• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حدیث 72 فرقے اور تکفیر، از ارشاد انصاری

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
حدیث 72 فرقے اور تکفیر، از ارشاد انصاری
(اس مضمون کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے )

72 فرقوں والی حدیث پر بھی آپ نے مختصراً تبصرہ کیا ہے ۔مرزائی مبلغ اس حدیث کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹ کر بے چارے قادیانیوں کو ناجی فرقہ کہہ کر جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں ۔اس لیے میں نے آج مناسب سمجھا کہ آپ جیسے مجاہدین ختم نبوت کی خدمت میں اس حدیث کی مختصراً تفصیل بیان کر کے مجاہدین کے زمرہ میں شامل ہونے کی کوشش کر لوں تاکہ قادیانیوں کا منہ بند کرنے میں میرا بھی شمار ہو جائے۔

اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں ۔

افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وستفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة كلها في النار إلا واحدة، قيل: من هي يا رسول الله؟ قال: من كان على مثل ما أنا عليه وأصحابي.

یعنی یھود 71 اور نصاریٰ 72 فرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت مسلمہ عنقریب 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ایک کو چھوڑ کر سارے فرقے جہنم رسید ہوں گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ وہ جہنم سے بچنے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟آپ نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں ۔

اس حدیث میں افتراق امت مسلمہ کی پیشن گوئی کے لیے ‘ستفترق’ کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ عنقریب یا بہت جلد متفرق ہو جائیں گے۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق مستقبل قریب کے لیے مضارع کے صیغہ کے شروع میں س کا اضافہ کیا جاتا ہے اور مستقبل بعید کے لیے ‘سوف’ لکھا جاتا ہے جیسے قیامت کے وقوع اور جہنم کو سرکی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے سورۃ التکاثر میں ‘کلا سوف تعلمون ‘کے الفاظ سے آگاہ کیا گیا ہے یعنی ‘ہرگز نہیں جلد ہی تمھیں معلوم ہو جائے گا’۔ چونکہ اس حدیث میں ‘سوف تفترق’ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ ‘ستفترق’ کہا گیا ہے اس لیے اس حدیث کی رُو سے امت مسلمہ میں 72 فرقوں کا وجود رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے فوراً بعد ہونا لازم آتا ہے اور فی الحقیقت ایسا ہوا بھی ہے ۔پہلی صدی ہجری میں ہی 72 فرقوں کا وجود شروع ہو گیا تھا، جن کی تشریح اور وضاحت قادیانیوں کے مسلمہ مجدد ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ‘تلبیس ابلیس’ میں کی ہے البتہ اس کے بعد بہت سے فرقے امت محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور آج بھی کئی فرقے موجود ہیں جیسے قادیانی، بہائی وغیرہ۔ لیکن انکے وجود سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بعد میں پیدا ہونے والے تمام فرقے لازمی طور پر ان بہتر گمراہ فرقوں کے خیالات کا چربہ یا انکا نیا اڈیشن ہیں۔

اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروہ بندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبیہ و نصیحت کے تھی ۔حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فروعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اچھی یا بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ،اور موت کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں ،حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں ،نماز پڑھتے ہیں ،روزہ رکھتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں ،معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں –دوسرے الفاظ میں جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے۔ ایمان سے خارج نہیں ہوتا ۔دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطاء کیا گیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں ۔بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ فروعی اختلافات میں قلت فہم کی بنا پر مختلف مکاتب فکر پیدا ہو جاتے ہیں ۔

72 فرقوں کی تصریح علامہ ابن جوزی نے اس طرح بیان کی ہے کہ ابتداء میں جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اور سواد اعظم سے علیحدہ ہو کر خوارج اور دیگر فرقے بنے تھے ،پھر انکے ردّ عمل میں مزید چار فرقے اور پیدا ہو گئے یعنی قدریہ، جبریہ، جہمیہ، مرجیہ۔ اس طرح ان گمراہ فرقوں کی کل تعداد چھ ھوگئی۔ علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ ان چھ فرقوں میں آپس میں مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور تفریق ہوتی رہی یہاں تک ان میں سے ہر فرقہ بارہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر ان گمراہ فرقوں کی تعداد حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق 72 ھوگئی۔ ان 72 فرقوں کے الگ الگ نام کی صراحت اور ان کے عقائد کی تفصیل یہاں بخوف طوالت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ان کی تفصیلات ” تحفہ اثنا عشریّہ “از حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
 

عبید اللہ خان

رکن ختم نبوت فورم
72 فرقے جہنم میں جاۓ گے صرف ایک فرقہ جنت میں جاے گا
قادیانی اس حدیث مبارکہ کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے جب کہ وہ اس حدیث مبارکہ کا ایک حصہ کوچھوڑ دیتے ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس طور طریقہ پر ہو گا جس پر اس وقت میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
سب سے پہلے تو ہم کو یہ جاننا چاہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طریقہ پر تھے
اور اس کے بعد صحابہ اکرم کس طریقے پر تھے اس کے لیے ہم کو قران مجید اور مزید حدیث مبارکہ کےمطالعہ کی ضرورت ہے
رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا طریقہ کیا تھا اس کے بارے میں قران میں اللہ نے فرمایا ہے

قُلۡ هٰذِهٖ سَبِيۡلِىۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ ،عَلٰى بَصِيۡرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىۡؕ وَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ وَمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ‏﴾ (يوسف:١٠٨)


”(اے پيغمبر) آپ ان سے كہہ ديجئے! ميرا راستہ يہى ہے كہ ميں اللہ كى طرف بلاتا ہوں، ميں خود بهى اس راہ كو پورى روشنى ميں ديكھ رہا ہوں اور ميرے پيروكار بهى (اسى راہ پر گامزن ہيں) اللہ پاك ہے، اور مشركوں سے ہماراكوئى واسطہ نہيں-
بس اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہی تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے اللہ کےاحکامات کی طرف بلاتے
بنی اسرائیل کی گمرائی کی وجہ یہ تھی کہ اللہ نے ان کو ایک کتاب دی تھی مگر وہ اس کے مقابلے میں اپنی مرضی کا فیصلہ کرتے تھے اور کتاب اللہ کو چھوڑ دیتے تھے اس کے لیے آپ سورۃ مائدہ کا ترجمہ اور تفسیر کا مطالعہ کر سکتے ہے اسی وجہ سے اللہ نے اُن پر لعنت کی ہے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اللہ کےاحکامات کو پورا کرتے تھے ایک مشہور واقعہ ہے

قبیلہ قریش کے خاندان بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسلام میں چور کی یہ سزا ہے کہ اس کا دایاں ہاتھ پہنچوں سے کاٹ ڈالا جائے۔ قبیلہ قریش کو اس واقعہ سے بڑی فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر ہمارے قبیلہ کی اس عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا تو یہ ہماری خاندانی شرافت پر ایسا بدنما داغ ہو گا جو کبھی مٹ نہ سکے گا اور ہم لوگ تمام عرب کی نگاہوں میں ذلیل و خوار ہو جائیں گے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ بارگاہ رسالت میں کوئی زبردست سفارش پیش کر دی جائے تا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس عورت کا ہاتھ نہ کاٹیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما کو جو نگاہ نبوت میں انتہائی محبوب تھے دباؤ ڈال کر اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ وہ دربار اقدس میں سفارش پیش کریں۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہا نے اشراف قریش کے اصرار سے متأثر ہو کر بارگاہِ رسالت میں سفارش عرض کر دی یہ سن کر پیشانی نبوت پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت ہی غضب ناک لہجہ میں فرمایا کہ

اَتَشْفَعُ فِيْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰهِ

کہ اے اسامہ ! تو اﷲ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتا ہے ؟ پھر اس کے بعد آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا اور اس خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا کہ

یَااَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا ضَلَّ مَنْ قَبْلَكُمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا اِذَا سَرَقَ الشَّرِيْفُ تَرَکُوْهُ وَ اِذَا سَرَقَ الضَّعِيْفُ فِيْهِمْ اَقَامُوْا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَ اَیْمُ اللّٰهِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعَ مُحَّمَدٌ یَدَهَا

[/ARB]
(بخاری جلد۲ ص۱۰۰۳ باب کراہیة الشفاعت فی الحدود)
اے لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے خدا کی قسم ! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد اس کا ہاتھ کاٹ لے گا۔ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
(جاری ہے)
 
مدیر کی آخری تدوین :
Top