• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ اور قادیانی اٹکل

ذوالفقار احمد

رکن ختم نبوت فورم
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ اور قادیانی اٹکل
سوال: قادیانی اپنی طرف سے ایک نہایت اہم سوال اٹھاتے ہیں
کہتے ہیں:
بخاری شریف میں دو الگ الگ حلیے اور رنگ بیان ہوئے ہیں۔ پہلی حدیث میں ہے کہ ''فاما عیسی فاحمر جعد عریض اصدر'' یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ بال گھنگریالے اور سینہ چوڑا تھا۔
اس سے اگلی حدیث میں ہے کہ: ''بینما انا نائم اطرف بالکعبۃ فاذا رجل آدم سبط الشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقلت من ھذا ؟ قالوا ابن مریم'' یعنی میں خواب میں کعبے کا طواف کر رہا تھا کہ میں نے ایک آدمی دیکھا جس کا رنگ گندمی بال سیدھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے تو جواب ملا:یہ ابنِ مریم ہیں۔
مسیح علیہ السلام کے دو الگ الگ حلیے بتا رہے ہیں کہ پہلے مسیح سے مراد بنی اسرائیل کے مسیح ہیں جبکہ دوسرے مسیح سے مراد ان کا مثیل ہے یعنی مرزا قادیانی۔۔۔۔ قادیانی یہ بھی کہتے ہیں کہ امام بخاری نے کمال کر دیا ہے کہ پہلے مسیح کا ذکر پہلے رکھا اور بعد والے کا بعد میں۔
:::::::::::::: الجواب ::::::::::::::
پہلی بات تو یہ قادیاینت نے دوسری حدیث مکمل کبھی لکھی ہی نہیں۔۔۔۔ مکمل صورت حال اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا مسیح علیہ السلام کا رنگ سرخ اور بال گھنگریالے بتائے ہیں (بخاری حدیث 3438) اور دوسری حدیث میں راوی کہتے ہیں: ' 'واللہ ما قال النبی لعیسیٰ احمر ولکن قال بینما انا ناےم الی اٰ خر الحدیث'' یعنی اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ کا رنگ سرخ نہیں بتایا بلکہ فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا آگے وہی دوسری حدیث ہے (بخاری حدیث 3441)
آسانی سے واضح ہو رہا ہے کہ دونوں حدیثوں میں ایک ہی ہستی کا حلیہ بیان ہو رہا ہے جیسے پہلے راوی سرخ بتاتا ہے اور دوسرا راوی قسم کھا کر اس حلیے کی نفی کر رہا ہے۔ گویا ''واللہ ما قال النبی لعیسیٰ احمر'' کے الفاظ اصل خیانت ہے۔
دوسری بات:
اگر حدیث کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے تو اس طرح اور کئی مسیح ثابت ہو جائیں گے مثلاََ بخاری میں اسی مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ اس طرح ہے ''ربعۃ احمر'' یعنی پستہ قد والے سرخ رنگ والے (بخاری حدیث 3438) دوسری میں ''احمر جعد'' یعنی سرخ رنگ والے گھنگریالے بالوں والے (بخاری 3438) تیسری حدیث میں ہے ''رجل آدم'' یعنی گندمی رنگ کا مرد (بخاری حدیث 3440 ''رجل الشعر یقطر راسہ ماءنیم'' گھنگریالے بال اس کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا (بخاری حدیث 3440) اگلی حدیث میں ہے ''رجل آدم سبط الشعر'' یعنی گندمی رنگ کا آدمی جس کے بال سیدھے تھے (بخاری حدیث 3441)
سوچیے قادیانی جی آپ کا طرزِ تحقیق تو تین تین چار چار مسیح ثابت کر رہا ہے تو پھر صرف دو پر ہی اکتفا کیوں۔؟
لیکن اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو یہ صرف ایک ہی شخص کا حلیہ بیان کیا جا رہا ہے جسے مختلف راویوں نے مختلف طریقے سے پیش کیا ہے جسے کسی نے تو گندمی کہہ لیا اور کسی نے گندمی کی تشبیہہ دے کر پیش کیا۔ اور واقعی گندمی رنگ کو سرخ بھی کہہ دیا جاتا ہے ورنہ بالکل خون کی طرح سرخ رنگ تو کسی انسان کا نہیں ہوتا۔
تیسری بات:
بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ : ''ھو مربوع الخلق الی احمرۃ والبیاض حین راہ لیلۃ المعراج'' یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معراج کی رات دیکھا تو ان کی رنگت سرخی اور سفیدی کے درمیان تھی (بخاری حدیث 3239 مسلم حدیث 419)
ابوداؤد شریف میں حدیث ہے کہ ''فاذا رایتموہ فاغرفوہ فانہ رجل مربوع من الحمرۃ والبیاض'' یعنی جب تم اسے دیکھو تو پہچان جاؤ گے وہ ایک مرد ہے جو سرخی اور سفیدی سے ملی جلی رنگت والا ہے (ابو داؤد 4324)
اس حدیث نے مسلہ مزید واضح کر دیا اور اور سدنا مسیح علیہ السلام کا رنگ سرخی اور سفیدی کے درمیان بتا دیا اب ظاہر ہے کہ اس رنگ کو سرخ کہہ دیں پھر بھی حرج نہیں اور اگر سفید کہہ دیں پھر بھی حرج نہیں۔ لیکن اگر خود کے اپنے ہی ذہن میں فتور ہو تو ایک نئی شخصیت ایجاد کی جا سکتی ہے۔
چوتھی بات:
