ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
ختم نبوت فورم پر
مہمان
کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 21
مرزا قادیانی اور اُس کے بیٹوں کی تحریروں کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں کہ وہ دنیا کے 2 ارب مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں: مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ :
خداتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ (تذکرہ ص519 طبع چہارم)
جو میرے مخالف تھے اُن کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا ہے (خزائن ج18ص382)
ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا ہے کہ یہ خدا کافرستادہ، خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جوکچھ کہتاہے اس پر ایمان لاؤ اور اسکا دشمن جہنمی ہے۔ (خزائن ج11ص62)
قادیانی ذریت بھی اسی نقش قدم پر چلی ہے۔ مرزاقادیانی کا لڑکا مرزا محمود لکھتاہے کہ :
ہمارا فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں۔ (انوا خلافت ص90)
اس عبارت کا حاصل یہ ہوا کہ جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ فرض ہے اورفرضیت کا انکار کفر ہے ایسے ہی مرزائیوں کے نزدیک تمام مسلمانوں کو کافر سمجھنا فرض ہے اور اس فرضیت (اہل اسلام کے کفر) کا انکار کرنابھی کفر ہے۔ مزید لکھتاہے :
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انھوں نے نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
مرزاقادیانی کا دوسرا لڑکا مرزا بشیر احمد ایم اے مسئلہ کفر و اسلام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ :
ہر وہ شخص جو موسیٰ کا مانتاہے لیکن عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتاہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مانتاہے لیکن مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کا فر بلکہ پکا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ (کلمۃ الفضل ص105)
مرزا بشیر قادیانی کی اس عبارت کے مطابق جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نبی کا انکار کفر ہے، ایسے ہی مرزاقادیانی کا انکار بھی کفر ہے اور یہ انکار دائرہ اسلام سے باہر پھینک دیتا ہے۔ قادیانی دھوکہ:
قادیانی ذریت پوری امت مسلمہ کو کافر سمجھتی ہے جس پر مذکورہ قادیانی عبارات شاید ہیں لیکن قادیانی بعض اوقات مخالفت سے بچنے یا پھر ذاتی مفاد کے حصول کے لیے سادہ لوح مسلمانوں کو صریح دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہیں کافر نہیں کہتے۔ حالانکہ ان مذکورہ عبارات کے علاوہ مرزائیوں کا ایک سوسالہ طرز عمل بھی یہی بتاتاہے کہ قادیانی ہمیں غیر مسلم ہی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مرزائی کتب میں مسلمانوں سے جملہ مذہبی و معاشی اور معاشرتی معاملات میں مکمل بائیکاٹ کی تعلیم ہے۔ چند تحریرات ملاحظہ فرمائیں۔ مرزا قادیانی کا لڑکا بشیر احمد ایم اے لکھتاہے کہ :
حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے غیر احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک جائز رکھاہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے ساتھ رکھا ہے۔ (کلمۃ الفضل ص169,170) مزید لکھتاہے کہ :
دوقسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی اور دوسرے دنیوی، دینی تعلق کا بھاری ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیاوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ و ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دئیے گئے۔ (کلمۃ الفضل 169,170) مرزاقادیانی کا دوسرا لڑکا مرزا محمود لکھتاہے کہ :
حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہمارا ان (مسلمانوں) سے اللہ تعالیٰ، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض ہر چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔ (الفضل 30 جولائی 1931ء) مرزاقادیانی لکھتاہے کہ:
تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب مرتد کے پیچھے نماز پڑھو۔ (تذکرہ ص318 طبع چہارم) مرزا محمود مسلمان کا جنازہ پڑھنے کے بارے میں لکھتاہے کہ :
جیسے غیر احمدی (مسلمان) کا جنازہ پڑھنا درست نہیں اسی طرح ان کے بچوں کا جنازہ پڑھنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ ایسے ہیں جیسے ہندوں کے بچوں کا جنازہ۔ (ملخصاً از انوار خلافت 93 انوار العلوم ج3ص150)
انہی مذکورہ عقائد و نظریات کیوجہ سے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان قادیانی نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، جب اس سے جنازہ نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ :
آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کاکا فر نوکر (زمیندار لاہور 8 فروری 1950 ء)
غرض قادیانی کتب میں اہل اسلام کے ساتھ صرف اسی قدر تعلقات کی اجازت ہے جتنی اسلام میں غیر مسلموں کے ساتھ، جس پر قادیانی کتابوں اور ان کا 100 سوسالہ طرز عمل گواہ ہے۔
جاری ہے
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 22
مرزا قادیانی کے لڑکے مرزا بشیر احمد ایم اے سے کسی نے پوچھا کہ تم مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہو تو کلمہ ہمارے نبی کا کیوں پڑھتے ہو؟ تمہیں مرزا قادیانی کا کلمہ پڑھنا چاہیے۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں تو کلمہ بھی عیسیٰ علیہ السلام کا پڑھتے ہیں۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہیں تو کلمہ بھی موسیٰ علیہ السلام کا پڑھتے ہیں تو مرزاقادیانی کے لڑکے مرزابشیر احمد ایم اے نے اپنی کتاب کلۃ الفصل میں اس کے دو جواب دئیے ہیں۔ مرزا بشیر احمد ایم اے کا پہلا جواب یہ ہے کہ
محمدرسول اللہ کا نام کلمہ میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبین ہیں اور آپ کے نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتے ہیں ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ہاں حضرت مسیح موعود کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہوگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسیح موعود کی بعثت سے پہلے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں صرف آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء شامل تھے مگر مسیح موعود کی بعثت کے بعد محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کیلئے یہی کلمہ ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود کی آمد نے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کردی ہے اور بس۔ (ص نمبر 12، ص نمبر 13)
یہ تو ہوا مسلمانوں اور قادیانی اور غیر مسلم اقلیت کے کلمے میں پہلا فرق جس کا حاصل یہ ہے کہ قادیانیوں کے کلمے کے مفہوم میں مرزاقادیانی بھی شامل ہے اور مسلمانوں کا کلمہ اس نئے نبی کی زیادتی سے پاک ہے۔ مرزا بشیر احمد ایم اے دوسرا جواب یہ ہے کہ:
علاوہ اس کے اگر بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی اعتراض واقع نہیں ہوتا اور ہم کو نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے ”صاروجود ی وجودہ“ یعنی میرا وجود محمد رسول اللہ کا وجود بن گیا ہے۔ نیز ”من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی ومارانی“ یعنی جس نے مجھ کو اور مصطفی کو الگ الگ سمجھا اس نے نہ مجھے دیکھا اور نہ پہچانا۔ اور اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبین کو مبعوث کرے گا جیساکہ آیت ”آخرین منھم“ سے ظاہر ہے پس مرزا قادیانی خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے ہمیں نئے کلمے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ اور آتا تو نئے کلمے کی ضرورت پیش آتی۔ (کلمۃ الفضل ص157)
یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمے میں دوسرا فرق ہوا کہ مسلمانوں کے کلمے شریف میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب محمد رسول اللہ کہتے ہیں تو اس سے مراد جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لیتے ہیں وہاں مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی لیتے ہیں۔ ان دونوں جوابوں سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں اور مرزائیوں کے کلمے میں کیا فرق ہے اور یہ کہ مرزائی کلمہ میں موجودمحمد رسول اللہ کا مفہوم کیا لیتے ہیں۔
جاری ہے
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 23 حضرت مہدی علیہ الرضوان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اور جس پر اہل حق کا اتفاق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنھا کی نسل سے ہوں گے اور نجیب الطرفین سید ہوں گے۔ ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہوگا۔ وہ نبی نہیں ہوں گے، نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ان کی کفار سے خوں ریز جنگیں ہوں گی، ان کے زمانے میں کانے دجال کا خروج ہوگا اور وہ لشکر دجال کے محاصرے میں گھِرجائیں گے، ٹھیک نماز فجر کے وقت دجال کو قتل کرنے کے لئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور فجر کی نماز حضرت مہدی علیہ الرضوان کی اقتدا میں پڑھیں گے، نماز کے بعد دجال کا رخ کریں گے، وہ لعین بھاگ کھڑا ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا تعاقب کریں گے اور اسے “بابِ لُدّ” پر قتل کردیں گے، دجال کا لشکر تہ تیغ ہوگا اور یہودیت و نصرانیت کا ایک ایک نشان مٹادیا جائے گا۔
امام مہدی کی شخصیت احادیث کی روشنی میں
• عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ مرفوعا لا تقوم الساعۃ حتٰی تملا الارض ظلما وجورا وعدوانا ثم یخرج من اھل بیتی من یملاھا قسطاوعدلا ( المستدرک ج 4 ص 557)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ زمین ظلم و جور سے بھر جائے۔ بعد ازاں میرا اہل بیت سے ایک شخص (مہدی رضی اللہ عنہ) پیدا ہو گا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ عن عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ لا تذھب الدنیا حتی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ میرے اہل بیت(اولاد) میں سے ایک شخص عرب کا بادشاہ ہو جائے جس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا (یعنی محمد)۔ ترمذی شریف وكنيتہ ابو عبد اللہ و في الشفاء للقاضي عياض رحمہ اللہ ان كنيتہ ابو لقاسم
امام مہدی كی كنيت ابو عبد اللہ ہو گی اور قاضي عياض رحمہ اللہ كی كتاب ميں ہے کہ ان كی كنيت ابوالقاسم ہو گی۔ (الشاعۃ ص 193) ولقبہ المہدی لان اللہ ھداہ للحق والجابر لانہ یجبر قلوب امۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اولانہ یجبر ای یفھر الجبارین ویقصمہم
ان کا لقب مہدی ہو گا اس لیے کہ اللہ تعالی ٰ ان کی طرف سے ان کی رہنمائی فرمائی جائے گی ۔ اسی طرح ان کا لقب“جابر“ بھی ہو گا کیونکہ وہ اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلوب پر مرہم رکھیں گےیا اس لیے کہ وہ ظالموں پر غالب آ کر ان کی شان و شوکت کو ختم کر دیں گے۔ (الشاعۃ ص 193)
•
عن ام سلمۃ رضی اللہ عنھا قالت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول المہدی من عترتی من ولد فاطمہ رضی اللہ عنھا
حضرت اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر فرماتے ہوئے سنا کہ مہدی میری نسل یعنی فاطمہ کی اولاد سے ہو گا۔ ابو داود شریف ج 2 ص 588 جاری ہے
امام مہدی علیہ الرضوان کے ظہور سے پہلے اور بعد کے حالات
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 24
ظہور مہدی علیہ الرضوان اس وقت ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور سے قبل فتنے بہت بڑھ چکے ہوں گے آپ فتنوں کو ختم کریں گے اور آپ کے زمانہ میں آپس میں محبت و الفت کا وہ رنگ ہو گا جو حضرات صحابہ کے دور میں تھا اور تمام مسلمان آپس میں بھائیوں کی طرح رہیں گے۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان کی خلافت پوری دنیا میں ہو گی اور وہ پوری دنیا کے حکمران ہوں گے جس کی مدت ۷ سال سے ۹ سال تک کے درمیان ہو گی۔ حضرت امام مہدی کی شناخت کے لیے ایک علامت یہ بھی ہوگی کہ ان سے لڑنے کے لیے ایک لشکر روانہ ہوگا اور جب وہ لشکر مکہ اور مدینہ کے درمیان پہنچے گا تو اس پورے لشکر کو زمین میں دھنسا دیا جاۓ گا۔ مقام بیدا میں لشکر کے زمین میں دھنس جانے کی روایات امام مسلم اور امام ابن ماجہ دونوں نے تخریج کی ہیں_ حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو _ (مسلم شریف حدیث نمبر ٧٢٤٠ تا ٧٢٤٤ ، ابن ماجہ)
سفیانی اور اس کے لشکر کی تفصیل یہ ہے کہ وہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ کی اولاد میں سے ایک اموی شخص ہوگا جس سے اسلام اور مسلمانوں کو سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا ، اس کے زمانے میں مسلمانوں کا بالعموم اور علما و فضلا کا بالخصوص قتل عام ہوگا لیکن یہ فتنہ زیادہ دیر تک نہیں رہے گا کیوں کہ حضرت امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہوگا جس کی علامت یہ ہوگی کہ سفیانی بیت اللہ کو منہدم کرنے کی نیت سے روانہ ہوگا لیکن جب یہ اپنے لشکر سمیت بیدا نامی جگہ جو حرمین کے درمیان ہے پہنچے گا تو پورا لشکر زمین میں دھنسا دیا جاۓ گا. اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی تحریر فرماتے ہیں: "اس لشکر کا زمین میں دھنسنا فتنہ سفیانی کی نشانی ہوگی اور سفیانی کا خروج دراصل امام مہدی کے ظہور کی علامت ہوگا اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث تواتر معنوی کے ساتھ وارد ہوئی ہیں"_ التعلیق الصبیح جلد ٦ صفحہ ٢٠٠
اور اس پورے لشکر میں سے صرف ایک شخص زندہ بچے گا جو لوگوں کو آکر لشکر کے زمین میں دھنس جانے کی خبر دے گا چنانچہ حضرت کاندھلوی ہی تحریر فرماتے ہیں: "ان لوگوں میں سے صرف ایک مخبر زندہ بچے گا"_ حوالہ بالا ۔ یہی نہیں کہ امام مہدی کے ظہور سے قبل صرف سفیانی کا خروج ہوگا بل کہ بہت سے اور لوگ بھی خروج کریں گے چناں چہ کچھ لوگ مصر سے خروج کریں گے ، کچھ مغربی جانب سے اور کچھ جزیرہ العرب سے _ گویا اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کفر پوری قوت سے مسلمانوں کے ساتھ نبرد آزما ہوگا اور چہار اطراف سے مرکز عالم اور مرکز اسلام خانہ کعبہ پر حملے کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی اور اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد امام مہدی کا ظہور ہو جاۓ گا _ حضرت امام مہدی کے زمانے میں اکثر یہودی مسلمان ہو جائیں گے جس کی وجہ یہ ہوگی کہ امام مہدی کو تابوت سکینہ مل جاۓ گا جس کے ساتھ یہودیوں کے بڑے اعتقادات وابستہ ہیں اس لیے وہ اس تابوت کو حضرت امام مہدی کے پاس دیکھ کر مسلمان ہو جائیں گے _ الاشاعہ صفحہ ١٩٩
مغرب کی طرف سے کئی جھنڈوں کا نمودار ہونا اور اس لشکر کا سردار قبیلہ کندہ کا ایک آدمی ہوگا چناں چہ نعیم بن حماد نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ، ترجمہ:
" امام مہدی کے ظہور کی علامت وہ چند جھنڈے ہیں جو مغرب کی طرف سے آئیں گے اور ان کا سردار قبیلہ کندہ کا ایک لنگڑا شخص ہوگا"_ کتاب الفتن صفحہ ٢٣٠
( حضرت امام مہدی کی تصدیق و تائید اور امت مسلمہ کی عزت و شرافت اور اس کی عنداللہ مقبولیت کی سب سے اہم دلیل وہ نماز ہوگی جو حضرت عیسی علیہ سلام حضرت امام مہدی کی اقتدا میں ادا فرمائیں گے_ بخاری شریف ٣٤٤٩ ، مسلم ٣٩٢ ۔
لیکن اس سے حضرت عیسی علیہ سلام کے منصب و نبوت پر کوئی حرف نہیں آئے گا اور یہ ایسے ہی ہوگا جیسے نبی علیہ سلام نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کی اقتدا میں نماز ادا کی_ علامہ سیوطی نے الحاوی للفتاوی میں حضرت حذیفہ رضی اللہ سے روایت کیا ہے کہ نبی علیہ سلام نے فرمایا، ترجمہ :
"اگر دنیا کی مدت ختم ہونے میں صرف ایک دن بچے گا تب بھی اللہ ایک آدمی بھیج کر رہے گا جو نام اور اخلاق میں میرے مشابہہ ہوگا اور اس کی کنیت ابو عبدللہ ہوگی"_ الحاوی جلد ٢ صفحہ ٧٦
اس سلسلے میں حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ سلام نے فرمایا ،
ترجمہ : "مشرق کی طرف سے ایک قوم سیاہ جھنڈوں کے ساتھ آئے گی اور وہ لوگ مال کا مطالبہ کریں گے ، لوگ ان کو مال نہیں دیں گے تو وہ لڑیں گے اور ان پر غالب آجائیں گے اب وہ لوگ ان کے مطالبہ کو پورا کرنا چاہیں گے تو وہ اس کو قبول نہیں کریں گے یہاں تک کہ وہ اس مال کو میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کے حوالے کر دیں گے جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جیسے لوگوں نے پہلے اسے ظلم و ستم سے بھرا ہوگا سو تم میں سے جو کوئی اس کو پاۓ تو اس کے پاس آجاۓ اگر چہ برف پر چل کے آنا پڑے"_ الاشاعہ صفحہ ٢٤٠
ظہور مہدی پر دلالت کرنے والی علامات میں سے ایک علامت وقت کا انتہائی تیز رفتاری سے گزرنا بھی ہے جس کی وجہ بظاہر بے برکتی کا پیدا ہو جانا ہوگا_ ترمذی شریف کی ایک روایت کا ترجمہ ہے _ "قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک زمانہ قریب نہ جاۓ سال مہینہ کے برابر ، مہینہ ہفتہ کے برابر ، ہفتہ دن کے برابر ، دن ایک گھنٹہ کے برابر اور ایک گھنٹہ آگ کا شعلہ سلگنے کے برابر نہ ہو جاۓ"_ اس حدیث کی شرح کرتے ہووے ملا علی قاری نے امام خطابی کا یہ قول نقل فرمایا ہے: " ایسا امام مہدی یا حضرت عیسی یا دونوں کے زمانے میں ہوگا ، میں کہتا ہوں کہ آخری قول ہی زیادہ ظاہر ہے کیوں کہ یہ معاملہ خروج دجال کے وقت پیش آئے گا اور دجال کا خروج ان دونوں بزرگوں کے زمانے میں ہوگا۔
جاری ہے
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 25
اہل کفار کے خلاف قتال اور دیگر فتنوں کے خاتمے پر حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کی خلافت قائم ہو گی۔ آپ کی خلافت کے زمانے میں امت پر نعمتوں کی اس قدر فراوانی ہو گی اور ایسی خوشحالی حاصل ہو گی کہ امت کو پہلے کبھی ایسی خوشحالی حاصل نہ ہو سکی ہو گی۔ خلافت مہدی علیہ الرضوان کی برکات کے حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری امت میں مہدی علیہ الرضوان ہوں گے جو کم از کم سات سال یا نو سال خلیفہ رہیں گے، ان کے زمانے میں میری امت ایسی نعمتوں اور فراوانیوں میں ہو گی کہ اس سے پہلے اس کی مثال بھی نہیں سنی ہو گی، زمین اپنی تمام پیداوار اگل دے گی اور کچھ بھی نہ چھوڑے گی اور اس زمانے میں مال کھلیان میں اناج کے ڈھیر کی طرح پڑا ہو گا۔
ایک روایت میں ہے:
”میری امت کے آخر میں مہدی پیدا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اس پر خوب بارش برسائیں گے اور زمین اپنی پیداوار باہر نکال دے گی اور وہ لوگوں کو مال یکساں طور پر دیں گے، ان کے زمانہ (خلافت) میں مویشیوں کی کثرت اور امت میں عظمت ہو گی“۔ (المستدرک ج۴ ص۸۵۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مہدی علیہ الرضوان زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح اس سے پہلے وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ (مجمع الزوائد ج۷ ص ۷۱۳)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اسلامی عقیدہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ وہ حضرت مریم علیھا السلام کے بطن مبارک سے محض اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت سے بن باپ پیدا ہوئے پھر بنی اسرائیل کیطرف نبی بن کر مبعوث ہوئے۔ یہود نے ان سے بغض و عداوت کا معاملہ کیا اور ان کو نبی ماننے سے انکار کر دیا۔آخر کار جب ایک موقع پر یہود نے ان کے قتل کی مذموم کوشش کی تو بحکم خداوندی فرشتے ان کو اٹھا کر زندہ سلامت آسمان پر لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو طویل عمر عطا فرما دی۔ قرب قیامت میں جب دجال کا ظہور ہو گا اور وہ دنیا میں فتنہ وفساد پھیلائے گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ قیامت کی ایک بڑی علامت کے طور پر نازل ہونگے اور دجال کو قتل کریں گے۔ دنیا میں آپ کا نزول ایک عام عادل کی حیثیت سے ہو گا اور اس امت میں آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوں گے اور قرآن و حدیث (اسلامی شریعت) پر خود بھی عمل کریں گے اور لوگوں کو بھی اس پر چلائیں گے۔ ان کے زمانہ میں (جو اس امت کا آخری دور ہو گا) اسلام کے سوا دنیا کے تمام مذاہب مٹ جائیں گے اور دنیا میں کوئی کافر نہیں رہے گا، اس لئے جہاد کا حکم موقوف ہو جائے گا، نہ خراج وصول کیا جائے گا اور نہ جزیہ، مال وزر اتنا عام ہو گا کہ کوئی دوسرے سے قبول نہیں کرے گا۔ نزول کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نکاح بھی فرمائیں گے اور ان کی اولاد بھی ہو گی پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہو جائے گی اور مسلمان آپ کی نمازہ جنازہ پڑھ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس میں دفن کر دیں گے۔ یہ تمام امور احادیث صحیحہ متواترہ میں پوری وضاحت کیساتھ بیان کئے گئے ہیں‘ جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے التصریح بما تواتر فی نزول المسیح) (علامات قیامت اور نزول مسیح از مفتی شفیع صاحبؒ)
اسلامی عقیدہ کا خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور سچے رسول تھے۔ یہود نے ان کے قتل کی ناپاک کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بجسد عنصری آسمان پر زندہ اٹھا لیا اب وہاں بقید حیات موجود ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے پھر طبعی موت وفات پا کر حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک میں مدفون ہونگے۔
جاری ہے .....
حیات و نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام قرآن و حدیث کی روشنی میں
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 26 قرآن کریم نے بہت واضح طریقہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اُٹھائے جانے کو بیان کیا ہے۔ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّہ وَاللَّہ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴿آل عمران: ٥٤﴾
اور وہ (یعنی یہود قتل عیسیٰ کے بارے میں ایک) چال چلے اور اللہ تعالیٰ نے بھی (عیسیٰ کو بچانے کے لیے) تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ خوب تدبیر کرنے والا ہے. وَقَوْلھم إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّہِ وَمَا قَتَلُوہ وَمَا صَلَبُوہ وَلَـٰكِن شُبہ لَھمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيہ لَفِي شَكٍّ مِّنہُ ۚ مَا لَہم بِہ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوہ يَقِينًا﴿١٥٧﴾بَل رَّفَعَہ اللَّہ إِلَيہ ۚ وَكَانَ اللَّہ عَزِيزًا حَكِيمًا﴿١٥٨﴾ (نساء:۱۵۷،۱۵۸)
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جو خدا کے پیغمبر (کہلاتے) تھے قتل کردیا ہے (خدا نے ان کو معلون کردیا) اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا. بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔
صحیح احادیث مبارکہ میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اُٹھائے جانے اور قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لانے کو بار ہا بیان کیا گیا ہے۔ وعن الحسن البصری قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم للیھود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ
۔ (در منثور ص ۳۶ ج۲)
ترجمہ : حسن بصری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے یہود کو فرمایا بے شک عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے او ربے شک وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹ کر آنے والے ہیں ۔ الستم تعلمون ان ربنا حی لا یموت وان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء
۔ (صحیح مسلم جلد ۱ص۸۷،طبری ص۲۸۹ج۳)
ترجمہ : کیاتم نہیں جانتے یہ کہ ہمارا پروردگار زندہ ہے ، نہیں مرے گا اور بیشک عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آنے والی ہے یا آئے گی ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہونگے تو مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا آگے تشریف لائے اور نماز پڑھائے تو وہ عرض کریں گے نہیں تم لوگ خود ایک دوسرے کے امیر ہو اور اللہ کی جانب سے یہ اس امت کا اکرام ہے۔(مسلم)
حضرت نواس بن سمعان کہتے ہیں کہ (دجال کے واقع کو بیان کرتے ہوئے) اسی دوران اللہ تعالی مسیح ابن مریم کو بھیجیں گے وہ زرد رنگ کے دو کپڑوں میں ملبوس دو فرشتوں کے بازوں کو تھامے ہوئے دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے جب وہ سر جھکائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے دکھائی پڑیں گے لد کے دروازے پر دجال کو پکڑکر قتل کریں گے۔(مسلم)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے )فرماتے ہیں کہ اس وقت اچانک حضرت عیسیٰؑ مسلمانوں کے پاس پہنچیں گے نماز کھڑی ہو رہی ہو گی ان سے کہا جائے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے ۔وہ کہیں گے تمہارا امام ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا ۔نما زسے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لئے نکلیں گے دجال حضرت عیسیٰؑ کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔پھر حضرت عیسیٰؑ آگے بڑھ کر اس کو قتل کردیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر وحجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپاہے ،چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے۔(مسند احمد)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ وقت ضرور آئے گا جب تم میں اے امت محمدیہ ابن مریم حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوکر صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اورمال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہو گا ۔
جاری ہے
حیات و نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام اکابر ینِ اُمت کی نظر میں
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 27 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع
جس عقیدے پر خدا تعالی کا عہد ہو، جس عقیدے کے تمام انبیاء کرام علیہم السلام قائل ہوں اور جس عقیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں ارشاد فرمایا ہو، ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عقیدہ اس کے خلاف نہیں ہو سکتا ، یہاں چند حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب نقل کیا جاتا ہے۔ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا سانحہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے لئے جس قدر صبر آزما تھا، اس کا اندازہ ہم لوگ نہیں کر سکتے۔ صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم میں بعض کھڑے کے کھڑے رہ گئے وہ بیٹھ نہیں سکے بعض جو بیٹھے تھے ان میں اٹھنے کی سکت نہیں تھی۔ بعض کی گویائی جواب دے گئی بعض از خود رفتہ ہو گئے ادھر منافقوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کیوں ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر اسی ربودگی و بے قراری کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا۔ من قال ان محمدا مات فقتلتہ بسیفی ھذا وانما رفع الی السماء کما رفع عیسیٰ بن مریم علیہ السلام
“ (الملل والنحل لابن حزم ص۱۲ج۱)
ترجمہ: جو شخص یہ کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں‘ اسے اپنی تلوار سے قتل کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسی طرح آسمان پر اٹھائے گئے ہیں‘ جس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھا لیے گئے۔
اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصال نبوی کو تشبیہ دی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کیساتھ اور تشبیہ اسی چیز کیساتھ دی جایا کرتی ہے جو مشہور و مسلم ہو چونکہ یہ واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے نزدیک بالاتفاق معروف و مسلم تھا۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے ان کو مشبہ‘ مشبہ بہ کے طور پر پیش کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ: امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ:
”
یقتلہ اللہ تعالیٰ بالشام علی عقبہ یقال لھا: عقبۃ افیق لثلاث ساعات یمضین من النھار علی یدی عیسی بن مریم
“
ترجمہ: اللہ تعالیٰ عیسی بن مریم علیہ السلام کے ہاتھ سے دجال کو قتل کرے گا، ملک شام میں تین گھڑی دن چڑھے، ایک گھاٹی پر، جس کو افیق کی گھاٹی کہا جاتا ہے۔“ (کنز العمال ص۴۱۶ ج۴۱ حدیث ۹۰۷۹۳)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”باب ما جاء فی قتل عیسی بن مریم الدجال“ میں حضرت مجمع بن جاریہؓ کی یہ حدیث نقل کی ہے:
”
سَمِعْتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: یقتل ابن مریم الدجال بباب لد
“
ترجمہ: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد پر قتل کریں گے۔ اس موضوع کی حدیث مزید پندرہ صحابہ سے بھی مروی ہے؛
حضرات تابعین کا حیات و نزول عیسی علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ہم حضرات تابعین رحمہ اللہ کے دور کو لیتے ہیں‘ جو حضرات صحابہ کرام اور بعد کی امت کے درمیان واسطہ ہیں اور جنہوں نے علوم نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ارشادات امت تک منتقل کئے ہیں۔ حضرات تابعین رحمہ اللہ میں ایک شخص کا بھی نام نہیں ملتا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کا منکر ہو۔ اس کے برعکس ان حضرات تابعین کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفعِ آسمانی، ان کی حیات اور قربِ قیامت میں ان کے دوبارہ تشریف لانے کا عقیدہ منقول ہے۔ یہاں چند اکابر تابعین کا حوالہ دینا کافی ہو گا۔ حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہ علیہ: امام حسن بصری رحمہ اللہ (م:۰۱۱۹ جن کی شہرہ آفاق شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ تفسیر در منثور ج۲ ص۱۴۲ میں ان کا یہ ارشاد نقل کیا ہے:
”
ان اللہ رفع الیہ عیسی وھو باعثہ قبل یوم القیامۃ مقاما یؤمن بہ البر والفاجر۔
“
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف آسمان پر اٹھا لیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ بھیجیں گے۔ تب ان پر تمام نیک و بد ایمان لائیں گے۔ (ابن کثیر ۱: ۶۶۳ در منثور ۲:۶۳، ایضا ابن کثیر ص۶۷۵ج۱) امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ : امام محمد بن سیرین بصری (م:۰۱۱ھ) فرماتے ہیں۔ ینزل ابن مریم علیہ السلام علیہ لامتہ و محصرتان بین الأذان والاقامۃ فیقولون لہ: تقدم، فیقول بل یصلی بکم امامکم انتم امراء بعضکم علی بعض
: (مصنف عبد الرزاق ص۹۹۳ج۱۱) ترجمہ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اذان و اقامت کے درمیان نازل ہوں گے، آلات جنگ اور دو زرد چادریں ان کے زیب تن ہونگی، لوگ کہیں گے کہ آگے ہو کر نماز پڑھائیے، آپ فرمائیں گے نہیں، بلکہ تمہارا امام ہی تمہیں نماز پڑھائے گا تم ایک دوسرے پر امیر ہو‘ نیز امام محمد کا یہ بھی ارشا د نقل ہے‘ أنہ المھدی الذی یصلی وراۂ عیسی(حوالہ بالا)
ترجمہ: ”سچے مہدی وہ ہونگے جن کی اقتداء میں عیسی علیہ السلام نماز پڑھیں گے۔“ امام زین العابدین رحمہ اللہ ، امام باقر رحمہ اللہ ، اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ : امام جعفر صادق (م۸۴۱) اپنے والد امام محمد باقر (م:۴۱۱ھ) سے اور وہ اپنے مالد ماجد امام علی بن حسین زین العابدین (م:۴۹ھ) رضی اللہ عنہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں:
”
کیف تھلک أمۃ أنا أولھا والمھدی وسطھا والمسیح آخرھا
“
ترجمہ: وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کے شروع میں میں ہوں، درمیان میں مہدی ہیں اور آخر میں حضرت مسیح علیہ السلام ہوں گے۔ (مشکوۃ ص۳۸۵) ائمہ اربعہ رحمہ اللہ :
حضرات تابعین رحمہ اللہ کے بعد امت اسلامیہ کے سب سے بڑے مقتدا ائمہ اربعہ، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ ہیں۔ چنانچہ بعد کی پوری امت ان کی جلالت قدر پر متفق ہے۔ یہ حضرات بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع و نزول کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ان حضرات کا صرف ایک ایک قول ذکر کرتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ : الامام الاعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی رحمہ اللہ (م۰۵۱) ”فقہ اکبر“ میں فرماتے ہیں: وخروج الدجال ویأجوج ومأ جوج وطلوع الشمس من مغربھا ونزول عیسی علیہ السلام من السماء وسائر علامات یوم القیامۃ علی ما وردت بہ الأخبار الصحیحۃ حق کائن۔ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم
“ (شرح فقہ اکبر ملا علی قاری ص۶۳۱ مطبوعہ مجتبائی ۸۴۳۱) ترجمہ: دجال اور یا جوج و ماجوج کا نکلنا اور آفتاب کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا اور عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا اور دیگر علامات قیامت، جیسا کہ احادیث صحیحہ ان میں وارد ہوئی ہیں سب حق ہیں، ضرور ہونگی۔ امام مالکؒ: امام دار الھجرۃ مالک بن انس الاصبحیؒ (م:۹۷۱ھ) العتیبہ میں فرماتے ہیں: قال مالک: بین الناس قیام یستمعون لاقامۃ الصلوۃ فتغشاھم غمامۃ فاذا عیسیٰ قد نزل: (شرح مسلم للابی ص۶۶۲ج۱) ترجمہ: دریں اثنا کہ لوگ کھڑے نماز کی اقامت سن رہے ہوں گے اتنے میں ان کو ایک بدلی ڈھانک لے گی، کیا دیکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام نازل ہو چکے ہیں“ امام احمد بن حنبلؒ: امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانیؒ (م:۱۴۲ھ) کی کتاب ’مسند‘ چھ ضخیم جلدوں میں امت کے سامنے موجود ہے، جس میں بہت سی جگہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ درج ہے۔ حوالہ کے لئے مندرجہ ذیل صفحات کی مراجعت کی جائے۔ جلد اول:۵۷۳، جلد دوم:۲۲، ۹۳، ۸۶، ۳۸، ۲۲۱، ۶۲۱، ۴۴۱، ۴۵۱، ۶۶۱، ۰۴۱، ۲۷۲، ۰۹۲، ۸۹۲، ۹۹۲، ۶۳۳، ۴۹۳، ۶۰۴، ۱۱۴، ۷۳۴، ۲۸۴، ۴۹۴، ۳۱۵، ۸۳۵،جلد سوم: ۵۴۳، ۸۶۳، ۴۸۳، ۰۲۴۔ جلد چہارم ۱۸۱، ۲۸۱، ۶۱۲، ۷۱۲، ۰۹۳، ۹۲۴۔ جلد پنجم:۳۱، ۶۱، ۸۷۲۔ جلد ششم۵۷۔ ا
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 28
•امام مہدی علیہ الرضوان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یعنی محمد ہو گا۔ جب کہ مرزا قادیانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔
•آپ کے والد کا نام حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام پر (یعنی عبداﷲ) ہو گاَ ۔ جب کہ مرزا قادیانی کے باپ کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا۔
•حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی اولاد سے (یعنی سید) ہوں گے۔ جب کہ مرزا قادیانی مغل خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔
•حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کی کنیت ابوعبداﷲ یا ابوالقاسم ہو گی۔ جب کہ مرزا قادیانی کی کوئی کنیت نہ تھی۔
•ظہور مہدی علیہ الرضوان اس وقت ہوگا جب دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ مرزائی بتائیں کہ کیا مرزا کے دعوی مہدویت کے وقت زمیں ظلم و جور سے بھر چکی تھی تو کیا تمھارے مہدی نے ظلم و جور ختم کر دیا اور پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیا ؟بلکہ مرزا کے دور کے بعد ظلم و جور کو جو ترقی ملی ہے اس کی مثال گذشتہ ۱۳ صدیوں میں نہیں ملتی۔
•حضرت مہدی علیہ الرضوان کی خلافت پوری دنیا میں ہو گی اور وہ پوری دنیا کے حکمران ہوں گے جس کی مدت ۷ سال سے ۹ سال تک کے درمیان ہو گی۔ کیا مرزا قادیانی کو ایک دن بھی حکمرانی نصیب ہوئی؟
•حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور سے قبل فتنے بہت بڑھ چکے ہوں گے آپ فتنوں کو ختم کریں گے اور آپ کے زمانہ میں آپس میں محبت و الفت کا وہ رنگ ہو گا جو حضرات صحابہ کے دور میں تھا اور تمام مسلمان آپس میں بھائیوں کی طرح رہیں گے۔ مرزائیوں کے مہدی کے زمانے میں فتنے کتنے تھے اور مرزا قادیانی کے بعد فتنے زیادہ ہوئے یا فتنوں کا خاتمہ ہو گیا؟کیا مسلمان آپس میں بھائیوں کی طرح بن گئے ہیں یا بھائیوں کے درمیان بھی عداوتیں بڑھ گئیں؟
سوچئیے۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 29
اسلامی عقیدے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کم وبیش سوالاکھ انبیاء کرام علیھم السلام دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ اسلام میں ان تمام پر ایمان اور انکی تعظیم و تکریم ضروری ہے اور کسی بھی نبی کی شان میں ادنیٰ توہین بھی انسان کو کفر کی اتھاہ گہرائیوں میں پٹخ دیتی ہے۔ لیکن مرزا قادیانی نے تمام انبیاء کرام علیھم السلام کی توہین کی اور بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ زبان استعمال کی کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آپ بھی دل تھام کر مندرجہ ذیل حوالہ جات پڑھیے۔
خدانے اس وقت میں مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح (عیسیٰ علیہ السلام) سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ (خزائن ج 22 ص152)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا۔ (خزائن ج 11 ص290)
یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا اس کا سبب تو یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شراب پیاکرتے تھے۔ (خزائن ج 11 ص291)
عیسیٰ علیہ السلام کی تین دادیاں اور نانیاں زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ (خزائن ج 11ص291)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت بن باپ اور حضرت مریم علیھا السلام کی پاک دامنی کا انکار:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جلیل القدر صاحب شریعت پیغمبر ہیں۔ جیسے آپ کی نبوت کی زندگی معجزات سے پُر ہے ایسے ہی آپ کی ولادت بھی معجزہ ہے۔ کیونکہ آپ بن باپ پیدا ہوئے جس کا تفصیلی ذکر سورۃ مریم میں ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی نے نا صرف آپ کی ولادت بن باپ کا انکار کیا ہے بلکہ آپ کی ولادت کا بڑے گستاخانہ طریقہ سے استہزاء کیا ہے اور ایسے ہی آپ کی والدہ ماجدہ جناب مریم صدیقہ مطہرہ علیھا السلام کی پاکدامنی کا انکار کرتے ہوئے یہودیوں کے بھی کان کترے ہیں۔
قادیانی عقیدے کے مطابق حضرت مریم علیھاالسلام کے یوسف نجار نامی شخص سے تعلقات تھے۔ جس کے نتیجے میں حضرت مریم علیھا السلام کو عیسیٰ علیہ السلام کا حمل ہوا۔ پھر بدنامی سے بچنے کے لیے حضرت مریم کا یوسف نجار سے نکاح کروادیاگیا۔ مرزاقادیانی، حضرت مریم کا یوسف نجار کے ساتھ قبل نکاح پھرنے کے متعلق لکھتاہے کہ حضرت مریم کا اپنے منسوب یوسف نجار کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے۔ (خزائن ج 14 ص300)
جب چھ سات ماہ کا حمل نمایاں ہوگیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نجار سے نکاح کردیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ بعد مریم کا بیٹا ہوا وہی عیسیٰ یایسوع کے نام سے موسوم ہوا۔ (خزائن ج 20 ص355)
مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا، پھربزرگوں کے نہایت اصرار پر بوجہ حمل کے نکاح کرلیا۔ (خزائن ج19ص18)
اور قادیانی عقیدے کے مطابق حضرت مریم اور یوسف نجار کے نکاح سے مزید اولاد بھی پیدا ہوئی ہے مرزا قادیانی لکھتاہے کہ:
یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں، یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھیں۔ (خزائن ج19 ص18)
وہ مسیح ہرطرح عاجزہی عاجز تھا۔ مخزج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور ناپاکی کا مبرز ہے، تولدپاکر مدت تک بھوک، پیاس، درد اور بیماری کا دکھ اُٹھاتارہا۔ (خزائن ج 1 ص 441,442)
جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزارہاکیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔۔۔ تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس پیدائش سے کوئی بزرگی ان کی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قوی سے محروم ہونے پر دلالت کرتاہے۔ (خزائن ج 20 ص356)
مسیح علیہ السلام کا معجزہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا۔ (خزائن ج3ص254)
مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے، جو مسیح کی ولادت سے قبل بھی مطہر عجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار تمام محذام، مفلوج، مبروص وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے۔ (خزائن ج3ص263)
دوسری جگہ لکھتاہے کہ:
اسی تالاب نے فیصلہ دیاکہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہرہوا تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اسی تالاب کا معجزہ ہے اور آپ کے ہاتھوں میں سوائے مکروفریب کے اورکچھ نہیں تھا۔ (خزائن ج11 ص 291)
استغفرللہ.......
بشکریہ: Maah E Siraj
قسط نمبر 30 (آخری حصہ)
مرزاقادیانی نے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ہماری قادیانیوں /مرزائیوں سے درخواست ہے کہ غیر جانبدار ہو کر غور کریں کہ مرزا قادیانی کو نبی ماننے والے اور اس کو جھوٹا ماننے والے کیا دونوں مسلمان ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں کیونکہ مسلمان ہونے کے لئے تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے۔ کسی ایک نبی کا انکار بھی کفر ہے۔لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ دونوں میں صرف ایک مسلمان ہے دوسرا نہیں۔ لہٰذا اب مسلمان ہونے کا مدارِ فیصلہ اس بات پر ہوا کہ آیامرزا قادیانی نبی ہے یا نہیں؟ کیونکہ قادیانیوں میں اور ہم میں صرف یہی ایک جھگڑا ہے۔
ہماری قادیانیوں سے گذارش ہے کہ اگر وہ خود مرزا قادیانی کی کتابوں روحانی خزائن، ملفوظات اور مجموعہ اشتہارات کو غور سے اور غیر جانبدار ہو کر پڑھیں اور ان کا موازنہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور احادیث نبویہ سے کریں گے تویقینا اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ مرزا قادیانی کی باتیں تضادات، کفر، جھوٹ، مکاری، دغا بازی اور دجل و فریب سے بھری ہوئی ہیں۔ مرزا قادیانی کے کردار اور شخصیت کوپرکھیں۔اس کی اپنی کتب اور اس کے صاحبزادگان کی کتب اور اس کے اصحاب کی کتب کے مطالعہ سے آپ کو بہت کچھ نظر آئے گا لیکن وہ کتابیں نہیں جوجماعت احمدیہ آپ کو پڑھانا چاہتی ہے بلکہ وہ کتابیں پڑھیں جو جماعت احمدیہ غلطی سے شائع کرچکی ہے اوراب اس کو چھپائے پھر رہے ہیں مثلاً سیرت المہدی،کلمۃ الفصل وغیرہ۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ان کتابوں کو غیر جانبداری سے پڑھ کرآج تک ایک بھی شخص قادیانی نہیں ہوا ہاں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ان کتابوں کو پڑھ کر قادیانیوں کی آنکھیں کھل گیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
قادیانی بتائیں کہ آپ کو آخر کس چیز کی مجبوری ہے کہ ایک جھوٹے شخص کے پیچھے لگ کر اپنوں سے کٹ گئے ہو۔ اللہ پاک کو راضی کرنے کی بجائے جماعت احمدیہ کے عہدیداروں اور ایک خاندان کی رضا اور خواہش کو ماننے پر مجبور ہو۔ اس خاندان نے خدا کے نام پر تمہارا ایمان، خاندان، اولاد، عزت و آبرو، وقت، مال، جائیداد غرضیکہ ہر چیز پر قبضہ کر کے تمہیں مزارعوں کی حیثیت دی ہے۔ تم سے زکوٰۃ کی بجائے ہر قسم کے ذاتی، جماعتی، سماجی اور نفسیاتی حربے استعمال کرکے بیسیوں چندے وصول کئے جاتے ہیں اور یہ خاندان خود چندوں سے مستثنیٰ ہے۔اپنے ایمان سے کہو جتنی بیعتوں کے دعوے ہر سال کئے جاتے ہیں اس کا ہزارواں حصہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا؟ جھوٹی قسموں، جھوٹی پیشنگوئیوں اور مال وزر کی خواہش والے انگریز کے اس خودکاشتہ خاندان سے اپنی جان چھڑاؤ اور اپنی اور اپنے خاندان کی عاقبت خراب ہونے سے بچاؤ۔
ہماری قادیانیوں سے اپیل ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے لیکن اصل اور ہمیشہ کی زندگی آخرت کی ہے۔ اس کی فکر کرتے ہوئے مرزا قادیانی کے عقائد سے بریت کا اعلان کرتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلی غلامی میں آجائیں۔ اللہ تعالیٰ آپکو مصنوعی عزت کے بدلے اصل عزت سے نوازے گا کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔آپ کے خوف کو امن اور آزادی میں بدل دے گا اور روز قیامت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آپ کا حشرہوگا۔ اگر کوئی شبہات باقی ہیں تو انہیں دور کرنے کیلئے ہمارے ساتھ رابطہ فرمائیں تاکہ آپ کے ذہن کو مطمئن کیا جائے۔ اللہ پاک آپ کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