سوال : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مسیح اور آنے والے مسیح علیہ اسلام کا رنگ ، حلیہ قد علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے ۔ لہذا عیسیٰ علیہ اسلام 2 ہیں ؟
جواب :
اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہو جاتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوں گے۔ کیونکہ بظاہر ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ علیہ السلام میں بھی اسی حدیث میں مذکور ہے ملاحظہ ہو"۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي العَالِيَةِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي مُوسَى رَجُلًا آدَمَ طُوَالًا جَعْدًا، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى رَجُلًا مَرْبُوعًا، مَرْبُوعَ الخَلْقِ إِلَى الحُمْرَةِ وَالبَيَاضِ، سَبِطَ الرَّأْسِ" ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3239 )
۔حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ قد لمبا، گھونگھرالے بال والے تھے جیسے یمن کے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ، اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد سُرخ و سفید رنگ، سیدھے بال والے۔( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معراج کی رات کا واقعہ بیان فرمایا )۔
اور کتاب الانبیاء میں ہے:
" حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ: " لَقِيتُ مُوسَى، قَالَ: فَنَعَتَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ - حَسِبْتُهُ قَالَ - مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: - رَبْعَةٌ أَحْمَرُ،" ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3437 )
موسیٰ علیہ السلام دُبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام میانہ قد سرخ رنگ کے گھونگھرالے بال والے۔( یہ بھی معراج کی رات کا واقعہ بیان فرمایا )
پہلی حدیث میں موسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے۔ پس دو موسیٰ اور دو عیسیٰ ہوئے۔
مزید ملاخط کریں ۔
(یہ بھی معراج کی رات کا واقعہ بیان فرمایا )
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ المُغِيرَةِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ عِيسَى ومُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ، فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ، وَأَمَّا مُوسَى، فَآدَمُ جَسِيمٌ سَبْطٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ الزُّطِّ" ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3438 )
۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ، بال گھونگھرالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں۔
پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے شنوء ہ والوں کی طرح تھے اور اِس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ کا رنگ سفید سرخی مائل ہے دوسری اور تیسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک ہونے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلا اور ایک اور کوئی۔(معاذاللہ)
-----------------
ورنہ حقیقت میں نہ موسیٰ علیہ السلام کے حلئے میں اختلاف ہے نہ عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ و حلیہ میں جس سے کہ دو ہستیاں سمجھی جاسکیں۔ تفصیل اور شارحین حدیث کی وضاحت ملاخط فرمائیں :۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں لفظ جَعْد کے معنے گھونگھرالے بال کے نہیں۔ بلکہ گٹھیلے بدن کے ہیں۔
مَعْنَاہُ شَدِیْدُ الْاَسْرِ وَالْخَلْقِ نَاقَۃٌ جُعْدَۃ اَی مُجْتَمِعَۃُ الْخَلْقِ شَدِیْدَۃ ۔( نہایہ ابن اثیر جلد 1 صفحہ285 )
یعنی جعد کے معنی جوڑو بند کا سخت ہونا جعدہ اونٹنی مضبوط جوڑ بند والی۔
مجمع البحار میں ہے اَمَّا مُوْسٰی فَجعُدٌ اَرَادَ جُعُوْدَۃَ الْجِسْمِ وَھُوَ اجْتَمَاعُہٗ وَاکتنازہ لا ضد سُبُوطَۃُ الشَّعْر لِاَنَّہٗ رُوِیَ اَنَّہٗ رَجِلُ الشَّعْرِ وَکَذَا فِیْ وَصْفِ عِیْسٰی ۔(مجمع البحار جلد 1 صفحہ 323 )
یعنی حدیث میں موسیٰ و عیسیٰ کے لیے جو لفظ جعد آیا ہے اس کے معنے بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نہ بالوں کا گھونگھر ہونا کیونکہ ان کے بالوں کا سیدھا ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح لفظ ضربٌ اور جسم میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ ضرب بمعنی نحیف البدن اور جیم بمعنی طویل البدن۔
قال القاضی عیاض المراد باالجسم فی صفۃ موسی الزیادہ فی الطول۔ ( فتح الباری ص558، ج6باب واذکر فی الکتاب مریم )
یعنی صفت موسیٰ میں لفظ جیم کے معنے لمبائی میں زیادتی ہے۔
