اسی طرح جماعت مرزائیہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی تحریرات میں سے چند عبارات پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت شاہ صاحب بھی اس بات کے قائل تھے کہ غیر تشریعی نبوت جاری ہے ، نیز وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ شاہ صاحب نے لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ہیں ، ایک وہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ہوئی اور دوسری بعثت بعد میں ہونی تھی ( جو بقول مرزائی جماعت مرزا قادیانی کی شکل میں ہوئی ) تو آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ مرزائی دعووں میں کتنی صداقت ہے ؟ اور کیا واقعی حضرت شاہ صاحب اجراء نبوت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مفہوم میں دو بعثتوں کے قائل ہیں جیسا کہ مرزائی عقیدہ ہے ؟
قادیانی تلبیس اور اس کا جواب
جماعت مرزائیہ کی طرف سے شاہ صاحب کی کتاب " تفھیمات الھیہ " کے یہ الفاظ پیش کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے لکھا ہے :
وختم بہ النبیون ایی لایوجد بعدہ من یامرہ اللہ سبحانہ بالتشریع علی الناس " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا یعنی کوئی شخص ایسا نہ پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ کسی شریعت کا حکم دے کر لوگوں پر مامور کرے ۔ ( التفھیمات الھیہ جلد 2 صفحہ 73، 72 )
شاہ صاحب کی اس تحریر کا مطلب مرزائی جماعت کی طرف سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں پایا جاسکتا جسے نئی شریعت دے کر اللہ مامور کرے یعنی پرانی شریعت کا پیروکار نبی بن سکتا ہے " جسے مرزائی آپنی زبان میں غیر تشریعی نبی بھی کہتے ہیں "، جبکہ یہ سراسر مرزائی دھوکہ ہے ، کیونکہ تشریعی اور غیر تشریعی نبی کی تقسیم ان معنوں میں کوئی نبی صاحب شریعت ہوتا ہے اور کوئی غیر صاحب شریعت درست نہیں ، کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جو صاحب شریعت نہ ہو ، خواہ اس کی شریعت وہی ہو جو اس سے پہلے کی تھی اور خواہ وہ شریعت جدیدہ لائے لیکن ہوتا وہ صاحب شریعت ہی ہے ۔ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ وحی ہر نبی پر آتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے ، خواہ اسے یہ حکم ہو کہ وہ شریعت سابقہ کی تعلیم یہ دے یا اسے نئے ااحکامات دیے جائیں اس کا حکم وحی کو ہی شریعت کہا جاتا ہے ۔ خود مرزا غلام قادیانی نے اسے تسلیم کیا ہے چناچہ اس نے لکھا ہے :
" ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کی شریعت کیا چیز ہے جس نے آپنی وحی کے ذریعے سے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وھی صاحب الشریعت ہوگیا پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی " ( خزائن جلد 17 صفحہ 435 )
یعنی وہ خود اپنے آپ کو صاحب شریعت بتا رہاہے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جب کسی نبی کو اللہ کی طرف سے یہ حکم بھی موصول ہو کہ وہ سابقہ شریعت کی تعلیم دے تو وہی اس کی شریعت بن جاتی ہے اور وہ صاحب شریعت اور تشریعی نبی بن جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( وماارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ) اور نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر اس لئے کہ اللہ کا حکم سے اسکی اطاعت کی جائے ( النساء :64 ) ، تو جب تک یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ ہر نبی صاحب شریعت ہوتا ہے خواہ صاحب شریعت سابقہ اور خواہ صاحب شریعت جدیدہ اس وقت تک یہ اصول بھی ناقابل تسلیم ہے کہ ہر نبی مطاع ہوتا ہے ، پس ضروری ہوا کہ ہر نبی اور رسول کی کچھ ایسی تعلیم ہو جس میں اس کی اطاعت کی جائے ورنہ اس کے مطاع ہونے کے کیا معنیٰ ؟ اور نبی کی ہر تعلیم شریعت کہلاتی ہے پس ہر نبی صاحب شریعت اور تشریعی ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( ولکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھاجاََ ) اور تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت تجویز کی ۔ ( المائدہ : 48 ) شرعۃ اور شریعۃ کا ایک ہی معنی ہے ، اس آیت کی تفسیر میں امام رازی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :
لان قولہ لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھاجاََ یدل علی آنہ یجب ان یکون کل رسول مستقلاََ بشریعۃ خاصۃ " اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر رسول کی مستقل شریعت ہوتی ہے ۔ ( تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 14 )
لہٰذا حضر ت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی جو عبارت جماعت مرزائیہ کی طرف سے پیش کرکے یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوسکتا جو نئی شریعت والا ہو اور پرانی شریعت والا نبی ہوسکتا ہے یہ صرف ایک دھوکہ ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص پیدا نہ ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام نازل ہوں اور اسے حکم دیا جائے کہ یہ احکام لوگوں کو بتا دو ۔
چناچہ خود حضرت شاہ ولی صاحب نے آپنی اسی کتاب میں آپنے عقیدے کی وضاحت بھی صاف اور صریح الفاظ کے ساتھ فرما دی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے وجود میں آنا ناممکن
آپ نے تحریر فرمایا :
فصار خاتم ھذہ الدورۃ فلذلک لایمکن ان یوجد بعدہ نبی صلوات اللہ علیہ وسلامہ " اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ انبیاء کے خاتم ہوگئے پس یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی پایا جاسکے ۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 2 صفحہ 137 )
یہاں آپ نے صرف نبی کا لفظ لکھا ہے جس میں ہر قسم کے نبی آجاتے ہیں ، نئی شریعت لانے والے بھی اور پچھلی شریعت کے تابع بھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں
اسی طرح شاہ صاحب نے تحریر فرمایا :
ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین لانبی بعدہ ودعوتہ عامۃ لجمیع الانس والجن وھو افضل الانبیاء بھذہ الخاصیۃ وبخواص اخری " اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ کی دعوت تمام انسانوں اور جنات کے لئے ہے اور آپ اس خاصیت اور دوسرے خواص میں تمام انبیاء سے افضل ہیں ۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 1 صفحہ 147 )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کو بند کرنے والے اور ولایت کو کھولنے والے
علاوہ ازیں حضرت شاہ صاحب نے صاف طور پر لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باب نبوت کے خاتم ہیں اور باب ولایت کے فاتح ہیں ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا اور ولایت کا دروازہ کھلا ، چناچہ لکھتے ہیں :
حضرت پیامبر ما افضل الخاتمین خاتم النبوۃ وفاتح الولایۃ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا شدئد اآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یکے از اشراط قیامت اندو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم با قیامت مثل سبابہ و وسطی باہم ہیوستہ اند باں معنی کہ آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم فاتح راہ ولایت اند ۔۔۔ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر فاتح وخاتم کہ ہست درباب ولایت است ۔۔۔۔ اور ہمارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخاتمین کہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اور افضل الفاتحین کہ ولایت کا دروازہ کھولتے ہیں پیدا ہوئے ، آپ علامت قیامت میں سے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کی ساتھ شہادت کی انگلی اور درمیانی بڑی انگلی کی طرح متصل ہیں ( یعنی آپ کے بعد کسی اور نبی کا دور نہیں بلکہ قیامت ہے ) ۔۔ آپ کے بعد جو خاتم اور فاتح بھی ہوگا وہ ولایت کے باب میں ہوگا ( یعنی باب نبوت مطلقاََ بند ہے خواہ شریعت سابقہ کے ساتھ ہو خواہ شریعت جدیدہ کے ساتھ )۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 1 صفحہ 76 )
ایک جگہ حضرت شاہ صاحب دجالوں کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
واعلم ان الدجاجلۃدون الدجال الاکبر کثیرۃ ویجمعھم امر واحد ھو اانھم یذکرون اسم اللہ ویدعون الناس الیۃ " اور جان لوکہ دجال اکبر کے علاوہ اور بھی بہت سے دجال ہیں ، جن سب میں ایک بات مشترک ہے وہ یہ کہ وہ سب خدا کا نام لیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ۔ پھر آگے مدعی نبوت کو بھی انہی میں شمار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں " فمنھم من یدعی النبوۃ " پس انہی دجالوںمیں سے وہ بھی ہیں جو ( حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) نبوت کا دعویٰ کریں ۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 2 صفحہ 198 )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی نبوت منقطع ہوگئی
اگر اب بھی کسی کو حضرت شاہ صاحب کے عقیدے میں شک ہے تو آئیے ہم ان کا ایک اور دوٹوک فیصلہ پیش کرتے ہیں ، آپ لکھتے ہیں :
اقول : فالنبوۃ انقطعت بوفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " میں کہتا ہوں کہ نبوت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی منقطع ہوگئی ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ ، جلد 2 صفحہ 329 )
ضروریات دین کی ایسی تفسیر کرنے والا جو صحابہ ، تابعین اور اجماع امت کے خلاف ہو زندیق ہوتا ہے
اسی طرح ااپنی کتاب " المسوی شرح المؤطا " میں کافر م منافق اور زندیق کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو آدمی دین حق کو نہ زبان سے مانے اور نہ دل سے قبول کرے وہ کافر ہوتا ہے ، اور جو زبان سے تو مانے لیکن اس کے دل میں کفر ہو وہ منافق ہوتا ہے اور پھر بتاتے ہوئے کہ زندیق کون ہوتا ہے لکھتے ہیں :
وان اعترف بہ ظاھراََ وباطنا لکنہ یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورۃ بخلاف ما فسرہ الصحابۃ والتابعون واجمعت علیہ الامۃ فھو الزندیق " زندیق وہ ہوتا ہے جو دین حق کا دل اور زبان دونوں سے اعتراف تو کرے لیکن بعض ضروریات دین کی ایسی تفسیر وتشریح کرے جو صحابہ وتابعین کی تفسیر اور اجماعت امت کے خلاف ہو ۔ ( المسوی شرح المؤطا ، جلد 2 صفحہ 268 )
لفظ خاتم النبیین کے مفہوم میں تحریف کرنے والا بھی زندیق
پھر آگے زندقہ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے ایک مثال ہیش فرماتے ہیں کہ :
اوقال ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم لنبیین ولکن معنی ھذا الکلام انہ لا یجوز ان یسمی بعدہ احد بالنبی ، واما معنی النبوۃ وھو کون انسان مبعوثاََ من اللہ تعالیٰ الی الخلق مفترض الطاعۃ معصوماََ من الذنوب ومن البقاء علی الخطا فیما یری فھو موجود فی الائمۃ بعدہ ، فذلک ھو الزندیق ، وقد اتفق جماھیر المتاخرین من الحنفیۃ والشافعیۃ علی قتل من یجری ھذا المجری واللہ اعلم " یا وہ شخص جو یہ کہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد نبی کا نام کسی کو نہیں دیا جائے گا ، یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کا کوئی مفترض الطاعۃ اور معصوم فرستادہ نہیں آئے گا تو یہ شخص زندیق ہے اور ایسے شخص کے بارے میں جمہور متاخرین حنفیہ اور شافعیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ ( المسوی جلد 2 صفحہ 269 )
غور فرمائیں ! حضرت شاہ ولی اللہ کا عقیدہ ختم نبوت کا اتنا مضبوط اور واضح ہے ، غیر تشریعی یا ظلی بروزی نبی تو درکنار ، جن کے نزدیک بغیر نبی کا نام لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم اور مفترض الطاعۃ سمجھ لینا بھی عقیدہ ختم نبوت کا انکار اور زندقہ ہے اور ان کے بارے میں یہ جھوٹ پھیلانا کہ ان کے نزدیک غیر تشریعی نبی آسکتا ہے کس قدر ظلم اور زیادتی ہے ۔
