صاحب لسان العرب علامہ ابن منظور رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے ،
"ختام القوم اور خاتم ( تاء کے نیچے زیر کے ساتھ ) اور خاتم ( تاء پر زبر کے ساتھ ) ان سب کا معنی ہے قوم کا آخری آدمی ۔ اور آگے لکھا " اور قرآن کریم میں جو خاتم النبیین کے الفاط آئے ہیں ان کا مطلب ہے آخری نبی ۔"
سید مرتضیٰ حسن الزبیدی رحمتہ اللہ علیہ آپنی شہرہ آفاق " تاج العروس " میں لکھتے ہیں
"خاتم قوم کے آخری فرد کو کہا جاتا ہے ( اس کا وہی معنی ہے ) جو خاتم ( حرف ت کے نیچے زیر ) کا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے " خاتم النبیین " یعنی آخری نبی ۔"
علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری رحمتہ اللہ علیہ نے الصحاح میں لکھا ہے ،
" خاتم اور خاتم ( تاء کے زبر کے ساتھ ھو یا زیر کے ساتھ ) اور ختام اور خاتام ان سب کا ایک ہی معی ہے ، اور آگے لکا ہے " اور کسی چیز کا خاتمہ اس کے آخر کو کہتے ہیں ( اسی سے ہے ) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے خاتم یعنی آخری ہیں ۔"
علامہ ابو البقاء ایوب بن موسی الکفوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الکلیات میں لکھتے ہیں
" اور ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین اس لئے رکھا گیا کیونکہ خاتم قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں ( اور آپ انبیاء کے آخری ہیں ) ۔"
شیخ محمد طاہر پٹنی ٌ مجمع بحار الاانوار میں لکھتے ہیں
" " خاتم ( تاء کے زبر کے ساتھ ھو یا زیر کے ساتھ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، اگر تاء پر زبر کے ساتھ ھو تو یہ اسم ہے جس کا معنی ہے آخری نبی ، اور اگر تاء کے نیچے زیر پڑھیں تو پھر اسم فاعل ھوگا (یعنی ختم کرنے والا ) ۔"
امام راغب اصفہانی ٌ لکھتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت کو ختم کر دیا یعنی آپ کی تشریف آوری سے نبوت مکمل ھوگئی ۔
مشہور امام نحو ابو اسحاق ابراہیم بن سری ٌ جو کہ " زجاج " کے نام سے جانے جاتے ہیں لکھتے ہیں
خاتم النبیین کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے ، خاتم ( تاء کے نیچے زیر کے ساتھ ) اور خاتم ( تاء پر زبر کے ساتھ ) جس نے تاء کے نیچے زیر پڑھی ہے اس کا معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کا خاتمہ کر دیا ، اور جس نے تاء پر زبر پڑھی ہے یعنی خاتم النبیین تو اس کا معنی ہے آخری نبی جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔
"ختام القوم اور خاتم ( تاء کے نیچے زیر کے ساتھ ) اور خاتم ( تاء پر زبر کے ساتھ ) ان سب کا معنی ہے قوم کا آخری آدمی ۔ اور آگے لکھا " اور قرآن کریم میں جو خاتم النبیین کے الفاط آئے ہیں ان کا مطلب ہے آخری نبی ۔"
سید مرتضیٰ حسن الزبیدی رحمتہ اللہ علیہ آپنی شہرہ آفاق " تاج العروس " میں لکھتے ہیں
"خاتم قوم کے آخری فرد کو کہا جاتا ہے ( اس کا وہی معنی ہے ) جو خاتم ( حرف ت کے نیچے زیر ) کا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے " خاتم النبیین " یعنی آخری نبی ۔"
علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری رحمتہ اللہ علیہ نے الصحاح میں لکھا ہے ،
" خاتم اور خاتم ( تاء کے زبر کے ساتھ ھو یا زیر کے ساتھ ) اور ختام اور خاتام ان سب کا ایک ہی معی ہے ، اور آگے لکا ہے " اور کسی چیز کا خاتمہ اس کے آخر کو کہتے ہیں ( اسی سے ہے ) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے خاتم یعنی آخری ہیں ۔"
علامہ ابو البقاء ایوب بن موسی الکفوی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الکلیات میں لکھتے ہیں
" اور ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم النبیین اس لئے رکھا گیا کیونکہ خاتم قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں ( اور آپ انبیاء کے آخری ہیں ) ۔"
شیخ محمد طاہر پٹنی ٌ مجمع بحار الاانوار میں لکھتے ہیں
" " خاتم ( تاء کے زبر کے ساتھ ھو یا زیر کے ساتھ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے ، اگر تاء پر زبر کے ساتھ ھو تو یہ اسم ہے جس کا معنی ہے آخری نبی ، اور اگر تاء کے نیچے زیر پڑھیں تو پھر اسم فاعل ھوگا (یعنی ختم کرنے والا ) ۔"
امام راغب اصفہانی ٌ لکھتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت کو ختم کر دیا یعنی آپ کی تشریف آوری سے نبوت مکمل ھوگئی ۔
مشہور امام نحو ابو اسحاق ابراہیم بن سری ٌ جو کہ " زجاج " کے نام سے جانے جاتے ہیں لکھتے ہیں
خاتم النبیین کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے ، خاتم ( تاء کے نیچے زیر کے ساتھ ) اور خاتم ( تاء پر زبر کے ساتھ ) جس نے تاء کے نیچے زیر پڑھی ہے اس کا معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کا خاتمہ کر دیا ، اور جس نے تاء پر زبر پڑھی ہے یعنی خاتم النبیین تو اس کا معنی ہے آخری نبی جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