دوستو ! پہلے آپ نے صحیح بخاری کی ایک روایت پڑھی جو روایت نمبر تین ہے جو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، اور اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ " احمر (یعنی سرخ )" اور بال " جعد ( گھنگریالے ) " بیان ہوا ہے اور اسی صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جس میں یہی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ کی قسم اٹھا کر فرماتے ہیں کہ :۔
" حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ المَكِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لاَ وَاللَّهِ مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعِيسَى أَحْمَرُ، وَلَكِنْ قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أَطُوفُ بِالكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ، سَبْطُ الشَّعَرِ، يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً، أَوْ يُهَرَاقُ رَأْسُهُ مَاءً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: ابْنُ مَرْيَمَ " ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3441 )
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قسم اٹھا کر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں احمر ( یعنی سرخ رنگ ) کبھی نہیں فرمایا ۔
تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی دونوں روایتوں میں سے ایک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ آیا اور دوسری جگہ آپ اللہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ ہرگز نہیں فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ سرخ رنگ والی روایت میں کسی اور راوی نے غلطی سے سرخ رنگ کا لفظ روایت کر دیا ہے ،اور اصل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ " سفید سرخی مائل " ہی رہا ۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ نہ خالص سفید اور نہ خالص سرخ بلکہ ان دونوں کے درمیان تھا ، اور اسی رنگ کو کچھ روایات میں " گندمی " رنگ بیان کر دیا گیا ۔
شارح صحیح مسلم امام نووی رحمتہ اللہ علیہ ( قادیانیوں کے نزدیک بھی مسلمہ چھٹی صدی ہجری کے مجدد ) لکھتے ہیں کہ :۔
" وَأَنَّهُ اشْتَبَهَ عَلَى الرَّاوِي فَيَجُوزُ أَنْ يُتَأَوَّلَ الْأَحْمَرُ عَلَى الْآدَمِ وَلَا يَكُونُ الْمُرَادُ حَقِيقَةَ الْأُدْمَةِ وَالْحُمْرَةِ بَلْ مَا قَارَبَهَا " ( شرح النووی علی مسلم ، جلد 2 صفحہ 233 )
یہ راوی پر مشتبہ ہوگیا شاید اس نے گندمی رنگ پر سرخ کا لفظ بول دیا ، اور اس سے بھی خالص گندمی یا خالص سرخ مراد نہیں ، بلکہ وہ رنگ مراد ہے جو ان کے قریب قریب ہو ۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " شمائل ترمذی " میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دو روایات لائے ہیں ، جس کے اندر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرمایا ہے ، آئیں دیکھتے ہیں :۔
1
" قَالَ الْحَافِظُ أَبُو عِيسَى مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ سَوْرَةٍ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ " ( شمائل ترمذی ، حدیث نمبر 1 )
اس حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی بہت سفید تھے اور نہ گندمی رنگت والے۔
2
" حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبْعَةً، لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، حَسَنَ الْجِسْمِ، وَكَانَ شَعْرُهُ لَيْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْطٍ أَسْمَرَ اللَّوْنِ، إِذَا مَشَى يَتَكَفَّأُ " ( شمائل ترمذی حدیث نمبر 2 )
اس حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گندمی رنگ والے تھے ۔
نوٹ: آدم اور اسمر دونوں لفظ " گندم گوں " رنگ کے لئے آتا ہے ، نیز یہ دونوں روایات صحیح ہیں ۔
نتیجہ : کسی کا رنگ بیان کرنے والا کبھی کسی کا رنگ سرخ یا سفید بیان کر دیتا ہے ، لیکن اس کی مراد خالص سفید یا خالص سرخ نہیں ہوتا ، اسی طرح کسی کا گندمی رنگ بیان کیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد بلکل " سانولا " رنگ نہیں ہوتا۔
ایک شبہ کا ازالہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ " اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ نہیں فرمایا " اس کے بارے میں مرزائی مربی دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ صرف اس روایت کے بارے میں ہے جس میں آنے والے مسیح کا ذکر ہے ۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے ابن عمر رضی اللہ نہ پہلے یہ بات بیان فرمائی ، پھر اس کے بعد اپنے حق میں وہ روایت پیش کی ، اور واضح رہے کہ کسی صحابی کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ عیسیٰ ابن مریم دو ہیں ، اور نہ ہی امت میں کسی محدث ، مفسر ، مجدد نے یہ سوچا ۔
اگر ان روایات سے دو عیسیٰ ثابت ہوتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننے ہونگے اور یہ ایک احمقانہ سوچ ہے ۔
