• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر از احادیثِ رسول اور مرزا قادیانی کے ڈھکوسلے

ذوالفقار احمد

رکن ختم نبوت فورم
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مدفن مدینہ طیبہ داخل حجرہ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ( ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و عیسیٰ بن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر ) بعد نزول فوت ہونگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شیخین یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان دفن ہوں گے۔
یہ حدیث بروایت عبداللہ بن عمر بتخریج اب الجوزی در کتاب الوفاء مشکوٰاۃ کے باب نزول عیسیٰ علیہ السلام میں موجود ہے اس منصوصاََ اور منطوقاََ ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مدفن مقبرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے نہ کوئی اور موضع۔
اس حدیث کے متعلق ہم علاوہ امر مقصود کے دیگر امر بھی ذکر کرتے ہیں جن سے مرزا قادیانی کی مسیحیت ان کی اپنی زبانی درہم برہم ہو جاتی ہے۔
مرزا قادیانی اپنی کتاب ضمیمہ انجام آتھم اور شہادت القرآن کے صفحہ 53 پر اس حدیث کو اپنی مسیحیت کی دلیل گردانتا ہے۔ اس تقریب سے کہ اس حدیث کا شروع اس طرح ہے۔
( ینزل عیسٰی بن مریم الی الارض فیتزوج و یولد لہ و یمکث فی الارض خمساََ و اربعین سنۃ ثم یموت )
اتریں گے عیسٰی بن مریم زمین پر پس نکاح کریں گے اور ان کے ہاں اولاد پیدا ہو گی اور زمین میں 45 سال رہیں گے پھر فوت ہوں گے۔
اس حدیث میں جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نکاح کا ذکر ہے اس کے متعلق مرزا قادیانی کا کہنا ہے کہ اس سے مراد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی لڑکی محمدی بیگم کے میرے نکاح میں آنے اور پھر اس سے اولاد کے ہونے کی بشارت ہے چنانچہ لکھتا ہے:
حدیث میں اس نکاح کو مسیح موعود کی علامت خود حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ اور پھر آگے اسی حدیث کو ذکر کیا ہے جسے ہم نے اوپر لکھا ہے۔
اول یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب مرزا قادیانی اس حدیث کو اپنے دعوے کے دلائل میں پیش کرتا ہے تو یہ حدیث اس کے نزدیک صحیح اور قابل استناد ہے پس جب اسی حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مدفن مدینہ طیبہ داخل حجرہ شریفہ ہے تو پھر مرزا قادیانی کا آپ کی قبر کی بابت یہ کہنا کہ وہ کشمیر میں ہے سراسر باطل ہے۔
دوم یہ کہ اس حدیث میں مسیح موعود کے لیے بتایا گیا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ میں مدفون ہوں گے اور سب پر واضح ہے کہ مرزا قادیانی لاہور میں فوت ہوا اور وہاں سے ریل پر سوار کر کے قادیان میں دفن کیا گیا۔پس جب مطابق حدیث اس کا دفن نہ ہوا تو اس کا دعویٰ مسیحیت بھی باطل ہوا۔
سوم یہ کہ مرزا قادیانی نے اس حدیث کی رو سے محمدی بیگم کے سے اپنے نکاح کو اپنی مسیحیت کا نشان قرار دیا۔ اور دنیا جانتی ہے مرزا قادیانی دنیا سے اس نکاح سے محروم رخصت ہواتو جس امر کو اس نے مسیحیت کا نشان قرار دیا تھا وہ پورہ نہ ہوا تو مرزا قادیانی کا دعویٰ مسیحیت بھی غلط ثابت ہوا۔
مرزا قادیانی کے مولوی ، مولوی محمد احسن نے اس حدیث نبی پر یہ اعتراض کیا کہ اس سے گستاخی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لازم آتی ہے کہ کیونکہ جب عیسیٰ علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کیے جائیں گے تو بالضرور قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کھودنا لازم آئے گا۔ اور یہ بے ادبی ہے جناب اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں۔
