الْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنکُمْ واتممت عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۔
1.یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لیے کامل کردیا اور اپنی (نبوت کی) نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کرلیا۔ حاصل مطلب کہ قرآن کریم جس قدر نازل ہونا تھا ہوچکا اور مستعد دلوں میں نہایت حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کردیا۔''(روحانی ص344 تا 349، ج9)
2۔ قرآن شریف جیسا کہ آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اور آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرچکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔(روحانی ص174، ج13 )
3۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم اپنی نعمت پوری کی اور اس آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ آج میں نے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے دین کو کامل کردیا۔ اس میں حکمت یہ ہے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہوگئی جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی۔ (حاشیہ نور القرآن نمبر1، ص19) (روحانی ص352، ج9)
4۔ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا مانتے ہیں۔ گو کلام الٰہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد جن کی اصلاح کے لیے کلام الٰہی نازل ہوئی ہے ( یا رسول آتے ہیں۔ ناقل) وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں اس لیے کلام الٰہی بھی اسی قدر نازل ہوئی جس قدر نبی آدم کو ضرورت تھی اور قرآن ایسے زمانے میں آیا کہ جس میں ہر طرح کی ضرورتیں جن کا پیش آنا ممکن تھا پیش آگئی تھیں۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس انہی معنوں میں شریعت فرقانی مختم و مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں۔ اب قرآن اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں خلل سے بھی محفوظ رہتیں تاہم بوجہ ناقص ہونے کے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی قرآن ظہور ہوتا مگر قرآن کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ بعد کوئی کتاب آوے کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر فرض کیا جائے کہ اصول قرآن دید اور انجیل کی طرح مشرکانہ بنائے جائیں گے یا مسلمان شرک اختیار کرلیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہے مگر یہ دونوں قسم کے فرض محال ہیں۔ قرآن شریف کا محرف ہونا اس لیے محال ہے کہ خدا نے خود فرمایا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ یعنی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور مسلمانوں کا شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتنعات سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں بھی پیشگوئی کرکے فرما دیا وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ یعنی شرک مخلوق پرستی نہ اپنی کوئی شاخ نکالے گی نہ پہلی حالت پر عود کرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔ (روحانی ص101،ج1)
مرزائی عذر:
آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْت لکم دینکم کا یہ جواب ہے کہ:
''(1) تورات بھی تمام تھی مگر اس کے بعد پھر کتاب آگئی (2) قرآن شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر بھی نعمت پوری کی گئی تھی (3) انعام صرف نبوت ہی نہیں آیت قرآن کی رو سے نبوت صدیقیت، شہادت، صالحیت سب انعام ہیں کیا یہ بھی بند ہیں؟'' (اکٹ بک ص512 تا 513 )
الجواب:
(1) تورات بیشک تمام تھی مگر اپنے وقت اور قوم کے لیے گذشتہ بنی مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ (ایضاً ص443 )
وَکَانَ النبی یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی الناسِ عَامَّۃً پہلے نبی اپنی اپنی قوم کی طرف آئے اور میں تمام دنیا کی طرف۔( اخرجہ البخاری فی الصحیح ص47،ج1 کتاب اتیمم باب نمبر1 و مسلم فی الصحیح ص199،ج1 کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ واحمد فی مسندہٖ ص304 ج3 واوردہ مرزا خدا بخش القادیانی فی عسل مصفّٰی ص226) (بخاری و مسلم مشکوٰۃ باب سید المرسلین)
(2) ہاں توریت اپنی ذات میں تمام تھی مگر کامل دین الٰہی اور اتمام نبوت اور تعلیم عالمگیر کے رو سے ناقص تھی '' اب قرآن شریف اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم آوے۔ مگر قرآن شریف کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ نہیں تو نئی شریعت اور نئے الہام کے نازل ہونے میں بھی امتناع عقلی لازم آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔''(روحانی ص101 تا 103، ج1 )
اور حضرت یوسف علیہ السلام پر جو نعمت تمام ہوئی وہ اسی طرح کا اتمام تھا کَمَا اَتَمَّھَا عَلٓی ابویک ( پ12 یوسف آیت 6) (یوسف ع1) جیسا کہ اس کے باپ دادوں پر ہوا تھا۔ یعنی وقتی اور حسب ضرورت زمانہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں۔
نبوت، صدیقیت، شہادۃ، صالحیت بلاشبہ انعام ہے اسی طرح صاحب شریعت نبی ہونا بھی انعام ہے۔ جس کی قسمت میں ابتدائے آفرینش سے قسام ازل نے ختم نبوت کا تمغہ مقسوم رکھا تھا۔ جبکہ آدم علیہ السلام منجدل فی طینتہٖ گوندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اس کے بعد بھی اس انعام کی توقع بلکہ تقدیر الٰہی کو الٹ دینے کی ناپاک کوشش کرنا کچھ اوندھی کھوپری والے انسانوں کو ہی سوجھتا ہے اَلاَ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ ۔(پ28 المجادلہ آیت 19 )
مرزائی عذر:
آیات وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ۔ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے کیا ان کے بعد بنی اسرائیل ہی کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہو کر نہیں آئے؟ (پاکٹ بک ص514)
الجواب
ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ وہ شریعت ناتمام و ناقص تھی۔ اس لیے وقتی ضروریات کے لیے انبیاء کا آنا ضرور تھا۔ اور تورات کے متعلق قرآن شریعت میں ہرگز ہرگز حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ دعویٰ موجود نہیں کہ تمام بنی اسرائیل کے لیے صرف میں ہی اکیلا رسول ہوں بخلاف اس کے قرآن مجید کامل مکمل غیر متبدل اٹل قانون اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے اکیلے رسول ہونے کے مدعی ہیں اُرْسِلتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً وَخُتِمِ بِیَ النَّبِیُّوْنَ ۔ (صحیح مسلم) میں تمام دنیا جہان کی طرف بھیجا گیا ہوں میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اَنَا رَسُوْلُ مَن ادرکتُ حَیًّا ومَنْ یُوْلَدُ بَعْدِیْ ۔(کنز العمال ص404،ج11 رقم الحدیث 31886 و طبقات ابن سعد 1۔1۔127)
'' خدا نے سب دنیا کے لیے ایک ہی نبی بھیجا۔'' (روحانی ص144،ج23 )
1.یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لیے کامل کردیا اور اپنی (نبوت کی) نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کرلیا۔ حاصل مطلب کہ قرآن کریم جس قدر نازل ہونا تھا ہوچکا اور مستعد دلوں میں نہایت حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کردیا۔''(روحانی ص344 تا 349، ج9)
2۔ قرآن شریف جیسا کہ آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ اور آیت ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرچکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔(روحانی ص174، ج13 )
3۔ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم اپنی نعمت پوری کی اور اس آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ آج میں نے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے دین کو کامل کردیا۔ اس میں حکمت یہ ہے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہوگئی جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علت غائی کمال تک پہنچ گئی۔ (حاشیہ نور القرآن نمبر1، ص19) (روحانی ص352، ج9)
4۔ ہم لوگ ختم ہونا وحی کا مانتے ہیں۔ گو کلام الٰہی اپنی ذات میں غیر محدود ہے لیکن چونکہ وہ مفاسد جن کی اصلاح کے لیے کلام الٰہی نازل ہوئی ہے ( یا رسول آتے ہیں۔ ناقل) وہ قدر محدود سے زیادہ نہیں اس لیے کلام الٰہی بھی اسی قدر نازل ہوئی جس قدر نبی آدم کو ضرورت تھی اور قرآن ایسے زمانے میں آیا کہ جس میں ہر طرح کی ضرورتیں جن کا پیش آنا ممکن تھا پیش آگئی تھیں۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس انہی معنوں میں شریعت فرقانی مختم و مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں۔ اب قرآن اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں خلل سے بھی محفوظ رہتیں تاہم بوجہ ناقص ہونے کے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی قرآن ظہور ہوتا مگر قرآن کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کہ بعد کوئی کتاب آوے کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں۔ ہاں اگر فرض کیا جائے کہ اصول قرآن دید اور انجیل کی طرح مشرکانہ بنائے جائیں گے یا مسلمان شرک اختیار کرلیں گے تو بیشک ایسی صورتوں میں دوسری شریعت اور دوسرے رسول کا آنا ضروری ہے مگر یہ دونوں قسم کے فرض محال ہیں۔ قرآن شریف کا محرف ہونا اس لیے محال ہے کہ خدا نے خود فرمایا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ یعنی اس کتاب کو ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں اور مسلمانوں کا شرک اختیار کرنا اس جہت سے ممتنعات سے ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بارے میں بھی پیشگوئی کرکے فرما دیا وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ یعنی شرک مخلوق پرستی نہ اپنی کوئی شاخ نکالے گی نہ پہلی حالت پر عود کرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔ (روحانی ص101،ج1)
مرزائی عذر:
آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْت لکم دینکم کا یہ جواب ہے کہ:
''(1) تورات بھی تمام تھی مگر اس کے بعد پھر کتاب آگئی (2) قرآن شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر بھی نعمت پوری کی گئی تھی (3) انعام صرف نبوت ہی نہیں آیت قرآن کی رو سے نبوت صدیقیت، شہادت، صالحیت سب انعام ہیں کیا یہ بھی بند ہیں؟'' (اکٹ بک ص512 تا 513 )
الجواب:
(1) تورات بیشک تمام تھی مگر اپنے وقت اور قوم کے لیے گذشتہ بنی مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ (ایضاً ص443 )
وَکَانَ النبی یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی الناسِ عَامَّۃً پہلے نبی اپنی اپنی قوم کی طرف آئے اور میں تمام دنیا کی طرف۔( اخرجہ البخاری فی الصحیح ص47،ج1 کتاب اتیمم باب نمبر1 و مسلم فی الصحیح ص199،ج1 کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ واحمد فی مسندہٖ ص304 ج3 واوردہ مرزا خدا بخش القادیانی فی عسل مصفّٰی ص226) (بخاری و مسلم مشکوٰۃ باب سید المرسلین)
(2) ہاں توریت اپنی ذات میں تمام تھی مگر کامل دین الٰہی اور اتمام نبوت اور تعلیم عالمگیر کے رو سے ناقص تھی '' اب قرآن شریف اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم آوے۔ مگر قرآن شریف کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ نہیں تو نئی شریعت اور نئے الہام کے نازل ہونے میں بھی امتناع عقلی لازم آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔''(روحانی ص101 تا 103، ج1 )
اور حضرت یوسف علیہ السلام پر جو نعمت تمام ہوئی وہ اسی طرح کا اتمام تھا کَمَا اَتَمَّھَا عَلٓی ابویک ( پ12 یوسف آیت 6) (یوسف ع1) جیسا کہ اس کے باپ دادوں پر ہوا تھا۔ یعنی وقتی اور حسب ضرورت زمانہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں۔
نبوت، صدیقیت، شہادۃ، صالحیت بلاشبہ انعام ہے اسی طرح صاحب شریعت نبی ہونا بھی انعام ہے۔ جس کی قسمت میں ابتدائے آفرینش سے قسام ازل نے ختم نبوت کا تمغہ مقسوم رکھا تھا۔ جبکہ آدم علیہ السلام منجدل فی طینتہٖ گوندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اس کے بعد بھی اس انعام کی توقع بلکہ تقدیر الٰہی کو الٹ دینے کی ناپاک کوشش کرنا کچھ اوندھی کھوپری والے انسانوں کو ہی سوجھتا ہے اَلاَ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ ۔(پ28 المجادلہ آیت 19 )
مرزائی عذر:
آیات وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ۔ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا ۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے کیا ان کے بعد بنی اسرائیل ہی کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہو کر نہیں آئے؟ (پاکٹ بک ص514)
الجواب
ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ وہ شریعت ناتمام و ناقص تھی۔ اس لیے وقتی ضروریات کے لیے انبیاء کا آنا ضرور تھا۔ اور تورات کے متعلق قرآن شریعت میں ہرگز ہرگز حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ دعویٰ موجود نہیں کہ تمام بنی اسرائیل کے لیے صرف میں ہی اکیلا رسول ہوں بخلاف اس کے قرآن مجید کامل مکمل غیر متبدل اٹل قانون اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے اکیلے رسول ہونے کے مدعی ہیں اُرْسِلتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً وَخُتِمِ بِیَ النَّبِیُّوْنَ ۔ (صحیح مسلم) میں تمام دنیا جہان کی طرف بھیجا گیا ہوں میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اَنَا رَسُوْلُ مَن ادرکتُ حَیًّا ومَنْ یُوْلَدُ بَعْدِیْ ۔(کنز العمال ص404،ج11 رقم الحدیث 31886 و طبقات ابن سعد 1۔1۔127)
'' خدا نے سب دنیا کے لیے ایک ہی نبی بھیجا۔'' (روحانی ص144،ج23 )