مرزا قادیانی بھی پھر دو ہوئے اسکا بھی ایک جگہ سرخ رنگ بتایا گیا اور دوسری جگہ سرخ اور سفید
جواب :
اس طرح سے اگر دو عیسیٰ ہو جاتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننا ہوں گے۔ کیونکہ بظاہر ایسا ہی اختلاف سراپا موسیٰ علیہ السلام میں بھی اسی حدیث میں مذکور ہے ملاحظہ ہو"۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي العَالِيَةِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي مُوسَى رَجُلًا آدَمَ طُوَالًا جَعْدًا، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى رَجُلًا مَرْبُوعًا، مَرْبُوعَ الخَلْقِ إِلَى الحُمْرَةِ وَالبَيَاضِ، سَبِطَ الرَّأْسِ" ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3239 )
۔حضرت موسیٰ علیہ السلام گندمی رنگ قد لمبا، گھونگھرالے بال والے تھے جیسے یمن کے قبیلہ شنوء ہ کے لوگ، اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد سُرخ و سفید رنگ، سیدھے بال والے۔( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معراج کی رات کا واقعہ بیان فرمایا )۔
اور کتاب الانبیاء میں ہے:
" حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ: " لَقِيتُ مُوسَى، قَالَ: فَنَعَتَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ - حَسِبْتُهُ قَالَ - مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: - رَبْعَةٌ أَحْمَرُ،" ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3437 )
موسیٰ علیہ السلام دُبلے سیدھے بال والے تھے جیسے شنوء ہ کے لوگ اور عیسیٰ علیہ السلام میانہ قد سرخ رنگ کے گھونگھرالے بال والے۔( یہ بھی معراج کی رات کا واقعہ بیان فرمایا )
پہلی حدیث میں موسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے۔ اس حدیث میں موسیٰ علیہ السلام سیدھے بال والے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام گھونگھرالے بال والے۔ پس دو موسیٰ اور دو عیسیٰ ہوئے۔
مزید ملاخط کریں ۔
(یہ بھی معراج کی رات کا واقعہ بیان فرمایا )
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ المُغِيرَةِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتُ عِيسَى ومُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ، فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ، وَأَمَّا مُوسَى، فَآدَمُ جَسِيمٌ سَبْطٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ الزُّطِّ" ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3438 )
۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ، بال گھونگھرالے اور سینہ چوڑا ہے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کا رنگ گندمی ہے۔ موٹے بدن کے سیدھے بال والے جیسے جاٹ لوگ ہوتے ہیں۔
پہلی حدیث کے موسیٰ دبلے پتلے شنوء ہ والوں کی طرح تھے اور اِس حدیث کے موسیٰ موٹے بدن کے جاٹوں کی طرح ہیں۔ پہلی حدیث کے عیسیٰ کا رنگ سفید سرخی مائل ہے دوسری اور تیسری حدیث کے عیسیٰ کا رنگ بالکل سرخ۔ اس بناء پر جب دو عیسیٰ ہوسکتے ہیں ایک پہلا اور ایک ہونے والا تو موسیٰ بھی دو ہوسکتے ہیں۔ ایک پہلا اور ایک اور کوئی۔(معاذاللہ)
-----------------
ورنہ حقیقت میں نہ موسیٰ علیہ السلام کے حلئے میں اختلاف ہے نہ عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ و حلیہ میں جس سے کہ دو ہستیاں سمجھی جاسکیں۔ تفصیل اور شارحین حدیث کی وضاحت ملاخط فرمائیں :۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں لفظ جَعْد کے معنے گھونگھرالے بال کے نہیں۔ بلکہ گٹھیلے بدن کے ہیں۔
مَعْنَاہُ شَدِیْدُ الْاَسْرِ وَالْخَلْقِ نَاقَۃٌ جُعْدَۃ اَی مُجْتَمِعَۃُ الْخَلْقِ شَدِیْدَۃ ۔( نہایہ ابن اثیر جلد 1 صفحہ285 )
یعنی جعد کے معنی جوڑو بند کا سخت ہونا جعدہ اونٹنی مضبوط جوڑ بند والی۔
مجمع البحار میں ہے اَمَّا مُوْسٰی فَجعُدٌ اَرَادَ جُعُوْدَۃَ الْجِسْمِ وَھُوَ اجْتَمَاعُہٗ وَاکتنازہ لا ضد سُبُوطَۃُ الشَّعْر لِاَنَّہٗ رُوِیَ اَنَّہٗ رَجِلُ الشَّعْرِ وَکَذَا فِیْ وَصْفِ عِیْسٰی ۔(مجمع البحار جلد 1 صفحہ 323 )
یعنی حدیث میں موسیٰ و عیسیٰ کے لیے جو لفظ جعد آیا ہے اس کے معنے بدن کا گٹھیلا ہونا ہے نہ بالوں کا گھونگھر ہونا کیونکہ ان کے بالوں کا سیدھا ہونا ثابت ہے۔ اسی طرح لفظ ضربٌ اور جسم میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ ضرب بمعنی نحیف البدن اور جیم بمعنی طویل البدن۔
قال القاضی عیاض المراد باالجسم فی صفۃ موسی الزیادہ فی الطول۔ ( فتح الباری ص558، ج6باب واذکر فی الکتاب مریم )
یعنی صفت موسیٰ میں لفظ جیم کے معنے لمبائی میں زیادتی ہے۔
