ترقی کے راز کھلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
داغ کذب تاویل کے ماء سے
ایسے کیسے دھلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
چپے کے بھی حاکم نہ ہیں
یہ چھوٹے موٹے شاتم نہ ہیں
یہود کی گود مین پلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
چندے مانگتے بھکاری ہیں یہ
دوہرے منہ کی آری ہیں یہ
معیار خلافت بدلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
پیسے کی آگ سینکتے ہیں یہ
اسی آگ کو بیچتے ہیں یہ
دجال سے ملنے جلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
ماں کا بیوی سا منصب ہے
بیٹی بھی بستر کی زینت ہے
حوس کی آگ میں جلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
جھوٹ پہ بنی عمارت کو تو
گرنا ہی ہے وعدہ ہے یہ
ستون اس کے ہلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
شیطاں نے تھا اٹھایا ان کو
پھر مہر علی نے جھکایا ان کو
اب گھٹنوں کے بل چلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
مرزے سے ملی خجالت کو
اس کے جھوٹون کی کالک کو
اپنے منہ پہ ملنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
جدا ہو مومن کی راہ سے
جس راہ چلنا ہے اس راہ پہ
قرآن کے منکر چلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء رسول
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
داغ کذب تاویل کے ماء سے
ایسے کیسے دھلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
چپے کے بھی حاکم نہ ہیں
یہ چھوٹے موٹے شاتم نہ ہیں
یہود کی گود مین پلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
چندے مانگتے بھکاری ہیں یہ
دوہرے منہ کی آری ہیں یہ
معیار خلافت بدلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
پیسے کی آگ سینکتے ہیں یہ
اسی آگ کو بیچتے ہیں یہ
دجال سے ملنے جلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
ماں کا بیوی سا منصب ہے
بیٹی بھی بستر کی زینت ہے
حوس کی آگ میں جلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
جھوٹ پہ بنی عمارت کو تو
گرنا ہی ہے وعدہ ہے یہ
ستون اس کے ہلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
شیطاں نے تھا اٹھایا ان کو
پھر مہر علی نے جھکایا ان کو
اب گھٹنوں کے بل چلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
مرزے سے ملی خجالت کو
اس کے جھوٹون کی کالک کو
اپنے منہ پہ ملنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
جدا ہو مومن کی راہ سے
جس راہ چلنا ہے اس راہ پہ
قرآن کے منکر چلنے لگے ہیں
خلیفے در در رلنے لگے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیاء رسول