حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ پر بہتان باندھا ہے کہ انہوں نے وفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں کہا لقد قبض اللیلۃ عرج فیہ بروح عیسی ابن مریم۔ (احمدیہ پاکٹ ص۲۳۳طبعہ ۱۹۳۲و ص۳۷۰طبعہ ۱۹۴۵)
الجواب:
اوّل: تو طبقاتِ کبریٰ کوئی مستند کتاب نہیں کہ محض اس کا نقل کرنا ہی دلیلِ صداقت سمجھا جائے۔ مرزائیوں پر لازم ہے کہ اس کی سند بیان کریں۔ تاکہ اس کے راوی دیکھے جائیں۔ آیا سچے ہیں، یا مرزائیوں کی طرح مفتری۔
دوم: چونکہ خود اسی کتاب کا مصنف قائلِ حیات مسیح ہے جیسا کہ جلد ۱ص ۲۶پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول دربارہ مثبت حیاتِ مسیح نقل کرکے مصنف نے اس پر کوئی جرح نہیں کی وہو ہذا۔
وانہ رفع بحسدہ وانہ حی الاٰن وسیرجع الی الدنیا فیکون فیھا ملکا ثم یموت کما یموت الناس۔ (طبقات ابن سعد ص۲۶ج۱)یعنی تحقیق مسیح بمع جسم کے اٹھایا گیا ہے ولاریب وہ اس وقت زندہ ہے، دنیا کی طرف آئے گا اور بحالت شاہانہ زندگی بسر کرے گا پھر دیگر انسانوں کی طرح فوت ہوگا۔
اسی روایت نے فیصلہ کردیا کہ رفع سے مراد رفع جسمی ہے اور اگر حضرت حسن والی روایت درست ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے۔ ممکن ہے اصل الفاظ یہ ہوں کہ عرج فیھا بروح اللّٰہ عیسی ابن مریم یعنی عیسیٰ بن مریم روح اللہ اٹھایا گیا۔
اب اسی بارے میں ایک اور روایت مستدرک حاکم جلد ۳ص ۱۴۳کی یہ ہے عن الحریث سمعت الحسن بن علی یقول قتل لیلۃ انزل القراٰن ولیلۃ اسری بعیسٰی ولیلۃ قبض موسٰی۔ (اخرجہ الحاکم فی المستدرک ص۱۴۳، ج۳و اوردہ السیوطی الدرالمنثور ص۳۶ج۲)حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حسن رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس رات قتل کئے گئے جس رات قرآن اترا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سیر کرائے گئے اور موسیٰ علیہ السلام قبض کئے گئے۔
حضرات! غور فرمائیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو شہید ہوگئے تھے قتل کا لفظ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو وفات پاگئے ہوئے تھے قبض کا استعمال ہوا مگر مسیح علیہ السلام چونکہ زندہ جسم اٹھائے گئے تھے اس لیے ان کے حق میں اُسریٰ فرمایا گیا ہے اسری بہ اذا قطعہ بالسیرجب کوئی شخص چل کر مسافت طے کرے اس کو سرایت بولتے ہیں۔ خود قرآنِ پاک میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بمع مومنین کے راتوں رات مصر سے نکلے یہ خروج بحکم خدا تھا فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً اِنَّکُمْ مُتَّبعون۔ (پ۲۵دخان نمبر ۲۳ ؍)
لے چل میرے بندوں کو راتوں رات تحقیق تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔
اسی طرح جب حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق وارد ہے کہ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقطْحٍ مِّنَ الَّیْلِ۔ (پ ۱۴الحجر ۶۵)لے نکل اپنے اہل کو ایک حصہ رات میں۔
حاصل یہ کہ اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خطبہ امر واقع ہے تو یقینا اس کا یہی مطلب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بمعہ جسم اٹھائے گئے اور یہی حق ہے جو قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔
----------------