نیز حضرت شاہ صاحب آپنے فارسی ترجمعہ قرآن " فتح الرحمٰن " میں آیت خاتم النبیین ( ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین ) کا ترجمعہ وتشریح یوں فرماتے ہیں :
نیست محمد پدر ہیچ کس از مردان ولیکن پیغمبر خدا است ومہر پیغمبران است " اور پھر حاشیے میں اس کی تشریح یوں فرماتے ہی ں " یعنی بعداز وے ہیچ پیغمبر نہ باشد " یعنی ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا ۔ ( فارسی ترجمعہ قرآن از شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ ، صفحہ 616 )
جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بیان ہوا کہ مرزا غلام قادیانی نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مبعوث ہونا تھا ، اآپ آپنی پہلی بعثت میں مکہ میں پیدا ہوئے اور وصال کے بعد مدنیہ منورہ میں مدفون ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت مرزا غلام قادیانی کی صورت میں قادیان میں ہوئی ( نقل کفر ، کفر نابشد ) ۔ اس کفریہ عقیدے کا ثابت کرنے کے لئے ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے بھی یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ہیں اور پھر شاہ صاحب کی کتاب " حجۃ اللہ البالغۃ " میں سے کچھ الفاظ کاٹ کر پیش کیے جاتے ہیں ، وہ یہ کہ حضرت شاہ صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زکر فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ " واعظم الانبیاء شاناََ من لۃ نوع آخر من البعثۃ ایضاََ ۔۔ اور تمام انبیاء میں سب سے بڑی شان والے وہ ہیں جن کی بعثت کی ایک اور قسم بھی ہے ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ جلد 1 صفحہ 156 )
مرزائی صرف یہ الفاظ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو حضرت شاہ صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بعثت بھی ہونی تھی ، لیکن اگر حضرت شاہ صاحب کی پوری عبارت پیش کی جائے تو مرزائی دجل وفریب راکھ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے ، آئیے پوری عبارت پڑھتے ہیں ۔
واعظم الانبیاء شاناََ من لہ نوع آخر من البعثۃ ایضاََ وذلک ان یکون مراد اللہ تعالیٰ فیہ ان یکون سبباََ لخروج الناس من الظلمات الی النور وان یکون قومہ خیرامۃ اخرجت للناس فیکون بعثہ یتناول بعثاََ آخر ، والی الاول وقعت الاشارۃ فی قولہ تعالیٰ : ھو الذی بعث فی الامیین رسولاََ منھم ( الجمعۃ : 2 ) والی الثانی فی قولہ تعالیٰ : کنتم خیرامۃ اخرجت للناس ( آل عمران : 110 ) وقولہ : فانما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین " اور تمام انبیاء میں سب سے بری شان والے وہ ہیں جن کی بعشت کی ایک اور قسم بھی ہے ، اور وہ یہ کہ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے اور آپ کی قوم بہترین امت ہو جو دوسرے لوگوں کے لئے نکالی جائے ، پس آپ کی بعثت میں ہی ایک اور بعثت ہے پہلی ( بعثت ) کی طرف اللہ کے اس کلام میں اشارہ ہے : وہ اللہ وہ ذات ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بیجھا ( الجمعہ : 2 ) اور دوسری ( بعثت ) کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے : تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے ( ال عمران : 110 ) ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ تم آسانی کرنے والے بنا کر مبعوث کیے گئے ہو ، تمہیں تنگی کرنے والا بنا کر نہیں بیجھا گیا ۔ ( حجۃ اللہ البالغہ ، جلد 1 صفحہ 156 ، باب حقیقۃ النبوۃ وخواصھا )
اب غور فرمائیں ! کیا شاہ صاحب کی اس تحریر میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ چودھویں صدی میں قادیان کے ایک دہقان کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت ہوگی ؟ پر گز نہیں ، شاہ صاحب فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا ، اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آب کسی نبی نے پیدا نہیں ہونا تھا اس لئے آپ کی قوم اور آپ کی امت کے سپرد بھی وہی کام کیا گیا اور انہیں دوسرے لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ، شاہ صاحب نے دو آیات اور ایک حدیث کا حوالہ دیکر بات کو واضح بھی فرما دیا ، یہ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دو قسمیں یا انواع جو شاہ صاحب بیان فرما رہے ہیں ، لیکن جس مذہب کی بنیاد ہی جھوٹ اور تحریف پر ہو اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ رات کو دن اور دن کو رات کہہ ڈالے ۔
