Raheel Ansari
رکن ختم نبوت فورم
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (آل عمران: 55)
حضرت عبد اللہ ابن عباس کا قول "اني مميتک" اور اسکي حقيقت
ہم اکثر بحث و مباحثہ ميں قاديانيہ کي طرف سے يہ ايک دليل ديکھتے ہيں کہ حضرت ابن عباس، جو کہ جليل القدر صحابي رسول ہيں، نے اس آيت کي تفسير «يا عيسي اني متوفيک ورافعک الي» ميں کہا «اني مميتک» (يعني تمہيں موت دونگا)۔ اس قول کو امام بخاري نے اپني صحيح ميں نقل کيا ہے باب «بَابُ مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ، وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ (المائدة: 103)» ميں اور اس کي سند صحيح ہے جسے امام بخاري نے نقل نہيں کيا۔
قاديانيہ کا مسئلہ يہ ہے کہ وہ کچھ بھي اپنے مطلب کا اٹھا کر چھاب ديتے ہيں اور نعرے بازي شروع کرديتے ہيں کہ يہ عقيدہ تو صحابہ کرام کا تھا۔ آئيں اس پر ايک تحقيقي نظر ڈالتے ہيں۔ حضرت ابن عباس کے اس قول کا مفھوم انہي کے مزيد اقوال اور ان کي تفسير سے ليتے ہيں۔
1. حضرت ابن عباس کا يہ قول ہميں اس سند کے ساتھ ملتا ہے:
حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية، عن علي، عن ابن عباس قوله إني متوفيك يقول إني مميتك
(ترجمہ) ابن عباس سے مروي ہے إِنِّي مُتَوَفِّيكَ فرمايا کہ ميں تمہيں موت دينے والا ہوں۔
اس روايت کو امام ابن جرير طبري اپني تفسير جامع البيان جو کہ تفسير طبري کے نام سے مشہور ہے اس ميں نقل کرتے ہيں۔ اسي طرح تفسير طبري ميں امام ابن جرير طبري ايک اور روايت نقل کرتے ہيں حضرت ابن عباس سے آيت وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (النساء:55) (ترجمہ: اور کوئي اہل کتاب نہيں ہوگا مگر انکي موت سے پہلے ان پر ايمان لے آئے گا)کے تحت:
حدثنا ابن بشار قال، حدثنا عبد الرحمن قال، حدثنا سفيان، عن أبي حصين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ قال: قبل موت عيسى ابن مريم.
(ترجمہ) ابن عباس آيت " وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ " پر فرماتے ہيں کہ عيسي ابن مريم کي موت سے قبل ايسا ہوگا۔
پھر يہي قول ايک اور سند کے ساتھ بھي منقول ہے انہي الفاظ کے ساتھ۔
ايک اور روايت ابن عباس سے منقول ہے اسي آيت کے تحت:
حدثني محمد بن سعد قال، حدثني أبي قال، حدثني عمي قال، حدثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس قوله وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موتهيعني أنه سيدرك أناسٌ من أهل الكتاب حين يبعث عيسى فيؤمنون به ويوم القيامة يكون عليهم شهيدًا
(ترجمہ) ابن عباس فرماتے ہيں وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته کہ عيسي عليہ السلام اہل کتاب کي پکڑ کريں گے جب ان کي بعثت ہوگي اور وہ ان پر ايمان لائيں۔ «اور قيامت کے دن وہ ان پر گواہ ہونگے۔
ان روايات سے ابن عباس رضي اللہ عنہ کا عقيدہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ عيسي ابن مريم کے آنے کے قائل بھي تھے اور يہي انکا منہج تھا نا کہ انکي وفات کے۔
2. اگر ہم انکا قول "مميتک" پر نظر ڈاليں تو اس سے مراد عيسي عليہ السلام کي موت ہي ہے ليکن نزول کے بعد کيونکہ اس ميں انھوں نے يہ بيان نہيں کيا کہ موت ابھي ہوگي يا بعد ميں۔ اور اس کا مفھوم حضرت ابن عباس کي اپني تفسير "تنوير المقباس في تفسير ابن عباس" سے سمجھ آتا ہے جس ميں يہ ذکر ہے آيت يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ کے تحت:
إِذْ قَالَ الله يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ مقدم ومؤخر
(ترجمہ) يہ پہلے ہوگا ( َرَافِعُكَ ) اور وہ بعد ميں ہوگا ( مُتَوَفِّيكَ )۔
امام ابن جرير طبري بھي يہي فرماتے ہيں اپني تفسير ميں کہ کچھ کا اس بارے ميں يہ کہنا ہے:
وقال آخرون معنى ذلك إذ قال الله يا عيسى إني رافعك إليّ ومطهِّرك من الذين كفروا، ومتوفيك بعد إنزالي إياك إلى الدنيا. وقال: هذا من المقدم الذي معناه التأخير، والمؤخر الذي معناه التقديم.
