خلافت علی منہاج النبوت والی حدیث قادیانیوں کی پسندیدہ ترین حدیثوں میں سے ایک ہے جسے وہ موقع بے موقع اپنی خود ساختہ نبوت اور خلافت کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں پیش کرتے رہتے ہیں۔
آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1309 مکررات 0 متفق علیہ 0
حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے( جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے کاتب تھے، نیز ان سے حضرت قتادہ ؓ وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں) بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور حکومت قائم کی تو میں نے اس حدیث کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔ وہ یعنی عمر بن عبدالعزیز اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اس تشریح نے ان کو بہت مسرور کیا۔ اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
منہاج کا مطلب ہے راستہ اور ثم تکون خلافتہ علی منہاج النبوتہ کا مطلب ہے پھر ہو گی خلافت نبوت کے راستے پر ۔ یعنی یہ خلافت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ، طریقے اور آپ کے قائم کردہ اصولوں پر ہوگی ۔ اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تا قیامت کے لئے ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا راستہ ، طریقہ اور اصول بھی تا قیامت قائم رہے گا۔
پھر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مختلف ادوار کا ذکر فرما رہے ہیں کہ نبوت ہو گی پھر خلافت علی منہاج نبوت ہو گی پھر ظالمانہ حکومت پھر جابرانہ حکومت اور پھر خلافت علی منہاج نبوت۔
اگر دوسری بار بھی خلافت کسی جدید نبی کے آنے کے بعد قائم ہونا ہوتی تو آپ ضرور اس کا ذکر کرتے اسے محذوف کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس سے یہی تھی کہ جس طرح پہلی دفعہ خلافت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوئی اسی طرح دوسری بار بھی اسی طریقے اور اصول پر خلافت قائم ہو گی ۔
آپ اس پر بھی دوبارہ غور فرما لیں کہ اس حدیث میں جو اول بار نبوت کا ذکر ہے وہی ایک ہی نبوت ہے اس کے بعد دو حکومتوں کے بعد جو خلافت علی منہاج نبوت قائم ہونی ہے وہ اسی پہلی نبوت کے طریق پر ہی قائم ہو گی اس سے پہلے کوئی جدید نبی نہیں آئے گا ۔ اگر جدید نبی آئے گا تو، طریق بھی تبدیل ہو جائے گا ۔ منہاج کی اضافت نبوت کی طرف ہے جو تخصیص کا فائدہ دے رہی ہے یعنی یہ خاص طریق،طریق محمدی ہے اور اس خصوصیت کے بعد طریق بدل نہیں سکتا اگر جدید نبی آئے گا تو پچھلا طریق باطل ہو جائے گا۔
یہاں یہ نکتہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ اس حدیث کے راوی حبیب اور قادیانیوں کے نزدیک مجدد صدی اول حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے مطابق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے ۔
اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے قبل کوئی جدید نبی بھی نہیں آیا تھا بلکہ ان کی خلافت علی منہاج نبوت کی بنیاد نبیﷺ کی نبوت ہی تھی ۔
لہذا قادیانی نبوت و خلافت کا سارا استدلال باطل ٹھرا ۔
آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔
عن النعمان بن بشير عن حذيفة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا عاضا فتكون ما شاء الله أن تكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون ملكا جبرية فيكون ما شاء الله أن يكون ثم يرفعها الله تعالى ثم تكون خلافة على منهاج نبوة ثم سكت قال حبيب فلما قام عمر بن عبد العزيز كتبت إليه بهذا الحديث أذكره إياه وقلت أرجو أن تكون أمير المؤمنين بعد الملك العاض والجبرية فسر به وأعجبه يعني عمر بن عبد العزيز . رواه أحمد والبيهقي في دلائل النبوة .
مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 1309 مکررات 0 متفق علیہ 0
حضرت نعمان بن بشیر حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ نبی کو اپنے پاس بلا لینے کے ذریعہ نبوت کو اٹھا لے گا اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ (یعنی تیس سال تک) پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی وہ بادشاہت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کی حکومت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اتنا فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔ حضرت حبیب بن سالم نے( جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں اور حضرت نعمان بن بشیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے کاتب تھے، نیز ان سے حضرت قتادہ ؓ وغیرہ روایتیں نقل کرتے ہیں) بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مقرر ہوئے اور حکومت قائم کی تو میں نے اس حدیث کی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے یہ حدیث لکھ کر ان کے پاس بھیجی اور اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ مجھ کو امید ہے کہ آپ وہی امیرالمومنین یعنی خلیفہ ہیں جس کا ذکر اس حدیث میں کاٹ کھانے والی بادشاہت اور قہر وتکبر اور زور زبردستی والی بادشاہت کے بعد آیا ہے۔ وہ یعنی عمر بن عبدالعزیز اس بات سے بہت خوش ہوئے اور اس تشریح نے ان کو بہت مسرور کیا۔ اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
منہاج کا مطلب ہے راستہ اور ثم تکون خلافتہ علی منہاج النبوتہ کا مطلب ہے پھر ہو گی خلافت نبوت کے راستے پر ۔ یعنی یہ خلافت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے ، طریقے اور آپ کے قائم کردہ اصولوں پر ہوگی ۔ اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تا قیامت کے لئے ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا راستہ ، طریقہ اور اصول بھی تا قیامت قائم رہے گا۔
پھر یہ بھی غور طلب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مختلف ادوار کا ذکر فرما رہے ہیں کہ نبوت ہو گی پھر خلافت علی منہاج نبوت ہو گی پھر ظالمانہ حکومت پھر جابرانہ حکومت اور پھر خلافت علی منہاج نبوت۔
اگر دوسری بار بھی خلافت کسی جدید نبی کے آنے کے بعد قائم ہونا ہوتی تو آپ ضرور اس کا ذکر کرتے اسے محذوف کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اس سے یہی تھی کہ جس طرح پہلی دفعہ خلافت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہوئی اسی طرح دوسری بار بھی اسی طریقے اور اصول پر خلافت قائم ہو گی ۔
آپ اس پر بھی دوبارہ غور فرما لیں کہ اس حدیث میں جو اول بار نبوت کا ذکر ہے وہی ایک ہی نبوت ہے اس کے بعد دو حکومتوں کے بعد جو خلافت علی منہاج نبوت قائم ہونی ہے وہ اسی پہلی نبوت کے طریق پر ہی قائم ہو گی اس سے پہلے کوئی جدید نبی نہیں آئے گا ۔ اگر جدید نبی آئے گا تو، طریق بھی تبدیل ہو جائے گا ۔ منہاج کی اضافت نبوت کی طرف ہے جو تخصیص کا فائدہ دے رہی ہے یعنی یہ خاص طریق،طریق محمدی ہے اور اس خصوصیت کے بعد طریق بدل نہیں سکتا اگر جدید نبی آئے گا تو پچھلا طریق باطل ہو جائے گا۔
یہاں یہ نکتہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ اس حدیث کے راوی حبیب اور قادیانیوں کے نزدیک مجدد صدی اول حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے مطابق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے ۔
اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے قبل کوئی جدید نبی بھی نہیں آیا تھا بلکہ ان کی خلافت علی منہاج نبوت کی بنیاد نبیﷺ کی نبوت ہی تھی ۔
لہذا قادیانی نبوت و خلافت کا سارا استدلال باطل ٹھرا ۔
مدیر کی آخری تدوین
: