قیامت کے دل حضور صلی اللہ علیہ کا بھی یہی الفاظ استعمال کرنا
اعتراض
قادیانی حضرات کہتے ہیں بخاری میں حدیث ہے قیامت کے روز جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ فرمائیں گے یہ میرے ساتھی ہیں تو جواب دیا جائے گا آپ صلی اللہ علیہ نہیں جانتے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شریعت کو اضافہ کر دیا تھا اس پر آپ علیہ السلام فرمائیں گے
وَ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ
اس سے ثابت ہوا توفی کا معنی موت ہے ، جب ثابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے معنی موت ہے تو مسیح علیہ السلام کے لیے کیوں نہیں ؟
مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ، ثُمَّ قَالَ : كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ، ثُمَّ قَالَ : أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ ، أَلَا وَإِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي ، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ أُصحَابِي ، فَيُقَالُ : إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ، فَأَقُولُ : كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سورة المائدة آية 117 ، فَيُقَالُ : إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ .( صحیح البخاری رقم : 4625)
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا : اے لوگو ! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے ، ننگے پاؤں ، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ” جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتدا کی تھی ، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے ، ہمارے ذمہ وعدہ ہے ، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے ۔“ آخر آیت تک ۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا ۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا ۔ میں عرض کروں گا ، میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں ؟ مجھ سے کہا جائے گا ، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں ۔ اس وقت بھی اسی کی مثل کہوں گا جو عبد صالح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا کہ ” میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا ، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا ( جب سے ) تو ہی ان پر نگران ہے ۔“ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے ۔
جواب
سب سے پہلے ایک اصول ملاحظہ فرمائیں
ایک ہی لفظ جب دو مختلف افراد کے لیے بولا جاتا ہے تو لفظ کے معنی دونوں افراد کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔
اس اصول پر اب دلائل ملاحظہ فرمائیں
تَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِیۡ وَ لَاۤ اَعۡلَمُ مَا فِیۡ نَفۡسِکَ ؕ ( المائدہ:116)
تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں ۔
دیکھیں آیت مبارکہ میں مسیح علیہ السلام نے اپنے لیے بھی نفس لفظ کا استعمال کیا ہے اور اللہ رب العزت کے لیے بھی اسی لفظ کا استعمال کیا ہے اور یہ اتفاقی امر ہے کہ دونوں کے اعتبار سے ایک ہی لفظ نفس کے معنی الگ الگ ہیں ،
اسی طرح مرزا قادیانی نے توفی کا لفظ جب مسیح علیہ السلام کے لیے آیا تو معنی ”موت سے وفات دینا“ کیے ہیں ۔( تریَاق القلوُب، خزائن جلد 15 صفحہ 452)
اور اپنے لیے توفی کے معنی ”پوری نعمت دوں گا“ کیے ہیں ۔(براہین احمدیہ ص۵۵۶،۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰،۶۶۴)
دیکھیں مرزا قادیانی نے اپنی اور مسیح علیہ السلام کی توفی کو الگ الگ مانا ہے ۔ دونوں کے معنی الگ الگ کیے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ نے فرمایا
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح :29)
محمد ( صلی۔اللہ۔علیہ۔وآلہ۔وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں ، ( اور ) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں ۔
جبکہ مرزا قادیانی کہتا ہے اللہ نے مجھے بھی کہا
’’محمد رسول اﷲ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم
اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام محمد رکھا اور رسول بھی۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۳، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
اب قادیانی بتائیں کہ کیا رسول کا معنی مرزا قادیانی کے حق میں بھی وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں رسول کا لفظ بولا گیا جس کا معنی ہے صاحب شریعت ، کامل ، افضل الانبیاء ، خاتم النبیین، رسول کیا مرزا قادیانی کے حق میں جو بقول مرزا لفظ رسول آیا ہے اس کا بھی یہی معنی ہے ؟ واضح بات ہے قادیانی انکار ہی کریں گے تو ثابت ہوا ایک ہی لفظ جب دو اشخاص کے لیے آتا ہے تو دونوں کے لحاظ سے معنی الگ الگ ہو سکتا ہے ۔
دلیل سے ثابت ہوا کہ ایک ہی لفظ کے معنی دو مختلف افراد کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔
جب یہ بات ثابت ہو گئی تو قادیانی حضرات کا اعتراض کہ ”توفی کے جو معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہو وہی مسیح علیہ السلام کے لیے کرو“ جاتا رہا۔
دوسی بات حدیث میں لفظ ”
کما
“ آیا ہے یعنی ”میں اس کے مثل کہوں گا جو عبد الصالح نے کہا“ یہ ”
کما
“ لفظ بتا رہا ہے کہ مسیح علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول میں فرق ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانا چاہتے کہ ”میں وہی کہاوں گا جو مسیح علیہ السلام نے کہا “ تو آپ ”
كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ
“ کی جگہ ”
ما قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ
“ فرماتے۔
کما تشبیہ کے لیے آتا ہے اور یہ اصول ہے مشبہ اور مشبہ بہ میں مغایرت ضروری ہے ، اس اصول پر حوالہ ملاحظہ فرمائیں
”مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے“ (تحفہ گولڑویہ ، خزائن جلد 17 صفحہ 193)
اسی اصول پر ایک مثال سمجھ
”عمر میرے بھائی کی طرح ہے“ اس جملے میں تشبیہ ہے ، اور تشبیہ چاہتی ہے کہ ”عمر“ اور ”بھائی“ میں فرق ہو۔ عمر میرا بھائی نہیں ہے اس تشبیہ سے یہ ثابت ہوا ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”میں بھی اس کے مثل کہوں گا جو مسیح علیہ السلام نے کہا“ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور جو کہیں گے وہ وہ نہیں ہوگا جو مسیح علیہ السلام نے کہا ہو گا، یعنی دونوں توفی میں فرق ضرور ہوگا۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ نبی علیہ السلام نے اپنے قول اور مسیح علیہ السلام کے قول میں تشبیہ بیان کی ہے اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ تشبیہ میں مغایرت ہوتی ہے تو مسیح علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا الگ ہونا واضح ہو گیا۔
اس لیے ثابت ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور مسیح علیہ السلام کی توفی دونوں میں فرق ہونا ضروری ہے ۔ دونوں توفی میں فرق یہ ہے
مسیح علیہ السلام کی توفی بالرفع السماء ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی بالموت ہے۔
اب قادیانی حضرات یہ سوال کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں توفی کا معنی موت کو توفی کا مجازی معنی ہے کس قرینے سے لیا جا رہا ہے ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے اور آپ کہیں گے یہ میرے ساتھی ہیں جواب آئے گا ”إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ“ آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد آپ کی شریعت میں اضافے کر دے تھے۔ یہ اضافے کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امت میں آئے ہیں ، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی کا معنی موت لیا جائے ، جبکہ مسیح علیہ السلام کے حق میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
ایک لفظ جب دو مختلف اشخاص کے لیے بولے جائیں گے تو معنی مختلف ہو سکتا ہے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور ہے مسیح علیہ السلام کی توفی اور ہے۔
حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور مسیح علیہ السلام کے قول میں تشبیہ بیان کی اور تشبیہ کے لیے ضروری ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ میں فرق ہو ، اس سے ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام کی توفی رسول اللہ کی توفی میں فرق ہے ۔
مسیح علیہ السلام کے توفی بالرفع السماء ہوئی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی بالموت ہوئی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی کے مجازی معنوں موت لینے کا قرینہ موجود ہے مگر مسیح علیہ السلام کی توفی کا معنی موت لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں ۔