دوستو ! پہلے آپ نے صحیح بخاری کی ایک روایت پڑھی جو روایت نمبر تین ہے جو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، اور اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ " احمر (یعنی سرخ )" اور بال " جعد ( گھنگریالے ) " بیان ہوا ہے اور اسی صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جس میں یہی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اللہ کی قسم اٹھا کر فرماتے ہیں کہ :۔
" حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ المَكِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لاَ وَاللَّهِ مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعِيسَى أَحْمَرُ، وَلَكِنْ قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أَطُوفُ بِالكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ، سَبْطُ الشَّعَرِ، يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً، أَوْ يُهَرَاقُ رَأْسُهُ مَاءً، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: ابْنُ مَرْيَمَ " ( صحیح بخاری حدیث نمبر 3441 )
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ قسم اٹھا کر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں احمر ( یعنی سرخ رنگ ) کبھی نہیں فرمایا ۔
تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی دونوں روایتوں میں سے ایک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ آیا اور دوسری جگہ آپ اللہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ ہرگز نہیں فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ سرخ رنگ والی روایت میں کسی اور راوی نے غلطی سے سرخ رنگ کا لفظ روایت کر دیا ہے ،اور اصل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ " سفید سرخی مائل " ہی رہا ۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ نہ خالص سفید اور نہ خالص سرخ بلکہ ان دونوں کے درمیان تھا ، اور اسی رنگ کو کچھ روایات میں " گندمی " رنگ بیان کر دیا گیا ۔
شارح صحیح مسلم امام نووی رحمتہ اللہ علیہ ( قادیانیوں کے نزدیک بھی مسلمہ چھٹی صدی ہجری کے مجدد ) لکھتے ہیں کہ :۔
" وَأَنَّهُ اشْتَبَهَ عَلَى الرَّاوِي فَيَجُوزُ أَنْ يُتَأَوَّلَ الْأَحْمَرُ عَلَى الْآدَمِ وَلَا يَكُونُ الْمُرَادُ حَقِيقَةَ الْأُدْمَةِ وَالْحُمْرَةِ بَلْ مَا قَارَبَهَا " ( شرح النووی علی مسلم ، جلد 2 صفحہ 233 )
یہ راوی پر مشتبہ ہوگیا شاید اس نے گندمی رنگ پر سرخ کا لفظ بول دیا ، اور اس سے بھی خالص گندمی یا خالص سرخ مراد نہیں ، بلکہ وہ رنگ مراد ہے جو ان کے قریب قریب ہو ۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " شمائل ترمذی " میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دو روایات لائے ہیں ، جس کے اندر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرمایا ہے ، آئیں دیکھتے ہیں :۔
1
" قَالَ الْحَافِظُ أَبُو عِيسَى مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ سَوْرَةٍ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ، وَلَا بِالْآدَمِ " ( شمائل ترمذی ، حدیث نمبر 1 )
اس حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی بہت سفید تھے اور نہ گندمی رنگت والے۔
2
" حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبْعَةً، لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، حَسَنَ الْجِسْمِ، وَكَانَ شَعْرُهُ لَيْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْطٍ أَسْمَرَ اللَّوْنِ، إِذَا مَشَى يَتَكَفَّأُ " ( شمائل ترمذی حدیث نمبر 2 )
اس حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گندمی رنگ والے تھے ۔
نوٹ: آدم اور اسمر دونوں لفظ " گندم گوں " رنگ کے لئے آتا ہے ، نیز یہ دونوں روایات صحیح ہیں ۔
نتیجہ : کسی کا رنگ بیان کرنے والا کبھی کسی کا رنگ سرخ یا سفید بیان کر دیتا ہے ، لیکن اس کی مراد خالص سفید یا خالص سرخ نہیں ہوتا ، اسی طرح کسی کا گندمی رنگ بیان کیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد بلکل " سانولا " رنگ نہیں ہوتا۔
ایک شبہ کا ازالہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ " اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ نہیں فرمایا " اس کے بارے میں مرزائی مربی دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ صرف اس روایت کے بارے میں ہے جس میں آنے والے مسیح کا ذکر ہے ۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے ابن عمر رضی اللہ نہ پہلے یہ بات بیان فرمائی ، پھر اس کے بعد اپنے حق میں وہ روایت پیش کی ، اور واضح رہے کہ کسی صحابی کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ عیسیٰ ابن مریم دو ہیں ، اور نہ ہی امت میں کسی محدث ، مفسر ، مجدد نے یہ سوچا ۔
اگر ان روایات سے دو عیسیٰ ثابت ہوتے ہیں تو دو موسیٰ بھی ماننے ہونگے اور یہ ایک احمقانہ سوچ ہے ۔
مرزا قادیانی بھی پھر دو ہوئے اسکا بھی ایک جگہ سرخ رنگ بتایا گیا اور دوسری جگہ سرخ اور سفید
مدیر کی آخری تدوین
: