• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ختم نبوت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت کا معنی، مطلب اور اہمیت
ختم نبوت
سوال۱ … ختم نبوت کا معنی اور مطلب اور اس کی اہمیت، اور آپﷺ کی ذات اطہر کے ساتھ اس منصب کی خصوصیات کو واضح طور پر بیان کریں؟۔
جواب…

ختم نبوت کا معنی اور مطلب
اﷲ رب العزت نے سلسلۂ نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربیﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرتﷺ پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپﷺ آخرالانبیاء ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدئہ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔
عقیدئہ ختم نبوت کی اہمیت
ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے۔ جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں۔ اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرتﷺ بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔

  • قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ
  • رحمت عالمﷺ کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
  • آنحضرتﷺ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔
چنانچہ امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ اپنی آخری کتاب ’’خاتم النبیین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’ و اوّل اجماعے کہ دریں امت منعقد شدہ اجماع بر قتل مسیلمہ کذاب بودہ کہ بسبب دعوئ نبوت بود، شنائع دگروے صحابہؓ رابعد قتل وے معلوم شدہ، چنانکہ ابن خلدون آوردہ سپس اجماع بلا فصل قرناً بعد قرنٍ برکفر و ارتداد و قتل مدعی نبوت ماندہ و ہیچ تفصیلے از بحث نبوت تشریعیہ و غیر تشریعیہ نبودہ۔ ‘‘
ترجمہ: ’’اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا۔ وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا۔ جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا۔ اس کی دیگر گھنائونی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ جیسا کہ ابن خلدونؒ نے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد قرناً بعد قرنٍ مدعی نبوت کے کفر و ارتداد اور قتل پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے، اور نبوت تشریعیہ یا غیر تشریعیہ کی کوئی تفصیل کبھی زیر بحث نہیں آئی۔‘‘
(خاتم النبیین ص۶۷، ترجمہ ص۱۹۷)

حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تصنیف ’’مسک الختام فی ختم نبوۃ سیدالانامﷺ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:
’’امت محمدیہﷺ میں سب سے پہلا اجماع جو ہوا۔ وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔‘‘ (احتساب قادیانیت ج۲ ص۱۰)

آنحضرتﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۲۵۹ ہے۔ (رحمتہ للعالمین ج ۲ ص۲۱۳ قاضی سلمان منصور پوریؒ) اور عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی۔ اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعینؒ کی تعداد بارہ سو ہے
(جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے)
(ختم نبوت کامل ص ۳۰۴ حصہ سوم از مفتی محمد شفیعؒو مرقاۃ المفاتیح ج ۵ ص ۲۴)

رحمت عالمﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں۔ جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو:
’’حبیب بن زید … الانصاری الخزرجی … ھوالذی ارسلہ رسول اﷲﷺ الی مسیلمۃ الکذاب الحنفی صاحب الیمامہ فکان مسیلمۃ اذا قال لہ اتشھد ان محمد ا رسول اﷲ قال نعم واذا قال اتشھد انی رسول اﷲ قال انا اصم لا اسمع ففعل ذلک مرارا فقطعہ مسیلمۃ عضوا عضوا فمات شہیدا‘‘
(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج۱ص۴۲۱ طبع بیروت)
ترجمہ: ’’حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرتﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا۔ مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا ہاں۔ مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں۔ تیری یہ بات نہیں سن سکتا۔ مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا۔ حتیٰ کہ حبیبؓ بن زید کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔‘‘

اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ اب حضرات تابعینؒ میں سے ایک تابعیؒ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو:
’’حضرت ابو مسلم خولانی ؒ جن کا نام عبداﷲ بن ثوبؒ ہے اور یہ امت محمدیہ (علیٰ صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں۔ جن کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دوعالمﷺ کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے۔ لیکن سرکاردو عالمﷺ کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرتﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی ؒکو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ حضرت ابو مسلمؒ نے انکار کیا۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلمؒ نے فرمایا ہاں۔ اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابومسلمؒ کو اس آگ میں ڈال دیا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء پر ہیبت سی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو۔ ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروئوں کے ایمان میں تزلزل آجائے۔ چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی۔ یعنی مدینہ منورہ۔ چنانچہ یہ سرکاردوعالمﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے۔ لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتاب رسالتﷺ روپوش ہوچکا ہے۔ آنحضرتﷺ وصال فرماچکے تھے، اور حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ بن چکے تھے۔
انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویﷺ کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی۔ وہاں حضرت عمرؓ موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابومسلمؒ نے جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا کہ اﷲ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلمؒ نے فرمایاکہ ان کا نام عبداﷲ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی۔ انہوں نے فوراً فرمایاکہ میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانی ؒ نے جواب دیاکہ ’’جی ہاں!‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرطِ مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے۔ انہیں صدیق اکبرؓ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہﷺ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔‘‘
(حلیۃ الاولیاء ص ۱۲۹، ج۲، تہذیب ج ۶ ص ۴۵۸، تاریخ ابن عساکر ص۳۱۵، ج۷، جہاں دیدہ ص ۲۹۳ و ترجمان السنۃ ص ۳۴۱ ج ۴)

منصب ختم نبوت کا اعزاز

قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’ رب العالمین ‘‘ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرآن مجید کے لئے ’’ ذکر للعالمین ‘‘ اور بیت اﷲ شریف کے لئے ’ ’ھدی للعالمین ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس سے جہاں آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے۔ وہاں آپﷺ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپﷺ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے۔ جب آپﷺ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔

جس طرح کل کائنات کے لئے اﷲ تعالیٰ ’’رب ‘‘ ہیں۔ اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرتﷺ ’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپﷺ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرتﷺ نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
’’ ارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون ‘‘
ترجمہ: ’’میں تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘(مشکوٰۃ ص ۵۱۲ باب فضائل سید المرسلین‘ مسلم ج ۱ ص ۱۹۹ کتاب المساجد)

آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کی امت آخری امت ہے۔ آپﷺ کا قبلہ آخری قبلہ (بیت اﷲ شریف) ہے۔ آپﷺ پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپﷺ کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے پورے کردیئے۔ چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اﷲ شریف کو ھدی للعالمین کا اعزاز بھی آپﷺ کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔ آپﷺ کی امت آخری امت قرار پائی۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: ’’ انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم
(ابن ماجہ ص ۲۹۷)
حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’خصائص الکبریٰ‘‘ میں آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا۔ آپﷺ ہی کی خصوصیت قرار دیا ہے۔

(دیکھئے ج۲ ص۱۹۳،۱۹۷،۲۸۴)
اسی طرح امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:

’’وخاتم بودن آنحضرت (ﷺ) از میان انبیاء از بعض خصائص و کمالات مخصوصہ کمال ذاتی خود است‘‘
(خاتم النبیین فارسی ص ۶۰)
ترجمہ: ’’اور انبیاء میں آنحضرتﷺ کا خاتم ہونا۔ آپﷺ کے مخصوص فضائل وکمالات میں سے خود آپﷺ کا اپنا ذاتی کمال ہے۔‘‘

(خاتم النبیین اردو ص۱۸۷)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سوال ۲: ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین
سوال ۲… قال اﷲ تعالی: ’’ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ‘‘
اس آیت کی توضیح و تشریح ایسے طور سے کریں کہ مسئلہ ختم نبوت نکھرکر سامنے آجائے اور اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں سے پانچ کتابوں کے نام تحریر کریں؟۔

جواب…
آیت خاتم النبیین کی تفسیر
’’ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شئی علیما (احزاب:۴۰) ‘‘
ترجمہ: ’’محمدؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے۔ لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اﷲ سب چیزوں کو جاننے والا۔‘‘
شان نزول
اس آیت شریفہ کا شان نزول یہ ہے کہ آفتاب نبوتﷺ کے طلوع ہونے سے پہلے تمام عرب جن رسومات میں مبتلا تھے۔ ان میں سے ایک رسم یہ بھی تھی کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بیٹے کو تمام احکام واحوال میں حقیقی اور نسبی بیٹا سمجھتے تھے۔ اس کو بیٹا کہہ کر پکارتے تھے اور مرنے کے بعد شریک وراثت ہونے میں اور رشتے ناتے اور حلت و حرمت کے تمام احکام میں حقیقی بیٹا قرار دیتے تھے۔ جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے۔ اسی طرح وہ لے پالک کی بیوی سے بھی اس کے مرنے اور طلاق دینے کے بعد نکاح کو حرام سمجھتے تھے۔
یہ رسم بہت سے مفاسد پر مشتمل تھی۔ اختلاط نسب، غیر وارث شرعی کو اپنی طرف سے وارث بنانا۔ ایک شرعی حلال کو اپنی طرف سے حرام قرار دینا وغیرہ وغیرہ۔
اسلام جو کہ دنیا میں اسی لئے آیا ہے کہ کفر و ضلالت کی بے ہودہ رسوم سے عالم کو پاک کردے۔ اس کا فرض تھا کہ وہ اس رسم کے استیصال (جڑ سے اکھاڑنے) کی فکر کرتا۔ چنانچہ اس نے اس کے لئے دو طریق اختیار کئے۔ ایک قولی اور دوسرا عملی۔ ایک طرف تو یہ اعلان فرمادیا:
’’ و ما جعل ادعیاء کم ابناء کم ذلکم قولکم بافواھکم و اﷲ یقول الحق و ھو یھدی السبیل ادعوھم لاباء ھم ھو اقسط عند اﷲ(احزاب:۴،۵) ‘‘
ترجمہ: ’’اور نہیں کیا تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے۔ یہ تمہاری بات ہے اپنے منہ کی اور اﷲ کہتا ہے ٹھیک بات اور وہی سمجھاتا ہے راہ۔ پکارولے پالکوں کو ان کے باپ کی طرف نسبت کرکے۔ یہی پورا انصاف ہے اﷲ کے یہاں۔‘‘
اصل مدعا تو یہ تھا کہ شرکت نسب اور شرکت وراثت اور احکام حلت و حرمت وغیرہ میں اس کو بیٹا نہ سمجھا جائے۔ لیکن اس خیال کو بالکل باطل کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ متبنیٰ یعنی لے پالک بنانے کی رسم ہی توڑ دی جائے۔ چنانچہ اس آیت میں ارشاد ہوگیا کہ لے پالک کو اس کے باپ کے نام سے پکارو۔ نزول وحی سے پہلے آنحضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو (جو کہ آپﷺ کے غلام تھے) آزاد فرماکر متبنیٰ (لے پالک بیٹا) بنالیا تھا اور تمام لوگ یہاں تک کہ صحابہ کرامؓ بھی عرب کی قدیم رسم کے مطابق ان کو ’’زید بن محمدؐ ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ اس وقت سے ہم نے اس طریق کو چھوڑ کر ان کو ’’زید بن حارثہ ؓ‘‘ کہنا شروع کیا۔ صحابہ کرامؓ اس آیت کے نازل ہوتے ہی اس رسم قدیم کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ لیکن چونکہ کسی رائج شدہ رسم کے خلاف کرنے میں اعزہ و اقارب اور اپنی قوم و قبیلہ کے ہزاروں طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ جس کا تحمل ہر شخص کو دشوار ہے۔ اس لئے خداوند عالم نے چاہا کہ اس عقیدہ کو اپنے رسول ہی کے ہاتھوں عملاً توڑا جائے۔ چنانچہ جب حضرت زیدؓ نے اپنی بی بی زینبؓ کو باہمی ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے دی تو خداوند عالم نے اپنے رسولﷺ کا نکاح ان سے کردیا۔ زوجنکھا۔تاکہ اس رسم و عقیدہ کا کلیتاً استیصال ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
’’ فلما قضیٰ زید منھا وطراً زوجنکھا لکی لا یکون علی المؤمنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم … (احزاب :۳۷) ‘‘
ترجمہ: ’’پس جبکہ زیدؓ زینبؓ سے طلاق دے کر فارغ ہوگئے تو ہم نے ان کا نکاح آپﷺ سے کردیا۔ تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک کی بیبیوں کے بارے میں کوئی تنگی واقع نہ ہو۔‘‘
ادھر آپﷺ کا نکاح حضرت زینبؓ سے ہوا۔ ادھر جیسا کہ پہلے ہی خیال تھا۔ تمام کفار عرب میں شور مچاکہ لو۔ اس نبی کو دیکھو کہ اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کربیٹھے۔ ان لوگوں کے طعنوں اور اعتراضات کے جواب میں آسمان سے یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی:
’’ ماکان محمد ابا احدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب: ۴۰) ‘‘
ترجمہ: ’’محمد ؐ باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر۔‘‘
اس آیت میں یہ بتلادیا گیا کہ آنحضرتﷺ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں تو حضرت زیدؓ کے نسبی باپ بھی نہ ہوئے۔ لہٰذا آپﷺ کا ان کی سابقہ بی بی سے نکاح کرلینا بلاشبہ جائز اور مستحسن ہے، اور اس بارے میں آپﷺ کو مطعون کرنا سراسر نادانی اور حماقت ہے۔ ان کے دعوے کے رد کے لئے اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ آپﷺ حضرت زیدؓ کے باپ نہیں۔ لیکن خداوند عالم نے ان کے مطاعن کو مبالغہ کے ساتھ رد کرنے اور بے اصل ثابت کرنے کے لئے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا۔ یہی نہیں کہ آپﷺ زیدؓ کے باپ نہیں بلکہ آپﷺ تو کسی مرد کے بھی باپ نہیں۔ پس ایک ایسی ذات پر جس کا کوئی بیٹا ہی موجود نہیں۔ یہ الزام لگانا کہ اس نے اپنے بیٹے کی بی بی سے نکاح کرلیا کس قدر ظلم اور کجروی ہے۔ آپﷺ کے تمام فرزند بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کو مرد کہے جانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ آیت میں ’’ رجالکم ‘‘ کی قید اسی لئے بڑھائی گئی ہے۔ بالجملہ اس آیت کے نزول کی غرض آنحضرتﷺ سے کفار و منافقین کے اعتراضات کا جواب دینا اور آپﷺ کی برأت اور عظمت شان بیان فرمانا ہے اور یہی آیت کا شان نزول ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ (لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مہر سب نبیوں پر)
خاتم النبیین کی قرآنی تفسیر
اب سب سے پہلے قرآن مجید کی رو سے اس کا ترجمہ و تفسیر کیا جانا چاہئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ ’’ختم‘‘ کے مادہ کا قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے:

  • ’’ ختم اﷲ علی قلوبھم ‘‘(بقرہ:۷) (مہر کردی اﷲ نے ان کے دلوں پر)
  • ’’ ختم علی قلوبکم ‘‘ (انعام:۴۶) (مہر کردی تمہارے دلوں پر)
  • ’’ ختم علی سمعہ وقلبہ ‘‘ (جاثیہ:۲۳) (مہر کردی ان کے کان پر اور دل پر)
  • ’’ الیوم نختم علی افواہہم ‘‘ (یٰسین:۶۵) (آج ہم مہر لگادیں گے ان کے منہ پر)
  • ’’ فان یشاء اﷲ یختم علی قلبک ‘‘ (شوریٰ:۲۴) (سو اگر اﷲ چاہے مہر کردے تیرے دل پر)
  • ’’ رحیق مختوم ‘‘ ( مطففین:۲۵) (مہر لگی ہوئی خالص شراب)
  • ’’ ختامہ مسک ‘‘ ( مطففین:۲۶) (جس کی مہر جمتی ہے مشک پر)
ان ساتوں مقامات کے اول و آخر، سیاق و سباق کو دیکھ لیں ’’ختم‘‘ کے مادہ کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے۔ ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسے طور پر بند کرنا۔ اس کی ایسی بندش کرنا کہ باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہوسکے، اور اندر سے کوئی چیز اس سے باہر نہ نکالی جاسکے۔ وہاں پر ’’ختم‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً پہلی آیت کو دیکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کردی۔ کیا معنی؟ کہ کفر ان کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا اور باہر سے ایمان ان کے دلوں کے اندر داخل نہیں ہوسکتا۔ فرمایا: ’’ختم اﷲ علی قلوبھم‘‘ اب زیر بحث آیت خاتم النبیین کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں۔ تو اس کا معنی ہوگا کہ رحمت دوعالمa کی آمد پر حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسے طور پر بندش کردی۔ بند کردیا۔ مہر لگادی۔ اب کسی نبی کو نہ اس سلسلہ سے نکالا جاسکتا ہے اور نہ کسی نئے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جاسکتا ہے۔ فھو المقصود۔ لیکن قادیانی اس ترجمہ کو نہیں مانتے۔
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر
’’ عن ثوبانؓ قال : قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی و انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘
(ابو دائود ص ۱۲۷ ج ۲ کتاب الفتن واللفظ لہ، ترمذی ص ۴۵ ج ۲)
ترجمہ: ’’حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔‘‘
اس حدیث شریف میں آنحضرتﷺ نے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی تفسیر ’’لانبی بعدی‘‘ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔
اسی لئے حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے:
’’ و قد اخبر اﷲ تبارک و تعالیٰ فی کتابہ و رسولہﷺ فی السنۃ المتواترۃ عنہ انہ لا نبی بعدہ‘ لیعلموا ان کل من ادعیٰ ھذا المقام بعدہ فھو کذاب افاک دجال ضال مضل‘ و لو تخرق و شعبذ واتٰی بانواع السحر و الطلا سم ‘‘
(تفسیر ابن کثیرؒ ج ۳ ص ۴۹۴)
ترجمہ: ’’ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرمﷺ نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپﷺ کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا۔ وہ بہت جھوٹا۔ بہت بڑا افترا پرداز۔ بڑا ہی مکار اور فریبی۔ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا۔ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔‘‘


خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرامؓ سے

حضرات صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق کیا مؤقف تھا۔ خاتم النبیین کا ان کے نزدیک کیا ترجمہ تھا؟۔ اس کے لئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کی کتاب ’’ختم نبوت کامل ‘‘کے تیسرے حصہ کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں پر صرف دو تابعین کرامؒ کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ امام ابو جعفر ابن جریر طبریؒ اپنی عظیم الشان تفسیر میں حضرت قتادہؒ سے خاتم النبیین کی تفسیر میں روایت فرماتے ہیں:
’’ عن قتادۃ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ای آخرھم ‘‘
(ابن جریر ص ۱۶ ج ۲۲)
ترجمہ: ’’حضرت قتادہؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا۔ اور لیکن آپﷺ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔‘‘
حضرت قتادہؒ کا یہ قول شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر درمنثور میں عبدالرزاق اور عبدبن حمید اور ابن منذر اور ابن ابی حاتم سے بھی نقل کیا ہے۔
(در منثور ص ۲۰۴ ج ۵)
اس قول نے بھی صاف وہی بتلادیا جو ہم اوپر قرآن عزیز اور احادیث سے نقل کرچکے ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین ہیں۔ کیا اس میں کہیں تشریعی غیر تشریعی اور بروزی و ظلی وغیرہ کی کوئی تفصیل ہے؟ نیز حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی قرأت ہی آیت مذکور میں : ’’ ولکن نبینا خاتم النبیین ‘‘ ہے۔ جو خود اسی معنی کی طرف ہدایت کرتی ہے جو بیان کئے گئے، اور سیوطیؒ نے درمنثور میں بحوالہ عبدبن حمید حضرت حسنؒ سے نقل کیا ہے:
’’ عن الحسن فی قولہ و خاتم النبیین قال ختم اﷲ النبیین بمحمدﷺ و کان آخر من بعث ‘‘
(درمنثور ص ۲۰۴ ج ۵)
ترجمہ: ’’حضرت حسنؒ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو محمدﷺ پر ختم کردیا اور آپﷺ ان رسولوں میں سے جو اﷲ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔‘‘
کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟۔

خاتم النبیین اور اصحاب لغت

خاتم النبیین ’’ت‘‘ کی زبریازیر سے ہو۔ قرآن و حدیث کی تصریحات اور صحابہؓ وتابعینؒ کی تفاسیر اور ائمہ سلفؒ کی شہادتوں سے بھی قطع نظر کرلی جائے اور فیصلہ صرف لغت عرب پر رکھ دیا جائے۔ تب بھی لغت عرب یہ فیصلہ دیتی ہے کہ آیت مذکورہ کی پہلی قرأت پر دو معنی ہوسکتے ہیں۔ آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے۔ اور دوسری قرأت پر ایک معنی ہوسکتے ہیں۔ یعنی آخر النبیین۔ لیکن اگر حاصل معنی پر غور کیا جائے تو دونوں کا خلاصہ صرف ایک ہی نکلتا ہے اور بہ لحاظ مراد کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قرأتوں پر آیت کے معنی لغتاً یہی ہیں کہ آپﷺ سب انبیاء علیہم السلام کے آخر ہیں۔ آپﷺ کے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں تبصریح موجود ہے:
’’ و الخاتم اسم آلۃ لما یختم بہ کالطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبیین الذی ختم النبیّون بہ و مآ لہ آخرالنبیین ‘‘
(روح المعانی ص ۳۲ ج ۲۲)
ترجمہ: ’’اور خاتم بالفتح اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جائے۔ پس خاتم النبیین کے معنی یہ ہوں گے: ’’وہ شخص جس پر انبیاء ختم کئے گئے‘‘ اور اس معنی کا نتیجہ بھی یہی آخرالنبیین ہے۔‘‘
اور علامہ احمد معروف بہ ملاجیون صاحبؒ نے اپنی تفسیر احمدی میں اسی لفظ کے معنی کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’ و المآل علیٰ کل توجیہ ھو المعنی الآخر و لذلک فسر صاحب المدارک قرأۃ عاصم بالآخر و صاحب البیضاوی کل القرأتین بالآخر ‘‘
ترجمہ: ’’اور نتیجہ دونوں صورتوں (بالفتح وبالکسر) میں وہ صرف معنی آخر ہی ہیں اور اسی لئے صاحب تفسیر مدارک نے قرأت عاصم یعنی بالفتح کی تفسیر آخر کے ساتھ کی ہے اور بیضاویؒ نے دونوں قرأتوں کی یہی تفسیر کی ہے۔‘‘
روح المعانی اور تفسیر احمدی کی ان عبارتوں سے یہ بات بالکل روشن ہوگئی کہ لفظ خاتم کے دو معنی آیت میں بن سکتے ہیں۔ اور ان دونوں کا خلاصہ اور نتیجہ صرف ایک ہی ہے۔ یعنی آخرالنبیین اور اسی بناء پر بیضاویؒ نے دونوں قرأتوں کے ترجمہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ دونوں صورتوں میں آخرالنبیین تفسیر کی ہے۔ خداوند عالم ائمہ لغت کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے صرف اسی پر بس نہیں کی کہ لفظ خاتم کے معنی کو جمع کردیا۔ بلکہ تصریحاً اس آیت شریفہ کے متعلق جس سے اس وقت ہماری بحث ہے۔ صاف طور پر بتلادیا کہ تمام معانی میں سے جو لفظ خاتم میں لغتاً محتمل ہیں۔ اس آیت میں صرف یہی معنی ہوسکتے ہیں کہ آپﷺ سب انبیاء کے ختم کرنے والے اور آخری نبی ہیں۔
خدائے علیم و خبیر ہی کو معلوم ہے کہ لغت عرب پر آج تک کتنی کتابیں چھوٹی بڑی اور معتبر وغیر معتبر لکھی گئیں۔ اور کہاں کہاں اور کس کس صورت میں موجود ہیں۔ ہمیں نہ ان سب کے جمع کرنے کی ضرورت ہے اور نہ یہ کسی بشر کی طاقت ہے۔ بلکہ صرف ان چند کتابوں سے جو عرب وعجم میں مسلم الثبوت اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہدیہ ناظرین کرکے یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر کے معنی ائمہ لغت نے آیت مذکورہ میں کون سے معنی تحریر کئے ہیں۔

۱…مفردات القرآن
یہ کتاب امام راغب اصفہانیؒ کی وہ عجیب تصنیف ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ خاص قرآن کے لغات کو نہایت عجیب انداز سے بیان فرمایا ہے۔ شیخ جلال الدین سیوطیؒ نے اتقان میں فرمایا ہے کہ لغات قرآن میں اس سے بہتر کتاب آج تک تصنیف نہیں ہوئی۔ آیت مذکورہ کے متعلق اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’ وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئہ ‘‘
(مفردات راغب ص ۱۴۲)
ترجمہ: ’’آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا۔‘‘

۲… المحکم لابن السیدہ
لغت عرب کی وہ معتمد علیہ کتاب ہے۔ جس کو علامہ سیوطیؒ نے ان معتبرات میں سے شمار کیا ہے کہ جن پر قرآن کے بارے میں اعتماد کیا جاسکے۔ اس میں لکھا ہے:
’’ وخاتم کل شئی وخاتمتہ عاقبتہ وآخرہ از لسان العرب ‘‘
ترجمہ: ’’اور خاتم اور خاتمہ ہر شے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔‘‘

۳… لسان العرب
لغت کی مقبول کتاب ہے۔ عرب و عجم میں مستند مانی جاتی ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے:
’’ خاتمھم و خاتمھم : آخرھم عن اللحیانی و محمدﷺ خاتم الانبیاء علیہ و علیھم الصلوٰۃ و السلام ‘‘
(لسان العرب ص ۲۵ ج ۴ طبع بیروت)
ترجمہ: ’’خاتم القوم بالکسر اور خاتم القوم بالفتح کے معنی آخرالقوم ہیں اورانہی معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء (یعنی آخر الانبیائ)ہیں۔‘‘
اس میں بھی بوضاحت بتلایا گیا کہ بالکسر کی قرأت پڑھی جائے یا بالفتح کی صورت میں خاتم النبیین اور خاتم الانبیاء کے معنی آخر النبیین اور آخر الانبیاء ہوں گے۔ لسان العرب کی اس عبارت سے ایک قاعدہ بھی مستفاد (دال) ہوتا ہے کہ اگرچہ لفظ خاتم بالفتح اور بالکسر دونوں کے بحیثیت نفس لغت بہت سے معانی ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب قوم یا جماعت کی طرف سے اس کی اضافت کی جاتی ہے تو اس کے معنی صرف آخر اور ختم کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ غالباً اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لفظ خاتم تنہا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ قوم اور جماعت کی ضمیر کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
لغت عرب کے تتبع (تلاش کرنے) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ خاتم بالکسر یا بالفتح جب کسی قوم یا جماعت کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس کے معنی آخر ہی کے ہوتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں بھی خاتم کی اضافت جماعت ’’نبیین‘‘کی طرف ہے۔ اس لئے اس کے معنی آخرالنبیین اور نبیوں کے ختم کرنے والے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اس قاعدہ کی تائید تاج العروس شرح قاموس سے بھی ہوتی ہے۔ وہوہذا:

۴…تاج العروس
شرح قاموس للعلامۃ الزبیدی میں لحیانی سے نقل کیا ہے:
’’ ومن اسمائہ علیہ السلام الخاتم والخاتم وھوالذی ختم النبوۃ بمجیئہ ‘‘
ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کے اسماء مبارکہ میں سے خاتم بالکسراور خاتم بالفتح بھی ہے اور خاتم وہ شخص ہے جس نے اپنے تشریف لانے سے نبوت کو ختم کردیا۔ ‘‘

۵…قاموس
’’ والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنہ قولہ تعالیٰ وخاتم النبیین ای آخرھم ‘‘
ترجمہ: ’’اور خاتم بالکسر اور بالفتح، قوم میں سب سے آخر کو کہا جاتا ہے اور اسی معنی میں ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد خاتم النبیین۔ یعنی آخر النبیین۔‘‘
اس میں بھی لفظ ’’قوم‘‘ بڑھا کر قاعدہ مذکورہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز مسئلہ زیر بحث کا بھی نہایت وضاحت کے ساتھ فیصلہ کردیا ہے۔
لغت عرب کے غیر محدود دفتر میں سے یہ چند اقوال ائمہ لغت بطور ’’مشتے نمونہ از خروارے ‘‘پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے انشاء اﷲ تعالیٰ ناظرین کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ازروئے لغت عرب۔ آیت مذکورہ میں خاتم النبیین کے معنی آخرالنبیین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتے۔ اور لفظ خاتم کے معنی آیت میں آخر اور ختم کرنے والے کے علاوہ ہرگز مراد نہیں بن سکتے۔
خلاصہ
اس آیت مبارکہ میں آپﷺ کے لئے خاتم النبیین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ قرآن وسنت، صحابہ کرامؓ، تابعینؒ کی تفسیرات کی رو سے اس کا معنی آخری نبی کا ہے۔ اور اصحاب لغت کی تصنیفات نے ثابت کردیا ہے کہ خاتم کا لفظ جب جمع کی طرف مضاف ہے تو اس کا معنی سوائے آخری کے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔ چنانچہ مرزا قادیانی نے بھی خاتم کو جمع کی طرف مضاف کیا ہے۔ وہاں بھی اس کے معنی آخری کے ہی ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
’’میرے بعد میرے والدین کے گھرمیں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا، اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔ ‘‘
(تریاق القلوب ص ۱۵۷ خزائن ص ۴۷۹ ج۱۵)
ختم نبوت کے موضوع پر کتابوں کے نام
اس مقدس موضوع پر اکابرین امت نے بیسیوں کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں سے دس کتابوں کے نام یہ ہیں:

  • ’’ختم نبوت کامل‘‘ …(مؤلفہ :مفتی محمد شفیع صاحبؒ)
  • ’’مسک الختام فی ختم نبوت سید الانامﷺ مشمولہ احتساب قادیانیت جلد دوم…(مؤلفہ: مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ)
  • ’’عقیدۃ الامۃ فی معنی ختم نبوۃ‘‘ …(مؤلفہ: علامہ خالد محمود)
  • ’’ختم نبوت قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ …(مؤلفہ: مولانا سرفراز خان صفدر)
  • ’’فلسفہ ختم نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ)
  • ’’مسئلہ ختم نبوت علم و عقل کی روشنی میں‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد اسحق سندیلوی)
  • ’’ختم نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: پروفیسر یوسف سلیم چشتیؒ)
  • ’’خاتم النبیین‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ ترجمہ: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
  • ’’عالمگیر نبوت ‘‘ …(مؤلفہ: مولانا شمس الحق افغانی ؒ)
  • ’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ …(مؤلفہ: مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ ، مندرجہ تحفہ قادیانیت جلد اول)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
سوال۳: مسئلہ ختم نبوت پر دس دس آیات، احادیث

سوال۳… مسئلہ ختم نبوت جن آیات مبارکہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے۔ ان میں سے دس دس آیات مبارکہ اور احادیث نقل کرکے ان کی تشریح قلم بند کریں؟
جواب …

ختم نبوت سے متعلق آیات
سورئہ احزاب کی آیت ۴۰ آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پہلے گزر چکی ہے اسکو آپ یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں:
۱ … ’’ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (توبہ: ۳۳، صف :۹) ‘‘
ترجمہ: ’ ’اور وہ ذات وہ ہے کہ جس نے اپنے (رسول محمدﷺ) کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔ تاکہ تمام ادیان پر بلند اور غالب کرے۔‘
نوٹ: غلبہ اور بلند کرنے کی یہ صورت ہے کہ حضور ہی کی نبوت اور وحی پر مستقل طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کو فرض کیا ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوتوں اور وحیوں پر ایمان لانے کو اس کے تابع کردیا ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ آپﷺ کی بعثت سب انبیاء کرام علیہم السلام سے آخر ہو اور آپﷺ کی نبوت پر ایمان لانا سب نبیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہو۔ بالفرض اگر آپﷺ کے بعد کوئی نبی باعتبار نبوت مبعوث ہو تو اس کی نبوت پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا۔ تو اس صورت میں تمام ادیان پر غلبہ مقصود نہیں ہوسکتا۔ بلکہ حضور علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانا اور آپﷺ کی وحی پر ایمان لانا مغلوب ہوگا۔ کیونکہ آنحضرتﷺ پر اور آپ کی وحی پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اگر اس نبی اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہ ہوگی۔ کافروں میں شمار ہوگا۔ کیونکہ صاحب الزمان رسول یہی ہوگا۔ حضور علیہ السلام صاحب الزماں رسول نہ رہیں گے۔(معاذاﷲ)
۲… ’’ و اذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ و لتنصرنہ (آل عمران: ۸۱) ‘‘
ترجمہ: ’’جب اﷲ تعالیٰ نے سب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تم کو کتاب اور نبوت دوں۔ پھر تمہارے پاس ایک ’’وہ رسول‘‘ آجائے جو تمہاری کتابوں اوروحیوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا (یعنی اگر تم اس کا زمانہ پائو) تو تم سب ضرور ضرور اس رسولﷺ پر ایمان لانا اور ان کی مدد فرض سمجھنا۔‘‘
اس سے بکمال وضاحت ظاہر ہے کہ اس رسولﷺ مصدق کی بعثت سب نبیوں کے آخر میں ہوگی۔ وہ آنحضرتﷺ ہیں۔اس آیت کریمہ میں دو لفظ غور طلب ہیں۔ ایک تو ’’میثاق النبیین‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺکے بارے میں یہ عہد تمام دیگر انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا تھا۔ دوسرا ’’ثم جاء کم‘‘۔ لفظ ’’ثم‘‘ تراخی کے لئے آتا ہے۔ یعنی اس کے بعد جو بات مذکور ہے۔ وہ بعد میں ہوگی اور درمیان میں زمانی فاصلہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرتﷺ کی بعثت سب سے آخر میں اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے ہوگی۔ اس لئے آپﷺ کی آمد سے پہلے کا زمانہ۔ زمانۂ فترت کہلاتا ہے:’’ قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل (مائدہ: ۱۹) ‘‘
۳… ’’ و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً (سبا: ۲۸) ‘‘
ترجمہ: ’’ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔‘‘
۴… ’’ قل یٰایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا ( اعراف: ۱۵۸) ‘‘
ترجمہ: ’’فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں۔‘‘
نوٹ: یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثناء تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپﷺ نے فرمایا ہے:
’’ انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی ‘‘
ترجمہ: ’’میں اس کے لئے بھی اﷲ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔‘‘
(کنز العمال ج ۱۱ ص ۴۰۴ حدیث ۳۱۸۸۵، خصائص کبریٰ ص ۸۸ ج۲)
پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ قیامت تک آپﷺ ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے۔ بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اﷲ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا۔ ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔ (معاذ اﷲ)
۵… ’’ و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین(انبیائ: ۱۰۷) ‘‘
ترجمہ: ’’میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘
نوٹ: یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپa کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپﷺ کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا۔ اور اگر آنحضرتﷺ پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی۔ یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپﷺ پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں۔ آپﷺ صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اﷲ)
۶… ’’ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ( مائدہ: ۳) ‘‘
ترجمہ: ’’آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا۔ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا۔ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔‘‘
نوٹ: یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے۔ مگر آنحضرتﷺ کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے۔ اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ مبعوث ہوئے۔ آپﷺ پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپﷺ کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے۔ اسی لئے اس کے بعد ’’ واتممت علیکم نعمتی ‘‘ فرمایا۔ علیکم ۔یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا۔ لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلۂ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمرؓسے کہا تھا کہ اے امیر المومنین : ’’قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے۔‘‘ (رواہ البخاری) اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی دن زندہ رہے۔ (معارف القرآن ص ۴۱ ج ۳) اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپﷺ آخری نبی اور آپﷺ پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل۔آخری کتاب ہے۔
۷… ’’ یٰایھا الذین آمنوا اٰمنوا باﷲ و رسولہ و الکتاب الذی نزل علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل(النسائ: ۱۳۶) ‘‘
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! ایمان لائو اﷲ پر اور اس کے رسول محمدﷺ پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔‘‘
نوٹ: یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپﷺ کی وحی اور آپﷺ سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا۔ معلوم ہوا کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔
۸… ’’ و الذین یؤمنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون (بقرہ: ۴،۵) ‘‘
ترجمہ: ’’جو ایمان لاتے ہیں۔ اس وحی پر جو آپﷺ پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپﷺ سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
۹… ’’ لٰکن الراسخون فی العلم منھم والمؤمنون یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک( نسائ: ۱۶۲) ‘‘
ترجمہ: ’’لیکن ان میں سے راسخ فی العلم اور ایمان لانے والے لوگ ایمان لاتے ہیں اس وحی پر جو آپﷺ پر نازل ہوئی اور جو آپﷺ سے پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئی۔‘‘
نوٹ: یہ دونوں آیتیں ختم نبوت پر صاف طور سے اعلان کررہی ہیں۔ بلکہ قرآن شریف میں سینکڑوں جگہ اس قسم کی آیتیں ہیں۔ جن میں آنحضرتﷺ کی نبوت اور آپﷺ پر نازل شدہ وحی کے ساتھ آپﷺ سے پہلے کے نبیوں کی نبوت اور ان کی وحی پر ایمان رکھنے کے لئے حکم فرمایا گیا۔ لیکن بعد کے نبیوں کا ذکر کہیں نہیں آتا۔ ان دو آیتوں میں صرف حضور علیہ السلام کی وحی اور حضور علیہ السلام سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی وحی پر ایمان لانے کو کافی اور مدار نجات فرمایا گیا ہے۔
۱۰… ’’ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون ( حجر: ۹) ‘‘
ترجمہ: ’’تحقیق ہم نے قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘
نوٹ: خداوندعالم نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہم خود قرآن کریم کی حفاظت فرمائیں گے۔ یعنی محرفین کی تحریف سے اس کو بچائے رکھیں گے۔ قیامت تک کوئی شخص اس میں ایک حرف اور ایک نقطہ کی بھی کمی زیادتی نہیں کرسکتا۔ اور نیز اس کے احکام کو بھی قائم اور برقرار رکھیں گے۔ اس کے بعد کوئی شریعت نہیں جو اس کو منسوخ کردے۔ غرض قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا۔
تنبیہ: یہ آیتیں بطور اختصار کے ختم نبوت کے ثبوت اور تائید میں پیش کردی گئیں۔ ورنہ قرآن کریم میں سو آیتیں ختم نبوت پر واضح طور پر دلالت کرنے والی موجود ہیں۔
(مزید تفصیل کیلئے دیکھئے ’’ختم نبوت کامل‘‘ از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ)

ختم نبوت سے متعلق احادیث مبارکہ
نوٹ: یہاں پر ہم اتنا عرض کردیں کہ آئندہ پوسٹس میں ہم زیادہ تر احادیث کے الفاظ نقل کرنے پر اکتفا کریں گے۔ شارحین حدیث کے تشریحی اقوال نقل کرنے سے اجتناب کیا ہے۔ تاکہ پوسٹ کا حجم زیادہ نہ ہوجائے۔
حدیث ۱…
’’عن ابی ہریرۃ ؓ أن رسول اﷲﷺ قال مثلی و مثل الأنبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بنیانا فأحسنہ و أجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ من زوایاہ فجعل الناس یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ قال فأنا اللبنۃ و أنا خاتم النبیین‘‘
(صحیح بخاری کتاب المناقب ص ۵۰۱ ج ۱، صحیح مسلم ص ۲۴۸ ج ۲ واللفظ لہ)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا۔ مگر اس کے کسی کونے میں ا یک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟۔ آپﷺ نے فرمایا میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔‘‘
حدیث۲…
’’ عن أبی ھریرۃؓ ان رسول اﷲﷺ قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم و نصرت بالرعب و أحلت لیٰ الغنائم و جعلت لی الارض طھورا و مسجداً و أرسلت الی الخلق کافۃ و ختم بی النبیون ‘‘
(صحیح مسلم ص ۱۹۹ ج ۱، مشکوٰۃ ص ۵۱۲)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے۔(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے۔ (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے۔ (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔‘‘
اس مضمون کی ایک حدیث صحیحین میں حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ اس کے آخر میں ہے:
’’ وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ‘‘
(مشکوٰۃ ص ۵۱۲)
ترجمہ: ’’پہلے انبیاء کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔‘‘
حدیث۳…
’’ عن سعد بن ابی وقاصؓ قال قال رسول اﷲﷺ لعلیؓ انت منی بمنزلۃ ھرون من موسی الا انہ لا نبی بعدی ‘‘
(بخاری ص ۶۳۳ ج ۲)
’’ و فی روایۃ المسلم أنہ لا نبوۃ بعدی ‘‘
(صحیح مسلم ص ۲۷۸ ج ۲)
ترجمہ: ’’سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ‘‘ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: ’’میرے بعد نبوت نہیں۔‘‘
حضرت شا ہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ اپنی تصنیف ’’ازا لۃ الخفاء میں ’’ مآثر علیؓ ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں:
’’ فمن المتواتر: أنت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ‘‘
(ازالۃ الخفاء مترجم ص ۴۴۴ ج ۴)
ترجمہ: ’’متواتر احادیث میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایاکہ تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی۔‘‘
حدیث۴…
’’ عن ابی ھریرۃؓ یحدث عن النبیﷺ قال کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون ‘‘
(صحیح بخاری ص ۴۹۱ ج ۱، واللفظ لہ، صحیح مسلم ص ۱۲۶ ج۲، مسند احمد ص ۲۹۷ ج ۲)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ رسول اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ ‘‘
نوٹ: بنی اسرائیل میں غیر تشریعی انبیاء آتے تھے۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی تجدید کرتے تھے۔ مگر آنحضرتﷺ کے بعد ایسے انبیاء کی آمد بھی بند ہے۔
حدیث۵…
’’ عن ثوبانؓ قال قال رسول اﷲﷺ انہ سیکون فی أمتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم انہ نبی وأ نا خاتم النبیین لا نبی بعدی ‘‘
(ابودائود ص ۱۲۷ ج ۲ کتاب الفتن واللفظ لہ، ترمذی ص ۴۵ ج ۲)
ترجمہ: ’’حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔‘‘
حدیث۶…
’’ عن أنس بن مالکؓ قال قال رسول اﷲﷺ ان الرسالۃ و النبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی و لا نبی ‘‘
(ترمذی ص ۵۱ ج ۲ ابواب الرؤیا، مسند احمد ص ۲۶۷ ج۳)
ترجمہ: ’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے۔ پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔‘‘
حدیث۷…
’’ عن ابی ھریرۃؓ أنہ سمع رسول اﷲﷺ یقول نحن الآخرون السابقون یوم القیامۃ بید أنھم أوتوا الکتاب من قبلنا ‘‘
(صحیح بخاری ص ۱۲۰ ج ۱ واللفظ لہ، صحیح مسلم ص ۲۸۲ ج ۱)
ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ کو رسول اﷲﷺ نے فرمایاکہ ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔‘‘
حدیث۸…
’’ عن عقبۃ بن عامرؓ قال قال رسول اﷲﷺ لو کان نبی بعدی لکان عمر بن الخطابؓ ‘‘
(ترمذی ص ۲۰۹ ج ۲ ابواب المناقب)
ترجمہ: ’’حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطابؓ ہوتے۔‘‘
حدیث ۹…
’’ عن جبیر بن مطعمؓ قال سمعت النبیﷺ یقول أن لی أسمائ۰أنا محمد۰ و أنا أحمد۰ و أنا الماحی الذی یمحواﷲ بی الکفر۰ و أنا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی۰ و أنا العاقب۰ و العاقب الذی لیس بعدہ نبی ‘‘
(متفق علیہ، مشکوۃص ۵۱۵)
ترجمہ: ’’حضرت جبیربن مطعمؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں۔ میں محمد ہوں۔ میں احمد ہوں۔ میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اﷲ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
اس حدیث میں آنحضرتﷺ کے دو اسمائے گرامی آپﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
اوّل ’’الحاشر‘‘ حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اشارۃ الی انہ لیس بعدہ نبی ولا شریعۃ … فلما کان لا أمۃ بعد امتہ لأنہ لا نبی بعدہ، نسب الحشر الیہ، لأنہ یقع عقبہ ‘‘
(فتح الباری ص ۴۰۶ ج ۶)
ترجمہ: ’’یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی اور کوئی شریعت نہیں۔ سو چونکہ آپﷺ کی امت کے بعد کوئی امت نہیں اور چونکہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس لئے حشر کو آپﷺ کی طرف منسوب کردیا گیا۔ کیونکہ آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد حشر ہوگا۔‘‘
دوسرا اسم گرامی: ’’ العاقب ‘‘ جس کی تفسیر خود حدیث میں موجود ہے۔ یعنی کہ: ’’ الذی لیس بعدہ نبی ‘‘ (آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں)
حدیث۱۰…
متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
’’ بعثت أنا والساعۃ کھاتین ‘‘
(مسلم ص ۴۰۶ ج ۲)
(مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے)
ان احادیث میں آنحضرتﷺ کی بعثت کے درمیان اتصال کا ذکر کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کی تشریف آوری قرب قیامت کی علامت ہے اور اب قیامت تک آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ چنانچہ امام قرطبی ’’ تذکرہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ وأما قولہ بعثت أنا والساعۃ کھاتین فمعناہ أنا النبی الاخیر فلا یلینی نبی آخر، وانما تلینی القیامۃ کما تلی السبابۃ الوسطی ولیس بینھما اصبع أخری … ولیس بینی وبین القیامۃ نبی ‘‘
(التذکرۃ فی أحوال الموتی وأمور الآخرۃ ص ۷۱۱)
ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد اور کوئی نبی نہیں۔ میرے بعد بس قیامت ہے۔ جیسا کہ انگشت شہادت درمیانی انگلی کے متصل واقع ہے۔ دونوں کے درمیان اور کوئی انگلی نہیں۔ اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں۔‘‘
علامہ سندھیؒ حاشیہ نسائی میں لکھتے ہیں:
’’ التشبیہ فی المقارنۃ بینھما۰ أی لیس بینھما اصبع اخری کما أنہ لا نبی بینہﷺ وبین الساعۃ ‘‘
(حاشیہ علامہ سندھیؒ برنسائی ص ۲۳۴ ج۱)
ترجمہ: ’’تشبیہ دونوں کے درمیان اتصال میں ہے (یعنی دونوں کے باہم ملے ہوئے ہونے میں ہے) یعنی جس طرح ان دونوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے درمیان اور قیامت کے درمیان اور کوئی نبی نہیں۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت پر اجماع امت اور ختم نبوت پر تواتر

ختم نبوت پر اجماع امت

حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ ’’الاقتصاد‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ ان الأمۃ فھمت بالاجماع من ھذا اللفظ و من قرائن أحوالہ أنہ أفھم عدم نبی بعدہ أبدا … و أنہ لیس فیہ تأویل و لا تخصیص فمنکر ھذا لا یکون الا منکر الاجماع ‘‘
(الاقتصاد فی الاعتقاد ص ۱۲۳)
ترجمہ: ’’بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپa کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول۔ اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر اجماع کا منکر ہوگا۔‘‘
حضرت ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
’’و دعوی النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع‘‘
(شرح فقہ اکبر ص ۲۰۲)
علامہ ابن نجیم مصریؒ جن کو ابو حنیفہ ثانی کہا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اذا لم یعرف ان محمداًﷺ اخر الانبیأ فلیس بمسلم لانہ من الضروریات‘‘
(الاشباہ والنظائر مطبوعہ کراچی ج ۲ ص ۹۱)

ختم نبوت پر تواتر
حافظ ابن کثیرؒ آیت خاتم النبیین کے تحت لکھتے ہیں:
’’ وبذلک وردت الأحادیث المتواترۃ عن رسول اﷲﷺ من حدیث جماعۃ من الصحابۃ رضی اﷲ عنہم ‘‘
(تفسیر ابن کثیر ص ۴۹۳ ج۳)
ترجمہ: ’’اور ختم نبوت پر آنحضرتﷺ سے احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں۔ جن کو صحابہؓ کی ایک بڑی جماعت نے بیان فرمایا۔‘‘
اور علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:
’’ و کونہﷺ خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب و صدعت بہ السنۃ و أجمعت علیہ الأمۃ فیکفر مدعی خلافہ و یقتل ان اصر‘
(روح المعانی ص ۳۹ ج۲۲)
ترجمہ: ’’اور آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے۔ احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے۔ پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘

پس عقیدئہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع واتفاق چلا آیا ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ختم نبوت کے معنی میں قادیانی کیا تحریف کرتے ہیں؟
سوال۴… مرزائی ختم نبوت کے معنی میں کیا تحریف کرتے ہیں؟۔ قادیانی مؤقف مختصر مگر جامع طور پر تحریر فرمائیں، ساتھ ہی اس کا مختصر اور جامع جواب بھی دیں۔
جواب …

خاتم النبیین اور قادیانی جماعت
قرآن و سنت، صحابہ کرامؓ اور اصحاب لغت کی طرف سے لفظ خاتم النبیین کی وضاحت کے بعد اب قادیانی جماعت کے مؤقف کو دیکھئے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ:
’’خاتم النبیین کا معنی نبیوں کی مہر ‘‘یعنی پہلے اﷲ تعالیٰ نبوت عنایت فرماتے تھے۔ اب آپﷺ کی اتباع سے نبوت ملے گی۔ جو شخص رحمت دوعالمﷺ کی اتباع کرے گا۔ آپﷺ اس پر مہر لگادیں گے۔ تو وہ نبی بن جائے گا۔
(حقیقت الوحی ص ۹۷ حاشیہ ص ۲۸‘ خزائن ج۲۲ ص ۱۰۰، ۳۰)
ہمارے نزدیک قادیانی جماعت کا یہ مؤقف سراسر غلط، فاسد، باطل، بے دینی، تحریف دجل و افترائ، کذب و جعل سازی پر مبنی ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اس موقع پر کیا خوب چیلنج کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اگر مرزا صاحب اور ان کی امت کوئی صداقت رکھتے ہیں تو لغت عرب اور قواعد عربیت سے ثابت کریں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ’’آپﷺ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں۔‘‘ لغت عرب کے طویل و عریض دفتر میں سے زائد نہیں صرف ایک نظیر اس کی پیش کردیں یا کسی ایک لغوی اہل عربیت کے قول میں یہ معنی دکھلادیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ ساری مرزائی جماعت مع اپنے نبی اور ابن نبی کے اس کی ایک نظیر کلام عرب یا اقوال لغویین میں نہ دکھلاسکیں گے۔
خود مرزا صاحب نے جو (برکات الدعا ص ۱۴،۱۵،خزائن ص ۱۷، ۱۸ ج۶) میں تفسیر قرآن کے معیار میں سب سے پہلا نمبر قرآن مجید سے اور دوسرا احادیث نبی کریمﷺ سے اور تیسرا قوال صحابہ کرامؓ سے رکھا ہے۔ اگر یہ صرف ہاتھی کے دکھلانے کے دانت نہیں تو خدارا خاتم النبیین کی اس تفسیر کو قرآن کی کسی ایک آیت میں دکھلائیں۔ اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو احادیث نبویہؐ کے اتنے وسیع و عریض دفتر میں ہی کسی ایک حدیث میں یہ تفسیر دکھلائیں۔ پھر ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ صحیحین کی حدیث ہو یا صحاح ستہ کی۔ بلکہ کسی ضعیف سے ضعیف میں دکھلادو کہ نبی کریمﷺ نے خاتم النبیین کے یہ معنی بتلائے ہوں کہ آپﷺ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا (اور ہرگز نہ ہوسکے گا) تو کم از کم کسی صحابیؓ، کسی تابعیؒ کا قول ہی پیش کرو۔ جس میں خاتم النبیین کے یہ معنی بیان کئے ہوں۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ:
چیلنج
اے مرزائی جماعت اور اس کے مقتدر ارکان! اگر تمہارے دعویٰ میں کوئی صداقت کی بو اور قلوب میں کوئی غیرت ہے تو اپنی ایجاد کردہ تفسیر کا کوئی شاہد پیش کرو۔ اور اگر ساری جماعت مل کر قرآن کے تیس پاروں میں سے کسی ایک آیت میں۔ احادیث کے غیر محصور دفتر میں سے کوئی ایک حدیث میں اگرچہ ضعیف ہی ہو۔ صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے بے شمار آثار میں سے کسی ایک قول میں یہ دکھلادے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپﷺ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں۔ تو وہ نقد انعام وصول کرسکتے ہیں۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔ لیکن میں بحول اﷲ و قوّتہ اعلاناً کہہ سکتا ہوں کہ اگر مرزا قادیانی اور ان کی ساری امت مل کر ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔ تب بھی ان میں سے کوئی ایک چیز پیش نہ کرسکیں گے: ’’ و لوکان بعضھم لبعض ظھیرا ‘‘بلکہ اگر کوئی دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان رکھتا ہے تو قرآن عزیز کی نصوص اور احادیث نبویہﷺ کی تصریحات اور صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے صاف صاف آثار، سلف صالحینؒ اور ائمہ تفسیرؒ کے کھلے کھلے بیانات اور لغت عرب اور قواعد عربیت کا واضح فیصلہ سب کے سب اس تحریف کی تردید کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ آیت ’’خاتم النبیین ‘‘کے وہ معنی جو مرزائی فرقہ نے گھڑے ہیں باطل ہیں۔‘‘
قادیانی ترجمہ کے وجوہِ ابطال:
۱… اوّل اس لئے کہ یہ معنی محاورات عرب کے بالکل خلاف ہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ خاتم القوم اور آخرالقوم کے بھی یہی معنی ہوں کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور خاتم المہاجرین کے یہ معنی ہوں گے۔ اس کی مہر سے مہاجرین بنتے ہیں۔
۲… مرزا غلام احمد قادیانی نے خود اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص ۶۱۴، خزائن ص۴۳۱ ج۳) پر خاتم النیین کا معنی: ’’اور ختم کرنے والا نبیوں کا‘‘ کیا ہے۔
۳… مرزا غلام احمد قادیانی نے لفظ خاتم کو جمع کی طرف کئی جگہ مضاف کیا ہے۔ یہاں صرف ایک مقام کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ مرزا نے اپنی کتاب تریاق القلوب ص ۱۵۷، خزائن ص ۴۷۹ ج ۱۵ پر اپنے متعلق تحریر کیا ہے:
’’میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔ اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا۔اور میں ان کے لئے خاتم الاولادتھا۔‘‘
اگر خاتم الاولاد کا ترجمہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے ماں باپ کے ہاں آخری ’’ولد‘‘ تھا۔ مرزا کے بعد اس کے ماں باپ کے ہاں کوئی لڑکی یا لڑکا۔ صحیح یا بیمار۔ چھوٹا یا بڑا۔ کسی قسم کا کوئی پیدا نہیں ہوا تو خاتم النبیین کا بھی یہی ترجمہ ہوگا کہ رحمت دوعالمﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی، بروزی، مستقل، غیر مستقل کسی قسم کا کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔
اور اگر خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنیں گے تو خاتم الاولاد کا بھی یہی ترجمہ مرزائیوں کو کرنا ہوگا کہ مرزا کی مہر سے مرزا کے والدین کے ہاں بچے پیدا ہوں گے۔ اس صورت میں اب مرزا قادیانی مہر لگاتے جائیں گے اور مرزا قادیانی کی ماں بچے جنتی چلی جائے گی۔ ہے ہمت تو کریں مرزائی یہ ترجمہ:
الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں
۴… پھر قادیانی جماعت کا مؤقف یہ ہے کہ رحمت دوعالمﷺ سے لے کر مرزا قادیانی تک کوئی نبی نہیں بنا، خود مرزا نے لکھا ہے:
’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزرچکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا۔ اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱ ،خزائن ص ۴۰۶ ج۲۲)
اس عبارت سے یہ ثابت ہوا کہ چودہ سو سال میں صرف مرزا کو ہی نبوت ملی۔ اور پھر مرزا کے بعد قادیانیوں میں خلافت (نام نہاد) ہے۔ نبوت نہیں۔ اس لحاظ سے بقول قادیانیوں کے حضورﷺ کی مہر سے صرف مرزا ہی نبی بنا۔ تو گویا حضورﷺ ’’خاتم النبی‘‘ ہوئے۔ خاتم النبیین نہ ہوئے۔ مرزا محمود نے لکھا ہے:
’’ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا، سو وہ ظاہرہوگیا۔‘‘
(ضمیمہ نمبر ۱ حقیقت النبوۃ ص ۲۶۸)
۵… خاتم النبیین کا معنی اگر نبیوں کی مہر لیا جائے اور حضورﷺ کی مہر سے نبی بننے مراد لئے جائیں۔ تو آپﷺ آئندہ کے نبیوں کے لئے خاتم ہوئے۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تک کے لئے آپﷺ خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس اعتبار سے یہ بات قرآنی منشاء کے صاف خلاف ہے۔
۶… مرزا غلام احمد قادیانی نے رحمت دوعالمﷺ کی اتباع کی تو نبی بن گئے۔ (یہ ہے خاتم النبیین کا قادیانی معنی) یہ اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ خود مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:
’’اب میں بموجب آیت کریمہ : ’’ واما بنعمۃ ربک فحدث ‘‘ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے۔ ‘‘
(حقیقت الوحی ص ۶۷ خزائن ص۷۰ ج ۲۲)
لیجئے! خاتم النبیین کا معنی نبیوں کی مہر۔ وہ لگے گی اتباع کرنے سے۔ وہ صرف مرزا قادیانی پر لگی۔ اس لئے آپ خاتم النبی ہوئے۔ اب اس حوالہ میں مرزا نے کہہ دیا کہ جناب اتباع سے نہیں بلکہ شکم مادر میں مجھے یہ نعمت ملی۔ تو گویا خاتم النبیین کی مہر سے آج تک کوئی نبی نہیں بنا تو خاتم النبیین کا معنی نبیوں کی مہر کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
ظلی و بروزی نبوت پر ایک مفصل نوٹ تحریر فرمائیں
سوال۵… ظلی بروزی نبی کی من گھڑت قادیانی اصطلاحات پر جامع نوٹ تحریر کرتے ہوئے اس کا مسکت جواب تحریر کریں؟
جواب…

ظلّی اور بروزی
ظل، سایہ کو کہتے ہیں۔ جیسے کوئی کہے کہ مرزا قادیانی شیطان کی تصویر (ظل) تھا۔ بروز، کا معنی ہے کہ کسی شخصیت کی جگہ کوئی اور ظاہر ہوجائے۔ جیسے کوئی کہے کہ مرزا قادیانی نے شیطان کی شکل اختیار کرلی۔ اس کی جگہ ظاہر ہوگیا۔ حلول، کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی روح دوسرے میں داخل ہوگئی۔ جیسے کوئی کہے کہ مرزا قادیانی میں شیطان کی روح سرایت (حلول) کرگئی۔ تناسخ، کا معنی یہ ہے کہ ایک شخص مرجائے اور اس کی شخصیت دوسرے جنم میں دوسرے شخص کی ہوبہو شکل اختیار کرجائے۔ جیسے کوئی کہے کہ مرزا قادیانی اس زمانہ میں شیطانِ مجسم تھا۔
قادیانی جماعت کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ظلّی نبی تھا۔ یعنی آنحضرتﷺ کے اتباع کی وجہ سے وہ آنحضرتﷺ کا ظل ہوگیا۔ اس اعتبار سے اس کا یہ مطلب ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ اتحاد ہوگیا اور آپﷺ کا وجود مرزا قادیانی کا وجود ہے۔ جیسا کہ اس نے لکھا ہے:
’’صار وجودی وجودہ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص ۱۷۷، خزائن ص ۲۵۸ ج ۱۶)
’’یعنی مسیح موعود (مرزا قادیانی) نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں۔ بلکہ وہی ہے جو بروزی رنگ میں دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ تو اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اﷲ نے پھر محمد صلعم (مرزا) کو اتارا۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص ۱۰۵ مصنفہ مرزا بشیر احمد پسر مرزا قادیانی)
مرزاقادیانی کے محمد رسول اﷲ (معاذاﷲ) ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قادیانی عقیدے کے مطابق حضرت خاتم النبیین محمدﷺ کا دوبار دنیا میں آنا مقدر تھا۔ پہلی بار آپﷺ مکہ مکرمہ میں محمدﷺ کی شکل میں آئے اور دوسری بار قادیان میں مرزا غلام احمد قادیانی کی بروزی شکل میں آئے۔ یعنی مرزاکی بروزی شکل میں محمدﷺ کی روحانیت مع اپنے تمام کمالاتِ نبوت کے دوبارہ جلوہ گر ہوئی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو:
’’……اور جان کہ ہمارے نبی کریمﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے (یعنی چھٹی صدی مسیحی میں) ایسا ہی مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی بروزی صورت اختیار کرکے چھٹے ہزار (یعنی تیرھویں صدی ہجری) کے آخر میں مبعوث ہوئے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ خزائن ص ۲۷۰ ج ۱۶)
’’آنحضرتﷺ کے دوبعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرتﷺ کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیا گیا تھا۔ جو مسیح موعود اور مہدی معہود (مرزا قادیانی) کے ظہور سے پورا ہوا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ۱۶۳ حاشیہ ،خزائن ص ۲۴۹ ج ۱۷)
قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے لئے ظلّی اور بروزی کی اصطلاح استعمال کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان الفاظ کی آڑ میں بھی وہ دراصل رحمت دوعالمﷺ کی ذات اقدس کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:
’خدا ایک اور محمدﷺ اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں۔ مگر وہی جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی… جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔‘
(کشتی نوح ص ۱۵ خزائن ص ۱۶ ج ۱۹)
قارئین محترم! مرزا غلام احمد قادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے۔ اس کا کہنا کہ میں ظلّی بروزی محمدؐ ہوں۔ کیا معنی؟ کہ جب آئینہ میں حضورa کی شکل دیکھنا چاہو تو وہ غلام احمد ہے۔ دونوں ایک ہیں۔ قطع نظر اس خبث و بدطینتی کے مجھے یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ظلی و بروزی کہہ کر مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کو قادیانی جو فریب کا چولا پہناتے ہیں۔ وہ اصولی طور پر غلط ہے۔ اس لئے کہ:
۱… ’’نقطئہ محمد یہ … ایسا ہی ظل الوہیت ہونے کی وجہ سے مرتبہ الٰہیہ سے اس کو ایسی مشابہت ہے۔ جیسے آئینہ کے عکس کو اپنی اصل سے ہوتی ہے۔ اور امہات صفات الٰہیہ یعنی حیات، علم، ارادہ، قدرت، سمع ، بصر، کلام مع اپنے جمیع فروع کے اتم اور اکمل طور پر اس (آنحضرتﷺ) میں انعکاس پذیر ہیں۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص ۲۷۱،۲۷۲ ،حاشیہ خزائن ج۲ ص ۲۲۴)
۲… ’’حضرت عمر کا وجود ظلی طور پر گویا آنجنابﷺ کا وجود ہی تھا۔‘‘
(ایام الصلح ص ۳۹،خزائن ص ۲۶۵ ج۱۴)
۳… ’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے۔‘‘
(شہادۃ القران ص ۵۷،خزائن ص ۳۵۳ ج۶)
اگر اب کسی قادیانی کی ہمت ہے کہ وہ کہہ دے کہ آنحضرتﷺ خدا ہیں۔ اور حضرت عمرؓ اور خلفاء نبی اور رسول ہیں۔ نعوذباﷲ۔ مثلاً بقول مرزا قادیانی آنحضرتﷺ ظلی خدا ہوکر صحیح اور حقیقی اور سچے اور واقعی خدا بن جائیں گے؟ یا محمود قادیانی کے باپ مرزا قادیانی کے اقرار سے خلفاء آنحضرتﷺ کے ظل ہوتے ہیں اور صحابہ کرامؓ میں بھی حضرت عمرؓ آنحضرتﷺ کے ظل ہیں۔ تو کیا خلفاء اور حضرت عمرؓ بھی ظلی نبی ہوکر واقعی اور سچے اور صحیح اور حقیقی نبی قرار پائیں گے؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا تو مرزا قادیانی بزعم خود اگر ظلّی نبی (خاکم بدہن) ثابت بھی ہوجائے تو پھر بھی وہ سچا اور حقیقی اور واقعی اور صحیح نبی نہیں ہوگا۔ بلکہ محض نقلی نبی ہی ہوگا۔
۴… حدیث شریف میں ہے: ’’ السلطان (المسلم) ظل اﷲ فی الارض ‘‘ کیا سلطان (بادشاہ) خدا بن جاتا ہے یا اس کا وجود خدا کا وجود بن جاتا ہے؟ غرض ظلی و بروزی خالص قادیانی ڈھکوسلہ ہے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
وحی الہام اور کشف کا شرعی معنی اور ان میں قادیانی تحریفات
سوال۶… وحی الہام اور کشف کا شرعی معنی اور حیثیت واضح کرتے ہوئے بتائیں کہ قادیانی ان اصطلاحات میں کیا تحریفات کرتے ہیں اور اس کا کیا جواب ہے؟
جواب …

وحی
اصطلاح شریعت میں وحی اس کلامِ الٰہی کو کہتے ہیں کہ جو اﷲ کی طرف سے بذریعہ فرشتہ نبی کو بھیجا ہو۔ اس کو وحی نبوت بھی کہتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اوراگر بذریعہ القاء فی القلب ہو تو اس کو وحی الہام کہتے ہیں (فرشتہ کا واسطہ ہونا ضروری نہیں ہے) جو اولیاء پر ہوتی ہے اور اگر بذریعہ خواب ہو تو اصطلاح شریعت میں اس کو رویائے صالحہ کہتے ہیں۔ جو عام مؤمنین اور صالحین کو ہوتا ہے۔ کشف اور الہام اور رویائے صالحہ پر لغتاً وحی کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے: ’’ و اوحینا الٰی ام موسیٰ ‘‘مگر عرف شرع میں جب لفظ وحی کا بولا جاتا ہے تو اس سے وحی نبوت ہی مراد ہوتی ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے قرآن کریم میں باعتبار لغت کے شیطانی وسوسوں پر بھی وحی کا اطلاق آیا ہے:
’’ کما قال تعالیٰ وان الشیٰطین لیوحون الی اولیائھم (انعام: ۱۲۱) ‘‘
’’ وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیٰطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غرورا (انعام: ۱۱۲) ‘‘
لیکن عرف میں شیطانی وسوسوں پر وحی کا اطلاق نہیں ہوتا۔

الہام
کسی خیر اور اچھی بات کا بلانظر و فکر اور بلاکسی سبب ظاہری کے من جانب اﷲ قلب میں القاء ہونے کا نام الہام ہے۔ جو علم بطریق حواس حاصل ہو وہ ادر اک حسی ہے اور جو علم بغیر حس اور عقل۔ من جانب اﷲ بلاکسی سبب کے دل میں ڈالا جائے وہ الہام ہے۔ الہام محض موہبت ربانی ہے اور فراست ایمانی۔ جس کا حدیث میں ذکر آیا ہے۔ وہ من وجہ کسب ہے اور من وجہ وہب ہے۔ کشف اگرچہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے الہام سے عام۔ لیکن کشف کا زیادہ تعلق امور حسیہ سے ہے اور الہام کا تعلق امور قلبیہ سے ہے۔
کشف
عالم غیب کی کسی چیز سے پردہ اٹھاکر دکھلادینے کا نام کشف ہے۔ کشف سے پہلے جو چیز مستور تھی۔ اب وہ مکشوف یعنی ظاہر اور آشکارا ہوگئی۔ قاضی محمد اعلیٰ تھانویؒ کشاف اصطلاحات الفنون ص ۱۲۵۴ پر لکھتے ہیں:
’’ الکشف عنداہل السلوک ہوا المکاشفہ ومکاشفہ رفع حجاب راگویند کہ میاں روحانی جسمانی است کہ ادراک آن بحواس ظاہری نتواں کرد الخ ‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ: ’’ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کی صفائی اور نورانیت پر موقوف ہے۔ جس قدر قلب صاف اور منور ہوگا۔ اسی قدر حجابات مرتفع ہوں گے۔ جاننا چاہئے کہ حجابات کا مرتفع ہونا قلب کی نورانیت پر موقوف تو ہے۔ مگر لازم نہیں۔‘‘

وحی اور الہام میں فرق
وحی نبوت قطعی ہوتی ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتی ہے اور نبی پر اس کی تبلیغ فرض ہوتی ہے اور امت پر اس کا اتباع لازم ہوتا ہے اور الہام ظنی ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوتا۔ اولیاء معصوم نہیں۔ اسی وجہ سے اولیاء کا الہام دوسروں پر حجت نہیں اور نہ الہام سے کوئی حکم شرعی ثابت ہوسکتا ہے۔ حتیٰ کہ استحباب بھی الہام سے ثابت نہیں ہوسکتا۔ نیز علم احکام شرعیہ بذریعہ وحی انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے اور غیر انبیاء پر جو الہام ہوتا ہے۔ سو وہ از قسم بشارت یا از قسم تفہیم ہوتا ہے۔ احکام پر مشتمل نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت مریم علیہا السلام کو جو وحی الہام ہوئی وہ از قسم بشارت تھی نہ کہ ازقسم احکام اور بعض مرتبہ وحی الہام کسی حکم شرعی کی تفہیم اور افہام کے لئے ہوتی ہے۔ جو نسبت رویائے صالحہ کو الہام سے ہے۔ وہی نسبت الہام کو وحی نبوت سے ہے۔ یعنی جس طرح رویائے صالحہ الہام سے درجہ میں کمتر ہے۔ اسی طرح الہام درجہ میں وحی نبوت سے فروتر ہے اور جس طرح رویائے صالحہ میں ایک درجہ کا ابہام اور اخفاء ہوتا ہے اور الہام اس سے زیادہ واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح الہام بھی باعتبار وحی کے خفی اور مبہم ہوتا ہے اور وحی صاف اور واضح ہوتی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ’’الاعلام بمعنی الکشف والوحی والالہام‘‘ مندرجہ احتساب قادیانیت جلد دوم از حضرت کاندہلویؒ۔
انقطاعِ وحی نبوت
حضور سرور کائناتﷺ کے بعد وحی نبوت کا دروازہ بندہوگیا۔ اس سلسلے میں اکابرین امت کی تصریحات ملاحظہ ہوں:
۱… حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت فرمایا:
’’ الیوم فقدنا الوحی و من عنداﷲ عز و جل الکلام، رواہ ابواسمٰعیل الھروی فی دلائل التوحید ‘‘
ترجمہ: ’’آج ہمارے پاس وحی نہیں ہے اور نہ ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرمان ہے۔‘‘
(کنز العمال ص ۲۳۵ ج ۷ حدیث نمبر ۱۸۷۶۰)
۲… نیز حضرت صدیق اکبرؓنے ایک طویل کلام کے ذیل میں فرمایا:
’’قد انقطع الوحی وتم الدین او ینقص وانا حی۰ رواہ النسائی بھذا اللفظ معناہ فی الصحیحین‘‘
(الریاض النضرۃ ص ۹۸ ج ۱ وتاریخ الخلفاء للسیوطی ص ۹۴)
ترجمہ: ’’اب وحی منقطع ہوچکی اور دین الٰہی تمام ہوچکا۔ کیا میری زندگی ہی میں اس کا نقصان شروع ہوجائے گا؟۔‘‘
۳… صحیح بخاری ص ۳۶۰ ج ۱ میں اسی مضمون کا کلام حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ دونوں حضرات سے منقول ہے۔
۴… حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی تو ایک روز حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ چلو حضرت ام ایمنؓ کی زیارت کر آئیں۔ کیونکہ آنحضرتﷺ بھی ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ہم تینوں وہاں گئے۔ حضرت ام ایمنؓ ہمیں دیکھ کر رونے لگیں۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ دیکھو ام ایمن! رسول اﷲﷺ کے لئے وہی بہتر ہے جو اﷲ کے نزدیک آپﷺ کے واسطے مقدر ہے۔ انہوں نے کہا:
’’قد علمت ما عند اﷲ خیرلرسول اﷲﷺ و لکن ابکی علی خبر السماء انقطع عنا‘‘
(ابو عوانہ و کنزالعمال ص ۲۲۵ ج ۷ حدیث نمبر ۱۸۷۳۴ و مسلم ج ۲ ص ۲۹۱)
ترجمہ: ’’یہ تومیں بھی جانتی ہوں کہ آپﷺ کے لئے وہی بہتر ہے جو اﷲ کے نزدیک ہے۔ لیکن میں اس پر روتی ہوں کہ آسمانی خبریں ہم سے منقطع ہوگئیں۔‘‘
اسی طرح مسلم شریف میں ہے:’’ ولکن ابکی ان الوحی قد انقطع من السمائ ‘‘
۵… علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:’’لان بموت النبیﷺ انقطع الوحی ‘‘
(مواہب لدینہ ص ۲۵۹)
ترجمہ: ’’اس لئے کہ نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوچکی ہے۔‘‘
۶… ایسے مدعی کے بارے میں علامہ ابن حجر مکیؒ نے اپنے فتاویٰ میں تحریر فرمایا ہے:
’’و من اعتقد وحیا بعد محمدﷺ کفر باجماع المسلمین‘‘
ترجمہ: ’’اور جو شخص آنحضرتﷺ کے بعد کسی وحی کا معتقد ہو۔ وہ باجماع مسلمین کافر ہے۔‘‘
(بحوالہ ختم نبوت ص ۳۲۲ از حضرت مفتی محمد شفیعؒ)
قادیانی گروہ کشف و الہام اور وحی میں تحریف نہیں کرتے۔ بلکہ تلبیس کرتے ہیں کہ نہ صرف کشف و الہام۔ بلکہ وحی نبوت کو مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے جاری مانتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی نام نہاد وحی کو ایک مستقل کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے اور اس کا نام انہوں نے ’’تذکرہ‘‘ رکھا ہے۔ حالانکہ تذکرہ قرآن مجید کا نام ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ ہے:
’’ کلا انھا تذکرۃ فمن شاء ذکرہ فی صحف مکرمۃ مرفوعۃ مطھرۃ (عبس ۱۱،۱۴) ‘‘
ان آیات میں ’’تذکرہ‘‘ قرآن مجید کو قرار دیا گیا ہے۔ قادیانی اگر مرزا غلام احمد قادیانی کی وحی کے مجموعہ کا نام قرآن رکھتے تو مسلمانوں میں اشتعال پھیلتا۔ انہوں نے قرآن مجید کا غیر عرفی نام چرا کر مرزا کی وحی پر چسپاں کردیا اور اسی تذکرہ کے پہلے صفحہ پر عنوان قائم کیا: ’’تذکرہ یعنی وحی مقدس و رویاء و کشوف حضرت مسیح موعود‘‘
قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے وحی نبوت کو جاری مانتے ہیں۔ اس تذکرہ کا حجم ۸۱۸ صفحات ہے۔ اس میں مرزا قادیانی کی نام نہاد وحی (خرافات) کو جمع کیا گیا ہے۔ غرض قادیانی جماعت مرزا قادیانی کے لئے وحی نبوت کو جاری مانتی ہے۔ حالانکہ اوپر گزرچکا کہ آنحضرتﷺ کے بعد وحی کا مدعی۔ مدعی نبوت ہے۔ اور یہ بجائے خود مستقل کفرہے۔ اب مرزا قادیانی کی ہزارہا عبارتوں میں سے چند عبارتیں ملاحظہ ہوں۔ جس میں مرزا قادیانی نے اپنے لئے وحی کا دعویٰ کیا ہے:
۱… ’’پس جیسا کہ میں نے باربار بیان کردیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں۔ یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے۔ جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں۔ اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے۔ اور مسیح موعود ماننا واجب ہے۔‘‘
(تحفۃ الندوہ ص۷،خزائن ج ۱۹ ص ۹۵)
۲… ’’خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جومیرے پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ بلکہ اس وقت تو پہلے زمانے کی نسبت بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے۔ یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ وحی اﷲ ہے: ’’ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘دیکھو براہین احمدیہ۔ اس میں صاف طور پر اس عاجز (مرزا) کو رسول کرکے پکارا گیا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ص ۴۳۱ ج ۳، ایک غلطی کا ازالہ ص۲،خزائن ص ۲۰۶ ج۱۸، النبوۃ فی الاسلام ص ۳۰۷، حقیقت النبوۃ ص ۲۶۱)
۳… ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزرچکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱،خزائن ص ۴۰۶ ج۲۲)
۴… ’’اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں۔ ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی۔ جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے اور بیت اﷲ میں کھڑے ہوکر یہ قسم کھاسکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے۔ وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیa پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۸،خزائن ج۱۸ ص ۲۱۰، ضمیمہ النبوۃ فی الاسلام ص ۳۱۰‘ حقیقت النبوۃ ص ۲۶۴‘ مجموعہ اشتہارات ص ۴۳۵ ج۳)
۵… ’’میں خدا تعالیٰ کی تئیس برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کرسکتا ہوں۔ میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہوچکی ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۱۵۰،خزائن ج ۲۲ ص ۱۵۴)
اب ملاحظہ فرمایئے کہ مرزا قادیانی اپنے اوپر جبریل علیہ السلام کے نزول کے بھی مدعی ہیں:
۶… ’’جاء نی ائل واختار وادار اصبعہ واشارہ ان وعد اﷲ اتیٰ۰ فطوبیٰ لمن وجدو رائ‘‘ یعنی میرے پاس آئل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔ اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔ پس مبارک جو اس کو پاوے اور دیکھے۔ (اس جگہ آئل خدا تعالیٰ نے جبرائیل کا نام رکھا ہے۔ اس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے۔ حاشیہ منہ)
(حقیقت الوحی ص ۱۰۳،خزائن ص ۱۰۶ ج ۲۲)
۷… ’’اور خدا تعالیٰ میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھلارہا ہے کہ اگر نوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص ۱۳۷،خزائن ج ۲۲ ص ۵۷۵)
اسلامی عقیدہ کے مطابق حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے معصوم ہوتے ہیں۔ ٹھیک انہی کے طرز پر مرزا قادیانی کو بھی معصوم ہونے کا دعویٰ ہے:
۸… ’’ ما انا الا کالقرآن وسیظھر علی یدی ماظھر من الفرقان ‘‘
(تذکرہ ص ۶۷۴)
’’اور میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہوگا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔‘‘
قرآن کریم مسلمانوں کی نہایت مقدس مذہبی کتاب ہے۔ جسے خود مرزا قادیانی کے پیرو بھی محفوظ عن الخطا سمجھتے ہیں اور مرزا قادیانی اپنے تقدس کو قرآن کے مثل ثابت کرتے ہیں۔
۹:… ’’ نحن نزلناہ و انا لہ لحافظون ‘‘
(تذکرہ ص ۱۰۷ طبع ۴ ربوہ)
’’ہم نے اس کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ جسے مرزا قادیانی نے معمولی تصرف کے ساتھ اپنی ذات پر چسپاں کیا ہے۔ گویا جس طرح قرآن منزل من اﷲ ہے اور اﷲ تعالیٰ نے ہر خطا و خلل سے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٹھیک وہی تقدس مرزا قادیانی کو بھی حاصل ہے:
۱۰… ’’ و ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی ‘‘
(تذکرہ ص ۳۷۸، ۳۹۴)
’’اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا۔ یہ تو وحی ہے جو اس (مرزا) پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
علماء شریعت کی طرح تمام صوفیاء بھی اس پر متفق ہیں کہ نبوت و رسالت خاتم النبیینﷺ پر ختم ہوگئی اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور حضور پرنورﷺ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے۔ وہ مرتد اور دائرئہ اسلام سے قطعاً خارج ہے۔ البتہ نبوت و رسالت کے کچھ کمالات اور اجزاء باقی ہیں کہ جو اولیاء امت کو عطا کئے جاتے ہیں۔ مثلاً کشف اور الہام اور رویائے صادقہ (سچا خواب) اور کرامتیں۔ اس قسم کے کمالات نبوت کے اجزاء ہیں۔ وہ ہنوز باقی ہیں۔ لیکن ان کمالات کی وجہ سے کسی شخص پر نبی کا اطلاق کسی طرح جائز نہیں۔ اور نہ ان کے کشف اور الہام پر ایمان لانا واجب ہے۔ ایمان فقط کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ پر ہے۔ نبی کا تو خواب بھی وحی ہے: ’’رویأ الانبیاء وحی‘‘ (بخاری) مگر ولی کا خواب اور الہام شرعاً حجت نہیں۔ نبی کے خواب سے ایک معصوم کا ذبح کرنا اور قتل کرنا بھی جائز ہے۔ مگر ولی کے الہام سے قتل کا جواز تو درکنار اس سے استحباب کا درجہ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ غرض کسی بھی بڑے سے بڑے بزرگ کا کشف و الہام شرعی مسئلہ کے اثبات کے لئے کوئی مستقل دلیل نہیں ہے۔ اس کو اس طرح سمجھو کہ اگر کسی شخص میں کچھ کمالات اور خصلتیں بادشاہ اور وزیر کی سی پائی جائیں تو اس بناء پر وہ شخص بادشاہ اور وزیر نہیں بن سکتا۔ اور اگر کوئی اس بنا پر بادشاہت اور وزارت کا دعویٰ کرے اور اپنے کو وزیر اور بادشاہ کہنے لگے تو فوراً گرفتاری کے احکام جاری ہوجائیں گے۔ اس طرح اگر کسی شخص میں نبوت کے برائے نام کچھ کمالات پائے جائیں تو اس سے اس شخص کا منصب نبوت پر فائز ہونا لازم نہیں آتا۔ بلکہ اگر کوئی شخص اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ مرتد اور اسلام کا باغی سمجھا جائے گا۔
’’عن ابی ھریرۃ قال سمعت رسول اﷲﷺ یقول لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘
(رواہ البخاری فی کتاب التعبیر ص ۱۰۳۵ ج۲)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو! نبوت کا کوئی جزو سوائے اچھے خوابوں کے باقی نہیں۔ (اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے)۔‘‘
اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نبوت بالکلیہ ختم ہوچکی اور سلسلہ وحی منقطع ہوگیا۔ البتہ اجزائے نبوت میں سے ایک جزو مبشرات باقی ہے۔ یعنی جوسچے خواب مسلمان دیکھتے ہیں۔ یہ بھی نبوت کے اجزا میں سے ایک جزو ہے۔ جس کی تشریح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ: ’’سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں جزو ہے۔‘‘

ایک شبہ اور اس کا ازالہ
عبرت کی جگہ ہے کہ ارشادات نبویہa کے ان بینات کے بعد بھی بجائے اس کے کہ مرزائی قلوب میں زلزلہ پڑجاتا۔ اور وہ ایک متنبّی کاذب کو چھوڑ کر سیدالانبیائﷺ کی نبوت کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتے۔ ان کی جسارت اور تحریف میں دلیری اور بڑھتی جاتی ہے۔ وکذلک یطبع اﷲ علی قلب کل متکبر جبار!
ادھر حدیث میں سلسلہ نبوت کے انقطاع پر یہ صاف ارشاد ہوتا ہے اور ادھر قادیانی دنیا میں خوشیاں منائی جاتی ہیں کہ اس سے بقاء نبوت ثابت ہوگیا۔ ان ھذا لشئ عجاب۔ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ نبوت کا ایک جزو باقی ہے۔ جس سے نفس نبوت کا بقاء ثابت ہوتا ہے۔ جیسے پانی کا ایک قطرہ بھی باقی ہو تو اس کو پانی کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نبوت کے ایک جزو کا باقی ہونا خود نبوت کا باقی ہونا ہے۔ اہل دانش فیصلہ کریں کہ اس فلسفہ اور سائنس کے دور میں ایک مدعی نبوت کی طرف سے کہا جارہا ہے جس کو جزو اور کل کا بدیہی امتیاز معلوم نہیں۔ وہ کسی شے کے ایک جزو موجود ہونے کو کل کا موجود ہونا سمجھتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نماز کے ایک جزو مثلاً اﷲ اکبر کو پوری نماز اور وضو کے ایک جزو مثلاً ہاتھ دھونے کو پورا وضو کہا جائے۔ اسی طرح ایک لفظ اﷲ کو پوری اذان اور ایک منٹ کے روزہ کو ادائے روزہ کہا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر قادیانی نبوت کی یہی برکات ہیں کہ کسی شے کے ایک جزو کے وجود کو کل کا وجود قرار دیا جائے اور جزو پر کل کا اطلاق درست ہوجائے تو پھر ایک اینٹ کو پورامکان کہنا بھی درست ہوگا۔ اور کھانے کے بیس اجزاء میں سے ایک جزو نمک ہے۔ تو نمک کو کھانا کہنا بھی روا ہوگا۔ نمک کو پلائو اور پلائو کو نمک کہا جائے تو کوئی غلطی نہ ہوگی۔ اور پھر تو شاید ایک دھاگہ کو کپڑا کہنا بھی جائز ہوگا اور ایک انگلی کے ناخن کو انسان اور ایک رسی کو چارپائی بھی کہا جائے اور ایک میخ کو کواڑ بھی۔ کیا خوب!
نبوت ہو تو ایسی ہو کہ تمام بدیہات ہی کو بدل ڈالے۔ پس اگر ایک اینٹ کو مکان اور نمک کو پلائو اور ایک دھاگہ کو کپڑا اور ایک رسی کو چارپائی اور ایک میخ کو کواڑ نہیں کہہ سکتے تو نبوت کے چھیالیسویں جزو کو بھی نبوت نہیں کہہ سکتے۔ رہی پانی کی مثال کہ اس کا ایک قطرہ بھی پانی ہی کہلاتا ہے اور پورا سمندر بھی پانی کہلاتا ہے۔ سو یہ ایک جدید مرزائی فلسفہ ہے کہ عقلمندوں نے پانی کے ایک قطرہ کو پانی کا ایک جزو سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ پانی کا ایک قطرہ بھی ایسا ہی مکمل پانی ہے۔ جیسے ایک دریا۔ جو شخص علم کی ابجد سے بھی واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ پانی کے ہر قطرہ میں اجزائے مائیہ پورے پورے موجود ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ سمندر میں پانی کے اجزاء زیادہ ہیں اور قطرہ میں کم مقدار میں موجود ہیں۔ مگر اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک قطرہ میں پانی کے دونوں اجزاء جن کا جدید فلسفہ ہائیڈروجن اور آکسیجن نام رکھتا ہے۔ موجود ہیں۔ اس لئے پانی کے قطرات کو پانی کے اجزاء نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ پانی کے اجزاء وہی ہائیڈروجن اور آکسیجن ہیں۔ تو جس طرح تنہا ہائیڈروجن کو بھی پانی کہنا غلط ہے اور تنہا آکسیجن کو بھی پانی کہنا غلط ہے۔ اسی طرح نبوت کے کسی جزو کو نبوت کہنا بھی غلطی ہے۔ یہ محض لچر اور ناقابل ذکر بات ہے کہ نبوت کا ایک جزو باقی ہونے سے نبوت کا بقا ثابت کرڈالا۔(تلخیص از ختم نبوت کامل)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
اجرائے نبوت پر پیش کردہ آیات کی حقیقت اور مرزائی تحریفات
سوال۷ … مرزائی اجرائے نبوت پر جن آیات مبارکہ اور احادیث میں تحریف کرتے ہیں۔ ان میں سے تین کو ذکر کرکے ان کا شافی جواب لکھیں؟

جواب … مرزائیوں سے ختم نبوت و اجرائے نبوت پر بحث کرنااصولی طور پر غلط ہے۔ اس لئے کہ ہمارے اور قادیانیوں کے درمیان ختم نبوت و اجرائے نبوت کا مسئلہ مابہ النزاع ہی نہیں۔ مسلمان بھی نبوت کو ختم مانتے ہیں۔ قادیانی بھی۔ اہل اسلام کے نزدیک رحمت دوعالمﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں بن سکتا۔ مرزائیوں کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔
اب فرق واضح ہوگیا کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ پر نبوت کو بند مانتے ہیں۔ قادیانی، مرزا غلام احمد قادیانی پر۔ اس وضاحت کے بعد اب قادیانیوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ سارے قرآن و حدیث سے ایک آیت یا ایک حدیث پڑھیں۔ جس میں لکھا ہوا ہو کہ نبوت رحمت دوعالمﷺ پر ختم نہیں۔ بلکہ حضورﷺ کے بعد چودہ سو سال میں ایک مرزا قادیانی نبی بنے ہیں۔ اور مرزا قادیانی کے بعد قیامت تک اور کوئی نبی نہیں بنے گا۔ قیامت تک تمام زندہ مردہ قادیانی اکٹھے ہوکر ایک آیت اور ایک حدیث اس سلسلہ میں نہیں دکھا سکتے۔
مرزا کہتا ہے:
۱… ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۳۹۱، خزائن ص ۴۰۶، ۴۰۷ ج ۲۲)
۲… ’’چونکہ وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا۔ وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست وپا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔ ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا۔ سو وہ ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے اور کوئی کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص ۱۱،خزائن ص ۲۱۵ ج۱۸)
۳… ’’اس لئے ہم اس امت میں صرف ایک ہی نبی کے قائل ہیں۔ … پس ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس وقت تک اس امت میں کوئی اور شخص نبی نہیں گزرا۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص ۱۳۸ از مرزا محمود قادیانی)
۴… ’’ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں، اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں، بدقسمت ہے جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔‘‘
(کشتی نوح ص ۵۶،خزائن ص ۶۱ ج ۱۹)
۵… ’’ فاراد اﷲ ان یتم النباء و یکمل البناء باللبنۃ الاخیرۃ فانا تلک اللبنۃ ‘‘
(خطبہ الہامیہ ص ۱۱۲، خزائن ص ۱۷۸ ج۱۶)
’’پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشینگوئی کو پورا اور آخری اینٹ کے ساتھ بنا کو کمال تک پہنچادے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔‘‘
۶… ’’امت محمدیہﷺ میں سے ایک سے زیادہ نبی کسی صورت میں بھی نہیں آسکتے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے اپنی امت سے صرف ایک نبی اﷲ کے آنے کی خبر دی ہے۔ جو مسیح موعود ہے اور اس کے سوا قطعاً کسی کا نام نبی اﷲ یا رسول اﷲ نہیں رکھا جائے گا اور نہ کسی اور نبی کے آنے کی خبر آپﷺ نے دی ہے۔ بلکہ لا نبی بعدی فرماکر اوروں کی نفی کردی اور کھول کر بیان فرمادیا کہ مسیح موعود کے سوا میرے بعد قطعاً کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔‘‘
(رسالہ تشحیذالاذہان قادیان ماہ مارچ۱۹۱۴ئ)
ان اقتباسات کا ماحصل یہ ہے کہ مرزا قادیانی اپنے آپ کو آخری نبی قرار دیتا ہے۔ گویا مرزا قادیانی خاتم النبیین ہے۔ معاذاﷲ۔

قادیانی تحریفات

قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۱… ’’ یٰبنی آدم امّا یأتینکم ‘‘

قادیانی کہتے ہیں کہ: ’’ یٰبنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقیٰ و اصلح فلا خوف علیھم و لا ھم یحزنون (اعراف :۳۵) ‘‘
یہ آیت آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی۔ لہٰذا اس میں حضورﷺ کے بعد آنے والے رسولوں کا ذکر ہے۔ آپﷺ کے بعد بنی آدم کو خطاب ہے۔ لہٰذا جب تک بنی آدم دنیا میں موجود ہیں۔ اس وقت تک نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔
جواب۱ … اس آیت کریمہ سے قبل اسی رکوع میں تین بار ’’ یا بنی آدم ‘‘ آیا ہے۔ اور اول ’’ یا بنی آدم ‘‘ کا تعلق ’’ اھبطوا بعضکم لبعض عدو ‘‘ سے ہے۔ ’’ اھبطو ا‘‘ کے مخاطب سیدنا آدم علیہ السلام و سیدہ حوا علیہا السلام ہیں۔ لہٰذا اس آیت میں بھی آدم علیہ السلام کے وقت کی اولاد آدم کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ پھر زیر بحث آیت نمبر ۳۵ ہے۔
آیت نمبر ۱۰ سے سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر شروع ہے۔ اس تسلسل کے تناظر میں دیکھا جائے تو حقیقت میں یہ خطاب اولین اولاد آدم علیہ السلام کو ہے۔ اس پر قرینہ اس کا سباق ہے۔ تسلسل اور سباق آیات کی صراحتاً دلالت موجود ہے کہ یہاں پر حکایت حال ماضیہ کے طور پر اس کو ذکر کیا گیا ہے۔

جواب۲… قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپﷺ کی امت اجابت کو ’’ یا ایھا الذین آمنوا ‘‘ سے مخاطب کیا جاتا ہے، اور آپﷺ کی امت دعوت کو ’’ یا ایھا الناس ‘‘ سے خطاب ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی آپﷺ کی امت کو ’’ یا بنی آدم ‘‘ سے خطاب نہیں کیا گیا۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے۔ حال ماضیہ کی۔

ضروری وضاحت

ہاں البتہ ’’ یا بنی آدم ‘‘ کی عمومیت کے حکم میں آپﷺ کی امت کے لئے وہی سابقہ احکام ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ منسوخ نہ ہوگئے ہوں۔ اگر وہ منسوخ ہوگئے یا کوئی ایسا حکم جو آپﷺ کی امت کو اس عمومیت میں شمول سے مانع ہو۔ تو پھر آپﷺ کی امت کا اس عموم سے سابقہ نہ ہوگا۔

جواب۳ … کبھی قادیانی کرم فرمائوں نے یہ بھی سوچا کہ بنی آدم میں تو ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ سبھی شامل ہیں۔ کیا ان میں سے نبی پیدا ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان کو اس آیت کے عموم سے کیوں خارج کیا جاتا ہے۔ ثابت ہوا کہ خطاب عام ہونے کے باوجود حالات و واقعات وقرائن کے باعث اس عموم سے کئی چیزیں خارج ہیں۔ پھر بنی آدم میں تو عورتیں، ہیجڑے بھی شامل ہیں۔ تو کیا اس عموم سے ان کو خارج نہ کیا جائے گا؟ اگر یہ کہا جائے کہ عورتیں وغیرہ تو پہلے نبی نہ تھیں۔ اس لئے وہ اب نہیں بن سکتیں۔ تو پھر ہم عرض کریں گے کہ پہلے رسول مستقل آتے تھے۔ اب تم نے رسالت کو اطاعت سے وابستہ کردیا ہے تو اس میں ہیجڑے و عورتیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا مرزائیوں کے نزدیک عورتیں و ہیجڑے بھی نبی ہونے چاہئیں۔ْ

جواب۴… اگر ’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل ‘‘ سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو ’’ اما یاتینکم منی ھدی ‘‘ میں وہی ’’ یاتینکم ‘‘ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نئی شریعت بھی آسکتی ہے۔ تو مرزائیوں کے عقیدہ کے خلاف ہوا۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو اب تشریعی نبی نہیں آسکتا۔
جواب۵
۱… ’’ اما ‘‘ حرف شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں۔’’ یا تینکم ‘‘ مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں۔ جیسا کہ فرمایا: ’’ فاما ترین من البشر احدا(مریم: ۲۶) ‘‘ کیا حضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟
مضارع اگرچہ بعض اوقات استمرار کے لئے آتا ہے۔ مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں۔ جو فعل دوچار دفعہ پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے۔ اس کی ایک مثال یہی آیت ’’ اما ترین من البشر ‘‘ ہے جو اوپر گزر چکی ۔
۲… ’’ انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نوریحکم بھا النبیون (مائدہ:۴۴) ‘‘ ظاہر ہے کہ تورات کے موافق حکم کرنے والے گزرچکے۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد کسی کو حتیٰ کہ صاحب تورات کو بھی حق حاصل نہیں اس کی تبلیغ کا۔
۳… ’’ واوحی الی ھذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (انعام:۱۹) ‘‘ چنانچہ حضورﷺ ایک زمانہ تک ڈراتے رہے۔ مگر اب بلاواسطہ آپﷺ کی انذاروتبشیر مسدود ہے۔
۴… ’’ و سخرنا مع داؤد الجبال یسبحن والطیر (الانبیا ئ:۷۹) ‘‘ تسبیح دائود کی زندگی تک ہی رہی پھر مسدود ہوگئی۔ مگر ہر جگہ صیغہ مضارع کا ہے۔
جواب۶

  • اما یاتینکم منی ھدی (بقرہ۳۸)
  • واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعدالذکریٰ مع القوم الظالمین (انعام:۶۸)
  • فاما تثقفنھم فی الحرب فشرد بھم من خلفھم لعلھم یذکرون (انفال: ۵۷)
  • واما نرینک بعض الذی نعدھم اونتوفینک فالینا مرجعھم (یونس: ۴۶)
  • اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلاھما فلا تقل لھما اف ولا تنھر ھما (بنی اسرائیل:۲۳)
  • فاما ترین من البشر احدا فقولی انی نذرت للرحمن صوما (مریم:۲۶)
  • اما ترینی مایوعدون رب فلا تجعلنی فی القوم الظالمین (مومنون:۹۳)
  • و اما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باﷲ (اعراف:۲۰۰)
  • فاما نذھبن بک فانا منھم منتقمون (زخرف:۴۱)
ان تمام آیات میں نون ثقیلہ مضارع ہونے کے باوجود قادیانیوں کو بھی تسلیم ہے کہ ان آیات میں استمرار نہیں۔ بلکہ حکایت حال ماضی کا بیان ہے۔
جواب۷ … درمنثور ج ۳ ص ۸۲ میں زیر بحث آیت ہذا لکھا ہے:
’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم الآیۃ اخرج ابن جریر عن ابی یسار السلمی فقال ان اﷲ تبارک و تعالی جعل آدم و ذریتہ فی کفہ فقال یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی۰ ثم نظر الی الرسل فقال یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا ‘‘
’’ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اﷲ رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی جملہ اولاد کو (اپنی قدرت و رحمت کی) مٹھی میں لیا اور فرمایا: ’’ یا بنی آدم اما یاتینکم رسل منکم … الخ ‘‘ پھر نظر (رحمت) رسولوں پر ڈالی تو ان کو فرمایا کہ: ’’ یا ایھا الرسل … الخ ‘‘ غرض یہ کہ عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔‘‘
جواب۸… بالفرض والتقدیر اگر اس آیت کو اجرائے نبوت کا مستدل مان بھی لیا جائے۔ تب بھی مرزا غلام احمد قادیانی قیامت کی صبح تک نبی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ بقول خود آدم کی اولاد ہی نہیں، اور یہ آیت تو صرف بنی آدم سے متعلق ہے۔ مرزانے خود اپنا تعارف بایں الفاظ کرایا ہے ، ملاحظہ فرمایئے:

کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم،خزائن ص ۱۲۷ ج۲۱)


قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر ۲…’’ من یطع اﷲ والرسول ‘‘

’’ ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا (نساء :۶۹) ‘‘
قادیانی کہتے ہیں کہ جو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں وہ نبی ہوں گے۔ صدیق ہوں گے۔ شہید ہوں گے۔ صالح ہوں گے۔ اس آیت میں چار درجات کے ملنے کا ذکر ہے۔ اگر انسان صدیق، شہید، صالح بن سکتا ہے تو نبی کیوں نہیں بن سکتا؟ تین درجوں کو جاری ماننا۔ ایک کو بند ماننا۔ تحریف نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر صرف معیت مراد ہو تو کیا حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت فاروق اعظمؒ صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ خود صدیق اور شہید نہ تھے؟
جواب۱… آیت مبارکہ میں درجات ملنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کی اطاعت کرے۔ وہ آخرت میں انبیاء ، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ جیسا کہ آیت کے آخری الفاظ ’’ حسن اولئک رفیقا ‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔
جواب۲یہاں معیت ہے۔ عینیت نہیں ہے۔ معیت فی الدنیا ہر مومن کو حاصل نہیں۔ اس لئے اس سے مراد معیت فی ا لآخرۃ ہی ہے۔ چنانچہ مرزائیوں کے مسلمہ دسویں صدی کے مجدد امام جلال الدینؒ نے اپنی تفسیر جلالین شریف میں اس آیت کا شان نزول لکھا ہے:
’’قال بعض الصحابۃ للنبیﷺ کیف نرٰک فی الجنۃ وانت فی الدرجات العلیٰ۰ ونحن اسفل منک فنزل ومن یطع اﷲ والرسول … وحسن اؤلئک رفیقا۰ رفقاء فی الجنۃ بان یستمتع فیھا برؤیتھم وزیارتھم والحضور معھم وان کان مقرھم فی درجات عالیۃ بالنسبۃ الی غیرھم‘‘
(جلالین ص ۸۰)
’’بعض صحابہ کرامؓ نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا کہ آپﷺ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات پر ہوں گے۔ تو آپﷺ کی زیارت کیسے ہوگی؟۔
پس یہ آیت نازل ہوئی ’’ من یطع اﷲ والرسول … الخ ‘‘ (آگے فرماتے ہیں) یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ صحابہ کرامؓ انبیاء علیہم السلام کی زیارت و حاضری سے فیضیاب ہوں گے۔ اگرچہ ان (انبیائ) کا ٹھکانہ دوسروں کی نسبت بلند مقام پر ہوگا۔‘‘
اسی طرح تفسیر کبیر ص ۱۷۰ ج ۱۰ میں ہے:
’’ من یطع اﷲ والرسول ذکروا فی سبب النزول وجوھا۔ الا ول روی جمع من المفسرین ان ثوبان مولی رسول اﷲﷺ کان شدید الحب لرسول اﷲﷺ قلیل الصبرعنہ فاتاہ یوما وقد تغیر وجھہ ونحل جسمہ وعرف الحزن فی وجھہ فسالہ رسول اﷲﷺ عن حالہ فقال یارسول اﷲ مابی وجع غیرانی اذالم ارک اشتقت الیک واستو حشت وحشۃً شدیدۃ ً حتی القاک فذکرت الاخرۃ فخفت ان لااراک ھناک لانی ان ادخلت الجنۃ فانت تکون فی درجات النبیین وانا فی درجۃ العبید فلا اراک وان انالم ادخل الجنۃ فحینئذ لااراک ابدا فنزلت ھذہ الایۃ ‘‘
ترجمہ: ’’ من یطع اﷲ … الخ ‘ ‘(اس آیت) کے شان نزول کے کئی اسباب مفسرین نے ذکر کئے ہیں۔ ان میں پہلا یہ ہے کہ حضرت ثوبانؓ جو آنحضرتﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ وہ آپﷺ کے بہت زیادہ شیدائی تھے (جدائی پر) صبر نہ کرسکتے تھے۔ ایک دن غمگین صورت بنائے آنحضرتﷺ کے پاس آئے۔ ان کے چہرہ پر حزن و ملال کے اثرات تھے۔ آپﷺ نے وجہ دریافت فرمائی۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی تکلیف نہیں۔ بس اتنا ہے کہ آپﷺ کو نہ دیکھوں تو اشتیاق ملاقات میں بے قراری بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ کی زیارت ہو تو مجھے آخرت کا خیال آکر یہ خوف لاحق ہے کہ وہاں میں آپﷺ کو نہ دیکھ سکوں گا۔ چونکہ مجھے جنت میں داخلہ ملا بھی تو آپﷺ تو انبیاء کے درجات میں بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے، اور ہم آپﷺ کے غلاموں کے درجہ میں، اور اگر جنت میں سرے سے میرا داخلہ ہی نہ ہوا تو پھر ہمیشہ کے لئے ملاقات سے گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔ ابن کثیر، تنویر المقیاس، روح البیان میں بھی تقریباً یہی مضمون ہے:
حدیث: ’’ قال رسول اﷲﷺ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہدائ ‘‘
(منتخب کنزالعمال ج۴ ص۷ حدیث ۹۲۱۷ ؍ابن کثیر ص ۵۲۳ ج ۱ طبع مصر)
ترجمہ: ’’آپﷺ نے فرمایا کہ سچا تاجر امانت دار (قیامت کے دن) نبیوں صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘
اگر معیت سے درجہ ملنا ثابت ہے تو مرزائی بتائیں کہ اس زمانہ میں کتنے امین و صادق تاجر نبی ہوئے ہیں؟۔
’’ عن عائشۃ قالت سمعت رسول اﷲﷺ یقول مامن نبی یمرض الا خیربین الدنیا والآخرۃ وکان فی شکواہ الذی قبض اخذتہ بحۃ شدیدۃٌ فسمعتہ یقول مع الذین انعمت علیھم من النبیین… فعلمت انہ خیر ‘‘
(مشکوٰۃ ص ۵۴۷ ج۲، ابن کثیر ص ۵۲۲ ج۱)
ترجمہ: ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی، مرض (وفات) میں اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔ جس مرض میں آپﷺ کی وفات ہوئی۔ آپﷺ کو شدید کھانسی ہوئی۔ آپﷺ اس مرض میں فرماتے تھے: ’’ مع الذین انعمت علیھم من النبیین ‘‘ا س سے میں سمجھ گئی کہ آپﷺ کو بھی دنیا و آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ اس آیت میں نبی بننے کا ذکر نہیں۔ کیونکہ نبی تو پہلے بن چکے تھے۔ آپﷺ کی تمنا آخرت کی معیت کے متعلق تھی۔

درجات کے ملنے کا تذکرہ

قرآن کریم میں جہاں دنیا میں ایمان والوں کو درجات ملنے کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ باقی تمام درجات کا ملنا مذکور ہے، مثلاً:
۱… ’’ والذین آمنوا باﷲ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھداء عندربھم (الحدید:۱۹) ‘‘
ترجمہ:’’اور جو لوگ یقین لائے اﷲ پر اور اس کے سب رسولوں پر۔ وہی ہیں سچے ایمان والے اور لوگوں کا احوال بتلانے والے اپنے رب کے پاس۔‘‘
۲… ’’ والذین آمنوا وعملوا الصالحات لندخلنھم فی الصالحین (عنکبوت: ۹) ‘‘
ترجمہ: ’’اور جو لوگ یقین لائے اور بھلے کام کئے۔ ہم ان کو داخل کریں گے نیک لوگوں میں۔‘‘
۳… سورۃ حجرات کے آخر میں :’’ مجاہدین فی سبیل اﷲ‘‘ کو فرمایا ’’اولئک ھم الصادقون ‘‘
ان آیات میں صدیق، صالح وغیرہ درجات ملنے کا ذکر ہے۔ مگر نبوت کا ذکر نہیں۔ غرض جہاں درجات حاصل کرنے کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت کا ذکر نہیں۔ جہاں نبوت کا ذکر ہے۔ وہاں درجات ملنے کا ذکر نہیں۔ بلکہ صرف معیت مراد ہے۔
جواب۳… کیا تیرہ سو سال میں کسی نے حضورﷺ کی پیروی کی ہے یا نہ؟ اگر اطاعت اور پیروی کی ہے تو نبی کیوں نہ بنے؟ اور اگر کسی نے بھی اطاعت وپیروی نہیں کی تو آپﷺ کی امت خیرامت نہ ہوئی۔ بلکہ شرامت ہوگی۔( نعوذباﷲ) جس میں کسی نے بھی اپنے نبی کی کامل پیروی نہ کی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے سورئہ توبہ میں صحابہ کرامؓ کے متعلق خود شہادت دے دی ہے کہ :’’ یطیعون اﷲ و رسولہ(توبہ: ۷۱) ‘‘ یعنی رسول اﷲﷺ کے صحابہ کرامؓ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت کرتے ہیں۔ بتاؤ! وہ نبی کیوں نہ ہوئے؟ اس لئے کہ اگر اطاعت کاملہ کا نتیجہ نبوت ہے تو اکابر صحابہ کرامؓ کو یہ منصب ضرور حاصل ہوتا۔ جنہیں ’’ رضی اﷲ عنھم ورضوا عنہ ‘‘ کا خطاب ملا اور یہی رضائے الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ: ’’ رضوان من اﷲ اکبر(توبہ:۷۲) ‘‘
جواب۴اگر بفرض محال پانچ منٹ کے لئے تسلیم کرلیں کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں نبوت ملتی ہے۔ تو اس آیت میں تشریعی اور غیر تشریعی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ تم غیر تشریعی کی تخصیص کیوں کرتے ہو؟ اگر اس آیت میں نبوت ملنے کا ذکر ہے تو آیت میں النبیین ہے۔ المرسلین نہیں، اور نبی غیر تشریعی اور رسول تشریعی کو کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی و رسول کے فرق سے واضح ہے۔ تو اس لحاظ سے پھر تشریعی نبی آنے چاہئیں۔ یہ تو تمہارے عقیدہ کے بھی خلاف ہوا۔ مرزا کہتا ہے:
’’اب میں بموجب آیت کریمہ: ’’ و اما بنعمت ربک فحدث ‘‘ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں۔ بلکہ شکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص ۶۷، خزائن ص ۷۰ ج ۲۲)
اس حوالہ سے تو ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کو آنحضرتﷺ کی ابتاع سے نہیں۔ بلکہ وہبی طور پر نبوت ملی۔ تو پھر اس آیت سے مرزائیوں کا استدلال باطل ہوا۔

جواب۵… اگر اطاعت کرنے سے نبوت ملتی ہے تو نبوت کسبی چیز ہوئی۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ ‘‘ نبوت وہبی چیز ہے ۔جو اسے کسبی مانے وہ کافر ہے۔

نبوت وہبی چیز ہے

۱… علامہ شعرانی ؒ الیواقیت والجواہر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ فان قلت فھل النبوۃ مکتسبۃ او موھوبۃ فالجواب لیست النبوۃ مکتسبۃ حتی یتوصل الیھا بالنسک و الریاضات کما ظنہ جماعۃ من الحمقاء … و قد افتی المالکیۃ و غیرھم بکفر من قال ان النبوۃ مکتسبۃ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ص ۱۶۴،۱۶۵ ج ۱)
ترجمہ: ’’کہ کیا نبوت کسبی ہے یا وہبی؟ تو اس کا جواب ہے کہ نبوت کسبی نہیں ہے کہ درویشی اختیار کرنے یا محنت و کاوش سے اس تک پہنچا جائے۔ جیسا کہ بعض احمقوں (مثلاً قادیانی فرقہ …از مترجم) کا خیال ہے۔ مالکیہ وغیرہ نے کسبی کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ دیا ہے۔‘‘
۲… قاضی عیاضؒ شفاء میں لکھتے ہیں:
’’ من ادعی نبوۃ احد مع نبیناﷺ اوبعدہ … اومن ادعی النبوۃ لنفسہ او جوأز اکتسابھا۰ و البلوغ بصفاء القلب الی مرتبتھا الخ وکذالک من ادعی منھم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ… فھولاء کلھم کفار مکذبون للنبیﷺ لانہ اخبرﷺ انہ خاتم النبیین لانبی بعدہ ‘‘
(شفاء ص ۲۴۶‘ ۲۴۷ ج ۲)
ترجمہ: ’’ہمارے نبیﷺ کی موجودگی یا آپﷺ کے بعد جو کوئی کسبی نبوت کا قائل ہو۔ یا اس نے خود اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ یا پھر دل کی صفائی کی بناء پر اپنے کسب کے ذریعہ نبوت کے حصول کے جواز کاقائل ہوا۔ یا پھر اپنے پر وحی کے اترنے کو کہا۔ اگرچہ نبوت کا دعویٰ نہ کیا۔ تو یہ سب قسم کے لوگ نبیﷺ کے دعویٰ… ’’ انا خاتم النبیین ‘‘… کی تکذیب کرنے والے ہوئے اور کافر ٹھہرے۔‘‘
ان دونوں روشن حوالوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ نبوت کے کسبی ہونے کا عقیدئہ رکھنا اپنے اندر تکذیب خدا اور رسول کا عنصر رکھتا ہے، اور ایسے عقیدہ کا رکھنے والا مالکیہ و دیگر علماء کے نزدیک قابل گردن زدنی اور کافر ہے۔
جواب۶… اگر نبوت ملنے کے لئے اطاعت و تابعداری شرط ہے تو غلام احمد قادیانی پھر بھی نبی نہیں ہے، کیونکہ اس نے نبی کریمﷺ کی کامل تابعداری نہیں کی جیسے:
(۱) مرزا نے حج نہیں کیا۔
(۲) مرزا نے ہجرت نہیں کی۔
(۳)مرزا نے جہاد بالسیف نہیں کیا۔ بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔
(۴)مرزا نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔
(۵)ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا۔ مگر مرزا غلام احمد نے کسی زانیہ یا زانی کو سنگسار نہیں کرایا۔
(۶) ہندوستان میں چوریاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر مرزا قادیانی نے کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔

جواب۷… نیز مع کا معنی ساتھ کے ہیں۔ جیسے: ’’ان اﷲ معنا۰ ان اﷲ مع المتقین۰ ان اﷲ مع الذین اتقوا۰ محمد رسول اﷲ والذین معہ۰ ان اﷲ مع الصابرین‘‘ نیز اگر نبی کی معیت سے نبی ہوسکتا ہے تو خدا کی معیت سے خدا بھی ہوسکتا ہے؟۔ العیاذباﷲ ۔

جواب۸… یہ دلیل قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہے۔ اس لئے مرزائی اپنے استدلال کی تائید میں کسی مفسر یا مجدد کا قول پیش کریں۔ بغیر اس تائید کے ان کا استدلال مردود اور من گھڑت ہے۔ اس لئے کہ مرزا نے لکھا ہے:
’’جو شخص ان (مجددین) کا منکر ہے۔ وہ فاسقوں میں سے ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص ۴۸، خزائن ص ۳۴۴ ج۶)
جواب۹… اگر مرزائیوں کے بقول اطاعت سے نبوت وغیرہ درجات حاصل ہوتے ہیں۔ تو ہمارا یہ سوال ہوگا کہ یہ درجے حقیقی ہیں یا ظلی وبروزی؟ اگر نبوت کا ظلی بروزی درجہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ مرزائیوں کا عقیدہ ہے تو صدیق، شہید اور صالح بھی ظلی وبروزی ہونے چاہئیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی ظلی و بروزی ہونے کا قائل نہیں، اور اگر صدیق وغیرہ میں حقیقی درجہ ہے تو پھر نبوت بھی حقیقی ہی ماننا چاہئے۔ حالانکہ تشریعی اور مستقل نبوت کا ملنا خود مرزائیوں کو بھی تسلیم نہیں ہے۔ اس لئے یہ دلیل مرزائیوں کے دعویٰ کے مطابق نہ ہوگی۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۳…’’ وآخرین منھم لما یلحقوابھم‘‘

طائفہ قادیانیہ چونکہ ختم نبوت کا منکر ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تحریف کرتے ہوئے آیت: ’’ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین واٰخرین منھم لما یلحقوابھم (جمعہ: ۲،۳) ‘‘ کو بھی ختم نبوت کی نفی کے لئے پیش کردیا کرتے ہیں۔ طریق استدلال یہ بیان کرتے ہیں کہ جیسے امیین میں ایک رسول عربیﷺ مبعوث ہوئے تھے اس طرح بعد کے لوگوں میں بھی ایک نبی قادیان میں پیدا ہوگا۔ معاذاﷲ۔
جواب۱بیضاوی شریف میں ہے:
’’ وآخرین منھم عطف علی الامیین اوالمنصوب فی یعلمہم وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الی یوم الدین فان دعوتہ وتعلیمہ یعم الجمیع ‘‘
’’ آخرین کا عطف امیین یا یعلمھم کی ضمیر پر ہے ، اور اس لفظ کے زیادہ کرنے سے آنحضرتﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپﷺ کی تعلیم و دعوت صحابہؓ اور ان کے بعد قیامت کی صبح تک کے لئے عام ہے۔‘‘
خود آنحضرتﷺ بھی فرماتے ہیں: ’’ انا نبی من ادرک حیا و من یولد بعدی ‘‘
صرف موجود ین کے لئے نہیں بلکہ ساری انسانیت اور ہمیشہ کے لئے ہادیﷺ برحق ہوں۔
جواب۲

القرآن یفسر بعضہ بعضاً کے تحت دیکھیں تو یہ آیت کریمہ دعائے خلیل کا جواب ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت اﷲ کی تعمیر کی تکمیل پر دعا فرمائی تھی:
’’ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم آیتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکیھم (بقرہ:۱۲۹)

‘‘
زیر بحث آیت میں اس دعا کی اجابت کا ذکر ہے کہ دعائے خلیل کے نتیجہ میں وہ رسول معظم ان امیوں میں مبعوث ہوئے۔ لیکن صرف انہیں کے لئے نہیں بلکہ جمیع انسانیت کے لئے جو موجود ہیں ان کے لئے بھی جو ابھی موجود نہیں لیکن آئیں گے قیامت تک۔ سبھی کے لئے آپﷺ ہادی برحق ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ یا ایھاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (اعراف: ۱۵۸) ‘‘
یاآپﷺ کا فرمانا: ’’ ارسلت الی الخلق کافۃ ‘‘ لہٰذا مرزا قادیانی دجال قادیان اور اس کے چیلوں کا اس کو حضورﷺ کی دو بعثتیں قرار دینا یا نئے رسول کے مبعوث ہونے کی دلیل بنانا سراسر دجالیت ہے۔ پس آیت کریمہ کی رو سے مبعوث واحد ہے اور مبعوث ’’ الیھم ‘‘ موجود و غائب سب کے لئے بعثت عامہ ہے۔
جواب۳
رسولاً پر عطف کرنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو قید معطوف علیہ میں مقدم ہوتی ہے۔ اس کی رعایت معطوف میں بھی ضروری ہے۔ چونکہ رسولاً معطوف علیہ ہے۔ فی الامیین مقدم ہے۔ اس لئے فی الامیین کی رعایت وآخرین منھم میں بھی کرنی پڑے گی۔ پھر اس وقت یہ معنی ہوں گے کہ امیین میں اور رسول بھی آئیں گے۔ کیونکہ امیین سے مراد عرب ہیں۔ جیسا کہ صاحب بیضاوی نے لکھا ہے: ’’ فی الامیین ای فی العرب لان اکثرھم لایکتبون ولا یقرؤن ‘‘ اور لفظ منھم کا بھی یہی تقاضا ہے جب کہ مرزا عرب نہیں تو مرزائیوں کے لئے سوائے دجل و کذب میں اضافہ کے استدلال باطل سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
جواب۴… قرآن مجید کی اس آیت میں بعث کا لفظ ماضی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر رسولاً پر عطف کریں تو پھر بعث مضارع کے معنوں میں لینا پڑے گا۔ ایک ہی وقت میں ماضی اور مضارع دونوں کا ارادہ کرنا ممتنع ہے۔
جواب۵… اب آیئے دیکھئے کہ مفسرین حضرات جو (قادیانی دجال سے قبل کے زمانہ کے ہیں) اس آیت کی تفسیر میں کیا ارشاد فرماتے ہیں:
’’ قال المفسرون ھم الا عاجم یعنون بہم غیر العرب ای طائفہ کانت قالہ ابن عباس وجماعۃ وقال مقاتل یعنی التابعین من ھذہ الامۃ الذین لم یلحقوا باوائلھم وفی الجملہ معنی جمیع الا قوال فیہ کل من دخل فی الاسلام بعد النبیa الی یوم القیامۃ فالمراد بالامیین العرب وبالآخرین سواھم من الامم ‘‘
(تفسیر کبیر ص۴ جز۳۰ مطبع مصر)
’’(یعنی آپﷺ عرب و عجم کے لئے معلم و مربی ہیں) مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد عجمی ہیں۔ عرب کے ماسواء کوئی طبقہ ہو یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے اور مقاتل کہتے ہیں کہ تابعین مراد ہیں۔ سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں، اور آخرین سے سوائے عرب کے سب قومیں جو حضورﷺ کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے۔ وہ سب مراد ہیں۔‘‘
’’ وھم الذین جاؤا بعد الصحابۃ الی یوم الدین ‘‘

(تفسیر ابوسعود ج۴ جز ۸ ص ۲۴۷)
’’آخرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہؓ کے بعد قیامت تک آئیں گے۔ (ان سب کے لئے حضورﷺ ہی نبی ہیں۔)‘‘
’’ ھم الذین یأتون من بعدھم الی یوم القیامۃ ‘‘
(کشاف ص ۵۳۰ ج۴)
جواب۶بخاری شریف ص ۷۲۷ ج۲ ،مسلم شریف ص ۳۱۲ ج۲، ترمذی شریف ص ۲۳۲ ج۲، مشکوٰۃ شریف ص ۵۷۶ پر ہے:
’’ عن ابی ہریرۃؓ قال کنا جلوسا عند النبیﷺ فانزلت سورۃ الجمعۃ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم قال قلت من ھم یا رسول اﷲ فلم یراجعہ حتی سال ثلثا وفینا سلمان الفارسی وضع رسول اﷲﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لوکان الایمان عندالثریا لنالہ رجال او رجل من ھؤلائ ‘‘
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ہم نبیﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپﷺ پر سورئہ جمعہ نازل ہوئی۔ وآخرین منھم لما یلحقوابھم تو میں نے عرض کی یارسول اﷲ!وہ کون ہیں؟ آپﷺ نے خاموشی فرمائی۔ حتیٰ کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسیؓ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیتے۔ رجال یا رجل کے لفظ میں راوی کو شک ہے۔ مگر اگلی روایت میں رجال کو متعین کردیا۔‘‘
یعنی عجم یا فارس کی ایک جماعت کثیرہ جو ایمان کو تقویت دے گی اور امور ایمانیہ میں اعلیٰ مرتبہ پر ہوگی۔ عجم و فارس میں بڑے بڑے محدثین، علمائ، مشائخ ،فقہا، مفسرین، مقتدائ، مجددین و صوفیا، اسلام کے لئے باعث تقویت بنے۔ آخرین منھم لما یلحقوابھم سے وہ مراد ہیں۔ ابوہریرہؓ سے لے کر ابو حنیفہؒ تک سبھی اسی رسول ہاشمیﷺ کے دراقدس کے دریوزہ گرہیں۔ حاضر و غائب۔ امیین و آخرین سب ہی کے لئے آپﷺ کا دراقدس وا ہے۔ آئے جس کا جی چاہے۔ اس حدیث نے متعین کردیا کہ آپﷺ کی نبوت عامہ و تامہ و کافہ ہے۔ موجود و غائب عرب و عجم سب ہی کے لئے آپﷺ معلم و مزکی ہیں۔ اب فرمایئے کہ آپﷺ کی بعثت عامہ کا ذکر مبارک ہے یا کسی اور نئے نبی کے آنے کی بشارت؟ ایسا خیال کرنا باطل و بے دلیل دعویٰ ہے۔

قادیانیوں کی پیش کردہ آیت نمبر۴…’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘

قادیانی اجرائے نبوت کی دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ:
’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون (بقرہ:۴) ‘‘
(یعنی وہ پچھلی وحی پر ایمان لاتے ہیں)
جواب ۱… اس جگہ آخرت سے مراد قیامت ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ صراحتاً فرمایا گیا: ’’ وان الدار الآخرۃ لھیی الحیوان (عنکبوت:۶۴) ‘‘ آخری زندگی ہی اصل زندگی ہے: ’’ خسرالدنیا والآخرۃ(حج:۱۱) ‘‘ دنیا و آخرت میں خائب و خاسر: ’’ و لاجر الآخرۃ اکبر لو کانوا یعلمون (النحل:۴۱) ‘‘ا لحاصل قرآن مجید میں لفظ آخرت پچاس سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ مراد جزا اور سزا کا دن ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے تفسیر ابن جریر ص ۱۰۶ جلد۱، درمنثور جلد اول ص ۲۷ پر ہے:
’’ عن ابن عباس (وبالآخرۃ )ای بالبعث والقیامۃ والجنۃ والنار والحساب والمیزان ‘‘
غرض جہاں کہیں قرآن مجید میں آخرت کا لفظ آیا ہے۔ اس سے قیامت کا دن مراد ہے۔ نہ کہ پچھلی وحی۔
جواب۲… مرزا قادیانی کہتا ہے:
’’طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزماں پر جو کچھ اتارا گیا ہے ایمان لائے … ’’ و بالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی۔ یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا مانتا ہو۔‘‘
(الحکم نمبر ۳۴،۳۵ ج۸، ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۴ء دیکھو خزینۃ العرفان ص ۷۸ ج۱ ،از مرزا قادیانی)
اسی طرح دیکھو الحکم نمبر۲ ج۱۰، ۱۷ جنوری ۱۹۰۶ء ص ۵ کالم نمبر۲،۳۔ اس میں مرزا قادیانی نے: ’’ و بالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘کا ترجمہ:
’’اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔کیا ہے۔ اور پھر لکھتا ہے: ’’قیامت پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘
تفسیر از حکیم نورالدین خلیفہ قادیان:’’اور آخرت کی گھڑی پر یقین کرتے ہیں۔ ‘‘
(ضمیمہ بدر ج۸ نمبر ۱۵ ‘ص۳‘ مورخہ ۴؍فروری ۱۹۰۹ئ)
لہٰذا مرزائیوں کا: ’’ وبالآخرۃ ھم یوقنون ‘‘ کا معنی آخری وحی کرنا جہاں تحریف وزندقہ ہے۔ وہاں قادیانی اکابر کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔
جواب۳… قادیانی علم و معرفت سے معریٰ ہوتے ہیں۔ کیونکہ خود مرزا قادیانی بھی محض جاہل تھا۔ اسے بھی تذکیر و تانیث واحد و جمع کی کوئی تمیز نہ تھی۔ ایسے ہی یہاں بھی ہے کہ الآخرۃ تو مؤنث ہے۔ جبکہ لفظ وحی مذکر ہے۔ اس کی صفت مونث کیسے ہوگی؟ دیکھئے قرآن مجید میں ہے: ’’ ان الدارالآخرۃ لھی الحیوان ‘‘ دیکھئے دارالآخرۃ مونث واقع ہوا ہے۔ اس لئے ’’ لھیی ‘‘ کی مونث ضمیر آئی ہے اور لفظ وحی کے لئے مذکر کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے۔ تو پھر کوئی سرپھرا ہی الآخرۃ کو آخری وحی قرار دے سکتا ہے؟۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top