خرِّ دجّال ،دآبّۃ الارض ، دجّال
احادیث میں بیان فرمودہ ان مذکورہ بالا اصطلاحات کی جو توجیہات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمائیں ۔ راشد علی نے ان کو مورد اعتراض ٹھہرائے ہوئے اس طرح درج کیا ہے۔
"Khar-e-Dajjal is the railway train, dabbatul ard is Muslim religious scholars and Dajjal is the christian priests etc."(Beware...)
ترجمہ:۔خرِ دجّال سے مراد ریل گاڑی ، دآبّۃ الارض سے مراد مسلمان مذہبی علماء اور دجّال سے مرد عیسائی منّاد ہیں۔
گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان امور کی غلط توجیہات کی ہیں لہذایہ قابلِ اعتراض ہیں۔
اگر راشد علی کو ان توجیہات پر اعتراض ہے یا اس کے نزدیک یہ توجیہات درست نہیں ہیں تو اسے چاہئے تھا کہ ان کو دلائل کے ذریعہ ردّ کرتا اور اپنی توجیہات بھی پیش کرتا تا کہ قارئین اس کی جہالت کا اندازہ تو لگاتے۔
خرِّ دجّال
دجّال کے گدھے کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی سے کیا مراد ہے؟ جب ہم اس گدھے کی تفصیلی نشانیوں کے بارہ میں جستجو کرتے ہیں تو احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ’’یخرج الدجال علی حمار اقمر ما بین اذنیہ سبعون باعاً ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال ۔ الفصل الثالث ۔ مطبوعہ دینی کتب خانہ اردو بازار لاہور)
یعنی دجّال ایک ایسے گدھے پر سوا ر ، خروج کرے گا کہ جو روشن سفید رنگ والا ہو گا اور اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستّر باع کا فاصلہ ہو گا۔اور ایک اور روایت میں ہے ’’ تحتہ حمار اقمر طول کل اذن من اذنیہ ثلاثون ذراعاً مابین حافر حمارہ الی الحافر مسیرۃ یوم ولیلۃ، تطوی لہٗ الارض منھلاً یتناول السحاب بیمینہ ویسبق الشمس الی مغیبھا یخوض البحر الی کعبیہ امامہ جبل دخان وخلفہ جبل اخضر ینادی بصوت لہ یسمع بہ مابین الخافقین الیّ اولیائی الیّ اولیائی، الیّ احبائی الیّ احبائی ‘‘ (منتخب کنزالعمال۔بر حاشیہ مسند احمد بن حنبل۔الجزء السادس ۔صفحہ ۵۳۔دارالذکر للطباعۃ والنشربیروت)
یعنی اس (دجّال) کی سواری ایک ایسا گدھا ہو گا جس کا رنگ سفید ہو گا اور اس کے ایک کان اور دوسرے کان کے درمیان تیس ہاتھ کا فاصلہ ہو گا اس کے ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں کے درمیان ایک رات اور ایک دن مسافت کا فاصلہ پڑے گا۔ اس کے لئے زمین سمیٹی جائے گی (یعنی وہ بڑی سرعت سے سفر کرے گا) وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام پر اس سے پہلے پہنچ جائے گا۔ سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک پہنچے گا۔ اس کے آگے سیاہ دھوئیں کا پہاڑ ہو گا تو پیچھے سبز رنگ (کے دھوئیں) کا ۔ وہ ایسی آواز دے کر بلائے گا کہ اس کو زمین وآسمان کے درمیان سب سنیں گے۔ وہ کہے گا اے میرے دوستو! براہ کرم آجاؤ۔ اے میرے پیارو ! براہ مہربانی آجاؤ۔
یہ اس گدھے کی نشانیوں میں سے ہیں جس پر دجّال سوار ہو گا اگر ہم یہ کہیں کہ ایسا گدھا ظاہر میں ہو گا اور یہ صفات اس میں پائی جائیں گی تو یہ بات بعید از عقل ہو گی۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ ایک ایسا گدھا پیدا ہو جس کے دونوں کانوں کے درمیان کا فاصلہ تیس ہاتھ ہو اورجو رات دن بغیر تھکاوٹ اور ماندگی کے چلتا رہے۔ وہ سواریوں کو اونچی آواز سے آواز بھی دیتا رہے۔ وہ سمندر میں چلے تو سمندر کا پانی اس کے ٹخنوں تک ہو ۔یعنی اس کی اونچائی کا اندازہ کریں کہ ایک عمیق سمندر کا پانی اگر صرف اس کے ٹخنوں تک پہنچے گا تو اس کی ٹانگوں کی اصل لمبائی کتنی ہو گی؟ اور وہ اتنی تیزی سے چلے کہ سورج سے بھی پہلے اس کے غروب ہونے کی جگہ پہنچ جائے۔ پھر یہ سوال بھی ہے کہ دنیا میں وہ گدھی کہاں سے آئے گی جو اس قسم کا عجیب وغریب اور طویل وعریض گدھا جنے گی؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں ایک نئی سواری کی طرف اشارہ تھا ۔جس نے آخری زمانہ میں ایجاد ہونا تھا اور اس کی وجہ سے سفر میں آسانی اور سرعت پیدا ہونی تھی۔ پیشگوئی کے مطابق اس سواری کی آواز بھی اس قدر بلند ہونی تھی کہ جو زمین وآسمان میں سنائی دینی تھی ۔اس پیشگوئی میں یہ واضح اشارہ بھی تھا کہ اس سواری کی تیز رفتاری اور اس پر سفر کی سہولت کی وجہ سے لوگ دوسری سواریوں سے بے نیازہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ اونٹ جو کہ پہلے عموماً لمبے سفروں کے لئے استعمال ہوتے تھے ان کو بھی ترک کر دیا جائے گا۔چنانچہ اسی کی طرف خداتعالٰی نے اشارہ فرمایا ہے۔ کہ
’’ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ ‘‘ (التکویر :۵)
ترجمہ : اور جب اونٹنیاں معطّل ہوں گی۔
اور فرمایا
وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً وَیَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ (النحل :۹)
ترجمہ: اور اس نے گھوڑوں ، خچروں اور گدھوں کو تمہاری سواری کے لئے اور زینت کے لئے (پیدا کیا ہے) اور وہ (تمہارے لئے سواری کا مزید سامان بھی) جسے تم جانتے نہیں پیدا کرے گا۔
یعنی اللہ تعالیٰ بعض ایسی سواریاں پیدا کرے گا جن کی حقیقت وماہیت کا ابھی علم نہیں ، وہ بعد میں ظاہر ہوں گی ۔اور حدیث میں بھی آیا ہے کہ
’’ لیترکنّ القلاص فلا یُسعٰی علیھا ‘‘(صحیح مسلم کتاب الفتن ۔ باب نزول عیسی بن مریم )
اس بارہ میں صاحب مرقاۃ شرح مشکوٰۃ نے لکھا ہے۔
’’والمعنی انہ یترک العمل علیھا استغناء عنھا لکثرۃ غیرھا ‘‘(مرقاۃ المفاتیح۔ الجزء الخامس صفحہ ۲۲۱۔مکتبہ میمنیہ مصر)
کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان سے کام لینا چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ اور بہت سی سواریاں پیدا ہو جائیں گی جو ان سے مستغنی کر دیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ پیشگوئیاں اس قدر حقیقت افروز اور سچّی ہیں کہ واقعۃً آج لوگ اونٹوں سے مستغنی ہو چکے ہیں۔ کیونکہ یَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ کے مطابق قسما قسم کی نئی سواریاں ایجاد ہو چکی ہیں ، ریل گاڑیاں ، بحری جہاز ، ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ سواریوں نے ان کی جگہ لے لی ہے ۔ یہ سب سواریاں دن رات بڑی تیزی سے چلتی ہیں۔ دھواں اگلتی ہیں ، بڑی اونچی آواز سے اپنے مسافروں کو بلاتی ہیں ، نہ وہ تھکتی ہیں اور نہ ماندہ ہوتی ہیں ۔
رہا دجّال کے گدھے کا سمندر میں داخل ہونا اور پانی کا اس کے ٹخنوں تک پہنچنا تو یہ ہر شخص جانتا ہے کہ بحری جہاز جب سمندر میں چلتا ہے تو پانی میں ٹخنوں تک جاتا ہے باقی حصّہ اوپر رہتا ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی اس مذکورہ بالا پیشگوئی کی جو توجیہہ اور تفسیر بیان فرمائی ہے وہی اسے سچّا اور برحق ثابت کرتی ہے۔ وہی حقیقت افروز توجیہہ ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں ۔
’’ از انجملہ ایک بڑی بھاری علامت دجّال کی، اس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ سترّ باع کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز حرکت کرتا ہے ۔ اس جگہ ہمارے نبی ﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام ومقتدایہی دجّالی گروہ ہے اس لئے ان گاڑیوں کو دجّال کا گدھا قرار دیا گیا۔ اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا کہ علاماتِ خاصّہ دجّال کے انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ انہیں لوگوں نے مکروں اور فریبوں کا اپنے وجود پر خاتمہ کر دیا ہے اور دین اسلام کو وہ ضرر پہنچایا ہے جس کی نظیر دنیا کے ابتداء سے نہیں پائی جاتی اور انہیں لوگوں کے متبعین کے پاس وہ گدھا بھی ہے جو دخان کے زور سے چلتا ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۹۳)
دآبّۃ الارض
دآبّۃالارض یعنی زمین کے کیڑے کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے جو معنے اس کی سچائی کو ثابت کر سکتے تھے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہی معنے کئے ہیں چنانچہ آپ نے جہاں اس کے تعبیری معنے یہ کئے کہ اس سے مراد زمینی علوم سے آراستہ مگر آسمانی روح سے عاری انسان مراد ہیں وہاں اس کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے زمین کا ایک کیڑا مراد ہے جو طاعون کی شکل میں ظاہر ہوا۔ چنانچہ آپ ؑ کے پیش فرمو دہ دونوں معنوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ آپ فرماتے ہیں ۔
’’ دآبّۃ الارض سے مراد کوئی لایعقل جانور نہیں بلکہ بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ‘ آدمی کا نام ہی دآبّۃ الارض * ہے ۔ (* نوٹ : آثار القیامہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا گیا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دآبّۃ الارض آپ ہی ہیں اور آپ نے جواب دیا کہ دآبّۃ الارض میں تو کچھ چاریاپوں اور کچھ پرندوں کی بھی مشابہت ہو گی مجھ میں وہ کہاں ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ دآبّۃ الارض اسم جنس ہے جس سے ایک طائفہ مراد ہے۔ منہ) اور اس جگہ لفظ دآبّۃ الارض سے ایک ایسا طائفہ انسانوں کا مراد ہے جو آسمانی روح اپنے اندر نہیں رکھتے لیکن زمینی علوم وفنون کے ذریعہ سے منکرین اسلام کو لاجواب کرتے ہیں اور اپنا علم کلام اور طریق مناظرہ تائید دین کی راہ میں خرچ کر کے بجان ودل خدمت شریعت غرّا بجا لاتے ہیں سو وہ چونکہ در حقیقت زمینی ہیں آسمانی نہیں ۔ اور آسمانی روح کامل طور پر اپنے اندر نہیں رکھتے اس لئے دآبّۃ الارض کہلاتے ہیں اور چونکہ کامل تزکیہ نہیں رکھتے اور نہ کامل وفاداری۔ اس لئے چہرہ ان کا انسانوں کا ہے مگر بعض اعضاء ان کے بعض دوسرے حیوانات سے مشابہ ہیں۔ اسی طرف اللہ جلّشانہ اشارہ فرماتا ہے وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُھُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ (النمل :۸۳)۔ یعنی جب ایسے دن آئیں گے جو کفار پر عذاب نازل ہو اور ان کا وقت مقدر قریب آجائے گا تو ہم ایک گروہ دآبّۃ الارض کا زمین سے نکالیں گے وہ گروہ متکلمین کا ہو گا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیانِ باطلہ پر حملہ کرے گا۔ یعنی وہ علماء ظاہر ہوں گے جن کو علمِ کلام اور فلسفہ میں یدطولیٰ ہو گا۔ وہ جابجا اسلام کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور اسلام کی سچائیوں کو استدلالی طور پر مشارق مغارب میں پھیلائیں گے اور اس جگہ اخرجنا کا لفظ اس وجہ سے اختیار کیا کہ آخری زمانہ میں ان کا خروج ہو گا نہ حدوث یعنی تخمی طور پر یا کم مقدار کے طور پر تو پہلے ہی سے تھوڑے بہت ہر یک زمانہ میں وہ پائے جائیں گے لیکن آخری زمانہ میں بکثرت اور نیز اپنےکمال لائق کے ساتھ پیدا ہوں گے اور حمایت اسلام میں جا بجا واعظین کے منصب پر کھڑے ہو جائیں گے اور شمار میں بہت بڑھ جائیں گے۔ ‘‘(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۶۹ ، ۳۷۰ )
دآبّۃ الارض کے دوسرے معنوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔
’’بالآخر میں ایک اور رؤیا لکھتا ہوں جو طاعون کی نسبت مجھے ہوئی اور وہ یہ کہ میں نے ایک جانور دیکھا جس کا قد ہاتھی کے قد کے برابر تھا مگر منہ آدمی کے منہ سے ملتا تھا اور بعض اعضاء دوسرے جانوروں سے مشابہ تھے اور میں نے دیکھا کہ وہ یوں ہی قدرت کے ہاتھ سے پیدا ہو گیا اور میں ایک ایسی جگہ پر بیٹھا ہوں جہاں چاروں طرف بن ہیں جن میں بیل گدھے گھوڑے کتّے سؤر بھیڑیے اونٹ وغیرہ ایک قسم کے موجود ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ سب انسان ہیں جو بدعملوں سے ان صورتوں میں ہیں۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھی کی ضخامت کا جانور جو مختلف شکلوں کا مجموعہ ہے جو محض قدرت سے زمین میں سے پیدا ہو گیا ہے وہ میرے پاس آبیٹھا ہے اور قطب کی طرف اس کا مونہہ ہے خاموش صورت ہے آنکھوں میں بہت حیا ہے اور بار بار چند منٹ کے بعد ان بنوں میں سے کسی بن کی طرف دوڑتا ہے اور جب بن میں داخل ہوتا ہے تو اس کے داخل ہونے کے ساتھ ہی شور قیامت اٹھتا ہے اور ان جانوروں کو کھانا شروع کرتا ہے اور ہڈیوں کے چابنے کی آواز آتی ہے۔ تب وہ فراغت کر کے پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے اور شاید دس منٹ کے قریب بیٹھا رہتا ہے اور پھر دوسرے بن کی طرف جاتا ہے اور وہی صورت پیش آتی ہے جو پہلے آئی تھی اور پھر میرے پاس آبیٹھتا ہے۔ آنکھیں اس کی بہت لمبی ہیں اور میں اس کو ہر ایک دفعہ جو میرے پاس آتا ہے خوب نظر لگا کر دیکھتا ہوں اور وہ اپنے چہرہ کے اندازہ سے مجھے یہ بتلاتا ہے کہ میرا اس میں کیا قصور ہے میں مامور ہوں اور نہایت شریف اور پرہیزگار جانور معلوم ہوتا ہے اور کچھ اپنی طرف سے نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو اس کو حکم ہوتا ہے۔ تب میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی طاعون ہے اور یہی وہ دآبّۃ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَاِذَا وَقَعَ القَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ تُکَلِّمُھُمْ اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَایُوْقِنُوْنَ ۔ اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت ان پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے۔ دیکھو سورۃ النمل الجزو نمبر ۲۰۔
اور پھر آگے فرمایا ہے وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجاً مِمَّنْ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَھُُمْ یُوْزَعُوْنَ حَتّٰی اِذَا جَآءُ وْقَالَ اَکَذَّبْتُمں بِاٰیٰتِی وَلَمْ تُحِیْطُوْا بِھَا عِلْماً اَمَّا ذَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَھُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ ترجمہ ۔ اس دن ہم ہر ایک امت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کو ہم جدا جدا جماعتیں بنا دیں گے یہاں تک کہ جب وہ عدالت میں حاضر کئے جائیں گے تو خدائے عزّوجلّ ان کو کہے گا کہ کیا تم نے میرے نشانوں کی بغیر تحقیق کے تکذیب کی یہ تم نے کیا کیا اور ان پر بوجہ ان کے ظالم ہونے کے حجت پوری ہو جائے گی اور وہ بول نہ سکیں گے۔ سورۃ النمل الجزو نمبر۲۰۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دآبّۃ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دآبّۃ الارض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ۔ ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہو سکتی ہے اسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں اور اس بیان پر کہ دآبّۃ الارض درحقیقت مادہ طاعون کا نام ہے جس سے طاعون پیدا ہوتی ہے مفصّلہ ذیل قرائن اور دلائل ہیں۔
(۱) اول یہ کہ دآبّۃ الارض کے ساتھ عذاب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ یعنی جب ان پر آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ حجت پوری ہو جائے گی تب دآبّۃ الارض زمین میں سے نکالا جائے گا ۔ اب ظاہر ہے کہ دآبّۃ الارض عذاب کے موقع پر زمین سے نکالا جائے گا نہ یہ کہ یوں ہی بیہودہ طور پر ظاہر ہو گا جس کا نہ کچھ نفع نہ نقصان اور اگر کہو کہ طاعون تو ایک مرض ہے مگر دآبّۃ الارض لغوی معنوں کے رو سے ایک کیڑا ہونا چاہئے جو زمین میں سے نکلے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حال کی تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ طاعون کو پیدا کرنے والا وہی ایک کیڑا ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے بلکہ ٹیکا لگانے کے لئے وہی کیڑے جمع کئے جاتے ہیں اور ان کا عرق نکالا جاتا ہے اور خوردبین سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی شکل یوں ہے(۰۰)یعنی بہ شکل دو نقطہ ۔ گویا آسمان پر بھی نشان کسوف خسوف دو کے رنگ میں ظاہر ہوا اور ایسا ہی زمین میں۔
(۲) دوسرا قرینہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض کی تفسیر ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں یہ مرکّب لفظ آیا ہے اس سے مراد کیڑا لیا گیا ہے مثلاً یہ آیت فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ المَوْتَ مَادَلَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہ اِلاَّ دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہٗ یعنی ہم نے سلیمان پر جب موت کا حکم جاری کیا تو جِنّات کو کسی نے ان کے مرنے کا پتہ نہ دیا۔ مگر گھن کے کیڑے نے کہ جو سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا۔ سورۃ السباء الجزو نمبر ۲۲ ۔ اب دیکھو اس جگہ بھی ایک کیڑے کا نام دآبّۃ الارض رکھا گیا۔ بس اس سے زیادہ دآبّۃ الارض کے اصلی معنوں کی دریافت کے لئے اور کیا شہادت ہو گی کہ خود قرآن شریف نے اپنے دوسرے مقام میں دآبّۃ الارض کے معنے کیڑا کیا ہے۔ سو قرآن کے برخلاف اس کے معنی کرنا یہی تحریف اور الحاد اور دجل ہے۔
(۳) تیسرا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نشانوں کی تکذیب کے وقت میں کوئی امام الوقت موجود ہونا چاہئے کیونکہ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ کا فقرہ یہی ہے کہ اتمام حجت کے بعد یہ عذاب ہو اور یہ تو متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خروج دآبّۃ الارض آخری زمانہ میں ہو گا جبکہ مسیح موعود ظاہر ہو گا تا کہ خدا کی حجت دنیا پر پوری کرے۔ پس ایک منصف کو یہ بات جلد تر سمجھ آسکتی ہے کہ جبکہ ایک شخص موجود ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور آسمان اور زمین میں بہت سے نشان اس کے ظاہر ہو چکے ہیں تو اب بلاشبہ دآبّۃ الارض یہی طاعون ہے جس کا مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہونا ضروری تھا اور چونکہ یاجوج ماجوج موجود ہے اور مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ کی پیشگوئی تمام دنیا میں پوری ہو رہی ہے اور دجّالی فتنے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں اور پیشگوئی یترکن القلاص فلا یسعی علیھا بھی بخوبی ظاہر ہو چکی ہے۔ اور شراب اور زنا اور جھوٹ کی بھی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں میں یہودیت کی فطرت بھی جوش مار رہی ہے تو صرف ایک بات باقی تھی جو دآبّۃ الارض زمین میں سے نکلے سو وہ بھی نکل آیا۔ اس بات پر جھگڑنا جہالت ہے کہ حدیث سے معلو م ہوتا ہے کہ فلاں جگہ پھٹے گی اور دآبّۃ الارض وہاں سے سر نکالے گا پھر تمام دنیا میں چکر مارے گا کیونکہ اکثر پیشگوئیوں پر استعارات کا رنگ غالب ہوتا ہے جب ایک بات کی حقیقت کھل جائے تو ایسے اوہامِ باطلہ کے ساتھ حقیقت کو چھوڑنا کمال جہالت ہے اسی عادت سے بدبخت یہودی قبول حق سے محروم رہ گئے۔ ‘‘(نزول المسیح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۱۵ تا ۴۱۸)
دجّال
آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دجّال کا خروج ہو گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ما من نبی الا قد انذر امتہ الاعور الکذاب الا انہ اعور و ان ربکم لیس باعور، مکتوب بین عینیہ ک ف ر وفی روایۃ وانہ یجیء معہ بمثل الجنۃ والنار فالتی یقول انھا الجنۃ ھی النار وفی روایۃ ان الدجال یخرج وان معہ ماء ونارا فاما الذی یراہ الناس ماء فنار تحرق واما الذی یراہ الناس نار فماء بارد وعذب وان الدجال ممسوح العین علیہا ظفرۃ غلیظۃ مکتوب بین عینیہ کافر یقراہ کل مومن کاتب وغیر کاتب وفی روایۃ ان الدجال اعورالعین الیمنی فمن ادرکہ منکم فلیقرا علیہ فواتح سورۃ الکھف فانھا جوارکم من فتنہ ۔وفی روایۃ ویامر السماء فتمطر ویامر الارض فتنبت ویمر بالجدبۃ فیقول لھا اخرجی کنوزک فتتبعہ کنوزھا وفی روایۃ یقول الدجال ارایتم ان قتلت ھذا ثم احییتہ ھل تشکون فی الامر فیقولون لا فیقتلہ ثم یحییہ وفی روایہ ان معہ جبل خبز ونھر ماء وفی روایۃ یخرج الدجال علی حمار اقمر ما بین اذنیہ سبعون باعاً۔ (مشکوۃ کتاب الفتن۔باب العلامات بین یدی السّاعۃ و ذکر الدجّال۔مطبوعہ دینی کتب خانہ لاہور)
یعنی ’’ کوئی نبی نہیں گذرا۔ جس نے اپنی امّت کویک چشم کذّاب سے نہ ڈرایا ہو۔ خبر دار ۔ ہوشیار ہو کر سن لو کہ وہ یک چشم ہے۔ مگر تمہارا ربّ یک چشم نہیں۔ اس کی آنکھوں کے درمیان ک ۔ ف ۔ ر ۔ لکھا ہوگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے ساتھ مثل جنّت اور نار کے لائے گا ۔ مگر جسے وہ جنّت کہے گا وہ دراصل نار ہو گی اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال خروج کرے گا اور اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوں گے مگر وہ جو لوگوں کو پانی نظر آئے گا دراصل جلانے والی آگ ہو گی اور وہ جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہو گا اور دجّال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہو گی اور اس پر ایک بڑا ناخنہ سا ہو گا اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مومن پڑھے گا خواہ وہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا ۔ پس جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ کیونکہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات اس کے فتنے سے تم کو بچانے والی ہوں گی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال آسمان کو حکم دے گا کہ پانی برسا تو وہ برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا کہُ اگا تو وہ اُگائے گی۔ اور وہ ویرانے پر گذرے گا۔ اور اسے حکم دے گا اپنے خزانے باہر نکال تو اس کے خزانے باہر نکل کر اس کے پیچھے ہو لیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کر دوں اور پھر زندہ کر دوں۔ تو کیا تم میرے امر میں شک کرو گے لوگ کہیں گے نہیں پھر وہ اسے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک پہاڑ روٹیوں کا ہو گا اور نہر پانی کی ہو گی اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال ایک سفید گدھے پر ظاہر ہو گا اور وہ گدھا ایسا ہو گا کہ اس کے دو کانوں کے درمیان ستّر گز کا فاصلہ ہو گا۔‘‘
یہ دجّال کی کیفیت ہے جو مشکٰوۃ کی مختلف روائیتوں سے بطور اختصار کے جمع کی گئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دجّال ظاہر ہو گیا ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے ہمیں دجّال کے لفظ پر غور کرنا چاہئے کہ عربی زبان میں اس کے کیا معنی ہیں ۔سو جاننا چاہئے کہ عربی زبان میں دجّال کا لفظ چھ مفہوم پر مشتمل ہے۔
اوّل دجّال کے معنے کذّاب یعنے سخت جھوٹے کے ہیں۔
دوسرے ۔ دجّال کے معنے ڈھانپ لینے والے کے ہیں کیونکہ عربی میں کہتے ہیں دجل البعیر یعنی اس نے اونٹ کے جسم پرھناء کو مل دیا ایسے طور پر کہ کوئی جگہ خالی نہ رہی۔ چنانچہ تاج العروس میں لکھا ہے کہ دجّال اسی سے نکلا ہے لانہ یعم الارض کما ان الھناء یعم الجسد کیونکہ وہ زمین کو ڈھانپ لے گا جس طرح ھناء سارے بدن کو ڈھانک لیتی ہے۔
تیسرے ۔ دجّال کے معنی زمین میں سیرو سیاحت کرنے والے ہیں چنانچہ کہتے ہیں دجل الرجل اذا قطع نواحی الارض سیراً یعنی دجل الرّجل اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی نے تمام روئے زمین کو اپنی سیرو سیاحت سے قطع کر لیا ہو۔
چوتھے۔ دجّال کے معنے بڑے مالدار اور خزانوں والے کے ہیں کیونکہ دجّال سونے کو کہتے ہیں۔
پانچویں۔ دجّال ایک بڑے گروہ کو کہتے ہیں التی تغطی الارض بکثرۃ اھلہا جو اپنے اہل کی کثرت سے روئے زمین کو ڈھانک لے۔
چھٹے ۔ دجّال اس گروہ کو کہتے ہیں التی تحمل المتاع التجارۃ جو تجارت کے اموال اٹھائے پھرے۔ یہ تمام معنی لغت کی نہایت مستند اور مشہور اور مبسوط کتاب تاج العروس میں بیان ہوئے ہیں پس ان معنوں کے لحاظ سے دجّال کے معنے ہوئے۔
’’ ایک کثیر التعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو۔ اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں اٹھائے پھرے اور جو نہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیرو سیاحت سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو اور گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو اور وہ مذہب کے لحاظ سے ایک نہایت ’’ جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو ‘‘ ۔
اب اس کیفیت کے ساتھ اس کیفیت کو ملائیں جو حدیث نبویؐ میں بیان ہوئی ہے اور جس کا خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے تو فوراً بلا تامّل طبیعت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دجّال سے مغربی ممالک کی مسیحی اقوام مراد ہیں جو اس زمانہ میں تمام روئے زمین پر چھا رہی ہیں اور جن میں تمام مذکورہ بالا حالات پائے جاتے ہیں ۔ان کا یک چشم ہونا ان کی مادیت ہے جس نے ان کے دین کی آنکھ کو بند کر رکھا ہے ہاں دنیا کی آنکھ خوب کھلی اور روشن ہے ان کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہونے سے ان کا بد یہی البطلان ،الوہیتِ مسیحؑ کا عقیدہ مراد ہے جسے ہر سچاّمومن ،خواہ خواندہ ہو یا نا خواندہ پڑھ سکتا ہے اور ان کا زمین وآسمان میں تصرّفات کرنا اور خزانے نکالنا اور اماتت واحیا کرنا وغیرہ ظاہر ہے کہ ان کے علوم جدیدہ سائنس وغیرہ کی طاقتوں کی طرف مجازی طور پر اشارہ ہے ورنہ از روئے حقیقت تو یہ امور سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور ان کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے اور دجّال کے ساتھ جنّت ودوزخ کا ہونا یہ ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ ہو جاتا ہے ان کی بات مانتا ہے اور ان کے مذہب کو اختیار کرتا ہے وہ ظاہراً ایک جنّت میں داخل ہو جاتا ہے گو دراصل وہ دوزخ ہے اور جو ان کے بد خیالات سے الگ رہتا ہے اس کو ظاہراً ایک دوزخ برداشت کرنا پڑتا ہے گو دراصل وہ دوزخ جنتّ ہے ۔اور ان کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر تو ایک بیّن بات ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں ۔اور دجّال کے گدھے سے جس کا طول ستر گز ہے ظاہری گدھا مراد نہیں بلکہ اس سے ریل مراد ہے جو ان لوگوں کی ایجاد کردہ ہے۔ اب دیکھیں کہ کس طرح یہ تمام باتیں ان میں پائی جاتی ہیں اور یہ جو کہا گیا کہ دجّال آخری زمانہ میں خروج کرے گا تو اس سے یہ مراد ہے کہ گو وہ پہلے سے موجود ہو گا جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے مگر پہلے وہ اپنے وطن میں گویا محصور ہو گا لیکن قیامت کے قریب وہ زور کے ساتھ باہر نکلے گا اور تمام روئے زمین پر چھا جائے گا ۔سو بعینہ اسی طرح ہوا کہ مغربی قومیں پہلے اپنے وطن میں سوئی پڑی تھیں۔ مگر اب بیدار ہو کر تمام روئے زمین پر چھا گئی ہیں۔
یہ کہنا کہ دجّال کو تو آنحضرت ﷺ نے ایک آدمی کی شکل میں دیکھا تھا۔ پس وہ ایک جماعت کی صورت میں کس طرح مانا جا سکتا ہے ایک باطل شبہ ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺنے یہ نظارے بصورتِ کشف اور خواب دیکھے تھے جیسا کہ مثلاً حدیث بخاری ( کتاب الفتن۔باب ذکر الدّجّال) کے بعض الفاظ یعنی بینما انا نائم اطوف بالکعبۃ یعنی ’’ میں نے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا‘‘ کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔اور ظاہر ہے کہ خواب عموماً تاویل طلب ہوتی ہے اور اس میں کئی دفعہ ایک فرد دکھایا جاتا ہے مگر مراد ایک جماعت ہوتی ہے مثلاً سورہ یوسف میں آتا ہے کہ عزیزِ مصرنے سات سالہ قحط کے متعلق سات دبلی گائیں دیکھیں۔ جس کی تعبیر یہ تھی جیسا کہ حضرت یوسف نے خود بیان کیا ہے کہ ایک گائے ایک سال کے تمام مویشیوں بلکہ تمام جانداروں کے قائم مقام ہے اور اس کا دبلا ہونا قحط کو ظاہر کرتا ہے اور سات دبلی گائیوں کا ہونا سات سالہ قحط کو ظاہر کرتا ہے ۔ گویا ایک گائے تمام مویشیوں کے قائم مقام ہو کر دکھائی گئی اسی طرح آنحضرت ﷺکو دجّال کا نظارہ ایک آدمی کی شکل میں دکھایا گیا ۔ ہمارے اس دعویٰ کے دلائل یہ ہیں۔
(۱) لغت میں دجّال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں۔ پس وہ ایک فرد نہیں ہو سکتا۔
(۲) جو فتنے دجّال کی طرف منسوب کئے گئے ہیں اور جو طاقتیں اس کے اندر بیان کی گئی ہیں ان کا ایک فردِ واحد میں پایا جانا محالاتِ عقلی سے ہے۔
(۳) دجّال کی کیفیت جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں مجاز اور استعارہ کا دخل ہے ورنہ نعوذ باللہ دجّال میں بعض خدائی طاقتیں ماننی پڑتی ہیں۔
(۴) دجّال کی تمام کیفیات عملًا عیسائی اقوام میں پائی جاتی ہیں۔
(۵) دجّال کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ بتایا گیا ہے ۔اور ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی اقوام کے مادیّت اور فلسفہ نے جو فتنہ آجکل برپا کر رکھا ہے ایسا فتنہ دین وایمان کے لئے نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آیندہ خیال میں آسکتا ہے اور سورہ فاتحہ سے بھی سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کا فتنہ ثابت ہوتا ہے۔
(۶) آنحضرت ﷺنے ابنِ صیّاد کے متعلق جو ایک یہودی لڑکا تھا اور بعد میں مسلمان ہو گیا۔ دجّال ہونے کا شبہ کیا ۔ بلکہ حضرت عمرؓ نے آپ ؐ کے سامنے اس بات پر قسم کھائی کہ یہی’ الدّجال‘ ہے اور آپ نے اس کی تردید نہیں فرمائی (ملاحظہ ہو مشکٰوۃ باب قصّہ ابنِ صیّاد) حالانکہ ابنِ صیّاد میں دجّال کی علامات ماثورہ میں سے اکثر بالکل مفقود تھیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام اس پیشگوئی کو مجازی رنگ میں سمجھتے تھے اور تمام علامات کا ظاہر میں جسمانی طور پر پایا جانا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے۔
(۷) آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ دجّال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورہ کہف کی ابتدائی آیات مطالعہ کرنی چاہئیں۔ اب سورہ مذکور کی ابتدائی آیات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں سوائے نصارٰی کے باطل خیالات کے ردّ کے اور کوئی مضمون نہیں پاتے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَہٗ عِوَجاًO قَیِّماً لِّیُنْذِرَ بَاْساً شَدِیْداً مِّنْ لَّدُنْہُ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْراً حَسَناً O مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَداً O وَیُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً O مَالَھُمْ بَہ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِٰابَآئِ ھِمْ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُولُوْنَ اِلاَّ کَذِباً O فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاً O اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً O وَاِنَّا لَجَاعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْدًا جُرُزاً O( الکہف ۔ آیات ۲ تا ۹) یعنی خدا نے اپنے رسول پر ایک کتاب نازل فرمائی ہے یہ کتاب اس قوم کو ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اتری ہے جو خدا کا بیٹا مانتے ہیں یہ بہت بڑے فتنہ کی بات اور جھوٹ ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اب اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہو گا کہ دجّال سے مراد یہی مسیحی اقوام ہیں۔ جنہوں نے اس زمانہ میں غیر معمولی زور پکڑا ہے اور ساری دنیا پر چھا گئی ہیں اور اس کی دیگر علامات ، ان کی مادیّت اور فلسفہ اور باطل عقائد ہیں جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔
(۸) مسلم کی ایک حدیث میں لکھا ہے کہ تمیم داری نے دجّال کو گرجے میں بندھا ہوا دیکھا تھا (یعنی بحالتِ کشف یا رؤیا) اور اس نے آنحضرت ﷺ سے یہ خبر بیان کی تھی اور پھر آپ ؐ نے یہ خبر لوگوں کو سنوائی تھی۔ پس دیکھ لیں کہ گرجے سے نکلنے والا کون ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو معنے دجال، دآبّۃالارض اور خرِ دجّال کے کئے ہیں وہی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی حقانیت کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ انہی معنوں میں یہ پیشگوئیاں اپنی پوری تفصیل کے ساتھ پوری ہو چکی ہیں اور ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کو ثابت کر چکی ہیں۔
الغرض راشد علی اور اس کے پیر کا اعتراض بغض اور جھوٹ پر مبنی ہے۔
اور پھر آگے فرمایا ہے وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوْجاً مِمَّنْ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَھُُمْ یُوْزَعُوْنَ حَتّٰی اِذَا جَآءُ وْقَالَ اَکَذَّبْتُمں بِاٰیٰتِی وَلَمْ تُحِیْطُوْا بِھَا عِلْماً اَمَّا ذَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَھُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ ترجمہ ۔ اس دن ہم ہر ایک امت میں سے اس گروہ کو جمع کریں گے جو ہمارے نشانوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کو ہم جدا جدا جماعتیں بنا دیں گے یہاں تک کہ جب وہ عدالت میں حاضر کئے جائیں گے تو خدائے عزّوجلّ ان کو کہے گا کہ کیا تم نے میرے نشانوں کی بغیر تحقیق کے تکذیب کی یہ تم نے کیا کیا اور ان پر بوجہ ان کے ظالم ہونے کے حجت پوری ہو جائے گی اور وہ بول نہ سکیں گے۔ سورۃ النمل الجزو نمبر۲۰۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہی دآبّۃ الارض جو ان آیات میں مذکور ہے جس کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونا ابتداء سے مقرر ہے یہی وہ مختلف صورتوں کا جانور ہے جو مجھے عالم کشف میں نظر آیا اور دل میں ڈالا گیا کہ یہ طاعون کا کیڑا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا نام دآبّۃ الارض رکھا کیونکہ زمین کے کیڑوں میں سے ہی یہ بیماری پیدا ہوتی ہے اسی لئے پہلے چوہوں پر اس کا اثر ہوتا ہے اور مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ انسان کو ۔ ایسا ہی ہر ایک جانور کو یہ بیماری ہو سکتی ہے اسی لئے کشفی عالم میں اس کی مختلف شکلیں نظر آئیں اور اس بیان پر کہ دآبّۃ الارض درحقیقت مادہ طاعون کا نام ہے جس سے طاعون پیدا ہوتی ہے مفصّلہ ذیل قرائن اور دلائل ہیں۔
(۱) اول یہ کہ دآبّۃ الارض کے ساتھ عذاب کا ذکر کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ اَخْرَجْنَا لَھُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْاَرْضِ یعنی جب ان پر آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ حجت پوری ہو جائے گی تب دآبّۃ الارض زمین میں سے نکالا جائے گا ۔ اب ظاہر ہے کہ دآبّۃ الارض عذاب کے موقع پر زمین سے نکالا جائے گا نہ یہ کہ یوں ہی بیہودہ طور پر ظاہر ہو گا جس کا نہ کچھ نفع نہ نقصان اور اگر کہو کہ طاعون تو ایک مرض ہے مگر دآبّۃ الارض لغوی معنوں کے رو سے ایک کیڑا ہونا چاہئے جو زمین میں سے نکلے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حال کی تحقیقات سے یہی ثابت ہوا ہے کہ طاعون کو پیدا کرنے والا وہی ایک کیڑا ہے جو زمین میں سے نکلتا ہے بلکہ ٹیکا لگانے کے لئے وہی کیڑے جمع کئے جاتے ہیں اور ان کا عرق نکالا جاتا ہے اور خوردبین سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی شکل یوں ہے(۰۰)یعنی بہ شکل دو نقطہ ۔ گویا آسمان پر بھی نشان کسوف خسوف دو کے رنگ میں ظاہر ہوا اور ایسا ہی زمین میں۔
(۲) دوسرا قرینہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض کی تفسیر ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن شریف میں جہاں کہیں یہ مرکّب لفظ آیا ہے اس سے مراد کیڑا لیا گیا ہے مثلاً یہ آیت فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ المَوْتَ مَادَلَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہ اِلاَّ دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہٗ یعنی ہم نے سلیمان پر جب موت کا حکم جاری کیا تو جِنّات کو کسی نے ان کے مرنے کا پتہ نہ دیا۔ مگر گھن کے کیڑے نے کہ جو سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا۔ سورۃ السباء الجزو نمبر ۲۲ ۔ اب دیکھو اس جگہ بھی ایک کیڑے کا نام دآبّۃ الارض رکھا گیا۔ بس اس سے زیادہ دآبّۃ الارض کے اصلی معنوں کی دریافت کے لئے اور کیا شہادت ہو گی کہ خود قرآن شریف نے اپنے دوسرے مقام میں دآبّۃ الارض کے معنے کیڑا کیا ہے۔ سو قرآن کے برخلاف اس کے معنی کرنا یہی تحریف اور الحاد اور دجل ہے۔
(۳) تیسرا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے نشانوں کی تکذیب کے وقت میں کوئی امام الوقت موجود ہونا چاہئے کیونکہ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ کا فقرہ یہی ہے کہ اتمام حجت کے بعد یہ عذاب ہو اور یہ تو متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خروج دآبّۃ الارض آخری زمانہ میں ہو گا جبکہ مسیح موعود ظاہر ہو گا تا کہ خدا کی حجت دنیا پر پوری کرے۔ پس ایک منصف کو یہ بات جلد تر سمجھ آسکتی ہے کہ جبکہ ایک شخص موجود ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور آسمان اور زمین میں بہت سے نشان اس کے ظاہر ہو چکے ہیں تو اب بلاشبہ دآبّۃ الارض یہی طاعون ہے جس کا مسیح کے زمانہ میں ظاہر ہونا ضروری تھا اور چونکہ یاجوج ماجوج موجود ہے اور مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ کی پیشگوئی تمام دنیا میں پوری ہو رہی ہے اور دجّالی فتنے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں اور پیشگوئی یترکن القلاص فلا یسعی علیھا بھی بخوبی ظاہر ہو چکی ہے۔ اور شراب اور زنا اور جھوٹ کی بھی کثرت ہو گئی ہے اور مسلمانوں میں یہودیت کی فطرت بھی جوش مار رہی ہے تو صرف ایک بات باقی تھی جو دآبّۃ الارض زمین میں سے نکلے سو وہ بھی نکل آیا۔ اس بات پر جھگڑنا جہالت ہے کہ حدیث سے معلو م ہوتا ہے کہ فلاں جگہ پھٹے گی اور دآبّۃ الارض وہاں سے سر نکالے گا پھر تمام دنیا میں چکر مارے گا کیونکہ اکثر پیشگوئیوں پر استعارات کا رنگ غالب ہوتا ہے جب ایک بات کی حقیقت کھل جائے تو ایسے اوہامِ باطلہ کے ساتھ حقیقت کو چھوڑنا کمال جہالت ہے اسی عادت سے بدبخت یہودی قبول حق سے محروم رہ گئے۔ ‘‘(نزول المسیح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۱۵ تا ۴۱۸)
دجّال
آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دجّال کا خروج ہو گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺنے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ما من نبی الا قد انذر امتہ الاعور الکذاب الا انہ اعور و ان ربکم لیس باعور، مکتوب بین عینیہ ک ف ر وفی روایۃ وانہ یجیء معہ بمثل الجنۃ والنار فالتی یقول انھا الجنۃ ھی النار وفی روایۃ ان الدجال یخرج وان معہ ماء ونارا فاما الذی یراہ الناس ماء فنار تحرق واما الذی یراہ الناس نار فماء بارد وعذب وان الدجال ممسوح العین علیہا ظفرۃ غلیظۃ مکتوب بین عینیہ کافر یقراہ کل مومن کاتب وغیر کاتب وفی روایۃ ان الدجال اعورالعین الیمنی فمن ادرکہ منکم فلیقرا علیہ فواتح سورۃ الکھف فانھا جوارکم من فتنہ ۔وفی روایۃ ویامر السماء فتمطر ویامر الارض فتنبت ویمر بالجدبۃ فیقول لھا اخرجی کنوزک فتتبعہ کنوزھا وفی روایۃ یقول الدجال ارایتم ان قتلت ھذا ثم احییتہ ھل تشکون فی الامر فیقولون لا فیقتلہ ثم یحییہ وفی روایہ ان معہ جبل خبز ونھر ماء وفی روایۃ یخرج الدجال علی حمار اقمر ما بین اذنیہ سبعون باعاً۔ (مشکوۃ کتاب الفتن۔باب العلامات بین یدی السّاعۃ و ذکر الدجّال۔مطبوعہ دینی کتب خانہ لاہور)
یعنی ’’ کوئی نبی نہیں گذرا۔ جس نے اپنی امّت کویک چشم کذّاب سے نہ ڈرایا ہو۔ خبر دار ۔ ہوشیار ہو کر سن لو کہ وہ یک چشم ہے۔ مگر تمہارا ربّ یک چشم نہیں۔ اس کی آنکھوں کے درمیان ک ۔ ف ۔ ر ۔ لکھا ہوگا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے ساتھ مثل جنّت اور نار کے لائے گا ۔ مگر جسے وہ جنّت کہے گا وہ دراصل نار ہو گی اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال خروج کرے گا اور اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوں گے مگر وہ جو لوگوں کو پانی نظر آئے گا دراصل جلانے والی آگ ہو گی اور وہ جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا اور میٹھا پانی ہو گا اور دجّال کی ایک آنکھ بیٹھی ہوئی ہو گی اور اس پر ایک بڑا ناخنہ سا ہو گا اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہو گا جسے ہر مومن پڑھے گا خواہ وہ لکھا پڑھا ہو یا نہ ہو اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا ۔ پس جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اس پر سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ کیونکہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات اس کے فتنے سے تم کو بچانے والی ہوں گی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال آسمان کو حکم دے گا کہ پانی برسا تو وہ برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا کہُ اگا تو وہ اُگائے گی۔ اور وہ ویرانے پر گذرے گا۔ اور اسے حکم دے گا اپنے خزانے باہر نکال تو اس کے خزانے باہر نکل کر اس کے پیچھے ہو لیں گے اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو اگر میں اس شخص کو قتل کر دوں اور پھر زندہ کر دوں۔ تو کیا تم میرے امر میں شک کرو گے لوگ کہیں گے نہیں پھر وہ اسے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک پہاڑ روٹیوں کا ہو گا اور نہر پانی کی ہو گی اور ایک روایت میں ہے کہ دجّال ایک سفید گدھے پر ظاہر ہو گا اور وہ گدھا ایسا ہو گا کہ اس کے دو کانوں کے درمیان ستّر گز کا فاصلہ ہو گا۔‘‘
یہ دجّال کی کیفیت ہے جو مشکٰوۃ کی مختلف روائیتوں سے بطور اختصار کے جمع کی گئی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دجّال ظاہر ہو گیا ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے ہمیں دجّال کے لفظ پر غور کرنا چاہئے کہ عربی زبان میں اس کے کیا معنی ہیں ۔سو جاننا چاہئے کہ عربی زبان میں دجّال کا لفظ چھ مفہوم پر مشتمل ہے۔
اوّل دجّال کے معنے کذّاب یعنے سخت جھوٹے کے ہیں۔
دوسرے ۔ دجّال کے معنے ڈھانپ لینے والے کے ہیں کیونکہ عربی میں کہتے ہیں دجل البعیر یعنی اس نے اونٹ کے جسم پرھناء کو مل دیا ایسے طور پر کہ کوئی جگہ خالی نہ رہی۔ چنانچہ تاج العروس میں لکھا ہے کہ دجّال اسی سے نکلا ہے لانہ یعم الارض کما ان الھناء یعم الجسد کیونکہ وہ زمین کو ڈھانپ لے گا جس طرح ھناء سارے بدن کو ڈھانک لیتی ہے۔
تیسرے ۔ دجّال کے معنی زمین میں سیرو سیاحت کرنے والے ہیں چنانچہ کہتے ہیں دجل الرجل اذا قطع نواحی الارض سیراً یعنی دجل الرّجل اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی نے تمام روئے زمین کو اپنی سیرو سیاحت سے قطع کر لیا ہو۔
چوتھے۔ دجّال کے معنے بڑے مالدار اور خزانوں والے کے ہیں کیونکہ دجّال سونے کو کہتے ہیں۔
پانچویں۔ دجّال ایک بڑے گروہ کو کہتے ہیں التی تغطی الارض بکثرۃ اھلہا جو اپنے اہل کی کثرت سے روئے زمین کو ڈھانک لے۔
چھٹے ۔ دجّال اس گروہ کو کہتے ہیں التی تحمل المتاع التجارۃ جو تجارت کے اموال اٹھائے پھرے۔ یہ تمام معنی لغت کی نہایت مستند اور مشہور اور مبسوط کتاب تاج العروس میں بیان ہوئے ہیں پس ان معنوں کے لحاظ سے دجّال کے معنے ہوئے۔
’’ ایک کثیر التعداد جماعت جو تاجر پیشہ ہو۔ اور اپنا تجارتی سامان دنیا میں اٹھائے پھرے اور جو نہایت مالدار اور خزانوں والی ہو اور جو تمام دنیا کو اپنی سیرو سیاحت سے قطع کر رہی ہو اور ہر جگہ پہنچی ہوئی ہو اور گویا کوئی جگہ اس سے خالی نہ رہی ہو اور وہ مذہب کے لحاظ سے ایک نہایت ’’ جھوٹے عقیدہ پر قائم ہو ‘‘ ۔
اب اس کیفیت کے ساتھ اس کیفیت کو ملائیں جو حدیث نبویؐ میں بیان ہوئی ہے اور جس کا خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے تو فوراً بلا تامّل طبیعت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ دجّال سے مغربی ممالک کی مسیحی اقوام مراد ہیں جو اس زمانہ میں تمام روئے زمین پر چھا رہی ہیں اور جن میں تمام مذکورہ بالا حالات پائے جاتے ہیں ۔ان کا یک چشم ہونا ان کی مادیت ہے جس نے ان کے دین کی آنکھ کو بند کر رکھا ہے ہاں دنیا کی آنکھ خوب کھلی اور روشن ہے ان کی آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہونے سے ان کا بد یہی البطلان ،الوہیتِ مسیحؑ کا عقیدہ مراد ہے جسے ہر سچاّمومن ،خواہ خواندہ ہو یا نا خواندہ پڑھ سکتا ہے اور ان کا زمین وآسمان میں تصرّفات کرنا اور خزانے نکالنا اور اماتت واحیا کرنا وغیرہ ظاہر ہے کہ ان کے علوم جدیدہ سائنس وغیرہ کی طاقتوں کی طرف مجازی طور پر اشارہ ہے ورنہ از روئے حقیقت تو یہ امور سب اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور ان کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا کفر ہے اور دجّال کے ساتھ جنّت ودوزخ کا ہونا یہ ہے کہ جو شخص ان کے ساتھ ہو جاتا ہے ان کی بات مانتا ہے اور ان کے مذہب کو اختیار کرتا ہے وہ ظاہراً ایک جنّت میں داخل ہو جاتا ہے گو دراصل وہ دوزخ ہے اور جو ان کے بد خیالات سے الگ رہتا ہے اس کو ظاہراً ایک دوزخ برداشت کرنا پڑتا ہے گو دراصل وہ دوزخ جنتّ ہے ۔اور ان کے ساتھ روٹیوں کے پہاڑ اور پانی کی نہر تو ایک بیّن بات ہے جس کی تشریح کی ضرورت نہیں ۔اور دجّال کے گدھے سے جس کا طول ستر گز ہے ظاہری گدھا مراد نہیں بلکہ اس سے ریل مراد ہے جو ان لوگوں کی ایجاد کردہ ہے۔ اب دیکھیں کہ کس طرح یہ تمام باتیں ان میں پائی جاتی ہیں اور یہ جو کہا گیا کہ دجّال آخری زمانہ میں خروج کرے گا تو اس سے یہ مراد ہے کہ گو وہ پہلے سے موجود ہو گا جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے مگر پہلے وہ اپنے وطن میں گویا محصور ہو گا لیکن قیامت کے قریب وہ زور کے ساتھ باہر نکلے گا اور تمام روئے زمین پر چھا جائے گا ۔سو بعینہ اسی طرح ہوا کہ مغربی قومیں پہلے اپنے وطن میں سوئی پڑی تھیں۔ مگر اب بیدار ہو کر تمام روئے زمین پر چھا گئی ہیں۔
یہ کہنا کہ دجّال کو تو آنحضرت ﷺ نے ایک آدمی کی شکل میں دیکھا تھا۔ پس وہ ایک جماعت کی صورت میں کس طرح مانا جا سکتا ہے ایک باطل شبہ ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺنے یہ نظارے بصورتِ کشف اور خواب دیکھے تھے جیسا کہ مثلاً حدیث بخاری ( کتاب الفتن۔باب ذکر الدّجّال) کے بعض الفاظ یعنی بینما انا نائم اطوف بالکعبۃ یعنی ’’ میں نے خواب میں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا‘‘ کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔اور ظاہر ہے کہ خواب عموماً تاویل طلب ہوتی ہے اور اس میں کئی دفعہ ایک فرد دکھایا جاتا ہے مگر مراد ایک جماعت ہوتی ہے مثلاً سورہ یوسف میں آتا ہے کہ عزیزِ مصرنے سات سالہ قحط کے متعلق سات دبلی گائیں دیکھیں۔ جس کی تعبیر یہ تھی جیسا کہ حضرت یوسف نے خود بیان کیا ہے کہ ایک گائے ایک سال کے تمام مویشیوں بلکہ تمام جانداروں کے قائم مقام ہے اور اس کا دبلا ہونا قحط کو ظاہر کرتا ہے اور سات دبلی گائیوں کا ہونا سات سالہ قحط کو ظاہر کرتا ہے ۔ گویا ایک گائے تمام مویشیوں کے قائم مقام ہو کر دکھائی گئی اسی طرح آنحضرت ﷺکو دجّال کا نظارہ ایک آدمی کی شکل میں دکھایا گیا ۔ ہمارے اس دعویٰ کے دلائل یہ ہیں۔
(۱) لغت میں دجّال ایک بڑی جماعت کو کہتے ہیں۔ پس وہ ایک فرد نہیں ہو سکتا۔
(۲) جو فتنے دجّال کی طرف منسوب کئے گئے ہیں اور جو طاقتیں اس کے اندر بیان کی گئی ہیں ان کا ایک فردِ واحد میں پایا جانا محالاتِ عقلی سے ہے۔
(۳) دجّال کی کیفیت جن الفاظ میں بیان کی گئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشگوئی میں مجاز اور استعارہ کا دخل ہے ورنہ نعوذ باللہ دجّال میں بعض خدائی طاقتیں ماننی پڑتی ہیں۔
(۴) دجّال کی تمام کیفیات عملًا عیسائی اقوام میں پائی جاتی ہیں۔
(۵) دجّال کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ بتایا گیا ہے ۔اور ادھر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی اقوام کے مادیّت اور فلسفہ نے جو فتنہ آجکل برپا کر رکھا ہے ایسا فتنہ دین وایمان کے لئے نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ آیندہ خیال میں آسکتا ہے اور سورہ فاتحہ سے بھی سب سے بڑا فتنہ عیسائیت کا فتنہ ثابت ہوتا ہے۔
(۶) آنحضرت ﷺنے ابنِ صیّاد کے متعلق جو ایک یہودی لڑکا تھا اور بعد میں مسلمان ہو گیا۔ دجّال ہونے کا شبہ کیا ۔ بلکہ حضرت عمرؓ نے آپ ؐ کے سامنے اس بات پر قسم کھائی کہ یہی’ الدّجال‘ ہے اور آپ نے اس کی تردید نہیں فرمائی (ملاحظہ ہو مشکٰوۃ باب قصّہ ابنِ صیّاد) حالانکہ ابنِ صیّاد میں دجّال کی علامات ماثورہ میں سے اکثر بالکل مفقود تھیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام اس پیشگوئی کو مجازی رنگ میں سمجھتے تھے اور تمام علامات کا ظاہر میں جسمانی طور پر پایا جانا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے۔
(۷) آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ دجّال کے فتنے سے بچنے کے لئے سورہ کہف کی ابتدائی آیات مطالعہ کرنی چاہئیں۔ اب سورہ مذکور کی ابتدائی آیات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں سوائے نصارٰی کے باطل خیالات کے ردّ کے اور کوئی مضمون نہیں پاتے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَہٗ عِوَجاًO قَیِّماً لِّیُنْذِرَ بَاْساً شَدِیْداً مِّنْ لَّدُنْہُ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْراً حَسَناً O مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَداً O وَیُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَداً O مَالَھُمْ بَہ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِٰابَآئِ ھِمْ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُولُوْنَ اِلاَّ کَذِباً O فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفاً O اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً O وَاِنَّا لَجَاعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْدًا جُرُزاً O( الکہف ۔ آیات ۲ تا ۹) یعنی خدا نے اپنے رسول پر ایک کتاب نازل فرمائی ہے یہ کتاب اس قوم کو ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اتری ہے جو خدا کا بیٹا مانتے ہیں یہ بہت بڑے فتنہ کی بات اور جھوٹ ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اب اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہو گا کہ دجّال سے مراد یہی مسیحی اقوام ہیں۔ جنہوں نے اس زمانہ میں غیر معمولی زور پکڑا ہے اور ساری دنیا پر چھا گئی ہیں اور اس کی دیگر علامات ، ان کی مادیّت اور فلسفہ اور باطل عقائد ہیں جس کی آنکھیں ہوں دیکھے۔
(۸) مسلم کی ایک حدیث میں لکھا ہے کہ تمیم داری نے دجّال کو گرجے میں بندھا ہوا دیکھا تھا (یعنی بحالتِ کشف یا رؤیا) اور اس نے آنحضرت ﷺ سے یہ خبر بیان کی تھی اور پھر آپ ؐ نے یہ خبر لوگوں کو سنوائی تھی۔ پس دیکھ لیں کہ گرجے سے نکلنے والا کون ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو معنے دجال، دآبّۃالارض اور خرِ دجّال کے کئے ہیں وہی آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی حقانیت کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ انہی معنوں میں یہ پیشگوئیاں اپنی پوری تفصیل کے ساتھ پوری ہو چکی ہیں اور ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کو ثابت کر چکی ہیں۔
الغرض راشد علی اور اس کے پیر کا اعتراض بغض اور جھوٹ پر مبنی ہے۔