72 فرقوں والی حدیث پر بھی آپ نے مختصراً تبصرہ کیا ہے ۔مرزائی مبلغ اس حدیث کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹ کر بے چارے قادیانیوں کو ناجی فرقہ کہہ کر جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں ۔اس لیے میں نے آج مناسب سمجھا کہ آپ جیسے مجاہدین ختم نبوت کی خدمت میں اس حدیث کی مختصراً تفصیل بیان کر کے مجاہدین کے زمرہ میں شامل ہونے کی کوشش کر لوں تاکہ قادیانیوں کا منہ بند کرنے میں میرا بھی شمار ہو جائے۔
اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں ۔
افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي.
یعنی یھود 71 اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت مسلمہ عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ جہنم سے بچنے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟آپ نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
اس حدیث میں افتراق امت مسلمہ کی پیشن گوئی کے لیے ‘ستفترق’ کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عنقریب یا بہت جلد متفرق ہو جائیں گے۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق مستقبل قریب کے لیے مضارع کے صیغہ کے شروع میں س کا اضافہ کیا جاتا ہے اور مستقبل بعید کے لیے ‘سوف’ لکھا جاتا ہے جیسے قیامت کے وقوع اور جہنم کو سرکی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے سورۃ التکاثر میں ‘کلا سوف تعلمون ‘کے الفاظ سے آگاہ کیا گیا ہے یعنی ‘ہرگز نہیں جلد ہی تمھیں معلوم ہو جائے گا’۔ چونکہ اس حدیث میں ‘سوف تفترق’ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ ‘ستفترق’ کہا گیا ہے اس لیے اس حدیث کی رُو سے امت مسلمہ میں 72 فرقوں کا وجود رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے فوراً بعد ہونا لازم آتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہوا بھی ہے ۔پہلی صدی ہجری میں ہی 72 فرقوں کا وجود شروع ہو گیا تھا، جن کی تشریح اور وضاحت قادیانیوں کے مسلمہ مجدد ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ‘تلبیس ابلیس’ میں کی ہے البتہ اس کے بعد بہت سے فرقے امت محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی کئی فرقے موجود ہیں جیسے قادیانی، بہائی وغیرہ۔ لیکن انکے وجود سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے تمام فرقے لازمی طور پر ان بہتر گمراہ فرقوں کے خیالات کا چربہ یا انکا نیا اڈیشن ہیں۔
اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت کے تھی ۔حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اچھی یا بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ،اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں ،حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں ،روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں ،معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں –دوسرے الفاظ میں جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے۔ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ۔دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطاء کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر مختلف مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں ۔
72 فرقوں کی تصریح علامہ ابن جوزی نے اس طرح بیان کی ہے کہ ابتداء میں جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اور سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر خوارج اور دیگر فرقے بنے تھے ،پھر انکے ردّ عمل میں مزید چار فرقے اور پیدا ہو گئے یعنی قدریہ، جبریہ، جہمیہ، مرجیہ۔ اس طرح ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد چھ ھوگئی۔ علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ ان چھ فرقوں میں آپس میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور تفریق ہوتی رہی یہاں تک ان میں سے ہر فرقہ بارہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی تعداد حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق 72 ھوگئی۔ ان 72 فرقوں کے الگ الگ نام کی صراحت اور ان کے عقائد کی تفصیل یہاں بخوف طوالت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان کی تفصیلات ” تحفہ اثنا عشریّہ “از حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