قادیانی تلبیس اور اس کا جواب
جماعت مرزائیہ کی طرف سے شاہ صاحب کی کتاب " تفھیمات الھیہ " کے یہ الفاظ پیش کیے جاتے ہیں کہ انہوں نے لکھا ہے :
وختم بہ النبیون ایی لایوجد بعدہ من یامرہ اللہ سبحانہ بالتشریع علی الناس " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا یعنی کوئی شخص ایسا نہ پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ کسی شریعت کا حکم دے کر لوگوں پر مامور کرے ۔ ( التفھیمات الھیہ جلد 2 صفحہ 73، 72 )
شاہ صاحب کی اس تحریر کا مطلب مرزائی جماعت کی طرف سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں پایا جاسکتا جسے نئی شریعت دے کر اللہ مامور کرے یعنی پرانی شریعت کا پیروکار نبی بن سکتا ہے " جسے مرزائی آپنی زبان میں غیر تشریعی نبی بھی کہتے ہیں "، جبکہ یہ سراسر مرزائی دھوکہ ہے ، کیونکہ تشریعی اور غیر تشریعی نبی کی تقسیم ان معنوں میں کوئی نبی صاحب شریعت ہوتا ہے اور کوئی غیر صاحب شریعت درست نہیں ، کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جو صاحب شریعت نہ ہو ، خواہ اس کی شریعت وہی ہو جو اس سے پہلے کی تھی اور خواہ وہ شریعت جدیدہ لائے لیکن ہوتا وہ صاحب شریعت ہی ہے ۔ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ وحی ہر نبی پر آتی ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے ، خواہ اسے یہ حکم ہو کہ وہ شریعت سابقہ کی تعلیم یہ دے یا اسے نئے ااحکامات دیے جائیں اس کا حکم وحی کو ہی شریعت کہا جاتا ہے ۔ خود مرزا غلام قادیانی نے اسے تسلیم کیا ہے چناچہ اس نے لکھا ہے :
" ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کی شریعت کیا چیز ہے جس نے آپنی وحی کے ذریعے سے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وھی صاحب الشریعت ہوگیا پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی " ( خزائن جلد 17 صفحہ 435 )
یعنی وہ خود اپنے آپ کو صاحب شریعت بتا رہاہے ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جب کسی نبی کو اللہ کی طرف سے یہ حکم بھی موصول ہو کہ وہ سابقہ شریعت کی تعلیم دے تو وہی اس کی شریعت بن جاتی ہے اور وہ صاحب شریعت اور تشریعی نبی بن جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( وماارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ) اور نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر اس لئے کہ اللہ کا حکم سے اسکی اطاعت کی جائے ( النساء :64 ) ، تو جب تک یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ ہر نبی صاحب شریعت ہوتا ہے خواہ صاحب شریعت سابقہ اور خواہ صاحب شریعت جدیدہ اس وقت تک یہ اصول بھی ناقابل تسلیم ہے کہ ہر نبی مطاع ہوتا ہے ، پس ضروری ہوا کہ ہر نبی اور رسول کی کچھ ایسی تعلیم ہو جس میں اس کی اطاعت کی جائے ورنہ اس کے مطاع ہونے کے کیا معنیٰ ؟ اور نبی کی ہر تعلیم شریعت کہلاتی ہے پس ہر نبی صاحب شریعت اور تشریعی ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( ولکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھاجاََ ) اور تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت تجویز کی ۔ ( المائدہ : 48 ) شرعۃ اور شریعۃ کا ایک ہی معنی ہے ، اس آیت کی تفسیر میں امام رازی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :
لان قولہ لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھاجاََ یدل علی آنہ یجب ان یکون کل رسول مستقلاََ بشریعۃ خاصۃ " اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر رسول کی مستقل شریعت ہوتی ہے ۔ ( تفسیر کبیر جلد 12 صفحہ 14 )