(ترجمہ) اور لوگوں نے اس کے معني إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا اور پھر وفات دوں گا اپنے پاس سے نزول کرنے کے بعد دنيا ميں۔ اور کہا کہ مراد يہي ہے کہ جو پہلے فرمايا اس سے مراد اس امر کا بعد ميں واقع ہونے کے ہيں اور جو بعد ميں فرمايا اس سے مراد اس امر کا پہلے ہونے کا ہے۔
بيان کردہ اقوال کي رشني ميں يہ آيت مفھوم ميں ايسے ہوگي يَاعِيسَى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ ومُتَوَفِّيكَ (اے عيسي ميں تمہيں اپني طرف اٹھا لوں گا اور پورا کروں گا)۔ اب اس ميں حضرت ابن عباس کا قول رکھيں تقديم اور تاخير کے معني کے ساتھ تو آيت ايسے ہوگي " يَاعِيسَى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ ومميتك " (اے عيسي ميں تمہيں اپني طرف اٹھا لوں گا اور پھر موت دوں گا)۔
اور يہي عقيدہ حضرت ابن عباس کا تھا کہ عيسي ابن مريم کا نزول ہوگا اور اس نزول کے بعد انکي وفات ہوگي۔ قاديانيہ کا ابن عباس پر بہتان اور الزام جھوٹا ثابت ہوتا ہے حضريت ابن عباس کے اپنے ہي اقوال سے۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس کا قول "اني مميتک" اور اسکي حقيقت
ہم اکثر بحث و مباحثہ ميں قاديانيہ کي طرف سے يہ ايک دليل ديکھتے ہيں کہ حضرت ابن عباس، جو کہ جليل القدر صحابي رسول ہيں، نے اس آيت کي تفسير «يا عيسي اني متوفيک ورافعک الي» ميں کہا «اني مميتک» (يعني تمہيں موت دونگا)۔ اس قول کو امام بخاري نے اپني صحيح ميں نقل کيا ہے باب «بَابُ مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلاَ سَائِبَةٍ، وَلاَ وَصِيلَةٍ وَلاَ حَامٍ (المائدة: 103)» ميں اور اس کي سند صحيح ہے جسے امام بخاري نے نقل نہيں کيا۔
قاديانيہ کا مسئلہ يہ ہے کہ وہ کچھ بھي اپنے مطلب کا اٹھا کر چھاب ديتے ہيں اور نعرے بازي شروع کرديتے ہيں کہ يہ عقيدہ تو صحابہ کرام کا تھا۔ آئيں اس پر ايک تحقيقي نظر ڈالتے ہيں۔ حضرت ابن عباس کے اس قول کا مفھوم انہي کے مزيد اقوال اور ان کي تفسير سے ليتے ہيں۔
1. حضرت ابن عباس کا يہ قول ہميں اس سند کے ساتھ ملتا ہے:
حدثني المثنى قال، حدثنا عبد الله بن صالح قال، حدثني معاوية، عن علي، عن ابن عباس قوله إني متوفيك يقول إني مميتك
(ترجمہ) ابن عباس سے مروي ہے إِنِّي مُتَوَفِّيكَ فرمايا کہ ميں تمہيں موت دينے والا ہوں۔
اس روايت کو امام ابن جرير طبري اپني تفسير جامع البيان جو کہ تفسير طبري کے نام سے مشہور ہے اس ميں نقل کرتے ہيں۔ اسي طرح تفسير طبري ميں امام ابن جرير طبري ايک اور روايت نقل کرتے ہيں حضرت ابن عباس سے آيت وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ (النساء:55) (ترجمہ: اور کوئي اہل کتاب نہيں ہوگا مگر انکي موت سے پہلے ان پر ايمان لے آئے گا)کے تحت:
حدثنا ابن بشار قال، حدثنا عبد الرحمن قال، حدثنا سفيان، عن أبي حصين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ قال: قبل موت عيسى ابن مريم.
(ترجمہ) ابن عباس آيت " وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ " پر فرماتے ہيں کہ عيسي ابن مريم کي موت سے قبل ايسا ہوگا۔
پھر يہي قول ايک اور سند کے ساتھ بھي منقول ہے انہي الفاظ کے ساتھ۔
ايک اور روايت ابن عباس سے منقول ہے اسي آيت کے تحت:
حدثني محمد بن سعد قال، حدثني أبي قال، حدثني عمي قال، حدثني أبي، عن أبيه، عن ابن عباس قوله وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موتهيعني أنه سيدرك أناسٌ من أهل الكتاب حين يبعث عيسى فيؤمنون به ويوم القيامة يكون عليهم شهيدًا
(ترجمہ) ابن عباس فرماتے ہيں وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته کہ عيسي عليہ السلام اہل کتاب کي پکڑ کريں گے جب ان کي بعثت ہوگي اور وہ ان پر ايمان لائيں۔ «اور قيامت کے دن وہ ان پر گواہ ہونگے۔
ان روايات سے ابن عباس رضي اللہ عنہ کا عقيدہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ عيسي ابن مريم کے آنے کے قائل بھي تھے اور يہي انکا منہج تھا نا کہ انکي وفات کے۔
2. اگر ہم انکا قول "مميتک" پر نظر ڈاليں تو اس سے مراد عيسي عليہ السلام کي موت ہي ہے ليکن نزول کے بعد کيونکہ اس ميں انھوں نے يہ بيان نہيں کيا کہ موت ابھي ہوگي يا بعد ميں۔ اور اس کا مفھوم حضرت ابن عباس کي اپني تفسير "تنوير المقباس في تفسير ابن عباس" سے سمجھ آتا ہے جس ميں يہ ذکر ہے آيت يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ کے تحت:
إِذْ قَالَ الله يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ مقدم ومؤخر
(ترجمہ) يہ پہلے ہوگا ( َرَافِعُكَ ) اور وہ بعد ميں ہوگا ( مُتَوَفِّيكَ )۔
امام ابن جرير طبري بھي يہي فرماتے ہيں اپني تفسير ميں کہ کچھ کا اس بارے ميں يہ کہنا ہے:
وقال آخرون معنى ذلك إذ قال الله يا عيسى إني رافعك إليّ ومطهِّرك من الذين كفروا، ومتوفيك بعد إنزالي إياك إلى الدنيا. وقال: هذا من المقدم الذي معناه التأخير، والمؤخر الذي معناه التقديم.
(ترجمہ) اور لوگوں نے اس کے معني إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا اور پھر وفات دوں گا اپنے پاس سے نزول کرنے کے بعد دنيا ميں۔ اور کہا کہ مراد يہي ہے کہ جو پہلے فرمايا اس سے مراد اس امر کا بعد ميں واقع ہونے کے ہيں اور جو بعد ميں فرمايا اس سے مراد اس امر کا پہلے ہونے کا ہے۔
بيان کردہ اقوال کي رشني ميں يہ آيت مفھوم ميں ايسے ہوگي يَاعِيسَى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ ومُتَوَفِّيكَ (اے عيسي ميں تمہيں اپني طرف اٹھا لوں گا اور پورا کروں گا)۔ اب اس ميں حضرت ابن عباس کا قول رکھيں تقديم اور تاخير کے معني کے ساتھ تو آيت ايسے ہوگي " يَاعِيسَى إِنِّي رَافِعُكَ إِلَيَّ ومميتك " (اے عيسي ميں تمہيں اپني طرف اٹھا لوں گا اور پھر موت دوں گا)۔
اور يہي عقيدہ حضرت ابن عباس کا تھا کہ عيسي ابن مريم کا نزول ہوگا اور اس نزول کے بعد انکي وفات ہوگي۔ قاديانيہ کا ابن عباس پر بہتان اور الزام جھوٹا ثابت ہوتا ہے حضريت ابن عباس کے اپنے ہي اقوال سے۔