نہایت دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایک طرف تو قادیانیت اس مبہم سے اشارے جس پہ راوی نے اللہ کی قسم بھی اٹھا رکھی ہے دوسرے مسیح کا وجود ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ دوسری طرف مسیح اور مہدی کے کے دو الگ الگ حلیے واضح طور پہ موجود ہونے کے باوجود نہ صرف مرزا قادیانی ہی کو دو الگ شخصیت کا واحد مانتی ہے کہ مرزا قادیانی خود کو مسیح بھی کہتا ہے اور مہدی بھی۔
اب قادیانیوں کے لیے یہ مصیبت ہے کہ احادیث میں امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حلیہ سے بالکل جدا بیان ہوا ہے بلکہ ان کا نام و نسب اور جائے ظہور بھی جدا مذکور ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا حلیہ آپ پڑھ چکے ہیں اور حضرت امام مہدی کا حلیہ احادیث میں اس طرح مذکور ہے کہ : ''المھدی منی اجلی الجبہۃ اقتنی الانف'' یعنی مھدی مجھ سے ہو گا کھلی پیشانی والا بلند بینی والا (ابوداؤد حدیث 4285) اب قادیانی بتائیں کہ مسیح و مھدی کے دو الگ الگ حلیے مرزا قادیانی کی ایک ہی نامکمل شخصیت میں کیسے پیدا کر لیتے ہو۔؟ حدیث میں ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے شہزادے سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرمایا کہ اس کی اولاد سے ایک آدمی پیدا ہو گا جس کا نام تمہارے نبی کے نام پر ہو گا وہ اخلاق میں نبی جیسا ہو گا مگر حلیہ نبی جیسا نہیں ہو گا۔ (ابوداؤد حدیث 4284) دوسری حدیث میں ہے کہ : ''یواطی اسمہ اسمی و اسم ابیہ اسم ابی'' یعنی اس کا نام میرے نام پر ہو گا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔ (ابوداؤد حدیث 4282 ترمذی حدیث 2231)
پانچویں بات:
اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ دجال کا حلیہ اس حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے: ''جعدا قططا اعور العین الیمنیٰ'' یعنی گھنگریالے بالے والوں والا دائیں آنکھ سے کانا (بخاری شریف حدیث 3440) ''
احمر جسیم جعد الراس اعور العین یلیمنیٰ''
سرخ رنگ کا بڑے جسم والا گھنگریالے بالوں والا دائیں آنکھ سے کانا (بخاری حدیث 3441) دجال کے کانے پن کی بڑی آسان اور واضح نشانی مرزا قادیانی میں پائی جا رہی ہے تو کیوں نہ مرزا قادیانی کو دجال سے واضح مشابہت کی وجہ سے ظلی اور بروزی دجال مان لیا جائے۔؟؟؟
چھٹی بات:
بخاری کی یہی حدیث جو قادیانی حضرات پیش کرتے ہیں اس میں یہ الفاظ ہیں کہ ''کانما خرج من دیماس یعنی الحمام'' ایسے لگتا ہو گا جیسے ابھی ابھی غسل کر کے نکلے ہیں۔ (بخاری شریف 3437) ''یقطر راسہ ماء'' ان کے سر سے پانی ٹپکتا ہو گا۔ (بخاری حدیث 3440) ''ینطف راسہ ماء او یھراق راسہ ماء'' یعنی ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو گا۔ (بخاری حدیث 3441) دوسری طرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا قول صحیح سند کے ساتھ معتبر کتابوں میں موجود ہے کہ جب سیدنا مسیح علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھایا جا رہا تجھا تو آپ کے سر سے پانی قطرے ٹپک رہے تھے (المصنف الابن ابی شیبہ 7-461 و السنن الکبرا للنسائی 6-489 و ابن جریر 6-18-19 و ابن کثیر 1-789) اب بتائیے! آسمان پر جاتے وقت بھی سر سے پانی ٹپکتا ہو اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب دیکھا گویا سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، اس سے دو مختلف شخصیات ثابت ہوئیں یا عین وہی ایک شخصیت۔؟
خدا کے بندو ! سچے لوگوں کے بیان آپس میں ایسے ہی ملتے ہیں جس طرح مذکورہ بالا دو بیانات۔
ساتویں بات:
حدیث شریف کے الفاظ ''فاذا رایتموہ فاعرفوہ'' جب تم اسے دیکھو تو فوراََ پہچان جاؤ (ابوداؤد حدیث 4324) سے واضح ہو رہا ہے کہ آنے والے مسیح اچانک آئیں گے جن کا نام عیسیٰ ابنِ مریم ہے۔ جبکہ مرزا قادیانی نہ عیسیٰ ابنِ مریم ہے نہ یہ ساری صورت حال اس پہ فٹ آتی ہے۔
یہ ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے حلیہ پر مکمل صورت حال۔ اس کے برعکس کچھ بتانا اور کچھ چھپانا ہی دجل و فریب کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ اسی فاسد طرزِ تحقیق سے ہر باطل طبقے نے اسلام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ادھورے جملے، آدھی احادیث اور بعض احادیث پر پردہ ڈالنا ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قادیانیت حق گوئی کے میدان میں بے ضمیری کی حد تک پسپا بلکہ رسوا ہو چکی ہے اور ہمارے پاس ان کی ہر اٹکل اور چول کے کئی کئی جواب موجود ہیں۔ الحمد للہ۔

تحریر: ذوالفقار احمد قادری
 
آخری تدوین :
Top