لہٰذا حضر ت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی جو عبارت جماعت مرزائیہ کی طرف سے پیش کرکے یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوسکتا جو نئی شریعت والا ہو اور پرانی شریعت والا نبی ہوسکتا ہے یہ صرف ایک دھوکہ ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص پیدا نہ ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام نازل ہوں اور اسے حکم دیا جائے کہ یہ احکام لوگوں کو بتا دو ۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی ختم نبوت پر فیصلہ کن تحریرات
چناچہ خود حضرت شاہ ولی صاحب نے آپنی اسی کتاب میں آپنے عقیدے کی وضاحت بھی صاف اور صریح الفاظ کے ساتھ فرما دی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے وجود میں آنا ناممکن
آپ نے تحریر فرمایا :
فصار خاتم ھذہ الدورۃ فلذلک لایمکن ان یوجد بعدہ نبی صلوات اللہ علیہ وسلامہ " اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ انبیاء کے خاتم ہوگئے پس یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی پایا جاسکے ۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 2 صفحہ 137 )
یہاں آپ نے صرف نبی کا لفظ لکھا ہے جس میں ہر قسم کے نبی آجاتے ہیں ، نئی شریعت لانے والے بھی اور پچھلی شریعت کے تابع بھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں
اسی طرح شاہ صاحب نے تحریر فرمایا :
ومحمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین لانبی بعدہ ودعوتہ عامۃ لجمیع الانس والجن وھو افضل الانبیاء بھذہ الخاصیۃ وبخواص اخری " اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ کی دعوت تمام انسانوں اور جنات کے لئے ہے اور آپ اس خاصیت اور دوسرے خواص میں تمام انبیاء سے افضل ہیں ۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 1 صفحہ 147 )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کو بند کرنے والے اور ولایت کو کھولنے والے
علاوہ ازیں حضرت شاہ صاحب نے صاف طور پر لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باب نبوت کے خاتم ہیں اور باب ولایت کے فاتح ہیں ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا اور ولایت کا دروازہ کھلا ، چناچہ لکھتے ہیں :
حضرت پیامبر ما افضل الخاتمین خاتم النبوۃ وفاتح الولایۃ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا شدئد اآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یکے از اشراط قیامت اندو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم با قیامت مثل سبابہ و وسطی باہم ہیوستہ اند باں معنی کہ آنحضرت صلی اللہ وعلیہ وسلم فاتح راہ ولایت اند ۔۔۔ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر فاتح وخاتم کہ ہست درباب ولایت است ۔۔۔۔ اور ہمارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخاتمین کہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اور افضل الفاتحین کہ ولایت کا دروازہ کھولتے ہیں پیدا ہوئے ، آپ علامت قیامت میں سے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کی ساتھ شہادت کی انگلی اور درمیانی بڑی انگلی کی طرح متصل ہیں ( یعنی آپ کے بعد کسی اور نبی کا دور نہیں بلکہ قیامت ہے ) ۔۔ آپ کے بعد جو خاتم اور فاتح بھی ہوگا وہ ولایت کے باب میں ہوگا ( یعنی باب نبوت مطلقاََ بند ہے خواہ شریعت سابقہ کے ساتھ ہو خواہ شریعت جدیدہ کے ساتھ )۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 1 صفحہ 76 )
ایک جگہ حضرت شاہ صاحب دجالوں کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
واعلم ان الدجاجلۃدون الدجال الاکبر کثیرۃ ویجمعھم امر واحد ھو اانھم یذکرون اسم اللہ ویدعون الناس الیۃ " اور جان لوکہ دجال اکبر کے علاوہ اور بھی بہت سے دجال ہیں ، جن سب میں ایک بات مشترک ہے وہ یہ کہ وہ سب خدا کا نام لیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں ۔ پھر آگے مدعی نبوت کو بھی انہی میں شمار کرتے ہیں اور لکھتے ہیں " فمنھم من یدعی النبوۃ " پس انہی دجالوںمیں سے وہ بھی ہیں جو ( حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ) نبوت کا دعویٰ کریں ۔ ( التفھیمات الالھیۃ ، جلد 2 صفحہ 198 )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی نبوت منقطع ہوگئی
اگر اب بھی کسی کو حضرت شاہ صاحب کے عقیدے میں شک ہے تو آئیے ہم ان کا ایک اور دوٹوک فیصلہ پیش کرتے ہیں ، آپ لکھتے ہیں :
اقول : فالنبوۃ انقطعت بوفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم " میں کہتا ہوں کہ نبوت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی منقطع ہوگئی ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ ، جلد 2 صفحہ 329 )
ضروریات دین کی ایسی تفسیر کرنے والا جو صحابہ ، تابعین اور اجماع امت کے خلاف ہو زندیق ہوتا ہے
اسی طرح ااپنی کتاب " المسوی شرح المؤطا " میں کافر م منافق اور زندیق کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو آدمی دین حق کو نہ زبان سے مانے اور نہ دل سے قبول کرے وہ کافر ہوتا ہے ، اور جو زبان سے تو مانے لیکن اس کے دل میں کفر ہو وہ منافق ہوتا ہے اور پھر بتاتے ہوئے کہ زندیق کون ہوتا ہے لکھتے ہیں :
وان اعترف بہ ظاھراََ وباطنا لکنہ یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورۃ بخلاف ما فسرہ الصحابۃ والتابعون واجمعت علیہ الامۃ فھو الزندیق " زندیق وہ ہوتا ہے جو دین حق کا دل اور زبان دونوں سے اعتراف تو کرے لیکن بعض ضروریات دین کی ایسی تفسیر وتشریح کرے جو صحابہ وتابعین کی تفسیر اور اجماعت امت کے خلاف ہو ۔ ( المسوی شرح المؤطا ، جلد 2 صفحہ 268 )
لفظ خاتم النبیین کے مفہوم میں تحریف کرنے والا بھی زندیق
پھر آگے زندقہ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے ایک مثال ہیش فرماتے ہیں کہ :
اوقال ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم لنبیین ولکن معنی ھذا الکلام انہ لا یجوز ان یسمی بعدہ احد بالنبی ، واما معنی النبوۃ وھو کون انسان مبعوثاََ من اللہ تعالیٰ الی الخلق مفترض الطاعۃ معصوماََ من الذنوب ومن البقاء علی الخطا فیما یری فھو موجود فی الائمۃ بعدہ ، فذلک ھو الزندیق ، وقد اتفق جماھیر المتاخرین من الحنفیۃ والشافعیۃ علی قتل من یجری ھذا المجری واللہ اعلم " یا وہ شخص جو یہ کہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد نبی کا نام کسی کو نہیں دیا جائے گا ، یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کا کوئی مفترض الطاعۃ اور معصوم فرستادہ نہیں آئے گا تو یہ شخص زندیق ہے اور ایسے شخص کے بارے میں جمہور متاخرین حنفیہ اور شافعیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے ۔ ( المسوی جلد 2 صفحہ 269 )
غور فرمائیں ! حضرت شاہ ولی اللہ کا عقیدہ ختم نبوت کا اتنا مضبوط اور واضح ہے ، غیر تشریعی یا ظلی بروزی نبی تو درکنار ، جن کے نزدیک بغیر نبی کا نام لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم اور مفترض الطاعۃ سمجھ لینا بھی عقیدہ ختم نبوت کا انکار اور زندقہ ہے اور ان کے بارے میں یہ جھوٹ پھیلانا کہ ان کے نزدیک غیر تشریعی نبی آسکتا ہے کس قدر ظلم اور زیادتی ہے ۔
نیز حضرت شاہ صاحب آپنے فارسی ترجمعہ قرآن " فتح الرحمٰن " میں آیت خاتم النبیین ( ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین ) کا ترجمعہ وتشریح یوں فرماتے ہیں :
نیست محمد پدر ہیچ کس از مردان ولیکن پیغمبر خدا است ومہر پیغمبران است " اور پھر حاشیے میں اس کی تشریح یوں فرماتے ہی ں " یعنی بعداز وے ہیچ پیغمبر نہ باشد " یعنی ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا ۔ ( فارسی ترجمعہ قرآن از شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ ، صفحہ 616 )
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں
جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بیان ہوا کہ مرزا غلام قادیانی نے یہ دعویٰ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مبعوث ہونا تھا ، اآپ آپنی پہلی بعثت میں مکہ میں پیدا ہوئے اور وصال کے بعد مدنیہ منورہ میں مدفون ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت مرزا غلام قادیانی کی صورت میں قادیان میں ہوئی ( نقل کفر ، کفر نابشد ) ۔ اس کفریہ عقیدے کا ثابت کرنے کے لئے ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے بھی یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ہیں اور پھر شاہ صاحب کی کتاب " حجۃ اللہ البالغۃ " میں سے کچھ الفاظ کاٹ کر پیش کیے جاتے ہیں ، وہ یہ کہ حضرت شاہ صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زکر فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ " واعظم الانبیاء شاناََ من لۃ نوع آخر من البعثۃ ایضاََ ۔۔ اور تمام انبیاء میں سب سے بڑی شان والے وہ ہیں جن کی بعثت کی ایک اور قسم بھی ہے ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ جلد 1 صفحہ 156 )
مرزائی صرف یہ الفاظ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو حضرت شاہ صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بعثت بھی ہونی تھی ، لیکن اگر حضرت شاہ صاحب کی پوری عبارت پیش کی جائے تو مرزائی دجل وفریب راکھ بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے ، آئیے پوری عبارت پڑھتے ہیں ۔
واعظم الانبیاء شاناََ من لہ نوع آخر من البعثۃ ایضاََ وذلک ان یکون مراد اللہ تعالیٰ فیہ ان یکون سبباََ لخروج الناس من الظلمات الی النور وان یکون قومہ خیرامۃ اخرجت للناس فیکون بعثہ یتناول بعثاََ آخر ، والی الاول وقعت الاشارۃ فی قولہ تعالیٰ : ھو الذی بعث فی الامیین رسولاََ منھم ( الجمعۃ : 2 ) والی الثانی فی قولہ تعالیٰ : کنتم خیرامۃ اخرجت للناس ( آل عمران : 110 ) وقولہ : فانما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین " اور تمام انبیاء میں سب سے بری شان والے وہ ہیں جن کی بعشت کی ایک اور قسم بھی ہے ، اور وہ یہ کہ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالے اور آپ کی قوم بہترین امت ہو جو دوسرے لوگوں کے لئے نکالی جائے ، پس آپ کی بعثت میں ہی ایک اور بعثت ہے پہلی ( بعثت ) کی طرف اللہ کے اس کلام میں اشارہ ہے : وہ اللہ وہ ذات ہے جس نے امیوں میں انہی میں سے ایک رسول بیجھا ( الجمعہ : 2 ) اور دوسری ( بعثت ) کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے : تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے نکالا گیا ہے ( ال عمران : 110 ) ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ تم آسانی کرنے والے بنا کر مبعوث کیے گئے ہو ، تمہیں تنگی کرنے والا بنا کر نہیں بیجھا گیا ۔ ( حجۃ اللہ البالغہ ، جلد 1 صفحہ 156 ، باب حقیقۃ النبوۃ وخواصھا )
اب غور فرمائیں ! کیا شاہ صاحب کی اس تحریر میں یہ بیان ہو رہا ہے کہ چودھویں صدی میں قادیان کے ایک دہقان کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت ہوگی ؟ پر گز نہیں ، شاہ صاحب فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا ، اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آب کسی نبی نے پیدا نہیں ہونا تھا اس لئے آپ کی قوم اور آپ کی امت کے سپرد بھی وہی کام کیا گیا اور انہیں دوسرے لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ، شاہ صاحب نے دو آیات اور ایک حدیث کا حوالہ دیکر بات کو واضح بھی فرما دیا ، یہ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دو قسمیں یا انواع جو شاہ صاحب بیان فرما رہے ہیں ، لیکن جس مذہب کی بنیاد ہی جھوٹ اور تحریف پر ہو اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ رات کو دن اور دن کو رات کہہ ڈالے ۔