مولوی محمد احسن نے یہ بات کہہ کر لیاقت علمی اور قوت نظری سے بالکل بھی کام نہیں لیا اور تقویٰ اور ادب کو بالائے طاق رکھ دیا یہ اعتراض تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناطق بالوحی کے کلام ہدایت التیام (کامل ہدایت) پر ہوا نہ کہ اہل سنت کے اعتقاد پر۔ کیونکہ اہل سنت تو صرف کلمات نبویہ کے ناقل ہیں۔ اور ان کے مطابق اعتقاد رکھنے والے اصفح الفصحاء ناطق بالوحی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات جامعہ خود اس شبہ واہی کو رد کرتے ہیں اور تصریح بین ابی بکر و عمر رضی اللہ عنھم اسی لیے کہ کسی متجاہل (ان پڑھ) کو شبہ قبر کھودنے کا نہ پڑے کیونکہ مرکب اضافی بین ابی بکر و عمر رضی اللہ عنھم متعلق ہے فعل یدفن کے نہ کہ اقوم کے کیونکہ نقشہ روضہ پاک اس کا انکار کر رہا ہے (مطلب روضہ رسول میں مدفوں ہونے سے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گساخی وارد ہوتی تو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھم کو روضہ رسول میں کبھی دفن نہ کیا جاتا)جب یہ صاف بتلا دیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ابو بکر و عمر کے درمیان مدفون ہوں گے تو شبہ کھودنے کا جاتا رہا اور یہی تنصیص بین ابوبکر و عمر مفید ہے اس امر کی قبر بمعنی مقبرہ ہے اور فے بمعنی من ہے (فافہم) اس حدیث میں قبر بمعنی مقبرہ ہے اور فی ثانی بمعنی من کی تصریح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں کی ہے
روضہ مطہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشہ اس طرح ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی قبر اس طرح ہے کہ آپ کا سر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینہ تک ہے آپ کے ساتھ ایک قبر کی جگہ خالی اور اس خالی سے آگے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مدفن اس طرح کہ آپ کے اور حضرت ابو بکر کے سر برابر ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینہ تک ہیں۔ (اس نقشہ کی تصویری شکل لگا دی جائے گی۔
یہ کیفیت قبور ثلاثہ کی شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جذب القلوب میں درج فرمائی ہے اور اسی وضح کو اصح کہا ہے حجج الکرامہ میں بنقل ابن خلدون از کندی ذکر کیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام مدینہ میں مدفون ہوں گے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دفن کیے جائیں گے یہ بھی مروی ہے کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھم دو پیغمبروں کے درمیان محشور ہوں گے۔ (حشر میں اٹھائے جائیں گے)
دوسری حدیث کنزالعمال میں بتخریج ابن عساکر نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ کے بعد زندہ رہوں گی پس آپ اجازت فرمائیں کہ میں آپ کے پہلو میں دفن کی جاؤں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ کی نسبت میرا کچھ اختیار نہیں وہاں تو سوائے میری قبر ابو بکر اور عمر اور عیسی بن مریم کی قبر کے کسی کی جگہ نہیں۔
( عن عائشۃ قالت یارسول اللہ انی اری انی اعیش بعدک فتاذن ان ادفن الی جنبک فقال وانی لی بذٰالک الموضع مافیہ الاموضع قبری و قبر ابی بکر و عمر و عیسٰی ابن مریم ) (کنزالعمال علیہ ہاش المسند الامام احمد جلد سادس صفحہ 57)
اللہ اکبر
جس امر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وضاحت و صفائی کے ساتھ بیان فرما دیا۔ منکرین اس میں ترددات و شبہات وارد کرتے پھرتے ہیں صراط مستقیم کی طرف توجہ نہیں کرتے یہ صرف بداعتقادی کا نتیجہ ہے۔
تیسری حدیث کو امام ترمذی نے عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے اور اس حدیث کو حسن کہا کہ تورات میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان ہوئی ہے ( عن عبداللہ بن سلام قال مکتوب فی التواۃ صفۃ محمد و عیسٰی بن مریم یدفن معہ قال ابو مودود و قد بقی فی البیت موضع قبر) رواہ الترمذی (و حسنہ) مشکوٰۃ باب اسماء النبی )
اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ عیسٰی بن مریم ان کے ساتھ مدفون ہوں گے ابو مودود جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں فرماتے ہیں کہ ابھی تک حجرہ منیفہ و روضہ شریفہ میں ایک قبر کی جگہ باقی پڑی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ہر دو پیغمبران الصلواۃ اللہ علیہ کی خبر توریت میں دی تھی اور یہ بھی کہ ان دونوں کا مدفن ایک ہو گا اور الفاظ مباکہ یدفن معہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کی موت وفات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہو گی۔ کیونکہ مقام وصول پر ملحق بہ ملحق سے متقدم ہوتا ہے۔
روایت چہارم تفسیر ابن مثیر میں بتخریج ابن عساکر عن بعض السلف ذکر کیا کہ حضرت عیسٰی بن مریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں آپ کے پاس مدفون ہوں گے۔روایت پنجم۔ طبرانی اور ابن عساکر اور امام المحدثین امام بخاری نے اپنی تاریخ میں عبداللہ بن سلام سے روایت کیا کہ ( ذکر الحافظ ابو القاسم ابن عساکر فی ترجمۃ عیسٰی بن مریم من تاریخہ عن بعض السلف انہ یدفن مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجرۃ) (ابن کثیر جلد ثالث بذیل آیت وان من اہل الکتب )
صاحبین یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھم کے ساتھ مدفون ہوں گے ( یدفن عیسٰی بن مریم مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صاحبیۃ فیکون قبرہ رابعا صفحہ 469 ) پس آپ کی قبر چوتھی ہو گی۔
اور اسی طرح امام زرقانی مالکی نے شرح مواہب الدنیہ میں کہا کہ (ذکر ابن عساکر ان وفات عیسٰی تکون بالمدینۃ فیصلے علیہ ہنالک و یدفن بالحجرۃ النبویۃ) ابن عساکر نے ذکر کیا کہ عیسٰی علیہ السلام کی وفات مدینہ طیبہ میں ہو گی پس اسی جگہ آپ کا جنازہ پڑھایا جائے گا اور حجرہ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دفن کیے جائیں گے۔
ان احادیث و اخبار سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اب تک زندہ ہونا اور پھر زمانہ اخیر میں نازل ہونا اور کئی سال کے بعد فوت ہو کر مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے پاس دفن کیا جانا صاف ثابت ہے اور اس امر پر ملت اسلامیہ کا اجماع ہے۔
پس چونکہ ان سے مرزا قادیانی کی عمارت مسیحیت بالکل منہدم اور اس کی بیخ رسالت کھوکھلی ہو جاتی ہے اور دام بیعت کا سارا تانا بانا ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ مرزا قادیانی کا مدینہ منورہ میں پہلوئے نبی صلی اللہ وسلم میں مدفون ہونا تو درکنار اس پر دخول حرمین بھی حرام ہے اس لیے ان الزامات سے بچنے کے لیے مرزا قادیانی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر کبھی تو شام میں لکھی تو کبھی کشمیر میں کبھی گلیل میں تو کبھی بلدہ قدس میں لکھی۔
کبھی کہہ دیا کہ ممکن ہے کوئی مسیح ایسا بھی آ جائے جو مدینہ میں روضہ رسول میں بھی دفن ہو جائے۔۔۔۔ کبھی کہہ دیا کہ اس سے مراد خود رسول اللہ کا خود کے ہی روضہ میں مدفون ہونا مراد ہے وغیرہ وغیرہ۔
چونکہ مرزا قادیانی کا خروج و فتنہ مذہبی پہلو میں ہے اور اس کا دعوٰی مسلمانوں کی امامت کا ہے اس لیے اس کو خوا مخواہ قرآن و حدیث میں تصرف کر کے مسلمانوں کے سامنے کچھ نہ کچھ پیش کرنا پڑا ورنہ اس کے مسائل مخصوصہ میں اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی جو قابل اعتبار ہو کیا آپ دیکھتے نہیں کہ قرآن مجید میں صاف طور پر حضرت عیسٰی علیہ السلام کے مصلوب نہ ہونے کا ذکر موجود ہے اور پھر اس نے اپنے مطلب کو سیدھا کرنے کے لیے عیسائیوں کی کتابوں کی پیروی کی اور قرآن مجید کی آیات کے معنی بدلنے کی مذموم کوشش کی اور جو معنی بیان کیے وہ نہ تو کسی لغت میں پائے جاتے ہیں اور ہی سلف و خلف میں سے کسی سے منقول ہیں۔
اسی طرح اس آیت اوینھما الی ربوۃ کو اس نے محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیے لیے پیش کیا ہے اور اس سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر کا کشمیر میں ہونا بتایا ہے حالانکہ اس میں نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی موت کا ذکر ہے نہ قبر کا اور نہ ہی ملک کشمیر کا۔
علاوہ بریں یہ کہ اس آیت میں صرف حضرت عیسٰی علیہ السلام ہی کا ذکر نہیں بلکہ آپ کی والدہ حضرت مریم کا بھی ساتھ ہی ذکر ہے اور صیغہ تثنیہ کے یہی معنی ہیں کہ ایک کے ساتھ دوسرا بھی اسی حکم میں شامل ہے پس اگر حضرت عیسٰی معاذاللہ مصلوب ہو کر کشمیر بھاگ آئے تو حضرت مریم بھی ساتھ ہوں گی اور ان کی قبر بھی کشمیر میں ہی ہونی چاہیے کیونکہ آیت میں دونوں کا ذکر ہے۔ لیکن بیان بالا سے معلوم ہو چکا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر مدینہ طیبہ میں حضور نبی کریم تاجدار ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پاک میں ہو گی اور حضرت مریم کی قبر تو بیت المقدس میں ہے جہاں وہ بعد رفع عیسوی فوت ہوئی اور دفن کی گئیں۔ پس مرزا قادیانی کا قول سراسر باطل ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
آپ نے جتنے بھی حوالہ جات دئیے ہیں کوشش کریں ہر کتاب کا اصل سکین بھی لگائیں اور کم از کم اصل کتب کا مطبوعہ ،صفحہ ، جلد نمبر وغیرہ لازمی لکھیں تا کہ تلاش کرنے میں آسانی رہے ۔ مجھے زاتی طور پر کوئی حوالہ جات نہیں مل پا رہے
 
Top