل اللہ کی مددو نصرت کے لئے کی جائے ،چاہے وہ جہاد کے لئے لوگوں کو تیار کرنا ہو،یا مجاہدین کے لئے سامانِ حرب ورسد کا فراہم کرنا ہو۔رسول اللہﷺنے فرمایا:
((ان اللّٰہ عزوجل یدخل بالسھم الواحد ثلاثة نفرالجنة ؛صانعہ الذی یحتسب فی صنعتہ الخیر، والذی یجھز بہٖ فی سبیل اللّٰہ ،والذی یرمی بہٖ فی سبیل اللّٰہ))[مسند احمد۔]
’’بے شک اللہ عزوجل ایک تیر سے تین بندوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں ۔تیر بنانے والا جو اسے بنانے میں بھلائی کا ارادہ رکھتا ہو،اللہ کی راہ میں وہ تیر(مجاہد کو)مہیا کرنے والا ،اور اللہ کی راہ میں وہ تیر چلانے والا‘‘۔
 

لبید

رکن ختم نبوت فورم
یہ تو جہاد اصغر ہے نہ کی جہاد اکبر۔ نیز جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی کئی جہاد ہیں ان کا ذکر حذف کردیا گیا ہے۔
 

لبید

رکن ختم نبوت فورم
یہ جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف ہے ورنہ جہاد کی دوسری اقسام بھی ہے جن کا یہاں اس لئے ذکر نہیں کیا گیا کہ لوگ دھوکہ کھائیں۔
 
Top