حدیث قصر نبوت پرقادیانی اعتراضات ( اعتراض نمبر۴۲:حدیث قصر نبوت )
قادیانی: اول تو نبی ﷺ کو محل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ ﷺ کی توہین ہے۔کیونکہ آپ ﷺ کا درجہ بہت بلند ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ ﷺ نے پہلی شرائع کو کامل کردیا ہے اور شریعت کے محل کو مکمل کردیا۔ حدیث میں پہلے انبیاء کا ذکر ہے بعد میں آنے والے کانہیں۔
جواب : محل کی تو ایک مثال ہے۔ شریعت وغیرہ کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے خاتم النبیین فرمایا۔ اور ساتھ یہ جان کر کہ آئندہ کذاب ودجال پیدا ہونے والے ہیں جن میں سے کوئی تو عذر کرے گا کہ میرا نام ’’ لا ‘‘ ہے اور حدیث میں لانبی بعدی آیا ہے۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ مردوں میں نبوت ختم ہے۔ میں عورت ہوں اس لئے میرا دعویٰ خاتم النبیین کے منافی نہیں۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ دور محمدیہ میں نبوت ختم ہے نئی کتاب اور شریعت خاتم النبیین کے خلاف نہیں۔ (جیسا کہ بہائی مذہب والے کہتے ہیں) اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ شریعت والی نبوت ختم ہے۔ بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی نے کہا اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ حدیث میں پہلے نبیوں کا ذکر ہے بعد کا نہیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تلاویلات :’’ ھباء ًمنشورا۰‘‘ ہوجاویں۔
چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا ان معنوں سے ہے کہ جس طرح ایک محل بنایا جائے۔ جس کی تکمیل میں صرف ایک اینٹ کی کسر ہو۔ سو اسی طرح یہ سلسلہ انبیاء کا ہے جس میں کتاب والے بھی آئے اور بلاکتاب والے بھی۔ یہ روحانی انبیاء کا سلسلہ چلتا چلتا اس مقام پر پہنچا کہ صرف ایک ہی نبی باقی رہ گیا۔ سو وہ نبی میں ہوں۔ جس کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس مثال سے جملہ دجال وکذاب اشخاص کی تاویلات واہیہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ نہ تشریعی وغیرتشیریعی کا عذر نہ عورت ومرد کا امتیاز ۔ نہ پہلے اور پچھلوں کا فرق۔ محل نبوت تمام ہوگیا ۔ نبوت ختم ہوگئی اب بعد میں پیدا ہونے والے بموجب حدیث‘ سوائے دجال وکذاب کے اور کسی خطاب کے حق دار نہیں۔
قادیانی اعتراض نمبر۲
بعض روایات میں لفظ:’’ من قبلی ‘‘موجود ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب انبیاء کی مثال نہیں بلکہ گذشتہ انبیاء کی مثال ہے۔ نیز اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے۔ اس قسم کے نبی اب ہرگز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ :’’ من قبلی‘‘ ظاہر کرتا ہے۔
جواب : چونکہ سب انبیاء آپ ﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لئے ’’ من قبلی ‘‘ بولا گیا ہے۔ نیز جملہ :’’ ختم بی البنیان وختم بی الرسل‘‘ جریان نبوت کی فقط نفی کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حدیث :’’ من قبلی‘‘ کے الفاظ خصوصیت سے قابل غور ہیں۔ جن سے انبیاء کا عموم بتلایا گیا ہے۔ یعنی شرعی اور غیر شرعی اور جملہ:’’ ختم بی الرسل ‘‘ (ختم کئے گئے ساتھ میرے رسول) اور :’’ انا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ‘‘( کہ نبوت کی آخری اینٹ میں ہوں اور میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا) اور :’’ وفجٔت انا واتممت تلک اللبنۃ ‘‘ (کہ میرے آنے سے وہ کمی پوری ہوگئی جو ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی) اس کی پوری تشریح کررہے ہیں۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ پہلے صرف بلاواسطہ نبی ہوتے تھے۔ اب آنحضرت ﷺ کی وساطت سے ہوا کریں گے۔ تو خدا تعالیٰ کی سنت کی تبدیلی اور استثناء کس حرف سے معلوم ہوا ۔ مرزا نے کہا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی بھی ہیں اور جامع الکمالات بھی۔
؎ہست او خیرالرسل خیر الانام
ہر نبوت رابر وشد اختتام
(درثمین فارسی ص ۱۱۴ ‘ سراج منیر ص ۹۳ خزائن ص ۹۵ج ۱۲)
ہرنبوت ختم کا کیا معنی؟۔ اب مرزائی مرزا قادیانی پر کیا فتویٰ لگاتے ہیں؟۔دیدہ باید
قادیانی اعتراض نمبر۳
جب نبوت کے محل میں کسی نبی کی گنجائش نہیں رہی تو پھر آخر زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟۔
جواب : مثلاً کہا جاتا ہے کہ خاتم اولاد (سب سے آخر میں پیدا ہونے والا) اس کایہ مطلب نہیں کہ پہلی اولاد کا صفایا ہوچکا ہے۔ اور سب مرگئے ہیں۔ اسی طرح خاتم النبیین سے کیسے سمجھ لیا گیا کہ تمام انبیاء سابقین پر موت طاری ہوچکی ہے؟۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو یہ عہدہ نبوت نہیں دیا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آپ ﷺ کے بعد عہدہ نبوت نہیں ملا۔ بلکہ آپ ﷺ سے پہلے مل چکا ہے۔ اور وہ اس وقت سے آخر عمرتک برابر اس وصف کے ساتھ متصف ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے اور نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدہ میں کیا تعارض ہے؟۔
قادیانی اعتراض نمبر۴
نبی ﷺ کومحل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ ﷺ کی توہین ہے۔
جواب : اگر کوئی شخص یہ کہے‘ فلاں شخص شیر ہے ۔ تو کیا یہ مطلب ہے کہ وہ جانور ہے۔ جنگلوں میں رہتا ہے۔ اس کی دم بھی ہے اور بڑے بڑے ناخنوں اور بالوں والاہے۔ کیا خوب یہ مبلغ علم وفہم؟۔ نبی ﷺ نے ایک مثال سمجھانے کے لئے دی ہے۔ اور اس میں توہین کہاں آگئی؟۔ اگر یہ توہین ہے تو پھر مرزا صاحب بھی اس توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یعنی یہی مثال مرزا نے دی ہے کہ :
’’ جو دیوار نبوت کی آخری اینٹ ہے وہ حضرت محمد ﷺ ہیں؟۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ مصنفہ مرزا ص ۱۹۸ حاشیہ خزائن ص ۱۹۸ج۲)
جواب : محل کی تو ایک مثال ہے۔ شریعت وغیرہ کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ آنحضرت ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے خاتم النبیین فرمایا۔ اور ساتھ یہ جان کر کہ آئندہ کذاب ودجال پیدا ہونے والے ہیں جن میں سے کوئی تو عذر کرے گا کہ میرا نام ’’ لا ‘‘ ہے اور حدیث میں لانبی بعدی آیا ہے۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ مردوں میں نبوت ختم ہے۔ میں عورت ہوں اس لئے میرا دعویٰ خاتم النبیین کے منافی نہیں۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ دور محمدیہ میں نبوت ختم ہے نئی کتاب اور شریعت خاتم النبیین کے خلاف نہیں۔ (جیسا کہ بہائی مذہب والے کہتے ہیں) اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ شریعت والی نبوت ختم ہے۔ بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے جیسا کہ مرزا قادیانی نے کہا اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ حدیث میں پہلے نبیوں کا ذکر ہے بعد کا نہیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تلاویلات :’’ ھباء ًمنشورا۰‘‘ ہوجاویں۔
چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا ان معنوں سے ہے کہ جس طرح ایک محل بنایا جائے۔ جس کی تکمیل میں صرف ایک اینٹ کی کسر ہو۔ سو اسی طرح یہ سلسلہ انبیاء کا ہے جس میں کتاب والے بھی آئے اور بلاکتاب والے بھی۔ یہ روحانی انبیاء کا سلسلہ چلتا چلتا اس مقام پر پہنچا کہ صرف ایک ہی نبی باقی رہ گیا۔ سو وہ نبی میں ہوں۔ جس کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس مثال سے جملہ دجال وکذاب اشخاص کی تاویلات واہیہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتی ہیں۔ نہ تشریعی وغیرتشیریعی کا عذر نہ عورت ومرد کا امتیاز ۔ نہ پہلے اور پچھلوں کا فرق۔ محل نبوت تمام ہوگیا ۔ نبوت ختم ہوگئی اب بعد میں پیدا ہونے والے بموجب حدیث‘ سوائے دجال وکذاب کے اور کسی خطاب کے حق دار نہیں۔
قادیانی اعتراض نمبر۲
بعض روایات میں لفظ:’’ من قبلی ‘‘موجود ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب انبیاء کی مثال نہیں بلکہ گذشتہ انبیاء کی مثال ہے۔ نیز اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے۔ اس قسم کے نبی اب ہرگز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ :’’ من قبلی‘‘ ظاہر کرتا ہے۔
جواب : چونکہ سب انبیاء آپ ﷺ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اس لئے ’’ من قبلی ‘‘ بولا گیا ہے۔ نیز جملہ :’’ ختم بی البنیان وختم بی الرسل‘‘ جریان نبوت کی فقط نفی کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حدیث :’’ من قبلی‘‘ کے الفاظ خصوصیت سے قابل غور ہیں۔ جن سے انبیاء کا عموم بتلایا گیا ہے۔ یعنی شرعی اور غیر شرعی اور جملہ:’’ ختم بی الرسل ‘‘ (ختم کئے گئے ساتھ میرے رسول) اور :’’ انا اللبنۃ وانا خاتم النبیین ‘‘( کہ نبوت کی آخری اینٹ میں ہوں اور میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا) اور :’’ وفجٔت انا واتممت تلک اللبنۃ ‘‘ (کہ میرے آنے سے وہ کمی پوری ہوگئی جو ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی) اس کی پوری تشریح کررہے ہیں۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ پہلے صرف بلاواسطہ نبی ہوتے تھے۔ اب آنحضرت ﷺ کی وساطت سے ہوا کریں گے۔ تو خدا تعالیٰ کی سنت کی تبدیلی اور استثناء کس حرف سے معلوم ہوا ۔ مرزا نے کہا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی بھی ہیں اور جامع الکمالات بھی۔
؎ہست او خیرالرسل خیر الانام
ہر نبوت رابر وشد اختتام
(درثمین فارسی ص ۱۱۴ ‘ سراج منیر ص ۹۳ خزائن ص ۹۵ج ۱۲)
ہرنبوت ختم کا کیا معنی؟۔ اب مرزائی مرزا قادیانی پر کیا فتویٰ لگاتے ہیں؟۔دیدہ باید
قادیانی اعتراض نمبر۳
جب نبوت کے محل میں کسی نبی کی گنجائش نہیں رہی تو پھر آخر زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟۔
جواب : مثلاً کہا جاتا ہے کہ خاتم اولاد (سب سے آخر میں پیدا ہونے والا) اس کایہ مطلب نہیں کہ پہلی اولاد کا صفایا ہوچکا ہے۔ اور سب مرگئے ہیں۔ اسی طرح خاتم النبیین سے کیسے سمجھ لیا گیا کہ تمام انبیاء سابقین پر موت طاری ہوچکی ہے؟۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو یہ عہدہ نبوت نہیں دیا جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آپ ﷺ کے بعد عہدہ نبوت نہیں ملا۔ بلکہ آپ ﷺ سے پہلے مل چکا ہے۔ اور وہ اس وقت سے آخر عمرتک برابر اس وصف کے ساتھ متصف ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے اور نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدہ میں کیا تعارض ہے؟۔
قادیانی اعتراض نمبر۴
نبی ﷺ کومحل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ ﷺ کی توہین ہے۔
جواب : اگر کوئی شخص یہ کہے‘ فلاں شخص شیر ہے ۔ تو کیا یہ مطلب ہے کہ وہ جانور ہے۔ جنگلوں میں رہتا ہے۔ اس کی دم بھی ہے اور بڑے بڑے ناخنوں اور بالوں والاہے۔ کیا خوب یہ مبلغ علم وفہم؟۔ نبی ﷺ نے ایک مثال سمجھانے کے لئے دی ہے۔ اور اس میں توہین کہاں آگئی؟۔ اگر یہ توہین ہے تو پھر مرزا صاحب بھی اس توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یعنی یہی مثال مرزا نے دی ہے کہ :
’’ جو دیوار نبوت کی آخری اینٹ ہے وہ حضرت محمد ﷺ ہیں؟۔‘‘ (سرمہ چشم آریہ مصنفہ مرزا ص ۱۹۸ حاشیہ خزائن ص ۱۹۸ج۲)